Powered By Blogger

بدھ, اپریل 13, 2022

آپ زکوۃ کس طرح ادا کریں

آپ زکوۃ کس طرح ادا کریں 

 وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَیُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ، یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ، (التوبہ:۳۴-۳۵)
آمَنْتُ بِاللّٰہِ، صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلاَنَا الْعَظِیْمُ، وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَنَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ وَالشَّاکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

تمہید

بزرگانِ محترم اور برادرانِ عزیز! عام طور پر لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، لہٰذا اس اجتماع کامقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ کی اہمیت، اس کے فضائل اور اس کے ضروری احکام اس اجتماع کے ذریعہ ہمارے علم میں آجائیں تاکہ اس کے مطابق زکوٰۃ نکالنے کا اہتمام کریں۔

زکوٰۃ نہ نکالنے پر وعید

اس مقصد کے لیے قرآن کریم کی دو آیتیں تلاوت کی ہیں، ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے، ان کے لیے بڑے سخت الفاظ میں عذاب کی خبر دی ہے، ل چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو (اے نبی ﷺ) آپ ان کو ایک دردناک عذاب کی خبر دیدیجیے،
یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور ان کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اس کو ادا نہیں کرتے، ان کو یہ خوش خبری سنادیجئے کہ ایک دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے۔
پھر دوسری آیت میں اس دردناک عذاب کی تفصیل بیان فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اس دن ہوگا جس دن اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اس آدمی کی پیشانی، اس کے پہلو اور اس کی پشت کو داغا جائے گا اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ: ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لیے جمع کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس انجام سے محفوظ رکھے آمین۔
یہ ان لوگوں کا انجام بیان فرمایا جو روپیہ پیسہ جمع کر رہے ہیں لیکن اس پر اللہ تعالیٰ نے جو فرائض عائد کیے ہیں ان کو ٹھیک ٹھیک بجانہیں لاتے، صرف ان آیات میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں، چنانچہ سورۃ ’’ہمزہ‘‘ میں فرمایا:
وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِO نِالَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗO یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗO کَلاَلَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِO وَمَآاَدْرٰکَ مَالْحُطَمَۃِO نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِO
(سورۃ ہمزہ: ۱تا۷)
یعنی اس شخص کے لیے دردناک عذاب ہے جو عیب نکالنے والا ہے اور طعنہ دینے والا ہے، جو مال جمع کر رہا ہے اور گن گن کر رکھ رہا ہے (ہرروز گنتا ہے کہ آج میرے مال میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے اور اس کی گنتی کرکے خوش ہورہاہے) اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال مجھے ہمیشہ کی زندگی عطا کردے گا، ہرگز نہیں، (یاد رکھو! یہ مال جس کو وہ گن گن کر رکھ رہا ہے اور اس پر جو واجبات ہیں ان کو ادا نہیں کر رہا ہے، اس کی وجہ سے) اس کو روندنے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا، تمھیں کیا پتہ کہ ’’حطمہ‘‘ کیا چیز ہوتی ہے؟ (یہ حطمہ جس میں اس کو ڈالا جائے گا) یہ ایسی آگ ہے جو اللہ کی سلگائی ہوئی ہے، (یہ کسی انسان کی سلگائی ہوئی آگ نہیں ہے جو پانی سے بجھ جائے یا مٹی سے بجھ جائے یا جس کو فائر بریگیڈ بجھادے، بلکہ یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے) جو انسان کے قلب و جگر تک جھانکتی ہوگی (یعنی انسان کے قلب و جگر تک پہنچ جائے گی) اتنی شدید وعید اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔

یہ مال کہاں سے آرہاہے

زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ایسی شدید وعید کیوں بیان فرمائی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ مال تم اس دنیا میں حاصل کرتے ہو، چاہے تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے ملازمت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے کاشت کاری کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، یا کسی اور ذریعہ سے حاصل کرتے ہو، ذرا غور کرو کہ وہ مال کہاں سے آرہا ہے؟ کیا تمہارے اندر طاقت تھی کہ تم اپنے زور بازو سے وہ مال جمع کرسکتے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا حکیمانہ نظام ہے، وہ اپنے اس نظام کے ذریعہ تمھیں رزق پہنچا رہا ہے۔

گاہک کون بھیج رہا ہے؟

تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے مال جمع کرلیا اور دکان کھول کر بیٹھ گیا اور اس مال کو فروخت کردیا تو اس کے نتیجے میں مجھے پیسہ مل گیا، یہ نہ دیکھا کہ جب دکان کھول کر بیٹھ گئے تو تمھارے پاس گاہک کس نے بھیجا؟ اگر تم دکان کھول کر بیٹھے ہوتے اور کوئی گاہک نہ آتا تو اس وقت کوئی بِکری ہوتی؟ کوئی آمدنی ہوتی؟ یہ کون ہے جو تمھارے پاس گاہک بھیج رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ ایک دوسرے کی حاجتیں، ایک دوسرے کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ذریعہ پوری کی جاتی ہیں، ایک شخص کے دل میں ڈال دیا کہ تم جاکر دکان کھول کر بیٹھو، اور دوسرے کے دل میں یہ ڈال دیا کہ اس دکان والے سے خریدو۔

ایک سبق آموز واقعہ

میرے ایک بڑے بھائی تھے جناب محمد ذکی کیفی رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین، لاہور میں ان کی دینی کتابوں کی ایک دکان ’’ادارۂ اسلامیات‘‘ کے نام سے تھی، اب بھی وہ دکان موجود ہے، وہ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ تجارت میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور قدرت کے عجیب کرشمے دکھلاتا ہے، ایک دن میں صبح بیدار ہوا تو پورے شہر میں موسلا دھار بارش ہورہی تھی اور بازاروں میں کئی کئی انچ پانی کھڑا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ آج بارش کا دن ہے لوگ گھر سے نکلتے ہوئے ڈر رہے ہیں ، سڑکوں پر پانی کھڑا ہے، ایسے حالات میں کون کتاب خریدنے آئے گا اور کتاب بھی کوئی دنیاوی یا کورس اور نصاب کی نہیں بلکہ دینی کتاب جس کے بارے میں ہمارا حال یہ ہے کہ جب دنیا کی ساری ضرورتیں پوری ہوجائیں تب جاکر یہ خیال آتا ہے کہ چلو کوئی دینی کتاب خرید کر پڑھ لیں، ان کتابوں سے نہ تو بھوک مٹتی ہے نہ پیاس بجھتی ہے نہ اس سے دنیا کی کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے، اور آج کل کے حساب سے دینی کتاب ایک فالتو مد ہے، خیال یہ ہوتا ہے کہ فالتو وقت ملے گا تو دینی کتاب پڑھ لیں گے، تو ایسی موسلا دھار بارش میں کون دینی کتاب خریدنے آئے گا، لہٰذا آج دکان پر نہ جاؤں اور چھٹی کرلیتا ہوں، لیکن چونکہ بزرگوں کے صحبت یافتہ تھے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اٹھائی تھی، فرمانے لگے کہ اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں دوسرا خیال یہ آیا کہ ٹھیک ہے کوئی شخص کتاب خریدنے آئے یانہ آئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے لئے رزق کا یہ ذریعہ مقرر فرمایا ہے، اب میرا کام یہ ہے کہ میں جاؤں، جاکر دکان کھول کر بیٹھ جاؤں، گاہک بھیجنا میرا کام نہیں، کسی اور کا کام ہے، لہٰذا مجھے اپنے کام میں کوتاہی نہ کرنی چاہئے چاہے بارش ہورہی ہویا سیلاب آرہا ہو، مجھے اپنی دکان کھولنی چاہیے، چنانچہ یہ سوچ کر میں نے چھتری اٹھائی اور پانی سے گزرتاہوا چلا گیااور بازار جاکر دکان کھول کر بیٹھ گیا اور یہ سوچا کہ آج کوئی گاہک تو آئے گا نہیں، چلو بیٹھ کر تلاوت ہی کرلیں، چنانچہ ابھی میں قرآن شریف کھول کر تلاوت کرنے بیٹھا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ برساتیاں ڈال کر اور چھتریاں تان کر کتابیں خریدنے آرہے ہیں، میں حیران تھا کہ ان لوگوں کو ایسی کونسی ضرورت پیش آگئی ہے کہ اس طوفانی بارش میں اور بہتے ہوئے سیلاب میں میرے پاس آکر ایسی کتابیں خرید رہے ہیں جن کی کوئی فوری ضرورت نہیں، لیکن لوگ آئے اور جتنی بِکری روزانہ ہوتی تھی اس دن بھی اتنی ہی بِکری ہوئی، اس وقت دل میں یہ بات آئی کہ یہ گاہک خود نہیں آرہے ہیں، حقیقت میں کوئی اور بھیج رہا ہے، اور یہ اس لیے بھیج رہا ہے کہ اس نے میرے لیے رزق کا سامان ان گاہکوں کو بنایا ہے۔

کاموں کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے

بہرحال، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا بنایا ہوا نظام ہے جو تمہارے پاس گاہک بھیج رہا ہے، جو گاہک کے دل میں ڈال رہا ہے کہ تم اس دکان سے جاکر سامان خریدو، کیا کسی شخص نے یہ کانفرنس بلائی تھی اور اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا کہ اتنے لوگ کپڑا فروخت کریں گے، اتنے لوگ جوتے فروخت کریں گے، اتنے لوگ چاول فروخت کریں گے، اتنے لوگ برتن فروخت کریں گے، اور اس طرح لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں گی، دنیا میں ایسی کوئی کانفرنس آج تک نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے دل میں یہ ڈالا کہ تم کپڑا فروخت کرو، کسی کے دل میں ڈالا کہ تم جوتے فروخت کرو،کسی کے دل میں ڈالا کہ تم روٹی فروخت کرو،کسی کے دل میں یہ ڈالا کہ تم گوشت فروخت کرو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے جو بازار میں نہ ملتی ہو، دوسری طرف خریداروں کے دل میں یہ ڈالا کہ تم جاکر ان سے ضروریات خریدو اور ان کے لیے رزق کا سامان فراہم کرو، یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے کہ وہ تمام انسانوں کو اس طرح سے رزق عطا کر رہا ہے۔

زمین سے اُگانے والا کون ہے؟

خواہ تجارت ہو یا زراعت ہو یا ملازمت ہو، دینے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ زراعت کو دیکھیے! زراعت میں آدمی کا کام یہ ہے کہ زمین کو نرم کرکے اس میں بیج ڈال دے اور اس میں پانی دے دے، لیکن اس بیج کو کونپل بنانا، وہ بیج جو بالکل بے حقیقت ہے جو گنتی میں بھی نہ آئے، جو بے وزن ہے لیکن اتنی سخت زمین کا پیٹ پھاڑکر نمودار ہوتا اور کونپل بن جاتا ہے، پھر وہ کونپل بھی ایسی نرم اور نازک ہوتی ہے کہ اگر بچہ بھی اس کو انگلی سے مسل دے تو وہ ختم ہوجائے، لیکن وہی کونپل سارے موسموں کی سختیاں برداشت کرتی ہے گرم اور سرد اور تیز ہواؤں کو سہتی ہے، پھر کونپل سے پودا بنتا ہے، پھر اس پودے سے پھول نکلتے ہیں، پھولوں سے پھل بنتے ہیں اور اس طرح وہ ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے، کون ذات ہے جو یہ کام کر رہی ہے؟ اللہ جل شانہٗ ہی یہ سارے کام کرنے والے ہیں ۔

انسان میں پیداکرنے کی صلاحیت نہیں 

لہٰذا آمدنی کا کوئی بھی ذریعہ ہو، چاہے وہ تجارت ہو یا زراعت ہو یا ملازت ہو، حقیقت میں توانسان ایک محدود کام کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا گیاہے، بس انسان وہ محدود کام کردیتاہے، لیکن اس محدود کام کے اندر کسی چیز کو پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ تو اللہ جل شانہٗ ہیں جو ضرورت کی اشیاء پیدا کرتے ہیں اور تمھیں عطا کرتے ہیں، لہٰذا جو کچھ بھی تمھارے پاس ہے وہ سب اسی کی عطا ہے۔
’’لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ‘‘۔ (البقرہ:۲۸۴) ’’زمین آسمان میں جو کچھ ہے وہ اسی کی ملکیت ہے۔‘‘

مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں
 
اور اللہ تعالیٰ نے وہ چیز تمھیں عطا کرکے یہ بھی کہہ دیا کہ چلو تم ہی اس کے مالک ہو، چنانچہ سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُوْنَ،  (یٰسین:۷۱) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے بنادیے ان کے واسطے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں سے چوپائے، پھر وہ ان کے مالک ہیں، مالکِ حقیقی تو ہم تھے ہم نے تمھیں مالک بنادیا، تو حقیت میں وہ مال جو تمھارے پاس آیا ہے اس میں سب سے بڑا حق تو ہمارا ہے، جب ہمارا حق ہے تو پھر اس میں سے اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرو، اگر اس کے حکم کے مطابق خرچ کروگے تو باقی جتنا مال تمھارے پاس ہے وہ تمہارے لیے حلال اور طیب ہے، وہ مال اللہ کا فضل ہے اللہ کی نعمت ہے، وہ مال برکت والا ہے، اور اگر تم نے اس مال میں سے وہ چیز نہ نکالی جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کی ہے تو پھر یہ سارا مال تمہارے لیے آگ کے انگارے ہیں اور قیامت کے دن ان انگاروں کو دیکھ لوگے، جب ان انگاروں سے تمھارے جسموں کو داغا جائے گا اور تم سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جس کو تم جمع کیا کرتے تھے۔

صرف ڈھائی فیصد ادا کرو

اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتے کہ: یہ مال ہماری عطاکی ہوئی چیز ہے، لہٰذا اس میں سے ڈھائی فیصد تم رکھو اور ساڑھے ستانوے فیصداللہ کی راہ میں خرچ کردو تو بھی انصاف کے خلاف نہیں تھا، کیونکہ یہ سارا مال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کی ملکیت ہے، لیکن اس نے اپنے بندوں پر فضل فرمایا اور یہ فرمادیا کہ میں جانتا ہوں کہ تم کمزور ہو اور تمھیں اس مال کی ضرورت ہے، میں جانتا ہوں کہ تمھاری طبیعت اس مال کی طرف راغب ہے۔ لہٰذا چلو اس مال میں سے ساڑھے ستانوے فیصد تمہارا، صرف ڈھائی فیصدکا مطالبہ ہے، جب یہ ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کروگے تو باقی ساڑھے ستانوے فیصد تمہارے لیے حلال ہے اور طیب ہے اور برکت والا ہے، اللہ تعالیٰ نے اتنا معمولی مطالبہ کرکے سارا مال ہمارے حوالے کردیا کہ اس کو جس طرح چاہو اپنی جائز ضروریات میں خرچ کرو۔

زکوٰۃ کی تاکید

یہ ڈھائی فیصدزکوٰۃ ہے، یہ وہ زکوٰۃ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں بار بار ارشاد فرمایا: وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ، 
’’نماز قائم کرو اورزکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
جہاں نماز کا ذکر فرمایا ہے وہاں ساتھ میں زکوٰۃ کابھی ذکر ہے،اس زکوٰۃ کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے، جب اس زکوٰۃ کی اتنی تاکید ہے اوردوسری طرف اللہ جل شانہٗ نے اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ ہمیں مال عطا کیا اور اس کامالک بنایا اور پھر صرف ڈھائی فیصد کا مطالبہ کیا تو مسلمان کم از کم اتنا کرلے کہ وہ ڈھائی فیصد ٹھیک ٹھیک اللہ کے مطالبے کے مطابق ادا کردے تو اس پر کوئی آسمان نہیں ٹوٹ جائے گا، کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔

زکوٰۃ حساب کرکے نکالو

بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ سے بالکل بے پرواہ ہیں، العیاذباللہ وہ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں، ان کی سوچ تو یہ ہے کہ یہ ڈھائی فیصدکیوں دیں؟ بس جومال آرہا ہے وہ آئے۔ دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں، جن کو زکوٰۃ کا کچھ نہ کچھ احساس ہے اور وہ زکوٰۃ نکالتے بھی ہیں، لیکن زکوٰۃ نکالنے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ طریقہ اختیار نہیں کرتے، جب ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی تو اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک حساب لگاکر زکوٰۃ نکالی جائے۔ 
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کون حساب کتاب کرے، کون سارے اسٹاک کو چیک کرے، لہٰذا بس ایک اندازہ کرکے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں، اب اس اندازے میں غلطی بھی واقع ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ نکالنے میں کمی بھی ہوسکتی ہے، اگر زکوٰۃ زیادہ نکال دی جائے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر ایک روپیہ بھی کم ہوجائے یعنی جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس سے ایک روپیہ کم زکوٰۃ نکالی تو یاد رکھئے! وہ ایک روپیہ جو آپ نے حرام طریقے سے اپنے پاس روک لیا ہے، وہ ایک روپیہ تمہارے سارے مال کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔

وہ مال تباہی کا سبب ہے

ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مال میں زکوٰۃ کی رقم شامل ہوجائے یعنی پوری زکوٰۃ نہیں نکالی بلکہ کچھ زکوٰۃ نکالی اورکچھ باقی رہ گئی تووہ مال انسان کے لیے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے، اس وجہ سے اس بات کا اہتمام کریں کہ ایک ایک پائی کا صحیح حساب کرکے زکوٰۃ نکالی جائے اس کے بغیر زکوٰۃ کا فریضہ کما حقہ ادا نہیں ہوتا، الحمد للہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو زکوٰۃ ضرورنکالتی ہے لیکن اس بات کا اہتمام نہیں کرتی کہ ٹھیک ٹھیک حساب کرکے زکوٰۃ نکالے، اس کی وجہ سے زکوٰۃ کی رقم ان کے مال میں شامل رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہلاکت اور بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

زکوٰۃ کے دنیاوی فوائد

ویسے زکوٰۃ اس نیت سے نکالنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے،  اس کی رضا کا تقاضہ ہے، اور ایک عبادت ہے، اس زکوٰۃ نکالنے سے ہمیں کوئی منفعت حاصل ہو یا نہ ہو، کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت بذاتِ خود مقصود ہے، اصل مقصود تو زکوٰۃ کا یہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فوائد بھی عطافرماتے ہیں، وہ فائدہ یہ ہے کہ اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰی وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ۔ (البقرہ:۲۷۶) ’’یعنی اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور زکوٰۃ اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں کہ: اَللّٰہُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَاَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللّٰہ تعالٰی: فَاَمَّامَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی)
اے اللہ! جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر رہا ہے اس کو اور زیادہ عطافرمائیے، اور اے اللہ جو شخص اپنے مال کو روک کر رکھ رہا ہے اور زکوٰۃ ادا نہیں کر رہا ہے تو اے اللہ، اس کے مال پر ہلاکت ڈالئے، اس لیے فرمایا: مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ، ’’کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا۔‘‘
چنانچہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ادھر ایک مسلمان نے زکوٰۃ نکالی دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اس کی آمدنی کے دوسرے ذرائع پیدا کردیئے اور اس کے ذریعہ اس زکوٰۃ سے زیادہ پیسہ اس کے پاس آگیا، بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ نکالنے سے اگرچہ گنتی کے اعتبار سے پیسے کم ہوجاتے ہیں لیکن بقیہ مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکت ہوتی ہے کہ اس برکت کے نتیجے میں تھوڑے مال سے زیادہ فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔

مال میں بے برکتی کا انجام

آج کی دنیا گنتی کی دنیا ہے، برکت کا مفہوم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا، برکت اس چیز کو کہتے ہیں کہ تھوڑی سی چیز میں زیادہ فائدہ حاصل ہوجائے، مثلاً آج آپ نے پیسے تو بہت کمائے لیکن جب گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ بچہ بیمار ہے، اس کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے اور ایک ہی طبی معائنہ میں وہ سارے پیسے خرچ ہوگئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو پیسے کمائے تھے اس میں برکت نہ ہوئی، یا مثلاًآپ پیسے کماکر گھر جارہے تھے کہ راستہ میں ڈاکو مل گیااور اس نے پستول دکھاکر سارے پیسے چھین لیے، اس کامطلب یہ ہے کہ پیسے توحاصل ہوئے لیکن اس میں برکت نہیں ہوئی، یا مثلاً آپ نے پیسہ کماکر کھانا کھایا اور اس کھانے کے نتیجے میں آپ کو بدہضمی ہوگئی، اس کامطلب یہ ہے کہ اس مال میں برکت نہ ہوئی، یہ سب بے برکتی کی نشانیاں ہیں۔
برکت یہ ہے کہ آپ نے پیسے تو کم کمائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تھوڑے پیسوں میں زیادہ کام بنادیے اورتمہارے بہت سے کام نکل گئے، اس کانام ہے برکت، یہ برکت اللہ تعالیٰ اس کو عطافرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے، لہٰذا ہم اپنے مال کی زکوٰۃ نکالیں اور اس طرح نکالیں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور اس کو حساب کتاب کے ساتھ نکالیں، صرف اندازہ سے نہ نکالیں۔

زکوٰۃکانصاب

اس کی تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا ایک نصاب مقرر کیا ہے کہ اس نصاب سے کم کا اگر کوئی شخص مالک ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اگر اس نصاب کا مالک ہوگا تو زکوٰۃ فرض ہوگئی، وہ نصاب یہ ہے: ساڑھے باون تولہ چاندی یااس کی قیمت کا نقد روپیہ، یا زیور، یا سامان تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہو تو اس کو ’’صاحبِ نصاب‘‘ کہا جاتا ہے۔

ہر ہر روپے پر سال کا گزرنا ضروری نہیں 

پھر اس نصاب پر ایک سال گزرنا چاہیے، یعنی ایک سال تک اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب رہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اس بارے میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہرہر روپے پر مستقل پورا سال گزرے، تب اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، یہ بات درست نہیں، بلکہ جب ایک مرتبہ سال کے شروع میں ایک شخص صاحبِ نصاب بن جائے، مثلاً فرض کریں کہ یکم رمضان کو اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب بن گیا پھر آئندہ سال جب یکم رمضان آیا تو اس وقت بھی وہ صاحبِ نصاب ہے تو ایسے شخص کو صاحبِ نصاب سمجھا جائے گا، درمیان سال میں جو رقم آتی جاتی رہی اس کا کوئی اعتبار نہیں، بس یکم رمضان کو دیکھ لو کہ تمھارے پاس کتنی رقم موجود ہے اس رقم پر زکوٰۃ نکالی جائے گی، چاہے اس میں سے کچھ رقم صرف ایک دن پہلے ہی کیوں نہ آئی ہو،

تاریخ زکوٰۃ میں جو رقم ہو اس پر زکوٰۃ ہے

مثلاً فرض کریں کہ ایک شخص کے پاس یکم رمضان کو ایک لاکھ روپیہ تھا اگلے سال یکم رمضان سے دو دن پہلے پچاس ہزار روپے اس کے پاس اور آگئے اور اس کے نتیجے میں یکم رمضان کو اس کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپے ہوگئے، اب اس ڈیڑھ لاکھ روپے پر زکوٰۃ فرض ہوگی، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس میں پچاس ہزار روپے تو صرف دودن پہلے آئے ہیں اور اس پر ایک سال نہیں گزرا، لہٰذا اس پر زکوٰۃ نہ ہونی چاہیے، یہ درست نہیں بلکہ زکوٰۃ نکالنے کی جو تاریخ ہے اور جس تاریخ کو آپ صاحبِ نصاب بنے ہیں اس تاریخ میں جتنا مال آپ کے پاس موجود ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے، چاہے یہ رقم پچھلے سال یکم رمضان کی رقم سے زیادہ ہو یا کم ہو مثلاً اگر پچھلے سال ایک لاکھ روپے تھے، اب ڈیڑھ لاکھ ہیں تو ڈیڑھ لاکھ پر زکوٰۃ ادا کرو، اور اگر اس سال پچاس ہزار روپے رہ گئے تو اب پچاس ہزار پر زکوٰۃ ادا کرو، درمیان سال میں جو رقم خرچ ہوگئی، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں اور اس خرچ شدہ رقم پر زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے یہ آسان طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ درمیان سال میں جو کچھ تم نے کھایا پیا اور وہ رقم تمہارے پاس سے چلی گئی تو اس کا کوئی حساب کتاب کرنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح درمیان سال میں جو رقم آگئی اس کا الگ سے حساب رکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس تاریخ میں آئی اور کب اس پر سال پورا ہوگا؟ بلکہ زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ میں جو رقم تمہارے پاس ہے، اس پر زکوٰۃ ادا کرو، سال گزرنے کا مطلب یہ ہے۔

اموالِ زکوٰۃ کون کون سے ہیں؟

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل ہے کہ اس نے ہرہرچیز پر زکوٰۃ فرض نہیں فرمائی، ورنہ مال کی تو بہت سی قسمیں ہیں ۔
جن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے وہ یہ ہیں : (۱)نقد روپیہ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں ، چاہے وہ نوٹ ہوں یا سکے ہوں ۔ (۲)سونا چاندی، چاہے وہ زیور کی شکل میں ہوں یا سکے کی شکل میں ہوں، بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ رہتا ہے کہ جو خواتین کا استعمالی زیور ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ استعمالی زیور پر بھی زکوٰۃ واجب ہے البتہ صرف سونے چاندی کے زیور پر زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا زیور ہے، چاہے پلاٹینم ہی کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، اسی طرح ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ نہیں جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ ذاتی استعمال کے لئے ہوں۔

اموال زکوٰۃ میں عقل نہ چلائیں 

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناچاہئے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا فریضہ ہے، اب بعض لوگ زکوٰۃ کے اندر اپنی عقل دوڑاتے ہیں اوریہ سوال کرتے ہیں کہ اس پر زکوٰۃ کیوں واجب ہے اور فلاں چیز پر زکوٰۃکیوں واجب نہیں؟ یاد رکھیے کہ یہ زکوٰۃ ادا کرنا عبادت ہے اور عبادت کے معنی ہی یہ ہیں کہ چاہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر اللہ کا حکم ماننا ہے، مثلاً کوئی شخص کہے کہ سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے تو ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ کیوں واجب نہیں؟ اور پلاٹینم پر کیوں زکوٰۃ نہیں؟ یہ سوال بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حالتِ سفر میں ظہر اور عصر اور عشاء کی نماز میں قصر ہے اور چار رکعت کی بجائے دورکعت پڑھی جاتی ہے تو پھر مغرب میں قصر کیوں نہیں؟ یا مثلاً کوئی شخص کہے کہ ایک آدمی ہوائی جہاز میں فرسٹ کلاس کے اندر سفر کرتا ہے اور اس سفر میں اس کو کوئی مشقت بھی نہیں ہوتی مگر اس کی نماز آدھی ہوجاتی ہے، اور میں کراچی میں بس کے اندر بڑی مشقت کے ساتھ سفر کرتا ہوں ، میری نماز آدھی کیوں نہیں ہوتی؟ ان سب کا ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے عبادت کے احکام ہیں، عبادات میں ان احکام کی پابندی کرنا ضروری ہے ورنہ وہ کام عبادت نہیں رہے گا، یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ۹؍ذی الحجہ کو ہی حج ہوتا ہے؟ مجھے تو آسانی یہ ہے کہ آج جاکر حج کرآؤں اور ایک دن کے بجائے میں عرفات تین دن قیام کروں گا، اب اگر وہ شخص ایک دن کے بجائے تین دن بھی وہاں بیٹھا رہے گا، تب بھی اس کا حج نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کا جو طریقہ بتایا تھا اس کے مطابق نہیں کیا، یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ حج کے تین دنوں میں جمرات کی رمی کرنے میں بہت ہجوم ہوتا ہے اس لئے میں چوتھے دن اکٹھی سارے دنوں کی رمی کرلوں گا، یہ رمی درست نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور عبادت کے اندر یہ ضروری ہے کہ جو طریقہ بتایاگیا ہے اور جس طرح بتایا گیا ہے اس کے مطابق وہ عبادت انجام دی جائے گی تو وہ عبادت درست ہوگی ورنہ درست نہ ہوگی، لہٰذا یہ اعتراض کرنا کہ سونے اور چاندی پر زکوٰۃ کیوں ہے اور ہیرے پر کیوں نہیں؟ یہ عبادت کے فلسفے کے خلاف ہے، بہرحال، اللہ تعالیٰ نے سونے چاندی پر زکوٰۃ رکھی ہے، چاہے وہ استعمال کا ہو، اور نقد روپیہ پر زکوٰۃ رکھی ہے۔

سامان تجارت کی قیمت کے تعین کا طریقہ

دوسری چیز جس پر زکوٰۃ فرض ہے وہ ہے ’’سامانِ تجارت‘‘ مثلاً کسی کی دکان میں جو سامان برائے فروخت رکھا ہوا ہے، اس سارے اسٹاک پر زکوٰۃ واجب ہے، البتہ اسٹاک کی قیمت لگاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آدمی زکوٰۃ نکالتے وقت یہ حساب لگائے کہ اگر میں پورا اسٹاک اکٹھا فروخت کروں تو بازار میں اس کی کیا قیمت لگے گی، دیکھئے ایک ’’ریٹیل پرائس‘‘ ہوتی ہے اور دوسری ’’ہول سیل پرائس‘‘ تیسری صورت یہ ہے کہ پورااسٹاک اکٹھا فروخت کرنے کی صورت میں کیا قیمت لگے گی، لہٰذا جب دکان کے اندر جو مال ہے اس کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جارہا ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ تیسری قسم کی قیمت لگائی جائے، وہ قیمت نکال کر پھر اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں نکالنا ہوگا، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ عام ’’ہول سیل قیمت‘‘ سے حساب لگاکر اس پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔

مال تجارت میں کیا کیا داخل ہے؟

اس کے علاوہ مالِ تجارت میں ہروہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو، لہٰذا اگرکسی شخص نے بیچنے کی غرض سے کوئی پلاٹ خریدا یا زمین خریدی یا کوئی مکان خریدا یا گاڑی خریدی اور اس مقصد سے خریدی کہ اس کو بیچ کر نفع کماؤں گا تو یہ سب چیزیں مال تجارت میں داخل ہیں، لہٰذا اگر کوئی پلاٹ، کوئی زمین کوئی مکان خریدتے وقت شروع ہی میں یہ نیت تھی کہ میں اس کو فروخت کروں گا تو اس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہے، بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ’’انویسٹمنٹ‘‘ کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اس پر اچھے پیسے ملیں گے تواس کو فروخت کردوں گا اور فروخت کرکے اس سے نفع کماؤں گا، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے، کوئی ایک واضح نیت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خریدکر ڈال دیا ہے، اب اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کسی وقت اس کو مکان بناکر وہاں رہائش اختیار کرلیں گے اور یہ احتمال بھی ہے کہ کرائے پر چڑھادیں گے اور یہ احتمال بھی ہے کہ فروخت کردیں گے تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، لہٰذا زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اسکو دوبارہ فروخت کرنے کی نیت ہو، یہاں تک کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ اس پر مکان بناکر رہائش اختیار کریں گے، بعد میں ارادہ بدل گیا اور یہ ارادہ کرلیاکہ اب اس کو فروخت کرکے پیسے حاصل کرلیں گے تو محض نیت اورارادہ کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا جب تک آپ اس پلاٹ کو واقعۃً فروخت نہیں کردیں گے اور اس کے پیسے آپ کے پاس نہیں آجائیں گے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
بہرحال، ہروہ چیز جسے خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو، وہ مالِ تجارت ہے، اور اس کی مالیت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے۔

کس دن کی مالیت معتبر ہوگی؟

یہ بات بھی یاد رکھیں، کہ مالیت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن آپ زکوٰۃ کا حساب کر رہے ہیں مثلاً ایک پلاٹ آپ نے ایک لاکھ روپے میں خریدا تھا اور آج اس پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگئی، اب دس لاکھ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی، ایک لاکھ پر نہیں نکالی جائے گی۔

کمپنیوں کے شیئرز پر زکوٰۃ کا حکم

اسی طرح کمپنیوں کے ’’شیئرز‘‘ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اور ان کی دوصورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز اس مقصد کے لیے خریدے ہیں کہ اس کے ذریعہ کمپنی کا منافع (Dividend) حاصل کریں گے اور اس پر ہمیں سالانہ منافع کمپنی کی طرف سے ملتا رہے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز ’’کیٹپیل گن‘‘ کے لئے خریدے ہیں، یعنی نیت یہ ہے کہ جب بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کرکے نفع کمائیں گے، اگر یہ دوسری صورت ہے یعنی شیئرز خریدتے وقت شروع ہی میں ان کو فروخت کرنے کی نیت تھی تو اس صورت میں پورے شیئرز کی بازاری پوری قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی مثلاً آپ نے پچاس روپے کے حساس سے شیئرز خریدے اور مقصد یہ تھا کہ جب ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کرکے نفع حاصل کریں گے، اس کے بعد جس دن آپ نے زکوٰۃ کا حساب نکالا، اس دن شیئرز کی قیمت ساٹھ روپے ہوگئی تو اب ساٹھ روپے کے حساب سے ان شیئرز کی مالیت نکالی جائے گی اور اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ اداکرنی ہوگی۔
لیکن اگر پہلی صورت ہے یعنی آپ نے کمپنی کے شیئرز اس نیت سے خریدے کہ کمپنی کی طرف سے اس پر سالانہ منافع ملتا رہے گا اور فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی کہ اس صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ دیکھیں کہ جس کمپنی کے یہ شیئرز ہیں اس کمپنی کے کتنے اثاثے جامد ہیں مثلاً بلڈنگ، مشینری، کاریں وغیرہ، اورکتنے اثاثے نقد، سامانِ تجارت اور خام مال کی شکل میں ہیں، یہ معلومات کمپنی ہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں، مثلاً فرض کریں کہ کسی کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے نقد سامانِ تجارت، خام مال اور تیار مال کی صورت میں ہیں اور چالیس فیصد اثاثے بلڈنگ، مشینری اور کار وغیرہ کی صورت میں ہیں تو اس صورت میں آپ ان شیئرز کی بازاری قیمت لگاکر اس کی ساٹھ فیصد قیمت پر زکوٰۃ ادا کریں، مثلاً شیئرز کی بازاری قیمت ساٹھ روپے تھی اور کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے قابلِ زکوٰۃ تھے اور چالیس فیصد اثاثے ناقابلِ زکوٰۃ تھے تو اس صورت میں آپ اس شیئرزکی پوری قیمت یعنی ساٹھ روپے کے بجائے =/۳۶ روپے پر زکوٰۃ ادا کریں، اور اگر کسی کمپنی کے اثاثوں کی تفصیل معلوم نہ ہوسکے تو اس صورت میں احتیاطاً ان شیئرز کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
شیئرز کے علاوہ اورجتنے فائینانشل انسٹرومنٹس ہیں، چاہے وہ بونڈز ہوں یا سرٹیفکٹس ہوں، یہ سب نقد کے حکم میں ہیں، ان کی اصل قیمت پرزکوٰۃ واجب ہے۔

کارخانہ کی کن اشیاء پر زکوٰۃہے؟

اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیارشدہ مال ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے، اسی طرح تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، البتہ فیکٹری کی مشینری، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
اس طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لیے روپیہ لگایا ہوا ہے، اوراس کاروبار کا کوئی متناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کی بازاری قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔
بہرحال، خلاصہ یہ کہ نقد روپیہ جس میں بینک بیلنس اور فائینانشل انسٹرومنٹس بھی داخل ہیں، ان پر زکوٰۃ واجب ہے، اور سامانِ تجارت، جس میں تیار مال، خام مال، اور جومال تیاری کے مراحل میں ہیں وہ سب سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اورکمپنی کے شیئرز بھی سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اس کے علاوہ ہرچیز جو آدمی نے فروخت کرنے کی غرض سے خریدی ہو وہ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہے،زکوٰۃنکالتے وقت ان سب کی مجموعی مالیت نکالیں اور اس پر زکوٰۃ ادا کریں۔

واجب الوصول قرضوں پر زکوٰۃ

ان کے علاوہ بہت سی رقمیں وہ ہوتی ہیں جو دوسروں سے واجب الوصول ہوتی ہیں مثلاً دوسروں کو قرض دے رکھاہے، یا مثلاً مال ادھار فروخت کر رکھا ہے اور اس کی قیمت ابھی وصول ہونی ہے، تو جب آپ زکوٰۃ کا حساب لگائیں، اور اپنی مجموعی مالیت نکالیں تو بہتر یہ ہے کہ ان قرضوں کو اور واجب الوصول رقموں کو آپ ہی اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرلیں، اگرچہ شرعی حکم یہ ہے کہ جو قرضے ابھی وصول نہیں ہوئے تو جب تک وہ وصول نہ ہوجائیں اس وقت تک شرعاً ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی، لیکن جب وصول ہوجائیں تو جتنے سال گزر چکے ہیں ان تمام پچھلے سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ قرضہ دے رکھا تھا، اور پانچ سال کے بعد وہ قرضہ آپ کو واپس ملا، تو اگرچہ اس ایک لاکھ روپے پر ان پانچ سالوں کے دوران تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں تھی، لیکن جب وہ ایک لاکھ روپے وصول ہوگئے تو اب گزشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوٰۃ دینی ہوگی، تو چونکہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ یک مشت ادا کرنے میں بعض اوقات دشواری ہوتی ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہرسال اس قرض کی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کردی جایا کرے، لہٰذا جب زکوٰۃ کا حساب لگائیں تو ان قرضوں کو بھی مجموعی مالیت میں شامل کرلیا کریں۔

قرضوں کی منہائی

پھر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ آپ کے ذمے دوسرے لوگوں کے کتنے قرضے ہیں، اور پھر مجموعی مالیت میں سے ان قرضوں کو منہا کردیں، منہا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ قابل زکوٰۃ رقم ہے، اس کا پھر ڈھائی فیصد نکال کر زکوٰۃ کی نیت سے ادا کردیں،  بہتر یہ ہے کہ جو رقم زکوٰۃ کی بنے اتنی رقم الگ نکال کر محفوظ کرلیں، پھر وقتاً فوقتاً اس کو مستحقین میں خرچ کرتے رہیں، بہرحال زکوٰۃ کا حساب لگانے کایہ طریقہ ہے۔

قرضوں کی دوقسمیں 

قرضوں کے سلسلے میں ایک بات اور سمجھ لینی چاہئے، وہ یہ کہ قرضوں کی دوقسمیں ہیں : ایک تو معمولی قرضے ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی ضروریات اورہنگامی ضروریات کے لئے مجبوراً لیتا ہے۔
دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو بڑے بڑے سرمایہ دار پیداواری اغراض کے لئے لیتے ہیں، مثلاً فیکٹریاں لگانے، یا مشینریاں خریدنے یا مالِ تجارت امپورٹ کرنے کے لیے قرضے لیتے ہیں، یا مثلاً ایک سرمایہ دار کے پاس پہلے سے دوفیکٹریاں موجود ہیں، لیکن اس نے بینک سے قرض لے کر تیسری فیکٹری لگالی، اب اگر اس دوسری قسم کے قرضوں کو مجموعی مالیت سے منہا کیا جائے، تو نہ صرف یہ کہ ان سرمایہ داروں پر ایک پیسے کی بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ وہ لوگ الٹے مستحق زکوٰۃ بن جائیں گے، اس لئے کہ ان کے پاس جتنی مالیت کا مال موجود ہے، اس سے زیادہ مالیت کے قرضے بینک سے لے رکھے ہیں، وہ بظاہر فقیر اور مسکین نظر آرہا ہے، لہٰذاان قرضوں کے منہاکرنے میں بھی شریعت نے فرق رکھا ہے۔

تجارتی قرضے کب منہا کئے جائیں 

اس میں تفصیل یہ ہے کہ پہلی قسم کے قرضے تومجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے، اور ان کو منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اور دوسری قسم کے قرضوں میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کسی شخص نے تجارت کی غرض سے قرض لیا، اور اس قرض کو ایسی اشیاء خریدنے میں استعمال کیا جو قابل زکوٰۃ ہیں مثلاً اس قرض سے خام مال خرید لیا، یا مال تجارت خرید لیا، تو اس قرض کو مجموعی مالیت سے منہاکریں گے، لیکن اگر اس قرض کو ایسے اثاثے خریدنے میں استعمال کیا جو ناقابلِ زکوٰۃ ہیں تواس قرض کو مجموعی مالیت سے منہا نہیں کریں گے۔

قرض کی مثال

مثلاً ایک شخص نے بینک سے ایک کروڑ روپے قرض لئے اور اس رقم سے اس نے ایک پلانٹ (مشینری) باہر سے امپورٹ کرلیا، چونکہ یہ پلانٹ قابلِ زکوٰۃ نہیں ہے اس لیے کہ یہ مشینری ہے تو اس صورت میں یہ قرضہ منہا نہیں ہوگا، لیکن اگر اس نے اس قرض سے خام مال خرید لیا تو چونکہ خام مال قابلِ زکوٰۃ ہے اس لیے یہ قرض منہا کیا جائے گا، کیونکہ دوسری طرف یہ خام مال ادا کی جانے والی زکوٰۃ کی مجموعی مالیت میں پہلے سے شامل ہوچکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نارمل قسم کے قرض تو پورے کے پورے مجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے، اور جو قرضے پیداواری اغراض کے لیے لیے گئے ہیں، اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس سے ناقابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا نہیں ہوگا، اور اگر قابلِ زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا ہوگا، یہ تو زکوٰۃ نکالنے کے بارے میں احکام تھے۔

زکوٰۃ مستحق کو ادا کریں 

دوسری طرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بھی شریعت نے احکام بتائے ہیں، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ نکالو، نہ یہ فرمایا کہ زکوٰۃ پھینکو، بلکہ فرمایا: ’’اٰتُوا الزَّکٰوۃَ‘‘ زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی یہ دیکھو کہ اس جگہ پر زکوٰۃ جائے جہاں شرعاً زکوٰۃ جانی چاہئے۔
بعض لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یانہیں ؟ زکوٰۃ نکال کرکسی کے حوالے کردی اور اس کی تحقیق نہیں کی کہ یہ صحیح مصرف پر خرچ کرے گایا نہیں ؟ آج بے شمار ادارے دنیا میں کام کر رہے ہیں ، ان میں بہت سے ادارے ایسے بھی ہوں گے جن میں بسااوقات اس بات کا لحاظ نہیں ہوتا ہوگا کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ اس لئے فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی جو مستحق زکوٰۃ ہے اس کو ادا کرو۔

مستحق کون؟

اس کے لئے شریعت نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ زکوٰۃ صرف انہیں اشخاص کو دی جاسکتی ہے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں، یہاں تک کہ اگران کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسا سامان موجود ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے تو بھی وہ مستحق زکوٰۃ نہیں رہتا، مستحق زکوٰۃ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔

مستحق کو مالک بناکر دیں 

اس میں بھی شریعت کا یہ حکم ہے کہ اس مستحق زکوٰۃ کو مالک بناکر دو، یعنی وہ مستحق زکوٰۃ اپنی ملکیت میں خود مختار ہوکر جو چاہے کرے، اسی وجہ سے کسی بلڈنگ کی تعمیر پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی، کسی ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی، اس لیے کہ اگر زکوٰۃ کے ذریعہ تعمیرات کرنے اور ادارے قائم کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو زکوٰۃ کی رقم سب لوگ کھاپی کر ختم کرجاتے، کیونکہ اداروں کے اندر تنخواہیں بے شمار ہوتی ہیں، تعمیرات پر خرچ لاکھوں کا ہوتا ہے، اس لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ غیرصاحبِ نصاب کومالک بناکر زکوٰۃ دو، یہ زکوٰۃ فقراء اور غرباء اور کمزوروں کا حق ہے! لہٰذایہ زکوٰۃ انھی تک پہنچنی چاہیے، جب ان کو مالک بناکر دوگے تو تمہاری زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

کِن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟

یہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم انسان کے اندر یہ طلب اور جستجو خودبخود پیداکرتا ہے کہ میرے پاس زکوٰۃ کے اتنے پیسے موجود ہیں، ان کو صحیح مصرف میں خرچ کرنا ہے، اس لیے وہ مستحقین کو تلاش کرتا ہے کہ کون کون لوگ مستحقین ہیں اور ان مستحقین کی فہرست بناتا ہے، پھر ان کو زکوٰۃ پہنچاتا ہے، یہ بھی انسان کی ذمہ داری ہے، آپ کے محلے میں ، ملنے جلنے والوں میں، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں میں دوست احباب میں جو مستحق زکوٰۃ ہوں، ان کو زکوٰۃ ادا کریں، اوران میں سے سب سے افضل یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کریں، اس میں ڈبل ثواب ہے زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی ہے، اور تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، صرف دورشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ایک ولادت کا رشتہ ہے، لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، دوسرا نکاح کا رشتہ ہے لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی، انکے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً بھائی کو، بہن کو، چچا کو، خالہ کو، خالو کو، پھوپھی کو، ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ البتہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہوں اور صاحبِ نصاب نہ ہوں۔

بیوہ اور یتیم کو زکوٰۃ دینے کا حکم

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون بیوہ ہے تو اس کو زکوٰۃ ضرور دینی چاہیے، حالانکہ یہاں بھی شرط یہ ہے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہو اور صاحبِ نصاب نہ ہو، اگر بیوہ مستحقِ زکوٰۃ ہے تو اس کی مدد کرنا بڑی اچھی بات ہے، لیکن اگر ایک خاتون بیوہ ہے اورمستحق زکوٰۃ نہیں ہے تو محض بیوہ ہونے کی وجہ سے وہ مصرفِ زکوٰۃ نہیں بن سکتی، اسی طرح یتیم کو زکوٰۃ دینا اور اس کی مدد کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ دیکھ کر زکوٰۃ دینی چاہئے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہے؟ لیکن اگر کوئی یتیم ہے مگر وہ مستحق زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ صاحبِ نصاب ہے تو یتیم ہونے کے باوجوداس کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان احکام کو مدنظررکھتے ہوئے زکوٰۃ نکالنی چاہئے۔

زکوٰۃ کی تاریخ کیا ہونی چاہئے؟

ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے لئے شرعاً کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے اور نہ کوئی زمانہ مقرر ہے کہ اس زمانے میں یا اس تاریخ میں زکوٰۃ ادا کی جائے بلکہ ہرآدمی کی زکوٰۃ کی تاریخ جدا ہوتی ہے۔ شرعاًزکوٰۃ کی اصل تاریخ وہ ہے جس تاریخ اورجس دن آدمی پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنا، مثلاً ایک شخص یکم محرم الحرام کو پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنا تو اس کی زکوٰۃ کی تاریخ یکم محرم الحرام ہوگئی اب آئندہ ہرسال اس کو یکم محرم الحرام کو اپنی زکوٰۃکا حساب کرنا چاہئے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم کس تاریخ کو پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنے تھے، اس لیے اس مجبوری کی وجہ سے وہ اپنے لیے کوئی ایسی تاریخ زکوٰۃ کے حساب کی مقرر کرلے جس میں اس کے لیے حساب لگانا آسان ہو، پھر آئندہ ہرسال اسی تاریخ کو زکوٰۃ کا حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرے، البتہ احتیاطاً کچھ زیادہ ادا کردیں۔

کیا رمضان المبارک کی تاریخ مقرر کرسکتے ہیں؟

عام طور پر لوگ رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ رمضان المبارک میں ایک فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے، لہٰذا زکوٰۃبھی چونکہ فرض ہے اگر رمضان المبارک میں ادا کریں گے تو اس کا ثواب بھی ستر گنا ملے گا، بات اپنی جگہ بالکل درست ہے اور یہ جذبہ بہت اچھا ہے، لیکن اگر کسی شخص کو اپنے صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے تو محض اس ثواب کی وجہ سے وہ شخص رمضان کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اسی تاریخ پر اپنی زکوٰۃ کا حساب کرے، البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ کرسکتا ہے کہ اگر تھوڑی تھوڑی زکوٰۃ ادا کر رہا ہے تو اس طرح ادا کرتا رہے اور باقی جو بچے اس کو رمضان المبارک میں ادا کردے، البتہ اگر تاریخ یاد نہیں ہے تو پھر گنجائش ہے کہ رمضان المبارک کی کوئی تاریخ مقرر کرلے البتہ احتیاطاًزیادہ ادا کرے، تاکہ اگر تاریخ کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے جو فرق ہوگیا ہو وہ فرق بھی پورا ہوجائے۔
پھر جب ایک مرتبہ جو تاریخ مقررکرلے تو پھر ہرسال اسی تاریخ کو اپنا حساب لگائے اور یہ دیکھے کہ اس تاریخ میں میرے کیا کیااثاثے موجود ہیں، اس تاریخ میں نقدم رقم کتنی ہے، اگر سونا موجود ہے تو اسی تاریخ کی سونے کی قیمت لگائے اگر شیئرز ہیں تو اسی تاریخ کی ان شیئرز کی قیمت لگائے، اگر اسٹاک کی قیمت لگانی ہے تو اسی تاریخ کی اسٹاک کی قیمت لگائے اور پھر ہر سال اسی تاریخ کو حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے، اس تاریخ سے آگے پیچھے نہیں کرنا چاہئے۔
بہرحال، زکوٰۃ کے بارے میں یہ تھوڑی سی تفصیل عرض کردی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
مکمل مواد اصلاحی خطبات سے نقل کیا گیا ہے۔

بزم خطباء

منگل, اپریل 12, 2022

یوپی:18 طلبا کورونا پازیٹیو،اسکول تین دنوں کے لیے بند

یوپی:18 طلبا کورونا پازیٹیو،اسکول تین دنوں کے لیے بند

ریاست اتر پردیش کے دو شہروں کے تین پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم کم از کم 18 طلباء میں کورونا پازیٹیو پایا گیا ہے جس کے بعد انتظامیہ کو اسکولوں کو تین دن کے لیے بند کرنا پڑا۔

تین اسکولوں میں سے دو غازی آباد میں اور ایک نوئیڈا میں ہے۔

احتیاط کے طور پر، اسکول 11 سے 13 اپریل تک بند رہے گا۔ تاہم آن لائن کلاسز کا سلسلہ اگلے تین دن تک جاری رہے گا۔

ریاستی حکومت نے اسکولوں کو 14 فروری سے جسمانی کلاسیں دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔

آہستہ آہستہ زیادہ تر اسکول دوبارہ کھل گئے، پہلے اعلیٰ کلاسوں کے لیے، پھر آخر کار تمام کلاسوں کے لیے۔

ملک میں گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا کیسز میں واضح کمی آئی ہے، صرف منگل کو کورونا کے 796 کیسز رپورٹ ہوئے۔

دریں اثنا، نوئیڈا میں فی الحال 54 ایکٹیو کیسز ہیں، جبکہ پڑوسی غازی آباد کے ایکٹو کیس دو نئے کیسز کے بعد بڑھ کر 28 ہو گئے ہیں۔

   

پیر, اپریل 11, 2022

اکھلیش سے ناراض اعظم خان ایس پی چھوڑ سکتے ہیں

 

اکھلیش سے ناراض اعظم خان ایس پی چھوڑ سکتے ہیں

لکھنؤ: سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو جلد ہی ایک اور بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ پارٹی کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان کے پارٹی چھوڑنے اور ممکنہ طور پر اپنی پارٹی بنانے کی قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

 اعظم خان کے میڈیا انچارج فصاحت خان شانو نے کہا ہے کہ "وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے درست کہا تھا کہ اکھلیش نہیں چاہتے کہ اعظم خان جیل سے باہر ہوں۔

فصاحت نے اتوار کی رات دیر گئے رام پور میں پارٹی دفتر میں خان کے حامیوں کی ایک میٹنگ میں یہ تبصرہ کیا۔

 ذرائع کے مطابق اعظم خان اس بات سے ناراض ہیں کہ اکھلیش ان سے سیتا پور جیل میں ایک بار کے علاوہ ملاقات نہیں کر سکے تھے جہاں وہ فروری 2020 سے بند ہیں۔

پرگتیشیل سماج وادی پارٹی-لوہیا (پی ایس پی-ایل) کے سربراہ شیو پال یادو کی اکھلیش کے ساتھ اختلافات اور ان کے حکمراں بی جے پی میں ممکنہ تبدیلی نے اعظم خان کے ایس پی چھوڑنے کی خبروں کو تقویت بخشی ہے۔

 اعظم خان نے 2022 کا اتر پردیش اسمبلی الیکشن لڑا اور سیتا پور جیل میں سلاخوں کے پیچھے سے 10ویں بار رام پور سیٹ جیتی۔

۔ فصاحت نے کہا کہ اعظم خان کے اشارے پر مسلمانوں نے نہ صرف رام پور بلکہ کئی اضلاع میں ایس پی کو ووٹ دیا۔ لیکن ایس پی کے قومی صدر نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں لیا۔ اعظم خان دو سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں، لیکن ایس پی صدر صرف ایک بار جیل میں ان سے ملنے گئے۔ یہی نہیں پارٹی میں مسلمانوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ۔

۔ فصاحت نے مزید کہا،اب اکھلیش یادو کو لگتا ہے کہ ہمارے کپڑوں سے بدبو آ رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دن پہلے ایس پی ایم پی شفیق الرحمان برق نے بھی الزام لگایا تھا کہ ایس پی مسلمانوں کے لیے کام نہیں کررہی ہے۔

سماج وادی پارٹی کے ریاستی ترجمان اور قومی سکریٹری راجندر چودھری نے کہا ہے کہ "میں ایسی کسی میٹنگ یا تبصرے سے واقف نہیں ہوں۔ اعظم خان ایس پی کے ساتھ ہیں اور ایس پی ان کے ساتھ ہے۔

 اعظم خان کی اہلیہ تزین فاطمہ سابق ایم ایل اے اور راجیہ سبھا کی سابق رکن ہیں جب کہ ان کے بیٹے عبداللہ اعظم خان نے رام پور کی سور اسمبلی سیٹ جیتی ہے۔

 اعظم خان 1980 سے رام پور سیٹ سے جیت رہے ہیں۔ وہ صرف 1996 میں کانگریس سے ہارے تھے۔ تزین فاطمہ نے رام پور سیٹ جیت لی جب انہوں نے 2019 میں رام پور لوک سبھا سیٹ جیتنے کے بعد اسے خالی کر دیا۔

۔ 22 مارچ کو اعظم خان نے اپنی اسمبلی سیٹ برقرار رکھنے کے لیے رام پور لوک سبھا کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ اسی دن کیا گیا تھا جس دن اکھلیش نے اپنی کرہل اسمبلی سیٹ کو برقرار رکھنے کے لئے ایس پی کے اعظم گڑھ لوک سبھا ممبر کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا۔


روزہ اظہار عبدیت کا بہترین ذریعہساجد حسین ندوینیوکالج،چنئی

روزہ اظہار عبدیت کا بہترین ذریعہ
ساجد حسین ندوی
نیوکالج،چنئی
یوں تو اللہ بتارک وتعالیٰ نے امت مسلمہ پر نماز روزہ، حج، زکوٰۃ، وغیرہ جیسی بہت سی عبادتیں عطافرمائی ہیں، جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی بڑائی بیان کرتاہے، اپنی نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہارکرتاہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے یا اللہ توہی میرارب ہے میں تیرا بندہ ہوں۔ الغرض عبادت کی جتنی شکلیں اللہ تعالیٰ نے سکھلائی ہیں ان کو اختیار کرکے بندہ حق بندگی ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتاہے۔ کیوں کہ اللہ نے اس کوپیدااسی مقصد کے لئے کیاہے۔ جیسا خود اللہ نے اس کی وضاحت کی ”وماخلقت الانس والجن الا لیعبدون“  میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔(الذاریات:۶۵)۔
بندگی کیاہے؟  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لئے پیدا کیاہے،اس کا کیامطلب؟ کیا اس کا مطلب صرف یہ ہیکہ بندہ دن میں پانچ  وقت کی نماز اداکرلیا، رمضان کے مہینے میں تیس دن روزے رکھ لیا اوراگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو سال میں زکوٰۃ اداکردی اسی طرح زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلیاتو کیااس سے حق بندگی ادا ہوگئی؟ اور اب انسان اس کے بعد آزاد ہوگیا ہے؟ جو چاہے کرے؟ بندگی کا مقصدیہ نہیں ہے۔بلکہ بندگی کا مقصد یہ ہے کہ ان عبادتوں کے ذریعہ انسان کی تربیت ہواور اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے، خواہ جس کی حالت میں ہو، اسے ہروقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مالک اسے دیکھ رہاہے، اور مالک کے حکموں کے بنازندگی گزارنااپنے کو ہلاکت میں ڈالناہے۔
مذکورہ بالامیں عبادت کی جتنی شکلیں بیان کی گئی ہیں ان تمام شکلوں میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدااور بندے کے سوا کوئی نہیں جانتاہے، شاید اسی لئے حدیث قدسی میں روزہ کے انعام کے سلسلے میں حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا ”آدمی کا ہرعمل خداکے یہاں کچھ نہ کچھ بڑھتاہے ایک نیکی دس گنی سے سات سو گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ اس سے مستثنی ہے۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کاجتنا چاہتاہوں بدلہ دیتاہوں“۔ (مسلم:۱۵۱۱)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشادہے ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہاجاتاہے، روزہ دار قیامت کے دن اسی سے جنت میں داخل ہونگے، کوئی اور ان کے ساتھ داخل نہ ہوسکے گا، پوچھاجائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر اس سے داخل ہونگے اور جب آخری شخص داخل ہوجائے گا تواسے بند کردیاجائے گا اور پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہوسکے گا “(مسلم: ۰۱۷۲)  
اس کے علاوہ جتنی عبادتیں ہیں کوئی عبادت کسی سے مخفی اور ڈھکی چھپی نہیں ہے، نماز کو عماد الدین کہاگیاہے، لیکن دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال واظہار پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں گھر کی چہار دیواری میں بھی اداکی جانے والی نماز کسی سے مخفی نہیں، ہر شخص اس کی عبادت سے واقف ہوتاہے۔
اسی طرح حج میں بندہ ایک لمبا سفر کرتاہے ہزاروں لاکھوں کے ساتھ ہوتاہے، گاؤں اور محلہ کا ہرشخص واقف ہوتاہے کہ فلاں صاحب حج کو تشریف لے جارہاہے اورجب فریضہ ئ حج اداکرکے اپنے وطن واپس آتاہے تو ہر خاص وعام اسے ’حاجی صاحب‘ نام سے جانتے ہیں۔ گویا یہ عبادت چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتی۔
اسی طرح صاحب نصاب مالدار اپنی زکوٰۃ کو کتناہی چھپا کراداکرے کم از کم لینے والا تو جانتاہے کہ فلاں شخص نے دیاہے چنانچہ یہ سب عبادتیں ایسی ہے کہ چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی اگر آپ اداکرتے ہیں پھربھی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ادانہ کریں تب بھی لوگوں کوخبر ہوہی جائے گی۔اس کے برخلاف روزہ ہے جس کا گواہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہوتاہے اس کے سوا کسی کے سامنے اس کی حقیقت نہیں کھل سکتی۔ ایک شخص سب کے ساتھ مل بیٹھکر سحری کھاتاہے اور افطارتک ظاہر ی طور پر کچھ نہ کھائے مگر چھپ چھپا کر پانی پی لے، یا کچھ کھا لے تو اللہ کے سوا کسی کو اسکی خبر نہیں ہوسکتی، سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں صاحب روزہ سے ہے، لیکن حقیقت میں وہ روزہ سے نہیں ہوتا۔ روزہ دارکو اللہ پر اور آخرت پر اس قدر یقین ہوتاہے کہ سخت گرمی میں بھی جب حلق خشک ہو جاتاہے، پیاس کی شدت اسے بے چین کرتی ہے، بھوک سے وہ تڑپتاہے اسی حالت میں اس کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہوتی ہیں اگر کھابھی لے تو کون اسے دیکھ رہاہے؟ لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ہاتھ نہیں لگاتااور دل میں یہ کہتاہے کہ اگر مجھے اس بندکوٹھری میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، ہم اوروں کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نظروں سے کیسے بچ پائیں گے جو باریک بیں ہے، جس کی نگاہیں ہرچیز کو گھیرے ہوئی ہیں،اسی یقین کی بنیادپر اللہ کی حکموں کو بجالاتاہے سحرسے لیکر سورج کے ڈوبنے تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکتاہے صرف اس بنیاد پرکہ اس کا رب اس سے یہی چاہتاہے۔
 روزہ کا مقصد تقوی کی صفت سے اپنے آپ کو آراستہ کرناہے اور اللہ کا بندہ بننے او ر اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے لئے بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرنا،جائز خواہشات سے اجتناب کرناانسان کوتقویٰ کی نعمت سے مالامال کرتاہے، جو دنیا اورآخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور انسان کے اندراس کے ذریعہ ایسی صلاحتیں پیداہوتی ہیں جو انسان کو ہدایت سے فیض یاب ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے سب سے پہلی شرط جو بیان کی ہے وہ تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”ھدی للمتقین“ ہدایت متقیوں کے لئے ہے (البقرہ:۲) اور روزہ انسان کے اندروہ تقوی پیداکرتاہے جو ہدایت ربانی کے لئے مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ”لعلکم تتقون“ تم پر روزہ فرض کیاگیا تاکہ تم متقی وپرہیز گار بن جاؤ(البقرہ:۳۸۱)۔
چنانچہ جو روزہ کے مقصدکو سمجھے گا اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تووہ تھوڑا یا بہت متقی ضرور بن جائے گا۔ لیکن جو مقصد کو نہ سمجھے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کے لئے بھوک پیاس رہنے کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
لہذاہمیں چاہئے کہ روزہ کے مقاصد کوسامنے رکھتے ہوئے روزہ رکھیں،اللہ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں، روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنے، غیبت اور چغل خوری سے اجتناب کریں، نیکیوں میں کثرت کریں نوافل اور قرآن کریم کی تلاوت کواپنامعمول بنائیں۔
 اللہ ہمیں رمضان سے صحیح طور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمائے۔

اتوار, اپریل 10, 2022

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

#مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!

تحریر:#محمداطہرالقاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار
6/رمضان المبارک 1443
یوم الجمعہ
____________________________
مدارس اسلامیہ کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے کیونکہ پندرہ سو سال پہلے جس آخری دین کو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفادار و جاں نثار ساتھی حضرات صحابہ کے درمیان چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے وہ دین بعینہٖ اسی شکل وصورت میں اگر آج تک زندہ ہے تو یہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی بدولت ہے۔گویا مدارس اسلامیہ ایسا عالم گیر نظام تعلیم وتربیت ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔یعنی صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کی تبلیغ کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن ان ہی ٹوٹے پھوٹے مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کے ذریعے پورے عالم میں جاری و ساری ہے۔صحابہ کرام کے بعد تابعین،تبع تابعین،محدثین،ائمہ مجتہدین اور فقہاء عظام کے واسطے سے یہ دین ہمارے ملک بھارت میں بھی پہنچا۔ہم نے جب آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دین ہمارے اردگرد چاروں طرف مدارس اسلامیہ کی شکل میں جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور ہرجگہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔جبکہ سقوطِ سلطنتِ مغلیہ کے بعد یہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب محسوس ہوا کہ اب یہاں سے دین مکمل رخصت ہوجائے گا کیونکہ صف اول کے مجاہدین آزادی ان ہی مدارس اسلامیہ سے وابستہ اکابر علماء کرام تھے جنہیں جہاد آزادی وطن کی پاداش میں ظالم و جابر انگریزوں نے چن چن کر تختہ دار پر چڑھا دیا تھا اور صدیوں سے آباد مدارسِ اسلامیہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔لیکن قربان جائیے اکابرین علماء دیوبند پر جنہوں نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ اگر یہاں دین زندہ رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے تو فوری طور پر مدارس اسلامیہ کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔چنانچہ بےسروسامانی کے عالم میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی نہج پر ان کے سچے جانشینوں نے اس طرح دینی ادارے قائم کئے کہ الحمد للّٰہ ملک میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیل گئے؛گاؤں گاؤں قریہ قریہ نور نبوت کی شمعوں سے منور ہونے لگا اور آج نوبت بایں جا رسید کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کیا گیا اللہ کا یہ سچا دین،چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کی مختلف شکلوں میں ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تسبیح کے خوبصورت دانوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط و منظم ہوکر تعلیم وتربیت کی نوارنی شمعیں جلا رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے اور یہ اضافہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اس آخری دین کو کائنات میں پیدا ہونے والے آخری فرد تک پہنچنا ہے۔
یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔(الصف/8)وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس سے وابستہ علماء کرام نے دین محمدی کی آبیاری میں خود کو اس طرح وقف کرلیا کہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن دیوانوں اور فاقہ کشوں کی یہ مخلص جماعت رفتار زمانہ کے ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے بہت پیچھے رہ گئی۔اس طرح مسلمانوں کی نسل نو کی تعلیم وتربیت اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ میں وہ اپنی ہی دنیاوی ترقی بھول گئی۔جسموں پر پھٹے پرانے کپڑے،موٹے جھوٹے کھانے،آسان و سادہ طرز زندگی،خواہشات پر چلنے کے بجائے ضروریات کی تکمیل پر قناعت،خاموش شب و روز،سماجی و معاشرتی زندگی میں اس طرح اجنبیت کہ نہ کوئی غم خوار و غمگسار،نہ آؤ بھاؤ تاؤ،نہ ہٹو بچو کے نعرے،نہ ہلا ہنگامہ،نہ چیلے چپاٹے اور نہ یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے؛بس ملا کی دوڑ مدرسہ یا مسجد تک۔یعنی ایک ہی دھن مسجد،مکتب اور مدرسہ۔سخت لو والی گرمی ہو یا کپکپادینے والی ٹھنڈک یا پھر جھوم جھوم کر برسنے والی برسات؛ان اہل مدارس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کی نسل نو کو دینی تعلیم وتربیت سے کس طرح آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت کس طرح کی جائے!
مدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کرام خواہ وہ طلبہ ہوں یا اساتذہ یا پھر منتظمین ان کی اس دھن اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دوطبقے بن گئے،ایک طبقہ مدارس سے وابستہ علماء کرام کا اور دوسرا اصحابِ ثروت و معاونین کا۔الحمد للہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے مل کر مدارس اسلامیہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔البتہ اسی دوسرے طبقہ میں سے دین بیزاروں کا ایک تیسرا طبقہ اب ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جن کی نظروں میں نہ تو ان مدارس کی کوئی اہمیت و افادیت ہے اور نہ ہی ان سے وابستہ علماء کرام کی کوئی عظمت و رفعت۔اس بےرخی اور دین بیزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے خون جگر سے سینچے گئے یہی مدارس خود اپنی ہی برادری کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی تعداد ایک مٹھی بھر جماعت سے زیادہ نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ  قوم مسلم کا محض چار فیصد حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور فی الوقت انتہائی کس مپرسی کے مراحل سے گذررہے ہیں۔بالخصوص عالمی وبا کورونا اور اس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے جاری ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
مدارس اسلامیہ پر آنے والی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ہزاروں لاکھوں معصوم بچے ان مدارس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر قوم مسلم کی دینی خدمات انجام دینے کے اہل ہورہے تھے؛اب وہ مدارس کا رخ کرنے کے بجائے دہلی ممبئی بنگلور و ہریانہ کام کرنے کے لئے ہجرت کررہےہیں جبکہ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن علماء و حفاظ کے کاندھوں پر ملت کے ان نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمےداریاں تھیں وہ مسلسل ان حالات سے مایوس ہو کر چھوٹے موٹے کاروبار یا محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح یہ طبقہ بنگلور و حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہےاور اپنے وقار و عہدہ کو بھول کر ایک عام مسلمان کے طرز زندگی پر گامزن ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طبقہ علماء کا کاروبار یا محنت مزدوری کرنا نہ تو ناجائز ہے اور نہ ہی عیب کی بات ہے لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان ہی کے ناتواں کاندھوں پر ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ طبقہ لگاتار اسی روش پر قائم رہا تو آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل میں قوم مسلم کے معصوموں کے ایمان و عقائد کا کیا حال ہوگا!
الحاصل اسلام دشمن طاقتوں کے اپنے خطرناک ایجنڈے اور عزائم ہیں اور جن اصحابِ ثروت مسلمانوں کو  اپنے ان مدارس کا محافظ رہنا چاہئے ان کی جانب سے الگ اشکالات و اعتراضات بلکہ بے رخی و بیزاری ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ کوئی رفتار زمانہ کے ساتھ اداروں کی جدید کاری چاہتاہے تو کسی کو ان مدارس کے طلبہ نکمے و فرسودہ نظر آتے ہیں تو کسی کی نظر میں مدارس کی انتظامیہ خائن و مشکوک ہے۔اس لئے ان کے کام کاج پر انہیں اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ موجودہ مدارس اور اہل مدارس میں بھی بہت ساری کمیاں اور خامیاں ہیں اور ماضی کی طرح کماحقہ وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔لیکن انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں جب اہل مدارس کی کمیوں اور خامیوں اور دوسرے میں اس کی نافعیت و افادیت کو تولا جائے گا تو لامحالہ ان مدارس کی افادیت و نافعیت کا پلڑا بھاری پڑجائے گا۔
جب سالم لکڑیوں سے ٹیبل کرسی بنائی جاتی ہے تو لکڑیوں کا ایک حصہ آرے کی نوکوں میں پس کر برباد ہوجاتاہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی یا لیٹنے کے لئے پلنگ بھی نہیں مل سکے گی۔ٹھیک اسی طرح عمارت کی تعمیر میں اگر بعض سالم اینٹیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گی تو خوبصورت محل کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکےگی یا پھر درزی مہنگے کپڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس پر سلائی نہیں کرےگا تو آپ عمدہ کپڑے اپنے جسموں پر زیب تن بھی نہیں کرسکیں گے۔تو کسی بھی چیز کا سوفیصد حصہ مکمل کارآمد کبھی نہیں ہوتا،کچھ نہ کچھ حصہ نکما یا ضائع ہوجاتا ہے۔لیکن ان ہی نکمے اور ضائع شدہ حصوں کی بدولت بقیہ حصے کارآمد و خوبصورت بناکرتے ہیں۔
الغرض اپنی تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود مدارس اسلامیہ ہی کا نظام ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن اگر زندہ ہے تو بخدا یہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے مطعون مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی دین ہے۔
تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ پرستی کے عروج اور کمرتوڑ مہنگائی کے درمیان آخر کس طرح ہم موجودہ یا آنے والی اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ کرسکتے ہیں؟
تو جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں جال کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کو پوری قوت کے ساتھ سنبھالا دیا جائے،ان کی کمیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر دور کیا جائے،ان کی تعمیر وترقی میں اپنا موثر کردار ادا کیا جائے،ان سے وابستہ علماء و منتظمین کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے زخموں پر ایک شفیق ڈاکٹر کی طرح مرہم پٹی کی جائے،انہیں مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکالا جائے،ان کی بھرپور حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے اور ادارے کے ساتھ ان کی ذاتی ضروریات تک کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ داد و دہش اور عزت و تکریم کا معاملہ کیا جائے۔آخر ا ہلِ ثروت اپنے گھربار کی ایک ایک شادی پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تو مہمانانِ رسول اور وراثت نبوی کے علم برداروں پر اپنا سینہ کشادہ کیوں نہیں کرسکتے!!!
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت پذیر ہے،جلد ہی دوسرا عشرہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور پھر تیسرا عشرہ بھی آجائے گا اور یوں رمضان المبارک ایک سال کے لئے ہم سے پھر رخصت ہوجائےگا۔کل کو کون زندہ رہے گا اور کس کو چار لوگ مل کر قبرستان میں دفن کرآئیں گے۔کل تو کل ہے پل کی خبر نہیں ہے۔قبل اس کے کہ ہم کف افسوس ملیں دیگر تمام تر عبادات کے ساتھ مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام،ائمہ عظام و حفاظ کرام کے ساتھ خصوصی شفقت و مروت کا ایسا مظاہرہ کرلیں کہ خدا بھی خوش ہوجائے اور جب روضہ رسول میں ہمارے ان خوبصورت اعمال کی پیشی ہو تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ بھی ہم سے خوش ہو جائے!

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک __پیغام مؤمنوں کے لیے رحمتوں کا ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
رمضان کا مہینہ آگیا، ہر سو رحمت کی بارش شروع ہو ئی ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس باران رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، جنہوں نے اس ماہ میں اپنی اخروی زندگی کو بنانے اور دنیاوی زندگی کو صحیح سمت اور صحیح ڈگر پر گامزن کرنے کے لیے کمر کس لیا ہے ، رحمت کے اثرات مسجدوں میں بھی نظر آتے ہیں، اور بازاروں میں بھی ، رونقیں دونوں جگہ ہوتی ہیں، کشش ہر دو میں ہوتی ہے، جن کے دل اللہ کی طرف مائل ہیں اپنی زندگی میں فوز وفلاح چاہتے ہیں، اور آخرت میں جنت کے طالب ہیں، ان کی توجہ مسجدوں اور اعمال خیر کی طرف ہوتی ہے، بازار میں ان کا وقت ضرورت کے مطابق ہی گذرتا ہے ، انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت یاد رہتا ہے کہ روئے زمین پر مسجد سب سے اچھی جگہ او ربازارسب سے بُری جگہ ہے ، اس احساس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ان کا بازار جانا ہوتا ہے ، لیکن دل مسجد میں ہی اٹکا ہوتا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہوتا ہے اور رحمت خدا وندی انہیں اس ماہ میں خصوصیت سے شرابور کردیتی ہے ، وہ رمضان کے پہلے عشرہ کا سفر حصول رحمت کے لیے کرتے ہیں، دوسرے عشرہ میں انہیں مغفرت کا مژدہ ملتاہے اور اخیر عشرہ میں انہیں جہنم سے گلو خلاصی کا پروانہ مل جاتا ہے ، مؤمن کا مطلوب ومقصود یہی  تو ہے ۔
 اس بابرکت مہینے میں بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن پر مسلسل ہو رہی باران رحمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، لہو ولعب کی مشغولیات میں کوئی کمی نہیں ہوتی، نزول رحمت اور شیطان کے پابند سلاسل ہونے کے با وجود ان کے اعمال اور حرکات وسکنات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ حسب سابق نافرمانیٔ الٰہی میں لگے ہوتے ہیں ، ان کے پاس دل ہوتا ہے ، لیکن سمجھنے کی قوت نہیں ہوتی ، انہیں قوت سماعت ملی ہوتی ہے ، لیکن وہ اچھی باتیں سننے سے محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس آنکھیں ہوتی ہیں، لیکن وہ صحیح چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ، ان کی ذات پر اس باران رحمت کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتے ہیں، زیادہ سخت، اس لیے کہ بعض پتھر سے تو پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، نہریں نکلتی ہیں، وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن ان لوگوں کے دل کے سوتے ایسے خشک ہوتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے اور ان کے دل خوف خدا سے نہیں لرزتے ، اور وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ موت انہیں آ لیتی ہے، او روہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے ایندھن بن جاتے ہیں، اللہ رب العزت سے ایسی زندگی سے پناہ چاہنی چاہیے، اور کوشش آخری حد تک اس کی کرنی چاہیے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کو رو دھو کر منالیں۔
 کاغذ پر بہت سے حروف ونقوش ابھرے ہوتے ہیں، ان کے صاف کرنے کے لیے ہم ربر کا استعمال کرتے ہیں،تو کاغذ صاف وشفاف ہوجاتا ہے اور ہمارے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم اس کا غذ کو پھر سے کام میں لاکر اپنی من پسند چیزیں لکھ سکیں ، یہی حال تو بہ واستغفار کا ہے ، ہماری بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے ہمارے دل پر گرد جم گئی ہے؛ بلکہ متواتر اور مسلسل گناہ کی وجہ سے یہ کالا ہو گیا ہے ۔اس پر کوئی دوسری تحریر نہیں اُگ پا رہی ہے، ضرورت ہے دل کی سیاہی کی صفائی کی، جب تک یہ سیاہی دور نہیں ہوگی ، گناہ کے اثرات ختم نہیں ہوں گے ، طاعت وبندگی کے حروف اُگانے کے لیے پہلے اس سیاہی کو صاف کرنا ہوگا، توبہ استغفار، گناہوں پر ندامت اس ربر کی طرح ہے ، جس سے نا پسندیدہ الفاظ وحروف کو مٹایا جا سکتا ہے ، اللہ بھی کیسا غفور الرحیم ہے ، بندہ جب تو بہ استغفار کرتا ہے ، ندامت کے آنسو بہاتا ہے ، اللہ سے اچھی امید رکھتا ہے تو اللہ اس کو ایسا بنا دیتے ہیں، جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں تھا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں ہے ، اس توبہ پر رحمت خدا وندی کو ایسا جو ش آتا ہے کہ وہ گناہوں سے تو پاک کر ہی دیتاہے ، ان گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ، جو اس نے توبہ سے قبل کیے تھے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مراحم خسروانہ کا لفظ انسانوں پر مجازی معنی میں بولا جاتا ہے ، حقیقی مرحمت کا تعلق تو اللہ رب العزت کی ذات سے ہے ، دوسرا کوئی ایسا ہوہی نہیں سکتا، کیوں کہ اللہ کی کٹیگری کا دوسرا ہے ہی نہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوا اَحَد۔ 
 رمضان المبارک کے اس مہینے میں روزہ سب سے بڑی عبادت ہے، جو پورے شرعی تقاضوں کے ساتھ بند ے نے رکھا ہو ۔ تلاوت قرآن، تہجد کا اہتمام ، ذکر واذکار کی کثرت، تراویح کی پابندی، فرض نمازوں کی با جماعت ادائیگی ، غرباء ومساکین کا خیال ، جھگڑے لڑائی سے اجتناب اور پر ہیز ان چیزوں میں سے ہے جس سے روزہ ، روزہ بنتا ہے ، پورے ماہ اس طرح کا روزہ رکھیے کہ سال بھر نیکیوں کی طرف دل مائل رہے اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوجائے۔
لیکن بعض بدبخت وہ بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب اس مہینے میں بھی شیطان کے نرغے میں ہوتے ہیں، شیطان پابند سلاسل ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی درجہ میں انسانوں پر باقی رہتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا نفس امارہ ہی شیطان بن جاتا ہے، اور اس ماہ میں چل رہی باد بہاری سے وہ متاثر نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جس طرح رحمت کی برسات بھی اُسّراور بنجر زمینوں میں ہر یالی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے، وہ حسب سابق مسجد کا رخ نہیں کرتے ، روزہ نہیں رکھتے اور بہت بے شرمی سے ہوٹلوں میں کھاتے رہتے ہیں ، پہلے شرم ایسوں کو آتی تھی، ان کے شرم کی حفاظت کے لیے ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے تھے اور ایسے لوگ چھپ کر کھا یا کرتے تھے، اب یہ شرم ختم ہو گئی ہے ، گھر اور باہر سب جگہ ایسے روزہ خوروں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے، گو اب بھی بعض ہوٹلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں، لیکن دن بدن اس میں کمی آتی جا رہی ہے، جو اچھی علامت نہیں ہے ۔
ان روزہ خوروں سے پوچھیے کہ سال کے گیارہ مہینے تو کھاتے ہی ہو، ایک مہینہ دن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول اور فرض کی ادائیگی کے جذبے سے نہ کھاؤ تو کیا فرق پڑتا ہے تو بڑی لجاجت سے کہیں گے کہ حضرت! طبیعت خراب رہتی ہے، ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ روزہ نہ رکھوں؛ اس لیے مجبوری ہے، یقینا مریضوں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ صحت یابی کے بعد قضاء رکھیں ، لیکن عموما یہ بیماری فرضی ہوتی ہے اوررمضان میں روزہ خوری کے بعد کبھی روزے کی قضا کا خیال بھی نہیں آتا، حالاں کہ روزہ عبادت بھی ہے اور مختلف امراض کا علاج بھی ۔
 جدید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے، چوں کہ اعضاء رئیسہ کو روزے کی حالت میں آرام ملتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں ان کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان میں معدہ کے مریض کو بھی اسہال کی شکایت نہیں ہوتی ، پیٹ خراب نہیں ہوتا ، ہارٹ کے مریضوں میں دل کی بے چینی اور سانس پھولنے کی تکلیف کم ہوجاتی ہے، دفاع کی صلاحیت بڑھ جانے کی وجہ سے جسمانی کھچاؤ اور ڈپریشن سے بھی نجات مل جاتی ہے، روزہ خوروں کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مریضوں کی ہے ، اور انہیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہر دو گھنٹے پر کچھ نہ کچھ کھانا ہوتا ہے، یہ عذر صحیح ہے، لیکن اگر آپ کی قوت ارادی مضبوط ہے اور اللہ کے فضل پر بھروسہ ہے اور آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہوگی اور شوگر کنٹرول ہو جائے گا۔
 ضرورت قوت ارادی کی ہے، آپ روزہ نہیں رکھنا چاہتے تو آپ کا نفس جواز کے لیے دسیوں اسباب ومحرکات پیش کردے گا ، اور اگر آپ رکھنا چاہتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ پورے مہینے آپ کو روزہ رکھنے پر خوش دلی سے تیار کردے گا۔ 
حال ہی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق روزہ کینسر جیسے موذی مرض کی روک تھام میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے، اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گلوکوز کی کمی ہوجاتی ہے جسم کو جب گلوکوز نہیں ملتا ہے تو قدرتی طور پر چربی کا استعمال شروع کر دیتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں پروٹین چھوٹے ذرات کی شکل میں بکھرنے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، کینسر کے خلیات اور ٹشوز اپنی نشو نما کے لیے ان ذرات کا سہارا لیتے ہیں، روزے کی حالت میں یہ ذرات نہیں ملتے تو کینسر کی نشو نما نہیں ہو پاتی ، روزہ موٹا پے کے مریضوں کے لیے بھی نعمت ہے، اس سے وزن کم ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والے کو ڈائٹنگ یعنی غذا میں کمی کی ضرورت نہیں پڑتی ، جاپان کے ایک ڈاکٹر ٹیسدایوشی ہیسی کے مطابق روزہ رکھنے سے بانجھ پن دور ہوجاتا ہے ، اس کا تجربہ اس نے چھ خواتین پر کیا ، جن میں سے چار خواتین ، تین مہینے کے ا ندر حاملہ ہو گئیں اور انہوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا ، اسی طرح نفسیاتی مریضوں کے لیے بھی روزہ رکھنا مفید ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور بندہ کی توجہ ہمہ وقت مولیٰ کی طرف ہوتی ہے جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے۔
مختصر یہ کہ روزہ خوری عام حالات میں معصیت ہے، سوائے ان لوگوں کے جو واقعتا مریض ہیں، جو عورتیں حاملہ ہیں، جو دودھ پلا رہی ہیں اور جو لوگ مسافر ہیں ان کو شریعت نے روزہ مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مؤخر کرنا اور چیز ہے اور سرے سے روزہ نہ رکھنا بالکل دوسری چیز ، اس فرق کو ہمیں ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ، سِرے سے روزہ نہ رکھنا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کے لیے کوئی کفارہ نہیں ہے۔
 سن ایاس کو پہونچا ہوا شخص جو روزہ کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کو شریعت نے روزہ کے بدلے بعض حالتوں میں فدیہ دے کر اس کی تلافی کی اجازت دی ہے ، ان کے علاوہ جو لوگ روزہ خوری کرتے ہیں، وہ اللہ سے بغاوت کرتے ہیں، او راللہ کا باغی کبھی کامیابی وکامرانی سے سر فراز نہیں ہو سکتا ، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہوٹل کے گیٹ پر پردہ کرکے کھانے اورڈاکٹروں کے فرضی نسخے دکھاکرآپ لوگوں کو تومطمئن کر سکتے ہیں، لیکن اس مالک کائنات کو جو دلوں کے احوال کو جانتا ہے اور جس کے نزدیک جلوت کے تماشے اور خلوت کی بے راہ رویوں کو چھپا یا نہیں جا سکتا، اس سے بچ کر کہاں جائیے گا اور اس کو کس طرح دھوکہ دے پائیے گا۔
 اللہ نے اپنے کرم سے شیطان کو پابند سلاسل کر دیا ہے، تاکہ خیر کی طرف لوگ متوجہ ہوں اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑیں ، لیکن اگر ہم نے اپنے نفس امارہ کو پابند سلاسل نہیں کیا تو وہ اس پورے ماہ کی برکت ، رحمت اور مغفرت کو کھا جائے گا، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے، رمضان کے اس بابرکت مہینے میں عہد کیجئے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لا ئیں گے ، جس سے ہمارا مولیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم حضرت جبرئیل کی اس وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ جس پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اترتے ہوئے آمین کہی تھی ۔

ہفتہ, اپریل 09, 2022

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*
تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے کہ؛ اللہ کے لیے مجھ پر رحم کیجیے،میں ثناء نہیں پڑھ پاتا ہوں اور نہ رکوع وسجود کی تسبیح مکمل ہوپاتی ہے۔لہذا تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا رکیےتاکہ ثنا پڑھ لوں، اور رکوع وسجدے میں کچھ دیر ٹھہر جائیے تاکہ تسبیح تین مرتبہ مکمل کرسکوں۔
یہ ایک نمازی کی طرف سے کی گئی گذارش ہے مگریہ ہر نمازی کے دل کی آوازہے۔
اس تعلق سے واقعی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے۔
ایک امام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے کہ نماز میں نمازی کے لیےامام تخفیف کرے، اور نماز کو ہلکی پڑھائے،بیماروں ،کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال کرے،یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
تراویح کی نماز میں افسوس کی بات تو یہ ہےکہ جہاں تخفیف ہونی چاہئے وہاں معاملہ لمبا اور طویل کردیا جاتا ہے، اور جہاں گنجائش نہیں ہے وہیں تخفیف کردی جاتی ہے۔
تخفیف زیادہ قرأت اور لمبی رکعت میں ہونی چاہئے مگر وہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھاجاتا ہے تاکہ جلد قرآن مکمل ہوجائے اور نماز کے مکمل ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ہے۔جماعت کے ساتھ اس نماز کو پڑھتے ہیں مگر جماعت کا مقصدبھی فوت ہورہا ہے۔فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جماعت والی نماز میں تعداد کی کثرت زیادہ قرأت اور لمبی رکعت سے افضل ہے۔پھر یہ مذکورہ حدیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی بھی ہے کہ نمازی کے لیے اس تراویح کی نماز کو مشکل اور سخت بناکر پیش کیا جارہا ہے، بلکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کے طہارت خانے کی طرف ہوا خوری کررہے ہوتے ہیں، جب امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں توایسے لوگ نماز میں شامل ہوتے ہیں،یہ عمل کسی بھی نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے،یہ منافقوں والا عمل ہے،یہ سب کچھ اپنی جگہ پر مگر کہیں نہ کہیں ایک امام کی جوابدہی بھی قائم ہوتی ہے کہ اس کی نوبت کیوں آرہی ہے کہ لوگ نماز کو مشکل سمجھ رہے ہیں، صحیح جگہ نماز میں تخفیف کی یہی ہے کہ قرآن نمازیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھا جائے، جتنی رغبت ہو مقتدیوں کی اتنی ہی تلاوت کی جائے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ اتنی رعایت بھی نہ کی جائے کہ پورے رمضان میں ایک ختم بھی نہ ہوسکے۔
بلکہ تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں رمضان کی شب میں افضل ہے۔آج کی تاریخ میں اس کا مزاج ومذاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ افضل وقت کو پانے کا ذریعہ بھی ہوگا اور جماعت کی نماز کا مقصد بھی اس سےمکمل حاصل ہوسکےگا اور آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل بھی ہوگی۔ یہ کرنے کی چیز ہے اسے نہ کرکے نماز میں جہاں کمی نہیں کرسکتے ہیں، وہاں تخفیف کا عمل نماز تراویح میں ہورہی ہےجویہ سنت شریعت سے ہٹی ہوئی یے، ایک امام قرآن مکمل کرنے کی فکر میں نماز ادھوری پڑھتےہیں اور پڑھاتے ہیں، یہ واقعی افسوسناک امر ہے۔
نماز میں ثناء پڑھنا مسنون ہے۔رکوع اور سجود کی تسبیح تین بار پڑھنا یہ بھی مسنون ہے۔تراویح کی نماز بھی سنت ہے،ایک سنت کے لیے دوسری سنت کو چھوڑنا کبھی جائز نہیں ہے۔
یہاں پر حیرت وتعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد مقتدی کو ثنا پڑھنے کا موقع نصیب نہیں ہورہا ہے وہاں امام صاحب کو پھر تعوذ اور بسم اللہ کا وقت کیسے دستیاب ہورہا ہے؟
جبکہ قرینہ اور قیاس تو صاف یہ کہتا ہے کہ بغیر تعوذ اور بسم اللہ کے قرأت ہورہی ہے، اس کی بھی حیثیت نماز میں سنت کی ہے،فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو گنہ گار کہا گیا ہے اور اس کی نماز کو کراہت والی نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہےکہ کچھ حفاظ سے جلدی پڑھنے کے چکر میں قرآن کے حروف کٹتے ہیں، یہ عمل اگر جان بوجھ کر ہورہا ہے تو نماز فاسد ہورہی ہے۔فقہ کی کتابوں میں لکنت کی وجہ سے اگر حروف کٹتے ہوں تو گنجائش لکھی گئی ہے بصورت دیگر کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...