Powered By Blogger

پیر, اپریل 18, 2022

مہاراشٹر میں لاؤڈ اسپیکرزکےلۓ نئ ہدایات جاری کی جائیں گی دلیپ ولسے پاٹل

مہاراشٹر میں لاؤڈ اسپیکرزکےلۓ نئ ہدایات جاری کی جائیں گی دلیپ ولسے پاٹل

مسجد سے 100 میٹر کے دائرے میں اور اذان سے 15 منٹ پہلے اور بعد میں ہنومان چالیسہ پڑھنے پر پابندی

ممبئی، 18 اپریل (ہ س)۔

ریاستی وزیر داخلہ دلیپ و لسے پاٹل نے کہا کہ مہاراشٹر میں لاو¿ڈ سپیکر کے استعمال کے لیے اگلے دو دنوں میں ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اس گائیڈ لائن کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے ڈی جی پی کو مذہبی منافرت پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ پاٹل نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ مہاراشٹر کے مالوانی، مانکھرد، گوریگاو¿ں اور امراوتی اضلاع میں مذہبی منافرت کی وجہ سے چار مقامات پر کشیدگی پھیل گئی تھی لیکن پولیس نے انہیں فوری طور پر قابو میں کر لیا۔ اسی لیے آج انہوں نے سینئر پولیس افسران کے ساتھ میٹنگ کی اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے بھی اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ جس کے بعد محکمہ داخلہ نے لاو¿ڈ اسپیکر کے استعمال کے لیے نئی گائیڈ لائن جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت ریاست کے تمام مذہبی مقامات کے لیے لاو¿ڈ اسپیکر کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ 4 مئی سے اگر کوئی مسجد کے سامنے ہنومان چالیسہ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پولیس کی اجازت سے 100 میٹر کے فاصلے پر ہنومان چالیسہ پڑھنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہنومان چالیسہ کی اذان سے 15 منٹ پہلے سے لے کر اذان ختم ہونے کے بعد 15 منٹ تک پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ایک ماہ سے ایک سال تک قید یا چھ ماہ تک قید کی سزا کا انتظام ہے۔ پاٹل نے کہا کہ پولیس کو ہر وقت چوکس رہنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

عظمت والا مہینہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عظمت والا مہینہ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سال مہینوں میں، مہینے ہفتوں میں، ہفتے دنوں میں گذر گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا مبارک مہینہ پھر ایک بار اپنی رحمتوں، برکتوں اور تجلیات ربانی کے ساتھ سایہ فگن ہوگیا، اس ماہ کے ابتداسے ہی روحانیت ونورانیت کی بارش ہونے لگتی ہے، پھر دلوں پر سکینت طاری ہو جاتی ہے، ایمان میں تازگی و شگفتگی اور نیکی کے کاموں میں نشاط کی لہر دوڑ جاتی ہے، مسجدیں ذکر و تسبیح اور نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، ادھر اللہ کی طرف سے جنت کے دروازے کھول دئے جا تے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جا تے ہیں، اور سر کش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جا تا ہے، پھر بندہ ان اعمال خیر اور روزہ کی برکت سے اللہ سے اتنا قرب حاصل کر لیتا  ہے کہ اللہ جل شانہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی خاص رحمت نازل فرماتے ہیں، خطاؤں کو معاف کرتے ہیں، دعاؤں کو قبول کرتے ہیں اور رحمت و مغفرت کے مژدہ کے ساتھ آگ سے نجات کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ حدیث  پاک میں فرمایا گیا کہ جس نے ایمان کے ساتھ  اللہ سے اجر و ثواب کی امید پر ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ تما م گناہ بخش دیے گئے۔”من صام رمضان ایماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔“ نبوت کی دور رس  نگاہ نے روزہ کے لیے دو شرطیں بیان کی ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ روزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے رکھا جا ئے، دوسری شرط یہ ہے کہ روزہ دار روزہ کی حالت میں قدم قدم پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔کہ کہیں اس سے شریعت کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ہے، اس لیے کہ اللہ کے نزدیک صرف وہ روزہ مقبول ہے، جو ایمان و احتساب کے جذبے کے ساتھ رکھا جائے۔ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ روزہ بندے اور پروردگار کے درمیان ایک راز ہے، جسے صرف وہی جانتا ہے کہ بندے نے جذبات کے تلاطم سے اپنے کو بچایا، دل وزبان کو محفوظ رکھا، بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، لذیذ کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر نہیں کھاتا، ٹھنڈے میٹھے مشروب موجود ہیں، مگر اس کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا، کیوں کہ بندے نے اپنے مالک سے خاموش عہد و پیمان کیا ہے کہ ہم تیری رضا و خوشنودی کی خاطر حلال وپاک غذائیں بھی تیری اجازت اورحکم کے بغیر نہیں کھا سکتے، تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ تیرے حرام کیے ہوئے  کاموں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں، جب بندہ تقویٰ کے اس معیار پر پہونچ جا تا ہے تو قرآن اس کو متقی و پرہیزگار کہتا ہے، اور اللہ کی طرف سے منادی اعلان کرتا ہے کہ جاؤ ہم نے تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو معاف کر دیا، بیہقی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے آداب کی رعایت کی اور جن چیزوں سے بچنا چاہئے ان سے بچتا رہا تو یہ روزے گذشتہ زندگی کا کفارہ ہو جائیں گے۔ گویا یہ مقدس مہینہ خالق کائنات کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے، پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس با برکت مہینہ اور موسم بہار کی قدر کی، اپنی زندگی کی قیمت سمجھی اور اس مہینہ کو ذکر و تلاوت، عبادت و ریاضت، صبر واستقامت اور زہد وطاعت میں گذارا، اور بد نصیب ہیں وہ لوگ، جنہوں نے اس ماہ مبارک کو فضول گوئی، بد کلامی اور لغویات میں گنوا دیا، حدیث میں فرمایا گیا: ”من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃٌفی ان یدع طعامہ و شرابہ۔“ جو شخص روزہ رکھ کر بیہودہ باتیں اور لغو حرکتیں نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ روزہ داروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو بات بات پر غصہ آتا ہے، مزاج میں چڑ چڑے پن کی کیفیت پید اہو جاتی ہے،  یہ بات اچھی نہیں، روزہ بندگی، شکستگی اور درماندگی کی چیز ہے، اس میں تواضع پیدا ہونی چاہئے، یہ روزہ کے منافی عمل ہے، اور یہ نہ دیکھئے کہ گناہ کتنا چھوٹا ہے، بلکہ یہ غور کرنے کا خوگر بنائیے کہ جس کی نا فرمانی کی جا رہی ہے، وہ کتنا بڑا ہے، لہٰذا وہ روزہ جو تقویٰ کی روح سے خالی ہو، اللہ کو ناراض کرنے کا باعث ہو تا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے، جس میں ایک محدود وقت تک کھانے پینے اور خواہشات نفس سے پرہیز کیا جا تا ہے، لہٰذا ضروری ہوا کہ جہاں سے اس کی ابتداء ہو وہاں بھی کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا عمل پایا جائے تا کہ کھانے کے بعد سے روزہ شروع ہواور دوسرے کھانے پر ختم ہو جائے۔ جس کھانے سے روزہ کی ابتدا ہوتی ہے، اس کو سحری کھتے ہیں، اس کے ذریعہ انسان کو روزہ رکھنے میں طاقت ملتی ہے اور حدیث میں اس کھانے کو برکت کا کھانا کہا گیا ہے۔ جب شام کے وقت روزہ مکمل ہو جائے تو افطار کے ذریعہ روزہ کھولا جائے، مگر وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہو تا ہے، جب کوئی بندہ احساس ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے دست دراز ہو تا ہے تو اللہ اس کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزادی عطا ہو تی ہے۔ اس ماہ مبارک میں دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے، دعاء ماثورہ، کلمہئ توحید کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے۔اس مبارک ماہ کو قرآن سے خاص  نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن اتارا گیا، اس لیے قرآن کی تلاوت کا بھی خصوصی  طور پر اہتمام کرنا چاہئے، اور اس مہینہ کی برکتوں کو پوری طرح وصول کرنا چاہئے۔اس کے ایک لمحہ کی قدر کیجئے اور اللہ سے معافی کے طلب گار بنے رہئے اللہ ہم سب کو اس ماہ مبارک کی قدرکی توفیق بخشے۔

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

امراوتی: قومی راجدھانی دہلی کے بعد آندھرا پردیش کے کرنول سے بھی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ شب ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران دو گروپوں کے درمیان پتھراؤ ہوا۔ اس واقعہ میں کم از کم 15 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس نے 20 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ صورت حال مکمل طور پر پرامن ہے۔ قصبے کے ہولاگنڈہ علاقے میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب دو گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ حالات کشیدہ اس وقت ہوئے جب شام کو ایک مسجد کے سامنے سے جلوس نکل رہا تھا۔ چونکہ مسجد میں 'افطار' اور 'نماز' کا وقت تھا، لہذا نمازیوں نے جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا۔

اس کے بعد دونوں طرف تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ دونوں دھڑوں نے نعرے بازی شروع کر دی جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کرنول کے ایس پی سدھیر ریڈی نے کہا "وی ایچ پی نے ہولاگنڈہ میں ہنومان جینتی کی تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس کے منع کرنے کے باوجود جلوس کے دوران ڈی جے کا استعمال کیا گیا۔ جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو پولیس نے ڈی جے کی آواز کم کرنے کو کہا لیکن وہ مسجد کے سامنے رک گئے اور 'جے شری رام' کے نعرے لگانے لگے۔ اس پر پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے 'اللہ ہو اکبر' کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو قابو میں کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جلوس مسجد سے آگے بڑھے۔ تاہم کچھ دور چلنے کے بعد جلوس کے منتظمین نے ڈی جے کی آواز کو تیز کر دیا، جس پر مسلمانوں نے اعتراض ظاہر کیا۔ اس کے کچھ دیر بعد دونوں جانب سے پتھراؤ ہونے لگا۔

پولیس نے واقعے کی ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر 20 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ایس پی نے کہا کہ انہوں نے احتیاط کے طور پر علاقے میں اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آندھرا پردیش کی بی جے پی یونٹ کے صدر سومویر راجو نے جلوس پر مبینہ حملہ کرنے والوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، واقعہ کے پیش نظر ہولاگنڈہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اتوار, اپریل 17, 2022

مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج

 

مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج

نیمچ: سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں کچھ لوگ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کے خلاف نعرے لگاتے نظر آ رہے ہیں۔

درحقیقت جمعہ کو ضلع مسلم اتحاد کمیٹی کے بینر تلے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں کھرگون واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کاروائی کو غلط ٹھہرایا گیا،لیکن اس دوران دیکھا گیا کہ بازار میں کچھ لوگوں نے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کے خلاف نعرے لگائے۔

اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ نیمچ پولیس نے پورے معاملے میں 11 لوگوں کو نامزد کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر آئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت کاروائی کی گئی ہے۔ وہی نوٹس دے کر بانڈ بھرنے کی کاروائی کی گئی ہے۔


ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار

ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

ہندوستانی مسلمان جس پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ایک طرف ملک میں وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو کہ اس ملک کو یرغمال بنا لینا چاہتے ہیں اور ہندوستان جنت نشان کو اپنی فرقہ پرستی اور فسطائیت کی تجربہ گاہ بنا لینا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں کون کیا کھائے پیئے، کیا پہنے اوڑھے، کیسے رہے سہے اور چلے پھرے اس کا فیصلہ خود نہیں بلکہ ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی کے مطابق کرے۔

اب جب کہ بعض جگہوں پر مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں ایک مخصوص مذہبی شناخت کے جھنڈے ان پر لہرا کر اپنی سینہ زوری دکھائی جا رہی ہے، جلسے جلوسوں میں اشتعال انگیز اور منافرت آمیز نعرے لگا کر دریدہ دہنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور ان سب پر ستم یہ کہ پولیس اور سرکار بھی انہیں کا ساتھ دے رہی ہے۔

انتہا یہ کہ ایک معزز جج نے ابھی حال میں یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ اگر مسکرا کر غلط بات بھی کہی جائے تو اس میں قباحت نہیں۔ اب سرکاریں عدلیہ کو نظر انداز کرکے خود اپنے ہاتھ میں قانون لے کر ایک فرقے کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرا رہی ہیں اور ایک ریاست کے وزیر داخلہ نے تو غرور و تکبر کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جن گھروں سے پتھر آئیں گے انہیں پتھروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایک وزیر اعلیٰ نے تو یہ بھی کہہ کہ فسادیوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہم بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ فسادیوں کو بخشا جانا نہیں چاہیے لیکن کون فسادی ہے کون نہیں، اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی نہ کہ وزیر اعلی اور ان کے ماتحت سرکاری کارکنان۔

لیکن اس ماحول میں بھی سول سوسائٹی کے ارکان نے جس ہمت و عزیمت کے ساتھ اس سب کے خلاف آواز اٹھائی وہ قابل تعریف ہے اور اتنا ہی نہیں کرناٹکا کے سابق وزیر اعلیٰ شری یدورپّا جو جنوبی ریاست میں بی جے پی کے عروج کے لئے ہمیشہ ذمہ دار مانے جاتے رہے ہیں، نے کرناٹکا کی حکومت سے کہا ہے کہ مسلمانوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے اور رہنے دیا جائے۔ یہی آواز کرناٹکا کی حکمراں جماعت کے دو ممبرانِ اسمبلی نے بھی اٹھائی ہے۔ اتنا ہی نہیں سابق وزیر اعلی مدھیہ پردیش شری دگوجے سنگھ اور راجستھان کے موجودہ وزیر اعلیٰ شری اشوک گہلوت نے بھی اس یک طرفہ جور و ستم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

لیکن مسلمانوں کی پریشانی یہ ہے کہ انہیں اپنے مخالفوں سے ہی پریشانی نہیں پہنچ رہی ہے بلکہ کچھ ان کے اپنے مہربان بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کا مواد اپنے بیانات کے ذریعے مشتعل کر رہے ہیں جس سے کہ مسلمانوں کے مخالفوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو اسی طرح دشنام اور فساد و عناد کا نشانہ بناتے رہیں۔ اسی طرح کا ایک ویڈیو ہمیں ہمارے بعض غیرمسلم دوستوں نے جن کے سیکولر، محب وطن اور مسلمان دوست ہونے میں کوئی شبہ نہیں، بھیجا ہے جس میں سات کے قریب لوگوں نے اس بات کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ غیرمسلموں کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا درست نہیں ہے۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو غالب ترین مسلم اکثریتی معاشروں میں رہ رہے ہیں اور جو قرآن و سنت سے زیادہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں قرآن و حدیث میں اجازت یا ممانعت کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ ایک عربی شاعر کا بہت عمدہ شعر ہے جس کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ''لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے تو حسن سلوک سے پیش آؤ: ایسا بہت ہوا ہے کہ حسن سلوک نے انسانوں پر راج کیا ہے۔''

قرآن حکیم کی سورہ النحل کی آیت نمبر 90 میں فرمایا گیا ہے کہ ''اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔'' اسی طرح حدیث کی مستند کتاب ترمذی اور مسند احمد میں بھی اللہ کے رسولؐ کے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو زرؓ کو وصیت فرمائی کہ ''جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، گنا ہ کے بعد نیکی کر لیا کرو تاکہ گناہ مٹ جائے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔'' اس حدیث پاک میں آپؐ نے لوگوں کے ساتھ۔۔۔ چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ حسن سلوک کا معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ سے ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں جو غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت اسمہؓ کی والدہ جو اسلام نہیں لائی تھیں، ان کے یہاں آئیں، انہوں نے جناب محمد رسول اللہؐ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

اسی طرح رسول پاکؐ کی زندگی میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے نہ صرف ان کا استقبال کیا بلکہ ان کی میزبانی کی اور انہیں ان کے طریقے پر عبادت کرنے کی بھی اجازت دی۔ اسی لیے آپ کو قرآن کریم نے ''خلق عظیم'' قرار دیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک میں اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ''اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو۔''

اس معاملے میں28 اگست سے یکم ستمبر 2000ء میں یورپی افتا کونسل نے مشہورِ زمانہ فقیہ اور عالم اسلام کے علما کے سرخیل امام یوسف القرضاوی کی سربراہی میں اسی مسئلے پر غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ بطور حسن تعلق کے اظہار کے غیرمسلموں کو ان کے تہواروں کے دن پر خیرسگالی کے طور پر مبارکباد دینا جائز ہی نہیں پسندیدہ ہے۔ اس پر ایک ہندوستانی مسلمان عالم مولانا یحیٰ نعمانی نے کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ایسی صورتحال میں جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیرمسلم ممالک میں رہائش پذیر ہو گئی ہے، بڑی تعداد میں غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت کا برتاؤ رکھتے ہیں بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑتی ہے اور جد وجہد کرتی ہے۔۔۔ ان ممالک میں مسلمانوں کے ملّی وجود کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسن معاشرت اور شرکت عمل کی راہیں ہموار ہوں۔

یورپی افتاء کونسل کے اسی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نوجوان عالم دین، ندوہ کے فاضل، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم کے تربیت یافتہ اور آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پروفیسر و صدر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر فہیم اختر ندوی کا کہنا ہے کہ ''مسئلے کا پس منظر یہ ہے کہ سماج میں مختلف مواقع پر مسلمانوں کے روابط غیرمسلموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ تعلیم گاہوں میں اساتذہ اورطلبہ اور ساتھیوں کے ساتھ گہرے روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ ملازمت کے اداروں میں اپنے ذمہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ مراسم ہوتے ہیں۔علاج معالجے میں کبھی غیرمسلم ڈاکٹر کا بے انتہا مخلصانہ رویہ مسلم میریض کے ساتھ رابطہ پیدا کر دیتا ہے۔ کبھی مکان کے پڑوس میں بااخلاق و مددگار غیرمسلم ہوتے ہیں۔۔۔ایسے مواقع پر ان کو مبارکباد پیش کی جا سکتی ہے۔

پروفیسر فہیم اخترندوی کے نزدیک کونسل کا یہ فتویٰ نہ صرف اسلام کے حسن اخلاق اور داعیانہ کرادار کا مظہر ہے بلکہ موجودہ وقت میں تیزی سے تبدیل شدہ حالات میں یہ مسلمانوں کی ایک دینی ضرورت بھی ہے، کیوں کہ اسلام جہاں دینِ فطرت، مکمل و متوازن نظام زندگی اور سراپا عدل و انصاف ہے وہی اس کی بنیاد اخلاقی بلندی پر ہے۔ انہوں نے اس فتویٰ کو مزاج شریعت کا مظہر، اسلامی اخلاق کا نمونہ اور موجودہ سماجی منظر نامے میں اسلام کے دعوتی تقاضوں کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بھی سماجی روابط کو مضبوط کرنے والے اس رویے کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کیا جائے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مشہور عالم دین، مذہبی مفکر اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اور زیادہ زور دے کر کہا ہے کہ ''کسی سماج میں جو انسان رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مسرتوں میںشریک ہونا، ایک دوسرے کا غم بانٹنا اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا عین تقاضہ فطرت ہے۔ کسی بھی متمدن سماج کی یہ نمایاں پہچان ہوتی ہے۔ جس سماج میں یہ قدریں نہ پائی جائیں اسے غیرمتمدن اور دورِ وحشت کی یادگار کہا جاتا ہے۔۔۔ انسانی تعلقات کو مضبوطی اور استحکام بخشنے میں تقریبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ تقریبات سماجی بھی ہوتی ہیں اور مذہبی بھی۔ غیرمسلموں کی سماجی تقریبات میں اگر ناجائز اور غیر شائستہ کام نہ کیے جا رہے ہوں تو ان میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ ان مذہبی تقریبات اور تہواروں کا جو حصہ سماجی ہوتا ہے، جس میں مختلف قریبی اور اہلِ تعلق افراد سے محض ملاقات کے لئے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور فرقے وارانہ ہم آہنگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ، ان میں شرکت مسلمانوں کے لئے جائز ہے۔ البتہ ان مواقع پر ان کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ چنانچہ اگر کھانے پینے کی چیزوں میں کسی حرام جانور کا گوشت، شراب یا دیگر نشہ آور مشروبات شامل ہوں تو ان سے بچیں۔ ''

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے آگے چل کر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ''جہاں تک غیرمسلموں کے تہواروں کے موقعے پر انہیں مبارکباد دینے کا معاملہ ہے تو اسے فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں عموماً ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ انہیں مبارکباد دینے سے کفر شرک کی تائید اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دلیل قوی نہیں معلوم ہوتی۔ مبارکباد دینا ایک سماجی عمل ہے اس سے دنیوی معاملات میں حسن سلوک کا اظہار ہوتا ہے جس کی قرآن و حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔

یورپی افتاء کونسل کے فتوی کی روشنی میں ماہنامہ ''زندگی نوع'' دسمبر 2019 سے مستعار ہندوستانی علما کی اس بحث کا خلاصہ پیش کرنے کے ساتھ ہم یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک خالص مذہبی رسوم کی ادائیگی کا معاملہ ہے اس میں ہر شخص کو اپنے ہی مذہبی معتقدات کے مطابق عمل کی پوری آزادی ہے اور کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہوگا کیوں کہ اسلام توحید باری تعالی کا مذہب ہے اور اس سلسلے میں قرآن سیدھا فرمان ہے کہ ''تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔''

نہ آپ کسی غیرمسلم کو اپنے طریقے سے عبادت کرنے کے لئے مجبور کریں گے اور نہ ہی اس کی طرح عبادت میں شامل ہوں گے کیوں کہ قرآن ہی کے لفظوں میں ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' اب رہا سوال اس ویڈیو کا جس کے حوالے سے اس مضمون کو لکھا گیا و ہ بنیادی طور پر اسی اکثریتی رعب و دبش کے حامی لوگ ہیں جو اپنی رائے کو عین اسلام سمجھتے ہیں اور اس طرح کے خیالات کا اظہار کرکے غیرمسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے پریشانی پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس طرح اسلام اور مسلمان دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔

نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسڈیز) ہیں۔

ہفتہ, اپریل 16, 2022

مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے

مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے

ممبئی: مہاراشٹر حکومت کے وزیر آدتیہ ٹھاکرے نے جمعہ کو مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کو نشانہ بنایا۔

راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ اگر 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے گئے تو احتجاج کیا جائے گا۔

جب ممبئی میں نامہ نگاروں نے ٹھاکرے سے بی جے پی اور ایم این ایس کے مفت لاؤڈ اسپیکر تقسیم کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، "یہ ٹھیک ہے، لاؤڈ اسپیکر کو ہٹانے کے بجائے، اسے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بات کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

ہمیں بغیر پیچھے ہٹے ڈیزل، سی این جی کی قیمتوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔آئیے بات کرتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں میں کیا ہوا۔"

راج ٹھاکرے کے لاؤڈ اسپیکر پر بیان کے بعد گزشتہ چند دنوں سے ریاست میں سیاسی پارا گرم ہوا ہے۔

راج ٹھاکرے نے مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیں، ایسا نہ کرنے پر ایم این ایس کے کارکنان مساجد کے باہر لائوڈ اسپیکر لگائیں گے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کریں گے۔

ٹھاکرے نے اسے ایک سماجی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایم این ایس کے سربراہ نے کہا، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، مذہبی نہیں، میں ریاستی حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس میں پیچھے نہیں ہیں۔ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔"

اس کے ساتھ ہی ٹھاکرے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ممبئی کے مسلم علاقوں میں مساجد پر چھاپے مارنے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ وہاں رہنے والے لوگ ''پاکستان کے حامی'' ہیں۔

انہوں نے کہا، "میں پی ایم مودی سے مسلمانوں کی کچی آبادیوں میں مدرسوں پر چھاپہ مارنے کی اپیل کرتا ہوں۔ پاکستانی حامی ان جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔

ممبئی پولیس جانتی ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ایم ایل اے انہیں ووٹ بینک کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔" ایسے لوگوں کے پاس آدھار بھی نہیں ہے، لیکن ایم ایل اے وہی بنواتے ہیں۔

عکسِ خیالمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

عکسِ خیال
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 ’’عکس خیال‘‘ مولانا احمد حسین قاسمی مدنی متخلص محرمؔ قاسمی دربھنگوی معاون ناظم امارت شرعیہ، ساکن بردی پور (بستوارہ) دربھنگہ کا پہلا مجموعۂ کلام ہے، جسے اردو ڈائرکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے انہوں نے شائع کرایا ہے۔
 ’’عکس خیال‘‘ میں ایک حمد، چار مناجات، ایک نعت پاک، اکتیس (31) غزلیں ، چونتیس (34)نظمیں، قطعات وابیات اور مختلف عنوانات کے تحت متفرق اشعار ہیں، محرم ؔدربھنگوی بنیادی طور پر غزلوں اور نظموں کے شاعر ہیں، دوسرے اصناف میں انہوں نے شاعری ضرور کی ہے، لیکن ان کا اصل رنگ انہیں دونوں میں واضح ہوتا ہے ، اس  کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ وہ حمد ونعت ، مناجات، قطعات وابیات کے کہنے پر قادر نہیں ہیں، قادر ہیں اور خوب قادر ہیں، ان چیزوں پر ان کی قدرت کا اندازہ اسی مجموعہ میں شامل ان کی حمد ومناجات اور نعت سے لگایا جا سکتا ہے، لیکن جس کو ذہنی افتاد کہتے ہیں اس کا رخ غزل اور نظموں کی طرف زیادہ ہے ۔
 محرمؔ کی شاعری کے جو بنیادی عناصر ہیں اس میں مذہبی اقدار، شرعی احکام کا پاس ولحاظ ، عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش اور کاکل وگیسو سے اجتناب کا غلبہ ہے، انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ 
پیتا ہوں مگر طرز قدح خوار سے کر
کہتا ہوں غزل میں لب ورخسار سے ہٹ کر
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے بالکلیہ اس سے نظر موڑ لیا ہے ، غالب کو ہر چند کہ مسائل تصوف پر گفتگو کرنی ہو تی بادہ وساغرہ کہے بغیر بات بنتی نہیں تھی، محرمؔ ہر چند کہ عارض ورخسار، کاکل وگیسو ، ہجر وصال کی حکایات شعر کے قالب میں ڈھالنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن غزل تو محبوبہ سے گفتگو کا ہی نام ہے اور محبوبہ کے قد وقامت دیکھ کر سبحان اللہ کہا جا سکتاہے، لیکن گفتگو آیات قرآنی کے ذریعہ تو نہیں کی جا سکتی، اس لیے غزل میںان خصوصیات کا انہیں پاس ولحاظ ہے، شعر دیکھ لیجئے
 شب ہجر جس کی نہ ہو سکی کبھی سحر وصل سے آشنا
 یہ اسی کا درد فراق ہے، اسی غم زدہ کا پیام ہے
 ایک شعر اور پڑھیے
 کبھی شوق وصل نے خود دل ناز کو ستایا 
کبھی ہجر نے مصیبت کا پہاڑ مجھ پہ ڈھایا
محرمؔ شاعری عالمانہ شان کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن اسے مولوی کا وعظ نہیں بناتے، باتیں سلیقے سے کہتے ہیں اور سلیقہ سے کہنے کا یہ فن انہوں نے کلیم عاجز سے سیکھا ہے، جنہوں نے محرمؔ دربھنگوی کی بہت ساری غزلوں پر اصلاح دی ہے ، محرمؔ ان سے بہت متاثر ہیں۔اسی لیے انہوں نے ایک غزل میں کلیم عاجز کے اسلوب ’’کروہو‘‘ کی پیروی کی ہے ۔
 محرمؔ دربھنگوی اوزان وقافیہ اور بحور سے پورے طور پر واقف ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے اشعار میں قافیہ ردیف کے ریشمی تاروں پر بل نہیں آنے دیا ہے ، بحور کی پابندی میں بھی انہوں نے اپنا کمال دکھایا ہے ، اسی لیے ان کی شاعری میں فکر کی پختگی اور فنی گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
 محرم کی شاعری کی عمران کی اپنی عمر سے کافی کم ہے، ابھی ان کو بہت اوپر جانا ہے ، کسی بھی شاعر کے پہلے مجموعہؔ کلام کو دیکھ کر اس کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ کی تعیین نہیں کی جا سکتی ، البتہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر کی قوت پرواز کا کیا حال ہے، اور اُٹھان کس قدر ہے، عکس خیال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت پرواز اونچی ہے اور وہ بھیگے ہوئے پروں سے بھی پرواز کا حوصلہ رکھتے ہیں، ان کی اُٹھان بھی زبر دست ہے، انہوں نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے اشعار سے قاری کو اپنی جانب متوجہ ہی نہیں کیا چونکا بھی دیا ہے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب ہمارے خاکستر میں ہے ۔
 محرمؔ کے اشعار کی بڑی خوبی اس کی سلاست اور روانی ہے ، ترکیب میں، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا گذر نہیں ہے، معنی کی ترسیل کا فن انہیں خوب آتا ہے اس لیے وہ تعقید لفظی اور معنوی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، وہ باتیں صاف صاف کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں کہ سناتے وقت تحت اللفظ مزہ دے جائے اور جب ترنم سے پڑھا جائے تو اس کی غنائیت میں فرق نہ آئے، محرم خود بھی تحت اللفظ اور ترنم میں پڑھتے ہیں، اس لیے ان کی نظر اس پر گہری رہتی ہے ۔
محرم کی شاعری میں عصری حسیت کی پوری جلوہ گری ہے، اس لیے پڑھنے اور سننے والے کا احساس ہے کہ محرمؔ ماضی سے زیادہ حال میں جیتے ہیں، ماضی پیچھے چھوٹ چکا ہے ، ہم اس سے اپنا رشتہ توڑ تو نہیں سکتے، لیکن حال کی پریشانی، سیاسی جماعتوں کی بازی گری، بڑھتی ہوئی نفرت ، ٹوٹتے رشتوں کا کرب، مقصد کے حصول کے لیے جائز وناجائز طریقوں کے استعمال کو دیکھ کر شاعر خاموش نہیں رہ سکتا، اس کے دل کا کرب الفاظ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، اسی کو عصری حسیت کہتے ہیں، اگر شاعری میں عصری حسیت نہ ہو تو وہ شاعری سے زیادہ تاریخ نگاری اور وقائع نویسی بن جاتی ہے ، او رادب کا رنگ وآہنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، محرمؔ کے یہاں تاریخ کے حوالہ سے جو باتیں آئی ہیں، ان میںانہوں نے تلمیح کاسہارا لیا ہے، وہ ایک لفظ استعمال کرتے ہیں اور تاریخ کے مختلف ادوار اور اس کے نتائج ہمارے سامنے آجاتے ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے۔
 جس میں ہو جائے کوئی فاتح بیت المقدس
 پھر وہی دو ر خلافت تو دوبارہ دیدے
 خدا یا پھر سے دے عبرت تو اس مرحوم امت کو
 حکومت چھن گئی یا رب حجازی شہ سواروں کی
محرمؔ کی نظموں کا رخ کریں تو ان میں غزلوں کی بہ نسبت پھیلاؤ زیادہ ہے، نظمیں رواں ہیں اور ان میں ایک قسم کی سبک روی پائی جاتی ہے، جیسے ہَولے ہَولے آبشاروں سے نکلتا پانی، (بقیہ صفحہ ۱۴؍ پر)
ان نظموں میں مسلمانوں کی بے عملی اور بد عملی کا گلہ شکوہ بھی ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کی طرف رہنمائی بھی ، ان نظموں میں کائنات کا غم شاعر کا ذاتی غم بن گیا ہے ، باتیں وسیع کینوس اور پس منظر میں میں کہی گئی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاعر کا اپنا غم ہے، اس طرح دیکھیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ محرمؔ دربھنگوی کو کائنات کو ذات میں سمیٹنے کا فن آتا ہے۔ 
محرم دربھنگوی بنیادی طور پر عالم ہیں، اس لیے ان کی شاعری کی لفظیات پوری کی پوری مذہبی اقدار کی آئینہ دار ہے، وہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں ایک طرح کی پاکیزگی اور تقدس کاگمان ہوتا ہے، ان کے پاس الفاظ کا وافر ذخیرہ ہے، اس لیے اپنے خیالات کی وسعت کو شعر میں ڈھالنے کے لیے ساختیات اور تشکیلیات کا سہارا نہیں لینا پڑتاہے ۔
 محرمؔ کی شاعری کلاسیکی انداز کی شاعری ہے، رومانیت اور حقیقت کا آمیزہ ہے، انہوں نے ترقی پسند شاعری کے انداز کو کہیں نہیں برتا ہے، وہ مجھ پہلی سی محبت میرے محبوب ن مانگ کے انداز کی شاعری نہیں کرتے۔
وہ کائنات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، آخرت کو اپنی منزل اور محبت کومتاع جاں مانتے ہیں، اس لیے ان کے یہاں محبت اور زندگی کی ضرورتوں کے درمیان ایک اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے، وہ ترقی پسندوں کی طرح شاعری کو ضروریات زندگی کی فہرست اور بنیے کا روزنامچہ نہیں بناتے ، محرم نے اپنے کو کسی خانے میں نہیں رکھا ہے، وہ نہ جدیدیت کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی ما بعد جدیدیت کی ، وہ کلاسیکی رنگ وآہنگ میں اپنی فکر کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں اور اس میں وہ بہت کامیاب ہیں۔ بعض اشعار کوپڑھتے ہوئے ہمیں ایسالگتا ہے کہ خیالات کا توارد ہوا ہے ، فکر کی یکسانیت کبھی کبھی توارد تک پہونچا دیتی ہے ،جب محرمؔ سمندر کے سکوت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
کہہ رہا ہے آدمی سے اس سمندر کا سکوت
کس قدر ہے میرے ظرف ناز میں پانی نہ پوچھ
 تو ہمیں معاًوہ مشہور شعر یاد آتا ہے 
 کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
 جس میں جتنا ظرف ہے اتناہی خاموش ہے
گو محرمؔ کے شعر میں موج دریا کے بجائے ’’آدمی سے‘‘ نے پہلے مصرعہ کو انتہائی کمزور کر دیا ہے، دوسرے مصرعیہ سے معنی میں تبدیلی آئی ہے،لیکن وہ جس میں جتنا ظرف ہے کا بدل نہیں بن سکا ہے۔
کہنا چاہیے کہ عکس خیال شاعر کے فکر وفن کا حسین عکس ہے، ادب کی دنیا میں ہم اس کا استقبال کرتے ہیں، اور معیاری ہونے کا اعتراف بھی۔
 اس کتاب کو مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف کے علاوہ نیو جنریشن انٹرنیشنل اکیڈمی راج ٹولی دربھنگہ ، معہد الطیبات امام باڑی دربھنگہ اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، جتنی رقم دے کر مل جائے غنیمت جائیے، مفت مل جائے تو اپنے کو مقدر کا سکندر سمجھئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...