Powered By Blogger

جمعہ, اپریل 29, 2022

رمضان کاآخری عشرہ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان کاآخری عشرہ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک کے تین عشرے دیے تھے،دوعشرے سے ہم گذرگئے،اللہ کی توفیق سے جتنی عبادت ممکن ہوسکی کرنے کااہتمام کیا گیا،رحمتوں کے حصول کے ساتھ مغفرت کی امید بھی جگی،اب تیسرااورآخری عشرہ شروع ہوگیاہے،رمضان پورامہینہ گورحمتوں اوربرکتوں والا ہے،اس کے باوجود پہلے عشرہ کے مقابلہ میں آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بڑھی ہوئی ہے، اس لیے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاگیاہے اورایک شب قدر کی عبادت کاثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے،ذراسوچیے!اللہ کی نوازش اورعطاکااگر ہم نے رمضان کی پانچ راتوں میں اللہ کوراضی کرنے کے لیے محنت کرلیا تو سابقہ امتوں کی بڑی عمر اوران کی عباد ت سے ہم کس قدر آگے بڑھ جائیں گے،یہ رات ہمیں یقینی مل جائے اس کی لیے ہمیں اللہ کے دربار میں پڑجاناچاہیے،اسی در پر پڑجانے کا شرعی نام اعتکاف ہے،جب بندہ بوریا،بستر لے کر اکیس کی رات سے مسجد میں اور عورتیں گھر کے کسی کونے میں جگہ مختص کرکے بیٹھ جاتی ہیں اورشب وروز علائق دنیا اور کاروبار زندگی سے الگ ہٹ کر صرف ذکراللہ،تلاوت قرآن،نماز،تراویح،تہجد میں وقت صرف ہوتا ہے تو اللہ کی خصوصی رحمت اس بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے،اسے شب قدر بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے،جو جہنم سے گلو خلاصی کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے ہر گاؤں،محلہ کی مسجدوں میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے،وقت ہواورسہولت میسر ہوتو ان اوقات کاکسی اہل اللہ کی معیت میں گذارنازیادہ کارآمد اورمفید معلوم ہوتاہے،تزکیہ نفس اوراصلاح حال کے لیے اہل اللہ کی صحبت کیمیا کا درجہ رکھتی ہے،اس لیے اہل اللہ کے یہاں آخری عشرہ کے اعتکاف میں مریدین،متوسلین اورمعتقدین کابڑا مجمع ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

جولوگ اعتکاف میں نہیں بیٹھتے ہیں،ان کے یہاں اس سلسلہ میں کافی کوتاہی پائی،اس رات کی عباد ت کی طرف توجہ نہیں ہواکرتی اوراگر ہوتی بھی ہے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جورت جگّہ میں اسے گذار دیتے ہیں،مسجد میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی گپ میں لگے ہوتے ہیں،ایک تورمضان کی رات دوسری شب قدر اورتیسرے اللہ کا گھر،ظاہر ہے یہ رت جگے اللہ رسول کے حکم وہدایت کے مطابق نہیں ہیں،اس لیے مسجد میں گپ بازی سے ثواب کے بجائے الٹے وبال کا امکان ہے، اس لیے اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے،جس قدر شرح صد رکے ساتھ عبادت ہوسکے، کرے،لوگوں کودکھانے کے لیے رات بھر جاگنا اورلہوولعب میں مبتلا رہنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

بعض حضرات اکیس(۲۱)،تئیس (۲۳)،پچیس(۲۵) اورانتیس(۲۹) تاریخ میں شب قدر کی تلاش کااہتمام نہیں کرتے ہیں،وہ صرف ستائیس کی رات کوہی شب قدر مانتے ہیں اوراس رات میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں،یہ طریقہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاہے،نہ کہ صرف ستائیس کو،ان میں سے بعضے منطقی گفتگو کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر میں تین بار لیلۃ القدر کاذکر کیا ہے اورایک لیلۃ القدر میں نوحروف ہیں،اس طرح تینوں لیلۃ القدر کے حروف کے اعداد ستائیس ہوتی ہے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیس کی رات کو ہے،لیکن چوں کہ یہ منطق احادیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی حیثیت ذہنی ورزش سے زیادہ کچھ نہیں،بعض احادیث میں بھی ستائیس کا ذکر آیاہے؛لیکن محدثین نے طاق راتوں میں تلاش کرنے کی روایت کو درست قرار دیاہے،بعض بزرگوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ستائیس کی شب کو شب قدر پایا،یہ ان کا مکاشفہ ہوسکتا ہے؛لیکن ہم تو پابنداسی کے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

بعض لوگ اعتکاف میں بیٹھ کر بھی اللہ کی عبادت سے زیادہ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں،دوسرے معتکفین کے ساتھ  غیر ضروری گفتگو میں زیادہ وقت گذار دیتے ہیں،یہ طرز عمل بھی غیر مناسب ہے، اس سے احتیاط برتنا چاہیے۔

تراویح کی نماز اس عشرے میں بھی پہلے دوعشرے کی طرح ہوتی ہے؛لیکن ہمارے یہاں ہندوستان میں تین روز،دس روز،پندرہ روز میں عموماًتراویح میں قرآن کریم سن لیاجاتاہے اورحفاظ سنالیاکرتے ہیں اور یہ کہاجاتاہے کہ ہماری تراویح ختم ہوگئی،یہ ایک غلط تعبیر ہے جو ہمارے یہاں رائج ہے،تراویح کی نماز چاند دیکھ کر شروع کرنا اورچاند دیکھ کر بند کرنا ہے،تراویح میں پوراقرآن سن لینا ایک کام ہے اورپورے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنا دوسراکام، اس کی وجہ سے جولوگ تراویح میں ایک قرآن سن لیتے ہیں چاہے وہ جتنے دن میں ہو تراویح پڑھنے میں سستی کرنے لگتے ہیں اورسورہ تراویح پڑھنے کو زائد عمل سمجھتے ہیں،یہ سوچ غیر شرعی ہے، تراویح کی نماز کااہتما م پورے مہینہ کرنا چاہیے اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی کوراہ نہیں دینی چاہیے!موقع نہ ہوتوتنہا ہی پڑھ لے؛لیکن پڑھے،تراویح کی نماز سے محرومی بدبختی کی بات ہے۔

کئی لوگ کسی خفگی،امام سے رنجش،مقتدیوں سے چپقلش کی وجہ سے مسجد حاضر نہیں ہوتے اوراپنے دروازہ پر ہی تنہا نماز پڑھ لیتے ہیں،یہ عام دنوں میں بھی غلط ہے،خصوصاًرمضان المبارک جیسے مہینے میں مسجد میں حاضری سے محرومی بہت افسوس کی بات ہے،ایسے لوگوں کواپنے اعمال کاجائزہ لیناچاہیے کہ جب سارے لوگ مسجد کارخ کرتے ہیں،اللہ نے کسی بدعملی یابے عملی کی وجہ سے رمضان المبارک میں اپنے گھر سے اسے دورکررکھاہے۔
رمضان کے اخیر عشرہ میں ہی عموماًعیدگاہ جانے سے پہلے تک صدقہ فطرمسلمان نکالتے ہیں،یہ بھی رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے،اس سے غریبوں کے لیے نان نفقہ کاانتظام ہوجاتاہے،اس رقم کا استعمال اپنے غریب رشتہ داروں،پاس پڑوس کے محتاجان اورضرورت مندوں کے لیے کرنا چاہیے،کیوں کہ یہ لوگ اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں،آپ کے تعاون سے ان کی عید بھی اچھی گذرجائے گی اور اللہ کی میزبانی کایہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں گے،فقہاء کی ایک تعبیر انفع للفقرائکی بھی ہے،یعنی وہ چیزجس سے فقراء کو زیادہ فائدہ پہونچے،صدقۃ الفطر عام طور پر نصف صاع گیہوں یااس کی قیمت جو مقامی ہوتی ہے کے حساب سے نکالاجاتاہے،یہ رقم کم ازکم پچاس روپے بنتی ہے؛لیکن اگرکھجور،کشمش وغیرہ سے فطرہ نکالیں گے تو ان اجناس کے گراں ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جائے گی اوران کی مقدار بھی ایک صاع ہے،اس لیے ہراعتبار سے یہ فقراء کے لیے زیادہ نفع بخش ہے،اس لیے جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ دوسری اجناس سے بھی فطرہ نکالیں تو بہتر ہوگا،یہ ایک مشورہ ہے،ہم کسی پر لازم نہیں کرسکتے کہ وہ فلاں چیز سے ہی فطرہ نکالے،جب شریعت نے اختیار دیاہے تو ہمیں کیا حق پہونچتاہے کہ کسی ایک چیز کو خاص کرلیں۔
اس عشرہ کا اختتام عیدالفطر کے چاند دیکھنے پر ہوتاہے،عید کا چاند دیکھنے کے بعدرمضان کے رخصت ہونے کی حسرت عیدکی خوشی پر غالب آجاتی ہے،اورایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جس طرح شیطان قیدوبند سے آزاد ہوا،اسی طرح ہم بھی آزاد ہوگئے،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اوراس رات کوقسم قسم کے خرافات سے آلودہ کیاجاتاہے،نوجوانوں کے لیے یہ رات بھی رت جگّے کی ہوجاتی ہے،حالانکہ حدیث میں اس رات کانام لیلۃ لجائزہ،انعام والی رات ہے،مہینے بھرجوعبادت کی گئی اس کا انعام اب ملنے والا ہے،ابھی انعام ملا نہیں کہ تماشے شروع ہوگئے،اچھے اچھے لوگوں کودیکھا کہ وہ عید کی صبح فجر کی نماز سے غائب تھے،حالانکہ فجر کی نماز توفرض ہے،پہلے ہی دن رمضان کااثرختم ہوگیا،حالانکہ رمضان تربیت کامہینہ تھا اوراس ایک ماہ کی تربیت کااثر گیارہ ماہ تک باقی رہناتھا،زندگی اوراعمال میں تبدیلی آنی تھی،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے روزے اورعبادتیں اس پائے کی نہیں ہوپائیں جو شریعت کومطلوب ہے اورجس کے نتیجے میں تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے،ذراسوچیے!اوراپنا محاسبہ کیجئے!شاید اس محاسبہ کے بعد ہم اپنے اندر تبدیلی پیداکرسکیں۔

جمعرات, اپریل 28, 2022

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

ابوشحمہ انصاری، بارہ بنکی

انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں مذہبی مقامات پر آواز کی حد کے اصولوں کی عدم تعمیل/معیار کے خلاف چلائے جانے والے لاؤڈ اسپیکر مذہبی مقامات سے ہٹاے جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں بارہ بنکی ضلع میں انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کے ذریعہ کل 614 غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے اور 207 لاؤڈ اسپیکر کم کیے گئے اور 571 لوگوں کو نوٹس بھیجے گئے۔

پاکستان میں نئی حکومت___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پاکستان میں نئی حکومت___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی حکومت بے دخل ہوئی ہے،گووہاں کی اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہیں کیے،البتہ اس بار ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہوا،عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کاسامنا کرنے سے انکارکردیا،پارلیامنٹ کے ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری اورملک کے صدر عارف علوی نے ان کاساتھ دیا،پارلیامنٹ تحلیل ہوگئی،عمران خان نے نئے انتخاب کا اعلان کیا،حزب مخالف سپریم کورٹ پہونچے،سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمرعطابندیالی کررہے تھے قومی اسمبلی بحال کردی،اورعدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کرنے کو کہا،پارلیامنٹ میں بحث چلی،عمران خان کی انصاف پارٹی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے استعفیٰ کے بعد نئے اسپیکر نے رات بارہ بجے ووٹنگ کرائی اورایک سو چوہتر(۴۷۱) ممبران کی معمولی اکثریت سے عمران خان کی حکومت گرگئی،معمولی اس لیے کہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر(۲۷۱) ووٹ چاہیے تھے صرف دو دووٹ زائد آئے،نواز شریف کے بھائی شہباز شریف حزب مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے امید وار بنے اورانہیں جمعیت علماء پاکستان،پوپلس پارٹی مریم شریف وغیرہ کی حمایت حاصل تھی،ایسے میں وہ پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بلامقابلہ منتخب ہوئے،صدرمملکت حلف برداری کے لیے نہیں پہونچے،رسمی طور پر بیمار ہوگئے تومعمول سے ہٹ کرسینٹ کے چیئرمین نے حلف دلایا اوروہ اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں،عمران خان کی انصاف پارٹی کے سارے ارکان پارلیمان نے استعفیٰ دے دیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ بخیر نہیں ہے۔
عمران خان کے اس عمل سے پاکستان کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے اورسامراجی طاقتوں کادبدبہ پاکستان پر بڑھاہے،عمران خان یہی تو کہہ رہے تھے کہ ہماری حکومت گرانے میں غیر ملکی طاقتوں کاہاتھ ہے،ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا اوریہ کچھ غلط بھی نہیں ہے،علاقہ میں پاکستان امریکہ کا حلیف رہا ہے،اسے چین کوکنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے،ادھر چین سے دوستی بڑھانا پاکستان کی مجبوری بن گئی اورعمران خان نے امریکہ کی داداگیری کے اثرات کو پاکستان میں کم کرنے کا بیڑا اٹھایا،انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بھی آواز اٹھائی،پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور اس کی وجہ سے ا س کے وقار میں اضافہ ہوا۔
دوسری طرف اندرونی پالیسی میں عمران خان کچھ زیادہ نہیں کرسکے،جوامیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں،وہ اس پر پورے اتر سکے،ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلاگیا؛اس لیے حزب مخالف کوموقع ملا اوروہ عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایسے میں عمران خان کوعدم اعتماد کی تحریک کاسامنا کرنا چاہئے تھا یااستعفا دے دینا چاہیے تھا،عمران خان نے ایساکچھ نہیں کیا،ایک نیاداؤ کھیلا جس سے ملک کی پارلیامنٹ کوکبھی سامنا نہیں کرنا پڑاتھا،ا س طرح عمران خان خودہی ذلیل ہوکر ایوان اقتدار سے باہر ہوئے،اگر وہ اکثریت کھودینے کی وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے توانہیں استعفادے دینا چاہیے تھا،جیساکہ صرف ایک ووٹ کم ہونے پر اٹل بہاری باجپئی نے استعفادیدیاتھا،اگروہ ایساکرلیتے تو ملک میں جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی اورمضبوطی آتی۔
اس پورے قضیہ میں پاکستانی فوج کا رویہ تاریخ کے برعکس رہاہے،ایسے موقع سے پاکستان میں فوج حکومت پر قابض ہوتی رہی ہے،پاکستان میں مارشل لاکی تاریخ طویل بھی ہے اورقدیم بھی،لیکن اس بار فوج نے اب تک اس سیاسی قضیہ سے خود کو الگ رکھا اورکوئی دخل اندازی نہیں کی،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہو،خود فوجی سربراہ باجواعمران خان کے قریب رہے ہیں اورانہوں نے ملاقات کرکے باربار اس قضیے کوحل کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس واقعہ کے بعد ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہیں ہوپائے،پاکستان میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی واپسی حکومت میں ہوچکی ہے،اگلے انتخاب میں عمران خان کے لیے موقع ہوسکتا ہے۔
پاکستان ہماراپڑوسی ملک ہے،وہاں کی سیاست کے نشیب وفراز پر ہماری نگاہ ضروری ہے،ہمارے وزیر اعظم نے شہباز شریف کو مبارکباددے دی ہے اوراچھے تعلقات کی امید ظاہر کی ہے،لیکن یہ بس رسمی جملہ ہے،شہباز شریف نے آتے ہی کشمیر مسئلہ کی بات کہی ہے اورکشمیر مسئلہ کے ساتھ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کس طرح رہ سکتے ہیں؟ماضی میں دوجنگیں ہندوپاک اس مسئلہ پر لڑ چکاہے،اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاسی قائد سے زیادہ اچھے منتظم ہیں،اچھے منتظم کاتقاضہ ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات استوار رکھیں،امریکہ اورچین سے دوستی میں اعتدال کوراہ دیں اورافغانستان میں طالبان کواپنے من کی حکومت کرنے دیں،کیوں کہ افغانستان میں پاکستان کی دخل اندازی سے خطہ میں ماحول سازگارنہیں رہ پائے گااورایسے میں ہندوستان کی تشویش بجا ہوگی۔

اترپردیش : ملحقہ مدارس کی جانچ کاحکم ، بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کی تیاری

اترپردیش : ملحقہ مدارس کی جانچ کاحکم ، بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کی تیاریلکھنؤ (ایجنسی)
ریاستی حکومت یوپی میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔ حکومت نے مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم چلانے والے مدارس کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے عمارت، زمین، کرایہ نامہ، اساتذہ، طلباء وغیرہ کی موقع پر جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنانے کو کہا ہے۔ اس سلسلے میں رجسٹرار مدرسہ ایجوکیشن کونسل نے تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط بھیجا ہے۔ جانچ کے بعد جو رپورٹ سامنے آئے گی اس کی بنیاد پر حکومت مدارس کی تعلیم میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، جس میں جدید تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا۔
ضلع مجسٹریٹ اب ایس ڈی ایم، بلاک ایجوکیشن آفیسر، بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کو اس کی جانچ کا حکم دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے 15 مئی 2022 تک انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔
مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت اتر پردیش میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ مدارس چل رہے ہیں۔
یوپی کے جدید مدارس میں اساتذہ کی 8129 آسامیاں ہیں۔ ان میں سے 6455 اساتذہ انگریزی، تاریخ، جغرافیہ، سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے ہیں۔ ان کے علاوہ دینی تعلیم والے 5339 اساتذہ ہیں۔ ریاستی حکومت کی نظریں انہی دینی تعلیم والے ٹیچروں پر ہے ۔ یوپی محکمہ تعلیم کے افسران کا کہنا ہے کہ جب مدارس میں جدید مضامین پڑھائے جارہے ہیں تو پھر وہاں دینی تعلیم والے اساتذہ کی کیا ضرورت ہے ۔
ان مدارس کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔ اس لیے حکومت اپنے افسران کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ مدارس میں کتنے جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں اور کیا اب بھی دینی تعلیم پر زور ہے؟ کسی بھی مدرسے میں اساتذہ کی بنیاد پر یہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ وہاں جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں یا دینی مضامین۔
یوپی میں تقریباً 588 مدارس ہیں جن میں 8129 اساتذہ اور 558 پرنسپل ہیں۔ حکومت ہر سال ان پر 866 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ لیکن حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ مدارس میں بچوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ چونکہ مدارس میں جدید مضامین نہیں پڑھائے جا رہے ہیں اس لیے وہاں کے بچے مقابلے جاتی امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، اس لیے یوگی حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں۔
ریاستی حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر مدارس کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے۔ کئی تنظیموں کے تیس سے چالیس مدارس ہیں۔ لکھنؤ میں ہی ایسے مدارس کا ایک سلسلہ ہے جہاں اساتذہ کو آدھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ ان سے پوری تنخواہ پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ سے استعفیٰ پہلے ہی لے لیے جا چکے ہیں، تاکہ اگر وہ احتجاج کریں تو انہیں فوراً باہر کا راستہ دکھایا جائے۔
عام طور پر پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے مدارس میں پانچ ٹیچر دینی تعلیم والے ہوتے ہیں ۔ چھٹی کلاس سے لے کر آٹھویں تک کے مدارس میں دو دینی تعلیم والے ہیں اور ایک عام مضامین کے لیے۔ لیکن عالیہ کلاس (9ویں اور 10ویں) میں دینی تعلیم کے لیے تین اساتذہ اور عمومی مضامین کے لیے ایک استاد ہے۔ اس طرح کلاس ششم سے عالیہ کی کلاس تک دیگر مضامین پڑھانے والے اساتذہ کم اوردینی تعلیم والے زیادہ ہیں ۔ سرکار اس میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے ٹیچروں کا استحصال بھی رکے گا۔

بدھ, اپریل 27, 2022

رمضان کا الوداعی پیغام

رمضان کا الوداعی پیغام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 مسلمانو! میں جا رہا ہوں۔ نوجوانو! میں جا رہا ہوں۔ کیا پتہ پھر تمہیں میری رفاقت نصیب ہو نہ ہو۔ آؤ! اس سے پہلے کہ میں تم سے بچھڑ جاؤں۔ مجھے گلے سے لگا لو۔ میرے فیوض و برکات سے اپنے سینوں کو منور کر لو۔ دیکھو! اللہ کے صالح اور نیک بندے، عابد و زاہد بندے اپنی صالحیت کے باوجود رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں، گناہوں سے توبہ کر رہے ہیں۔ آئندہ گناہوں سے بچنے کی توفیق طلب کر رہے ہیں۔ اللہ سے رحمت و مغفرت کی، اس کے جود و سخا کی بھیک مانگ رہے ہیں۔تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھو۔ انبیاء، رسل، صحابہ کرام، اولیاء اللہ جن کی صالحیت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اعمالِ صالحہ کی کثرت کے باوجود اللہ سے رو رو کر اُس کی رحمت طلب کرتے تھے۔ کیا تمہارے اعمال ان پاک نفوس سے بھی تجاوز کر چکے ہیں کہ تمہیں اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر نہیں۔۔۔؟مسلمانو! ائے قوم کے غیور نوجوانو! میں تمہاری تربیت کے لیے آیا ہوں۔ کیا تمہیں نہیں پتہ کہ ایک فوجی کو سخت ترین فوجی تربیت اسی لیے دی جاتی ہے کہ وہ اپنی سرحد کی حفاظت کر سکے۔ تم بھی دین و شریعت کے ایک فوجی ہو، ایک سپہ سالار ہو۔ اسلام تمہاری سرحد ہے۔ شیطان اور تمہارا سرکش نفس ہر لحظہ تمہاری سرحد میں داخل ہو کر تمہیں بے گھر کرنے کی فراخ میں ہے۔ آؤ، قسم کھا لو، مجھے یقین دلا دو کہ تم اپنے ایمان کی سرحد میں شیطان اور اپنے سرکش نفس کو داخل نہیں ہونے دو گے۔ 
 مسلمانو! ائے میرے عزیز نوجوانو! میں جا رہا ہوں لیکن جاتے جاتے تمہیں تقویٰ کی صفت سے متصف دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میرے آنے کا مقصدِ اولین تمہارے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنا ہے۔ قرآن کے اوراق پلٹ کر دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔’’ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرۃ)۔ آؤ میں تمہیں قرآن کی ہی زبانی بتاتا ہوں کہ متقی کسے کہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات کے مفہوم پر غور کرو۔:
 الف۔ لام۔ میم۔ یہ کتابِ الٰہی ہے۔ اس کے کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرۃ)
 غور کرو۔ قرآن متقیوں کی تین صفتیں بتا رہا ہے۔ غیب پر ایمان لانا۔ نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اپنے اندر اتر کر خود کا جائزہ لو کہ کیا میری تربیت کے بعد تمہارے اندر یہ تین صفتیں پیدا ہو سکی ہیں یا نہیں؟؟ اب بھی وقت ہے۔ اپنے رب کو منا لو۔ دنیا بہت مانگ لی۔ اب ذرا اپنا دستِ سوال تقویٰ و پرہیزگاری مانگنے کے لیے بھی دراز کر لو۔ ایک بھکاری کی طرح اُس کے در پر ڈٹ جاؤ کہ بغیر لیے نہیں جاؤں گا۔ اپنے دامن کو آنسوئوں سے بھر دو۔ شاید اسے ترس آ جائے۔ شاید اُس کی رحمت جوش میں آجائے۔ شاید کہ عرقِ انفعال کے قطرے موتی سمجھ کر چن لیے جائیں ۔دیکھو دیکھو، محسوس کرو، کوئی آواز دے رہا ہے کہ’ ہے کوئی ہدایت کا متلاشی جسے ہدایت بخش دی جائے، ہے کوئی خیر کا متلاشی جسے خیر و عافیت عطا کی جائے۔‘ دوڑو، لپکو، اگر اب بھی محروم رہ گئے تو تم سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہوگا:
لے کے خود پیرِ مغاں ہاتھ میں مینا آیا
مے کشو! شرم کہ اس پربھی نہ پینا آیا
 ائے میرے چاہنے والو! جاتے جاتے مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے جانے کے بعد مجھے بھول نہیں جاؤ گے۔ مساجد کو ویران نہیں ہونے دو گے۔ شیطان کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے باز رکھو گے۔ قرآن سے اپنا تعلق نہیں توڑو گے۔ غرباء و مساکین پر دست شفقت رکھو گے۔ ہدایت کو عام کرو گے۔ مظلوموں کا ساتھ دو گے۔ ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گے۔ اپنے اعمال سے یہ ثابت کروگے کہ ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا و مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘مجھ سے وعدہ کرو۔۔ ۔۔ مجھے یقین دلا دو تاکہ میں ہنسی خوشی تم سے رخصت ہو سکوں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامران غنی صبا

احتجاج : مسلم پرسنل لا بورڈ نے یونیفارم سول کوڈ کو غیر آئینی قرار دیا ، کہا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کی کوشش

احتجاج : مسلم پرسنل لا بورڈ نے یونیفارم سول کوڈ کو غیر آئینی قرار دیا ، کہا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کی کوشش

مرکزی حکومت کی طرف سے ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی تیاریوں کے درمیان مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کا بڑا بیان سامنے آیا ہے۔ بورڈ نے اس کی مخالفت کی ہے اور اسے آئین اور اقلیتوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت عوام کی توجہ مہنگائی، معیشت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے ہٹانے کے لیے یہ راگ الاپ رہی ہے۔

مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ اور اتر پردیش حکومتوں نے بھی یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان جاری کرکے سخت مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے آئین میں ملک کے ہر شہری کو اس کے مذہب کی بنیاد پر زندگی گزارنے کی آزادی دی گئی ہے اور یہ بنیادی حقوق میں بھی شامل ہے۔

رحمانی نے کہا کہ آئین میں اقلیتوں اور قبائلی ذاتوں کو اپنی مرضی اور روایت کے مطابق مختلف پرسنل لاز کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان باہمی اتحاد اور باہمی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اتراکھنڈ اور اتر پردیش اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا غصہ ملک کے عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی معیشت سے ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نفرت کا ایجنڈا بورڈ نے کہا کہ وہ حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔

قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ کے سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی تیاری کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی جائے گی، جو اس کا مسودہ تیار کرے گی۔ ہماچل کے وزیر اعلی جئے رام ٹھاکر نے بھی پیر کو کہا کہ ریاست میں یو سی سی کے نفاذ کی جانچ کی جا رہی ہے۔

یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟
یکساں سول کوڈ ہندوستان میں شہریوں کے ذاتی قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی تجویز ہے۔ اس میں ملک کے تمام شہریوں پر ان کے مذہب اور جنس کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر یکساں طور پر لاگو کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس وقت مختلف کمیونٹیز کے پرسنل لاز ان کی مذہبی کتابوں کے مطابق چل رہے ہیں۔ یکساں سول کوڈ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت آتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ملک میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ بی جے پی طویل عرصے سے اس کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ ان کے 2019 کے انتخابی منشور کا بھی ایک حصہ ہے

ڈاکٹر عباد الرحمن نشاطمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 ام القریٰ یونیورسیٹی مکہ معظمہ کنگ خالد یونیورسیٹی ابہا سعودی عرب، ناردن الّی نو اے یونیورسیٹی (NORHERN ILLINOIS UNIVARCITY)کے سابق پروفیسر ، ندوۃ العلمائ، لکھنؤ کی مجلس انتظامی ونظامت کے سابق رکن، مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے دست گرفتہ، صحبت وبیعت مجاز اور معتمد خاص ، کئی کتابوں کے مصنف ومترجم ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط نے ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو اس دنیا سے رخت سفر باندھا، اس طرح علم وعمل اورفکر ونشاط کے اس پیکر خاکی کو لحد نے اپنے اندر سما لیا، لیکن ان کی خدمات ، تصوف سے ان کا شغف، خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ سے قربت، تاریخ کا حصہ ہے اور اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط بن شاہ افضال الرحمن کا مولد ومسکن لکھمنیاں بیگو سرائے بہار ہے،  بعد میں اوکھلادہلی کو انہوں نے اپنا مستقر بنالیا تھا۔ ۱۰؍ جون ۱۹۴۲ء کو اس عالم رنگ وبو میں تشریف آوری ہوئی، والد علاقہ کے مشہور زمیندار اور ایک اسکول میں استاذ تھے، لیکن ابھی ڈاکٹر عباد الرحمن نے عمر کی چھ بہاریں ہی دیکھی تھیں، کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، دس سال کے ہوئے تو والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں ، اس کے باوجود ڈاکٹر عباد الرحمن نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۷۰ء میں انگریزی زبان وادب سے آپ نے ایم اے کیا اور لکچرر کی حیثیت سے ایک کالج میں بحال ہو گیے، انگریزی زبان وادب میں کمال پیدا کرنے کے لیے انہوں نے امریکہ کا تعلیمی سفر کیا ، وہاں سے فراغت کے بعدسعودی عرب اور امریکہ کے کئی کالج اور یونیورسیٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور انگریزی زبان وادب کے رمز شناش اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے علمی دنیا میں اپنا مقا م بنایا اور پوری زندگی صدق وصفا کے ساتھ گذار دی۔
 ڈاکٹر صاحب اصطلاحی اور رسمی طو پر عالم نہیں تھے، لیکن ان کا خانوادہ اللہ والوں کا تھا، اور یہ نسبت نسلا بعد نسل منتقل ہو کر ڈاکٹر صاحب تک پہونچی تھی، ڈاکٹر صاحب کا نسبی تعلق حضرت شیخ سلطان مجددی بلیاوی بہاری سے تھا، جو عہد شاہ جہانی اور عالمگیری کے ممتاز ترین بزرگ تھے۔شیخ صاحب حضرت سید آدم بنوری (م ۱۰۵۳) کے خلفا میں سے تھے، ان کے ایک دوسرے خلیفہ خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ کے مورث اعلیٰ سید شاہ علم اللہ حسنی رائے بریلوی (م ۱۰۹۶) تھے، ان دونوں خاندانوں میں جو قربت بڑھی اور حضرت مولانا علی میاں ؒ کی جو توجہ خاص ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کو ملی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔
 ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط انگریزی زبان وادب کے آدمی تھے، لیکن ان کی فکر اسلامی تھی ،عہد شباب سے ہی انہیں علماء اور بزرگان دین کے احوال وکوائف کے مطالعہ کا شوق تھا، اس شوق نے ان کی رہنمائی حضرت مولانا ؒ کی کتاب ’’سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری‘‘ تک کی، اس کے مطالعہ کے بعد ان کا ذہن تصوف کی طرف مائل ہوا، سوانح  مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے مطالعہ سے تصوف کے رموز ونکات کے سمجھنے اور عملی طور پر برتنے کا شعور پیدا ہوا، حضرت مولانا علی میاں ؒ سے بیعت کا تعلق قائم ہوا، حضرت نے تصوف کے چاروں مشہور سلاسل تصوف قادریہ، چشتیہ،سہروردیہ، نقشبندیہ کے ساتھ حضرت آدم بنوری کے خاص سلسلہ ’’احسنیہ‘‘ میں بھی بیعت لیا، اور بعد میں ان تمام سلاسل میں خلافت عطا فرمائی اس خلافت کے پاس ولحاظ اور آخرت سنوانے کی فکر کی وجہ سے دم واپسیں تک ڈاکٹر صاحب نے سلوک وتصوف کے رموز ونکات کو سمجھنے اور برتنے میں لگا دیا، عمر کے آخری دور میں ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کی ذکر وفکر کے ساتھ اصلاحی اور تربیتی مجلس لگا کر لی تھی، یہ مجلسیں عموما احمد عبد اللہ عثمانی کے گھر پر ہفتہ واری ہوا کرتی تھیں۔
 مزاجی اعتبار سے آپ انتہائی نرم واقع ہوئے تھے، مسکراتا ہوا چہرہ گفتگو کا سلیقہ ، آواز میں نرمی ، لہجے کی مٹھاس، ریا ونمود ونمائش سے دور، ان کی عملی زندگی اور اصلاح حال کے لیے ان کے جذبے کی صداقت سے جو پیکر اور مجسمہ تیار ہوا وہ لوگوں کے لیے انتہائی پر کشش تھا اور لوگ ان کی طرف کھنچے ہوئے چلے آتے تھے۔
 ڈاکٹرصاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایمانی، اسلامی، احسانی زندگی کے ساتھ انگریزی میں تصنیف وتالیف اور ترجمہ نگاری کا بہت اچھا ملکہ دیا تھا، چنانچہ انہوں نے حضرت مولانا علی میاں ؒ کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور مغربی دنیا تک اسے پہونچایا، انہوں نے سید احمد شہید ؒ کی اسلامی تحریک کا جامع تعارف انگریزی زبان میں ، سید احمد شہید-تحریک اور اثرات SAYYID AHMAD SHAHEED : LIFE MISSION AND COTRIBUTINS  کے نام سے کرایا، اس کے علاوہ تعدد ازدواج ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کی تعلیمات پر ان کی کتابیں مشہور ہیں، انہوں نے آخری عمر میں ایک جامع کتاب اپنے جد امجد حضرت شیخ سلطان مجددی لکھمنیاوی کی سیرت اوصاف اور تعلیمات پر لکھی جو ان کی آخری مطبوعہ کتاب ہے، اس کتاب پر مولانا محمد کلیم صدیقی پھلتی دامت برکاتہم کا مقدمہ ہے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ذاتی احوال واوصاف کے حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے، اس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں: ’’انہیں حضرت شاہ سلطان کے احفاد میں ہونے کی نسبت حاصل ہے اور اس سے زیادہ خود وہ تعلق مع اللہ اور سنت وشریعت کے معاملہ میں حد درجہ محتاط اور ورع وتقویٰ کے لحاظ سے بھی اس دینی وروحانی دولت کے نمونہ اور امین ہیں جو اس مجددی سلسلہ کا امتیاز ہے‘‘۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...