Powered By Blogger

پیر, مئی 02, 2022

مولانا حشمت اللہ ندویؒ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا حشمت اللہ ندویؒ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یہ دردناک اورالم ناک خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ ۵/رمضان المبارک ۳۴۴۱ھ مطابق ۷/اپریل ۲۲۰۲ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایہئ ناز سپوت،عربی زبان وادب کے ماہر ورمزشناس،سنہری یادوں کے مصنف،ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق استاذ،حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے کے معتمد خاص،قطر میں ندوۃ العلماء کے ترجمان سمجھے جانے والے مولانا حشمت اللہ ندوی کاایک سٹرک حادثہ میں انتقال ہوگیا،انا للہ واناالیہ راجعون،حکومتی اوراسپتال کی کارروائیوں کے بعد۳۱/رمضان المبارک ۳۴۴۱ھ مطابق ۵۱/اپریل ۲۲۰۲ء روز جمعہ بعد نماز عشا ء و تراویح مقبرہ ابو ہامور میں ان کے جنازہ کی نماز ادا کی گئی،ان کے انتقال سے علمی دنیا میں جوخلا پیداہواہے اس کو سب نے محسوس کیا،خصوصاًندوۃ العلماء میں اس مایہ ناز سپوت کے دنیا سے رخصت ہونے پر ماتم پسرگیا۔پسماندگا ن میں اہلیہ،دولڑکے عمیر حشمت،علی حشمت اورتین لڑکیاں اسماء،فاطمہ،مریم کو چھوڑا۔
مولانا دھموارہ بلاک علی نگی ضلع دربھنگہ بہار کے رہنے والے تھے،ان کے والد الحاج ماسٹر محمد عیسیٰ صدیقی تھے،جو پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، مولانا کی والدہ کا نام آرا م بانوتھا اورسنہ پیدائش ۱۶۹۱ء۔ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن کی تکمیل مولانا نے اپنے گاؤں دھموارہ میں کیا،اس زمانہ میں گاؤں اوردیہات میں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کا رواج ذرا کم تھا،حفظ کے طلبہ تجوید کی تعلیم حاصل کرتے تھے،تب قرآن کریم پورے اصول وآداب کے ساتھ پڑھنا ممکن ہوسکتا تھا،مولانا کی تلاوت میں بھی تجوید کے اعتبار سے خامیاں تھیں،چنانچہ سلسلہ تھا نوی کے مشہور بزرگ مولانا سراج احمد امرہوی کے مشورہ سے مولانا کے والد نے انہیں مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی روانہ کیا،اشرف المدارس حضرت مولانا ابرارالحق حقی ؒ کاقائم کردہ تھااورتصحیح قرآن کاخاص اہتمام وہاں کل بھی تھا اورآج بھی ہے،۳۷۹۱ء میں مولانا وہاں داخل ہوئے،نورانی قاعدہ سے تعلیم شروع ہوئی،ایک ہفتہ میں یہ مرحلہ طے ہوگیا،پھر قرآن کریم حفظ کادور شروع ہوا،اس کی بھی تکمیل ہوگئی اورمولانا انتہائی خوش الحانی اورتجوید کی رعایت کے ساتھ تلاوت قرآن پرقادر ہوگئے،جن لوگوں نے ان کی تلاوت سنی ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کی تلاوت سن کر آدمی مسحور ہوجاتاتھا، پھر عربی کے ابتدائی درجہ میں داخلہ ہوگیا،یہاں مولانا مرحوم نے خصوصی طور پر حضرت مولانا قاری امیر حسن ؒ سے تربیت پائی،اسی لیے وہ انہیں اپنا محسن اورمربی کہاکرتے تھے،عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں انہوں نے قاری امیر حسن صاحب سے ہی پڑھیں،اور تین سال کی مدت میں کافیہ اورقدوری تک کی تعلیم حاصل کی،یہاں کے فیوض وبرکات سے دامن بھرنے کے بعد انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا،سال ۶۷۹۱ء کاتھا،داخلہ امتحان مولانا شفیق الرحمٰن ندویؒ اورمولانا شمس الحق ندوی صاحب نے لیااورثانویہ خامسہ شریعہ میں داخلہ ہوا، یہاں آپ کے رفیق درس جن سے خاص انس تھا،مولانا خالد کان پوری اورمولانا نجم الحسین تھے،داخلہ کی کاروائی مکمل ہونے کے بعدرواق شبلی میں رہنے کوجگہ ملی،کمرہ نمبر چھ تھا،حضرت مولانا مفتی ظہورصاحب ندوی نگراں تھے جوفجر کی نماز کے لیے خصوصیت سے لڑکوں کو جگایاکرتے تھے،کمرے کے جورفقاء تھے وہ خان برادران بھوپال کے تھے،ان حضرات سے مولانا کی اس قدر گاڑھی چھنتی تھی کہ کئی لوگ ان کو بھی بھوپال کا ہی سمجھتے تھے،عا  لمیت کے سال مولانا مرحوم نے ہدایہ اورسراجی مفتی صاحب سے ہی پڑھی اوران کے طریقہ تدریس سے مستفیض ہوئے،۲۸۹۱ء میں فراغت کے بعد تخصص فی الادب میں داخلہ لیا،آپ کی علمی قابلیت وصلاحیت کودیکھ کر تدریس کے لیے ندوہ میں ہی آپ کی تقرری عمل میں آئی،آپ غیر معمولی محنت وصلاحیت کی وجہ سے جلدہی حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ،مولانا واضح رشید ندوی ؒ اورمولاناسید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے قریب ہوگئے،حضرت مولانا کے بعض مضامین کاعربی میں ترجمہ کیاجوحضرت مولانا نے بعینہ ان کے نام کے ذکر کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا،مولانا مرحوم نے الرائد میں بھی رفیق کی حیثیت سے کچھ دن کام کیا،فروری ۲۸۹۱ء میں جب درالمصنفین نے اسلام اورمستشرقین پرسمینار کرایااورموقع عرب فضلاء کے لیے اردو مقالوں کے عربی خلاصے اورعرب مقالہ نگاروں کی اردوتلخیص کاتھاتواس فن میں آپ کی مہارت تامہ کاپتہ چلا،اس موقع سے ہرطبقہ نے آپ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا اورلوگ ان کے مداح نظر آئے۔
۷۸۹۱ء کے آخرتک ندوہ میں استاذ رہنے کے بعد آپ قطر چلے گئے،وہاں ان کی صلاحیت کے مطابق ملازمت نہیں ملی،اس لیے مایوسی کا شکار رہنے لگے،مولانا مرحوم کے اندرعلمی کبر نہیں تھا،کم گو تھے،لیکن حق گو تھے،فضول باتوں کا ان کے یہاں گذر نہیں تھا،ندوہ اوراکابرین ندوہ سے ان کی محبت مثالی تھی،یہ محبت ان کے خون کے ساتھ جسم وجان میں گردش کرتی تھی،ان کا حافظہ قوی تھا،وہ اردو،عربی،انگلش تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے،علی طنطاوی کے اسلوب سے متأثر تھے،ان کی کتابوں کے بہت سی عبارتیں ان کے حافظہ کی گرفت میں تھیں اوروہ انہیں بروقت اوربرجستہ استعمال کیاکرتے تھے،اس موقع پر مرشدالامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی یہ شہادت بھی نقل کرنے کو جی چاہتا ہے جو انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں دیاہے۔
”مولوی حشمت اللہ ندوی عربی ادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم میں بھی فائق تھے،طالب علمی ہی سے ان کا یہ معاملہ تھا کہ جو بھی کام ان کے سپرد کیاجاتاوقت سے پہلے کرکے لے آتے،عربی کی صلاحیت ان کی بہت اچھی تھی،وہ بہت اچھاترجمہ کرتے تھے،حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کے کئی مضامین کے ترجمے انہوں نے کئے،جو مختلف مجموعوں میں شائع بھی ہوئے،مجھے اپنے علمی کاموں میں ان سے مدد اورتقویت ملتی رہی،ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وہ ان مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوں گے جو ندوۃ العلماء کے زیر نظر ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا“ایسی بافیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا انتہائی صدمہ کاسبب ہے،اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم۔

*عید کی نماز عیدگاہ میں*

*عید کی نماز عیدگاہ میں*
 چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں بھی پچھلے دوسالوں میں عید کی نماز پڑھی گئی ہے،اس کی وجہ ہم سبھوں کو معلوم ہے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج بھی کچھ بھائیوں کواس پر اصرار ہے کہ جب اس مسجد میں عید کی نماز ہوچکی ہے،تو اب کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟یہ سوال ایک بڑامسئلہ بن کر آج ہمارے درمیان کھڑا ہوگیا ہے۔
اس تعلق سے یہ عرض ہے کہ عید کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں ہی پڑھی ہے، بلاعذر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں عید کی نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے،
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بخاری شریف کی یہ حدیث ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے ،سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کے لئے کھڑے ہوجاتے، اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے "۔
اس حدیث سے عیدین کی نماز کی ادائیگی عیدگاہ پر مسنون قرار دی گئی ہے، عام حالات میں شرعی حکم یہی ہے، البتہ ابوداؤد شریف کی ایک حدیث میں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہورہی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں نماز پڑھائی ہے۔
اس بنیاد پر یہ مسئلہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ عذر کی بنیاد پر ہی عید کی نماز مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اللہ کے رسول نے بھی اپنے اصحاب کو پڑھائی ہے،اپنے یہاں وبائی بیماری کی شدت اور حکومت وقت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پچھلےدو سالوں میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں نماز عید پڑھی گئی ہے، بحمداللہ اب وہ معاملہ نہیں رہا ہے ، موجودہ وقت میں اس پر اصرار سنت وشریعت کی صریح خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے۔بالخصوص سیمانچل کے علاقہ میں جہاں ہر گاؤں سے نکلتے ہی عید گاہ پر نظر جاتی ہے۔
حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:عید کی نمازکی اصل یہ تھی کہ مسلمان جس طرح ہفتہ میں ایک بار جمعہ کے لئے جمع ہوتے ہیں، اسی طرح سال میں دوبار ایک کھلے اور وسیع میدان میں جمع ہوں لیکن اس میں بھی مسلمانوں نے جمعہ کی طرح غفلت اور سہل انگاری سے کام لیا اور ہر چھوٹی بڑی مسجد میں عید کی نماز پڑھی جانے لگی،اس کی وجہ سے اس نماز کا بھی وہ اثر جاتا رہا، اور بہت سے وہ مقاصد فوت ہوگئے، جو شریعت کے پیش نظر تھے"(بحوالہ ارکان اربعہ،ص:88) 
مذکورہ بالا تحریر میں علی میاں رحمۃ اللہ نے جن مقاصد کے فوت ہونے کی بات کہی ہےوہ کیا ہیں؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف حجتہ البالغہ میں انہیں ہمارے سامنے کھول کھول کررکھ دیا یے،فرماتے ہیں:"ہر ملت کے لئے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں تاکہ ان کی شان وشوکت وکثرت تعداد ظاہر ہو،اور اسی لئے عیدین میں تمام لوگ حتی کے عورتوں اور بچوں کا نکلنا بھی مستحب قرار دیا گیا ہے، ان کو عیدگاہ سے علیحدہ ایک جگہ بیٹھنے اور مسلمانوں کی دعوت واجتماع میں شریک ہونے کا حکم ہے،اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے میں دوسرا اور آنے میں دوسرا راستہ اختیار فرماتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا نقشہ دونوں طرف کے لوگوں کے سامنے آجائے"(بحوالہ سابق،ص:90)
شاہ صاحب کی یہ تحریرسنت وشریعت کی روشنی میں نماز عیدکی جامع تشریح ہے،اس مختصر تحریر کے ذریعہ نماز عید کا مکمل خلاصہ  حضرت نے کردیا ہے، باوجود اس کے اگر کوئی بغیر کسی عذر کےاس کے خلاف جاتا ہے تو وہ سنت وشریعت کےخلاف عمل پیرا ہےاور مقاصد شریعت سے روگردانی کررہا ہے،ہمارے واقعی افسوس صد افسوس کی بات ہے۔
آج غیروں نے ہمارا طریقہ اپنا لیا ہے اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لئے اپنے رسمی تہواروں کو اس کا ذریعہ بنالیا ہے، اور ہم مسلمان اپنے شرعی عید کو رسمی طور پر منانے لگے ہیں، جبکہ موجودہ وقت میں اسے شرعی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے، بلکہ جس طرح اہل مکہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ کی آب وہوا نے کمزور کردیا ہے ،وبائی بخاروامراض کےیہ سبھی شکار ہوگئے ہیں، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد ادائے عمرہ کے موقع پر یہ حکم دیا کہ طواف کرتے وقت پہلے تین پھیروں میں شانے ہلاکر بہادر کی چال چلیں،اور اہل مکہ کے اس خیال کو غلط ثابت کردیں کہ ہم کمزور ہوئے ہیں، عربی زبان میں اسی چال کو رمل کہتے ہیں، یہ سنت آج بھی باقی ہے اور زندہ ہے،طواف کے موقع پر اسے عمل میں لایا جاتا ہے، 
اپنے ملک میں بھی کرونا وائرس اور نفرتی وائرس کی وبائی بیماری آنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ مسلمان کمزور ہوئےہیں اور بزدل ہوگئے ہیں،ساتھ ہی حجروں میں معتکف ہوگئے ہیں، اعتکاف ختم ہوگیا ہے، یہ بتلانے کے لئے بھی مسجد سے نکلنا ناگزیر ہے۔اور عید کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مومن قوی کی طرح ایک راستے سے جانا ہےتو دوسرے راستے سے آنا ہے،اور اپنی اجتماعیت کا ثبوت پیش کردیناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ

اتوار, مئی 01, 2022

دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ قوانین ہوئے سخت ، اب بغیرپولس ویری فکیشن کے نہیں مل پائے گاایڈمیشن دیوبند ( ایجنسی )

دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ قوانین ہوئے سخت ، اب بغیرپولس ویری فکیشن کے نہیں مل پائے گاایڈمیشن دیوبند ( ایجنسی )اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے دیوبند میں واقع ایک معروف وممتاز اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم میں داخلے کے لیے اب پہلے سے زیادہ سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ اب درخواست دینے والے طلباء کو ان کے جمع کرائے گئے اصل شناختی کارڈ کی پولیس تصدیق کروانے کے بعد ہی داخلہ دیا جائے گا۔ مدرسہ انتظامیہ نے یہ اطلاع دی۔
دی وائر ہندی کی رپورٹ کے مطابق دارالعلوم کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ داخلہ لینے والے طلباء کو آدھار کارڈ کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی جمع کرانی ہوگی، جس کی تصدیق مقامی انٹیلی جنس یونٹ (LIU) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں سے کرائے جائے گی اور شناختی کارڈ غلط پائے جانے پرنہ صرف دارالعلوم دیوبند سے نکال دیا جائے گا بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ جو طلباء اس سال دارالعلوم میں داخلہ لینا چاہتے ہیں انہیں پچھلے مدرسہ کا سرٹیفکیٹ، وہاں سے حاصل کردہ مارک شیٹ اور آدھار کارڈ، اپنا اور اپنے والد کا موبائل نمبر دینا ہوگا۔
نائب مہتمم نے کہا ہے کہ ملک کے جموں و کشمیر، مغربی بنگال، منی پور، تریپورہ اور آسام وغیرہ کے طلباء کو اپنے ساتھ رہائشی سرٹیفکیٹ اور حلف نامہ لانا ہوگا، اس کے بغیر داخلہ کا عمل مکمل نہیں ہو گا۔ اور اس سلسلے میں بھی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو طالب علم مطلوبہ دستاویزات جمع نہیں کرا سکتا ہے وہ داخلے کے لیے دارالعلوم دیوبند نہ آئے کیونکہ ایسے طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق 1866 میں قائم ہونے والے دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو اسلامی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ دارالعلوم کی بنیاد قاسم نانوتوی، فضل الرحمان عثمانی، سید محمد عابد اور دیگر نے رکھی تھی

ہفتہ, اپریل 30, 2022

سپریم کورٹ نے دیا عید کا تحفہ : شہریت کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود رہائی

سپریم کورٹ نے دیا عید کا تحفہ : شہریت کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود رہائی

عید سے عین قبل عید ۔ زندگی کی سب سے بڑی عید ۔ جی ہاں! ایسا ہی کچھ ہوا 63 سالہ محمد قمر کے ساتھ ۔جن کو ہندوستان کی سپریم کورٹ سے عید پر آزادی کا تحفہ اور ممکنہ طور پر ہندوستانی شہریت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجود کہ ان کی پیدائش ہندوستان کی ہے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس نے اس بزرگ کو کئی دہائیوں سے جاری آزمائش کو ختم کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں تین سال سے زائد عرصے تک حراستی مرکز میں گزارنا پڑا تھا۔

خیال رہے کہ محمد قمرگذشتہ کئی سالوں سے جیل میں بند ہیں۔ وہ برسوں سے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہےکہ پیدائشی طور پرایک ہندوستانی شہری ہیں، کیوں کہ ان کے پاسئی کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ شہریت کا کوئی دستیاویزی ثبوت نہ ہونے کے سبب انہیں جیل میں رہنا پڑا۔ محمد قمر عرف محمد کامل کی یہ ایک المناک کہانی ہے۔ وہ پانچ بڑے بچوں کے باپ ہیں، جنہیں اگست 2011 میں میرٹھ سے ہندوستان میں زیادہ دیر قیام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے پاس اپنی پیدائش اور شہریت کا  کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جس کی انہیں سزا ملی اور انہوں نے تقریبا ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزار دیا۔ 

 محمد قمر یوپی کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے اور جب وہ سات آٹھ سال کے تھے تو اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان کے سفر پر چلے گئے۔ ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں رہنےلگے۔ جنہوں نے ایک پاکستانی کے طور پر ان کی پرورش کی۔ تاہم کچھ سالوں کے بعد وہ میرٹھ میں واقع اپنےگھر پر واپس لوٹ آئے۔ یہاں انہوں نے ایک مقامی لڑکی سے شادی کی اور ویزا کی میعاد ختم ہونے یا اپنی ہندوستانی شہریت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کم از کم پرواہ کے بغیر وہ زندگی گزارنے لگے۔

حکومت پاکستان نے اس کی ملکیت سےانکارکردیا حالانکہ وہ ایک درست پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی بھی کاغذی ثبوت نہیں تھا۔ محمد قمر کا کہنا تھا کہ اس کے ہندوستانی پاسپورٹ کو اس کے پاکستانی رشتہ داروں نے کسی کام کے نہ ہونے کے باعث ضائع کردیا۔ گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا تھا کہ آپ اس شخص کو کب تک حراست میں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب کہ اس نے اپنی سچائی کو تسلیم کرلیا ہے اور اس نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ بھی ضائع کر دیا ہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ہیما کوہلی کی بنچ نے محمد قمر کو دہلی کے لامپور حراستی مرکز سے رہا کرنے کا حکم دیا جہاں وہ 2015 سے غیر ملکی قانون کے تحت حراست میں ہیں جب اس نے اپنی ساڑھے تین سال کی سزا پوری کی تھی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ چوں کہ مرکز اور یوپی حکومت اسے سیکورٹی کے لیے خطرہ نہیں سمجھتی اور ان کی شادی ہندوستان سے ہوئی تھی اور اس کے پانچ بچے ہیں۔ جو سبھی ہندوستانی ہیں۔اس لیے 63 سالہ بوڑھے کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔

اس بڑھاپے کی عمر میں ان کچھ مدد کی جائے۔ خاص طور پر جب پاکستانی ہائی کمیشن کونسلر کو دو بار رسائی دینے کے باوجود ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق نہیں کر رہا ہے۔ قمر عرف محمد کامل نے عدالت کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے اور اس کے لیے درخواست دینے کے قابل ہونے کے لیے اسے حراست سے رہا کیا جانا چاہیے۔ درخواست گزاروں کے مطابق محمد قمر کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ محمد قمر1958 میں میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ (قمر) اپنی ماں کے ساتھ 1967-1968 میں تقریباً 7-8 سال کے بچے کے طور پر ہندوستان سے پاکستان گئے تھے تاکہ وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ویزہ پر چلے گئے تھے۔ تاہم، ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا، اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں پاکستان میں ہی رہنے۔

یہ باتیں کہ سپریم کورٹ نے میں دائر کی گئی ہیبیس کارپس کی درخواست میں کہی گئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ قمر بالغ ہونے پر 1989-1990 میں پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان واپس آئے اور میرٹھ کی شہناز بیگم سے شادی کرکے وہیں سکونت اختیار کر لی۔ محمد قمرکواندازہ نہیں تھا کہ اسے ویزا میں توسیع کی ضرورت ہے۔ 

اسے پولیس نے گرفتار کیا اور عدالت نے اسے پاکستان کا شہری اور غیر قانونی طور پرہندوستان میں رہنے کا مجرم قرار دیا۔ اس نے6 فروری 2015 کو اپنی تین سال اور چھ ماہ کی سزا مکمل کی اور اس کے بعد محمد قمر کو نئی دہلی کے نریلا میں لام پور کے حراستی مرکز میں بھیج دیا گیا۔

تاہم پاکستان کی حکومت نے ان کی ملک بدری کو قبول نہیں کیا اور وہ مرکز میں بدستور رہے۔ اسے وہاں رہتے ہوئے سات سال گزر چکے ہیں۔  درخواست گزاروں نے قبول کیا کہ ان کے والد کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ 1967-68 کے قریب پاکستان گئے تھے اور ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود غیر متنازعہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر 1989-90 کے آس پاس ہندوستان آئے تھےاور تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنے ویزے میں توسیع نہیں کی اور بعد ازاں یہاں شادی کرلی۔

محمد قمر کے بچوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کے والد کو رہا کیا جائے تاکہ وہ ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دے سکیں کیونکہ ان کے پانچ بچے ہندوستانی شہری ہیں۔


جمعہ, اپریل 29, 2022

رمضان کاآخری عشرہ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان کاآخری عشرہ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک کے تین عشرے دیے تھے،دوعشرے سے ہم گذرگئے،اللہ کی توفیق سے جتنی عبادت ممکن ہوسکی کرنے کااہتمام کیا گیا،رحمتوں کے حصول کے ساتھ مغفرت کی امید بھی جگی،اب تیسرااورآخری عشرہ شروع ہوگیاہے،رمضان پورامہینہ گورحمتوں اوربرکتوں والا ہے،اس کے باوجود پہلے عشرہ کے مقابلہ میں آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بڑھی ہوئی ہے، اس لیے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاگیاہے اورایک شب قدر کی عبادت کاثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے،ذراسوچیے!اللہ کی نوازش اورعطاکااگر ہم نے رمضان کی پانچ راتوں میں اللہ کوراضی کرنے کے لیے محنت کرلیا تو سابقہ امتوں کی بڑی عمر اوران کی عباد ت سے ہم کس قدر آگے بڑھ جائیں گے،یہ رات ہمیں یقینی مل جائے اس کی لیے ہمیں اللہ کے دربار میں پڑجاناچاہیے،اسی در پر پڑجانے کا شرعی نام اعتکاف ہے،جب بندہ بوریا،بستر لے کر اکیس کی رات سے مسجد میں اور عورتیں گھر کے کسی کونے میں جگہ مختص کرکے بیٹھ جاتی ہیں اورشب وروز علائق دنیا اور کاروبار زندگی سے الگ ہٹ کر صرف ذکراللہ،تلاوت قرآن،نماز،تراویح،تہجد میں وقت صرف ہوتا ہے تو اللہ کی خصوصی رحمت اس بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے،اسے شب قدر بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے،جو جہنم سے گلو خلاصی کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے ہر گاؤں،محلہ کی مسجدوں میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے،وقت ہواورسہولت میسر ہوتو ان اوقات کاکسی اہل اللہ کی معیت میں گذارنازیادہ کارآمد اورمفید معلوم ہوتاہے،تزکیہ نفس اوراصلاح حال کے لیے اہل اللہ کی صحبت کیمیا کا درجہ رکھتی ہے،اس لیے اہل اللہ کے یہاں آخری عشرہ کے اعتکاف میں مریدین،متوسلین اورمعتقدین کابڑا مجمع ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

جولوگ اعتکاف میں نہیں بیٹھتے ہیں،ان کے یہاں اس سلسلہ میں کافی کوتاہی پائی،اس رات کی عباد ت کی طرف توجہ نہیں ہواکرتی اوراگر ہوتی بھی ہے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جورت جگّہ میں اسے گذار دیتے ہیں،مسجد میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی گپ میں لگے ہوتے ہیں،ایک تورمضان کی رات دوسری شب قدر اورتیسرے اللہ کا گھر،ظاہر ہے یہ رت جگے اللہ رسول کے حکم وہدایت کے مطابق نہیں ہیں،اس لیے مسجد میں گپ بازی سے ثواب کے بجائے الٹے وبال کا امکان ہے، اس لیے اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے،جس قدر شرح صد رکے ساتھ عبادت ہوسکے، کرے،لوگوں کودکھانے کے لیے رات بھر جاگنا اورلہوولعب میں مبتلا رہنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

بعض حضرات اکیس(۲۱)،تئیس (۲۳)،پچیس(۲۵) اورانتیس(۲۹) تاریخ میں شب قدر کی تلاش کااہتمام نہیں کرتے ہیں،وہ صرف ستائیس کی رات کوہی شب قدر مانتے ہیں اوراس رات میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں،یہ طریقہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاہے،نہ کہ صرف ستائیس کو،ان میں سے بعضے منطقی گفتگو کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر میں تین بار لیلۃ القدر کاذکر کیا ہے اورایک لیلۃ القدر میں نوحروف ہیں،اس طرح تینوں لیلۃ القدر کے حروف کے اعداد ستائیس ہوتی ہے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیس کی رات کو ہے،لیکن چوں کہ یہ منطق احادیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی حیثیت ذہنی ورزش سے زیادہ کچھ نہیں،بعض احادیث میں بھی ستائیس کا ذکر آیاہے؛لیکن محدثین نے طاق راتوں میں تلاش کرنے کی روایت کو درست قرار دیاہے،بعض بزرگوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ستائیس کی شب کو شب قدر پایا،یہ ان کا مکاشفہ ہوسکتا ہے؛لیکن ہم تو پابنداسی کے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

بعض لوگ اعتکاف میں بیٹھ کر بھی اللہ کی عبادت سے زیادہ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں،دوسرے معتکفین کے ساتھ  غیر ضروری گفتگو میں زیادہ وقت گذار دیتے ہیں،یہ طرز عمل بھی غیر مناسب ہے، اس سے احتیاط برتنا چاہیے۔

تراویح کی نماز اس عشرے میں بھی پہلے دوعشرے کی طرح ہوتی ہے؛لیکن ہمارے یہاں ہندوستان میں تین روز،دس روز،پندرہ روز میں عموماًتراویح میں قرآن کریم سن لیاجاتاہے اورحفاظ سنالیاکرتے ہیں اور یہ کہاجاتاہے کہ ہماری تراویح ختم ہوگئی،یہ ایک غلط تعبیر ہے جو ہمارے یہاں رائج ہے،تراویح کی نماز چاند دیکھ کر شروع کرنا اورچاند دیکھ کر بند کرنا ہے،تراویح میں پوراقرآن سن لینا ایک کام ہے اورپورے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنا دوسراکام، اس کی وجہ سے جولوگ تراویح میں ایک قرآن سن لیتے ہیں چاہے وہ جتنے دن میں ہو تراویح پڑھنے میں سستی کرنے لگتے ہیں اورسورہ تراویح پڑھنے کو زائد عمل سمجھتے ہیں،یہ سوچ غیر شرعی ہے، تراویح کی نماز کااہتما م پورے مہینہ کرنا چاہیے اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی کوراہ نہیں دینی چاہیے!موقع نہ ہوتوتنہا ہی پڑھ لے؛لیکن پڑھے،تراویح کی نماز سے محرومی بدبختی کی بات ہے۔

کئی لوگ کسی خفگی،امام سے رنجش،مقتدیوں سے چپقلش کی وجہ سے مسجد حاضر نہیں ہوتے اوراپنے دروازہ پر ہی تنہا نماز پڑھ لیتے ہیں،یہ عام دنوں میں بھی غلط ہے،خصوصاًرمضان المبارک جیسے مہینے میں مسجد میں حاضری سے محرومی بہت افسوس کی بات ہے،ایسے لوگوں کواپنے اعمال کاجائزہ لیناچاہیے کہ جب سارے لوگ مسجد کارخ کرتے ہیں،اللہ نے کسی بدعملی یابے عملی کی وجہ سے رمضان المبارک میں اپنے گھر سے اسے دورکررکھاہے۔
رمضان کے اخیر عشرہ میں ہی عموماًعیدگاہ جانے سے پہلے تک صدقہ فطرمسلمان نکالتے ہیں،یہ بھی رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے،اس سے غریبوں کے لیے نان نفقہ کاانتظام ہوجاتاہے،اس رقم کا استعمال اپنے غریب رشتہ داروں،پاس پڑوس کے محتاجان اورضرورت مندوں کے لیے کرنا چاہیے،کیوں کہ یہ لوگ اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں،آپ کے تعاون سے ان کی عید بھی اچھی گذرجائے گی اور اللہ کی میزبانی کایہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں گے،فقہاء کی ایک تعبیر انفع للفقرائکی بھی ہے،یعنی وہ چیزجس سے فقراء کو زیادہ فائدہ پہونچے،صدقۃ الفطر عام طور پر نصف صاع گیہوں یااس کی قیمت جو مقامی ہوتی ہے کے حساب سے نکالاجاتاہے،یہ رقم کم ازکم پچاس روپے بنتی ہے؛لیکن اگرکھجور،کشمش وغیرہ سے فطرہ نکالیں گے تو ان اجناس کے گراں ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جائے گی اوران کی مقدار بھی ایک صاع ہے،اس لیے ہراعتبار سے یہ فقراء کے لیے زیادہ نفع بخش ہے،اس لیے جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ دوسری اجناس سے بھی فطرہ نکالیں تو بہتر ہوگا،یہ ایک مشورہ ہے،ہم کسی پر لازم نہیں کرسکتے کہ وہ فلاں چیز سے ہی فطرہ نکالے،جب شریعت نے اختیار دیاہے تو ہمیں کیا حق پہونچتاہے کہ کسی ایک چیز کو خاص کرلیں۔
اس عشرہ کا اختتام عیدالفطر کے چاند دیکھنے پر ہوتاہے،عید کا چاند دیکھنے کے بعدرمضان کے رخصت ہونے کی حسرت عیدکی خوشی پر غالب آجاتی ہے،اورایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جس طرح شیطان قیدوبند سے آزاد ہوا،اسی طرح ہم بھی آزاد ہوگئے،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اوراس رات کوقسم قسم کے خرافات سے آلودہ کیاجاتاہے،نوجوانوں کے لیے یہ رات بھی رت جگّے کی ہوجاتی ہے،حالانکہ حدیث میں اس رات کانام لیلۃ لجائزہ،انعام والی رات ہے،مہینے بھرجوعبادت کی گئی اس کا انعام اب ملنے والا ہے،ابھی انعام ملا نہیں کہ تماشے شروع ہوگئے،اچھے اچھے لوگوں کودیکھا کہ وہ عید کی صبح فجر کی نماز سے غائب تھے،حالانکہ فجر کی نماز توفرض ہے،پہلے ہی دن رمضان کااثرختم ہوگیا،حالانکہ رمضان تربیت کامہینہ تھا اوراس ایک ماہ کی تربیت کااثر گیارہ ماہ تک باقی رہناتھا،زندگی اوراعمال میں تبدیلی آنی تھی،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے روزے اورعبادتیں اس پائے کی نہیں ہوپائیں جو شریعت کومطلوب ہے اورجس کے نتیجے میں تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے،ذراسوچیے!اوراپنا محاسبہ کیجئے!شاید اس محاسبہ کے بعد ہم اپنے اندر تبدیلی پیداکرسکیں۔

جمعرات, اپریل 28, 2022

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم

ابوشحمہ انصاری، بارہ بنکی

انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں مذہبی مقامات پر آواز کی حد کے اصولوں کی عدم تعمیل/معیار کے خلاف چلائے جانے والے لاؤڈ اسپیکر مذہبی مقامات سے ہٹاے جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں بارہ بنکی ضلع میں انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کے ذریعہ کل 614 غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے اور 207 لاؤڈ اسپیکر کم کیے گئے اور 571 لوگوں کو نوٹس بھیجے گئے۔

پاکستان میں نئی حکومت___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پاکستان میں نئی حکومت___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی حکومت بے دخل ہوئی ہے،گووہاں کی اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہیں کیے،البتہ اس بار ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہوا،عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کاسامنا کرنے سے انکارکردیا،پارلیامنٹ کے ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری اورملک کے صدر عارف علوی نے ان کاساتھ دیا،پارلیامنٹ تحلیل ہوگئی،عمران خان نے نئے انتخاب کا اعلان کیا،حزب مخالف سپریم کورٹ پہونچے،سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمرعطابندیالی کررہے تھے قومی اسمبلی بحال کردی،اورعدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کرنے کو کہا،پارلیامنٹ میں بحث چلی،عمران خان کی انصاف پارٹی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے استعفیٰ کے بعد نئے اسپیکر نے رات بارہ بجے ووٹنگ کرائی اورایک سو چوہتر(۴۷۱) ممبران کی معمولی اکثریت سے عمران خان کی حکومت گرگئی،معمولی اس لیے کہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر(۲۷۱) ووٹ چاہیے تھے صرف دو دووٹ زائد آئے،نواز شریف کے بھائی شہباز شریف حزب مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے امید وار بنے اورانہیں جمعیت علماء پاکستان،پوپلس پارٹی مریم شریف وغیرہ کی حمایت حاصل تھی،ایسے میں وہ پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بلامقابلہ منتخب ہوئے،صدرمملکت حلف برداری کے لیے نہیں پہونچے،رسمی طور پر بیمار ہوگئے تومعمول سے ہٹ کرسینٹ کے چیئرمین نے حلف دلایا اوروہ اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں،عمران خان کی انصاف پارٹی کے سارے ارکان پارلیمان نے استعفیٰ دے دیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ بخیر نہیں ہے۔
عمران خان کے اس عمل سے پاکستان کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے اورسامراجی طاقتوں کادبدبہ پاکستان پر بڑھاہے،عمران خان یہی تو کہہ رہے تھے کہ ہماری حکومت گرانے میں غیر ملکی طاقتوں کاہاتھ ہے،ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا اوریہ کچھ غلط بھی نہیں ہے،علاقہ میں پاکستان امریکہ کا حلیف رہا ہے،اسے چین کوکنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے،ادھر چین سے دوستی بڑھانا پاکستان کی مجبوری بن گئی اورعمران خان نے امریکہ کی داداگیری کے اثرات کو پاکستان میں کم کرنے کا بیڑا اٹھایا،انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بھی آواز اٹھائی،پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور اس کی وجہ سے ا س کے وقار میں اضافہ ہوا۔
دوسری طرف اندرونی پالیسی میں عمران خان کچھ زیادہ نہیں کرسکے،جوامیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں،وہ اس پر پورے اتر سکے،ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلاگیا؛اس لیے حزب مخالف کوموقع ملا اوروہ عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایسے میں عمران خان کوعدم اعتماد کی تحریک کاسامنا کرنا چاہئے تھا یااستعفا دے دینا چاہیے تھا،عمران خان نے ایساکچھ نہیں کیا،ایک نیاداؤ کھیلا جس سے ملک کی پارلیامنٹ کوکبھی سامنا نہیں کرنا پڑاتھا،ا س طرح عمران خان خودہی ذلیل ہوکر ایوان اقتدار سے باہر ہوئے،اگر وہ اکثریت کھودینے کی وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے توانہیں استعفادے دینا چاہیے تھا،جیساکہ صرف ایک ووٹ کم ہونے پر اٹل بہاری باجپئی نے استعفادیدیاتھا،اگروہ ایساکرلیتے تو ملک میں جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی اورمضبوطی آتی۔
اس پورے قضیہ میں پاکستانی فوج کا رویہ تاریخ کے برعکس رہاہے،ایسے موقع سے پاکستان میں فوج حکومت پر قابض ہوتی رہی ہے،پاکستان میں مارشل لاکی تاریخ طویل بھی ہے اورقدیم بھی،لیکن اس بار فوج نے اب تک اس سیاسی قضیہ سے خود کو الگ رکھا اورکوئی دخل اندازی نہیں کی،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہو،خود فوجی سربراہ باجواعمران خان کے قریب رہے ہیں اورانہوں نے ملاقات کرکے باربار اس قضیے کوحل کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس واقعہ کے بعد ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہیں ہوپائے،پاکستان میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی واپسی حکومت میں ہوچکی ہے،اگلے انتخاب میں عمران خان کے لیے موقع ہوسکتا ہے۔
پاکستان ہماراپڑوسی ملک ہے،وہاں کی سیاست کے نشیب وفراز پر ہماری نگاہ ضروری ہے،ہمارے وزیر اعظم نے شہباز شریف کو مبارکباددے دی ہے اوراچھے تعلقات کی امید ظاہر کی ہے،لیکن یہ بس رسمی جملہ ہے،شہباز شریف نے آتے ہی کشمیر مسئلہ کی بات کہی ہے اورکشمیر مسئلہ کے ساتھ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کس طرح رہ سکتے ہیں؟ماضی میں دوجنگیں ہندوپاک اس مسئلہ پر لڑ چکاہے،اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاسی قائد سے زیادہ اچھے منتظم ہیں،اچھے منتظم کاتقاضہ ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات استوار رکھیں،امریکہ اورچین سے دوستی میں اعتدال کوراہ دیں اورافغانستان میں طالبان کواپنے من کی حکومت کرنے دیں،کیوں کہ افغانستان میں پاکستان کی دخل اندازی سے خطہ میں ماحول سازگارنہیں رہ پائے گااورایسے میں ہندوستان کی تشویش بجا ہوگی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...