Powered By Blogger

جمعرات, جولائی 21, 2022

محرم الحرام کے موقع سے سلسلہ وار پروگرام کی ترتیب

محرم الحرام کے موقع سے سلسلہ وار پروگرام کی ترتیب 
(اردو دنیانیوز۷۲)
بعنوان . ماه محرم الحرام حقاق ، فضائل اور خرافات و بدعات بوقت بعد نماز عصت تاعشاء پپرا - حاجی ابراہیم والی مسجد کرسیل ۔ مرکزی جامع مسجد کمہیا - نوری مسجد مولانا محمد مسرور صاحب قاری ارشد جمال صاحب مفتاحی مولانا محمد ارشد صاحب مظاہری بتاريخ 24/07/2022 بتاريخ 25/07/2022 بتاريخ 26/07/2022 دھنپورہ- جامع مسجد مفتی محمد ارشد صاحب قاسمی بردار مدرسه والی مسجد نگورا- باحاطه مدرسه قاری محمد ابو ذرصاحب حافظ محمد شاہد صاحب بتاریخ 27/07/2022 بتاریخ 28/07/2022 بتاريخ 29/07/2022 کاشی باڑی ٹولہ کر بلا- جامع مسجد کامت بات- مدرسه دریتیم بارالتمبرار- مرکز جامع مسجد قاری عبدالقدوس صاحب مولانامحل محمد صاحب مظاہری مولانا محمد توحید صاحب مظاہری بتاریخ 30/07/2022 بتاريخ 31/07/2022 بتاريخ 01/08/2022 کجلینا - چوک والی مسجد پتھراباڑی - شاہی جامع مسجد بگڈ ہرا ۔ مرکزی جامع مسجد مولانا اسحاق منا ومولانا نعیم الدین منا مولانا نظام الدین صاحب قاسمی قاری تنزیل الرحمن صاحب عرفانی بتاريخ 02/08/2022 بتاريخ 03/08/2022 بتاريخ 04/08/2022 کنوینر پروگرام : عبدالوارث مظاہر کی سکریٹری تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی ، جو کی ہاٹ و پلاسی ضلع اور یہ ( بہار ) ) موبائل نمبر 8235091350 / 9686759181 منجانب : تحفظاشرلعت وویلفیئرسوسائی نوکیا و پلاسی ضلع ارریہ بہار )

سی،ایم،بی کالج میں دس روزہ تعلیمی وثقافتی پروگرام کا افتتاح

سی،ایم،بی کالج میں دس روزہ تعلیمی وثقافتی پروگرام کا افتتاح 
(اردو دنیانیوز۷۲)
آ ج بتاریخ 21جولائی 2022ء کو ایل این ایم یو کے زیر اہتمام چل رہے سی ایم بی کالج میں دس روزہ مختلف قسم کے تعلیمی وثقافتی پروگرام کا باضابطہ افتتاح کالج کے پرنسپل ڈاکٹر کیرتن ساہو و ڈاکٹر عبدالودود قاسمی (برسر کالج) اور دیگر اساتذہ کے ہاتھوں شمع جلاکر کیا گیا پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ہری شنکر رائے (بڑا بابو)نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ پروگرام کا آ غاز کرتے ہوئے ڈاکٹر قاسمی نے دس روزہ پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری یونیورسٹی گولڈن جوبلی تقریب منارہی ہے جس کی آ خری تقریب بہت بڑے پیمانے پر 5اگست 2022ء کو منایا جائے گا اس موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ بہتر کار کردگی کرنے والے ادارے ان کے ذمہ داروں سمیت طلباو طالبات کو اعزاز واکرام اور توصیفی سند سے بھی نوازے گی۔عالی جناب وائس چانسلر صاحب اور جناب ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب (رجسٹرار ایل این ایم یو) کے حکم وہدایات پر عمل کرتے ہوئے سی ایم بی کالج میں بھی دس روزہ متعدد تعلیمی وثقافتی پروگرام منعقد کئے گئے ہیں جس کا افتتاح ابھی آپ نے دیکھا ۔افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو (پرنسپل کالج) نے سب سے پہلے یونیورسٹی انتظامیہ کا بصد خلوص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم وی سی سر اور رجسٹرار صاحب کے بے حد ممنون ہیں کہ ان لوگوں نے بیک وقت کالج میں متعدد مضامین کے گیارہ گیسٹ فیکلٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وں کو بھیج کر اساتذہ کے قحط کو دور کردئے مجھے امید ہے کہ آپ تمام اساتذہ کے آنے سے تعلیم وتدریس کا سلسلہ اب مزید بہتر ہوجائے میں تمام نو منتخب پروفیسروں کا والہانہ استقبال کرتا پوں۔ افتتاحی سیشن کے بعد کوئز مقابلہ کا آ غاز کیا گیا واضح رہے کالج کانام دو اہم شخصیات پر مشتمل ہے چندر مکھی اور بھولا اس کو سامنے رکھتے ہوئے کوئز مقابلہ کے لئے دوگروپ بنائے گئے لڑکی والے گروپ کام نام چندر مکھی گروپ تو لڑکے والے گروپ کا نام بھولا گروپ رکھا گیا ۔جس میں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات نے بڑھ چڑھ کر ذوق و شوق سے حصہ لیا ۔کوئز مقابلہ کے انچارج جناب ڈاکٹر جیتندر کمار اور ڈاکٹر آ لوک کمار کی قیادت میں یہ پروگرام بہت اچھے انداز میں انجام تک پہونچا کا فی اتار چڑھاؤ کے بعد لڑکیوں کی چندر مکھی گروپ نے آ خر بازی مار ہی لی اور اپنی جیت درج کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔پروگرام کو کامیاب کرنے میں کالج تمام اساتذہ کے ساتھ کالج کے غیر تدریسی ملازمین بھی پیش پیش رہے۔ بالخصوص نو منتخب اساتذہ کرام ڈاکٹر بھگت کمار منڈل (شعبہ میتھلی)،ڈاکٹر رتن کماری (شعبہ میتھلی) ڈاکٹر آ لوک کمار (شعبہ کامرس) ڈاکٹر پروین کمار (شعبہ شوسیولوجی) ڈاکٹر پریم سندر پرساد (شعبہ فلسفہ) ڈاکٹر ویریندر کمار( شعبہ کیمسٹری) ڈاکٹر جیتندر کمار سنگھ (شعبہ کامرس )ڈاکٹر اوپیندر کمار (شعبہ فزکس )ڈاکٹر دھر میندر کمار( شعبہ زو لوجی) ڈاکٹر محمد نوشاد عالم (شعبہ پولیٹیکل سائنس) ڈاکٹر اوماشنکر کمار(شعبہ کامرس) ڈاکٹر نریش کمار(شعبہ انگریزی) ڈاکٹر سنجے کمار (شعبہ ہندی) ڈاکٹر پر بھاکر کمار (شعبہ اکانو مکس) وغیرہ کے ساتھ اسٹوڈینٹ یونین کے ذمہ داران طلباء جیتندرکماریا دو پپو یادو پروگرام کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔کل بتاریخ 22جولائی 2022ءکو اسی کڑی کے تحت بحث ومباحثہ کا پروگرام بعنوان اگنی پتھ یوجنا منعقد کیا جائے گا ۔

سیلاب کی آمد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

سیلاب کی آمد 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
موسم باراں شروع ہو گیا ہے ، سخت اُمَس اور تمازت کے بعد بارش کے ہونے سے جسم وجاں کو سکون ملا ہے، فصلوں کے بہتر ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، خشک ندی اور تالاب میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت دو ر ہوئی ہے، اور چرند وپرند نے بھی راحت کی سانس لی ہے ، گھنگھور گھٹائیں، رم جھم بارش، مرطوب ہوائیں دل میں بھی ایک کیف وسرور پیدا کرتی ہیں اور ہر شئی کو زندگی مل جاتی ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ۔ وجعلنا من الماء کل شی حی ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، لیکن یہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ زندگی کے ساتھ موت کا رقص بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی کثرت سے کچے مکان گرجاتے ہیں، آب ودانہ اور غذائی اجناس کی قلت ہوجاتی ہے، آمد ورفت کے ذرائع مسدود ہونے کی وجہ سے جانوروں اور چھوٹے بچوں کی غذائی ضرورتوں کے پوری کرنے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے ، لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو تے ہیں یا پھر اونچے مکان کی چھت پر پناہ گزیں ہوجاتے ہیں، یہ منظر بڑا درد ناک ہوتا ہے ، موسم باراں کا سارا کیف وسرور کافور ہوجاتا ہے اور آدمی اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف تکتا اور دیکھتا رہتاہے ۔
 بد قسمتی سے بہار اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ امسال سیلاب کی قہر سامانی کا سامنا آسام پہلے سے کر رہا ہے ، بہار میں نیپال کے ذریعہ چھوڑا ہوا پانی بے قابو ہو جاتا ہے اور کئی اضلاع کو متاثر کرجاتا ہے، نیپال کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے یہاں پہاڑ ی ندیاں ہیں، جن میں گہرائی نہیں ہوتی، وہ اُتھلی ہوتی ہیں، ان کے اندر پانی کی لہروں اور روانی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ڈیم کے ذریعہ روک کر پانی کام میں لایا جاتا ہے اور بہت بڑھ جائے تو گیٹ کھول کر سرحدی اضلاع میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
 بہار کی حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ امسال سیلاب پر قابو پانے کی کارگر ترکیبیں کی گئی ہیں، لیکن جب بارش ہونے لگتی ہے تو کار گر ترکیبیں حکومتی سطح کی دوسری ترکیبیوں کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں، اور عوام کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچاؤ کی تدابیر اور ضروری سامانوں کی سپلائی کا بڑا حصہ ان سوراخوں کے ذریعہ جواب اس ملک کا مقدر بن گیے ہیں، ضرورت مندوں کے بجائے دوسروں تک پہونچ جاتے ہیں، اور ضرورت مند منہہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 امسال ابھی بارش شروع ہی ہوئی ہے کہ سیمانچل کے کئی اضلاع میں سیلاب کا پانی بھر گیا ہے، اورلوگ پریشان ہو رہے ہیں، یہ پریشانی اور بڑھے گی ، متھلانچل کے علاقہ میں بھی سیلاب کی تباہ کاری کے امکانات ہیں، اس موقع سے امداد وتعاون کے لیے قریب کی ان آبادیوں کو جن کو اللہ رب العزت نے اس پریشانی سے محفوظ رکھا ہے دست تعاون دراز کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر امداد رسانی کا کام ممکن ہو سکے ، ایسے موقع سے بعض تنظیمیں بھی آگے آتی ہیں، خصوصا امارت شرعیہ جس کا امتیاز ایسے موقع پر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا رہا ہے اور اس کے امداد بہم پہونچانے کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، یہ سب اہل خیر کی توجہ سے ہی انجام پاتا ہے ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ضلع اور بلاک کے صدر سکریٹری ، نقیب اور ارکان کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی تعاون کرنا چاہیے، کیوں کہ زمانے کی گردش سڑک پر چلنے کی طرح سیدھی سیدھی نہیں ہوتی، اس کی گردش دائرے کی شکل میں ہوتی ہے، جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور گردش میں وہ دائرے کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر انہوں نے نیچے جانے والے پریشان حال لوگوں کا ہاتھ پکڑے نہیں رکھا تو اگلی گردش میں وہ نیچے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے خود اوپر ہونے کے وقت نیچے والے کا ہاتھ نہیں پکڑے رکھا تھا، اس لیے اب جو مصیبت ان پر آئے گی، اس میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا، اس لیے ایسے موقعوں پر دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیے۔تعاون کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔

اسلامو فوبیا ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

اسلامو فوبیا ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیانیوز۷۲)
چودہویں صدی ہجری میں عالم اسلام نے مغربی دنیا سے شدیدعلمی وفکری مزاحمت کے بعد جو بر تری ثابت کی اور جس کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں اسلام نے پھر سے اپنے قدم جمائے ،وہاں اسلامی تہذیب وثقافت ، اسلامی اقدار اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی واضح اور عمد ہ تعلیمات نے لوگوں کو متاثر کرناشروع کیا ، عیسائیت کی سمٹتی طنابیں اور یہودیت کی مادیت سے قربت اور مذہب سے دوری کی وجہ سے اسلام لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگا ، جس سے مغربی استعمار کو خطرہ لاحق ہوا ،اور ایسا انہیں محسوس ہونے لگا کہ اسلام دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ اس احساس نے انکے اندر اسلام سے خوف پیدا کردیا اور وہ اسے ہوّا بنا کر فوبیا کے شکار ہو گئے، فوبیا نارمل حالت کو نہیں کہتے، یہ Abnormel fearہوتا ہے ، یہ لفظ انگریزی سے منتقل ہو کرا ن دنوں عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ عربی میں اس کے معنی’’ ھلع مرض من شی معین ‘‘ مریضانہ انداز میں کسی معین چیز کا ہوّا کھڑا کر دیناکے ہیں ، یہ ہوّا  اُدبائ، شعرائ، مفکرین، میڈیا، دانشور ، سیاست داں وحکمراں سبھی طبقہ کی طرف سے کھڑا کیا گیا  اور ایسا ماحول بنا یا گیا کہ سبھی تہذیب وثقافت اور سبھی آئیڈیا لوجی کے لوگ اسلام سے خطرہ محسوس کرنے لگے ، اس خطرہ کے پیش نظر انہوں نے ایسی پالیسیاں بنائیں اور ایسے اقدام کئے، جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انکے دلوں میں نفرت کی آگ بھر دی ،مستشرقین یورپ نے غلط پروپگنڈہ کرکے نفرت کی اس آگ کوخوب خوب ہوا دیا ، اور شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کے پھیلا نے کا کام منصوبہ بند انداز میں کیاگیا ،جس کی وجہ سے غیر مسلم دنیا یقین کرنے لگی کہ اسلام، تشدد ، زبردستی ، بے لوچ کٹر پن، تعصب اور تنگ نظری کا مذہب ہے ۔انہوں نے اپنے منصوبہ کی بنیاد جن اصول ودفعات پر رکھی ،ا س میں ایک اصول یہ طے کیا کہ اسلامی معاشرہ سے ایسے طریقے سے نفرت دلائی جائے ، جس سے ہماری دشمنی طشت ازبام نہ ہو اور ہم دینی وروحانی اقدار میں عیوب ونقائص نکال کر اسے تہہ وبالا کرنے میں کامیاب ہو جائیں ( (کلمۃ الحق ماہ محرم ۱۳۸۷ھ؁ مطابق اپریل ۱۹۶۴ئ؁)۔
اس مہم میں بڑا حصہ یہودیوں کا رہا ، یہودیوں کی انٹر نیشنل کانفرنس منعقدہ ۱۹۰۰ئ؁ نے قرارداد پاس کیا کہ ’’ ہم صرف اس پر اکتفا نہیں کریں گے کہ دین داروں پر فتح حاصل کریں ، انکی عبادت گاہوں پر غلبہ حاصل کرلیں؛ بلکہ ہمارا بنیادی اور اصل مقصد ان لوگوں کے وجود کو ختم کرنا ہے۔ ماسونی مجلۂ کاسیا کے ذریعہ۱۹۰۳ء ؁ میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہمیں دین کو حکومت سے جدا کرنا ہے، اور ایسی جد وجہد کرنی ہے کہ ماسونیت دین کی جگہ لے لے اور اس کی محفلیں عبادت گاہوں کی جگہ لے لیں ، ماسونی مشرق اعظم نے ۱۹۱۳ئ؁ میں انسانوں کو مقصود بنانے اور خدا کو چھوڑ نے کی تجاویز پاس کیں اور بلغراد کی ماسونی کانفرنس۱۹۲۲ئ؁نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہمیں ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ماسونی، دین کے دشمن ہیں اورہمیں دین کے آثار اور علامات کے خاتمہ کی کوشش میں کوتاہی نہیں کرنی چاہے ۔عیسائی دنیا نے بھی اس جد وجہد میں حصہ لیا اور ساری توجہ مسلمانوں سے اسلامی فکر کے خاتمہ اور خدا سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے پر صرف کر دیا ، ان کی جد وجہد کا مرکزی محور مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنا اورپارہ پارہ کرنا رہا ؛تا کہ مسلمان کمزور ذلیل اور بے سہارا ہو جائیں ۔ ان کے یہ منصوبے وقتاً فوقتاً کامیاب بھی ہوتے رہے ، خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ، ترکی کے دستور سے اسلامی اساس کو نکال باہر کرنا ، عراق وافغانستان میں مسلمانوں کی قوت وطاقت کا زوال اورعراق کے مسلمانوں کوٹکڑے ٹکرے کرنا، اسی منصوبے کے نتائج ہیں، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جولوگ کچھ اور نہیں کر سکے وہ تنگ نظری کے سبب ، سبّ وشتم پر اتر آئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، چاہے وہ مضامین ومقالات کی شکل میں ہو ،یا کارٹونوں کی شکل میں، اس کی تہہ میں یہی جذبہ کار فر مارہاہے ،اس کی بھی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکا جائے اور ثقافتی تقریبات منعقد نہ ہو سکیں ، بعض نام کے مسلم لوگوں سے ایسے کام کروائے گئے، جس سے اسلام کے طور طریقوں اور عبادات کا مذاق اڑایا جاسکے ، میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی ، جیسے سب کچھ بدل رہا ہے ۔ اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا ، بنیادی حقوق کی ساری دفعات کتابوں میں بند ہو کر رہ گئیں ۔ اور ان کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کا ہتھیار استعمال کیا گیا ،اور ان لوگوں نے کیا ، جنہوں نے دوسروں سے آزادی کے حقوق چھینے اور سلب کئے، اس صورت حال سے مسلمانوں کو ذہنی اور کبھی کبھی جسمانی اذیتیں بھی اٹھا نی پڑیں ، اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ مغرب کے سامنے سپر انداز ہوگئے اور انہوں نے مغربی تہذیب وثقافت کو اپنا نے میں خیر وشر کی تمیز کے بغیر تیزی دکھا ئی اور اسلامی تہذیب وثقافت کو عقیدہ ،عبادات اور پرسنل لا تک محدود کرکے رکھ دیا ، تدریجا ان شعبوں میں بھی انہوں نے اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پورے طور پر مغرب کے ہم نوا ہو گئے ، اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ مسلمانوں تک پہونچ گیا۔ اور وہ بھی مغرب کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہو گئے ، یہ دائرہ دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا ہے۔ 
 لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسلام کو جاننا اور پڑھنا شروع کیا ، ان میں اس مذہب کے تئیں ایک قسم کا تجسس پیدا ہو گیا ، اور اسلام کی صداقت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا ، یہی وجہ ہے کہ آج بڑی تیزی سے دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام فوبیا کے ازالہ کی شکل صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی واضح اور صحیح تعلیمات کو لوگوں میں پھیلا ئیں، مغرب میں جن کتابوں کو اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ بیش تر مستشرقین کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ قاری کو گمراہ کرتی ہیں، ضرورت ہے کہ مغرب اور یورپ کی مروجہ زبانوں میں وہاں کے معیارومزاج کو سامنے رکھ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات ، نبی رحمت کی رحمت ومحبت سے پُر احکام وہدایات کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں لکھی جائیں اوران سے مغرب کو روشناس کرایا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر ہونا چاہسے، نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے لئے احمد دیدات جیسے مین ٹومشن(MAN TO MITION) کی ضرورت ہے ، اس کے بغیر اسلام فوبیا کا ازالہ ممکن نہیں معلوم ہوتا ۔ 
دعوت دین کاکام حکمت کے ساتھ ہم نے کم کیا ہے ؛ حالانکہ دعوت دین کے کاموں میں اس کو اولیت حاصل ہے ۔جس کاپتہ حکم خدا وندی  ُادْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّک بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ سے چلتاہے اور جس میں ’’دعوت بالحکمۃ‘‘ کو مقدم رکھا گیا ہے۔
یہاں مجھے ا س حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ خود ہمارے بہت سارے اعمال ’’اسلام فوبیا ‘‘کا سبب بن جاتے ہیں، تلواروں سے ٹپکتے خون کے اشتہارات ، بابری مسجد کی تصویر کے ساتھ ، الہی بھیج دے محمود کوئی کااشتہار ، اور انتہا ئی پُر امن کارواں میں تلوار کو تحفے میں پیش کرنے،جیسا عمل دیکھنے میں جتنا بھلا معلوم ہو، دوسرے مذاہب والے اسے دہشت اور تشدد کا اشاریہ سمجھتے ہیں، اور خود مسلم سماج کو ایسے اشتہارات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، اس قسم کی حرکتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلامو فوبیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ہماری بے عملی اور بد عملی سے بھی اسلام فوبیا کا پیغام دوسروں تک پہونچا ہے، اس لئے ہمیں اپنے اعمال کا بھی محاسبہ کر نا چاہئے ،کہ کہیں ہم دانستہ یا نا دانستہ ، اسلام کونقصان تو نہیں پہونچا رہے ہیں ۔ 
اسلام فوبیا کے ازالہ کے لئے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے، اسلام کے محاسن کے اظہار کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنوں کی جانب سے مخالفانہ فکری یلغارکا علمی جواب دیاجائے، اس سے اسلامی تہذیب وثقافت پر مسلمانوں کا اعتماد بحال ہوگا ، اور اسلام مخالف اعتراضات کا دفاع کیا جا سکے گا۔اگرہم ان امور پر توجہ دے سکے اور لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناش کرا سکے ، تو اگلی صدی انشاء اللہ اسلام کی صدی ہوگی_

بدھ, جولائی 20, 2022

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا :

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا : 


(اردو دنیانیوز۷۲)

پورنیہ کے دس طلبا ایک استاد کے ساتھ بھوپال کے مدرسہ میں داخلہ کے لیے آرہے تھے، تبھی بچوں سمیت استاد کو پولیس نے گرفتار کرکے سی ڈبلیو سی (چائلڈ ویلفیئر سینٹر) کے حوالے کردیا تھا۔ Madrasa students returned home from CWC

بھوپال: بہار کے پورنیہ کے دس طلباء مدرسہ کے استاد محبوب عالم کے ہمراہ سات جون کو بہار کے پورنیہ سے بھوپال کے مدرسے میں داخلہ کے سلسلے میں آ رہے تھے تبھی بیرا گڑھ ریلوے پولیس نے انہیں گرفتار کر کے سی ڈبلیو سی (چائلڈ ویلفیئر سینٹر)کے حوالے کردیا تھا- مدرسہ کے استاد پر بچوں کو اغوا کرنے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن جب بچوں کے والدین بہار کے پورنیہ سے بھوپال سی ڈبلیو سی میں حاضر ہوئے تو ان کے دستاویزات کی جانچ کی گئی، لیکن والدین کی بچوں سے ملاقات کرانے سے انکار کردیا گیا- انہیں بہار سی ڈبلیو سی کے حوالے کردیا گیا۔ اور اب بہار سی ڈبلیو سی تمام دستاویزات کی جانچ کرنے کے بعد بچوں کو ان کے والدین کے ہمراہ گھر کے لیے روانہ کردیا ہے۔

بہار پورنیہ کے سماجی کارکن ڈاکٹر امتیاز احمد کہتے ہیں کہ کہ پورنیہ بہار سے 10 بچے بھوپال اس لیے ان کے والدین نے بھیجے تھے تاکہ وہ وہاں پر مدرسے میں رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں- مگر یہ بچے بھوپال میں تعصب کا شکار ہوئے اور ایک لمبی قانونی لڑائی اور جدوجہد کے بعد سبھی بچوں کو سی ڈبلیو سی نے والدین کے حوالے کیے انہوں نے کہا ہم اس کام میں جن لوگوں نے بھی تعاؤن کیا ہیں- ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں- خصوصی طور پر مدھیہ پردیش جمیعت علماء کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بھوپال سے بہار تک قانونی لڑائی میں ہماری ہر قدم مدد کی-

مدارس کے طلباء چائلڈ ویلفیئر سینٹر سے رہا

وہیں مدھیہ پردیش جمیت علماء کے صدر حاجی محمد ہارون نے کہا کہ بہار کے بچے جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھوپال آئے تھے انہیں متعصبا رویہ کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا- سی ڈبلیو سی اور بیرا گڑھ ریلوے پولیس کے منفی رویے کے سب بچوں کو ایک لمبے وقت تک والدین سے دور چائلڈ لائن میں رہنا پڑا میں رہنا پڑا-

جمعیت علماء اس معاملے کو لے کر قانونی لڑائی لڑے گی- ساتھ ہی ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ افسران جنہوں نے بہار کے بچوں کو ان کی تعلیمی حق سے محروم کیا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کسی بچے کو اس کے تعلیمی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکے- اسی کے ساتھ ہم مذہب پر دیش حکومت سے یہ بھی مطالبہ کریں گے کی وہ بہار پورنیہ میں ایک وفد کو بھیجے تاکہ وہاں کے لوگ مدھیہ پردیش میں تعلیم کے لیے اپنے بچوں کو بھیجنے کے لیے پھر سے ذہن بنا سکیں- سی ڈبلیو سی کا منفی رویہ بہت خوبصورت تھا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے-

آئینہ روح____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آئینہ روح____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
ماسٹر محمد سعید نقشبندی دامت برکاتہم صادق پور اسراہا دربھنگہ کا شمار شمالی بہار کے بزرگوں میں ہوتا ہے، انہوں نے اپنے وقت کے کئی پیروں اور مرشدوں سے کسب فیض کیا ہے ، وہ اثبات ونفی اور جذب وکیف کے مراحل سے گذرے ، ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ میں ہوئی اس لیے اردو فارسی زبانوں میںان کو خاصہ درک ہے، حالاں کہ وہ اصلا انگریزی زبان وادب کے آدمی ہیں، اور زندگی کے بیش تر حصوں میں ان کی معاش کا مدار انگریزی ٹیوشن پر رہاہے ، انہوں نے انگریزی زبان وادب کے ٹیوٹر کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت بنائی۔
ماسٹر محمد سعید صاحب نے تزکیہ نفس اور معرفت رب کے لیے اپنے کو اہل اللہ کے حوالہ کر دیا، اور نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگوں سے عقیدت ومحبت کے طفیل پہلے وہ حاجی منظور احمد مصرولیا ضلع مظفر پور کی بار گاہ میں پہونچے، ۱۹۸۶ء میں حضرت کے وصال کے بعد مخدوم محترم حضرت مولاناحافظ محمد شمس الہدیٰ راجوی دامت برکاتہم کے با فیض دامن سے وابستہ ہوئے او ربقدر ظرف وپیمانہ سلوک کے مراحل طے کیے، اور ان سے خلافت پائی ،حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کا فیض شمالی بہار میں جاری ہے اور علماء ، مفتیان کرام اور اہل اللہ کی بڑی تعداد ان کے دامن سے وابستہ ہیں، وہ پیرہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہیں، شعر وادب کا بڑا سُتھراذوق رکھتے ہیں، ان کی نگرانی میں ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے ادب وشاعری کے کا کل وگیسو سنوارنے کا کام کیا، ان کا پہلا مجموعۂ کلام آئینہ دل ہے اور دوسرا مجموعہ آئینہ روح کے نام سے منظر عام پر آیا ہے، ان دونوں مجموعوں میں بڑا باریک ربط وتعلق ہے، دل وہ چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ ، جب وہ درست رہتا ہے تو سارے اعضاء وجوارح درست کام کرتے ہیں، اور اگر وہ بگاڑ کا شکار ہو گیا تو سارے اعضا فساد وبگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کے مجلیٰ مصفیٰ آئینہ دل سے جو کلام وارد ہوئے وہ انسانون کے قلب ونگاہ کو صاف کرنے والے ہیں اور دل ودماغ کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں۔
آئینہ روح  کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ روح تو امر ربی ہے اور امر ربی خصوصی طور سے جب صوفیاء کے کالبد خاکی میں ہو تو وہ میلا اور گدلا نہیں ہو سکتا، چنانچہ ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے روح کا آئینہ دکھا کر عوام سے اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر در پردہ اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ 
ماسٹر محمد سعید صاحب کے دو سو اٹھاسی صفحات(۲۸۸) کے اس مجموعہ آئینہ دل میں ایک حمد، دو نعت اور ایک سو چون غزلیں ہیں،ہر غزل میں نو اشعار بلکہ بعضوں میں اس سے زائد بھی ہیں، ابتدا میں تین نثری تحریروں کو جگہ دی گئی ہے ایک خود ماسٹر صاحب کی اپنی تحریر ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘ کے عنوان سے ہے، ’’سعید صاحب کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ان کے پیر ومرشد حضرت حافظ مولانا الحاج شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کی ایک وقیع تحریر شامل کتاب ہے، جس سے ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے در وبست اور ابعاد کا پتہ چلتا ہے۔تیسرا مضمون محمد شاہد عالم کا ہے، جن کے بارے میں نہ مجھے واقفیت ہے اور نہ ہی کتاب سے ان کا کچھ اتہ پتہ معلوم ہوتا ہے، البتہ تحریر اچھی ہے اور مختصر ہے۔
 ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے تخیلات دل کی دنیا سے وابستہ ہیں، حمد ونعت میں ادھر اُدھر بھٹکنے کا عموما کوئی موقع نہیں ہوتا، گو نعت کو مناجات بنانے کی روایت قدیم ہے اور حمد ونعت کے فرق کو کم شعراء ہیں جو ملحوظ رکھتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کی نعت میں یہ پورے طور پر ملحوظ ہے جو بڑی اچھی بات ہے، البتہ غزلوں میں ہمارے شعراء نے ہجر ووصال ، زلف ورخسار اور ترقی پسندوں کے دور میں کاروبار حیات ، جدید یوں کی علامتی شاعری اور ما بعد جدیدیت میں زندگی کے مسائل کا ذکر شعراء کو مختلف وادیوں میں بھٹکاتے رتے ہیں، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا فارمولہ تو عام ہے ، لیکن ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ادب برائے بندگی پر زور دیتے ہیں، ان کے یہاں عشق مجازی کا گذر نہیں ہے، انہیں الفاظ سے جن سے دوسرے عشق مجازی کا دربار سجاتے ہیں، ماسٹرمحمد سعید صاحب عشق حقیقی کی جلوہ سامانیاں دکھاتے ہیں، غالب کے یہاں مسائل تصوف کا بیان بھی بادہ وساغر کہے بغیربات نہیں بنتی تھی، ماسٹر محمد سعید صاحب بادہ وساغر سے دامن کشاں کشاں عشق حقیقی کی سیر کر ا دیتے ہیں؛ البتہ تصوف ایک راز حیات ہے، عدم ووجود، کن فیکون اور لا مکاں کار مز ہے، اس لیے اگر قاری اس کو بغیر تدبر کے پڑھے گا تو اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ کیوں کہ مغز تو خول اور چھلکوں کے اندر ہوتا ہے، الفاظ مسائل تصوف کے بیان میں خول اور چھلکوں کی طرح ہیں، آپ ان کے سہارے حقیقت تک پہونچنے کی کو شش کریں گے تو روح کے رموز ونکات نیز عدم وجود کی کارستانیاں آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو پائیں گی ، کتاب خوبصورت اور دیدہ زیب ہے،بائنڈنگ اور سرورق میں بھی کشش ہے، دو سو پچاس روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ،ناولٹی بک ڈپو دربھنگہ، اور خود شاعر کے پتہ صادق پور، اسراہا دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ حالت میں کرنے کے کام

موجودہ حالت میں کرنے کے کام 
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 یہ سوال آج کے تناظر میں بہت اہم ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان کیا کریں؟ ہمارے خیال میں مسلمانوں کو دو محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، ایک محاذ داخلی ہے اور وہی ہماری قوت وطاقت کاسرچشمہ ہے، داخلی طور پر ہمیں دو کام کرنے چاہیے، ایک تو اپنا رشتہ اللہ سے مضبوط کرنا چاہیے، یہ رشتہ ہمارا کمزور ہو گیا ہے، اس لیے اللہ کی نصرت نہیں آ رہی ہے ، مسلمان مختلف قسم کی پریشانیاں ، مصائب اور آلام میں گھر گیا ہے ، رجوع الی اللہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا،ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ احوال اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، عمال(حکمرانوں) کے بدلنے سے نہیں بدلتے جس کی وجہ سے اعمالکم، عمالکم، کہا گیا ہے ۔
 دوسری چیز ہمارا اتحاد ہے ، مسلمان کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی بنیاد پر ایک امت ایک جماعت بنایا تھا، ہم نے بہت سارے ناموں پر اپنے کو تقسیم کر لیا ہے ، جس سے ہماری قوت منتشر ہو گئی ہے، ہمیں فروعی مسائل سے اوپر اٹھ کر ملی کاموں میں متحدہ جد وجہد کرنی ہوگی، تبھی ہم موجودہ حالات میں پریشانیوں سے نکل پائیں گے ۔
دوسرا محال خارجی ہے اس محاذپر ہمیں منصوبہ بند طریقے پر کام کرناچاہیے، یہ منصوبہ بندی اتنی مضبوط اور مستحکم ہو کہ فرقہ پرست طاقتیں اس میں گھس پیٹھ کرکے تشدد نہ بھڑ کا سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ احتجاج ، مظاہرے فوری طور پر شروع نہ کردیے جائیں بلکہ بڑوں کے مشورے سے کام کیا جائے، احتجاج کے لیے قانونی طور پر اجازت لینا ضروری ہو تو وہ بھی کیا جائے، جس مسئلے پراحتجاج کرنا ہو، اس کے لیے میمورنڈم وغیرہ تیار کیا جائے اور متعلقہ افسران تک اسے پہنچایا جائے، جو مجرم ہے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے، اور آخری حد تک قانون کے دائرے میں رہ کر کام کیا جائے اور قانون اپنے ہاتھ لینے سے ہر ممکن گریز کریں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...