Powered By Blogger

پیر, اگست 15, 2022

نعتیہ مشاعرہبمقام وزیر صاحب کے دروازے پر مچھڑگاواں بازار ضلع بتیا

نعتیہ مشاعرہ
بمقام وزیر صاحب کے دروازے پر مچھڑگاواں بازار ضلع بتیا 

(اردو دنیا نیوز٧٢)
جس زیر نظامت حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
زیر صدارت حضرت مولانا مفتی حفظ الرحمن صاحب قاسمی دربھنگہ
زیر سرپرستی حضرت مولانا شفیع اللہ صاحب مصری 
زیر عنایت حضرت مولانا خوش محمد صاحب حکیم داراشفأ مچھڑگاواں بازار
تلاوت قرآن حضرت مولانا وحافظ وقاری جرار صاحب پورنیہ
شاعر اسلام اعجاز ضیاء صاحب سیتامڑھی
بلبل ترنم جناب محمد جرار صاحب 
گلشن طیبہ عزیزم شاہد سلمہ
مہمان خصوصی حضرت مولانا حافظ وقاری ثناءاللہ صاحب جامعی تڑھا پٹی ضلع بتیا سے تشریف لائے
آخر میں آپ بھائی ایم رحمانی صاحب نے بھی شرکت کی
جس بہت سارے علماء تشریف فرماۓ

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک میں

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک ارریہ
اردو دنیا نیوز٧٢
تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک میں جشن یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کرتے ہوئے تنظیم کے کارکنان سکریٹری تحفظ شریعت مولانا عبدالوارث مظاہری، عبدالقدوس راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک، مولانا عبداللہ سالم قمر صاحب قاسمی چترویدی، مولانا عبدالسلام عادل ندوی صاحب، شاعر اسلام مولانا محمد فیاض راہی صاحب، شاعر نبگال قاری شمش الزماں کشنگنج، محمد شوکت علی کاشی باڑی، مفتی محمد اطہر حسین قاسمی، حافظ عبدالقدوس ، وغیرہ موجود رہے،
تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی پرخلوص مبارکباد

مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے

مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 
اردو دنیا نیوز٧٢
 مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 
طلبہ وطالبات نے اپنا اپنا پروگرام پش کیا ہے جس کی صدارت حضرت مولانا محمد مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی صاحب نے کی نظامت حضرت مولانا خوش محمد صاحب مظاھری وحضرت قاری صلاح الدین صاحب ایوبی و حضرت مولانا شفیع اللہ صاحب مصری جس میں بچوں کو انعامات سے بھی نوازا ہے جس میں باہر علمائے کرام تشریف لائے  اور گاؤں کے پردھان بھی بچوں کو انعامات سے نوازا گیا تھا مدرسہ کے صدر صاحب نے بھی بچوں کے پروگرام سے بہت خوش ہوئے ہیں

اتوار, اگست 14, 2022

ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی کتاب ستاروں سے آگے،:تعارف و تبصرہ

ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی کتاب ستاروں سے آگے،:تعارف و تبصرہ 
ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
ستاروں سے آگے ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی نظموں کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے بچوں کے لیے تخلیق کیا ہے، اس میں حمد و نعت کے علاوہ آٹھ نظمیں اور ایک غزل شامل ہے، کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے خدائے وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا بیان کی ہے،معبود وہی ہے، اسی کی ذات قابل تعریف و توصیف ہے، اس نے بندوں کو سب کچھ بے مانگے عطا کر دیا، ضروریات کی ساری چیزیں دیں، بے ستون کے آسمان بنایا، ابر سے پانی کا برسنا، صبح و شام کا آنا جانا، چاند سورج کا اپنے وقت پر نکلنا اور ڈوبنا سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے، اس کی حکمت ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے، ہر کام کرتے وقت اللہ کا نام لینا چاہیے، حمد کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے، 
ہےخدا کا نام بابرکت بڑا
اس سے ہر اک کام کی ہو ابتدا
 حمد کے بعد ایک نعت شریف ہے، جس میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق محمودہ کا تذکرہ ہے، جس کے پڑھنے سے بچوں کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت پیدا ہوتی ہے اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، پہلی نظم کا عنوان ہے پیارا دین اسلام اس نظم میں بچوں کو دین اسلام کی بنیادی باتیں بتلائی گئی ہیں، اسلام کی بنیاد توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ہے، اسلام ہمیں اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے، انہوں نے اس نظم کے ذریعے بچوں کو اسلام کے اخلاق و کردار کو اپنانے کا پیغام دیا ہے، ایک نظم کا عنوان ہے آؤ پیڑ لگائیں، یہ نظم بھی عمدہ اوربچوں کی طبیعت کے موافق ہے،عموماً بچے پیڑ پودے سے مانوس ہوتے ہیں، پیڑ پودے خدا کی نعمت ہے، اس سے قسم قسم کے پھل اور پھول آگتے ہیں، جو غذا اور دوا دونوں کے کام آتے ہیں، پیڑ پودے سےہریالی ہوتی ہے، جو ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے، ان باتوں کو شاعر نے خوبی کے ساتھ شعری قالب عطا کیا ہے،انہوں نےبچوں کو پیڑ پودے لگانے کی بھی ترغیب دی ہے، موجودہ حالات میں اس نظم کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے، چونکہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر پیڑ پودے لگانے کی مہم جاری ہے،نظم کےچند اشعار دیکھئے:
خوب کھاتے ہو جو مزے سے پھل
 لال پیلے یہ  رنگ  برنگے پھل
 میٹھے میٹھے سے یہ رسیلے پھل
تندرستی تمہیں یہ دیتے پھل
پیڑ پودے اگر نہیں ہوتے
یہ سماں کیسے دل نشیں ہوتے
 نظم پھول سی تتلی میں خوبصورت اور سہل انداز سے بچوں کی دلچسپی کے مدنظر تتلی اور اور اس کی دلکش اداؤں، بچوں کا اس کے لئے دیوانہ وار دوڑ نا بھاگنا، اس کو دیکھ کر خوش ہونا، جیسی پیاری اور بھولی بھالی اداؤں کو بیان کیا گیا ہے، اس کے شروع کے تین اشعار دیکھئے:
تتلی آئ تتلی آئ 
دیکھو، دیکھو تتلی آئ 
ننھی منی بھولی بھالی
پیاری پیاری پنکھوں والی
قدرت نے کیا حسن دیا
کتنا دلکش رنگ دیا
میں بھی روزہ رکھوں گا، اس نظم کا کردار ایک ننھا سا بچہ ہے، جس پر روزہ فرض نہیں ہوا ہے، لیکن سب کو روزہ رکھتے دیکھ کر اس کا بھی جی روزہ رکھنے کا کرتا ہے، وہ اپنی امی سے بولتا ہے، امی جان مجھے بھی سحری میں جگا دینا، گھر میں سب روزہ رکھتے ہیں، میں بھی روزہ رکھوں گا، بھوک پیاس کی شدت کو جانوں گا، اپنے رب کو راضی کروں گا، روز قیامت حشر میرا بھی روزہ داروں کے ساتھ ہوگا،اس نظم میں بچوں کے احساسات ونفسیات کی بھرپور رعایت کی گئی ہے، اسی طرح پھر سے بہاریں لوٹ آئیں گی کورونا کے عہد کی یاد تازہ کرتی ہے، اس نظم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کورونا نے معمولات زندگی کو یکسر بدل دیا، اسکول کالج بند ہو گئے، بچے گھروں میں قید ہو گئے، بچے اپنے اسکول کے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، بس اب تو ایک ہی سپنا ہے، اسکول پھر سے کھل جاتے، پرانی بہاریں لوٹ آتیں، لیکن بچہ امید کا دامن نہیں چھوڑتا ہے، اور کہتا ہے ایک دن تاریکی چھٹ جائے گی،ایک نیا سویرا شروع ہوگا، دنیا معمول پر لوٹ آئے گی، اور اسکول پھر سے شروع ہوں گے، اس نظم کے ذریعے بچوں کے شوق علم کو ابھاراگیا ہے، وہ دولت کون سی دولت ہے، میں بھی علم کی اہمیت و افادیت بتلائ گئ ہے، ایک طویل نظم بچہ اور ستارہ ہے، یہ مکالماتی نظم ہے، بچہ اور ستارہ کے درمیان مکالمہ کافی دلچسپ اور سبق آموز ہے، بچہ ستارہ کو محو حیرت سے تکتا ہے، اس کی روشنی اور چمک سے لطف اندوز ہوتا ہے،بچہ ستارہ تک پہنچنے کی چاہ رکھتا ہے، ستارہ بچہ کی باتیں سن کر خوش ہوتا ہے اور جواب دیتا ہے، 
تمہاری ہیں باتیں بڑی بھولی بھالی
بڑی ہی انوکھی بڑی ہی نرالی
بڑی پیاری، پیارے تری آرزو ہے
بڑوں سے بھی تیری بڑی جستجو ہے
ترے دل میں کتنے بھرے ولولے ہیں 
بڑے اونچے پیارے ترے حوصلے ہیں 
درخشاں ہیں ہم آسماں پر جو پیارے 
تو تم بھی زمیں کے ہو روشن ستارے
نظم کورونا بھی مکالمہ کے طرز پر ہے، بچہ ماں سے کورونا کے بارے میں سوال کرتا ہے، ماں اس کو کورونا اور اس سے بچنے کی تدبیر بتا تی ہے،پانی خدائے تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، ہر جاندار کا وجود پانی سے ہے، نظم پانی کی اہمیت میں پانی کتنی ضروری اور قیمتی شئ ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے بے جا اصراف سے بچنے اور اس کی حفاظت کی تعلیم بھی دی گئی ہے، اخیر میں بچوں کی ایک خوبصورت غزل شامل ہے، 
ثناءاللہ ثنا دوگھروی نے نے چند صفحات میں اپنی بات کہی ہے،اپنی بات کتاب کا بھرپور اور خوبصورت تعارف ہے، اس میں پوری کتاب کا خلاصہ آگیا ہے، یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
اس کتاب کو بچوں کے لئے حتی المقدور مفید بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں تعلیم اور تربیت کے کئی پہلو روشن ہیں، کتاب میں کئی اہم موضوعات پر آسان الفاظ میں سادگی کے ساتھ کہی گئی نظمیں شامل کی گئی ہیں، تاکہ بچوں پر گراں نہ گزرے اور اشعار کی تفہیم میں دشواری پیش نہ آئے، میرا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب سے جہاں بچوں کی تفریح طبع ہو وہیں بچے نظموں سے بھی سبق حاصل کر سکیں، 
زیر نظر کتاب کے ذریعے بچوں کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے، ان کے موضوعات بچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں، نظموں کی زبان سادہ سلیس اور دلچسپ ہے، ان نظموں کی قرآت سے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نےنظموں کی تخلیق میں بچوں کی نفسیات اور ذوق و مزاج کی خاص رعایت برتی ہے، زبان سادہ اور آسان استعمال کی گئی ہے،جو بچوں کی فہم اور اس کے معیار کے مطابق ہے، ان نظموں میں مضامین کے لحاظ سے عمدہ تشبیہیں اور تراکیب استعمال میں لائی گئی ہیں،
شاعر  نے اپنی بات کے تحت ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ شاعر اور ادیب کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے اپنے آپ کو بچوں کی سطح پر لے جا کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوتا ہے، یہ حقیقت ہے، اس کے بغیر بچوں کا بہترین ادب تخلیق کرنا مشکل ہے، انہوں نے جو نظمیں تخلیق کی ہیں وہ بچوں کی سطح پر جاکر تخلیق کی ہیں، بچوں کا ادب تخلیق کرنا قدرے مشکل اور نازک فن ہے، اور اس نازک فن پر وہی مکمل اتر سکتا ہے جو بچوں کی نفسیات، اس کے مزاج، مذاق اور پسند و ناپسند سے واقف ہو، اور اس سطح پر سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، عصر حاضر میں بچوں کے تخلیقی ادب پر کم دھیان دیا جا رہا ہے، اس پس منظر میں ہے ثنا دوگھروی کی یہ کاوش حوصلہ مندانہ اور قابل ستائش ہے، 
مصنف بچوں کے بھی شاعر ہیں اور بڑوں کے بھی،شعری وادبی دنیا میں معروف و مشہور ہیں، اس سے قبل ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ اڑان سے آگے شائع ہو کر داد تحسین وصول کرچکا ہے، صحافت و ادب سے یکساں دلچسپی رکھنے والے بچوں کے ادیب ثناء اللہ ثنا دوگھروی کی تازہ تصنیف ستاروں سے آگے ادب اطفال میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، کتاب کا سرورق خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، 32صفحے کی مختصر کتاب کی قیمت پچاس روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع اس کتاب کو بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ اور ناولٹی بک ہاؤس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ وغیرہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے،
Dr Noorus Salam Nadvi
Vill +Post Jamalpur
Via Biraul, District Darbhanga
Bihar, Pin Code 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com

یوم آزادی _____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

     یوم آزادی _____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
===================================
(اردو دنیا نیوز٧٢)
 پندرہ اگست ۲۰۲۲ء کو ہندوستان اپنی آزادی کی پچھہتر ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس سالگرہ کو یاد گاری بنانے کے لیے مرکزی حکومت نے پورے سال آزادی امرت مہوتسو کا انعقاد کیاہے، جس میں ا پنی مرضی کی تاریخ بیان کرائی گئی اور ان لوگوں کو ہائی لائٹ کیا گیا، جن کی کارکردگی تحریک آزادی میں یا تو تھی نہیں یا تھی تو برائے نام تھی، اس معاملہ میں خصوصیت سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محی الدین قادری، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی، اشفاق اللہ خان، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری رحمہم اللہ اور ان جیسے ہزاروں مجاہدین کی خدمت کو قابل ذکر نہیں سمجھا گیا، حالاں کہ جد وجہد آزادی میں مسلمان دوسرے لوگوں کی بہ نسبت سو سال قبل سے لگے ہوئے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو پہلے غدر کہا جاتا تھا، اب شعور بیدار ہوا ہے تو اسے پہلی جنگ آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ مسلمان ۱۷۵۷ء سے ہی انگریز بھگاؤ مہم سے لگ گیے تھے، ٹیپو سلطان وغیرہ کا دور ۱۸۵۷ء سے پہلے کا ہے ، جنہوں نے انگریزوںسے لوہا لیا اور یہ کہتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر دی کہ ’’گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔
مادر وطن کے ایسے جانباز سپوتوں کو فراموش کرکے دوسرے لوگوں کے گن گان کرنا اور تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بات اس تحریک کا حصہ ہے، جسے ہم ہندتوا کے نام سے جانتے ہیں اور جس کی جڑیں ہندوستانی سیاست میں اس قدر پیوست ہو گئی ہیں کہ بظاہر اس سے باہر آنے کی شکل ناممکن تو نہیں، دشوار معلوم ہوتی ہے، ایسے میں ہمیں بھی یوم آزادی کے موقع سے ان مجاہدین کو خصوصیت سے یاد کرنا چاہیے جن کو قصدا بھلا نے کی کوشش کی جا رہی ہے، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ نے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی کے نام سے پورے ہندوستان کا سفر کیا تھا، گرد کارواں کے طور پر یہ حقیر(محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) بھی بہت ساری جگہوں پر شریک تھا، ہر جگہ قاضی صاحب نے یہ تحریک چلائی کہ گم نام مجاہدین آزادی پر کتابیں مرتب کی جائیں، چنانچہ بہار کے مسلم مجاہدین آزادی پر مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب تیار کی تھی، احقر کا ایک مضمون بھی اس میں شامل تھا، یہ ضرورت اب بھی باقی ہے، ہم تاریخ کے دفینوں سے گمنام مسلم مجاہدین آزادی کو نکال کر لائیں اور علمی دنیا کے سامنے رکھیں، جب تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہو تو ہماری ذمہ داری صحیح تاریخ لکھنے اور پیش کرنے کی کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔
 یقینا ہندوستان نے آزادی کے ان پچھہتر سالوں میں بیش بہا ترقی کی ہے، کئی معاملوں میں ملک خود کفیل ہوا ہے، غربت کا رونا ہم چاہیں، جتنا روئیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد لوگوں کے معیار زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں،غلام ہندوستان میں زمیندار اور رجواڑے ہی چین کی زندگی گذارتے تھے، عام لوگوں کی حیثیت رعیت اور بندھوا مزدوروں جیسی تھی، آزادی کے بعد عام لوگوں کے لیے سہولیات کے دروازے کھلے، زمین داری ختم ہوئی تو زمین کا بڑا حصہ کاشتکاروں کے ہاتھ لگا، ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک نے بھی سماج کے پس ماندہ طبقات تک زمین پہونچانے کا کام کیا، بہت ساری جگہوں پر سرکاری اداروں کے کھولنے کی شکل بنی، جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، اب ان گھروں میں کئی کئی موٹرسائکل بلکہ کار یں نظر آتی ہیں، ہندوستان میں غذائیت کی کمی کے باوجود ہندوستان، صومالیہ ایتھوپیا، سری لنکا، نیپال کی طرح پریشان حال نہیں ہے۔ 
دوسری طرف گذشتہ بیس سالوں میں مختلف حوالوں سے آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے، اب حکومت طے کرتی ہے کہ ہم کیا کھائیںگے، کہاں نماز پڑھیں گے، اذان مائیک سے ہوگی یا نہیں، نصاب میں کیا پڑھایا جائے گا، بے گناہوں کو کس طرح این آئی اے اور ای ڈی کے ذریعہ ہراساں کیا جائے گا، مخالفین کی زبان بندی کے کیا طریقے ہوں گے، اہم موضوعات سے عوام کی توجہ ہٹا کر کس طرح انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا دیا جائے گا، آزادی کا مطلب اب یہ ہے کہ حکومت آزاد ہے ، وہ جس طرح چاہیے معاملہ کرے، عوام کی قسمت میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تشدد ہے اور نظروں میں امن وسکون کی آس ہے، جو دور دور تک غائب ہے، اس طرح فیض کے لفظوں میں یہ داغ داغ اجالا اور  شب گزیدہ سحر ہے،  اور یقینا مجاہدین آزادی نے اپنی جان کا نذرانہ ان داغ داغ اجالوں کے حصول کے لیے نہیں دیا تھا، اسی لیے فیض کہتے ہیں۔
 ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی  نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی  چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

ہفتہ, اگست 13, 2022

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز٧٢)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ۱۳۰۱ھ۔وفات ۱۳۵۹ھ)حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ’’امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:’’ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے‘‘۔(ہمارے امیر۸،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانانورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:’’آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں ،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میںشریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر۳۹)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبۂ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے‘‘(مکاتب سجاد۲۵)آگے لکھتے ہیں:’’جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیاہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیاجاجائے،لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار ،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی‘‘(مکاتب سجاد۲۷)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہیکہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد ۳۲)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ ۱۶۸ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے  جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلامزم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(بحوالہ جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۲۳۳)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت ۱۸۵۲ء ،وفات ۱۹۲۴ئ) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:’’میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء ،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص ۷)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک   مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:’’بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا‘‘( جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۱۸۹)
 امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت ۱۹۱۲،وفات ۱۹۹۱ئ)شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے توآپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیںبرداشت کیں،دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا،مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار(ڈکٹیٹر)بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔۱۹۳۶ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن ۱۹۴۰ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ’’جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:’’پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین ،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے ،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا(امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص ۴۷۹)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب(ولادت۱۹۰۳، وفات ۱۹۹۸) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابرامارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:’’آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود ،ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے(ہمارے امیر ۲۵)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (۱۹۲۷،وفات ۲۰۱۵ئ)آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے ،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال ۱۶۶)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے، انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ’’ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا‘‘۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی ،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:’’قاضی صاحب کو دفعہ ۱۲۴ الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے گھے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپائونڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے(حسن حیات ۶۰۰۶۱)
 ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک ،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی ،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں(تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ۳۰۲)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ’’امارت‘‘ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد’’ نقیب‘‘ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا،اورآزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے ،اصلاح معاشرہ اوراہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ’’بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی‘‘ میں لکھاتھا:’’آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، ۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ’’امارت ‘‘نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اورجرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردیناپڑا(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں ،لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ  اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے(ان کے لئے) جہاد جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا(حسن حیات ۸۶)

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند

=========================
(اردو دنیا نیوز٧٢)
بافیض عالم دین، حاذق حکیم، حضرت مولانا شاہ عبد القادری رائے پوری ؒ کے خلیفہ ومجاز صحبت، خانقاہ قادریہ شفائیہ کے بانی وسجادہ نشیں، مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کی مجلس شوریٰ کے رکن ،بزم عرفان وحدت اور بزم صحبائے وحدت کے رمز شناش، عظیم مصلح ، ظاہری طور پر مکمل مرداں حسن کے شاہکار، خوبصورت اور نفیس رکھ رکھاؤ والے حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسار پوری ؒ ۲۲؍ جولائی ۲۰۲۲ء ۲ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ کو نوے برس کی عمر میں بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز بعد مغرب حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم ناظم مدرسہ مظاہر علوم نے پڑھائی اور مقامی قبرستان سنسار پور میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا۔
 مولانا حکیم سید مکرم حسین بن مولانا حکیم سید اسحاق بن حکیم سید حسن کی ولادت قصبہ سنسار پور ، مظفر آباد بلاک ضلع سہارن پور ،اتر پردیش میں نواسی سال قبل ہوئی ،آپ کے دادا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے خلیفہ مجاز تھے، آپ کے جد امجد مولانا حکیم سید فیض الحسن صاحب اور صوفی سید کرم حسین رحمہما اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے چشمۂ صافی سے تصوف وسلوک کی تشنگی بجھائی تھی اور حضرت گنگوہی ؒ نے انہیں خلافت دی تھی، ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
اسی قصبہ میں واقع مدرسہ فیض رحمانی سے آپ نے ابتدائی تعلیم سے عربی چہارم تک تعلیم پائی، حفظ قرآن کی تکمیل بھی یہیں سے کی، یہاں حضرت کے والد درس وتدریس سے وابستہ تھے اس لیے شرح جامی تک کی بیش تر کتابیں خود اپنے والد یا ان کی نگرانی میں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں، پھر جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور تشریف لے گیے اور ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۴۹ء میں اکابر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے سند فراغت حاصل کی۔
 علوم وفنون میں کامل دسترس کے بعد آپ تصوف وسلوک کی طرف متوجہ ہوئے، حالاں کہ آپ کا پورا خاندان اس معاملہ میں آگے تھا اور سوزومستی، جذب وشوق ، عشق الٰہی ونبوی سے پوراگھرانا سرشار تھا، اس کے با وجود آپ نے خانقاہ رائے پور کا انتخاب کیا اور حضرت مولانا عبد القادر ؒ رائے پوری ؒ جو محبت رسول اور عبدیت کی شمع فروزاں کرنے میں ممتاز ہی نہیں، ممتاز ترین تھے کے دست با فیض سے اپنے کو منسلک کر لیا، حضرت رائے پوری نے اپنے اس مرید پر خصوصی توجہ فرمائی؛ جس سے مولانا کا قلب جو پہلے ہی خاندانی ماحول اور ذکر وفکر کی وجہ سے مصفیٰ تھا ، مجلّٰی ہوگیا، حضرت نے خلافت عطا فرمائی تو لوگوں کا رجوع آپ کی طرف ہونے لگا آپ متبع سنت اور اپنے مرشد کی تعلیمات پر پوری طرح عامل تھے، بعد میں خواب میں مرشد کے اشارے کو پاکر آپ نے سنسار پور میں ہی خانقاہ قادریہ شفائیہ کی بنیاد ڈالی اور متوسلین کی اصلاح اور تزکیہ نفس کا فریضہ پوری زندگی انجام دیتے رہے۔
 آپ نے زندگی کے کسی مرحلہ میں علوم دینیہ اور تصوف کو معاش کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا ، معاش کے لیے آپ نے خاندانی پیشہ طبابت وحکمت کو اپنایا، آپ اپنے وقت کے طبیب حاذق اور کامیاب معالج تھے، نبض دیکھ کر نہ صرف جسمانی امراض سے واقف ہوجاتے؛بلکہ روحانی اعراض وامراض کی بھی نشاندہی فرماتے، دونوں کا علاج بتاتے، اللہ تعالیٰ نے دست شفا عطا فرمایا تھا ، آپ کا مطب دوائے جسمانی اور روحانی دونوں کا مرکز تھا اور مخلوق خدا آپ کی دونوں صلاحیت سے بقدر ظرف مستفید ہوا کرتی تھی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ کے آپ آخری خلیفہ تھے، جو حیات تھے ، مولانا کی وفات سے اس سلسلۃ الذھب کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔
 مولانا مرحوم خلقی طور پر وجیہ اور خوش رو واقع ہوتے تھے، ذکر الٰہی کی روشنی ان کے چہرے پر کھلی آنکھوں دیکھی جا سکتی تھی۔ علوم وسلوک میں منتہی درجہ پر پہونچنے کے باوجود آپ کے اندر تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لہجہ سبک، الفاظ نرم اور اصلاح کی قلبی تڑپ سے جو آتا اسیر ہو کر رہ جاتا، نظروں سے بجلی گرانے کا محاورہ تو عام ہے، لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ’’نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ اس کے صحیح مصداق اور مظہر اتم آپ تھے۔
 آپ کا سلوک ہر ایک کے ساتھ عالمانہ ، داعیانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا، منفی باتوں کو مثبت رخ دینے کا ہنر آپ کو خوب آتا تھا، وہ گالیاں سن کر دعائیں دینے کے نبوی طریقہ پر کار بند تھے، اس لیے آپ کے مخالفین بھی آپ کے چشم عنایت اور دست با برکت سے فائدہ اٹھا لے جاتے تھے، جس طرح سورج کی روشنی ہرکہہ ومہہ کو منور کر دیتی ہے ویسے ہی آپ کی محبت وشفقت اور عشق الٰہی کی روشنی سے سبھی فائدہ اٹھاتے اور سبھی بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔
 واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیثیت خدا بیزار اور دین سے دوری کے اس دور میں قندیل رہبانی کی تھی جس سے ظلمتیں دور ہوتی تھیں، قندیل رہبانی ایک لفظ ہے جس سے بات کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ مولانا کے یہاں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ عوام کے درمیان رہ کر’’ خلوت در انجمن‘‘ کا مزہ لیا کرتے تھے، اس کے لیے صحرا نوردی نہ اسلام میں جائز ہے اورنہ مولانا اس کو پسند کرتے تھے، اسلام نے رہبانیت سے منع کیا ہے، اس لیے وہ قندیل رہبانی بن بھی نہیں سکتے تھے، وہ عوام کے درمیان رہا کرتے تھے، خویش واقارب بیوی بچے سب کے ساتھ ہوتے تھے، اور سب کی تربیت میں لگے رہتے تھے، اس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں محبوبیت اور مقبولیت دونوں عطا کی تھی، مولانا کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، اور کہنا چاہیے کہ ایک چراغ اور بجھا، روشنی اور گھٹی۔
 اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور خانقاہ قادریہ شفائیہ سنسار پور کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے خانوادے کے ساتھ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کو بھی۔ مولانا سے میری ذاتی ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی تھی، لیکن مشک کی خوشبو دور تک پھیلتی ہے اور نادیدہ لوگوں کے مشام جاں کو بھی معطر کرتی ہے، یہ حقیر ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...