Powered By Blogger

جمعہ, اگست 19, 2022

ماسٹر اسٹروک ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ماسٹر اسٹروک ____
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی ہنر مندی اور کامیاب چال کے ذریعہ بی جے پی کا تختہ پلٹنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، اور آٹھویں بار وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گیے ہیں، اس ہنر مندی کو انگریزی میں ماسٹر اسٹروک کہتے ہیں، یہ لفظ ان کے لیے بی جے پی نے ۲۰۱۷ء میں استعمال کیا تھا، جب نتیش کمار نے عظیم اتحاد کو چھوڑ کر بھاجپا سے ہاتھ ملا لیا تھا، لالو پرساد یادو نے انہیں ’’پلٹو رام‘‘ کہا تھا، پانچ سال میں معاملہ پھر سے الٹ گیا ہے تو اب راجد والے انہیں ماسٹر اسٹروک لگانے والا کہہ رہے ہیں،ا ور بھاجپا والے پلٹو رام، بھاجپا یہ بھی کہہ رہی ہے کہ یہ جمہوریت کا قتل ہے، عوامی رائے دہی کی تذلیل ہے، سوال یہ ہے کہ جب ۲۰۱۷ء میں نتیش کمارعظیم اتحاد چھوڑ کر بھاجپا سے مل گیے تھے تو جمہوریت کا قتل اور عوامی رائے دہی کی توہین نہیں ہوئی تھی اس وقت بھاجپا نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھائے تھے، مثل مشہور ہے ’’میٹھا میٹھا ہپ، ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہے ، اقتدار کے حصول کے لیے یہ لوگ کسی حد تک جا سکتے ہیں، نہ پارٹی کا اصول ونظریہ سامنے رہتا ہے ، اور نہ ہی اخلاقی اقدار، کرسی سامنے نظر آئے تو کسی طرح لپک کر پکڑ لو۔
 ایسے نتیش کمار نے این ڈی اے سے دامن چھڑا کربہت اچھا کیا، جس طرح این ڈی اے نے ’’چراغ ماڈل‘‘ قبول کرکے جد یو کی بہت ساری سیٹوں کو ہار میں تبدیل کرایا تھا، اس کا احساس نتیش کمار کو اسی وقت ہو گیا تھا، پھر آر سی پی سنگھ جو جدیو سے نکالے ہوئے تھے، ان کو سامنے رکھ کر بھاجپا جد یو کو توڑنے میں لگ گئی تھی ، حکومت کے اہم فیصلہ لینے میں بھاجپا روڑے اٹکا تی تھی اس کو نتیش کمار اپنی تذلیل سمجھتے تھے، یہ توہین ، آمیز سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا تھا کہ نتیش کمار ایک بار اسمبلی میں اسپیکر سے بھی بھڑ گیے تھے، موجودہ صدر اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں انہوں نے بھاجپا کا ساتھ پوری ایمانداری سے دیا تھا کیونکہ وہ بہار اڈیشہ ، جھارکھنڈ میں رہ رہے آدی باسیوں کو ناراض کرنا نہیں چاہ رہے تھے، لیکن ان کے اندر جو خفگی تھی اس کی وجہ سے نتیش کمارنے صدر ونائب صدر کی استقبالیہ اور الوداعیہ تقریب سے اپنے کو دور رکھا، نیتی آیوگ کی میٹنگ میں بھی دوسرے وزراء اعلیٰ کے ساتھ وہ شریک نہیں ہوئے، جلتے میں گھی کا کام بھاجپا کے صدر جے پی نڈا کے بیان نے کیا، جس میں انہوں نے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ساری علاقائی پارٹیاں ختم ہو جائیں گی ، صرف بھاجپا رہ جائے گی، نتیش جی کو یہ بات بھی بُری لگی کہ امیت شاہ نے اپنے کارکنوں کو دو سو اسمبلی سیٹ پر تیاری کا حکم دیا، ظاہر ہے اس کا کھلا ہوا مطلب تھا کہ بھاجپا موقع ملتے ہی نتیش کمار کو سائڈ کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے، اور مہاراشٹرا کی طرح اسمبلی ارکان کی خرید وفروخت آر سی پی سنگھ کے ذریعہ کرا رہی ہے ، ایسے میں نتیش کمار کواپنی بقاء کی جنگ لڑنی تھی اور اس کا آسان طریقہ یہی تھا کہ بھاجپا کو چھوڑ کر عظیم اتحاد کا ہاتھ پکڑ لیا جائے، نتیش کمار نے تسلیم کیا کہ ۲۰۱۷ء میں عظیم اتحاد سے الگ ہونا ان کی سیاسی اعتبار سے بڑی بھول تھی ۔ جب ساری ڈیل مکمل ہو گئی تو رسمی طور پر نتیش کمار جی نے اپنے پارلیامنٹ اسمبلی اور عہداراوں کی میٹنگ بلائی اور انہیں کہا کہ این ڈی اے حکومت میں ہمارے ساتھ تو ہین آمیز سلوک ہوتا رہا ہے اور پارٹی توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، کارکنوں نے حامی بھری اور نتیش جی نے گورنر کو اپنا استعفیٰ دے دیا، پھر رابڑی دیوی کے یہاں وہ عظیم اتحاد کے لیڈر چن لیے گیے اور ۲۰۱۷ء لوٹ کر آگیا، پہلے مرحلہ میں۱۰؍ اگست کو وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری بھی ہو گئی اور اس طرح نتیش کمار آٹھویں بار وزیر اعلیٰ اور تیجسوی یادو دوسری بار نائب وزیر اعلیٰ بن گیے، انہوں نے ایک سو چونسٹھ ارکان اسمبلی کے دستخط گورنر کو پیش کیے اور بات بن گئی ، 
نتیش کمار اس سے قبل پہلی بار ۳؍ مارچ ۲۰۰۰ء سے ۱۰؍ مارچ ۲۰۰۰ء تک ، دوسری بار ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء سے ۲۴؍ نومبر ۲۰۱۰ء تک ، تیسری بار ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۰ء سے ۱۷؍ مئی ۲۰۱۴ء تک ، چوتھی بار ۲۲؍ فروری ۲۰۱۵ء سے ۱۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء ، پانچویں بار ۲۰؍ نومبر ۲۰۱۵ء سے ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۷ء ، چھٹی بار ۲۷؍ جولائی ۲۰۱۷ء سے ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۰ء ، ساتویں بار ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۰ء ۹؍ اگست ۲۰۲۲ء تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، اس درمیان میں صرف ایک بار انہوں نے استعفا ء جیتن رام مانجھی پر اعتماد کرکے انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ چہرہ مانجھی رہیں گے اور حکومت پر دے کے پیچھے سے وہ کریں گے ، لیکن جلد ہی مانجھی کو وزیر اعلیٰ ہونے کا احساس ہو گیا اور سمبلی میں عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ ہونے سے پہلے ہی مانجھی کواستعفیٰ دے دینا پڑا تھا، نتیش کمار مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر ’’لالو ازم‘‘ والی سیاست کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ بھول گیے تھے کہ لالو نے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا کہ جب بھی وہ مانگ میں سندور لگائے لالو ان کے دل ودماغ میں سماتے رہیں اور وہ حکومت پر قبضہ کی سوچ بھی نہ سکیں، مانجھی جی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ، اقتدار ملا تو وہ نتیش جی کے احسان کو بھول گیے اور اپنی راہ چل پڑے، جس کی تلافی وہ آج تک نتیش جی کی حمایت کرکے کر رہے ہیں۔
 حکومت تو بن گئی ہے ، لیکن درد سر کم نہیں ہے، مہنگائی عروج پر ہے ، بے روزگاری دور کرنے کا تیجسوی کا وعدہ قدیم ہے، اقلیتوں سے متعلق اداروں میں عہدیدار برسوں سے غائب ہیں، ڈبل انجن کی سرکار میں دونوں طرف جو کھینچ تان تھی ، اس کی وجہ سے کام کاج ٹھپ پڑا ہوا تھا، نئی حکومت کس طرح اس پر قابو پائے گی عوام کی نگاہ اس پر ٹکی رہے گی ، فی الوقت تو نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دعائیں۔

ماسٹر اسٹروک ____✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ماسٹر اسٹروک ____
✍️
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 اردو دنیا نیوز٧٢
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی ہنر مندی اور کامیاب چال کے ذریعہ بی جے پی کا تختہ پلٹنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، اور آٹھویں بار وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گیے ہیں، اس ہنر مندی کو انگریزی میں ماسٹر اسٹروک کہتے ہیں، یہ لفظ ان کے لیے بی جے پی نے ۲۰۱۷ء میں استعمال کیا تھا، جب نتیش کمار نے عظیم اتحاد کو چھوڑ کر بھاجپا سے ہاتھ ملا لیا تھا، لالو پرساد یادو نے انہیں ’’پلٹو رام‘‘ کہا تھا، پانچ سال میں معاملہ پھر سے الٹ گیا ہے تو اب راجد والے انہیں ماسٹر اسٹروک لگانے والا کہہ رہے ہیں،ا ور بھاجپا والے پلٹو رام، بھاجپا یہ بھی کہہ رہی ہے کہ یہ جمہوریت کا قتل ہے، عوامی رائے دہی کی تذلیل ہے، سوال یہ ہے کہ جب ۲۰۱۷ء میں نتیش کمارعظیم اتحاد چھوڑ کر بھاجپا سے مل گیے تھے تو جمہوریت کا قتل اور عوامی رائے دہی کی توہین نہیں ہوئی تھی اس وقت بھاجپا نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھائے تھے، مثل مشہور ہے ’’میٹھا میٹھا ہپ، ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہے ، اقتدار کے حصول کے لیے یہ لوگ کسی حد تک جا سکتے ہیں، نہ پارٹی کا اصول ونظریہ سامنے رہتا ہے ، اور نہ ہی اخلاقی اقدار، کرسی سامنے نظر آئے تو کسی طرح لپک کر پکڑ لو۔
 ایسے نتیش کمار نے این ڈی اے سے دامن چھڑا کربہت اچھا کیا، جس طرح این ڈی اے نے ’’چراغ ماڈل‘‘ قبول کرکے جد یو کی بہت ساری سیٹوں کو ہار میں تبدیل کرایا تھا، اس کا احساس نتیش کمار کو اسی وقت ہو گیا تھا، پھر آر سی پی سنگھ جو جدیو سے نکالے ہوئے تھے، ان کو سامنے رکھ کر بھاجپا جد یو کو توڑنے میں لگ گئی تھی ، حکومت کے اہم فیصلہ لینے میں بھاجپا روڑے اٹکا تی تھی اس کو نتیش کمار اپنی تذلیل سمجھتے تھے، یہ توہین ، آمیز سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا تھا کہ نتیش کمار ایک بار اسمبلی میں اسپیکر سے بھی بھڑ گیے تھے، موجودہ صدر اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں انہوں نے بھاجپا کا ساتھ پوری ایمانداری سے دیا تھا کیونکہ وہ بہار اڈیشہ ، جھارکھنڈ میں رہ رہے آدی باسیوں کو ناراض کرنا نہیں چاہ رہے تھے، لیکن ان کے اندر جو خفگی تھی اس کی وجہ سے نتیش کمارنے صدر ونائب صدر کی استقبالیہ اور الوداعیہ تقریب سے اپنے کو دور رکھا، نیتی آیوگ کی میٹنگ میں بھی دوسرے وزراء اعلیٰ کے ساتھ وہ شریک نہیں ہوئے، جلتے میں گھی کا کام بھاجپا کے صدر جے پی نڈا کے بیان نے کیا، جس میں انہوں نے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ساری علاقائی پارٹیاں ختم ہو جائیں گی ، صرف بھاجپا رہ جائے گی، نتیش جی کو یہ بات بھی بُری لگی کہ امیت شاہ نے اپنے کارکنوں کو دو سو اسمبلی سیٹ پر تیاری کا حکم دیا، ظاہر ہے اس کا کھلا ہوا مطلب تھا کہ بھاجپا موقع ملتے ہی نتیش کمار کو سائڈ کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے، اور مہاراشٹرا کی طرح اسمبلی ارکان کی خرید وفروخت آر سی پی سنگھ کے ذریعہ کرا رہی ہے ، ایسے میں نتیش کمار کواپنی بقاء کی جنگ لڑنی تھی اور اس کا آسان طریقہ یہی تھا کہ بھاجپا کو چھوڑ کر عظیم اتحاد کا ہاتھ پکڑ لیا جائے، نتیش کمار نے تسلیم کیا کہ ۲۰۱۷ء میں عظیم اتحاد سے الگ ہونا ان کی سیاسی اعتبار سے بڑی بھول تھی ۔ جب ساری ڈیل مکمل ہو گئی تو رسمی طور پر نتیش کمار جی نے اپنے پارلیامنٹ اسمبلی اور عہداراوں کی میٹنگ بلائی اور انہیں کہا کہ این ڈی اے حکومت میں ہمارے ساتھ تو ہین آمیز سلوک ہوتا رہا ہے اور پارٹی توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، کارکنوں نے حامی بھری اور نتیش جی نے گورنر کو اپنا استعفیٰ دے دیا، پھر رابڑی دیوی کے یہاں وہ عظیم اتحاد کے لیڈر چن لیے گیے اور ۲۰۱۷ء لوٹ کر آگیا، پہلے مرحلہ میں۱۰؍ اگست کو وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری بھی ہو گئی اور اس طرح نتیش کمار آٹھویں بار وزیر اعلیٰ اور تیجسوی یادو دوسری بار نائب وزیر اعلیٰ بن گیے، انہوں نے ایک سو چونسٹھ ارکان اسمبلی کے دستخط گورنر کو پیش کیے اور بات بن گئی ، 
نتیش کمار اس سے قبل پہلی بار ۳؍ مارچ ۲۰۰۰ء سے ۱۰؍ مارچ ۲۰۰۰ء تک ، دوسری بار ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء سے ۲۴؍ نومبر ۲۰۱۰ء تک ، تیسری بار ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۰ء سے ۱۷؍ مئی ۲۰۱۴ء تک ، چوتھی بار ۲۲؍ فروری ۲۰۱۵ء سے ۱۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء ، پانچویں بار ۲۰؍ نومبر ۲۰۱۵ء سے ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۷ء ، چھٹی بار ۲۷؍ جولائی ۲۰۱۷ء سے ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۰ء ، ساتویں بار ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۰ء ۹؍ اگست ۲۰۲۲ء تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، اس درمیان میں صرف ایک بار انہوں نے استعفا ء جیتن رام مانجھی پر اعتماد کرکے انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ چہرہ مانجھی رہیں گے اور حکومت پر دے کے پیچھے سے وہ کریں گے ، لیکن جلد ہی مانجھی کو وزیر اعلیٰ ہونے کا احساس ہو گیا اور سمبلی میں عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ ہونے سے پہلے ہی مانجھی کواستعفیٰ دے دینا پڑا تھا، نتیش کمار مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر ’’لالو ازم‘‘ والی سیاست کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ بھول گیے تھے کہ لالو نے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا کہ جب بھی وہ مانگ میں سندور لگائے لالو ان کے دل ودماغ میں سماتے رہیں اور وہ حکومت پر قبضہ کی سوچ بھی نہ سکیں، مانجھی جی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ، اقتدار ملا تو وہ نتیش جی کے احسان کو بھول گیے اور اپنی راہ چل پڑے، جس کی تلافی وہ آج تک نتیش جی کی حمایت کرکے کر رہے ہیں۔
 حکومت تو بن گئی ہے ، لیکن درد سر کم نہیں ہے، مہنگائی عروج پر ہے ، بے روزگاری دور کرنے کا تیجسوی کا وعدہ قدیم ہے، اقلیتوں سے متعلق اداروں میں عہدیدار برسوں سے غائب ہیں، ڈبل انجن کی سرکار میں دونوں طرف جو کھینچ تان تھی ، اس کی وجہ سے کام کاج ٹھپ پڑا ہوا تھا، نئی حکومت کس طرح اس پر قابو پائے گی عوام کی نگاہ اس پر ٹکی رہے گی ، فی الوقت تو نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دعائیں۔

مولانا سید جمیل اختر حسینی ؒ __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سید جمیل اختر حسینی ؒ __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 سابق انچارج شعبۂ تبلیغ وتنظیم امارت شرعیہ چھوٹا ناگپور، ایڈ ہاک کمیٹی مسلم مجلس مشاورت رانچی کے کنوینر ، نامور عالم دین ، قائدانہ صفات سے مزین ، ملت کے لئے ہمیشہ سینہ سپر، مشہور ہو میو پیتھ معالج، معتدل نظریہ کے حامل ، اپنے مسلک پر عامل اور دوسروں کے سلسلے میں روا دار مولانا سید جمیل اختر حسینی نے چھیانوے (۹۶) سال کی عمر میں ضعف ونقاہت، پیرانہ سالی اور عمر کے مقررہ ایام ختم ہونے کے بعد ۹ ؍ جنوری ۲۰۱۸ء بروز منگل ، عشاء کی اذان کے وقت اپنے مکان نزد مسجد ابو بکر لاہ کوٹھی روڈ ، ہند پیڑھی رانچی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ۱۰؍ جنوری بروز بدھ بعد نماز ظہر سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا صدیق مظاہری (جو اب خود بھی مرحوم ہو چکے ہیں) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور راتوروڈ قبرستان میں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں چھ صاحب زادہ اور تین صاحب زادیوں کے ساتھ نواسے، نواسی اور پوتے پوتیوں سے بھرا گھر چھوڑا۔
مولانا جمیل اختر حسینی بن حافظ سید عبد المغنی بن عبد الحئی بن سید شاہ عبد الرحمن ؒ بن سید شاہ فرحت حسین کی ولادت موجودہ ضلع ویشالی اور سابق ضلع مظفر پور میں ہوئی ، اس خاندان کی رشتہ داری ویشالی ضلع کے چہرہ کلاں اورچپیٹھ ضلع ویشالی میں رہی ہے۔مولانا کی سسرال چک بہاؤالدین ضلع سمستی پور تھی۔
ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ قاسمیہ گیا، پھر کولکاتہ اور وہاں سے غالبا دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، غالبا اس لیے کہ دار العلوم سے فراغت یقینی معلوم نہیں، البتہ بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیو بند گیے، انہوں نے اپنی ایک کتاب سیرت سرور کونین کا انتساب حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی طرف کیا ہے اورانہیں اپنا استاذ بتایا ہے، فراغت کے بعد مولانا نے مدرسہ کاشف العلوم مچھوا پھل منڈی اور ندائے اسلام کولکاتہ میں معلمی کے فرائض انجام دیے، ندائے اسلام مسجد کی امامت بھی آپ کے ذمہ تھی، حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی ؒ کی تجویز پر کولکاتہ سے رانچی منتقل ہو گیے، جہاں دار القرآن میں انتظام وانصرام اور مدرسہ حسینہ کڈرو رانچی میں درس وتدریس سے وابستہ رہے، حواری مسجد کربلا چوک رانچی کی خطابت چالیس سال تک آپ کے ذمہ رہی۔ ملازمت، خطابت اور سماجی خدمات کے حوالہ سے آپ نے رانچی کو اپنا میدان عمل بنایا اور ۱۹۵۷ء سے مسلسل نقل مکانی کرکے رانچی کے ہو کر رہ گیے، ۱۹۶۷ء کے ہولناک فساد میں آپ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر جو خدمت انجام دی اس کی وجہ سے رانچی کے مسلمانوں میں آپ کی مقبولیت ومحبوبیت میں اضافہ ہوا، آج بھی لوگ اس موقع سے مولانا کی جرأت مندی، دانائی، مؤمنانہ فراست، مدبرانہ قیادت اور دو ر اندیش سیاست کا چرچا کرتے رہتے ہیں، اس موقع سے امارت شرعیہ کی ریلیف ٹیم بھی وہاں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ امیر شریعت سادس کی قیادت میں پہونچی تھی، مولانا نے اس ریلیف ٹیم کا بھر پور تعاون کیا، امیر شریعت سادس اس کا اپنی مجلسوں میں تذکرہ کیا کرتے تھے۔
 مولانا بڑے عالم تھے، ان کے ہم نشیں علوم وفنون میں ان کی مہارت کو’’ کسبی‘‘ نہیں ’’وہبی‘‘ اور علم لدنی کہا کرتے تھے، وہ مسلمانوں میں علوم دینیہ کی ترویج اور قرآن کریم صحت کے ساتھ لوگ پڑھیں اس کے لیے متفکر رہا کرتے تھے، چنانچہ ۱۹۶۱ء میں انہوں نے رانچی میں در القرآن کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ، اس ادارہ کو ترقی دینے کے لیے کئی مدرس بحال کیے، کیوں کہ اس زمانہ میں آپ مدرسہ عراقیہ رانچی میں صدر مدرس کے منصب پر فائز تھے، اس لیے وقت کابڑا حصہ ادھر لگانا پڑتا تھا، بعد میں دار القرآن کی طرف لوگوں کا رجوع شروع ہوا تو وہ ملت کے مسائل حل کرنے کا ایک مرکز بن گیا، تعلیم بھی جاری رہی اور ملت کو در پیش مسائل کا حل بھی مولانا نکالتے رہے۔
 ۱۹۶۴ء میں مسلم مجلس مشاورت کا اجلاس مولانا نے بڑے کر وفر سے رانچی میں منعقد کرایا، امارت شرعیہ سے بھی انہیں والہانہ عشق تھا، وہ امارت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، ۲۶؍ صفر ۱۴۱۶ھ کو اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے چھوٹا ناگپور ڈویزن خصوصا رانچی، جمشید پور، ہزاری باغ وغیرہ کا انچارج شعبۂ تبلیغ وتنظیم مقرر کیا تھا اور یہ تقرری امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے حکم پرہوئی تھی، اس حکم سے متعلق خط میں انہیں یکم ربیع الاول سے اس عہدے کی ذمہ داری سنبھالنے کو کہا گیا تھا، اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ فی الحال رانچی دفتر امارت شرعیہ کو مرکز بنا کر پورے حلقے میں کام کریں گے ۔ مولانا مرحوم نے امارت شرعیہ سے وابستگی کی وجہ سے ہی اپنی قیمتی لائبریری دفتر امارت شرعیہ رانچی کے حوالہ کرنے کی وصیت کی تھی۔
 مولانا بہترین خطیب اور اچھے مصنف تھے، پہلے ہند پیڑھی کی مسجد اور پھر مسجد حوارئین میں چالیس سال تک خطاب فرمایا ، کئی لوگ تو ان کی تقریر سننے کے لیے ہی اس مسجد میں آکر نما زپڑھتے تھے، مولانا نے اپنی اس صلاحیت سے اصلاح معاشرہ کا بڑا کام لیا، رانچی میں آپ کے دوستوں کا ایک مخصوص حلقہ تھا، اور بڑی تعداد میں لوگ ان کی خدمات کے معترف اور مذہی بنیادوں پر ان کے معتقدتھے، مولانا ان لوگوں میں تھے جو ملت کو بہت کچھ دے کر اپنی کاخ فقیری میں خوش وخرم زندگی گذارتے ہیں۔ مولانا کے اثرات کو دیکھ کر سیاسی بازی گران پر ڈورے ڈالتے، مال ودولت کی پیش کش کرتے، لیکن یہ غیور، خود دار اور عامل شریعت اس کی طرف دیکھنا ،بلکہ تھوکنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا، اس سے بھی انہوں نے کام لیا، ان کی کتابیں سیرت سرور کونین، چہل حدیث، علامات قیامت، رسول اللہ کے معجزے، رسول اللہ کے اخلاق اور رسول اللہ کی دعائیں مشہور ومقبول ہیں، اور انسانوں کی زندگی سنوارنے کے لیے مفید ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میری کئی ملاقاتیں تھیں، ان کا وطن اصلی بیلا بھوساہی ہے، جہاں سے ہم لوگوں کا تعلق قدیم ہے، مولانا مرحوم کے کہنے پر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے عالی شان مسجدیہاں تعمیر کروائی تھی، ممکن ہے تعاون بعض دوسروں کا بھی رہا ہو، قاضی صاحب نے ہی وہاں امارت شرعیہ کا مکتب کھولوایا جو آج بھی جاری ہے، یہ سارا کام ان کے بھائی مظاہر الحسنین صاحب کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے، مظاہر صاحب کا بھی انتقال تین سال قبل ہوگیا اللّٰہ مولانا مظاہرالحسینی کی بھی  مغفرت فرمائے، رانچی میں مولانا سے کئی ملاقاتیں رہیں، بلکہ ان کی زندگی میں جب بھی رانچی جاتا تو ان سے ملاقات کے لیے وقت نکالتا، وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں کتابوں کے درمیان موجود ہوتے، ان کے پاس اخبارات کا بڑا ذخیرہ تھا اور کسی زمانہ میں وہ اخبارات کے تراشے جمع کیا کرتے تھے، بعض موقعوں سے انہوں نے مجھے بھی اس کی زیارت کرائی تھی، مولانا جس طرح دوسرے کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، میری بھی کرتے، میں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس جانے، ان کے احوال سننے سے ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، اور وہ اپنی تمام تر نیکیوں کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گیے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور سیاٰت سے در گذر کرکے حسنات کے طفیل جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے۔ آمین یا رب العالمین

جمعرات, اگست 18, 2022

محبت ہم پڑھائیں گےبہار کے نئے وزیر تعلیم جناب چندر شیکر جی لیکچرر ہیں اور کانپور سے پوسٹ گریجویٹ ہیں،

محبت ہم پڑھائیں گے

بہار کے نئے وزیر تعلیم جناب چندر شیکر جی لیکچرر ہیں اور کانپور سے پوسٹ گریجویٹ ہیں، 
اردو دنیا نیوز٧٢
وزارت کی کرسی پر بیٹھتے ہی موصوف کا پہلا بیان ریاست بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئےتوجہ کا سامان بن گیا ہے،پریس کانفرنس کو  خطاب کرتے ہوئےوزیر تعلیم صاحب نے سب سے پہلے موجودہ تعلیمی نظام وانتظام سے بے اطمنانی کا اظہار کیاہے اور اسے تبدیل کرنے کی بات کہی ہے،اور نیا تعلیمی ماڈل لانے کا اعلان کیا ہے، اس کے لئے کیجریوال سرکار نے دہلی میں جو نظام تعلیم اپنایا ہے، اسے اپنے یہاں لانے کی بھی بات کہی ہے، موصوف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کہ جنہیں نفرت پڑھانا ہےپڑھائیں،ہم محبت پڑھائیں گے، جنہیں گوالکر پڑھانا ہے پڑھائیں، ہم سماجی انصاف اور امبیڈکر پڑھائیں گے۔
دنیا کو بدلنے کے لئے تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے،اس کے لئے اساتذہ سے آگے آنے اور تعلیم میں سدھار لانے کی بھی بات کہی ہے،
وزیرتعلیم صاحب کی مذکورہ تینوں باتںں بڑی اہم ہیں، بالخصوص اسوقت جب کہ مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی لائی گئی ہے، یہ تین طرح کے سوالات کھڑے کئے جاتے رہےہیں کہ غریب طبقہ کو تعلیم سے دور رکھنے کی اسمیں کوشش کی گئی ہے،خاص نظریہ کے فروغ کے لئے اس کی ترتیب دی گئی ہے،تعلیم وہ ہتھیار ہے جس سے برائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے مگر اس نئی تعلیمی پالیسی سے تعصب  اور دیگر اخلاقی بیماریاں پیدا ہونے کاقوی اندیشہ ہے۔آج بھی اس عنوان پر احتجاج کیا جارہا ہے، وہ الگ بات ہے کہ عام لوگوں کی توجہ اس جانب نہیں ہے،  دال سبزی کی مہنگائی نظر آجاتی ہے مگر یہ تعلیم کی نجکاری اور فیس کی زیادتی پر نظر نہیں ہے،پڑھا لکھا طبقہ اس کی سنگینی کا احساس توکررہا ہے اور اپنا احتجاج بھی درج کرا رہا ہےمگر عام لوگوں میں اس کا کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، اور اس موضوع پر احتجاج صدا بصحراثابت ہورہا ہے۔
آج ریاست بہار کے وزیر تعلیم کی طرف سے یہ آواز دور تک گئی ہے، حکومت بہار کی طرف سے یہ پیغام عام ہوا ہے کہ تعلیم اصل میں ایک انسان کو انسان سے محبت سکھانے کا نام ہے،نفرت کے لئے اس میں گنجائش نہیں ہے،ایک حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک  فرد تک باسانی تعلیم کو پہونچائے، اور اس کے نظام میں بہتری لانے کے لئے کوشاں رہے،واقعی یہ اپنے فرض منصبی کے ساتھ انصاف ہے،اس کے لئے موصوف کو مبارکباد ہے۔
چندر شیکھر جی سے پہلے وجے چودھری جی بہار حکومت میں وزیر تعلیم رہے ہیں،سنی وقف بورڈ کےپٹنہ اجلاس میں ابھی ایک ماہ قبل ہی انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیاہے کہ، تعلیم کے موضوع پر  مذہب اسلام میں جسقدر تحریک ملتی ہے کسی دھرم میں نہیں ہے۔قرآن کی پہلی آیت پڑھنے سے شروع ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو  گردش کر رہا ہے، اس میں ملک کےموجودہ وزیر اعظم صاحب نے ایک حدیث ترمذی شریف کی پڑھی ہے،" عقل ودانش کی بات مومن کا گم شدہ مال ہے"۔
جب بھی تعلیم پر بات آتی ہے قرآن وحدیث کا پیغام برادران وطن کے بھی سامنے آجاتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارا کوئی تعلیمی ماڈل انہیں ملک میں نظر نہیں آتا ہے ،اس میں  سراسر کوتاہی اپنی ہی نظر آتی ہے، سینکڑوں ہزاروں مدارس ہیں، مگر اب تک ہم نےملک کے سامنے لائق تقلید مدرسہ تعلیمی ماڈل پیش نہیں کیا ہے،جبکہ آج بھی محبت وانسانیت کی تعلیم سب سے زیادہ مدارس میں دی جاتی ہے، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ جس طرح کیجریوال ماڈل کی تلاش اس وقت بہار کے وزیر تعلیم صاحب کو ہے،اگر ہم اہل مدارس نے عزم مصمم کر لیا تو وہ دن دور نہیں جب نفرت وتعصب سے تنگ آکر برادران وطن کو اور حکومت وقت کومدرسہ تعلیمی ماڈل کی تلاش ہوگی۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۸/اگست ۲۰۲۲ء
وزارت کی کرسی پر بیٹھتے ہی موصوف کا پہلا بیان ریاست بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئےتوجہ کا سامان بن گیا ہے،پریس کانفرنس کو  خطاب کرتے ہوئےوزیر تعلیم صاحب نے سب سے پہلے موجودہ تعلیمی نظام وانتظام سے بے اطمنانی کا اظہار کیاہے اور اسے تبدیل کرنے کی بات کہی ہے،اور نیا تعلیمی ماڈل لانے کا اعلان کیا ہے، اس کے لئے کیجریوال سرکار نے دہلی میں جو نظام تعلیم اپنایا ہے، اسے اپنے یہاں لانے کی بھی بات کہی ہے، موصوف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کہ جنہیں نفرت پڑھانا ہےپڑھائیں،ہم محبت پڑھائیں گے، جنہیں گوالکر پڑھانا ہے پڑھائیں، ہم سماجی انصاف اور امبیڈکر پڑھائیں گے۔
دنیا کو بدلنے کے لئے تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے،اس کے لئے اساتذہ سے آگے آنے اور تعلیم میں سدھار لانے کی بھی بات کہی ہے،
وزیرتعلیم صاحب کی مذکورہ تینوں باتںں بڑی اہم ہیں، بالخصوص اسوقت جب کہ مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی لائی گئی ہے، یہ تین طرح کے سوالات کھڑے کئے جاتے رہےہیں کہ غریب طبقہ کو تعلیم سے دور رکھنے کی اسمیں کوشش کی گئی ہے،خاص نظریہ کے فروغ کے لئے اس کی ترتیب دی گئی ہے،تعلیم وہ ہتھیار ہے جس سے برائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے مگر اس نئی تعلیمی پالیسی سے تعصب  اور دیگر اخلاقی بیماریاں پیدا ہونے کاقوی اندیشہ ہے۔آج بھی اس عنوان پر احتجاج کیا جارہا ہے، وہ الگ بات ہے کہ عام لوگوں کی توجہ اس جانب نہیں ہے،  دال سبزی کی مہنگائی نظر آجاتی ہے مگر یہ تعلیم کی نجکاری اور فیس کی زیادتی پر نظر نہیں ہے،پڑھا لکھا طبقہ اس کی سنگینی کا احساس توکررہا ہے اور اپنا احتجاج بھی درج کرا رہا ہےمگر عام لوگوں میں اس کا کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہیں آرہا ہے، اور اس موضوع پر احتجاج صدا بصحراثابت ہورہا ہے۔
آج ریاست بہار کے وزیر تعلیم کی طرف سے یہ آواز دور تک گئی ہے، حکومت بہار کی طرف سے یہ پیغام عام ہوا ہے کہ تعلیم اصل میں ایک انسان کو انسان سے محبت سکھانے کا نام ہے،نفرت کے لئے اس میں گنجائش نہیں ہے،ایک حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک  فرد تک باسانی تعلیم کو پہونچائے، اور اس کے نظام میں بہتری لانے کے لئے کوشاں رہے،واقعی یہ اپنے فرض منصبی کے ساتھ انصاف ہے،اس کے لئے موصوف کو مبارکباد ہے۔
چندر شیکھر جی سے پہلے وجے چودھری جی بہار حکومت میں وزیر تعلیم رہے ہیں،سنی وقف بورڈ کےپٹنہ اجلاس میں ابھی ایک ماہ قبل ہی انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیاہے کہ، تعلیم کے موضوع پر  مذہب اسلام میں جسقدر تحریک ملتی ہے کسی دھرم میں نہیں ہے۔قرآن کی پہلی آیت پڑھنے سے شروع ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو  گردش کر رہا ہے، اس میں ملک کےموجودہ وزیر اعظم صاحب نے ایک حدیث ترمذی شریف کی پڑھی ہے،" عقل ودانش کی بات مومن کا گم شدہ مال ہے"۔
جب بھی تعلیم پر بات آتی ہے قرآن وحدیث کا پیغام برادران وطن کے بھی سامنے آجاتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارا کوئی تعلیمی ماڈل انہیں ملک میں نظر نہیں آتا ہے ،اس میں  سراسر کوتاہی اپنی ہی نظر آتی ہے، سینکڑوں ہزاروں مدارس ہیں، مگر اب تک ہم نےملک کے سامنے لائق تقلید مدرسہ تعلیمی ماڈل پیش نہیں کیا ہے،جبکہ آج بھی محبت وانسانیت کی تعلیم سب سے زیادہ مدارس میں دی جاتی ہے، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ جس طرح کیجریوال ماڈل کی تلاش اس وقت بہار کے وزیر تعلیم صاحب کو ہے،اگر ہم اہل مدارس نے عزم مصمم کر لیا تو وہ دن دور نہیں جب نفرت وتعصب سے تنگ آکر برادران وطن کو اور حکومت وقت کومدرسہ تعلیمی ماڈل کی تلاش ہوگی۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۸/اگست ۲۰۲۲ء

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائلمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
اردو دنیا نیوز٧٢
 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک اکائی ہونے کے باوجود خاندان سے رشتوں کے اعتبار سے جڑا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے خوشی وغمی میں مربوط رہتا ہے، اس ارتباط سے ایک کو دوسرے سے قوت ملتی ہے اس لیے اس کو اسرۃ کہتے ہیں، کیوں کہ اس لفظ میں قوت وطاقت کا مفہوم پوشیدہ ہے۔
 میرے علم ومطالعہ کی حد تک قرآن کریم اور فقہاء کرام کے یہاں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے اس کی جگہ آل ، اہل وعیال، ذریۃ ، ابن، بنت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، موجودہ دور میں اسرۃ کا اطلاق مرد ، اس کی بیوی اور اس کے ان اصول وفروع پر ہوتا ہے ، جس کا نفقہ اس کے ذمہ ہو، البتہ ابو جعفر نحاس صرف مرد کے پدری رشتہ دار کو ’’اسرۃ‘‘ مانتے ہیں، جو بدیہی طور پر صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول سے سب سے زیادہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں باپ ، بیٹا، بھائی، بیوی اور قبائل کا ایک ساتھ ذکر موجود ہے ، جن کی محبت زیادہ ا نسان کے دلوں میں جا گزیں ہوتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو خاندان میں یہ سب آجاتے ہیں ، البتہ ان میں سے بعض کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں ، بعض کی کفالت ضرورتا کی جاتی ہے اور بعض اس دائرے سے بھی باہر رہ جاتے ہیں، لیکن خاندان کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے ، ہمارے یہاں کا یہ عرف عام ہے اور فقہ میں عرف عام کا بھی اعتبار ہوتا ہے ، بخلاف مغرب کے کہ ان کے یہاں فیملی کا مطلب میاں بیوی اور بیٹے ، بٹیاں ہوا کرتے ہیں، ان کے خاندان میں والدین کی جگہ نہیں ہوتی ہے یا تو وہ اکیلے رہتے ہیں یا انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے ، اسلام میں سماجی زندگی میں جو خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ ہے اس کا والدین کے بغیر کوئی تصور نہیںہے ۔ یہ خاندانی نظام سماج میں دو طرح رائج ہے، ایک مشترکہ خاندانی نظام اور دوسرا انفرادی خاندانی نظام۔
 مشترکہ خاندانی نظام میں ایک میاں بیوی کے تمام لڑکے، بلکہ بسا اوقات بھائی اور بچے ان کے بھی ساتھ ہوتے ہیں، اس نظام میں اگر آپس میں الفت ومحبت رہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشیں حائل نہ ہوں تو مشترک ہونے کی وجہ سے یہ بڑا طاقتور ہوتا ہے ، لوگ اس کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کی لاٹھی مضبوط ہوتی ہے اورمالی اعتبار سے بھی وہ عموما فائق ہوتے ہیں، اور وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ دیہاتی زبان میں ان سے ’’پھریا نا‘‘آسان نہیں ہوتا اس لیے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں اور ان کی قوت کی وجہ سے ان پر کوئی ظلم نہیں کر سکتا ۔
 اس نظام کی چند خرابیاں بھی ہیں، اس میں خاندان کے بہت سارے ارکان دوسرے کی کمائی پر بھرسہ کرنے لگتے ہیں، ایک کماتا ہے اور سب بیٹھ کر کھاتے ہیں، اس کی وجہ سے خاندان کے بہت سارے افراد کاہل ہوجاتے ہیں اور وہ معاش کے حصول میں تگ ودو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
 دوسری خرابی اس مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ہے کہ شریعت کے پردہ کے اصول پر عمل یہاں دشوار ہوتا ہے ، ایک آنگن اور ایک چہار دیواری میں رہنے کی وجہ سے پردہ کا نظام باقی نہیں رہتا اور کبھی کبھی اس بے پردگی اور غیر محرموں سے اختلاط کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خصوصا آج کے دور میں جہاں رشتوں کا احترام باقی نہیں ہے اور رشتوں کی پاکیزگی کو تار تار کرنے کے واقعات کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں، بظاہر مشترکہ خاندانی نظام میں اختلاط سے بچنا ممکن نہیں ہے ۔ 
 تیسرا نقصان یہ ہے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلہ لینے کی قوت کم ہوجاتی ہے اور نفسیاتی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلے گھر کے گارجین لیتے ہیں اور اسی فیصلے پر سب کو چلنا پڑتا ہے، گارجین کے یہ فیصلے کبھی تو مشورے سے ہوتے اور کبھی بغیر مشورہ کے ہی خاندان کے مفاد میں فیصلہ لے لیا جاتا ہے ، اس سے خاندان میں اجتماعی مزاج پیدا ہوتا ہے اور سمع وطاعت کی ڈور میں سارے افراد خانہ بندھے ہوتے ہیں یہ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو ہے ۔
 اس کے مقابلے جو انفرادی خاندان ہوتا ہے، اس میں آپس میں ربط وہم آہنگی کی کمی ہوتی ہے، ایک دوسرے سے حسد اور جلن کا مزاج پیدا ہوتا ہے ہر افراد خود کو آگے بڑھانے کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے ، یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوتا ہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی مٹ جاتی ہے اور ترکہ وغیرہ کی تقسیم میں بھی لوگ آنا کانی کرنے لگتے ہیں، اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں خود کمانے کھانے آگے بڑھنے اور اپنے مفادات میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، انہیں سر براہ اور گارجین بننے کے لیے اپنے سے بڑے کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ بڑوں کی موجودگی میں ہی اپنے بیوی ، بچوں کے گارجین ہونے کی حیثیت سے بڑے ہوجاتے ہیں، انفرادی خاندانی ڈھانچے میں جھگڑے لڑائی کا مزاج بھی کم ہوتا ہے ، اس لیے کہ ان کے ساتھ رہنے والے ان کے دست نگر ہوتے ہیں اور جھگڑے کے لیے دوسراکوئی موجود نہیں ہوتا۔
 مشترکہ خاندانی نظام میں ساس ، بہو ، نند ، دیور وغیرہ کے جھگڑے عام ہوتے ہیں، امراء کے یہاں چوں کہ کسی چیز کی محرومی نہیں ہوتی ، ان کے یہاں وافر مقدار میں دولت ہوتی ہے، جس سے گھر کا ہر فرد اپنے ذوق کی چیزیں خرید لیتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھتی؛ لیکن اوسط آمدنی والے یا غریب خاندان میں قوت لا یموت کے ساتھ زندگی گذرتی ہے، ایسے میں من پسند آرائشی چیزوں کے لیے گنجائش یا تو ہوتی نہیں ہے او رہوتی ہے تو کم ہوتی ہے، چنانچہ چِک چِک شروع ہوتی ہے اور پورا خاندان اس کی زد میں آجاتا ہے۔
 خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، مرد کی قوامیت اپنی جگہ ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو ، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’الرجال قوامون علی النسائ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم میں کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی ، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اور مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
  مرد کی قوامیت کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عوتوں پر ان کے ذریعہ انفاق مال کو قرار دیا گیا ، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں ، عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت زر خرید غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے، اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی ، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبیں کھڑی کرتی رہتی ہے ۔
 مردوں پر گھریلوتشدد کرنے والی عورتوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے، جسے لو’’ میریج‘‘ کے نام پر بیوی بنایا جاتا ہے، محبت ، پیار، عشق کبھی اچھی چیز رہی ہوگی، ان دنوں لڑکیوں اور عورتوں کے حوالہ سے یہ ہوسناکی کا دوسرا نام ہے، در اصل یہ جسم کی بھوک ہے، شادی کے بعد جسم کی یہ بھوک مٹ جاتی ہے تو مرد کے ہر کام میں خامی نظر آنے لگتی ہے، پھر حالت یہ ہوجاتی ہے کہ پہلے سال شوہر بولتا رہتا ہے، بیوی سنتی رہتی ہے، دوسرے سال بیوی بولتی ہے، شوہر سنتا ہے اور تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور پورا محلہ سنتا ہے،ا س قسم کی عورتیں اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کر لیتی ہیں اور شوہر اس قدر مظلوم ہوجاتا ہے اس کے لیے گھر میں رہنا محال ہوجاتا ہے، میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں، جس کے شوہر نے ایک مکان میں رہتے ہوئے ڈھائی برسوں سے اپنی منکوحہ کا چہرہ نہیں دیکھا، سارے بچے بھی ماں کے ساتھ ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور شوہر گھر کے بر آمدے کے ایک حصے میں کس مپرسی کی زندگی گذاررہا ہے۔
خاندان کے ٹوٹنے ، بکھرنے کے جو اسباب وعلل ہیں، ان میں لڑکیوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری بھی ہے ، وہ اپنے شوہر کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں ہیں جو شوہر کو اسے دینی چاہیے، لڑکیوں کے مدارس میں بھی جو کچھ ا نہیں پڑھایا جا رہا ہے اس سے وہ ان بیلنس ہو رہی ہیں، ان میں اپنے حقوق کے تئیں حساسیت زیادہ آجاتی ہے اور فرائض کا خیال باقی نہیں رہتا، اس لیے عالمہ ، فاضلہ لڑکیوں میں بھی طلاق کا تناسب کم نہیں ہے ۔ خاندانی نظام میں مرد کی قوامیت تسلیم کرنے کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، ’’ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘ ان دونوں کے درمیان الفت ومحبت رہے گی تو خانگی زندگی پُر سکون گذرے گی ، ورنہ گھر جہنم کا نمونہ ہوجائے گا۔ اللہ رب العزت نے گھر کو ٹینشن فری زون بنایا ہے، جس کی طرف ’’وجعلنا بینکم مودۃ ورحمۃ ‘‘  کہہ کر اشارہ کیا ہے، ہمیں اس اشارہ کی معنویت کو سمجھنا چاہیے۔

بدھ, اگست 17, 2022

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کی رسم اجراء

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کی  رسم اجراء
(اردو دنیا نیوز٧٢)

پریاگ راج( پریس ریلیز) پریا گ راج اُتر پردیش کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی پروفیسر صالحہ رشید (صدر شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی )کی کتاب جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کا  ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی میں عمل میں آئی۔اس تقریب کا اہتمام  ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ) اور ان کی ٹیم نے کی، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو سماجی، فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، اس کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے چل رہا ہے، جہاں بچے بچیاں اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،اس کے علاوہ اس ادارے نے اب پبلیکیشن کا کام بھی شروع کیا ہے جس کے تحت دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں پہلی۔پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب اس میں شامل ہیں۔
پروفیسر صالحہ رشید بہترین معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی  اور فارسی زبانوں پر  عبور رکھتی ہیں،لیکن وہ اُردو میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ اس سے قبل ان کی کئ تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں،  جسے ادبی حلقوں نے سراہا ہے اور علمی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔اسکالر بھی  اس سے استفادہ کر رہے ہیں،
تازہ تصنیف جد جہد آزادی یہ کتاب جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک پر مبنی ایک نایاب اور شاہکار تصنیف ہے، جو ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کئی اہم مضامین ہیں، جو اردو ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں ، لیکن اب منظم انداز میں ایک کتابی شکل میں مصنفہ نے شائع کیا ہے ۔ جس کی قیمت دو سو روپے ہے، آپ اس کتاب کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلکیش پریاگ راج اور پٹنہ بہار سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، رسمِ اجراء کے موقع پر اس خوبصورت پروگرام کی نظامت اور کتاب کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) نے پیش کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن  کے اغراض و مقاصد  پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ  ضیائے حق فاؤنڈیشن کے خدمات 2011 سے سر گرم ہے، یہ تنظیم سماجی، اصلاحی، اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ علمی، ادبی، لٹریری پروگرام میں بھی ہمیشہ سرگرم رہا ہے، ادباء وشعرا کی حوصلہ افزائی کے واسطے گاہے بگاہے آن لائن، آف لائن پروگرام کا انعقاد کرتا رہتا ہے، اس تنظیم کے تحت بہار کی دارالحکومت شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے قیام میں آیا ہے، جہاں طلباء وطالبات کی جماعت علمی پیاس بجھا رہی ہے، اس کے علاوہ یہ ادارہ اُن قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اُن کو پلیٹ فارم مہیا کرانے میں پیش پیش رہتی ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا جن کو موقع نہیں مل پاتا۔اس کے بعد کتاب کا تعارف و کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد و جہد میں نمایاں ناموں کے ساتھ ایسے مجاہدین بھی شامل تھے جن کو تاریخ میں کبھی جگہ نہیں مل سکی، جن کی قربانیوں ،کوششوں اور لافانی خدمات نے آزادی کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن افسوس ان کی خدمات کا اعتراف کبھی نہیں ہو سکا یا ہوا بھی تو رسما۔۔ان تمام باتوں کی کمی پروفیسر صالحہ رشید نے اپنی اس تازہ تصنیف میں دورِ کر دی ہے انہوں نے اُن لافانی شخصیات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جن کے مطالعہ سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں ، اور یہ معلومات کہیں اور نہیں ملتی ، یقینا ان کا یہ تحقیقی کارنامہ لافانی ہے ، جسے پڑھنے ، سمجھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر نیلوفر حفیظ صاحبہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ صالحہ رشید صاحبہ کی تصنیف کردہ جد جہد آزادی یہ جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک کو اجاگر کرتی ہے ، اور صحیح تاریخ سے آگاہ کراتی ہے ، میں اُن کو اس کاوش کے لئے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
تاثرات پیش کرنے والوں میں محمد امجد، اسامہ جلال، رضوان بھی شامل رہے، محد اسامہ نے اس کتاب کو آزادی کی تاریخ میں اہم اضافہ بتایا۔
اس پروگرام میں عتیق احمد نے بہت خوبصورت انداز میں نظمیں پڑھیں چند اشعار  پیش کئے جاتے ہیں:

مشکل دیکھ کر مسکرایا کرو
حوصلے آپ بھی آزمایا کرو
شوق اور خواہشیں تُم بھلے کم کرو
دو نوالے بھلے کم ہی کھایا کرو
علم کی شمع بھیتر جلائے رکھو
پروگرام کے آخر میں پروفیسر صالحہ رشید نے تفصیل سے اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے کی کہانی، مقصد، اور اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ انھونے کہا کہ ہماری گورنمنٹ آف انڈیا نے آزادی کے امرت مہو تسو کے ذریعہ یہ موقع دیا کہ ہم اپنی آزادی میں قربان اسلاف کو یاد کریں، انکی مٹ چکی تاریخ کو دہرائیں، انکو نئے سرے سے جاننے سمجھنے کی کوشش کریں ، اسی لیے میں نے اس کتاب میں شامل تیرہ مضامین میں آزادی کے تیرہ متوالوں کو اپنے طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ہی اُنہوں نے فاؤنڈیشن کا بھی شکریہ ادا کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ شعبہ فارسی و عربی کے لئے یہ فخریہ لمحہ ہے کہ جشن آزادی کے موقع پر ہمارے شعبے کی نمائندگی یہ کتاب کر رہی ہے۔
اس پروگرام میں بڑی تعداد میں سامعین، اسکالر، طلباء و طالبات شامل رہے۔اس پروگرام کے منتظمین میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محمد ضیاء العظیم پٹنہ، اسماء، سہراب، نشی موہنی، ہریش چندر یادو، ابھیشیک راہی، کا نام قابل ذکر ہے
آخر میں اظہار  تشکر کے ساتھ ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے  پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا،

’’سر نیم‘‘ تبدیل کرنے کا حق ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

’’سر نیم‘‘ تبدیل کرنے کا حق ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز٧٢
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’’سر نیم‘‘ (خاندانی وقبائلی سابقہ ولاحقہ) تبدیل کرنے کا حق باپ کی وفات کے بعد ماں کو دے دیا ہے، ماں اپنے بچے کو دوسرے شوہر کو گود لینے کا حق بھی دے سکتی ہے، اس طرح بچے کا سر نیم نہیں نسب بھی گود لینے والے مرد سے جڑ جائے گا، عدالت کی نظر میں ’’سرنیم‘‘ صرف نسب کا اشاریہ نہیں ہے، بلکہ وہ پوری خاندانی روایت، ثقافت اور تہذیب کا اعلانیہ ہے، ’’سر نیم‘‘ سے بچہ کی شناخت بنتی ہے۔ اب اگرماں کے مطابق ’’سرنیم‘‘ رکھنے کا اختیار نہ دیاجائے تو بچہ کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہے گی کہ وہ اس خاندان کا نہیں دوسرے خاندان کا فرد ہے۔ اس طرح بچہ دوسرے خاندان سے مربوط نہیں ہو سکے گا، عدالت کا کہنا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے ہمیں کچھ غلط نہیں لگتا۔
 سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا ہے، سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ اکیلا للتا نے دائر کیا تھا، للتا کی شادی ۲۰۰۳ء میں کونڈا بالا جی سے ہوئی تھی، لیکن صرف تین سال بعد ۲۰۰۶ء میں وہ چل بسا، اور ایک لرکا لہا د کو چھوڑ گیا، اس وقت لڑکے کی عمر ڈھائی ماہ تھی، ایک سال بعد اکیلا للتا نے دوسری شادی اکیلا روی نرسمہا سے کر لیا اور اپنے بچہ کا’’ سر نیم‘‘ اکیلا کر دیا، یہ بات پہلے شوہر کے والدین کو پسند نہیں آئی، انہوں نے ۲۰۰۸ء میں پوتے کا سر پرست بنانے کی عرضی گذاری،یہ مقدمہ گارجین اینڈ وارڈس ایکٹ ۱۸۹۰ء کے دفعہ ۱۰؍ کے تحت دائر ہوا اور ہائی کورٹ نے اہلاد کے دادا، دادی کی اس درخواست کو مان لیا، سرپرست للتا کو باقی رکھتے ہوئے للتا کو حکم دیا گیا کہ وہ بچے کا ’’سر نیم‘‘ کونڈا کر دے، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، اس نے ہائی کورٹ کی ہدایت کو ظالمانہ اور غیر معقول  قرار دے کر للتا کو سر نیم بدلنے ، بلکہ شوہر کو گود لینے اور اس کے باپ کے طور پر دوسرے شوہر کے نام درج کرنے تک کی اجازت دیدی، تاکہ بچہ اس دوسرے خاندان سے اپنے کو الگ نہ سمجھے۔
سماجی طور پر یہ فیصلہ جس قدر بھی قابل قبول ہو ، لیکن بچے کے نسب بدل دینے کی بات تو ہم جیسوں کی سمجھ میں نہیں آتی، ہمارے یہاں کسی بچے کو باپ کے علاوہ دوسرے کسی مرد کو باپ کہا جاتا ہے تو اسے بڑی گالی سمجھی جاتی ہے، اس لیے اسلام نے منہہ بولے بیٹے کو اپنا نام دینے سے منع کیا ہے اور شفقت ومحبت کے با وجود اس گود لیے ہوئے بچے کو ترکہ میں بطور وراثت حصہ دینے کا کوئی تصور نہیں رکھا، البتہ وارثوں کے علاوہ دوسرے کسی کے بارے میں بھی تہائی مال کے بقدر وصیت نافذ العمل ہے، اسی طرحہ وہ اس منہہ بولے بیٹے کے لیے بھی وصیت کر سکتا ہے، پردہ وغیرہ کے احکام اس منہہ بولے بیٹے سے اجنبی مرد کی طرح ہی باقی رہے گا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا پر عمل کے بنیادی حق تسلیم کیے جانے کی وجہ سے مسلمانوں پر نافذ العمل نہیں ہے ، لیکن کب کوئی سرپھرا اس کو نظیر بنا کرواویلا شروع کردے، کہنا مشکل ہے، اس مسئلے پر پہلے بھی کافی بحث ہو چکی ہے، اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام متنبی بل کی وجہ سے ہی عمل میں آیا تھا، جب حمید دلوائی نے متبنی بل کو یکساں سول کوڈ کی طرف بڑھتا قدم قرار دیا تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...