Powered By Blogger

پیر, اکتوبر 17, 2022

مدارس اسلامیہ کاسروےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارس اسلامیہ کاسروے
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مدارس اسلامیہ اور ملی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود اترپردیش حکومت نے آزاد مدارس کے سروے کا کام شروع کردیا ہے ، کام کا آغاز دیوبند کے دار العلوم زکریا سے کیا گیا ہے ، یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے ، کیوں کہ بہت سارے مدارس مغربی یوپی میں ہی واقع ہیں، دیوبند تو مدرسوں کا شہر ہے ، یہ سروے کرنے والے اب دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم اور ندوۃ العلماء تک پہونچ گیے ہیں، یقینا مدارس اسلامیہ جو خدمات انجام دے رہے ہیں، اس میں کہیں بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ہے ، لیکن جانچ کرنے والوں کی نفسیات بھی پولس والوں سے کم نہیں ہوتی، جس طرح پولس والے اگر کسی کی گاڑی کو ہاتھ دے دیں تو کچھ نہ کچھ کمی نکال دیتے ہیں، ویسے ہی جانچ کرنے والی ایجنسیاں غیر ضروری طور پر مدارس والوں کوہراساں کرنے کی کوشش کریں گی، جانچ کا یہ کام بہبودیء اطفال کی منصوبہ بندی کے نام پر کیا جارہا ہے اس لیے مدارس کے طلبہ کے خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی جانچ کے دائرہ میں آئے گا اور سروے کے بعد یہ ممکن ہے کہ بہت سارے مدارس کو اسی حوالہ سے یا تو آسام سرکار کی طرح اترپردیش کی یوگی حکومت بند کردے یا ایسے شرائط لگادے جن کا پورا کرنا چھوٹے مدرسوں والوں کے لیے خصوصاً ممکن نہ ہوسکے ۔
اترپردیش میں اگر یہ سروے بہبودیٔ اطفال کے لیے کیا جارہا ہے تو گروکل، پاٹھ شالے اور دوسرے مذاہب کے اقامتی تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں کرایا جا تا، بلکہ خود سرکاری اسکولوں میں ملنے والے دوپہر کی خوراک کا جائزہ حکومت کیوں نہیں لیتی اور وہاں جو غیر معیاری غذائیں ملتی ہیں کیوں وہ بہبودیء اطفال کے خلاف نہیں ہیں،
حکومت نے مدارس کے سروے کے لئے جو سوالات تیار کیے ہیں، ان میں سوالوں کی تعداد بارہ ہے ، مدرسہ کانام، مدرسہ چلانے والے ادارہ کا نام، مدرسہ کے قیام کا سال، مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا اس کا اپنا مکان ہے ، پینے کے پانی کی سہولت، بیت الخلا کا نظم، بجلی کی سہولت ہے یا نہیں، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، مدرسہ کا نصاب، مدارس کا ذریعہ آمدنی کیا ہے اور وہ مدارس کس تنظیم کے تحت چل رہے ہیں، جہاں تک مدارس کی مالیات کا تعلق ہے پورا ہندوستان اور خود سرکار بھی اس بات کو جانتی ہے کہ مدارس کے ذمہ دار، سفرائ، اساتذہ اور محصلین دوکان دوکان اور گھر گھر جاکر مسلمانوں سے خیرات، زکوٰۃ، صدقات، عطیات وغیرہ کی رقومات حاصل کرتے ہیں، بڑی محنت کے باوجود مدارس کا سالانہ بجٹ پورا نہیں ہوتا اور کئی کئی مرتبہ ان کی تنخواہ باقی رہ جاتی ہے ، پھر موسم بہار رمضان آجاتا ہے ، دوبارہ محنت شروع ہوتی ہے تو اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں، خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی آمدنی کے اعتبار سے طے ہوتا ہے ، مدارس کے ذمہ داران اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اچھا سے اچھا کھلایا جائے ، اچھی طرح ان کی بود و باش ہو، لیکن چھوٹے مدرسوں کے لیے ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا، یہ ویسے ہی ہے ،جیسے ہم اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہیں، کون نہیں چاہتا کہ اپنے بچوں کو اچھی رہائش اور اچھی خوراک فراہم کرائے ، لیکن سارا کچھ آمدنی پر منحصر ہوتا ہے ۔ آمدنی نہ ہو تو گھر میں بھی روٹی چٹنی پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور کبھی فاقہ کشی کی بھی نوبت آتی ہے ، ہر مدرسہ ایک خاندان کی طرح ہے اور اس کا سب کچھ چندے کے ذریعہ آمدنی پر منحصر ہوتاہے ۔ اور یہ نوبت اس حالت میں آتی ہے کہ وہاں پڑھانے والوں کی تنخواہیں یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والوں سے بھی کم ہوتی ہے ، یہاں کے اساتذہ بقدر کفاف روزینہ پر کام کرتے ہیں، ان کی نظر اجرت پر نہیں اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والے اجر پر ہوتی ہے ۔ اور وہ آخرت کی امید پر قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیں، عمومی احوال یہی ہیں، ہوسکتا ہے بعض مدارس کثرت آمدنی کے باوجود طلبہ کی خوراک، اساتذہ کی تنخواہ اور بود وباش کو معیاری نہیں بناتے ہوں، لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوا کرتا ہے ۔
اترپردیش کے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری نے اس سروے کا جواز یہی بتایاتھا کہ اس سروے کے ذریعہ دینی مدارس میں پڑھ رہے بچوں کو دی جانے والی مراعات کی جانچ کی جائے گی اور تحفظ حقوق اطفال کمیشن کے مطلوبہ معیار کو سامنے رکھا جائے گا۔ مطلب صاف ہے جو مدارس اس معیار پر پورا نہیں اتریں گے ۔ ان کے لئے سرکار مصیبتیں کھڑی کرے گی اور غریب مسلمانوں کے جوبچے ان مدارس میں تعلیم پاکر آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے راستے مسدود کردیے جائیں گے ۔ مسلمانوں کا تعلیمی گراف جو پہلے ہی دوسرے مذاہب کے مقابلے انتہائی کم تر ہے ۔ وہ جہالت میں خطرے کے نشان سے نیچے چلاجائے گا، ایسے میں ہمیں سرکار سے تصادم یا تعاون کے نقطہ نظر سے غور کرنا چاہیے ، جو مفید ہو اس کی طرف مدارس والوں کی رہنمائی کی جائے ۔ جو بھی قدم اٹھایا جائے متحد ہوکر اٹھایا جائے ، اگر سب لوگ الگ الگ تجاویز لاکر اس پر عمل کرانا چاہیں گے تو یہ ناممکن سا ہوگا اور ہماری آواز بھی کمزور ہوگی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ بھی اس سلسلے میں کافی فکرمند ہیں، امید کی جاتی ہے کہ ان کی فکرمندی کے نتیجہ میں جلدہی کوئی لائحہ عمل سامنے آئے گا۔ممکن ہے امارت شرعیہ تحفظ مدارس کے عنوان سے کوئی اجلاس بلائے ۔

اتوار, اکتوبر 16, 2022

موت کوئی حادثہ نہیں ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

موت کوئی حادثہ نہیں ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
جامعہ تجوید القرآن میر نگر ارریہ میں ناظم مدرسہ جناب مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی کی نظامت میں مرحوم سبطین احمد کے لیےایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی،مولانا جسیم الدین صاحب حسامی اوراساتذۂ جامعہ وطلبہ کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر کی ایک قیمتی تعداد موجود تھی، مہمان خصوصی کی حیثیت سے جناب حضرت مولانا افتخاراحمد صاحب قاسمی استاد حدیث جامعہ اکل کواں نے اپنے صدارتی بیان میں مجمع کو خطاب کرتے ہوئےیہ کہا ہےکہ؛ مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم سبطین احمد بڑی خوبیوں کے حامل تھے،تعلیمی وملی خدمات میں پیش پیش رہتے، انسان میں کمیاں بھی ہوتی ہیں، مرنے کے بعد کمیوں کا نہیں بلکہ خوبیوں کا ذکر کرنے کا حکم ہے،اپنی خوبیوں سے انسان زندہ رہتا ہے، قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے جو نفع کی چیز ہوتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے، اس دنیا کا یہ اصول ہے کہ پھل دار درخت کو دشمن بھی نہیں اکھیڑتا ہے،اور خاردار درخت کو دوست بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے،مرحوم کم سخن تھے مگر علم وعلماء کے قدردان تھے،یہ ان کے بڑے ہونے کی دلیل ہے،
درحقیقت بڑے لوگ وہی  ہیں جو علم وعلماء کی قدر کرتے ہیں، ایک واقعہ سلطان سبکتگین کا یاد
آگیا ہے، پہلےیہ کوئی بادشاہ نہیں تھا بلکہ بادشاہ کی فوج کا ایک ادنی ملازم رہا ہے، ایک موقع پر ان کے گھر ایک عالم تشریف لائے، انہوں نے بڑی تکریم کی، جب روانگی کا وقت ہوا تو ساتھ ساتھ چلے، چلنے میں چند قدم اس عالم سے آگے نکل گئے تھے، فورا اپنے کو پیچھے کیا، اورچھ قدم پیچھے ہوگئے، اللہ نے اس کے صدقے ان کے چھ نسلوں میں بادشاہت عطا کی، سلطان محمود غزنوی انہیں کی لائق وفائق اولاد ہے،آپ اگر یہ سوچیں اس وقت ہمیں بادشاہت نہیں مل سکتی ہے تو یہ سوچ غلط ہے،اصل بادشاہت تو دلوں پر ہوتی ہے، اس وقت جو دلوں پر حکومت کرتا ہے وہی دراصل بڑا فاتح ،اور ایک عظیم انسان ہے،وہ چپ اور خاموش بھی بیٹھا رہتا ہے مگر وہ بڑا ہے،بقول شاعر 
 ع۰۰۰     یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں 
    پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں 
مرحوم کے والد گرامی قدر جناب پروفیسر الحاج رقیب احمد صاحب اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں، انہیں دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہے اور غم بھی،غم اس بات پر کہ جوان بیٹا باپ کے سامنے فوت ہوگیا ہے، یہ ایک باپ کے لیے صدمہ کی بات ہے، مگر خوشی اس بات پر ہورہی ہے کہ انہیں صبر جمیل نصیب ہوا ہے، ہشاش بشاش ہیں،اپنے چھوٹے بیٹے انجینئر ابوسفیان صاحب اور مرحوم کے اکلوتے بیٹے ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے اہل خانہ کو سنبھالنے کا کام کررہے ہیں، یہ بڑی بات ہے، 
قرآن کریم کا یہی پیغام ہے،خدا تعالی نے صبر کرنے والوں کو بشارت دی ہے،جب کوئی جانی مالی نقصان کا سامنا اہل ایمان کو ہوتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، قرآنی یہ جملہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتا ہے تو دنیا وآخرت کی بھلائیاں اسے نصیب ہوجاتی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون کے دو مطالب لیے جاسکتے ہیں، ایک یہ کہ اے اللہ یہ اولاد کی شکل میں دی ہوئی امانت آپ کی ہی ہے، آپ نے واپس مانگ لیا ہے تو بخوشی ہم اس کو واپس کررہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ہم بھی تیار بیٹھے ہیں، جب بھی بلاوا آئے گا ہم بھی واپس چلے جائیں گے، دوسرا مفہوم یہ کہ اے اللہ! اس مصیبت کی گھڑی میں ہم آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو حکم آپ نے اس موقع پر اہل ایمان کو دیا ہے بسروچشم اسے قبول کرتے ہیں، ہم آپ کی مرضی کے خلاف نہ کچھ کہنے جارہے ہیں اور نہ کچھ کرنے جارہے ہیں، موت ایمان والوں کے لیے کوئی حادثہ نہیں ہےبلکہ ایک تحفہ ہے،جب بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس پر اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
اس دنیا میں خوشی بھی ہے اور غم بھی ہے،زندگی تو اسی کا نام ہے،ترمذی شریف کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جب کسی کا بچہ فوت ہوجاتا ہے،تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی؟ باوجود یہ کہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے،فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نکال لی ہے،پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے نے اس پر کیا کہا ہے؟فرشتے کہتے ہیں؛اس نے آپ کی حمد کی ہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ہے،  اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے میرے بندے کے لئے جنت میں ایک گھر بنادو جس کا نام بیت الحمد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

کٹیہار: برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے 7 افراد کی موت

کٹیہار: برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے 7 افراد کی موت
کٹیہار، 16 اکٹوبر (اردو دنیا نیوز ٧٢)۔ ضلع کے براری بلاک کے تحت مغربی باری نگر پنچایت سے گزرنے والی برنڈی ندی میں کشتی الٹنے سے سات افراد ڈوب گئے۔ جاں بحق ہونے والے تمام افراد دریا کے دوسری جانب دھان کی کٹائی کے بعد اپنے گھروں کو جا رہے تھے کہ اس دوران کشتی دریا کے درمیان میں زیادہ بوجھ کے باعث الٹ گئیمرنے والوں کی شناخت شوقین عالم (06 سال) ولد افتخار عالم، کنتی دیوی (42 سال) شوہر مہیش پاسوان، روبی کماری (19 سال) بنت دنیش پاسوان، ببیتا کماری (19 سال) بنت جگدیش پاسوان، دکھن پاسوان (51 سال) ولد راموتر پاسوان، روچی کماری (16 سال) بنت دکھن پاسوان اور وکاس کمار (14 سال) ولد مہیش پاسوان شامل ہیں۔ تمام مرنے والے مغربی باری نگر پنچایت کے قادر ٹولہ کے رہنے والے ہیں۔ 

مقامی عوامی نمائندے اروند کمار نے بتایا کہ کشتی پر نو افراد سوار تھے۔ جس میں دو نوجوان کسی طرح جان بچا کر بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ 

اروند کمار نے بتایا کہ ہفتہ کو تمام مزدور برنڈی ندی کے اس پار لکشمی پور بہیار میں دھان کاٹنے گئے تھے۔ تین بجے کے قریب نو مزدور مرغیہ کٹائی ہوئی فصل کو کشتی پر لاد کر اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اس دوران کشتی اوور لوڈنگ کے باعث دریائے برنڈی کے درمیان میں ڈوب گئی۔ 
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی بی ڈی او پورن ساہ، سی او للن منڈل، سی آئی مرتیونجے کمار، ایس ایچ او ودھان چندر نے مقامی غوطہ خوروں کی مدد سے تمام لاشوں کو دریا سے باہر نکالا اور مزید کارروائی کی جارہی ہے

مایوس نہ ہوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مایوس نہ ہوں 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 زندگی میں مسائل ، مصائب اور مشکلات آتے رہتے ہیں، ایسے میں انسان گھبرا جاتا ہے ، بے چین ہواٹھتا ہے اور اس پر مایوسی، ناامیدی اور ڈپریشن کا حملہ ہوتا ہے ، یہ حملہ ان مصائب ومشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو خاصہ متاثر کرتا ہے، مصائب کچھ بھی ہو سکتے ہیں، نوکری چھوٹ جائے یا کسی قریبی عزیز کی موت کا غم ، دنیا سے دل اُچاٹ ہوجاتا ہے ، کبھی اپنی گرتی صحت اور دوا علاج سے فائدہ نہیں ہونے کی وجہ سے بھی آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے ،خصوصا اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، حکومتی سطح پر ان کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی جو مہم چل رہی ہے ، اور جس طرح مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں ، اور دس بیس سال کے بعد عدالت ان کو با عزت بری کر رہی ہے، زندگی کے قیمتی مہہ وسال قید وبند میں گذر جاتے ہیں اور باہر آنے کے بعد بھی سماج کی ترچھی نظروں کا ان کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس سے مستقبل کے بارے میں مایوسی اورخوف کا غلبہ ہے، یہ مایوسی آپ کے حال اور مستقبل کو متاثرنہ کرے، اس کے لئے خود کو پُر عزم رکھنا ضروری ہے ، حالات سے گھبرانے کے بجائے حالات سے مقابلہ کی قوت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، گو یہ بہت آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے خود کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہوتا ے ، اور اپنی ذات سے کونسلنگ کرنی ہوتی ہے ، اس کو نسلنگ کا پہلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ فکر مند ہو کر کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے کہ جو کچھ ہوچکا ہم اس کے لوٹا نے پر قادر نہیں ہیں، حالاںکہ آپ ہر ممکن اس خبر کے بُرے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیے تھے اور اس کے نتائج پر بھی آپ کی گہری نظر تھی، لیکن تدبیر کے درجہ میں آپ اس کو رو کنے پر قادر نہیں تھے، اس لیے دل ودماغ میں خوف کو نہیں گُھسنے دیں، بہت سارے کام خوف کی نفسیات سے بگڑجاتے ہیں۔
 ظاہر ہے فکر مند ہونا ایک فطری چیز ہے، لیکن اس فکر مندی میں بھی مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھامے رکھیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ کی رحمت پر ایمان آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے میں انتہائی ممد ومعاون ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہر حالت میں اپنے کو پُر سکون رکھیں، آپ کو پُر سکون رکھنے میں آپ کے خاندان اور قرب وجوار کے لوگوں کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان کے تعاون سے مصیبت کی گھڑی کو سہنے اور اس کے مضر اثرات سے نکلنے کا کام آپ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، جو کچھ ہو گیا اس کو یاد کرکرکے ہلکان اور جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا ہوجائے گا، اس کی حیثیت بسا اوقات وہم سے زیادہ نہیں ہوتی او وہ عموما وقوع پذیر نہیں ہوتا، لیکن ہمارے دل میں جو خوف بیٹھ گیا ہے وہ ہمیں کسی کام کا نہیں رکھتا، میں یہاں مکمل کنفیڈنس خود اعتمادی کی بات نہیں کرتا، کبھی اوور کنفیڈنس (overconfidece)سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، اس لیے منفی احساسات وجذبات اور غیر ضروری خود اعتمادی کے درمیان ایک توازن پیدا کریں، تاکہ یہ توازن آپ کی سوچ اور خیالات کو بھی معتدل کرکے مایوسی کے منفی اثرات سے بچا سکے ۔واقعات ، حوادثات اور معاملات کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کیجئے، کیوں کہ سچ کے ہمیشہ دبے رہنے کی روایت قدیم ہے، ایسے موقع سے اپنے جوش کو بنائے رکھنا بھی ایک بڑا کام ہے، یہ جوش بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ڈر اور خوف کو قریب مت آنے دیں، تنہائی کے بجائے تھوڑا وقت خاندان اور دوستوں کے ساتھ گذاریں، خود کو ضرورت سے زیادہ کام میں مشغول نہ رکھیں، چھٹیوں کے ایام واوقات کو سیر وتفریح میں لگائیں، کچھ وقت بیوی بچوں کو دیں، اس لیے کہ اگر آپ نے مایوسی کا سایہ ان پر ڈالا اور ان کے ساتھ وقت نہیں گذارا تووہ آپ کے بغیر جینا سیکھ جائیں، اس وقت آپ اپنے کو تنہا محسوس کریں گے۔
 مایوسی کے اسباب ووجوہات کا تدارک کیا جائے، اگر یہ حالات آپ کی کسی غلطی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں تو اس سے سیکھ لیں، مانیں کہ آپ سے چوک ہوئی ہے، آپ بھی انسان ہیں، اس لیے غلطی ہوئی ، خیال صرف یہ رکھنا ہے کہ بعد میں اس کا اعادہ نہ ہو، ایسے موقعوں سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس غلطی سے آپ کس قدر سیکھتے ہیں، کسی کام میں عجلت نہ کریں، ہر کام کا آغاز دھیمی رفتار سے کریں ، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی ناکامی سے آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں، اسلام میں تھوڑا کام اور مسلسل کام کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔
 آپ کام کریں گے تو کبھی ناکامی کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، ایسے میں آپ نروس نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، یقینا ناکامی کے اثرات آپ کے دل ودماغ پر پڑیں گے ، لیکن ناکامی کے خوف سے کام کا آغاز نہ کرناانتہائی درجہ کی بزدلی ہے، کام آپ اپنی پسند کامنتخب کریں، اس میں دل لگائیں، اس کی وجہ سے آپ خوشی محسوس کریں گے ، خوشیاں کوئی بڑا کام نہیں کرتئیں، لیکن وہ اداسی کو قریب نہیں کرنے دیتیں، یہ خوشی ہلکی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب چلی جاتی ہے اور پریشانیاں آتی ہیں ، تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھودیا ہے اور وہ کتنی قیمتی شئے تھی، خوشیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ محبت بھی ہے، نفرت کی سودا گری کے اس دور میں خوشیوں کی کاشت آپ کو مایوس ہونے سے بچا بھی لے گی اور اگر آپ مایوس ہیں تو اس کے دور کرنے میں معاون ہوگی، کسی کا بُرا نہ چاہیں اور جو آپ کا بُرا چاہتے ہیں ان کو بھی اپنے عمل سے بتائیںکہ وہ ان کے بھی خیر خواہ ہیں۔
مایوسی کے باوجود موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے، اپنی ہمت اور صلاحیت کو مجتمع کیجیے اور ذہن میں بٹھائیے کہ اگر میں اس میں کامیاب نہ بھی ہوا تو میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ، اس طرح آپ ایک تجربہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، ہو سکتاہے یہ تجربہ ہی آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکال دے ، آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب کچھ ہماری خواہش مرضی اور ضرورت کے مطابق ہو یہ ضروری نہیں؛ لیکن ہم اپنی ناکام خواہشوں کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں، یہ ہمارے بس میں میں ہے، آپ خواہشوں کی تبدیلی کے ساتھ کام کے طریقۂ کار کو بدل کر بھی مایوسی پر ایک ضرب لگا سکتے ہیں۔
مایوسی دور کرنے کے بہت سارے طریقے کتابوں میں درج ہیں، آپ ان کو پڑھ کر برت سکتے ہیں، لیکن برتنے کا یہ کام آپ کو خود ہی کرنا ہوگا، اپنی زندگی کو بے رس اور بے کیف نہ ہونے دیں، مصیبت اور پریشانی کے لمحات میں یاد رکھیں کہ ’’یہ دن بھی گذر جائیں گے‘‘ آپ اپنے حالات کا دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں، اس سے آپ خود احتسابی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس لیے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھیں، اس سوچ کے نتیجے میں آپ کا ذہن اپنی الجھنوں کو خود ہی دور کرنے کے لیے تیار ہوگا، یہ اپنے میں بڑی بات ہے،حالات چاہے جتنے پریشان کن ہوں، ان کا سامنا کرنا آپ ہی کو ہے اورآپ  اپنی صلاحیت ، توانائی اور قوت سے موجودہ حالات سے نکل کر مستقبل کو مفید اور کار آمد بنا سکتے ہیں، آپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے اور مستقبل میں یہ روشن صبح آپ کی زندگی کا حصہ بننے والی ہے ۔

ہفتہ, اکتوبر 15, 2022

عظیم آباد کے فارسی اساتذہ __

عظیم آباد کے فارسی اساتذہ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عظیم آباد کو لوگ عموماً دبستان اردو کے ایک مرکز کی حیثیت سے جانتے اور پہچانتے ہیں، لیکن کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ فارسی زبان و ادب میں ’’سبک ہندی‘‘ کا بھی مضبوط مرکز رہا ہے، یہاں کے فارسی شعراء و ادباء نے فارسی، زبان و ادب کی جو مشاطگی کی ہے، اس سے دنیا واقف ہے، تاریخ ادبیات ایران پر لکھی گئی معتبر کتابوں میں عظیم آباد کی فارسی خدمات کا بڑے وقیع الفاظ میں تذکرہ کیا گیاہے۔
آزاد ہندوستان میں فارسی کا چلن کم ہوا تو اس کے پڑھنے والے بھی کم ہوتے چلے گئے، کم کا مطلب ختم ہونا نہیں ہوتا ہے۔ اب بھی یونیورسیٹیوں میں فارسی پڑھائی جاتی ہے، لڑکوں کی تعداد اس شعبہ میں کم ہوتی ہے، لیکن شعبہ جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فارسی پڑھانے والے اساتذہ بھی موجود ہیں  ماضی میں عظیم آباد کے فارسی اساتذہ کی بڑی آن بان شان تھی اور ان میں سے بہت ساروں کی حیثیت آفتاب و مہتاب کی رہی ہے۔
فارسی زبان و ادب سے عدم دلچسپی اور معاشی میدان میں کساد بازاری کے باوجود بعض اہل علم، فارسی زبان و ادب کی شمع تدریسی اور تحریری طور پر روشن کیے ہوئے ہیں، ان میں ایک نام ڈاکٹر محمد رضوان اللہ آروی (ولادت ۱۲؍مئی ۱۹۵۹ئ؁) بن حافظ بشیر احمد مرحوم پروفیسر و صدر شعبہ اردو فارسی جین کالج آرہ بہار کاہے، جن کی تحقیق اور نثرنگاری میں امتیاز کے اہل علم و ادب قائل ہیں، انکی آٹھ کتابیں ناول امراؤ جان ادا از مرزا ہادی رسوا کا تنقیدی مطالعہ مقدمہ و متن، ختم سفر کے بعد (سفرنامہ) بازیافت (مجموعہ ٔ مضامین)بہار کی فارسی شاعری کے فروغ میں شعراء پھلواری کا حصہ (تذکرۂ شعرائ) متاع قلیل (مجموعۃ مضامین) چند کتابیں چندخیال و تاثرات و تبصرے، چراغوں کا دھواں (رپور تاثر) لفظ و معانی(مقالات ادبیات فارسی) خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انہوں نے حجۃ العارفین سلسلہ ابو العلائیہ کے قدیم ترین تذکرہ اور  مکتوبات حسنیہ و ملفوظات حضرت مخدوم شاہ حسن علی قدس سرہ کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی شامل ہے، آخر الذکر پر میں نے پی ایچ ڈی کے لیے ایڈیشن ورک کیا تھا اور اس کا اردو ترجمہ بھی مکمل ہو گیا تھا، میرے گائیڈ پروفیسر متین احمد صبا بہار یونیورسٹی مظفرپور تھے۔ ان کے مرنے کے بعد میرا سارا کام ان کے یہاں ہی رہی گیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ ضائع ہوگیا۔ میں ساری محنت کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری سے محروم رہا، اس کا غم اس قدر نہیں ہے، جتنا اس علمی سرمایے کے ضائع ہونے کا ہے، بات نکل آئی تو درد چھلک آیا۔
ڈاکٹر رضوان اللہ صاحب ان دنوں روضۂ رضوان(مجموعہ مقالات در نقد پثروہش متون ادب فارسی) اور مکتوبات حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد منیری کا فارسی سے اردو ترجمہ کرنے میں مشغول ہیں اور اس کو انہوں نے اشارات کا نام دیا ہے۔
عظیم آباد کے فارسی اساتذہ نامی کتاب کے صفحات دو سو ساٹھ ہیں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی اس معیاری کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے رکھی گئی ہے، جو اس خوبصورت دیدہ زیب، طباعت سیٹنگ وغیرہ کے اعتبار سے ممتاز کتاب کے لئے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ ٹائٹل پر اساتذہ فارسی کی تصویر دیکھ کر کتاب کا قاری ان اساتذہ کے حوالہ سے بھولی بسری یادوں میں کھوجاتا ہے۔ کتاب کا انتساب ہم سر غم گسار نکہت آرا کے نام ہے، جو ان کی نصف اول ہی ہوںگی، زمانہ بھر کے دکھوں کو دل سے لگالینے کا حوصلہ اسی آسرے پر ملتا ہے کہ کوئی غم گسار ہے اور وہ ماں کے بعد اہلیہ ہی ہوتی ہے۔
کتاب کا آغاز ’’انہی کے دم سے فروزاں تھے ملتوں کے چراغ ‘‘سے ہوتا ہے، جو مصنف کے قلم سے ہے، عنوان اس قدر پیارا ہے کہ طبیعت پڑھنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اس میں مصنف نے کتاب کے وجود میں آنے کے اسباب اور مندرجات کے دروبست پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، یہ تفصیل بھی ساڑھے تین صفحات میں سمٹ گئی ہے، دریا کو کوزے میں بند کرنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
کتاب میں فارسی کے دس نامور اساتذہ کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے، یہ دس اساتذہ پروفیسر سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی، پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر سید حسن ، پروفیسر فیاض الدین حیدر، پروفیسر خواجہ افضل امام، پروفیسر سید علی حیدر نیر، پروفیسر محمد صدیق، ڈاکٹر سید اطہر شیر، پروفیسر انوار احمد، پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری ہیں جن کی خدمات فارسی زبان و ادب کے حوالہ سے اس کتاب میں مرقوم ہے۔ ان میں بعض وہ ہیں جن سے میری ملاقات تھی اور بعض سے استفادہ کا بھی موقع ملاتھا۔ پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری میرے ضلع کے تھے اور میں نے ان کے تحقیقی مقالہ سید قاسم حاجی پوری سے تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی کی ترتیب کے وقت بہت فائدہ اٹھایا تھا، بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ کی تصنیف کے وقت ان میں سے کئی اساتذہ سے انٹرویو بھی لیا تھا اور ان سے حاصل معلومات کو اپنی کتاب کا جز بنایا تھا، پروفیسر اقبال حسین کو خود نوشت’’داستاں میری‘‘ بھی بڑے ذوق و شوق سے میرے مطالعہ میں رہی تھی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی کی اس کتاب کو پڑھتے وقت میں ماضی میں ڈوبتا چلاگیا، کیسے کیسے لوگ تھے، جن کو زمین کھاگئی، زبان و ادب اور تحقیق و تنقید کا کیسا جذبہ ان اساتذہ میں تھے۔ مس خام کو کندن بنانے کا فن کس قدر ان کے پاس تھا، اپنے شاگردوں سے کس قدر وہ لوگ محبت کرتے تھے ماضی سے حال اور پھر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتاہوں تو تاریکی کا ایک جالہ سا نظر آتا ہے۔ تاریکی اور صرف تاریکی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی نے لکھا ہے اور بجالکھا ہے’’یہ احساس بھی ستم زا ہے کہ الماس و گہر کی مانند، اساتذہ کے ان فرمودات و ارشادات کو مادہ پرستی کے اس دور میں ہم کہاں لے کر آئے ہیں، جب دوائے دل بیچنے والے اپنی دکان بڑھا چکے ہیں اور جوہری بازار سخن بند کر چکے ہیں‘‘ یقینا حال مایوس کن ہے، لیکن ہم ایمان والے دور افق میں روشنی کی ہلکی سی لکیر دیکھتے ہیں، یہ لکیریں پھیلیں گی تو علم و فن کی دنیا پھر سے روشن ہوگی۔
میں اس اہم کتاب کو علمی دنیا میں ایک اضافہ سمجھتا ہوں اور مصنف کو مبارکباد دیتاہوں کہ قینچی اور پیسٹنگ کے اس دورمیں آپ نے پتہ پانی کرکے تحقیق کے معیار و وقار کو بچالیا ہے، اور نئی نسل کو روشنی دکھانے کا کام کیا ہے کہ تذکرہ و تحقیق کو کس طرح شیر و شکر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نثر اس قدر شستہ اور اسلوب اس قدر پاکیزہ ہے کہ کتاب اٹھانے کے مطالعہ مکمل ہوئے بغیر رکھنے کو جی نہیں چاہتا، اگر آپ دوسرے تقاضے سے اٹھ گئے تو بھی دل کتاب کی طرف لگا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی آپ اس کے بعد مطالعہ میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس تبصرہ کو پڑھ کر کتاب پڑھنے کی خواہش جاگ گئی ہو تو بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ-۴ سے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔

جمعہ, اکتوبر 14, 2022

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نوجوان عالم دین، آیوش میں برسرکار کامیاب طبیب، اچھے اناؤنسر، بہترین مقرر، قابل ذکر شاعر مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ علیگ بن علامہ محمد عثمان (م۲۰۰۵) بن حافظ حبیب اللہ بن حافظ غریب اللہ یکم ستمبر ۲۰۲۲ئ؁ شب جمعہ ساڑھے آٹھ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جمعرات کو ساڑھے تین بجے سہ پہر سلطان گنج بھاگلپور ہوسپٹل سے لوٹ رہے تھے، ماچھی پور کے پاس ٹمپو کی ٹکر ہوئی آپ آگے بیٹھے ہوئے تھے، زخمی ہوئے، پیشاب کے راستے سے خون آنا شروع ہوا، یکے بعد دیگرے ایک ہوسپٹل دوسرے ہوسپٹل کو ریفر کرتا رہا، بالآخر سی ان ان ہوسپٹل میں بھرتی ہوئے، معلوم ہواکہ جو وقت مقررہ اللہ کی طرف سے تھا، وہ آگیا پھر چارۂ کار ہی کیا تھا، جنازہ بھاگل پور سے ان کے آبائی گاؤں ملنگا چک پتھنہ لایا گیا۔ جنازہ کی نماز دوسرے دن ان کے بہنوئی مولانا کلام الدین ندوی انچارج مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ندوۃ العلماء لکھنؤنے پڑھائی، سوگواروں کی بھیڑ اس قدر تھی کہ پتھنہ کی عید گاہ ناکافی ہوگئی تو گرہوتیا کے اسکول میدان میں بعد نماز عصرجنازہ کی نماز ہوئی اور پتھنہ کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، لاولد تھے، پس ماندگان میںاہلیہ ہیں جو خود بھی بی یو ایم ایس ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر محمد سلیمان صاحب برہ پور بھاگل پور کی صاحب زادی ہیں ان کے علاوہ حقیقی اور علاتی ملاکر کل چھ بھائی اور پانچ بہن ہیں، مولاناــ‘ علامہ محمد عثمانؒ کی محل اولیٰ سے تھے،ان کی نانی ہال صالح پور بھاگل پورتھی اور ان کے نانا کا نام عبد الرشید تھا۔
مولانا محمد حسان ندوی علیگ کی پیدائش ۱۰؍دسمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو ان کے آبائی محلہ ملنگا چک مقام و ڈاک خانہ پتھنہ، تھانہ گوراڈیہہ، ضلع بھاگلپور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور تکیہ رائے بریلی گئے اور وہاں ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کی، عا  لمیت کی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور ۱۹۹۱ئ؁ میں فراغت حاصل کی، ندوۃ کے دوران قیام وہ درسی مصروفیات کے ساتھ بزم خطابت اور بزم سلیمانی میں بھی پابندی سے حصہ لیا کرتے تھے اور انعامات کے مستحق قرار پاتے تھے، دوسال کے وقفہ کے بعد انہوں نے علی گڑھ کا رخ کیا اور ۱۹۹۴ئ؁ میں بی یو ایم ایس میں داخلہ لیایہاں ان کا قیام حبیب ہوسٹل میں تھا انہوں نے رسالہ الحبیب کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے، اس زمانہ میں ان کایہ جملہ بہت مشہور ہواتھا کہ ’’علی گڑھ برادری ہوش و خرد کے ساتھ علاقائیت و عصبیت، رنگ و نسل اور ذات برادری کے سارے عفریتوں کا گلا گھونٹ کر ’’پیام سید‘‘ کو لے کر’’ شان سید‘‘ کے ساتھ اٹھے‘‘۲۰۰۲؁ء میں تکمیل طب اور انٹرنس شپ کرنے کے بعد وطن لوٹ آئے۔ ۲۰۰۸ئ؁ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، کمی نہ ان کے اندر تھی اور نہ اہلیہ میں، دو بچے ضائع ہوگئے پھر انہیں بچوں کی خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔
مولانا مرحوم کو تقریر و خطابت کا ملکہ وراثت میں ملاتھا، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ اپنے وقت کے نامور خطیب تھے۔ مولانا نے خطابت کو مؤثر بنانے کے اسرار و رموز اپنے والد سے سیکھا اور اس میں بڑی حدتک وہ کامیاب تھے، وہ اچھے اناؤنسر بھی تھے، ۲۰۰۸ئ؁ میں جب میں مدرسہ اعزازیہ پتھنہ کے جلسے میں شریک ہوا تھا تو ان کی اناؤنسری دیکھ کر حیرت زدہ رہا کہ اس نوجوان کو اللہ نے کس قدرطلاقت لسانی دی ہے، ان کی تحریری صلاحیت بھی اچھی تھی، شاعری غضب کی کرتے تھے، میں نے ان کا لکھامرثیہ جو انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع پر لکھا تھاان کی زبانی سنا تھا۔ جس کا ایک شعر تھا  ؎
پاسبان قوم تھا وہ وقت کا زندہ دلی :خانقا ہی پیر و مرشد زیبِ سجادہ نشین
ان کی غزل کا ایک شعر بھی یاد آگیا   ؎
دست نازک میں بھی حسان آگیے تیر و تفنگ
آئے ان ہاتھوں میں پیمانہ اب ممکن نہیں
مولانا سے میری ملاقات دود ہائی کو محیط تھی، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ کی عیادت اور تعزیت کے لیے میری حاضری ان کے گھر ہوئی تھی، میں نے علامہ کے انتقال پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو انہوں نے پسند کیا تھا، بھاگل پور کی طرف کا جب بھی میرا رخ ہوتا اور دونوں کے وقت میں گنجائش ہوتی تو ملاقات کی شکل بن جاتی ورنہ فون پر بھی گفتگو ہوجایا کرتی۔
مولانا نے شادی کے بعد ۲۰۱۰ئ؁ میں آیوش جوائن کرلیا، ابھی جب نئی و یکنسی آئی تھی اور اس کے لیے کونسلنگ ہوئی تھی تو مولانا پُرامید تھے کہ ان کی مستقل تقرری آیوش میںہوجائے گی، یہ یقین اس لیے ان کو تھاکہ سرکار نے ۲۵؍نمبر عارضی بحالی والوں کو اضافی دینے کا اعلان کیا تھا،  نئے لوگ اس نمبر کو حاصل نہیں کرسکتے تھے، اس لیے عارضی بحالی والوں کے استقلال میںکوئی چیز مانع نہیں تھی۔
مولانامزاجاً انتہائی شریف، صالح،باوقار، ذہانت وفطانت میں ممتاز انسان تھے ان کی خوش دلی، خوش خلقی اور ضیافت کے ان کے مخالفین بھی قائل تھے۔ اس کم عمری میں ان کا دنیا کو الوداع کہنا ان کے متعلقین، مخلصین اور احباب کے لیے انتہائی افسوسناک ؛بلکہ جان کاہ خبر ہے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور سب کو صبر عطا فرمائے آمین۔ حقیقت یہ ہے کہ
مصائب اور تھے پر’’اس‘‘ کا جانا
عجیب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

جمعرات, اکتوبر 13, 2022

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد فریدی پور دوبگا لکھنؤ

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد
فریدی پور دوبگا لکھنؤ
اردو دنیا نیوز ٧٢
منظور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام گزشتہ جمعرات  بتاریخ  6اکتوبر 2022 کو دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلّم واصلاح معاشرہ  کا انعقاد ہوا جس کی صدارت  حاجی اعجاز  چاندی والے ضحیٰ جویلرس چوک لکھنؤ نے کی سرپرستی حضرت مولانا محمد رحمتہ اللہ نوری صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ نورالعلوم کلیان پور لکھنؤ نے کی
اور نظامت  قاری سید شاہ فیصل نے کی  قاری رستم اقبال کی تلاوت سے جلسے کا آغاز ہوا  مقرر شیریں بیاں حضرت مولانا شبلی قاسمی صاحب بہرائچی   نے  اصلاح معاشرے پر عوام کے سامنے اپنی کچھ بات رکھی اور حضرت مولانا  کفیل اشرف ازہری  لکھنوی  کی دعا پر جلسے  کا  اختتام ہوا
مہمان خصوصی کے طور پر
مفتی احتشام اختر ندوی ،حافظ  شمیم اختر ،قاری اختر  صاحب، پارسد محمد شاکر  عرف بادشاہ غازی ،قاری اخلاق ،مولانا سعد ندوی،  قاری یونس ،بھائی مشیر ، طبھائی شبیر، محمد یامین،  محمد عمران، محمد سلیم ،محمد یاسین، محمد شکیل ،حافظ عبداللہ،  عزیزم  ولی اللہ نوری ،
اسی طرح  منتظمین  میں رہے،
حافظ سید محمد وصی، ڈاکٹر روح الہدی ، محمد اشتیاق ، محمد ممتاز ،
کنوینر  حافظ محمد  سرتاج ہاشمی مہتمم مدرسہ ہٰذا  نے سبھی کا شکریہ ادا کیا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...