Powered By Blogger

ہفتہ, اکتوبر 29, 2022

مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت___
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مکتوب اور مراسلہ نگاری کا رواج زمانۂ قدیم سے رہا ہے، عراق میں کھدائی کے دوران Tel Alsamarna کے مقام پرتین سومٹی کی تختیاں ملیں۔ آثار قدیمہ والوں نے اسے فراعنہ، مصر کے نام لکھے خطوط قرار دیا، یہ خط تین ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ملکۂ صبا یمن کے نام خطوط کا ذکر ہے۔ یقینی طور پر ہم اسے معلوم تاریخ کا پہلا خط مانتے ہیں۔بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یونان میں خط لکھنے کا رواج حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بھی موجود تھا۔ رومن کے شاعر سیسرو (Sissroo) کے مکاتب کا بھی لاطینی زبان میں پتہ چلتا ہے۔ اسی دور میں ہیورلیس(Hurales) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلا منظوم خط لکھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد کے بعض حواریین کے خطوط بھی یونانی زبان میں ملتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی مکتوب نگاری کا فن موجود تھا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلاطین کے نام خطوط جو دعوتی نقطۂ نظر سے لکھے گئے عربی مکتوب نگاری کی بہترین مثال ہیں، حضرت عمرؓ کے مکاتیب گورنروں کے نام اور حضرت علیؓ کے بعض مکاتیب جونہج البلاغۃ میں شامل ہیں، عربی خطوط نگاری کے ترقی پذیر نمونے ہیں۔
فارسی زبان میں مکتوب نگاری کی بات کریں تو سامانی بادشاہ نوشیرواں کے خطوط کا مجموعہ’’ توقیعات نوشیرواں‘‘ اور مولانا جامی کے خطوط کا مجموعہ رقعات جامی اس کے علاوہ رقعات عالمگیری مشہور و مقبول ہے۔ اس فن کی ترقی کا بڑا سبب ’’دارالانشائ‘‘ کا قیام اور ایرانی حکمرانوں کے ذریعہ اس کام کے لئے منشی یا دبیر کے عہدے تھے۔ جن کا کام حکمرانوں کے احکام و ہدایات کو لکھ کر متعلقہ شخصیات تک بھجوانا ہوا کرتا تھا۔
ہندوستان میں فارسی مکتوب نگاری نے صوفیاء کرام کے ذریعہ رواج پایا، اس کا بہترین نمونہ مکتوبات مجدد الف ثانی اور حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری کی مکتوبات صدی اور مکتوبات دو صدی ہے جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، چک مجاہد ویشالی واقع دادا پیر شاہ عماد الدین باطن کے پیر و مرشد سید شاہ حسن علی منعمی کے خطوط کابھی فارسی زبان کے مکتوبات میں ایک مقام ہے۔ اس مجموعہ میں کئی خطوط شاہ عماد الدین باطن کے نام ہیں اور میں نے پی اچ ڈی کامقالہ اسی پر لکھا تھا اور اس کا ایڈیشن ورک بھی کیا تھا۔ فارسی زبان میں ابو الفضل کے مکتوبات کی بھی اہمیت رہی ہے اور اس کے کچھ خطوط یونیورسیٹیوں میں فارسی نصاب کا حصہ رہے ہیں۔
 فارسی میں مکتوب نگاری کی مقبولیت کی وجہ سے مکتوب نگاری کے فن پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں، ان میں منیر لاہوری کی انشائے منیری، چندر بھان برہمن کی چہار چمن اور مادھوراؤ کی انشاء مادھوراؤ کا خاص طور سے ذکر کیا جاسکتا ہے۔
انگریزی میں جیم ہال (Jame Hall) کے مکتوب کو پہلا نمونہ قرار دیا جاتا ہےFerry Queen اور Kids, Charles Lane, Edmand Spencer اور Shallyمختلف ادوار میں انگریزی مکتوب نگاری کے لئے جانے جاتے رہے ہیں، ایک نامBrownyکابھی ہے، جس کے مکتوب کو انگریزی میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز فورٹ ولیم کالج سے قبل ہوچکا تھا، عموماً رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو پہلا مکتوب نگار قرار دیا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر عبد اللطیف اعظمی، گیان چند جین اور عنوان چشتی نے 6 دسمبر 1822ء کو حسام الملک بہادر کے اس مکتوب کو پہلا قرار دیا ہے جو انہوں نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام لکھا تھا۔ حسام الملک کرناٹک کے آرکاٹ کے رہنے والے تھے اور نواب والا جاہ کے چھوٹے صاحبزادہ تھے۔خلیق انجم نے جان طپش اور راسخ عظیم آبادی کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے جان طپش 1814ء میں اور راسخ عظیم آبادی نے 1822ء میں دنیا سے رخت سفر باندھا، گارساں دتاسی نے اردو کے اٹھارہ خطوط کو جمع کیا، جن میں قدیم خط 1810ء کا ہے۔شعری مکتوبات کا رخ کریں تو شیر محمد خاں ایمان کی کلیات میںمنظوم خط 1806ء میںشائع ہوا، ان سے بہت پہلے 1861ء میں مرزا یار علی بیگ سرور اور میر ابراہیم حیوان کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط ملتے ہیں، اس طرح اب بھی یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ اردو کا پہلا خط کس نے لکھا، کس کو لکھا اور مکتوب کے مندرجات کیا تھے۔ان امور سے قطع نظر دیکھیں تو غالب نے اسے فن بنادیا، ان کے مجموعے عود ہندی، اردوئے معلی، مکاتیبِ غالب، مہر غالب میں ان کے مکتوب نگاری کے فن کو دیکھا جا سکتا ہے۔
 غالب کے بعد جو مکاتیب کے مجموعے شائع ہوئے ان میں مکاتیب سرسید، مکاتیب حالی، مکاتیب شبلی، مرزا رجب علی بیگ سرور کا انشائے سرور، صفیہ اختر کے خطوط زیر لب، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے ’’مکاتیب سجاد‘‘ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے ’’مکتوبات ماجدی‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر میں مکتوب نگاری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناش کرایا، ادب عالیہ کے طور پر ان مکاتیب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ان کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کے دوسرے مجموعۂ مکاتیب بھی ہیں، جن میں مکاتیب ابو الکلام آزاد، نقشِ آزاد اور کاروان خیال کا ذکر آتا ہے، ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی ’’مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ بھی اس موضوع پر پیش بہا اضافہ ہیں، جن میں درجنوں ادباء کے خطوط شامل ہیں۔ قاضی جلال ہری پوری کے مکاتیب کا مجموعہ، آئینۂ خیال، اس کے علاوہ ’’اوراق جاوداں‘‘ جواہر لال نہرو کے خطوط بیٹی کے نام، بہادر یار جنگ کے خطوط مشاہیر کے نام ، مولانا مناظر احسن گیلانی کا مجموعہ مکاتیب گیلانی مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒ اور خود امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی  ؒکے خطوط کی چار جلدیں مسمی’’ مکتوبات رحمانی‘‘ اور ڈاکٹر امام اعظم کے نام خطوط کا مجموعہ چٹھی آئی ہے بھی مکتوب اور مراسلہ نگاری کی ترقی پذیر شکل ہے۔
 جاں نثار اختر کے صفیہ کے نام لکھے گئے خالص رومانی خطوط کوبھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ خطوط چاہے کسی زبان میں لکھے گئے ہوں، ان کے اقسام تقریباً یکساں ہوتے ہیں، نجی خطوط، سرکاری خطوط، رسمی خطوط، عمومی خطوط وغیرہ۔ خطوط کے سارے اقسام ان میں سما جاتے ہیں، البتہ ان خطوط کے لکھنے کے طریقے موضوعاتی اور زبان کے اعتبار سے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ان تمام حالات و ادوار سے گزر کر جب مکتوب نگاری ہمارے عہد میں پہونچی تو ہم جیسوں کے خطوط بھی ’’آدھی ملاقات‘‘ اور دوسروں کے بھیجے ہوئے خطوط’’ نامے میرے نام ‘‘اور انوار الحسن وسطوی کے اخباری مراسلے بھی سامنے آئے جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں

جمعہ, اکتوبر 28, 2022

ڈاکٹر احسان عالمپرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں: ایک تاثر

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں: ایک تاثر
(عبدالرحیم برہولیاوی کی عمدہ ترتیب)
اردو دنیا نیوز٧٢
 عبدالرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین دربھنگہ ضلع میں واقع ایک گاؤں برہولیا کے رہنے والے ہیں۔ فی الحال وہ معہد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی (بہار) میں درس و تدریس انجام دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی مسجد پرانی بازار، سرائے، ویشالی میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ کافی ملنسار اور مخلص انسان ہیں۔ انہوں نے ”مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں“ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ 72صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 36شعرا کے اشعار رقم کئے گئے ہیں جو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور فن پرروشنی ڈالتے ہیں۔اس طرح عبدالرحیم برہولیاوی کی یہ ترتیب کردہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔  
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ولادت ویشالی ضلع کے ایک گاؤں حسن پور میں 17نومبر 1958کوہوئی۔ مفتی صاحب نے اسلامی اور دینی تعلیم بڑی دلجمعی کے ساتھ حاصل کی۔ ان کی گھریلو ترتیب نے انہیں تصنع اور بے کار مشاغل سے دور رکھا۔ صرف مطالعہ ہی ان کا مشغلہ بن کر رہ گیا۔ نصابی اور درسی کتابوں کے علاوہ وہ معاون کتابوں کو بھی بڑی توجہ سے پڑھتے۔ مطالعہ کی کثرت نے ان کے ذہن و دماغ کو علوم متداولہ اور اس کی جزائیات سے مزین کر دیا۔ 
 ”اپنی بات“ کے عنوان سے کتاب کے مرتب عبدالرحیم لکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے ممتاز علماء، ادباء، ناقدین، تجزیہ نگاروں اور زبان وادب کے رمز شناسوں میں ایک نمایاں نام نائب ناظم امارت شریعہ، بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا ہے جو لوگوں کے درمیان محتاج تعارف نہیں ہیں۔ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوان ناقد و شاعر کامران غنی صبا لکھتے ہیں:
”مفتی صاحب کی شخصیت کا اختصاص ان کا متوازن طرز عمل اور طرز اظہار ہے۔ گفتگو کی طرح ان کی شخصیت میں بھی ٹھہراؤ ہے، سنجیدگی ہے، متانت ہے۔ وہ ایک طرف تعلق اور رواداری کا بھی خیال رکھتے ہیں، دوسری طرف معروضیت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ وہ تعلق نبھانے کے لیے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے کی مصلحت کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی رائے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔“(ص:9)
 معرو ف ادیب و شاعر ڈاکٹر عطا عابدی ”دو باتیں“ کے عنوان سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر لکھتے ہیں:
”مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ہمہ جہت خدمات کے سبب دینی، ملی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں میں خاصے معروف ہیں، منصبی ذمہ داریوں کے علاوہ مختلف سماجی و علمی امور و موضوعات کے مطالعے، اس کے بعد غور و فکر اور اس غور و فکر کے حاصل کو تحریر و تقریر کی وساطت سے دور دور تک پہنچانے کا سلسلہ ان کے تبلیغی و تحریکی مزاج کا ثبوت تو ہے ہی، کام کے تئیں ان کی محنت و محبت کا آئینہ دار بھی ہے۔“(ص:11)
 کتاب میں سب سے پہلا منظوم تاثرات محمد انوارالحق داؤد قاسمی کا ہے۔ ”منظوم سوانح حیات“کے عنوان سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
آبروئے وطن، صاحبِ فکر وفن
ہیں ”ثناء الہدیٰ“ خود میں اک انجمن
خوبصورت ”حسن پور“ کی سرزمیں 
ابنِ نورالہدیٰ ہیں یہیں کے مکیں 
ہے ”ہدیٰ فیملی“ اس میں جلوہ نشیں 
جس کی موجودگی سے ہے بستی حسیں 
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت شش جہات ہے۔ تالیف و ترتیب میں بے مثال ہیں۔ صحافت میں مہارت رکھتے ہیں۔ ادارت سے بھی وابستگی رہی ہے۔ کامیاب محقق ہیں۔ موصوف کی ان خوبیوں کا اجاگر کرتے ہوئے مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی اپنے شعری اظہار میں کہتے ہیں:
لائق صد ستائش، ثناء الہدیٰ
میرِ بزم ادب ہیں، ثناء الہدیٰ
وہ محدث، محقق، سخنور بھی ہیں 
مرکز علم و فن ہیں، ثناء الہدیٰ
ان کی تصنیف ہر فن میں موجود ہے
ہیں سبھی فن میں ماہر، ثناء الہدیٰ
 حسن نواب حسن(مرحوم) مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی خوبیوں سے متاثر ہوکر کہتے ہیں:
یہ ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
ان کو سننا بھی پڑھنا بھی ہے لازمی
دین و مذہب کے ساتھ ادب کے امیں 
ایسا جلدی ملے گا کہاں آدمی
 عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
علم و دانش کا اک معتبر آستاں ہیں ثناء الہدیٰ
جن کے دامن میں تقویٰ کا توشہ گراں ہیں ثناء الہدیٰ
گر ہیں پابند دیں آپ اعمال و اقوال و کردار میں 
اپنے افکار میں شرع کے ترجماں ہیں ثناء الہدیٰ
دعوتِ دیں کا بھی فرض پورا جو کرتے ہیں موصوف گر
فن افتا کے اک ماہرِنکتہ داں ہیں ثناء الہدیٰ
 کامران غنی صبا (اسسٹنٹ پروفیسر، نتیشور سنگھ کالج، مظفرپور) اپنے خیالات و جذبات کا اظہار اشعار میں اس طرح کرتے ہیں:
ہیں علم شریعت کے وہ رازداں 
خموشی میں جن کی نہاں داستاں 
وہ ہیں عالمِ باعمل بالیقیں 
جنہیں کہئے اسلاف کا جانشیں 
مفکر، مدبر کہ دانشوراں 
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں 
 ڈاکٹر منصور خوشتر (ایڈیٹر، سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائز“ دربھنگہ) اپنے خیالات کی ترجمانی ان اشعار کے ذریعہ کرتے ہیں:
علم دیں کا ایک باغ پُر بہار
ہیں وہ مولانا ثناء عالی وقار
عالمانہ بردباری ان میں ہے
ہے طبیعت میں بڑا ہی انکسار
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تین جہتیں ہیں، اسلامی، ادبی، تعلیمی اور تدریسی۔ اس لیے ان کے مقالے اور مضامین بھی تین نوعیتوں کے ہیں۔ ان کی ان خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے احمد حسین قاسمی لکھتے ہیں:
تو ہمارے درمیاں اہل ادب کی آبرو
تیرے قرطاس و قلم رہتے ہیں ہر دم باوضو
دین و شریعت کی حفاظت کا تو اک سامان ہے
ملت بیضاء کی خاطر وقت تیری جان ہے
 منصور قاسمی، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی ذات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے شعری پیرائے میں بیان کرتے ہیں:
ظلمتِ شب بھی جن سے منور ہوئی
گمشدہ راہ گیروں کو منزل ملی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدیٰ
رب نے بخشا ہے دیدہ وری آگہی
 زماں برداہوی ایک اچھے شاعر تھے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوکر قارئین کے درمیان مقبول ہوئے۔ انہوں نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی شان میں اپنے اشعار کہے ہیں۔ دو اشعار ملاحظہ ہو:
ایک عالم باعمل دینِ متیں کا پاسباں 
وہ بصیرت عالمانہ کا ہوا اک آسماں 
دین کا پابند ہے اعمال میں، افکار میں 
لغزشوں سے پاک رہتا ہے سدا کردار میں 
 ڈاکٹر امام اعظم (ریجنل ڈائرکٹر، ریجنل سنٹر کولکاتا) اپنی چھوٹی بحر کی ایک نظم میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
بحر و بر کی گہرائی
یہ پتہ تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
بس کرم خدا کا ہے
مفتی قاسمی صاحب!
 وقیع منظر آسنسول اپنے اشعارکے ذریعے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا استقبال اس طرح کرتے ہیں:
نظریں بچھائے بیٹھے تھے آمد پہ آپ کی
منظور چشم و دل ہوئی تشریف آوری
مفتی بھی، قاسمی بھی، ثناء الہدیٰ کی ذات
خوش آمدید آپ کو کہتے ہیں ہم سبھی
 اما ن ذخیروی اردو شعر وادب کا ایک نمایاں نام ہے۔ انہوں نے کئی شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے فکر و فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں 
اس غم سے سر گراں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
 اس طرح مختلف شعرا حضرات نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ادبی و دینی خدمات پر اپنے عمدہ منظوم خیالات کا اظہار کیا ہے۔ موصوف علمی وادبی دنیا کی اہم شخصیت ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر بہار کی علمی وادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ بہار کے نثر نگاروں، عالموں اور محققوں میں ان کا نام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ 
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga - 846004

جمعرات, اکتوبر 27, 2022

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز
میرے بچے نیک ہیں اور کوئی غلط کام نہیں کرتے ہیں،میری اہلیہ پڑھی لکھی ہے،روزانہ بچوں کواپنی قسم دیکر اسکول روانہ کرتی ہے،ایک صاحب نے اپنی بیگم اور بچوں کی تعریف یوں مجھ ناچیز سےفرمائی یے،
یہ واقعی خوشی کی بات ہے،خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں تربیت کرنے والی ماں ہاتھ آئی ہے،کہتے ہیں کہ ہرشخصیت کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتا ہے،مگران تمام حقائق کے باوجود یہاں دوباتوں کی وضاحت از حد ضروری ہے۔
پہلی بات اپنی قسم دینے سے متعلق ہے،ایک ماں جو روز اپنے بچوں کو اپنی قسم دے رہی ہےگویا اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ قسم یوں بھی کھائی جاسکتی ہے،جبکہ شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش نہیں ،آج مسلم انٹلیکچول طبقہ کا حال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی قسم کھاتا ہے، تو بیوی اپنے شوہر سے کے سر کی قسم کھاتی ہے،مائی باپ کی قسم توعام سی بات ہے۔پڑھے لکھے لوگ بھی شوق سے کھاتے ہیں،جبکہ اللہ کے علاوہ کسی اور کسی قسم کھانے کی اجازت نہیں ہے، ایک موقع پر امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی قسم کھائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پریہ ارشاد فرمایا کہ، یہ بات اچھی طرح سن لو !  اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا ہے،جسے قسم کھانی ہے وہ اللہ کی کھائے یا خاموش رہے (بخاری ومسلم) 
دوسری بات روزانہ کی یہ قسم جو بچوں کے سامنے کھائی جارہی ہے، یہ بلاضرورت  ہے، 
قسم تومجبوری میں کھائی جاتی ہے، یہ تو کوئی شوقیہ چیز نہیں ہے، یہ بھی غیر شرعی عمل ہے،جس کا روزانہ موصوفہ اھتمام کررہی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان جیسی خواتین سے تربیت پاکر بچے بات بات پر آج قسمیں کھاتے ہیں ،
 فیشن کے طور پربھی اپنی گفتگو میں قسموں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، کبھی اردو میں تو انگریزی میں قسم کے الفاظ کہتے ہیں، اس پر بروقت قذغن  لگانااور اپنے بچوں کی صحیح تربیت ضروری ہے،افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ جنہیں تربیت کی ذمہ داری شریعت میں دی گئی ہے غلطی وہیں سےاب  ہورہی ہے،اس کا احساس بھی نہیں ہے،بچوں کے سامنے قسم روزانہ اسی لئے کھائی جارہی ہے کہ بچے اپنی ماں کی باتوں کو ماننے لگیں،اور قران کریم میں تو اس کی بات ماننے سے منع کردیا گیا ہے جو بہت زیادہ قسمیں کھاتا ہے، ارشاد ربانی ہے؛زیادہ قسمیں کھانے والے کی مت مان ( سورہ القلم )
بات بات پر قسمیں کھانا یہ نفاق کی ایک بڑی نشانی ہے۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۷/اکتوبر ۲۰۲۲ء

بدھ, اکتوبر 26, 2022

ڈاک کا دم توڑتا نظاماردو دنیا نیوز ٧٢✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی


ڈاک کا دم توڑتا نظام
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  پیغام رسانی کا کام تو زمانۂ قدیم سے جاری ہے اور یہ انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے ، البتہ اس کے نظام اور طریقۂ کار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، پہلے یہ کام ہر کاروں سے لیا جاتا تھا، شیر شاہ سوری نے 1541ء میں بنگال اور سندھ کے بیچ پیغام رسانی کے لیے گھوڑوں کا استعمال کیا ، ڈاک کا موجودہ نظام ہندوستان میں 1766ء میں رابرٹ کلائیو نے رائج کیا ، 1774ء میں برطانوی حکومت کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگس نے اسے منظم کیا اور 31مارچ 1774ء میں کلکتہ میں جنرل پوسٹ آفس (GPO) کھولا گیا۔ اس سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے 1786ء میں مدراس جنرل پوسٹ آفس اور 1793ء میں ممبئی جنرل پوسٹ آفس کا قیام عمل میں آیا۔ان تینوں جنرل پوسٹ آفس کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے ضوابط بنائے گئے ۔ اور کل ہند ڈاک خدمات کا آغاز ہوا۔1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا، اس وقت پورے ہندوستان میں کل تئیس ہزار تین سو چوالیس(23344) ڈاکخانے تھے ۔ان میں سے انیس ہزار ایک سو چوراسی(19184)دیہی اور چار ہزار ایک سو ساٹھ(4160) شہری حلقوں میں کام کر رہے تھے ۔اب بھی دیہی علاقوں میں ہی ڈاک کا نظام کسی درجہ میں قائم ہے ، ورنہ سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کے اس دور میں اس کا مصرف صرف دفتری خطوط کی ترسیل اور اخبارات و رسائل کو مقامات تک پہونچانے کا رہ گیا ہے ۔ اس میں بھی صارفین کی طرف سے تاخیر اور گمشدگی کی شکایت عام ہے ۔ اس کے با وجود اب بھی پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دیہی علاقوں میں ان دنوں ڈاک گھروں کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزار سڑسٹھ(139067) ہے جو اوسطاً21.56کیلو میٹر کی دوری پر ہے ۔
ڈاک کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف سالوں میں اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، 1972ء میں پوسٹل انڈکس نمبر یعنی پن کوڈ کی شروعات کی گئی ،1984ء میں ڈاک جیون بیما اور 1986ء میں اسپیڈ پوسٹ نے ڈاک کے نظام کو تیزرفتار بنایا ۔ 1996ء میں تجارتی ڈاک خدمات کو سامنے لایا گیا اور جب انٹرنیٹ کی آمد ہو ئی تو 2001ء میں الیکٹرونک فنڈ منتقلی نے رواج پایا۔ ڈاک کے پرائیوٹ نظام ’’کوریئر‘‘ کو مات دینے کے لیے شعبۂ ڈاک نے اکسپریس پارسل، تجارتی پارسل، وصولی کے وقت قیمت کی ادائیگی ، رقم کی منتقلی وغیرہ خدمات کے ذریعہ مقابلہ کی کوشش کی ۔لیکن سرکاری کارندوں کی خدمات میں کوتاہی کے نتیجے میں سامان اور پیغام رسانی کے نظام میں نجی کمپنیوں پر سرکاری ڈاک سبقت نہ لے جا سکی۔
ڈاک میں استعمال ہونے والے پوسٹ کارڈ، انتر دیشی ، لفاف وغیرہ کی مانگ کم ہوئی اور اب سوشل میڈیا کی تیز رفتاری نے بہت ساری جگہوں پر اس نظام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔اور محاوروں کی زبان میں کہیں تو ’’ڈاک خانوں کے دن لد گئے۔‘‘
کارڈ وغیرہ کے علاوہ ڈاک خانہ کے نظام میں ڈاک ٹکٹوں کی بھی بڑی اہمیت رہی ہے ، یکم مئی 1840ء کو پہلا ڈاک ٹکٹ پینی بلیک( Penny Black)کے نام سے برطانیہ میں جاری ہواتھا، ہندوستان میں پہلا ڈاک ٹکٹ 1852ء میں سوبہ سندھ میں جاری ہوا۔ اسی سال صوبہ سندھ کے گورنر نے ڈاک مہر کا سلسلہ شروع کیا، 1854ء میں ہندوستان میں نصف آنہ، ایک آنہ اور چار آنے کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گیے ۔ان پر مہارانی وکٹوریہ کی تصویر ہوا کرتی تھی ، کیوں کہ ہندوستان غلام تھا اور ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں کی بھی ملکہ تھی۔اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت از دہلی تا پالم ہی رہ گئی تھی ۔ہندوستان میں ڈاک ٹکٹوں کی طباعت کا کام 1926ء میں شروع ہوا ، 21نومبر 1947ء کو آزاد ہندوستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ عوام کی خدمت کے لیے پیش ہوا۔ اور 15اگست 1948ء سے گاندھی جی کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر شائع ہونے لگی۔اس کے بعد ملک کی نامور شخصیات پر ڈاک ٹکٹوں کا سلسلہ شروع ہوا ؛ جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر بھی ڈاک ٹکٹ شامل ہے ۔ ریشمی رومال تحریک کے نام سے بھی ایک ڈاک ٹکٹ محکمہ نے جاری کیا تھا۔
 ان تما م کے با وجود ڈاک کا نظام دم توڑتا جا رہا ہے، ڈاک خانہ کے ذریعہ بھیجی جانے والی چیزیںیا تو ملتی نہیں ہیں ، یا ملتی ہیں تو مہینوں لگ جاتے ہیں ، عام ڈاک ہی نہیں اسپیڈ پوسٹ تک کا یہی حال ہے ۔ نقیب کے شمارے قارئین تک نہیں پہونچنے کی شکایتیں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ہر ہفتہ پتہ چیک کر کے نقیب ڈاکخانوں میں ڈالا جا تا ہے ، لیکن ڈاک کی گڑبڑی سے وہ جگہ تک نہیں پہونچتا ظاہر ہے ادارہ اس میں کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ خریداروں کو مقامی ڈاکخانوں سے رجوع کر کے وہاں کے بڑے پوسٹ آفس میں شکایت درج کرانی چاہئے اور اس کی کاپی نقیب کے دفتر کو بھی ارسال کی جائے تاکہ پٹنہ کے صدر ڈاک خانے تک ہم بھی آپ کی شکایت پہونچا سکیں ۔اس سے زیادہ کچھ ادارہ کے بس میں نہیں ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ نہ ملنے کی شکایت ہمیں ملے اور وہ شمارہ ہمارے پاس موجود ہو تو اسے دوبارہ بھیج دیں ۔مشترکہ جد و جہد سے شاید کوئی راہ نکل آئے۔

منگل, اکتوبر 25, 2022

رواداری : بقائے باہم کے لئے ضروری

رواداری : بقائے باہم کے لئے ضروری
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جس ملک میں مختلف مذاہب ، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں ، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا ، ٹی وی اوردوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔
 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے ، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی ، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے ، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔
 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے ، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے ، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے ۔
رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے ، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا ۔
 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص ہیں، اور ان کے شعار کے طور پر وہ نعرے لگائے جاتے ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے ، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقۂ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمۂ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمۂ کفر پر راضی ہونا دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی ۔
رواداری کیؤنام پر اکبر نے دین الہی کو رواج دیا گو یہ دین ترقی نہیں کر سکا، خود اکبر کے نورتنوں میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اکبر نے غیر مسلم عورتوں سے شادیاں کیں، اپنے حرم کی زینت بنایا، ان کے مشرکانہ اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا؛تاکہ غیر مسلم رعایا کی نظر میںاس کی حیثیت ایک سیکولر حکمراں کی بنی رہے،کم وبیش پچاس سال کی اس کی حکمرانی میں رواداری کے نام پر اسلامی افکار و اقدار،معتقدات کا قتل کیا گیا،حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور ان کے صاحب زدگان کی مسلسل محنت سے اس تحریک کے برے اثرات کو ختم کیا جا سکا،اس کے برعکس حضرت اورنگزیب عالمگیر کی حکومت بھی کم و بیش پچاس سال رہی،ان کے نزدیک رواداری کا مفہوم ــ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ یعنی تمہارے لیے تمہارا دن اور ہمارے لئے ہمارا دین تھا ،وہ اپنے دین و شریعت پر سختی سے عامل رہے، ان کے اس عمل کی وجہ سے حکومت کمزور نہیں ہوئی؛بلکہ جنوب کے علاقوں میں برسوں ان کا لڑائی میں مشغول رہنا ان کی حکومت کے زوال کا سبب بنا ۔
 ہندوستان میں رواداری کے نام پر جس کلچرکو فروغ دیا جا رہا ہے وہ اکبر کے سیکولرزم کا چربہ ہے اور وہ اسلامی افکار و اقدار سے مل نہیں کھاتا، ہم اسے بھائی چارہ کہتے ہیں اور ان کے ذہن و دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مسلمان اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اس لیے وہ اس رواداری پر اتر آیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارؤچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو ، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیںکہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو ، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے ، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، اس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

پیر, اکتوبر 24, 2022

ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا

ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا
اردو دنیا نیوز ٧٢
اسلاف کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک پہنچانااہل قلم کی ذمہ داری:انیس الرحمن قاسمی /امتیاز احمدکریمی
23/اکتوبرپھلواری شریف (پریس ریلیز)
ملک کے ممتاز عالم دین، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق صدر مدرس اورجامع اسلامیہ انکلیشور گجرات کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ہارون الرشید ؒ کی حیات وخدمات پر مشتمل معروف اہل قلم ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا اجراء آج آل انڈیا ملی کونسل بہار کے ریاستی دفتر پھلواری شریف،پٹنہ میں ہوا۔ اس پر وقارعلمی تقریب کی صدارت آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرحضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی نے کی۔تقریب کے مہمان خصوصی بہار پبلک سروس کمیشن کے رکن اورصف اول کے افسر جناب امتیاز احمد کریمی صاحب اورمہمان اعزازی کے طورپرڈاکٹر پروفیسر سرورعالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیور سٹی،ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار اورمولاناڈاکٹر شکیل احمد قاسمی اورینٹل کالج،پٹنہ نے شرکت کی۔اس پر وقارعلمی،ادبی تقریب کا آغاز مولانا جمال الدین قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔اپنے صدارتی کلمات میں مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کتاب کے مؤلف ڈاکٹرنورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولاناہارون الرشید قاسمی ؒ ریاست کے گنے چنے علمامیں تھے،جنہوں نے گوشہ گمنامی رہ کر علم وادب اوررجال سازی کی قابل قدر خدمت انجام دی، میرا مولاناسے پیتیس چالیس سالوں کا گہرا ربط وتعلق رہا،وہ علم وعمل اورعمرمیں مجھ سے بڑے تھے، لیکن جب ملاقات ہوتی تو انتہائی محبت وشفقت اورحترام کا سلوک فرمایاکرتے،وہ اچھا لکھتے تھے اورخوبصورت ودل کش اندازمیں تقریربھی کیاکرتے تھے۔انہوں نے تعلیم نسواں پر خاص توجہ دی اورلڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور میں قائم کیا۔ یہ ادارہ آج بھی خد مت انجام دے رہا ہے۔مولاناقاسمی نے مؤلف کتاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے علاقہ اورحضرت مولاناکے شاگردوں پر ایک قرض تھا،جو مولانانورالسلام ندوی کی کوششوں سے اداہوگیا۔ مولانا ندوی صالح فکرکے حامل نوجوان عالم دین اورمصنف ہیں۔میں امید کرتاہوں کہ ان کا قلم ہمیشہ تازہ دم رہے گااوراسی طرح کی چیزیں ان کے قلم سے آتی رہیں گے۔اللہ سے دعاہے کہ یہ کتاب ہر خواص وعام تک پہنچے اورنئی نسل کے لیے مشعل راہ بنے۔تقریب کے مہمان خصوصی امتیازاحمد کریمی نے کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی کا قلم زندہ اورتابندہ ہے، ان کی یہ تیسری باضابطہ تصنیف ہے،ویسے تو ان کے سینکڑوں مضامین ومقالات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن مضمون لکھنا اورمستقل کتاب لکھنا دونوں میں بڑا فرق ہے۔ایک مصنف میں جو خوبیاں اصولی طورپر ہونی چاہئے وہ تمام اوصاف وکمالات مولانا نورالسلا م ندوی نے کم عمری میں حاصل کر لیے ہیں۔میں ان سے اکثر کہتا ہوں کہ اپنے قلم کو کبھی آرام نہ دیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے مصنفین پیدا ہوں جو اسلاف کے کارناموں کو اگلی نسل کے لیے محفوظ کر دیں۔ مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ اسلاف کے کارناموں کو جمع کر کے اگلی نسلوں تک پہونچاناہماری ملی ذمہ دار ی ہے۔قابل مبارک باد ہیں ہمارے عزیر مولاناڈاکٹرنورالسلام ندوی جہنوں نے حضرت مولاناہارون الرشدی قاسمی ؒ کی سوانح مرتب کر کے علمی دنیا کو بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ کتابوں کی تالیف کتنی دشوار ہے،اس کا احساس ہر اس شخص کو ہے جس نے اس راہ کی آبلا پائی کی ہے۔ مولانا نورالسلام ندوی ابھی نوجوان ہیں،سنجیدہ فکر کے حامل ہیں، ان کی اس کاوش میں ان کی فکر جھلکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی نے کہا کہ کتاب پر صحیح تبصرہ توکتاب کے مطالعہ کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، ابھی جب کہ یہ کتاب ریلیز ہوئی ہے،اس کی فہرست کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے صاحب سوانح کی شخصیت کا پورے طورپر ان کی زندگی کے ہر گوشہ پر کتاب روشنی ڈالتی ہے، میں دل کی گہرائیوں سے مؤلف کتاب ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو ان کی اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔رسم اجراء کے اس تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے کہا کہ مولانا ہارون الرشید جیسی شخصیت اگر یوروپ میں پیدا ہوتی تو ان کا نام علم وفن کے آسمان پر چاند وسورج کی طرح چمکتا نظرآتا،بزرگوں اوراسلاف کی خدمات کو یادکرنے اوران کو سراہنے کا حکم خود اللہ کے رسول ؐ نے دیا۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے،ہمارے برادر عزیزڈاکٹر نورالسلام ندوی نے بڑی عرق ریزی اورجانفشانی کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی تالیف پر میں انہیں اورآل انڈیا ملی کونسل کو جس نے یہ تقریب منعقد کی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔آل انڈیا ملی کونسل اس لیے بھی مبارک باد کے لائق ہے کہ وہ ہر علمی،ادبی کاموں کونہ صرف یہ کہ سراہتی ہے، بلکہ علم کی اشاعت میں اہم رول اداکررہی ہے۔ مصنف کی حوصلہ افزائی کے لیے اس طرح کی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل بہارکے کارگزارجنرل سکریٹری مفتی محمدنافع عارفی نے نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگومیں کہا کہ صاحب سوانح حضرت مولاناہارون الرشید قاسمیؒ میرے بچپن کے استاذ تھے،وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے،اس وجہ سے وہ مجھے بہت عزیزرکھتے  رتھے اورہمیشہ محبت وشفقت فرمایاکرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے عزیزدوست ڈاکٹر نورالسلام ندوی ذاتی طورپرمیرے شکریہ کے مستحق اورقابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے استاذمحترم کی سوانح مرتب فرمائی۔ان کا قلم بڑا سیال اوررواں ہے،اللہ ان کے قلم کی طاقت کمال فن عطا کرے۔ تقریب میں شریک دیگر مہمانوں نے بھی کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو اپنے اپنے الفاظ میں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔ اس موقع پر مولانا صدرعالم ندوی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ کتاب کے مؤلف ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی علمی خدمات پر مستقبل قریب میں کوئی باذوق قلم اٹھائے گا۔مولانا ہارون الرشید کے صاحبزادے جناب مولاناسفیان احمدنے اس موقع پر والد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ابا نے ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تربیت کی تھی اورانہوں نے اپنے استاذ کا حق اداکیا،وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔مولانا مرحوم کے نواسے جناب مولاناامیر معاویہ قاسمی نے اپنے ناناجان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کے مؤلف مولاناڈاکٹر نورالسلام کا شکریہ اداکیا اورانہیں مبارک باد پیش کی۔جناب نجم الحسن نجمی ڈائرکٹرنجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف نے ڈاکٹر نورالسلام ندوی کوکتاب کی تالیف پر مبارک باد دی۔اس موقع پرجناب عقیل احمد ہاشمی،جناب خالدعبادی، جناب جاوید احمد جمال پوری،جناب مسرور عالم دربھنگہ،جناب ریحان احمد،جناب محمد توفیق ندوی،جناب اثرفریدی،جناب محمد نورعالم رحمانی ارریہ،جناب جاویداختر،جناب حافظ محمد عارف،جناب نعمت اللہ ندوی،مولاناجاویدجمالی،جناب رضاء اللہ قاسمی،جناب نسیم احمد قاسمی،جناب محمد جمال الدین قاسمی اورابونصرہاشم وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔

ہفتہ, اکتوبر 22, 2022

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری نمائش کا انعقاد

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری نمائش کا انعقاد
اردو دنیا نیوز ٧٢
 تسمیہ جونئیر ہائی اسکو ل ٢٣اکتوبر(٢٠٢٢)اور اس کی نمائش کا انعقاد کیا گیا ۔ اس موقع پر اس کے رسید احمد پرپل جاوید مظہر اور محتر مہ بنت حسن زیدی ( پرنسل زب نبی گرلس انٹر کالج مظفرنگر مہمان خصوصی موجود ہے ۔ نمائش میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری کے اساتذہ کی مدد سے اسکول کے طلبہ وطالبات نے جوش وخروش سے حصہ لیا ۔ نمائش میں درجہ سے ۸ تک کے تمام طلبہ و طالبات نے اپنی دستکاری کی عمدہ کارکردگی پیش کی ۔ درجہ 7 بی کے طلبہ نے کئی طرح کے کاغذ کے خوبصورت لفافے ، درجہ ے بی کے طلبہ نے الگ الگ طرح کی فائل وغیرہ پیش کی جو بہت عمدہ تھیں ۔ کچھ طلبہ نے گھر میں پڑے بے کار سامان سے گھر کو سجانے کے لئے خوبصورت ائٹم بنا کر پیش کئے ۔ درجہ ے بی کے طلبہ نے کتابی دست کاری میں استعمال ہونے والے آلات کو پیپر پر پیش کیا اور ساتھ ہی گھر پر بہت کم دام میں خوبصورت فائل اور البم بنا کر پیش کی ۔ ہوم سائنس کے طالبات نے بھی اپنی صلاحیتوں سے نمائش میں تعاون کیا ۔ درجہ جی کی طالبات نے بریکا سامان کو بہت خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے گھر کا سجاوٹی سامان بنا کر پیش کیا جیسے اونی لباس سے بنی گڑ یا گتے کی الماری ، بوتل کا گلدستہ ، جسے پانی کے پھولوں سے سجایا گیا ، پیپر سے بنا گھر ، آئس کریم اسٹک سے بنا  گل دستہ ، انڈے کی ٹرے سے بنا شوٹیں اور سیمنٹ چوک سے ملا کر خوبصورت گملا جسے رنگوں کے ذریعہ سجایا گیا ۔ درجہ ہے جی کی طالبات نے پیپر پر کڑھائی کے مختلف نمونے بناۓ اور ابتدائی طبی امداد کے لئے فرسٹ ایڈ بوکس ، درجہ ۸ جی کی طالبات نے سوتی رومال پر مختلف ایمبر ایڈری سلائیوں کے استعمال سے خوبصورت رومال بنائے اور سلائی مشین کے مختلف حصوں کو پیپر پر پیش کیا ۔ اس نمائش سے طلباء وطالبات نے بیحسوس کرایا کہ وقت کا اچھا استعمال کر کے مہنگائی کے اس دور میں پیسے کی بچت کر کے گھر کی سجاوٹ کا خاص خیال رکھا جا سکتا ہے ۔ جو کہ ہماری کاریگری پر منحصر ہے ۔ نمائش دیکھ کر مہمان خصوصی محتر مہ بنت حسن زیدی بہت خوش ہوئی اور حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کی بہت تعریف کی اور ساتھ ہی ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم بھی کو ہر طرح سے خودمختار ہونا چاہئیے ۔ جس میں دستکاری اہم ہے ۔ ہم سبھی کوا پی دست کاری کو بہتر کرنا چاہیئے ۔ دست کاری کے ذریعہ ہم مستقبل میں کا بیج انڈسڑی شروع کر سکتے ہیں جو ہماری محنت سے بعد میں چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ اس طرح مہمان خصوصی نے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی اسکول کا اور بھی اساتذہ کا شکر بیادا کیا ۔ نمائش میں ہوم سائنس اور کتابی دست کاری کے اساتذہ کے ساتھ ساتھ بھی اساتذہ مند پرویز ، محمد شاہ رخ ، خوش نصیب ، ثانیہ مریم ، ناز بی پروین ، درخشاں پروین ، ریشمہ ، لائقہ عثمانی عصمت آرا ، رقیہ بانو شمن ، عباس سیدہ شائلہ ، امر بین انصاری ، نهم فاطمہ ، مولانا شوکت اور مرسلین خان زبیر احمد کا تعاون رہا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...