Powered By Blogger

اتوار, نومبر 06, 2022

ٹی-20 عالمی کپ: زمبابوے کو ہرا کر ٹاپر بنا ہندوستان، سیمی فائنل میں انگلینڈ سے مقابلہ، نیوزی لینڈ سے ہوگا پاکستان کا مقابلہ

ٹی-20 عالمی کپ: زمبابوے کو ہرا کر ٹاپر بنا ہندوستان، سیمی فائنل میں انگلینڈ سے مقابلہ، نیوزی لینڈ سے ہوگا پاکستان کا مقابلہ

اردو دنیا نیوز٧٢ 

میلبرن: آئی سی سی ٹی۔ 20 عالمی کپ کے سپر 12 مرحلہ کے آخری مقابلہ میں ٹیم انڈیا نے زمبابوے کو 71 رونوں سے روندتے ہوئے گروپ 2 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان پہلے ہی سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کر گیا تھا اور اب اس کا مقابلہ 10 نومبر کو انگلینڈ سے ہوگا۔ وہیں، پاکستانی ٹیم بھی سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے اور اسے گروپ 1 ایک ٹاپر نیوزی لینڈ سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

سیمی فائنلز میں جیت حاصل کرنے والی 2 ٹیمیں ٹی-20 فارمیٹ کی بادشاہت کے لئے میدان میں اتریں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیمی فائنل میں پاکستان اور ہندوستان نے اپنے اپنے مدمقابل کو زیر کر دیا تو فائنل میں ایک بار پھر ان روایتی حریفوں کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔


ٹیم انڈیا نے زمبابوے کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 186 رنوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ سوریہ کمار یادو نے محض 25 گیندوں میں 61 رنوں کی اننگ کھیل کر میچ کا رخ ہی پلٹ دیا۔ جواب میں زمبابوے کی ٹیم پوری طرح فلاپ رہی اور اس کے وکٹ لگاتار گرتے رہے۔ 


ایک وقت پر ہندوستان کی حالت خراب ہو گئی تھی اور 101 کے اسکور پر چار وکٹیں گر چکی تھیں لیکن بعد میں سوریہ کمار یادو نے شاندار اننگز کھیلی، جس میں انہوں نے صرف 25 گیندوں میں 61 رنز بنائے۔ اس شاندار اننگز کی بنیاد پر ہندوستان نے اسکور 186 تک پہنچا دیا۔

جواب میں زمبابوے نے پوری طرح گھٹنے ٹیک دیئے، زمبابوے کی حالت یہ تھی کہ صرف 36 کے اسکور پر اس کی 5 وکٹیں گر چکی تھیں۔ ایسے میں اس کے لیے میچ جیتنا مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیم انڈیا کے روی چندرن اشون نے 3، ہاردک پانڈیا نے 2 اور محمد شامی نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔ زمبابوے کی پوری ٹیم 20 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور 115 کے اسکور پر آل آؤٹ ہو گئی۔ سوریہ کمار یادو کو ان کی شاندار کارکردگی کے لئے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔

احمد سعید ملیح آبادی- دید وشنیدمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

احمد سعید ملیح آبادی- دید وشنید
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  روزنامہ آزاد ہند کلکتہ کے سابق مدیر ، راجیہ سبھا ، مغربی بنگال حج کمیٹی، کورٹ آف علی گڈھ یونیورسیٹی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، مغربی بنگال ٹیلی فون ، دور درشن، مشاورتی کمیٹی، اور کلکتہ یونیورسیٹی کے سابق رکن، عظیم صحافی، مشہور دانشور، بڑے محب وطن، غالب اور برلا ایوارڈ یافتہ ، مدبر، دانشور اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک جناب احمد سعید ملیح آبادی کا ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار چار بجے لکھنؤ کے سنجے گاندھی پی جی آئی اسپتال میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر چھیانوے سال تھی، وہ کافی دنوں سے بلڈ کینسر جیسے موذی اور مہلک مرض میں مبتلا تھے، ۸؍ ستمبر کوان کی طبیعت سہ پہر ۴؍ بجے زیادہ خراب ہوئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا، لیکن ۲؍ اکتوبر کو وقت موعود آگیا، وہ جان بر نہیں ہو سکے، ضعف وپیرانہ سالی کے ساتھ وہ مختلف امراض کے شکار تھے، لیکن مرض الموت ان کا کورونا پوزیٹیو ہونا بنا، ۳؍ اکتوبر کو بعد نماز ظہر ملیح آباد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی ، اور ملیح آباد کے قبرستان میں والدہ کے بازو میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں تین بیٹے اورایک بیٹی ہے، اہلیہ کا انتقال دسمبر ۲۰۱۹ء میں ہو گیا تھا اور گذشتہ سال اکلوتی بہن بھی چل بسی تھیں۔
احمد سعید ملیح آبادی نامور صحافی اور ابو الکلام آزاد کے دست راست مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند تھے، ان کی والدہ صابیہ بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں، ۱۹۲۶ء  میں احمد سعید صاحب ملیح آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے بڑے چچا عبد الوحید خان کی اہلیہ سے حاصل کی، انہوں نے اردو، فارسی، عربی ہندی اور انگریزی کی ابتدائی کتابیں احمد سعید ملیح آبادی کو پڑھائیں، پانچ سال کی عمر میں اسٹول پر کھڑے ہو کر تقریر کی مشق بھی چچی نے ہی کرائی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوئے ، لیکن تیسرے کلاس تک ہی ابھی پہونچے تھے کہ والدہ کی علالت کی وجہ سے آگے اسکولی تعلیم جاری نہیں رہ سکی، اور ان کا رخ مدرسہ کی طرف ہو گیا، انہوں نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے اپنی تعلیم کے بعد دار المصنفین سے منسلک علماء سے کسب فیض کیا،پھر کلکتہ منتقل ہو گیے، جہاں ان کے والد صاحب کا قیام تھا، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے ۱۹۲۹ء میں ہند اخبار جاری کیا، مختلف سالوں میں اخبار کا نام بدلتا رہا، الہند، ہند جدید، ہندروزنامہ کے نام سے نکلتا رہا، ۱۹۴۷ء میں آزاد ہند نکلنا شروع ہوا،آزاد ہند کے نام سے اخبار جاری کیا تو وہ والد کی معاونت کرتے رہے، مولانا ابو الکلام آزاد جب وزیر تعلیم ہوئے تو انہوں نے اپنے دیرینہ رفیق کوثقافۃ الہند کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دہلی بلانے کی تجویز رکھی، مولانا عبد الرزاق کو تردد تھا کہ آزاد ہند پر اس کا اثر پڑے گا، مولانا نے اپنا معذرت نامہ لکھ بھیجا ، جس میں اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اخبار کا کیا ہوگا، مولانا آزاد نے احمد سعید کے حولہ کر دینے کی بات کہی اور یہ تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ مچھلی اور بطخ کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، وہ تو بغیر سکھائے تیر نے لگتی ہے ، مولانا عبد الرزاق صاحب اخبار سے مطمئن ہو کر دہلی روانہ ہو گیے اور احمد سعید ملیح آبادی نے والد ہی کے طرز پر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، انہوں نے اس اخبار کا  ہفت روزہ ایڈیشن اجالا بھی نکالنا شروع کیا، بنگلہ زبان بولنے والوں کی ریاست مغربی بنگال میں اس اخبار نے اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت کا غیر معمولی کام انجام دیا، ان کے اداریوں نے حق گوئی وبے باکی کی تاریخ رقم کی اور ان کے تجزیاتی مطالعہ نے سیاسی قائدین اور حکمراں طبقہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، بنگال میں جب کانگریس کی حکومت تھی اس وقت بھی انہوں نے ظلم وجبر کے خلاف آواز لگائی، کمیونسٹ دور حکومت میں مرکز اور ریاست کی سیاست دوانتہاؤں پر چل رہی تھی، اور دونوں نظریات کی حمایت کرنا ممکن نہیں تھا، اس وجہ سے ان کے اداریوں میں پہلے والی دھار اور کاٹ باقی نہیں رہی ، اس صورت حال کا فائدہ اخبار مشرق نے اٹھایا ، آزاد ہند کے قاری کا حلقہ کمزور پڑا، اس کے باوجود آزاد ہند کی پکڑ اور کھپت اچھی خاصی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں وہ بھاری اکثریت سے جیت کر راجیہ سبھا کے رکن بن گیے اور کہنا چاہیے کہ احمد سعید کی صحافت اسی دن مر گئی، دو سال کسی کسی طرح آزاد ہند سانس لیتا رہا، بالآخری ۲۰۱۰ء میں احمد سعید ملیح آبادی نے شاردا گروپ کے ہاتھ اس اخبار کو بیچ دیا، کیوں کہ ان کے لڑکوں میں کوئی نہ اس کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ ہی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار تھا، شاردا گروپ مقدمہ میں پھنس گیا اور آزاد ہند، آزاد ہندوستان میں بندہو گیا، تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔
 احمد سعید ملیح آبادی راجیہ سبھا کی رکنیت کے زمانہ میں ہی ۲۰۱۳ء میں بلڈ کینسرکے مریض ہو گیے، صحت ٹھیک نہیں رہی اور بیماری کے اثرات بڑھنے لگے تو انہوںنے اپنے آبائی وطن ملیح آباد کو اپنا مسکن بنایا، یہاں وہ اپنے بڑے لڑکے کے یہاں قیام پذیر ہو گیے، جن کی اہلیہ ان کی حقیقی بھانجی تھیں اور ان کی ضرورتوں کا بھر پور خیال رکھتی تھیں۔ ۱۸؍ اگست کو نزلہ وزکام کا حملہ ہوا ، گلے میں خراش کی تکلیف ہوئی، سہارا اسپتال میں آرٹی سی پی ٹسٹ کرایا گیا، کورونا پوزیٹو نکلا اور اس بیماری نے آخرکام تمام کر دیا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کی تقریریں سلجھی ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کی شہرت ان کی صحافت اور اداریوں کی وجہ سے تھی، ان کے اداریوں نے کم وبیش دو نسلوں کو متاثر کیا، ان کی شناخت قومی مبصر کی حیثیت سے بھی تھی، انہوں نے کئی صدر جمہوریہ اور وزرائے اعظم کے ساتھ متعدد قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، ف، س اعجازنے ان کی زندگی میں ہی ماہنامہ انشاء کا ضخیم نمبر ان کی شخصیت اور خدمات پر نکالا تھا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں ، ۱۹۴۷ء میں انہوں نے ’’آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی، ۱۹۷۲ء میں حج کا سفر نامہ ’’اللہ کے گھر میں‘‘ لکھا، ۱۹۹۸ء میں ’’بغداد سے مدینہ منورہ تک‘‘ شائع ہوئی، اتحاد وآزادی کے نام سے بھی انہوں نے ایک کتاب لکھی، ان کی آخری کتاب ان کی خود نوشت آپ بیتی’’میری صحافتی زندگی‘‘ تھی، جو قارئین میں کافی مقبول ہوئی ، خراج عقیدت کے جلسے تو بہت ہو رہے ہیں، لیکن ایک بڑ اکام ان کے اداریوں کو موضوعات کے اعتبار سے مرتب کرکے شائع کرنے کا ہے ، دیکھیے یہ فال نیک کس کے نام نکلتا ہے۔
 احمد سعید صاحب سے میری ملاقات ان کے کلکتہ قیام کے دوران سال میں ایک بار ہوجایا کرتی تھی، ان دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں ہوا کرتا تھا، رمضان المبارک میں میرا سفر لازمی طور پر کولکاتہ کا ہوتا اور اس بہانے ایک ملاقات ان سے ہوجاتی ، ان ملاقاتوں میں دینی ، ملکی، سیاسی، سماجی سبھی مسائل پر ان کی رائے سننے کو ملتی ، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، لیکن امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے راہ ورسم باقی رہی ، پھر جب وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے تو انہوں نے اپنے فنڈ سے مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول آسنسول کے لیے چار کمروں پر مشتمل ایک عمارت بنوائی، جو امارت شرعیہ سے ان کی محبت کی دلیل اور کاموںپر اعتماد کا واضح ثبوت تھا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کو جاننا اور سمجھنا ہو تو ان کی خود نوشت میری صحافتی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے، یہ آپ بیتی ہی نہیں ان کے عہد کی سیاسی وسماجی تاریخ بھی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اردو صحافت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

ہفتہ, نومبر 05, 2022

مدارس اسلامیہ کنونشن ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارس اسلامیہ کنونشن  ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
امارت شرعیہ کی جانب سے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت پر نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی نے 6؍ نومبر، 2022ء کو المعہد العالی ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں ’’مدارس اسلامیہ کنونشن ‘ کے عنوان سے ایک اجلاس طلب کیا ہے ، جس میں بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ،مغربی بنگال کے تقریبا پانچ سو مدارس کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اجلاس میں مدارس کو در پیش موجودہ خطرات ، تعلیم وتربیت کے مسائل ، انتظام وانصرام کو مزید چاق وچوبند اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے ۔ اجتماعی غور وفکر سے کوئی حل سامنے آئے گا۔ انشاء اللہ 
واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ اس وقت بڑے نازک دور سے گذر رہے ہیں، اس کو نیست ونابود کرنے کی جو مہم آسام کی بی جے پی حکومت نے چلائی تھی ، اسے یوپی کی یوگی حکومت نے بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، عجلت میں وہاں کے مدارس کا سروے کرایا گیا اور سات ہزار پانچ سو مدارس کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، غیر قانونی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے خلاف کارروائی ہوگی، حالاں کہ ان میں بیش تر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رجسٹرڈ سرکار کے یہاں نہیں ہیں، رجسٹرڈ نہ ہونے کا مطلب غیر قانونی ہونا نہیں ہوتا، یہ مدارس دستور میں اقلیتوں کو دیے گیے حقوق کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، پھر وہ غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں تعلیم کی ترویج واشاعت میں نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ، اس نے لادینی بے راہ روی، بے حیائی کے خلاف اپنی تربیت کے ذریعہ مؤثر مہم چلائی اور ایسے افراد تیار کئے ، جن میں صالحیت بھی تھی اور صلاحیت بھی ، بہارہی نہیں، ملک، بلکہ بیرون ملک تک مدارس اسلامیہ کے فارغین کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں اور ان کی جدو جہد کے مناظر ومظاہر ، ہر علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں، تعلیم کو تجارت بنانے کے اس دور میں بھی یہ مدارس ، غریب ونادار ، بے کس وبے سہارا بچوں کے لئے تعلیم کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ ہیں، تعلیمی اداروں میں ہوسٹل اور ان کے خورد ونوش کا تصور بھی مدارس اسلامیہ ہی کادیا ہوا ہے، جس کو جزوی طور پر’’ مڈ ڈے میل ‘‘ کے طور پر حکومت نے اسکولوں میں نافذ کیا اور اسے اسکولی تعلیم کو پر کشش بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ۔ 
مدارس اسلامیہ میں بڑی تعداد تو ایسے مدارس کی ہے جو آج بھی سود وزیاں سے بے نیاز ملت کے چند وں سے اس کام کابیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، اورملت کے بچوں کو تعلیم سے آشنا کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کی نظر مالی منفعت پر نہیں ، تعلیم کو عام کرنے پر ہے ،وہ سرکاری امداد کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ، بلکہ بہت سارے اسے مدارس کے لئے مضر سمجھتے ہیں، بوریہ نشیں ان علماء نے روکھی سوکھی کھا کر اور کھلا کر ،چٹائی اور بوریوں پر سوکر اور بچوں کو سلا کرمسلمانوں کو علم سے آراستہ کر دیا ۔اور اجرت کے حصول کے بجائے اجر اخروی کی توقع پر زندگی گذاردی۔
 اس مہم کا ایک حصہ ایسے مدارس بھی ہیں جو بہار کے تناظر میں پہلے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ، پھربہار مدرسہ اکزامینیشن بورڈ اور اب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق ہیں، اپنے ایک سو دو سالہ  دور میں ان مدارس کے ذریعہ بھی بڑی تعداد میں علماء اور دانشور پیدا ہوئے ، امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمنؒ نے بھی وہیں تعلیم پائی تھی،مولانا سید محمد شمس الحق سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کی متوسطات تک کی تعلیم ایسے ہی مدرسہ میں ہوئی تھی، اس طرح کے بہت سارے نام لئے جا سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی خدمات دونوں سطح پر بڑے پیمانے پر جاری ہیں، اور اس کے اثرات بھی مختلف اندازکے سامنے آ رہے ہیں ، میرا احساس یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی ترقی اور تربیت کے خوب سے خوب تر بنانے کی کوئی آخری منزل نہیں ہوتی، یہاں تو بڑھتا جا، اور چڑھتا جا، کا موقع ہوتا ہے ، اسی لئے ہر دور میں اکابر علماء نے اصلاح تعلیم وتربیت اور اصلاح نصاب کی تحریک چھیڑی اور اس نظام کو جمود سے بچانے کی قابل قدر اور بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔ اب امارت شرعیہ نے یہ تحریک چھیڑی ہے اور اسے  بہار کے دور دراز مدارس تک پہونچا دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ، پھر دورے وغیرہ کی ترتیب بنے گی اور کار وائی آگے بڑھے گی ، ہمیں اس تحریک سے نیک توقعات رکھنی چاہئے اور ہر ممکن  مدد کرنی چاہئے اور ہر سطح پر اس مہم کو کامیاب کرنے کی عملی جد وجہد میں ہاتھ بٹانا چاہئے ۔
 حدیث میں’’ تھوڑا عمل اور مسلسل عمل ‘‘کی اہمیت بتائی گئی ہے ، ہمیں اس اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور مسلسل اس کام کو جاری رکھنا چاہئے ، ہمارے کام کا مزاج سوڈا کے ابال جیسا بن گیا ہے ، جوش کے ساتھ ایک رات میں مسجد بھی بنادیتے ہیں اور تالاب بھی کھود دیتے ہیں، لیکن بقول مولانا ابو الکلام آزاد ایک ایک اینٹ جوڑ کر مسلسل اس کام کو نہیں کر پاتے اور پھر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جا تے ہیںکہ ’’ مرد ے از غیب بروں آید وکارے کند ‘‘ ہمیں اپنے اس طرز عمل کو بدلنا ہو گا ، اور اس کٹھن کام کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے طویل منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔

جمعہ, نومبر 04, 2022

اردو کے فروغ میں اردو صحافت کا اہم رول: اے محمد اشرف


اردو کے فروغ میں اردو صحافت کا اہم رول: اے محمد اشرف
میاسی اردو اکیڈمی بااشتراک شعبہ اردو وعربی، نیوکالج کے زیر اہتمام بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
چینئی(✍️ساجد حسین ندوی) میاسی اردو اکیڈمی و شعبہ اردو عربی، نیوکالج، چینئی کے زیر اہتمام دوسو سالہ جشن اردو صحافت کی مناسبت سے آل تمل ناڈو بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد بتاریخ ۲/نومبر ۲۲۰۲ء کو عمل میں آیا جس میں صوبہئ تمل ناڈو کے ۵۱/ سے زائد کالجز کے طلباء وطالبات نے شرکت کی اور صحافت کے مختلف موضوعات پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کیا۔
پروگرام کا آغاز بی اے اردو، نیوکالج کے طالب علم عزیزم محمد فیضان سلمہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور عزیزم محمداکبر سلمہ نے بارگاہ رسالت ِمآب ﷺ میں نعتیہ کلام کا نذرانہ پیش کیا۔ جبکہ نظامت کے فرائض میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے انجام دی۔
میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ: صحافت کے دوسو سال کا جشن پورے ملک میں بڑے آب وتاب کے ساتھ منایا جارہاہے لہذا میاسی اردو اکیڈمی نے جنوبی ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے صحافت کے دوسوسالہ جشن منارہی ہے۔ نیز طلباء میں اردوصحافت کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد کیا گیا تاکہ طلباء اردو صحافت کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے اردو کو فروغ دینے میں اردو صحافت نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے، نیز جدید ٹکنالوجی کی دنیا میں بھی اردو صحافت نے اپنے قدم جمانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔  
پروگرام کے مہمان خصوصی جناب اسجد نواز ایڈیٹر روزنامہ سالار نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں ان اسلاف کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا خون جگر لگاکر اردو اخبارکو سینچا اور پروان چڑھایا تھا، خواہ وہ سید باقر ہوں یا پھر مولانا ابوالکلام آزاد۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ کا جشن ضرور منایا جارہاہے، لیکن حقیقت میں اردو صحافت کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ انہوں نے حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہاانہوں نے اپنی فوج ٹریننگ کے لیے نہ صرف اردو اخبار(فوجی اخبار) شائع کروایا بلکہ اس کے لیے پرنٹنگ پریس بھی لگوایا۔ اتنی بڑی اردو کی خدمات کو عام طور پر فراموش کردیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو نے جنم شمالی ہندوستان میں ضرور لی، لیکن اس کا ارتقا جنوبی ہندوستان کے دکن میں ہوئی۔
اس تقریری مقابلہ میں صوبہ تمل ناڈو کے مختلف کالجز سے تقریبا ۰۲/ طلباء نے شرکت کی۔ جبکہ حکم کے فرائض جناب مولانا فیاض عالم، ڈاکٹر محترمہ ذاکرہ ام شہلہ اور ڈاکٹر پروین فاطمہ نے انجام دیا۔ حکم صاحبان نے منصفانہ طور پر نمبرات دیتے ہوئے تین طلباء وطالبات کو اول دوم اور سوم کے لیے منتخب کیا جب کہ دو طلباء جو چہارم وپنجم پوزیشن پر آئے تھے ان کو تشجیعی انعامات میں لیے منتخب کیا گیا۔ شعبہ اردو نیوکالج کے طالب علم عزیزم عبد اللہ مشتاق سلمہ نے اول پوزیشن حاصل کی اور عزیزم عبدالمجید سلمہ نے دوم پوزیشن، جبکہ سوم پوزیشن اسلامیہ کالج برائے اناث،وانمباڑی کی طالبہ عزیزہ مدیحہ فردوس نے حاصل کی۔ نیزساجد باشا اسلامیہ کالج برائے ذکور،وانمباڑی نے چوتھی پوزیشن اور طالبہ طوبی ایاز اسلامیہ کالج برائے اناث وانمباڑی نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ اس مقابلہ جاتی پروگرام میں حصہ لینے والے تمام طلباء وطالبات کو سرٹیفکٹ مع کیسہ زر سے نواز گیا۔ پروگرام میں میاسی کے جملہ ممبران، نیوکالج کے پرنسپل، وائس پرنسل، ڈپٹی وارڈن کے علاوہ شہر مدراس و اطراف واکناف سے ڈاکٹر امتیازباشا، اکبر زاہد،اسانغنی مشتاق، کے عبدالباری ایڈیٹر نشان منزل کے علاہ دیگر احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اخیر میں جناب محمد روح اللہ صاحب نے جملہ مہمان کرام کا شکریہ ادا کیا اور مولانا فیاض عالم صاحب کی دعا پر جلسہ اختتام پذیر ہوا

روس ، یوکرین جنگ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

روس ، یوکرین جنگ ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 24؍ فروری 2022ء کو روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تو اسے ہی نہیں پوری دنیا کو یقین تھا کہ یوکرین ایک ہفتہ سے زیادہ روس کی افواج اور عسکری طاقت کا سامنا نہیں کر سکے گا، روس کے صدر پوتن بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے، ان کا اندازہ تھا کہ یوکرین ان کے تابڑ توڑ حملوں اور جدید اسلحوں کے استعمال کے بعد یا تو وہ نیست ونابود ہوجائے گا یا ہمارے قبضہ میں پورا یوکرین آجائے گا، چاہے وہ کھنڈر کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ہوا اس کے بر عکس ، روس یویکرین جنگ کے آٹھ ماہ پورے ہو گیے ہیں اور اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
روسی صدر پوتین کے جنگ کے اس فیصلے سے وہاں کی عوام نا خوش ہے، انتقال مکانی کر رہی ہے بغاوت کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، روس کی افواج بھی نفسیاتی طور پر کمزورہے ، کیوں کہ وہ اسے بلا وجہ کی جنگ تصور کرتے ہیں، اس نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے افواج میں مقابلہ کی طاقت کم ہوئی ہے، اور بالآخر روسی صدر نے جنگ کی کمان دوسرے کے حوالہ کر دیا ہے، پوتن نے تین لاکھ محفوظ تربیت یافتہ افراد کو بھی لام بندی اور یتاری کے لیے کیا تو عوام کے ساتھ تربیت یافتہ افراد نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی،  صدر پوتن کو اس کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اب بیلاروس کے بھی جنگ میں شامل ہوجانے سے روس کو کچھ تقویت ملی ہے ، اس جنگ نے روس کی معیشت کو سخت نقصان پہونچا یا ہے ، معاشی بد حالی کی وجہ سے عوام نقل مکانی پر مجبور ہیں اور ان ملکوں کی سرحدوں پر لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں، جہاں روس کے لوگ بغیر ویزا کے داخل ہو سکتے ہیں، جارجیا ان ملکوں میں سے ایک ہے ۔
 واقعہ یہ ہے کہ روس کی فوجی طاقت کے مقابلے یوکرین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، روس کی فوج کی افرادی قوت سات لاکھ اکہتر ہزار (771000)ہے، جب کہ یوکرین کے پاس فوج کی تعداد صرف دو لاکھ ہے ، بحری بیڑہ روس کے پاس بیس ہزار پچاس ہے، جبکہ یوکرین کے پاس صرف دو ہزار بحری جہاز ہے، روس کے پاس توپ خانے چودہ ہزار پانچ سو ستناون اور یوکرین کے پاس تین ہزار نو سو تہتر، روس کے پاس لڑا کو جہاں چار ہزار چار سو اکتالیس ہیں، جب کہ یوکرین کے پاس صرف چار سو پچیس ہے
 رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے بھی یوکرین اور روس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ، روس کا رقبہ یوکرین سے اٹھائیس گنا زیادہ ہے، یہ ایک کڑوڑ ستر لاکھ مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے، جب کہ یوکرین کے حصہ میں صرف چھ لاکھ تین ہزار مربع کیلو میٹر اراضی ہے، روس کی آبادی چودہ کروڑ پانچ لاکھ ہے ، یوکرین کی آبادی صرف چار کروڑ ایک لاکھ ہے، ڈی جی پی کی بات کریں تو روس کے پاس جنگ کے دوران گیارہ فی صد کم ہونے کے با وجود پینتالیس سو ارب ڈالر ہے، یوکریں کی ڈی جی پی پانچ سو اٹھاسی ارب ڈالر ہے۔
 پھر روس پر یوکرین کیوں بھاری پڑ رہا ہے، اس کی وجہ وہاں کی عوام کی ملک کے تئیں وفاداری اور صدر کا بار بار حوصلہ دلانا ہے، پوتین احکام صادر کرتے ہیں، مارشل لا لگانے کی بات کہتے ہیں اور یوکرین کے صدر فوج اور عوام دونوں کا حوصلہ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو یوکرین کی فوج اپنے ملک کے لیے لڑ رہی ہے اور روسی فوج پوتین کے حکم کی تعمیل میں محاذ پر ہے۔
 پوتین کو یہ غلط فہمی تھی کہ امریکہ، افغانستان او رعراق میں اپنی ہار کے بعد اس جنگ میں یوکرین کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون نہیں ہوگا، اور موجودہ صدر ڈونالنڈ ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ والی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر دخل اندازی نہیں کرے گا، نا ٹو کے ممالک مدد کے لیے آگے نہیں آئیں گے، روسی صدر کی غلط فہمیوں کی وجہ سے یہ لڑائی شروع ہوئی او رابھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے، فتح جس کی بھی ہو یوکرین کے افواج کی جرأت کی داستان تاریخ میں صدیوں محفوظ رہے گی۔

جمعرات, نومبر 03, 2022

مادری زبان میں پیشہ وارانہ تعلیم __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مادری زبان میں پیشہ وارانہ تعلیم __
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 نئی تعلیمی پالیسی2020ء میں مادری زبان میں تعلیم کی سہولت فراہم کرانے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے، مدھیہ پردیش سرکار نے اس کام کو آگے بڑھانے کی غرض سے میڈیکل نصاب سے جڑے تین موضوعات پر کتابیں ہندی میں تیار کرائی ہیں اور ان کا اجرا وزیر داخلہ امیت شاہ نے کر بھی دیا ہے۔ اس موقع سے  انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ انجینئرنگ، پولیٹکنک اور وکالت کی تعلیم کے لئے بھی ہندی میں کتابیں دستیاب کرائی جائیں گی، یہ ایک اچھی پہل ہے، اور اس کام کے آگے بڑھنے سے ہندی زبان کو فروغ ہوگا، البتہ سنسکرت آمیز ہندی اور پیشہ وارانہ تعلیم سے جڑے اصطلاحات کو ہندی میں منتقل کرنا بڑا نازک اور حساس کام ہے، اب تک اردو میں رائج جن الفاظ کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا ہے، وہ یا تو سمجھ میں نہیں آتے یا سماعت پر بوجھ معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ وطالبات کو ہندی سے زیادہ انگریزی ہی آسان معلوم ہوتی ہے۔ ہندی میں میڈیکل ، انجینئرنگ ، پولیٹکنک اور وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی صلاحیتیں عالمی طور پر ان علوم کے ماہرین سے مقابلہ کی بن پائیں گی یا نہیں، یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مادری زبان صرف ہندی ہی نہیں ہے، اردو، بنگالی، میتھلی، تامل ، پنجابی، بھوجپوری، وغیرہ بھی ہے، اردو کو بہار میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، تو کیا سرکار کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ ان زبانوں میں بھی نصابی کتابیں تیار کرائے، تیار ہو بھی جائے تو بر وقت فراہمی کا مسئلہ بھی سامنے آئے گا، تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ مادری زبان میں یا تو کتابیں شائع نہیں ہوتی ہیں، یا ہوتی ہیں تو طلبہ وطالبات تک پہونچ ہی نہیں پاتی ہیں، اردو میں شائع اسکولی کتابوں کو گودام میں سڑ گل جانے کی خبریں برابر آتی رہی ہیں۔
 ہندی کی طرح دوسری زبانوں میں بھی اصطلاحات کے لیے متبادل الفاظ کا انتخاب نا ممکن نہیں تو دشوارضرور ہوگا، صرف اردو زبان کو ہی لیں توتشکیلیات اور ساختیات کے نام پراب تک  جو کام ہوا ہے، وہ غیر اطمینان بخش ہے، وحید الدین سلیم اس فن کے آخری آدمی تھے، جنہوں نے اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ اس کام کو کیا تھا، ہمارے دورمیں اصول وضوابط سے صرف نظر کرکے الفاظ کی تشکیل ہو رہی ہے، جو بے جوڑ بھی ہے اور تعقید معنوی کا شکار بھی ، ایسے میں یہاں بھی ہندی کی طرح طلبہ وطالبات اور اساتذہ کے افہام وتفہیم میں رکاوٹ آئے گی، اور ہمارے بچے معیاری تعلیم سے محروم رہ جائیں گے، اس لیے پہلے اصطلاحات کی مادری زبان میں منتقلی، کتابوں کی تصنیف اور ترجمہ کے فن کو آگے بڑھانا ہوگا اور ظاہر ہے یہ کام ایک دو روز کا نہیں ہے، نئی تعلیمی پالیسی میں نفاذ کی مدت 2040ء تک مقرر کی گئی ہے، اگر حکومت اس مدت میں مختلف مادری زبانوں میں پیشہ وارانہ تعلیم کی کتابیں تیار کرادے تو یہ بھی بڑا کام ہوگا، اس کے لیے ابتدائی تعلیم سے مادری زبان میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، ورنہ ابتدائی درجات میں دوسری زبان میں طلبہ وطالبات کے تعلیم پانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہو سکے گا، جیسا کہ آج کل انگلش میڈیم کا رواج ہے اور نر سری ، ایل کے جی سے ہی مادری زبان سے زیادہ انگریزی میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے، ایسے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مادری زبان کا استعمال ہمارے طلبہ وطالبات کو تعلیم کے میدان میں آگے نہیں لے جائے گا،پیچھے دھکیل دے گا اور باہر ملکوں میں ان کی ملازمت بھی نا ممکن نہیں تو دشوار ہوگی، اس لیے اس کو رائج کرنے کے پہلے ان امور پر تبادلۂ خیال اور غور وفکر کی خاص ضرورت ہے،یہ ضرورت اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں اردو سرکاری زبان ہونے کے باوجود پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے اردو نصاب رائج کرنا تو دور کی بات ہے اب تک بنایا بھی نہیں جاسکا ہے۔
در اصل ہو یہ رہا ہے کہ جب سرکارمادری زبان بولتی ہے تو اس کے ذہن میں صرف ہندی ہوتی ہے، حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اور جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مریض سے گفتگو ہندی میں ہوتی ہے تو تعلیم کیوں نہیں ؟ یہ اتنی بھونڈی سطحی اور غیر منطقی بات ہے کہ اس پر بحث کرنا بھی فضول ہے، کیوں کہ مریض سے گفتگو اصلا مریض کی زبان میں ہوتی ہے، مریض دنیا کی کسی زبان کا بولنے والا ہو سکتاہے، ڈاکٹر کی سمجھ میں اگر وہ زبان نہیں آتی ہے تو اس کے لیے مترجم رکھے جاتے ہیں، بہت سارے لوگ اس کام سے لگے ہوئے ہیں اور اسپتال والے مریضوں سے ہی ان کی اجرت لیتے ہیں، ڈاکٹر حضرات نسخے انگریزی میں ہی لکھتے ہیں، دواؤں پر فارمولے بھی انگریزی میں ہوتے ہیں، صرف تعلیم ہندی میں شروع کرنے سے بات نہیں بنے گی۔
مادرری زبان میں پیشہ وارانہ تعلیم کا مزاج ورواج دنیا کے بیش تر ملکوں میں نہیں ہے، جن ملکوں میں مادری زبان میں تعلیم ہو رہی ہے ان کو انگلیوں پر گناجا سکتا ہے، ان ملکوں میں چین، فرانس ، جاپان اور جرمنی کا نام آتا ہے، با خبر ذرائع کے مطابق ان ملکوں میں بھی متبادل کے طور پر انگریزی میں رائج الفاظ کا بھی ذکر ہوتا ہے تاکہ معنی ومفہوم کے سمجھنے میں طلبہ وطالبات کو دشواری نہ پیش آئے،ڈاکٹر نسخہ میں دواؤں کے نام انگریزی میں ہی لکھتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان ملکوں میں بھی ملکی زبان میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس میں انگریزی کا استعمال بھی ہوتا ہے اور ابھی تک اس سے جان نہیں چھوٹی ہے۔
 ہماری سوچ یہ ہے کہ پیشہ وارانہ تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کا خواب دیکھنا بُرا نہیں ہے، لیکن ہمیں معیار تعلیم سے سمجھوتہ کسی حال میں نہیں کرنا چاہیے، نصابی کتابوں کو مادری زبان میں فراہمی کے لیے جتنے مراحل سے گذر نا ضروری ہے ، ان سے گذر جائے،تو اسے نافذ کیا جائے فی الوقت تو یہ بات خوش فہمی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی، آپ بھی انتظار کیجئے ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔

منگل, نومبر 01, 2022

ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
بحمداللہ بحسن وخوبی پیام انسانیت کی سالانہ کارگزاریوں کا پروگرام آج بتاریخ ۳۰/اکتوبر ۲۰۲۲ اختتام پذیر ہوگیا،آخری خطاب ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ العالی کا پہلے سے طے تھا، حضرت والا باوجود نقاہت وعلالت کےآخری خطاب ودعاء کےلیےمسجد تشریف لائے اور بہت ہی مختصر خطاب میں بڑی قیمتی باتیں فرمائیں،تلخیص حاضر خدمت ہے؛
"میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ سفر کرکے یہاں آئے ہیں اور انسانیت کے عنوان پر جمع ہوئے ہیں،یہ اجرکا موجب ہے،اجر کا تعلق آخرت سے ہے،ان شاء اللہ العزیز آپ سبھی آخرت میں سرخرو ہوں گے، آپ نے بڑے اچھے کام کیے ہیں،اچھی نیت ہوتی ہے تو اچھے کاموں کا نتیجہ اچھا ظاہر ہوتا ہے، دنیا میں ہی برکتیں  نصیب ہوتی ہیں، برکت کا تعلق دنیا سے ہی ہے۔
انسانیت کا پیغام انسانوں تک پہونچانا ہرباشعور انسان کا فرض منصبی ہے،اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور تمام مخلوقات میں افضل بنایا ہے، سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ دیا ہے، سامنے اچھی بری دونوں چیزیں ہوتی ہیں، کیا اچھا ہے کیا برا ہے؟یہ بتانے کے لیے نبیوں کو بھیجا ہے، وہ اپنے وقت کے عظیم انسان ہوتے ہیں جو نبی والا کام کرتے ہیں، آپ یہ کام کررہے ہیں، آپ قابل مبارکباد ہیں، 
انسان دماغ رکھتا ہے، اس لیے اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ہے، تحریک پیام انسانیت بھی یہی کہتی ہے۔
 اس بات کوپوری فکرمندی اوردردمندی کے ساتھ اس وقت امت کےسامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے اور انسان کیوں بنایا ہے؟
ایک انسان کو کسی زمانے میں بھی انسانی زندگی گزارنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی ہےاور نہ پیش آسکتی ہے ،وہ اس لیے کہ وہ ایک انسان ہے۔
تحریک پیام انسانیت جسکو مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی  میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے  1974میں پورےملک میں شروع کیااسمیں انسانیت کےتحفظ اوربقاکاسامان ہے،ایک موقع پرآپ کہیں تشریف لےجار ہےتھے،پلیٹ فارم پر کیلے کا چھلکاپڑادیکھا،مولانا علیہ الرحمہ نےاسے اٹھا کر کنارے ڈال دیا،محبین نےکہا: حضرت! آپ نے کیوں یہ زحمت کی، مولانا نے جواب دیا! زحمت نہیں کی بلکہ ایک انسان کو زحمت سے بچانے کی فکر کی ہے،کوئی گزرنے والا/راہگیر اگر پاؤں رکھتا تو گرجاتا ،ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک واقعہ میونسپلٹی کےنل میں سے پانی گرنے کا بھی ہے،حضرت نے دیکھاکہ ٹونٹی چالوہے، پانی بیکار گر رہا ہے،خودجاکر اپنے ہاتھ سے بند کیا اور یہ فرمایا کہ:یہ نل کسی کا بھی ہو نقصان  انسانیت کا ہورہا ہے۔
یہ تحریک پیام انسانیت دراصل انہی چیزوں کی طرف توجہ مبذول کرانے اور عملی طور پر کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے،
اس مختصر خطاب کے بعد حضرت کی دعاءسے اس دو روزہ پروگرام کا اختتام ہوا،اللہ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۳۱/اکتوبر ۲۰۲۲ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...