Powered By Blogger

جمعرات, نومبر 10, 2022

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

امیر شریعت رابع امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ،جھارکھنڈ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری،جمعیت علمائے بہار کے سابق ناظم،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ ،سینکڑوں مدارس اور تعلیمی اداروں کے صدر اور سرپرست، تحفظ شریعت کے مرد میداں، ملی، تعلیمی اور رفاہی کاموں کے سرگرم قائد، ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مسلمانوں کے پیر و مرشد ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح کا وصال رمضان المبارک ١٤١١ھ کی تیسری شب  کوخانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوگیا، دوران تراویح ہی دل کا دورہ پڑا، حجرہ میں لے جاۓ گئے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی، سب کچھ منٹوں میں ختم ہو گیا، ١٩/مارچ ١٩٩١ء کی شام شریعت و طریقت کا آفتاب غروب ہوگیا، ٣/رمضان المبارک ١٤١١ھ کو بعد نمازِ مغرب جامعہ رحمانی کے صحن میں ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب (جو بعد میں امیر شریعت سادس ہوئے) جنازہ کی نماز پڑھائی اور اپنے نامور والد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کی قبر کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے،
حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی بن قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری بن سید عبد العلی بن سید غوث علی بن سید راحت علی بن سید امان علی رحمھم اللہ کی ولادت ٩/جمادی الثانی ١٣٣٢ھ روز منگل خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، سلسلہ نسب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے جاملتا ہے، ابتدائی تعلیم خانقاہ رحمانی میں حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر گیارہ سال کی عمر میں ہی حیدرآباد مولانا عبد اللطیف رحمانی صاحب کی خدمت میں بھیج دئیے گئے، ایک سال ہی میں صرف و نحو، منطق اور دیگر فنون سے خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی، وہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور ہدایہ اولین تک کی تعلیم یہیں پائی، طالب علمانہ زندگی کے چار سال یہاں لگاۓ، ١٩٣٠ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور یہاں کے نامور اساتذہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح سے کسب فیض کیا، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حیدر حسن خاں محدث کا نام بھی آتا ہے۔١٩٣٣ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہوئی۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے دوران ہی حضرت مولانا محمد علی مونگیری کا وصال ہوگیا، ظاہر ہے یہ عمر تصوف و سلوک کے کُنہیات سمجھنے کی نہیں تھی، اس لیے تصوف و سلوک کی تربیت بعد میں آپ نے حضرت مونگیری کے خلیفہ حضرت مولانا محمد عارف صاحب سے حاصل کی جو ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ کے رہنے والے تھے، اس راہ میں مرتبہ کمال پر پہونچنے کے بعد مولانا محمد عارف صاحب نے اجازت بیعت و خلافت سے نوازا، ١٩٤٢ء میں جب حضرت مولانا لطف اللہ صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا تو حضرت مونگیری کے تمام خلفاء و مریدین نے خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں  آپ کومقرر کیا  آپ نے مخلوق خدا کی روحانی تربیت  کے ساتھ جامعہ رحمانی کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا، برسوں خود بھی تدریسی کاموں سے منسلک رہے، بعد میں ہجوم کار کی وجہ سے یہ سلسلہ باقی نہ رہ سکا؛ لیکن آپ کی خصوصی توجہ اور طریقہ کار کی وجہ سے جامعہ اور خانقاہ دونوں کی پورے ملک میں ایک شناخت بن گئی،اور اس کا شہرہ ملک و بیرون ملک میں پھیلا۔
 ١٩٣٥ء میں آپ جمعیت علمائے بہار کے ناظم منتخب ہوئے،١٩٣٧ء میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، ٢٤/مارچ ١٩٥٧ء کو حضرت مولانا ریاض احمد سنت پوری کی صدارت میں منعقد اجلاس میں آپ امیر شریعت منتخب ہوئے، اس وقت مجلس ارباب حل و عقد کے نام سے کوئی مجلس نہیں تھی، بڑے علماء اس موقع سے مدعو ہوتے تھے اور امیر شریعت کا انتخاب عمل میں آتا تھا، انتخابی اجلاس مدرسہ رحمانیہ سپول دربھنگہ میں ہوا تھا، نہ پولنگ بوتھ بنا تھا اور نہ ہی بیلٹ پیپر کی چھپائی ہوئی تھی، مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی  تھی، مجلس میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت دوم، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ شریک تھے۔
انتخاب امیر کے بعد شروع کے پانچ سال بڑی آزمائش اور کشمکش کے تھے؛ لیکن جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز کے عطا فرماتا ہے؛ چنانچہ ١٩٦٢ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح جامعہ رحمانی کی معلمی چھوڑ کر امارت شرعیہ آگئے، اور جلد ہی مولانا سید نظام الدین صاحب کو امارت شرعیہ لانے میں کامیاب ہو گئے، حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے کا کام کیا اور امارت شرعیہ کا کام پھلینے لگا، امارت شرعیہ کا دفتر خانقاہ مجیبیہ میں تھا، وہاں سے قاضی نورالحسن اسکول کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا، قریب کی ایک اور بلڈنگ خریدی گئی،بڑی جد و جہد کے بعد امارت شرعیہ کے دفتر کی موجودہ اراضی سرکار سے لیز پر لی گئی اور ١٥/نومبر ١٩٨١ء کو اس زمیں پر حضرت امیر شریعت رابع رح نے دفتر امارت شرعیہ کی سنگ بنیاد ڈالی، اس موقع سے آپ نے فرمایا: 
"میں عمر کی اس منزل پر پہنچ چکا ہوں جہاں لوگ نئے منصوبے نہیں بناتے؛لیکن خدا کے فضل اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے مخلصین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ نیا کام شروع کیا جارہا ہے، قومی اور ملی کاموں کا انحصار افراد پر نہیں ہوتا، میں رہوں یا نہ رہوں اسے پورا کرنے کی ذمہ داری آپ سبھوں کی ہے"۔
جب پارلیمنٹ میں یکساں شہری قانون لاکر مسلم پرسنل لا بورڈ کو کالعدم قرار دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو آپ میدان میں نکلے، ٢٨/جولائی ١٩٦٣ء کو  امارت شرعیہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے فرمائی، مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی نے افتتاح فرمایا، کئ سال کی تگ و دو کے بعد ١٤/١٣ /مارچ ١٩٧٢ء کو دارالعلوم دیوبند میں نمائندہ اجتماع ہوا، اور اس کے فیصلہ کی روشنی میں ٢٨/٢٧/ دسمبر ١٩٧٢ء کو ممبئی میں وہ تاریخی اجلاس ہوا، جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، اپریل ١٩٧٣ء میں حیدرآباد اجلاس میں آپ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور تادم آخری اس عہدے پر فائز رہے۔آپ نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر اعلان کیا:
"میں اس کے لئے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑادی جائیں، ہمارے سینے چاک کر دیۓ جائیں، مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ"مسلم پرسنل لا "کو بدل کر ایک "غیر اسلامی لا" ہم پر لاد دی جائے ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔"
آپ کے وقت میں امارت شرعیہ نے خدمت خلق اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا، مولانا سجاد ہوسپیٹل اور ام ام یو ہائی اسکول آسنسول اس کام کا نقطۂ آغاز تھا، جو بعد کے امراء کے دور میں پھیلا، حضرت کی خدمات کا دائرہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ لکھی جاتی رہیں گی،واقعہ یہ ہے کہ "دامان  نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار"۔
میں اپنے ہی ایک مضمون کے اقتباس پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔
"مولانا دارالعلوم دیوبند کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں یا ندوۃ کی مجلس شوریٰ میں کوئی مسٔلہ زیر بحث ہو، جامعہ رحمانی مونگیر کو عروج و ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزارنا ہو یا خانقاہ کی مسند سجادگی ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک ہو یا اس کا دور نظامت، شاہ بانو کیس میں نفقہ مطلقہ کے خلاف احتجاج ہو یا ایمرجنسی میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تحریر و تقریر، امارت شرعیہ کے امیر شریعت کی حیثیت سے تنفیذ و شریعت اور توسیع دارالقضاء کی جہد مسلسل ہو یا انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاسی جد و جہد ،قریہ قریہ دعوت دین کا کام  ہویا مدارس کی سرپرستی سب تحفظ شریعت اور دفاع اسلام ہی کے مختلف عنوان ہیں، اور ہر عنوان ایک ضخیم کتاب کا مضمون، اس لیے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نوراللہ مرقدہ نے بجا لکھا ہے کہ"ہندوستان میں اسلام کی حفاظت و صیانت کی تاریخ جب بھی لکھی جاۓ گی وہ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوگی، بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ مولانا کے کالبد خاکی میں جو خون گردش کررہا تھا اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے جو سانس کی آمد و رفت تھی اگر زبان حال کو سننے والے کان ہوتے تو معلوم ہوتا کہ وہ تحفظ شریعت ہی کے لیے وقف تھے"۔

بدھ, نومبر 09, 2022

بڑے میچ میں چمکے بابر اور رضوان، نیوزی لینڈ کو ہراکر تیسری مرتبہ فائنل میں پہنچا پاکستان

بڑے میچ میں چمکے بابر اور رضوان، نیوزی لینڈ کو ہراکر تیسری مرتبہ فائنل میں پہنچا پاکستان

نئی دہلی : اردو دنیا نیوز٧٢

آئی سی سی ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ 2022 کے پہلے سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوا۔ کین ولیمسن نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ڈیرل مچیل کی نصف سنچری کی بدولت ٹیم نے 4 وکٹوں پر 152 رنز بنائے۔ جواب میں پاکستان نے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی دھماکہ خیز اننگز کی بنیاد پر 19.1 اوورز میں 3 وکٹوں کے نقصان پر ہدف کو حاصل کر لیا۔ اس آسان جیت کے ساتھ پاکستانی ٹیم نے تیسری بار ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنالی ہے

آدھی ملاقات " کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی✍️ ڈاکٹر قاسم خورشید

آدھی ملاقات " کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی
✍️ ڈاکٹر قاسم خورشید
 اردو دنیا نیوز٧٢ 
اوراقِ پارینہ  کے روشن ہوتے ہی لفظوں سے تصویریں اُبھرنے لگتی ہیں بہت سی ایسی شبیہیں بھی جنہیں ہماری بے توجہی نے گرد آلود کر دیا تھا ۔مگر مطلع صاف ہونے لگتا ہے تو جیسے گہرے اندھیرے کو روشنیوں کا سلسلہ مِل جاتا ہے 
بس ایک دور تو حال ہی میں ہم سے رخصت ہوا ہے جب ملاقات کی زندہ تصویروں سے ہماری گہری آشنائی تھی رشتہ مستحکم اور غیر مشروط ہونے پر خط کی تحریروں کے ساتھ پیغام زبانی يا تحریرِ لامکانی کا بھی خاصا دخل ہوا کرتا تھا
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ   تو  پیغامِ  زبانی  اور  ہے

 ہمارے عہد کے بہترین دانشور اديب محقق مدبر مقرر اور مذہبی رہنما مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کا اکابرین معاصرین اور متعلقین کے نام خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات " جب منظرِ عام پر آیا تو خطوط نویسی کی نئی جہتوں سے نئے عہد کو روشناس ہونے کا موقع ملا
حالانکہ مفتی صاحب نے شروع میں بی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
"مکتوب نگاری کا فن مردہ ہوتا جارہا ہے جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھی کاروباری اور تجارتی زیادہ ہے،جس میں سودوزیاں کا ذکر زیادہ ہے  اور جذبات کی دہلیز پر برف کی موٹی سل ڈال دی جاتی ہے ،ایسے خطوط بے رس ،ہے کیف ،خشک اور سپاٹ ہوتے ہیں "
مفتی صاحب رشتوں کی ہم نوائی کے طرفدار ہیں ظاہر ہے تمام عمر جو شخص سماجی سروکار کے وقف رہا ہو اس کے  مشاہدے میں سماج کا بڑا حلقہ رہا ہے جس انہماک اور شدّت سے وہ انسانی فلاح و استحکام کے کام کر رہے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگوں سے بار بار ملاقات کی وجہ سے ذاتی رشتا بھی استوار ہو ہی جاتا ہے رشتے میں توقعات بھی ناگزیر ہیں مگر مرکزیت محبت ہے اور زیادہ تر والہانہ تعلقات میں غیر مشروط معاملات ہی ہوا کرتے ہیں ہمارے ادب کا بیشتر حصہ رشتوں کا رزمیہ ہے تمام اصناف اور خصوصی طور پر تخلیقی ادب کے شہہ پاروں میں زندگی سے زیادہ زندگی، تصوّر سے زیادہ افلاک، تصنع سے زیادہ سبک روی ،خیال سے پرے الہام ،سر آئینہ سے روشن پسِ آئینہ ،حقیقت سے بہتر فسانے کا التزام نظر آتا ہے ایسے میں معتبر یت ہی بے اماں ہو جاتی ہے غالب بھی جب اپنے اشعار کے رموز سے باہر آئے تو خطوط میں تمام تر بندشوں سے آزاد ہوکر بس خوشبو میں رچے بسے رشتے کے ساتھ گویا ہوئے اور غالب کی غیر معمولی نثر نگاری کے اوصاف اُن کے خطوط میں یوں روشن ہوئے کہ غالب کی نثر بھی ہمارے لیے  فکری اور فطری خصائص کے لیے رہنما اصول کے قالب میں ڈھل گئی
مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب بھی جب اپنے مضامین اپنی تقریروں سے باہر آئے تو اکابرین معاصرین کے نام خطوط سے گزرتے ہوئے شدّت سے محسوس کیا کہ رشتوں کی رفاقت سے وہ یکسر محروم ہو جاتے اگر خطوں میں کھلنے سے قاصر رہتے 
مَیں کہہ چکا ہوں کہ مفتی صاحب کی زندگی سماجی فلاح و استحکام کی نذر ہے اس لیے انسانی رشتے کے بھی بڑے نبّاض بن کر ابھرے ہیں اکابرین کے نام اُن کے خطوط سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کتنی شفقت کتنی حمایت حاصل رہی ہے
مفتی صاحب اکثر مقامات پر  اپنے مضامین سے زیادہ خطوط میں کھلے ہیں حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی حضرت نظام الدین صاحب قاضی مجاہد الا سلام قاسمی مفتی سعید احمد پالن پوری مولانا سعید ارحمن اعظمی حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی حضرت خالد سیف اللہ رحمانی  قاری مشتاق احمد مولانا سید محمد شمس الحق  یا دوسری طرف مولانا انیس الرحمن قاسمی  مفتی نسیم احمد قاسمی  ڈاکٹر سعود عالم قاسمی جناب اجمل فرید کے ساتھ اہل خانہ اور متعلقین کے نام اُن کے خطوط کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب نے کس طرح رشتوں کے استحکام کے عمل میں چابکدستی سے سماجی منظر نامے بھی پیش کیے ہیں بعض اوقات کاروباری خطوط بھی نجی نوعیت کے ہو گئے ہے مشاھیر سے مفتی صاحب کے رشتے کی مضبوطی کا بھی شدید احساس ہوتا ہے خطوط کے مطالعے سے جہاں یہ  بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح عالمی سطح پر اسلام کے فروغ کو عملی صورت بھی دی جاتی رہی ہے
بعض نکات جو عام طور پر مضامین میں جگہ نہیں حاصل کر پاتے ہیں خطوط میں آسانی سے بیان ہو جاتے ہیں انداز سے ہی صداقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
مولانا رابع حسنی ندوی کے نام سبھی خطوط مطالعے کو رو سے ناگزیر ہیں
"......گزشتہ سال دوبئی کے حاکم متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم کی دعوت پر جائزہ قرآن کریم میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہوئی تھی اور کم از کم بارہ خطابات ہوئے تھے _اس سفر میں امارت شرعیہ کا کھل کر تعارف ہوا تھا،اس کی وجہ سے عام فضا امارت کے حق میں بنی "
مفتی صاحب کے ایسے تمام خطوط کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے جن سے امارت کی خدمات کے ساتھ وقت وقت پر بنائی گئی پالیسیوں کا بہت سہل انداز میں جانکاری حاصل ہو جاتی ہے ۔مفتی صاحب نے تمام عمر دیہی علاقوں میں بھی تحریک کو عملی صورت دینے میں بہترین خدمات دی ہیں ویشالی کے گاؤں کے حوالے سے مکفر اسلام حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب سے استفادے کے سلسلے میں اُن کے خطوط اس کی تصدیق یوں کرتے ہیں 
" ويشالی ضلع کے قریہ و دیہات سے حضرت امیر شریعت رابع کا ربط بڑا گہرا ,مضبوط اور مستحکم تھا ،عقیدت مندوں اور متوسلین کی بڑی تعداد وہاں تھی،حضرت کے وصال کے بعد یہ ربط انتہائی کمزور ہو گیا،آپ کی تشریف آوری سے تعلقات کی تجدید ہوگی اور اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ یہ باعث خیر و فلاح ہوگا"
اسی طرح جابجا اپنے خطوط میں مفتی صاحب کے افکار بھی کھلتے ہیں ملک اور سماج میں درپیش مسائل کے حوالے سے بھی انہوں نے بار بار قلم اٹھایا ہے اور کئی مقامات پر مایوسیوں کے باوجود گفتگو بند نہیں کے ہے وہ اپنی کاوشیں جاری رکھتے ہیں جابجا اپنے مقامی صوبائی ملکی اور غیر ملکی سفر کا مقاصد کے ساتھ ذکر کیا ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ تحریک بھی پہنچاتے ہیں اپنے خطوں میں وہ مسائل اور وسائل دونوں کا ذکر کرتے ہیں بعض مقام پر سخت گیری بھی ہے مگر مقصد فلاح سے مزیّن ہے
مفتی صاحب خطوط نگاری کے موجودہ رویے سے بھلے نالاں ہوں مگر اب بھی وہ اپنی پرانی روش پر ہی قائم ہیں خطوط کے ذریعے جس طرح وہ کسی عمل کو دستاویزی صورت عطا کرتے ہیں وہ اس صنف کی بقا کے لیے بےحد ضروری ہے انہیں بھی غالباً یہ اندازہ ہے کہ گلوبل عہد میں خطوط نے ترسیل کی صورت بدلی ہے مگر موقف بدلنا آسان نہیں ہے اب بھی ہم میسیج یا چیٹ سے گفتگو کرتے ہیں پہلے ٹیلیفون نے ترسیل کی سمعی صورت کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی اب بھی ہم اپنی ساتھ سے پیغام دینے کے لیے مختلف سمعی بصری طریقے اپنائے ہیں مگر اب بھی  کل کی طرح آج بھی متن سے لیس ہونا ناگزیر ہے لفظوں کی دنیا کبھی ختم نہیں ہو سکتی اس لیے جہاں جس فورم میں ترسیل کے لیے لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے حوالے میں رہیں گے ہی_اس لیے خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات" مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کی زندہ تحریروں کے لیے بہترین تحقیقی دستاویز بھی ہے 
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
🟤 ڈاکٹر قاسم خورشید
ماہرِ تعلیم و سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار
9334079876

منگل, نومبر 08, 2022

فائیوجی5G مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

فائیوجی5G 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان نیٹ کی دنیا میں پانچویں نسل کا استقبال کررہا ہے ، اس پانچویں نسل کو 5Gکے نام سے جانا اور پہچانا جارہا ہے ، وائرلیس رابطہ ٹکنولوجی کا بابا آدم 1Gکو مانا جاتا ہے، اسے ۱۹۸۰ء میں متعارف کرایا گیا تھا، اس کی وجہ سے موبائل فون نے کام کرنا شروع کیا، لیکن اس پر صرف گفتگو (کال) کی جا سکتی تھی، وہ بھی محدود دائرہ میں ، اس کی رفتار ۴ء ۲ کے بی پی اس (KBPS) تھی اور اس پر انٹر نیٹ کام نہیں کرتا تھا۔
 دوسری نسل کا تعلق 2Gسے تھا، اسے فن لینڈ نے ۱۹۹۱ء میں پیش کیا تھا، اس نسل کی طاقت 1Gسے چھبیس (۲۶)گنا زیادہ تھی اور اس کی رفتار ۶۴؍ کے بی پی اس(KBPS) تھی، اس کی وجہ سے پیغام وتصویر رسانی کا کام انٹرنیٹ کے ذریعہ ممکن ہوا، بعد میں پیغام رسانی کی رفتار 2Gکی تین سو چوراسی(۳۸۴) کے بی پی ایس تک پہونچ گئی، جس کی وجہ سے ای میل اور کیمرہ والے موبائل کے استعمال کی شروعات ہوئی۔
 ۲۰۰۳ء میں اس نے اور ترقی کی اور اس کی تیسری نسل 3Gسامنے آئی، رفتار کے ساتھ اس کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہوا ، اس کے دور میں نیٹ کے ذریعہ فائل کی منتقلی، ویڈیو کانفرنسنگ اور ویڈیو آڈیو کی ترسیل میں تیزی آئی، اور تین منٹ کے کسی ویڈیو کو صرف گیارہ سکنڈ میں منتقل کر نا ممکن ہو سکا، آگے کی جانب بھی کیمرہ کام کرنے لگا، جس سے سیلفی لینے کا رواج عام ہوا۔
 3Gکی رفتار سے پچاس فی صد تیز چوتھی نسل 4G کی شکل میں سامنے آیا، اس کی وجہ سے ویڈیو اور فلموں کی ترسیل جو تین چار منٹ کے اندر ہوتی تھی، صرف گیارہ سکنڈ میں ہونے لگی، جب کہ 3Gمین نیٹ ہی بند ہوجایا کرتا تھا، خدمات کا دائرہ 4Gکی وجہ سے بڑحا تو نہیں لیکن پچاس فی صد تیزی سے کام ہونے لگا۔
4Gکے بعد 5Gکا صارفین کو انتظار تھا، وزیر اعظم نے پہلے مرحلے میں دہلی ، ممبئی، چنئی، کولکاتہ کے ساتھ گروگرام، پونے، بنگلورو، چنڈی گڈھ ، جمنا نگر، احمد اآباد، حیدر آباد، لکھنؤ اور گاندھی نگر میں اس کے استعمال کی شروعات کرادی ہے، فی الوقت ایرٹیل نے نیلامی میں بڑی بولی لگا کر اس خدمت کو اپنے نام کر لیا ہے، جلد ہی جیو اور اڈوانی کی اڈانی ڈاٹانیٹ ورکس بھی اسے شروع کر سکتی ہے، اس کے شروع ہونے سے صنعت وحرفت کمپنی اور کار خانوں کے کاموں میں تیزی آئے گی ، آن لائن تعلیم میں سہولت ہوگی ،کیوں کہ اس کی رفتار 4Gسے سو گنا زیادہ ہے، اس کی وجہ سے فوری اور بر وقت تصویر ، پیغام، ویڈیووغیرہ کی ترسیل ہو سکے گی ، بڑی سے بڑی فائل کو اپلوڈ کیا جاسکے گا اور یہ کام پلک جھپکتے ہو سکے گا۔
 اس کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ جس سے آپ یہ خدمت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس نے اس کا اسپکٹرم خریدا ہو، اس کے پاس 5Gکی سہولت ہونی چاہیے، ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے علاقہ میں ابھی وہ کام نہیںکر رہا ہو، آپ کا موبائل ٹیبلیٹ ایسا ہونا چاہیے جو 5Gکی خدمات کو قبول کر سکے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے موبائل ٹیبلیٹ میں اتنی صلاحیت نہ ہوتو آپ کو اس صلاحیت کا موبائل الگ سے خرید نا پڑ سکتا ہے ۔
 آج کل 5Gکے فرضی ایجنٹ گاؤں میں گھوم کر 5Gکی خدمات فراہم کرنے کے لیے صارفین کو تیار کر رہے ہیں اور ان سے موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے، تاکہ آپ کو دھوکہ دے کروہ چلتے نہ بنیں۔

*تحریک پیام انسانیت ارریہ کی ایک اہم نششت* بمقام: مسجدمدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ

*تحریک پیام انسانیت ارریہ کی ایک اہم نششت*
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 بمقام: مسجدمدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ
سبھی باوقارعلماء ،حفاظ وائمہ مساجد اورہمدردان وبہی خواہان ملک وملت کو مطلع کیاجاتاہے کہ تنظیم ابناءندوہ ارریہ  کےزیراھتمام  تحریک پیام انسانیت کی ایک اہم نشست مورخہ 9/نومبر،بروزبدھ بمقام مدرسہ یتیم خانہ ارریہ بوقت  2:30 دوپہر *  رکھی گئی ہے،جسکا
*پہلاایجنڈا:* مفکر اسلام *حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ کی  تحریک *تحریک پیام انسانیت* *मानवता का संदेश* ("جوکہ تمام تنظیموں اوراداروں کی معاون تحریک بلکہ انکےلئےحصارکادرجہ رکھتی ہے ,جس کا مقصد برادران وطن کے ساتھ اخوت ومحبت، ہم آہنگی وبھائی چارگی اورآپسی اتحاد و اتفاق کو فروغ دیناہے)علاقہ میں اسکوفعال بنانےاورزمین سےجڑ کرمؤثرترین سطح پرکام کرنے اوراسکےلئےلائحہ عمل تیارکرنےپرغوروفکرکرناہے۔
*دوسراایجنڈا:* 13/نوبر2022  کو جانشین علی میاں حضرت مولاناسیدبلال عبدالحی حسنی ندی دامت برکاتہم ناظرعام دارالعلوم ندوۃالعلماءلکھنؤ وجنرل سکریٹری آل انڈیاپیام انسانیت فورم کی قیادت میں پٹنہ میں منعقدہونےوالےپیام انسانیت کےاجلاس عام میں سرزمین سیمانچل سےایک بڑی تعدادکی شرکت نمائندگی اوراسکی شکلوں پرغوروخوض ہوگا۔
تیسراایجنڈا: متفرقات 
آپ حضرات سےاپیل ہےکہ
بلا تفریق مسلک ومشرب اپنی مصروف ترین زندگی میں سےکچھ وقت نکال کر ملک میں امن و امان کی فضاقائم کرنےکی غرض سےللہ فی اللہ اس نششت میں شریک ہوں. ہمارا عزم ہےکہ جس تیزی کے ساتھ اس ملک میں نفرت کی ہوا چلےگی ہم اسی تیزی کےساتھ بلکہ اس سےبھی زیادہ تیزی کےساتھ ملک عزیز میں محبت کی دیا جلائیں گے۔
الداعی: جملہ اراکین وخدام تحریک پیام انسانیت فورم ارریہ،وتنظیم ابناءندوہ ضلع ارریہ

پیر, نومبر 07, 2022

رِشی سونک - برطانیہ کے نئے وزیر اعظممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رِشی سونک - برطانیہ کے نئے وزیر اعظم
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  برطانیہ کی وزیر اعظم اور کنزرویٹوپارٹی کی رہنما لرز ِبرس نے پینتالیس دن بعد اپنے عہدہ سے ۲؍ اکتوبر کو استعفیٰ دے دیا، انہوں نے پریس کانفرنس میں اس کی وجہ بتائی کہ میں وہ کام نہیں کر پا رہی تھی، جس کے لیے مجھے وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا، یہ سیاست میں اخلاقیات کی عمدہ مثال ہے، ہم برطانوی تہذیب وثقافت سے جس قدر بھی اختلاف رکھیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاست داں اس اخلاقی اقدار سے کوسوں دور رہیں، اور ملک چاہے جہاں پہونچ جائے وہ کرسی چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
یقینا لرزبڑ س کے استعفیٰ کے پیچھے برطانوی سیاست میں جاری خلفشار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جس کی وجہ سے گذشتہ چار ماہ میں برطانوی عوام نے تین وزراء اعظم اور چار وزیر خزانہ کو دیکھا ، اور پھر بھی ملکی معیشت کو مضبوط بنیاد نہیں مل سکی، اس کی وجہ سے عالمی سطح پر برطانیہ کی ساکھ کو کافی نقصان پہونچا، ایسا ممکن ہے کہ اگلے انتخاب میں کنزرویٹو پارٹی کا صفایا ہوجائے اور لیبر پارٹی بر سراقتدار آجائے، لیکن انتخاب ابھی دور ہے، اسے ۲۰۲۴ء میں ہونا ہے، اور پارلیمان میں کنزرویٹو کو اکثریت حاصل ہے، اس لیے کنزر ویٹو ممبران نے ہند نزاد رشی سونک کا اگلے وزیر اعظم کے طور پر انتخاب کر لیا ہے، سابق وزیر اعظم بورس جانسن کی حمایت اورآخری مرحلہ میں پینی مورڈ انٹ کے اپنے نام واپس لینے کی وجہ سے یہ انتخاب متفقہ طور پر ہوا،بادشاہ چارلس سوم نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی اور وہ باضابطہ وزیر اعظم ہوگئے۔
وزیر اعظم رشی سونک برطانیہ کے سب سے کم عمر ہند نزاد سنتانویں(۵۷) وزیر اعظم ہیں، دسمبر ۱۷۸۳ء میں ولیم پٹ صرف چوبیس سال کی عمر میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، رشی سونک کی عمر اس وقت بیالیس (۴۲) سال ہے، اس طرح دو سو دس (۲۱۰) سال کی مدت میں وہ سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے ہیں، ان کے دادا گوجرا نوالہ میں پیدا ہوئے تھے جو اب پاکستان میں ہے نقل مکانی کینیاکرکے برطانیہ چلے گیے تھے، وہیں رشی سونک کی پیدائش ہوئی، انہوں نے ۲۰۰۹ء میں انفورٹس کے شریک بانی نارائن درورتی کی بیٹی سے اکچھتا مورتی سے شادی کی، اکھچتا مورتی کے پاس آنجہانی ملکہ الزبتھ سے دوگنی دولت ہے، اکھچیتا کی انفوسس میں ستر کروڑ ڈالر کے حصص ہیں، جب کہ ملکہ کے پاس صرف چھیالیس کروڑ مالیت کی منقولہ وغیر منقولہ جائداد تھی، اس طرح بیوی کے واسطے سے رشی سونک برطانیہ کے مالدار ترین انسان ہیں۔
 رشی سونک کے اس عہدہ تک پہونچنے کی مدت صرف سات سال ہے، ۲۰۱۵ء میں وہ یارک شایر کے رچ منڈ حلقہ سے پہلی بار پارلیامنٹ کے لیے چنے گیے تھے، اس درمیان ۲۰۱۶ء میں وہ بریگزٹ کی حمایت میں تحریک چلانے کی بنیاد پر لوگوں میں مقبول ہوئے، پارٹی میں اپنے اثرات بڑھائے، ۲۰۱۷ء میں دوبارہ چُن کر آنے کے بعد پارلمنٹری پرائیوٹ سکریٹری بنے، ۲۰۱۸ء میں تھریسا کے دور میں پہلی بار وزیر بنے، تیسری بار ۲۰۱۹ء میں منتخب ہونے کے بعد بورس جانسن کی حمایت میں آگے آئے، ۲۰۲۰ء میں وزیر خزانہ بنے، کورونا کے زمانہ میں برطانیہ کی معیشت کو گرنے نہیں دیا، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچ گیے۔
 اس وقت پرتگال اور ماریشش کے وزیر اعظم اور سنگاپور، سُوری نام گویا نا، سے شیل اور ماریشش کے صدر بھی ہند نزاد ہیں، اس کے علاوہ امریکہ کناڈا، نیوزی لینڈ، آئر لینڈ، جاپان ، کینیا، نیدر لینڈس، پرتگال اور بہت سارے دوسرے ملکوں میں بھی ہندوستانی نزاد بڑے عہدے ومناصب پر فائز ہیں، لیکن ہندوستانی میڈیامیں رشی سونک کا وزیر اعظم بننا اس لیے چرچا کا موضوع رہا کہ جس ملک کو انگریزوں نے دو سو سال تک اپنا غلام رکھا، وہاں ایک ہندوستانی نزاد اعلیٰ منصب تک پہونچ گیا، اسے ایک اعزاز اور فخر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کملا ہاسن بھی جب امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوئی تھیں تو ایساہی شور مچا تھا، خوشی منانا بُرا نہیں ہے، لیکن جب ہم سونیا گاندھی کو غیر ملکی کہہ کر وزیر اعظم کی کرسی تک نہیں پہونچنے دیتے ، علامہ اقبال سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لکھنے اور ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود غیر ملکی ہیں، پشتوں سے رہ رہے یہاں کے لوگوں پر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ غیر ملکی ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، ایسے میں ہمیں رشی سونک کے ہندوستانی نزاد ہونے پر تالی پیٹنے کا کیا جواز بنتا ہے اور اس سے ہندوستانی مسائل ومعاملات میں کیا بہتری آئے گی، یہ چرچا کا موضوع ہے۔
وزیر اعظم رشی سونک کے لیے آگے کی راہ آسان نہیں ہوگی، حالاں کہ وہ بورس جانسن کی وزارت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، جو برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہے۔۲۰۱۶ء میں برطانیہ کے بریگزٹ سے نکلنے کے فیصلے ، ریفرنڈم اور اس کے نتیجے میں چار فی صد کی اکثریت سے بریکزٹ حامیوں کی جیت نے برطانوی عوام کو مسلسل تذبذب میں ڈال رکھا ہے، اور ملک تیزی سے کسادبازاری کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی منڈی میں اپنی ساکھ بچانے کے لیے اور بر طانوی پونڈ کی قیمت کو ڈالر اور یورو کے مقابل بنائے رکھنے کے لیے بھی برطانیہ کو اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرنی پڑے گی، سست رفتار ترقی، افراط زر، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ جیسے اہم امور سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے، وہاں بادشاہت بھی طاقت کا روایتی مرکزرہے ہے، ملکہ کے انتقال کے بعد ابھی ان کے صاحب زادہ نے مسند کو سنبھالا ہی ہے، ایسے میں ان کے رویہ اورسوچ کا بھی اقتدار پر اثر پڑے گا۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہار وجھارکھنڈ کے چار شعراء وادباء کے اعزاز میں اعزازیہ تقریب ومشاعرہ

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہار وجھارکھنڈ کے چار شعراء وادباء کے اعزاز میں اعزازیہ تقریب ومشاعرہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 

پٹنہ پھلواری شریف 06/نومبر 2022 ( پریس ریلیز) صوبہ بہار وجھارکھنڈ کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔  سے  تعلق رکھنے والے چار مشہور ومعروف شاعر ناشاد اورنگ آبادی، قوس صدیقی پٹنہ، شکیل سہسرامی ،دلشاد نظمی رانچوی کے اعزاز میں قوس صدیقی کے زیر صدارت خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا،
تقریب کا اہتمام  محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی  ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بناء پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراء وادباء کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے دنیائے ادب کے سامنے اجاگر کرنے کی بھر پور سعی کرتی ہے، معلوم ہو کہ مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ  کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم اور ایک لائبریری ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری  بھی چل رہی ہے، جہاں  بچے بچیاں اپنی علمی وادبی پیاس بجھا رہے ہیں ،
 پروگرام  کی نظامت مشہور ومعروف شاعر ناظم شکیل سہسرامی نے کی ، پروگرام کی شروعات قاری یوسف متعلم مدرسہ ہذا کی تلاوت قرآن سے ہوا، اس موقع پر مشہور ومعروف شاعر، مترجم شکیل سہسرامی نے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے،  پھر چاروں شعراء وادباء قوس صدیقی ،ناشاد اورنگ آبادی ،دلشاد نظمی ،شکیل سہسرامی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مولانا عظیم الدین رحمانی اور دیگر بزرگ شعراء کے ہاتھوں توصیفی سند اور شال سے نوازا گیا،اور ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا، 
مشاعرہ میں شعراء کرام کے غزل سے چند اشعار 
سہیل فاروقی 
یہ کہاں سیکھا ہے انداز عزل گوئی سہیل 
خون دل بیٹھ کے کاغذ پہ نچوڑا کرنا 
شوق پورنوی 
مجھ سے گلہ ہے آپ کو اور آپ سے مجھے 
دونوں ملیں گے مل کے کوئی حل نکال لیں گے 
نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو 
شمیم شعلہ 
اسے پتہ ہے کہ آپس میں اتحاد نہیں 
اسی لئے تو وہ آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے 

ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں 
رنگینئ چمن کی فضا آپ ہی ہیں قوس 
باغ سخنوری کی ہوا آپ ہی ہیں قوس 
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
آدمی آدمی ہی رہتا ہے 
چاہ کر بھی خدا نہیں ہوتا 
محترمہ سویتا غزل 
کیا ضروری ہے کہ ہر بات زباں سے بولوں 
آپ تو خوب سمجھتے ہیں اشارہ میرا 
میر سجاد
رکھتے آئے ہیں جو ہر دور میں شیشے کا مکاں 
وہ بھی آئیں گے کبھی ہاتھ میں پتھر لے کر 
ناشاد اورنگ آبادی 
سکون تو یوں ضروری ہے آدمی کے لئے
یہ بات سچ ہے مگر ہے کسی کسی کے لئے
میم اشرف 
سورش اعمال کا کیا اثر دیکھتے لوگ 
دیکھنا آسان نہیں ہوگا مگر دیکھتے لوگ 
چودھری سیف الدین سیف 
شیشہ دل میں بسائی جب سے ایک تقدیر ہے 
دل کے بہلانے کی بس چھوٹی سی ایک تدبیر ہے 
شکیل سہسرامی 
یہ بات ان کے لئے نقطہء اہم ہے بہت 
مری خوشی کا مرے حاسدوں کو غم ہے بہت 
دلشاد نظمی (مہمان خصوصی) 
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے 
مگر کچھ عادتیں دلشاد نظمی گھر سے آتی ہیں 
مرغوب اثر فاطمی (مہمان خصوصی شاعر) 
ایک نظم، ناجائز 
یہ معجزہ سے نہ تھا کم وہیں گڑا جھنڈا 
انا کی جنگ میں ہم جس جگہ پہ ہارے تھے، 

آخر میں ناظم مشاعرہ شکیل سہسرامی نے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میری زندگی کے یادگار کا حسین لمحہ ہوگا، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن جید عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ وصدر مدرس مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی تشہیر واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم قوس صدیقی کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا،اس پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی،  ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...