Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 12, 2022

امارت شرعیہ: ترقی کی طرف بڑھتے قدممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ: ترقی کی طرف بڑھتے قدم
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آٹھویں امیرشریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ کا انتخاب بحیثیت امیر شریعت 9؍اکتوبر2021ء کو کثرت رائے سے ہوا تھا۔ ؍اکتوبر2021ء کو پورے ایک سال مکمل ہوگئے، ان ایام میں حضرت امیر شریعت کی مخلصانہ جد و جہد، رہنمائی اور بروقت اقدام کی صلاحیت کی وجہ سے امارت شرعیہ کا یہ کارواں ہر دم رواں ہے، اس ایک سال میں دس نئے دار القضاء کھولے گئے حضرات قضاۃ اور کارکنوں کی بحالی عمل میں آئی، ہفتہ وار ذیلی دار القضاء سے رپورٹ مرکزی دفتر بھیجنے کا سلسلہ شرع ہوا،تاکہ مرکزی دار القضاء ذیلی دار القضاء کے احوال سے بر وقت با خبر رہے،بدلتے ہوئے حالات میں بعض مسائل میں تنقیح کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے ۱۳؍ تا ۱۵؍ نومبر ۲۰۲۲ء کل ہند سمینار جمشیدپور میں رکھا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ حضرات قضاۃ اور وکلاء کی بحث وتمحیص اور غور وفکر کے نتیجے میں شرعی طور پر مثبت راہ سامنے آئے گی، اور اس کے دوررس اثرات مرتب ہوںگے۔
بنیادی دینی تعلیم کے لئے امارت شرعیہ کے پاس خودکفیل نظام تعلیم کا جامع منصوبہ پہلے سے موجود تھا اور سابق امراء شریعت اس منصوبے پر عمل درآمد کے خواہش مند بھی تھے، حضرت امیرشریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خودکفیل نظام مکاتب کو رواج نہیں دیا گیا تو یہ کام بڑے پیمانے پر نہیں ہوسکتا کیوں کہ کسی بھی تنظیم کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ وہ بنیادی دینی تعلیم کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے گاؤں گاؤں مکاتب کھول سکے۔ اس لیے اس مسئلہ کا حل خودکفیل نظام تعلیم ہی ہے۔ آٹھویں امیر شریعت نے اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے خود کفیل نظام تعلیم کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس وقت تک نوے مکاتب خودکفیل قائم ہوچکے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم کے لئے بیداری پیدا ہوئی ہے اور دور دراز کے دیہات کے لوگ بھی اس کام کو اپنی ضرورت سمجھنے لگے ہیں۔مکاتب اور اس میں بنیادی دینی تعلیمی دینے والے اساتذہ وائمہ مساجد کا سہ روزہ بین المکاتب والمدارس اجتماع ۱۶؍ تا؍ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء مدینہ مسجد بڑی شیخانہ بہار شریف میں منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں معلمین نے شرکت کی، حضرت نے مکاتب کے نصاب تعلیم کی ازسرنو ترتیب پر زور دیا جس پر کام جاری ہے۔
 عصری تعلیم کے فروغ اور مسلم آبادیوں تک اسے پہونچانے کیلئے امارت پبلک اسکول کے قیام کا منصو بہ امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمدولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بنایا تھا، گر یڈ یہ اور نگری ( رانچی) میں کام بھی آپ کے وقت میں شروع ہوگیا تھا ،ار با رانچی میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد بھی آپ نے ڈالی تھی ۔موجودہ امیر شریعت نے اس کام کو ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھایا۔ آپ کی توجہ سے پانچ نئے اسکول کٹیہار، پورنیہ، کٹک ، گڈا اور ار با میں قائم کئے گئے ، ایک ہائی اسکول آسنسول میں مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول اور ایک پٹنہ میں قاضی نور الحسن میموریل اسکول اس کے علاوہ ہے جو پہلے سے چل رہا ہے ۔ معیاری تعلیم وتر بیت، اسلامی ماحول اور بنیادی دینی تعلیم کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی وجہ سے ان اداروں کی طرف کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات کا رجوع ہے ، اسلام میں مخلوط تعلیم کا تصور نہیں ہے ، اس لیے ان اسکولوں میں درجہ سوم کے بعد طلبہ وطالبات کی تعلیم کاالگ الگ شفٹوں میں انتظام کیا گیا ہے ۔
ہائی اسکول سطح کی تعلیم کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت ہی کے دور میں کریش کورس شروع کیا گیا ، جس سے طلبہ و طالبات نے فائدہ اٹھایا اور نہ صرف اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے بلکہ اعلی تعلیم کے لیے معیاری درسگاہوں میں ان کے داخلہ کا راستہ بھی صاف ہوا۔ان دنوں اگلے سیشن کے لیے کریش کورس میں داخلے جاری ہیں ۔
 سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کے جو نقصانات ہو سکتے ہیں ،اس کے تجزیہ کے لیے آپ نے ایک کمیٹی بنائی یہ نصابی کمیٹی عصری علوم کی درسگاہوں کے لئے ایک نصاب ترتیب دے گی اور اسے تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس سلسلہ میں کمیٹی کے ارکان کی آرا ء تحریری طور پر موصول ہوگئی تھیں ،15اکتوبر کی میٹنگ میں اس موضوع پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا اور لائحہ عمل طے کیے گیے، تاکہ نئی تعلیمی پالیسی سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کی شکل نکالی جا سکے ۔ نقیب کو قارئین کے لئے پرکشش اور مفید سے مفید تر بنانے کے لئے حضرت کی صدارت میں کئی میٹنگیں ہوئیں، بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے جو ہدف مقرر کیا تھا، اس پر غور وفکر کے بعد بعض مضامین کا اضافہ کیا گیا اور بعض موضوعات کو خصوصیت کے ساتھ نقیب کا حصہ بنایا جار ہا ہے ، تا کہ بدلتے ہوئے حالات میں وہ عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرسکے۔
تنظیم اور دعوت وتبلیغ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے اس شعبہ میں مزید پچیس افراد بحال کیے گئے ، اس درمیان چھ سو چالیس گاؤں میں جدید تنظیم قائم ہوئی ، قدیم تنظیموں کو فعال اور متحرک رکھنے کے لیے آٹھ اضلاع میں ضلعی کمیٹیوں کی میٹنگ کی گئی اور سنتاون(۵۷) اضلاع کی ضلعی کمیٹی کے ذمہ داروں کی فہرست کو آخری شکل دی گئی۔ ضلع وار میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے ، نقباء کے اجتماع اور بلاک سطح تک امارت شرعیہ کے ذمہ داران کی تعیین کا جو کام حضرت امیر شریعت سابع مولا نا محمد ولی رحمانیؒ نے شروع کیا تھا۔ اس کو وسعت دی گئی اور جلد ہی یہ ا جلاس آئندہ ماہ جمشید پور، ارریہ اور اور سہرسہ میں منعقد ہوگا ۔
مبلغین کی تربیت کا بھی حضرت نے ایک نظام بنایا اور اس کے لئے جدید انداز میں فکری و عملی تربیت کی خا کہ بندی کی گئی ؛جس کے مطابق تربیتی موضوعات پر مضامین تیار کرائے جار ہے ہیں، امید ہے کہ تربیتی نظام ان شاء اللہ پہلے سے زیادہ مؤثر اور مفید ہوگا ۔اسی طرح وفود کے دورے بھی ہو رہے ہیں۔
امارت شرعیہ میں شعبہ امور مساجد بہت پہلے سے قائم ہے ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تحر یک پرائمہ کے لیے سہ روزہ تربیتی کیمپ لگائے گئے۔اور ان میں اذان ، نماز ، وضواورقرآت قرآن کی عملی مشق ہوئی تھی ۔ اسی موقع پر دہلی سے مولانا عبداللہ طارق خاص کر بلائے جاتے تھے ، قاضی صاحب بعض امور پر تربیت کی ذمہ داری احقر کے ذمہ کرتے تھے ، گذشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ موقوف تھا، حضرت امیر شریعت ثامن کے حکم سے شعبہ امور مساجد میں فعالیت آئی ہے اورگیارہ روزہ اور یک نشستی تربیتی کیمپ کا انعقاد ہوا، جس سے ائمہ کرام میں اصلاح معاشرہ ، جمعہ کی تقریر میں موضوع کا انتخاب اور عوامی رابطہ کے سلسلہ میں بیداری آئی۔
 بیت المال کے نظام میں بھی تبد یلی لائی گئی ، آپ نے حسابات کو جدید طریقوں کے مطابق کرنے کا حکم دیا اور اسے سرکاری نظام کے تابع کیا گیا، کارکنوں کی تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ پی ایف اور ای ایس آئی کی سہولت فراہم کرائی گئی۔ غرباء اور ضرورت مندوں کی امداد پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس کا ایک فارم تیار کر کے بلا واسطہ مستحقین تک رقومات کی فراہمی ٹرسٹ کے ضابطوں کے یقینی بنائی گئی ۔ بیوگان محتاجان کے وظائف جو پہلے سے جاری تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وقتی طور پرموقوف ہو گئے تھے اسے پھر سے جاری کیا گیا۔
 تین نئے شعبے منصوبہ سازی ، تحفظ اوقاف اور اصلاحات اراضی کے کھولے گئے ، سارے منصوبوں کو بنانے اور اس کو زمین پر اتارنے کی ذمہ داری مدیر المشاریع کی حیثیت سے نائب امیر شریعت حضرت مولا نا محمد شمشادرحمانی قاسمی صاحب کو دی گئی وہ پوری مستعدی تندہی کے ساتھ کام کو آگے بڑھارہے ہیں ، اس طرح امارت شرعیہ کی آراضی جو چارصوبوں میں پھیلی ہوئی ہے اس کے تحفظ ، بقا اور سرکاری تقاضوں کی تکمیل کے لئے اصلاحات اراضی کا شعبہ قائم کیا گیا ، جس کی ذمہ داری سابق اے ڈی ایم اور ڈی سی ایل آر جناب عبدالوہاب انصاری کو دی گئی ،اس شعبہ سے امارت شرعیہ کی غیرمنقولہ جائیداد کی حفاظت کا کام لیا جار ہا ہے ۔ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں اوقاف کی جائداد کاخرد بردعام ہے ، اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی مرکزی دفتر میں سرگرم عمل ہے ۔
 مدھوبنی ،مظفر پور، سہرسہ اور گڈا میں امارت شرعیہ کے مختلف مقاصد کو زمین پر اتارنے کے لیے وسیع قطعہ اراضی کا حصول بھی اس ایک سالہ دور کا اہم واقعہ ہے ، ان زمینوں پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے مدیر المشاریع منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔
امارت شرعیہ کی تاریخ کو زندہ رکھنے اور ا کا بر امارت شرعیہ کی خدمات سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے مولانامحمدعثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر ایک روزہ مضبوط اور وقیع علمی سیمینار بھی حضرت کے دور میں منعقد ہوا ، اس سیمینار کی منظوری حضرت امیر شریعت سابع رحمۃ اللہ علیہ نے دی تھی لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے یہ سیمینار منعقد نہیں ہو سکا تھا، حضرت امیر شریعت ثامن مدظلہ کی صدارت میں منعقد اس سیمینار نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ پر دودہائی قبل منعقد ہونے والے سیمینار کے بعدامارت شرعیہ کی جانب سے منعقد ہونے والا کسی شخصیت پر یہ دوسرا سیمینار ہے ۔اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کے موقع سے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے رفیق کار پر منعقد ہونے والا یہ سیمینا را یک آغاز ہے ، جس سے طویل وقفہ کے بعد دوسرے اکا بر پر سیمینار کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔سوشل میڈیا، پورٹل، اخبارات اور الکٹرونک میڈیا نے اس سمینار کی خبروں کو نمایاں طور پر نشر کیا۔
حضرت امیر شریعت مدظلہ کی خصوصی دلچسپی سے مولا نا سجاد میموریل اسپتال بھی پورے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، یہاں شعبۂ دندان میں رات کی خدمات کا اضافہ کیا گیا ،کاموں کے ڈیجیٹل اور آن لائن طریقہ کارکوفروغ دیا گیا۔
ڈاکٹر عثمان غنی میمور یل گرلس کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ ہارون نگر میں پارا میڈیکل کے شعبہ کا اضافہ ہوا ، دار العلوم الاسلامیہ میں نصابی کتابوں کے ساتھ مختلف مذاہب کے مطالعہ کی شروعات ہوئی ، اس ایک سال میں مختلف جگہوں اور ذیلی اداروں میں تعمیری کام کیے گئے اور ضرورت کے مطابق ان کی تزئین اور آرائش بھی ہوئی ۔
 اس کے علاوہ مختلف عناوین سے بہار اور بہار سے باہرحضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے خطابات نے امارت شرعیہ کے استحکام اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ۔ سفراب بھی جاری ہے ، ہمیں حضرت کی صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر اور کام کے تسلسل میں مزید وسعت کی دعا کرنی چاہئے ۔

جمعہ, نومبر 11, 2022

سوال:

نماز میں کل کتنی سنتیں ہیں؟ جزاک اللہ

جواب نمبر: 601080

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:221-151/sn=4/1442

 نماز میں کل اکیس(21) سنتیں ہیں، تعلیم الاسلام(مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ) سے ان کی تفصیل منسلک ہے ،ملاحظہ فرمالیں ۔

نماز کی سنتوں کا بیان

نماز کی سُنّتوں سے کیا مراد ہے ؟

جواب۔ جو چیزیں نماز میں حضور رسولِ کریم ﷺ سے ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر ثابت نہیں ہوئی انہیں سنت کہتے ہیں ۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نہ گناہ ہوتا ہے ۔ اور قصداً چھوڑ دینے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ہوتا ہے

سوال۔ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟

جواب۔ نماز میں اکیس (۲۱) سنتیں ہیں۔_

(۱) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔

(۲) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔

(۳) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔

(۴) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔

(۵) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔

(۶) ثنا پڑھنا۔

(۷) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔

(۸) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔

(۹) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔

(۱۰)آمین کہنا۔

(۱۱) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔

(۱۲) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔

(۱۳) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔

(۱۴)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔

(۱۵) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔

(۱۶) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔

(۱۷) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔

(۱۸) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔

(۱۹) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔

(۲۰) درود کے بعد دعا پڑھنا۔

(۲۱) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

سوال:

نماز میں کل کتنی سنتیں ہیں؟ جزاک اللہ

جواب نمبر: 601080

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:221-151/sn=4/1442

 نماز میں کل اکیس(21) سنتیں ہیں، تعلیم الاسلام(مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ) سے ان کی تفصیل منسلک ہے ،ملاحظہ فرمالیں ۔

نماز کی سنتوں کا بیان

نماز کی سُنّتوں سے کیا مراد ہے ؟

جواب۔ جو چیزیں نماز میں حضور رسولِ کریم ﷺ سے ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر ثابت نہیں ہوئی انہیں سنت کہتے ہیں ۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نہ گناہ ہوتا ہے ۔ اور قصداً چھوڑ دینے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ہوتا ہے

سوال۔ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟

جواب۔ نماز میں اکیس (۲۱) سنتیں ہیں۔_

(۱) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔

(۲) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔

(۳) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔

(۴) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔

(۵) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔

(۶) ثنا پڑھنا۔

(۷) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔

(۸) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔

(۹) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔

(۱۰)آمین کہنا۔

(۱۱) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔

(۱۲) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔

(۱۳) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔

(۱۴)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔

(۱۵) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔

(۱۶) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔

(۱۷) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔

(۱۸) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔

(۱۹) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔

(۲۰) درود کے بعد دعا پڑھنا۔

(۲۱) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

جمعرات, نومبر 10, 2022

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

امیر شریعت رابع امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ،جھارکھنڈ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری،جمعیت علمائے بہار کے سابق ناظم،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ ،سینکڑوں مدارس اور تعلیمی اداروں کے صدر اور سرپرست، تحفظ شریعت کے مرد میداں، ملی، تعلیمی اور رفاہی کاموں کے سرگرم قائد، ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مسلمانوں کے پیر و مرشد ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح کا وصال رمضان المبارک ١٤١١ھ کی تیسری شب  کوخانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوگیا، دوران تراویح ہی دل کا دورہ پڑا، حجرہ میں لے جاۓ گئے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی، سب کچھ منٹوں میں ختم ہو گیا، ١٩/مارچ ١٩٩١ء کی شام شریعت و طریقت کا آفتاب غروب ہوگیا، ٣/رمضان المبارک ١٤١١ھ کو بعد نمازِ مغرب جامعہ رحمانی کے صحن میں ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب (جو بعد میں امیر شریعت سادس ہوئے) جنازہ کی نماز پڑھائی اور اپنے نامور والد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کی قبر کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے،
حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی بن قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری بن سید عبد العلی بن سید غوث علی بن سید راحت علی بن سید امان علی رحمھم اللہ کی ولادت ٩/جمادی الثانی ١٣٣٢ھ روز منگل خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، سلسلہ نسب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے جاملتا ہے، ابتدائی تعلیم خانقاہ رحمانی میں حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر گیارہ سال کی عمر میں ہی حیدرآباد مولانا عبد اللطیف رحمانی صاحب کی خدمت میں بھیج دئیے گئے، ایک سال ہی میں صرف و نحو، منطق اور دیگر فنون سے خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی، وہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور ہدایہ اولین تک کی تعلیم یہیں پائی، طالب علمانہ زندگی کے چار سال یہاں لگاۓ، ١٩٣٠ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور یہاں کے نامور اساتذہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح سے کسب فیض کیا، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حیدر حسن خاں محدث کا نام بھی آتا ہے۔١٩٣٣ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہوئی۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے دوران ہی حضرت مولانا محمد علی مونگیری کا وصال ہوگیا، ظاہر ہے یہ عمر تصوف و سلوک کے کُنہیات سمجھنے کی نہیں تھی، اس لیے تصوف و سلوک کی تربیت بعد میں آپ نے حضرت مونگیری کے خلیفہ حضرت مولانا محمد عارف صاحب سے حاصل کی جو ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ کے رہنے والے تھے، اس راہ میں مرتبہ کمال پر پہونچنے کے بعد مولانا محمد عارف صاحب نے اجازت بیعت و خلافت سے نوازا، ١٩٤٢ء میں جب حضرت مولانا لطف اللہ صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا تو حضرت مونگیری کے تمام خلفاء و مریدین نے خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں  آپ کومقرر کیا  آپ نے مخلوق خدا کی روحانی تربیت  کے ساتھ جامعہ رحمانی کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا، برسوں خود بھی تدریسی کاموں سے منسلک رہے، بعد میں ہجوم کار کی وجہ سے یہ سلسلہ باقی نہ رہ سکا؛ لیکن آپ کی خصوصی توجہ اور طریقہ کار کی وجہ سے جامعہ اور خانقاہ دونوں کی پورے ملک میں ایک شناخت بن گئی،اور اس کا شہرہ ملک و بیرون ملک میں پھیلا۔
 ١٩٣٥ء میں آپ جمعیت علمائے بہار کے ناظم منتخب ہوئے،١٩٣٧ء میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، ٢٤/مارچ ١٩٥٧ء کو حضرت مولانا ریاض احمد سنت پوری کی صدارت میں منعقد اجلاس میں آپ امیر شریعت منتخب ہوئے، اس وقت مجلس ارباب حل و عقد کے نام سے کوئی مجلس نہیں تھی، بڑے علماء اس موقع سے مدعو ہوتے تھے اور امیر شریعت کا انتخاب عمل میں آتا تھا، انتخابی اجلاس مدرسہ رحمانیہ سپول دربھنگہ میں ہوا تھا، نہ پولنگ بوتھ بنا تھا اور نہ ہی بیلٹ پیپر کی چھپائی ہوئی تھی، مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی  تھی، مجلس میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت دوم، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ شریک تھے۔
انتخاب امیر کے بعد شروع کے پانچ سال بڑی آزمائش اور کشمکش کے تھے؛ لیکن جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز کے عطا فرماتا ہے؛ چنانچہ ١٩٦٢ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح جامعہ رحمانی کی معلمی چھوڑ کر امارت شرعیہ آگئے، اور جلد ہی مولانا سید نظام الدین صاحب کو امارت شرعیہ لانے میں کامیاب ہو گئے، حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے کا کام کیا اور امارت شرعیہ کا کام پھلینے لگا، امارت شرعیہ کا دفتر خانقاہ مجیبیہ میں تھا، وہاں سے قاضی نورالحسن اسکول کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا، قریب کی ایک اور بلڈنگ خریدی گئی،بڑی جد و جہد کے بعد امارت شرعیہ کے دفتر کی موجودہ اراضی سرکار سے لیز پر لی گئی اور ١٥/نومبر ١٩٨١ء کو اس زمیں پر حضرت امیر شریعت رابع رح نے دفتر امارت شرعیہ کی سنگ بنیاد ڈالی، اس موقع سے آپ نے فرمایا: 
"میں عمر کی اس منزل پر پہنچ چکا ہوں جہاں لوگ نئے منصوبے نہیں بناتے؛لیکن خدا کے فضل اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے مخلصین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ نیا کام شروع کیا جارہا ہے، قومی اور ملی کاموں کا انحصار افراد پر نہیں ہوتا، میں رہوں یا نہ رہوں اسے پورا کرنے کی ذمہ داری آپ سبھوں کی ہے"۔
جب پارلیمنٹ میں یکساں شہری قانون لاکر مسلم پرسنل لا بورڈ کو کالعدم قرار دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو آپ میدان میں نکلے، ٢٨/جولائی ١٩٦٣ء کو  امارت شرعیہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے فرمائی، مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی نے افتتاح فرمایا، کئ سال کی تگ و دو کے بعد ١٤/١٣ /مارچ ١٩٧٢ء کو دارالعلوم دیوبند میں نمائندہ اجتماع ہوا، اور اس کے فیصلہ کی روشنی میں ٢٨/٢٧/ دسمبر ١٩٧٢ء کو ممبئی میں وہ تاریخی اجلاس ہوا، جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، اپریل ١٩٧٣ء میں حیدرآباد اجلاس میں آپ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور تادم آخری اس عہدے پر فائز رہے۔آپ نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر اعلان کیا:
"میں اس کے لئے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑادی جائیں، ہمارے سینے چاک کر دیۓ جائیں، مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ"مسلم پرسنل لا "کو بدل کر ایک "غیر اسلامی لا" ہم پر لاد دی جائے ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔"
آپ کے وقت میں امارت شرعیہ نے خدمت خلق اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا، مولانا سجاد ہوسپیٹل اور ام ام یو ہائی اسکول آسنسول اس کام کا نقطۂ آغاز تھا، جو بعد کے امراء کے دور میں پھیلا، حضرت کی خدمات کا دائرہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ لکھی جاتی رہیں گی،واقعہ یہ ہے کہ "دامان  نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار"۔
میں اپنے ہی ایک مضمون کے اقتباس پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔
"مولانا دارالعلوم دیوبند کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں یا ندوۃ کی مجلس شوریٰ میں کوئی مسٔلہ زیر بحث ہو، جامعہ رحمانی مونگیر کو عروج و ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزارنا ہو یا خانقاہ کی مسند سجادگی ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک ہو یا اس کا دور نظامت، شاہ بانو کیس میں نفقہ مطلقہ کے خلاف احتجاج ہو یا ایمرجنسی میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تحریر و تقریر، امارت شرعیہ کے امیر شریعت کی حیثیت سے تنفیذ و شریعت اور توسیع دارالقضاء کی جہد مسلسل ہو یا انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاسی جد و جہد ،قریہ قریہ دعوت دین کا کام  ہویا مدارس کی سرپرستی سب تحفظ شریعت اور دفاع اسلام ہی کے مختلف عنوان ہیں، اور ہر عنوان ایک ضخیم کتاب کا مضمون، اس لیے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نوراللہ مرقدہ نے بجا لکھا ہے کہ"ہندوستان میں اسلام کی حفاظت و صیانت کی تاریخ جب بھی لکھی جاۓ گی وہ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوگی، بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ مولانا کے کالبد خاکی میں جو خون گردش کررہا تھا اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے جو سانس کی آمد و رفت تھی اگر زبان حال کو سننے والے کان ہوتے تو معلوم ہوتا کہ وہ تحفظ شریعت ہی کے لیے وقف تھے"۔

بدھ, نومبر 09, 2022

بڑے میچ میں چمکے بابر اور رضوان، نیوزی لینڈ کو ہراکر تیسری مرتبہ فائنل میں پہنچا پاکستان

بڑے میچ میں چمکے بابر اور رضوان، نیوزی لینڈ کو ہراکر تیسری مرتبہ فائنل میں پہنچا پاکستان

نئی دہلی : اردو دنیا نیوز٧٢

آئی سی سی ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ 2022 کے پہلے سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوا۔ کین ولیمسن نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ڈیرل مچیل کی نصف سنچری کی بدولت ٹیم نے 4 وکٹوں پر 152 رنز بنائے۔ جواب میں پاکستان نے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی دھماکہ خیز اننگز کی بنیاد پر 19.1 اوورز میں 3 وکٹوں کے نقصان پر ہدف کو حاصل کر لیا۔ اس آسان جیت کے ساتھ پاکستانی ٹیم نے تیسری بار ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنالی ہے

آدھی ملاقات " کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی✍️ ڈاکٹر قاسم خورشید

آدھی ملاقات " کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی
✍️ ڈاکٹر قاسم خورشید
 اردو دنیا نیوز٧٢ 
اوراقِ پارینہ  کے روشن ہوتے ہی لفظوں سے تصویریں اُبھرنے لگتی ہیں بہت سی ایسی شبیہیں بھی جنہیں ہماری بے توجہی نے گرد آلود کر دیا تھا ۔مگر مطلع صاف ہونے لگتا ہے تو جیسے گہرے اندھیرے کو روشنیوں کا سلسلہ مِل جاتا ہے 
بس ایک دور تو حال ہی میں ہم سے رخصت ہوا ہے جب ملاقات کی زندہ تصویروں سے ہماری گہری آشنائی تھی رشتہ مستحکم اور غیر مشروط ہونے پر خط کی تحریروں کے ساتھ پیغام زبانی يا تحریرِ لامکانی کا بھی خاصا دخل ہوا کرتا تھا
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ   تو  پیغامِ  زبانی  اور  ہے

 ہمارے عہد کے بہترین دانشور اديب محقق مدبر مقرر اور مذہبی رہنما مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کا اکابرین معاصرین اور متعلقین کے نام خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات " جب منظرِ عام پر آیا تو خطوط نویسی کی نئی جہتوں سے نئے عہد کو روشناس ہونے کا موقع ملا
حالانکہ مفتی صاحب نے شروع میں بی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
"مکتوب نگاری کا فن مردہ ہوتا جارہا ہے جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھی کاروباری اور تجارتی زیادہ ہے،جس میں سودوزیاں کا ذکر زیادہ ہے  اور جذبات کی دہلیز پر برف کی موٹی سل ڈال دی جاتی ہے ،ایسے خطوط بے رس ،ہے کیف ،خشک اور سپاٹ ہوتے ہیں "
مفتی صاحب رشتوں کی ہم نوائی کے طرفدار ہیں ظاہر ہے تمام عمر جو شخص سماجی سروکار کے وقف رہا ہو اس کے  مشاہدے میں سماج کا بڑا حلقہ رہا ہے جس انہماک اور شدّت سے وہ انسانی فلاح و استحکام کے کام کر رہے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگوں سے بار بار ملاقات کی وجہ سے ذاتی رشتا بھی استوار ہو ہی جاتا ہے رشتے میں توقعات بھی ناگزیر ہیں مگر مرکزیت محبت ہے اور زیادہ تر والہانہ تعلقات میں غیر مشروط معاملات ہی ہوا کرتے ہیں ہمارے ادب کا بیشتر حصہ رشتوں کا رزمیہ ہے تمام اصناف اور خصوصی طور پر تخلیقی ادب کے شہہ پاروں میں زندگی سے زیادہ زندگی، تصوّر سے زیادہ افلاک، تصنع سے زیادہ سبک روی ،خیال سے پرے الہام ،سر آئینہ سے روشن پسِ آئینہ ،حقیقت سے بہتر فسانے کا التزام نظر آتا ہے ایسے میں معتبر یت ہی بے اماں ہو جاتی ہے غالب بھی جب اپنے اشعار کے رموز سے باہر آئے تو خطوط میں تمام تر بندشوں سے آزاد ہوکر بس خوشبو میں رچے بسے رشتے کے ساتھ گویا ہوئے اور غالب کی غیر معمولی نثر نگاری کے اوصاف اُن کے خطوط میں یوں روشن ہوئے کہ غالب کی نثر بھی ہمارے لیے  فکری اور فطری خصائص کے لیے رہنما اصول کے قالب میں ڈھل گئی
مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب بھی جب اپنے مضامین اپنی تقریروں سے باہر آئے تو اکابرین معاصرین کے نام خطوط سے گزرتے ہوئے شدّت سے محسوس کیا کہ رشتوں کی رفاقت سے وہ یکسر محروم ہو جاتے اگر خطوں میں کھلنے سے قاصر رہتے 
مَیں کہہ چکا ہوں کہ مفتی صاحب کی زندگی سماجی فلاح و استحکام کی نذر ہے اس لیے انسانی رشتے کے بھی بڑے نبّاض بن کر ابھرے ہیں اکابرین کے نام اُن کے خطوط سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کتنی شفقت کتنی حمایت حاصل رہی ہے
مفتی صاحب اکثر مقامات پر  اپنے مضامین سے زیادہ خطوط میں کھلے ہیں حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی حضرت نظام الدین صاحب قاضی مجاہد الا سلام قاسمی مفتی سعید احمد پالن پوری مولانا سعید ارحمن اعظمی حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی حضرت خالد سیف اللہ رحمانی  قاری مشتاق احمد مولانا سید محمد شمس الحق  یا دوسری طرف مولانا انیس الرحمن قاسمی  مفتی نسیم احمد قاسمی  ڈاکٹر سعود عالم قاسمی جناب اجمل فرید کے ساتھ اہل خانہ اور متعلقین کے نام اُن کے خطوط کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب نے کس طرح رشتوں کے استحکام کے عمل میں چابکدستی سے سماجی منظر نامے بھی پیش کیے ہیں بعض اوقات کاروباری خطوط بھی نجی نوعیت کے ہو گئے ہے مشاھیر سے مفتی صاحب کے رشتے کی مضبوطی کا بھی شدید احساس ہوتا ہے خطوط کے مطالعے سے جہاں یہ  بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح عالمی سطح پر اسلام کے فروغ کو عملی صورت بھی دی جاتی رہی ہے
بعض نکات جو عام طور پر مضامین میں جگہ نہیں حاصل کر پاتے ہیں خطوط میں آسانی سے بیان ہو جاتے ہیں انداز سے ہی صداقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
مولانا رابع حسنی ندوی کے نام سبھی خطوط مطالعے کو رو سے ناگزیر ہیں
"......گزشتہ سال دوبئی کے حاکم متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم کی دعوت پر جائزہ قرآن کریم میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہوئی تھی اور کم از کم بارہ خطابات ہوئے تھے _اس سفر میں امارت شرعیہ کا کھل کر تعارف ہوا تھا،اس کی وجہ سے عام فضا امارت کے حق میں بنی "
مفتی صاحب کے ایسے تمام خطوط کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے جن سے امارت کی خدمات کے ساتھ وقت وقت پر بنائی گئی پالیسیوں کا بہت سہل انداز میں جانکاری حاصل ہو جاتی ہے ۔مفتی صاحب نے تمام عمر دیہی علاقوں میں بھی تحریک کو عملی صورت دینے میں بہترین خدمات دی ہیں ویشالی کے گاؤں کے حوالے سے مکفر اسلام حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب سے استفادے کے سلسلے میں اُن کے خطوط اس کی تصدیق یوں کرتے ہیں 
" ويشالی ضلع کے قریہ و دیہات سے حضرت امیر شریعت رابع کا ربط بڑا گہرا ,مضبوط اور مستحکم تھا ،عقیدت مندوں اور متوسلین کی بڑی تعداد وہاں تھی،حضرت کے وصال کے بعد یہ ربط انتہائی کمزور ہو گیا،آپ کی تشریف آوری سے تعلقات کی تجدید ہوگی اور اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ یہ باعث خیر و فلاح ہوگا"
اسی طرح جابجا اپنے خطوط میں مفتی صاحب کے افکار بھی کھلتے ہیں ملک اور سماج میں درپیش مسائل کے حوالے سے بھی انہوں نے بار بار قلم اٹھایا ہے اور کئی مقامات پر مایوسیوں کے باوجود گفتگو بند نہیں کے ہے وہ اپنی کاوشیں جاری رکھتے ہیں جابجا اپنے مقامی صوبائی ملکی اور غیر ملکی سفر کا مقاصد کے ساتھ ذکر کیا ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ تحریک بھی پہنچاتے ہیں اپنے خطوں میں وہ مسائل اور وسائل دونوں کا ذکر کرتے ہیں بعض مقام پر سخت گیری بھی ہے مگر مقصد فلاح سے مزیّن ہے
مفتی صاحب خطوط نگاری کے موجودہ رویے سے بھلے نالاں ہوں مگر اب بھی وہ اپنی پرانی روش پر ہی قائم ہیں خطوط کے ذریعے جس طرح وہ کسی عمل کو دستاویزی صورت عطا کرتے ہیں وہ اس صنف کی بقا کے لیے بےحد ضروری ہے انہیں بھی غالباً یہ اندازہ ہے کہ گلوبل عہد میں خطوط نے ترسیل کی صورت بدلی ہے مگر موقف بدلنا آسان نہیں ہے اب بھی ہم میسیج یا چیٹ سے گفتگو کرتے ہیں پہلے ٹیلیفون نے ترسیل کی سمعی صورت کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی اب بھی ہم اپنی ساتھ سے پیغام دینے کے لیے مختلف سمعی بصری طریقے اپنائے ہیں مگر اب بھی  کل کی طرح آج بھی متن سے لیس ہونا ناگزیر ہے لفظوں کی دنیا کبھی ختم نہیں ہو سکتی اس لیے جہاں جس فورم میں ترسیل کے لیے لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے حوالے میں رہیں گے ہی_اس لیے خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات" مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کی زندہ تحریروں کے لیے بہترین تحقیقی دستاویز بھی ہے 
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
🟤 ڈاکٹر قاسم خورشید
ماہرِ تعلیم و سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار
9334079876

منگل, نومبر 08, 2022

فائیوجی5G مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

فائیوجی5G 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان نیٹ کی دنیا میں پانچویں نسل کا استقبال کررہا ہے ، اس پانچویں نسل کو 5Gکے نام سے جانا اور پہچانا جارہا ہے ، وائرلیس رابطہ ٹکنولوجی کا بابا آدم 1Gکو مانا جاتا ہے، اسے ۱۹۸۰ء میں متعارف کرایا گیا تھا، اس کی وجہ سے موبائل فون نے کام کرنا شروع کیا، لیکن اس پر صرف گفتگو (کال) کی جا سکتی تھی، وہ بھی محدود دائرہ میں ، اس کی رفتار ۴ء ۲ کے بی پی اس (KBPS) تھی اور اس پر انٹر نیٹ کام نہیں کرتا تھا۔
 دوسری نسل کا تعلق 2Gسے تھا، اسے فن لینڈ نے ۱۹۹۱ء میں پیش کیا تھا، اس نسل کی طاقت 1Gسے چھبیس (۲۶)گنا زیادہ تھی اور اس کی رفتار ۶۴؍ کے بی پی اس(KBPS) تھی، اس کی وجہ سے پیغام وتصویر رسانی کا کام انٹرنیٹ کے ذریعہ ممکن ہوا، بعد میں پیغام رسانی کی رفتار 2Gکی تین سو چوراسی(۳۸۴) کے بی پی ایس تک پہونچ گئی، جس کی وجہ سے ای میل اور کیمرہ والے موبائل کے استعمال کی شروعات ہوئی۔
 ۲۰۰۳ء میں اس نے اور ترقی کی اور اس کی تیسری نسل 3Gسامنے آئی، رفتار کے ساتھ اس کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہوا ، اس کے دور میں نیٹ کے ذریعہ فائل کی منتقلی، ویڈیو کانفرنسنگ اور ویڈیو آڈیو کی ترسیل میں تیزی آئی، اور تین منٹ کے کسی ویڈیو کو صرف گیارہ سکنڈ میں منتقل کر نا ممکن ہو سکا، آگے کی جانب بھی کیمرہ کام کرنے لگا، جس سے سیلفی لینے کا رواج عام ہوا۔
 3Gکی رفتار سے پچاس فی صد تیز چوتھی نسل 4G کی شکل میں سامنے آیا، اس کی وجہ سے ویڈیو اور فلموں کی ترسیل جو تین چار منٹ کے اندر ہوتی تھی، صرف گیارہ سکنڈ میں ہونے لگی، جب کہ 3Gمین نیٹ ہی بند ہوجایا کرتا تھا، خدمات کا دائرہ 4Gکی وجہ سے بڑحا تو نہیں لیکن پچاس فی صد تیزی سے کام ہونے لگا۔
4Gکے بعد 5Gکا صارفین کو انتظار تھا، وزیر اعظم نے پہلے مرحلے میں دہلی ، ممبئی، چنئی، کولکاتہ کے ساتھ گروگرام، پونے، بنگلورو، چنڈی گڈھ ، جمنا نگر، احمد اآباد، حیدر آباد، لکھنؤ اور گاندھی نگر میں اس کے استعمال کی شروعات کرادی ہے، فی الوقت ایرٹیل نے نیلامی میں بڑی بولی لگا کر اس خدمت کو اپنے نام کر لیا ہے، جلد ہی جیو اور اڈوانی کی اڈانی ڈاٹانیٹ ورکس بھی اسے شروع کر سکتی ہے، اس کے شروع ہونے سے صنعت وحرفت کمپنی اور کار خانوں کے کاموں میں تیزی آئے گی ، آن لائن تعلیم میں سہولت ہوگی ،کیوں کہ اس کی رفتار 4Gسے سو گنا زیادہ ہے، اس کی وجہ سے فوری اور بر وقت تصویر ، پیغام، ویڈیووغیرہ کی ترسیل ہو سکے گی ، بڑی سے بڑی فائل کو اپلوڈ کیا جاسکے گا اور یہ کام پلک جھپکتے ہو سکے گا۔
 اس کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ جس سے آپ یہ خدمت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس نے اس کا اسپکٹرم خریدا ہو، اس کے پاس 5Gکی سہولت ہونی چاہیے، ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کے علاقہ میں ابھی وہ کام نہیںکر رہا ہو، آپ کا موبائل ٹیبلیٹ ایسا ہونا چاہیے جو 5Gکی خدمات کو قبول کر سکے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے موبائل ٹیبلیٹ میں اتنی صلاحیت نہ ہوتو آپ کو اس صلاحیت کا موبائل الگ سے خرید نا پڑ سکتا ہے ۔
 آج کل 5Gکے فرضی ایجنٹ گاؤں میں گھوم کر 5Gکی خدمات فراہم کرنے کے لیے صارفین کو تیار کر رہے ہیں اور ان سے موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے، تاکہ آپ کو دھوکہ دے کروہ چلتے نہ بنیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...