Powered By Blogger

پیر, دسمبر 05, 2022

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتماماشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتمام
اردو دنیا نیوز ٧٢
اشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی
پٹنہ:بہار کے سینئر، مشہور اور بے باک صحافی اشرف استھانوی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی اور دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر حاضرین نے قرآن پاک کی تلاوت کرکے ان کیلئے ایصال ثواب اور ان کی مغفرت کی دعائیں کی۔ در یاپور جامع مسجد کے امام وخطیب ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی نے دعا کرائی، انہوںنے دعا سے قبل اپنے مختصر خطاب میں جناب اشرف استھانوی کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے بلندی درجات کیلئے دعائیں کیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے اندر تین بڑی خوبیاں تھیں، پہلی خوبی یہ تھی کہ وہ بے باک اور حق گو صحافی تھے۔ انہوں نے جس بات کو سچ سمجھا اسے بے خوف وخطر ہوکر لکھا اور کسی کی پرواہ نہیں کی، دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی علمائے کرام اور دینی اداروں کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی، تیسری خوبی یہ تھی انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذاتی مفاد سے بلند ہوکر کیا، وہ نئی نسل کی آبیاری اور تربیت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ اللہ انہیں اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور جنت کا مکین بنائے۔نوشاد عالم نے ان سے متعلق یادوں کو شیئر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے میرا گہرا تعلق تھا، وہ مجھے جب جس کام کیلئے بولتے میں ہمیشہ تیار رہتا تھا، میں نے انہیں ہمیشہ مخلص اور وفادار پایا۔ صحافی کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین اور باکردار انسان تھے، ان کے انتقال سے بہار کی اردو صحافت میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نورالسلام ندوی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مرحوم اردو زبان اور اردو صحافت کے بے لوث خادم تھے، انہوں نے پوری زندگی قلم وقرطاس کی آبیاری میں گذاری۔ اردو زبان اور صحافت کے تعلق سے ان کے کارنامے لائق ستائش ہے، ان کو نئی نسل سے بڑی محبت تھی اور وہ ہمیشہ نئے لکھنے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور قدر کیاکرتے تھے۔ قاری ایاز احمدنے کہاکہ اشرف استھانوی ملی وسماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے، وہ دینی اداروں کی ترقی اوراس کو آگے بڑھانے کیلئے فکر کیا کرتے تھے،ان کوجامعہ مدنیہ سبل پور اور اس کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم مرحوم سے بڑی محبت تھی۔ وہ ایک متحرک ، فعال اور سرگرم صحافی اور سماجی کارکن تھے، اردو کیساتھ ساتھ ہندی میں بھی صحافت کیا کرتے تھے۔ یحیٰ فہیم نے کہاکہ مرحوم میرے محسن تھے، وہ ہمدرد اور مخلص انسان تھے، ان کو مجھ سے بڑی محبت تھی اور ان کی بہت ساری کتابیں میں نے کمپوز کی ہے، وہ جس سے کام لیتے تھے تو اس کا معقول معاوضہ بھی دیا کرتے تھے۔ ضیاء الحسن نے کہاکہ وہ بے باک صحافی تھے انہوںنے اپنی صحافت کے ذریعہ اردو صحافت کو وقار واعتبار بخشا، انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے اور اردو رسالے اور جرائد ان کے اوپر خصوصی گوشہ شائع کیاکرے۔
اس موقع پر عارف اقبال صحافی، احمد علی ، مبین الہدیٰ، مولانا محمد سعد قاسمی، حافظ عرفان دلکش، محمدمہزادوغیرہم نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت  __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمہوریت میں صاف ستھرے انتخابی عمل کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اقتدار تک پہونچنے کا صدر دروازہ یہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ای وی ایم میں ادلا بدلی اور بٹن کے سسٹم پر بھی لوگوں کی نظر رہی ہے، ووٹ کسی کو دیں، آپ کا ووٹ کسی خاص پارٹی کو منتقل ہوتے رہنے کی روایت میں کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی صداقت کا سراغ بھی لوگوں نے لگا رکھاہے ، انتخاب کے وقت سارے اختیارات انتخابی کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں، یہ اختیارات اس قدر مضبوط ہیں کہ انتخابی کمیشن کا سر براہ بتادلہ اور دوسری جگہ بحالی کے عمل کو بھی کر گذر سکتاہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اختیارات انتہائی وسیع ہیں، وہ نتیجہ انتخاب کو روک سکتا ہے ، دو بارہ گنتی کا حکم دے سکتا ہے ، گنتی کرنے والے عملہ کو اس عمل سے باہر کر سکتا ہے ، اب اگر انتخابی عمل کو انجام دینے والا مرکزی افسر جسے الیکشن کمشنر کہا جاتا ہے ، خود ہی صاف ستھرا نہ ہو، حکومت کے چشم وابر وپر کام کرنے والا ہو اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی جاگزیں ہو کہ سبکدوشی کے بعد کسی دوسرے اعلیٰ عہدے پر ہمیں فائز ہونا ہے تو انتخابی عمل پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور وہ الیکشن کمشنر نہیں پی ام او آفس کا اردلی بن کر کام کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار واعتماد الیکشن کمیشن سے اٹھ جاتا ہے ، حکومت اس معاملہ میں اس قدر دخیل ہوگئی ہے کہ ۲۰۰۷ء کے بعد الیکشن کمیشن کی مدت کار مختصر ہوتی چلی گئی ہے، پہلے یہ مدت چھ سال کی تھی ، اب یہ سمٹ کر پانچ سال رہ گئی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ارون گوئل کی تقرری کی ہے ، تین دن قبل انہیں رضا کارانہ سبکدوش ہو جانے کو کہا گیا اور تین دن بعد الیکشن کمیشن کے عہدے پر ان کی تقرری عمل میں آگئی، حالاں کہ عرضی گذار پر شانت بھوشن نے پہلے ہی عدالت میں معاملہ درج کرا رکھا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر جج کے ایم جوزف نے سماعت کے دوران حکومت کے وکیل سے بڑے چھبتے ہوئے سوالات کیے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس قدر جلدی کیا تھی، جب معاملہ عدالت مین زیر غور تھا ، انہوں نے رولنگ دیا کہ اگر الیکشن کمشنر ، کمزور اور گھنے ٹیکنے والا ہوگا تو سارے سسٹم کا بریک ڈاؤن ہوجائے گا، ملک کو ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کا دم خم رکھتا ہو، الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، اسے اسی طرح کا کمشنر چاہیے۔ فاضل جج نے اس موقع سے دسویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے تعریف وتوصیف کی، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اور ایک با اصول ، سخت مزاج ، بے خوف اور ایماندار کمشنر کی ایسی شبیہ پیش کی تھی کہ انہیں انتخابی اصلاح کے لیے آج تک یاد کیا جاتا ہے، بلکہ الیکشن کمنشر کے اختیارات اور حدود کا پتہ پہلی بار لوگوں کو چلا، ان کے دور میں تین الیکشن کمشنر کو ان پر مسلط کیا گیا کہ وہ ان کے مشورے سے کام کریں، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا، آج بھی انتخابی اصلاحات اور اسے غیر جانب دارانہ بنائے رکھنے کے لیے ایک نئے ٹی این سیشن کی ضرورت ہے ارون گوبل ٹی این سیشن نہیںبن پائیں گے ، جس طرح ان کی تقرری عمل میں آئی ہے، اس سے تو ایسا ہی معلوم پڑتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اتوار, دسمبر 04, 2022

ناشر/پبلشر: کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی ملنے کے پتے : دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

نام کتاب:      افادات سبحانی 
اردو دنیا نیوز ٧٢

مصنف :        مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی 
مرتب :          فضل رحمن رحمانی 
 صفحات :            (132)
نظر ثانی :            مفتی عین الحق امینی قاسمی بیگو سرائے 
سالِ اشاعت:               2022 
                        
     قیمت:                      250
                    

  ناشر/پبلشر:         کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی 
ملنے کے پتے :       دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

    مبصر :     محمد ضیاء العظیم رحمانی وقاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی  محتاج تعارف نہیں ہیں، آپ ایک باوقار عالم دین، نیک سیرت، خوش کلام، دور اندیش، قوم وملت کا درد مند، غریب پرور کے ساتھ ساتھ ایک ماہر استاذ ونباض ہیں، آپ اس قدر محبت کرنے والے ہیں کہ جو بھی آپ سے ملے وہ آپ کا دلدادہ ہو جائے، آپ اکابرین کے پروردہ قوم وملت کاایک  عظیم سرمایہ ہیں، آپ کی تصنیف افادات سبحانی جو کہ سابق امیر شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وسجادہ نشین جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رح کے حکم کی تعمیل میں لکھی گئی ایک شاہکار تصنیف ہے،اس سے قبل آپ کی ایک تصنیف خطبات سبحانی (مجموعہ تقارير)2018 میں منظر عام پر آچکی ہے جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی، خصوصاً علماء وائمہ طبقے نے کافی سراہا تھا، افادات سبحانی اس تصنیف کو بھی دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ یقیناً اللہ رب العزت کا اپنے مخصوص بندوں پر خاص فضل ہوا کرتا ہے، آپ کی اس تصنیف نے آپ کو مزید سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے ، افادات سبحانی دعا کی اہمیت وافادیت اوراوقات دعا کے موضوع پر ایک خوبصورت تصنیف ہے، جس میں حضرت مولانا نے بڑے جامع انداز میں دعا سے متعلق ہر پہلوؤں پر باتیں کی ہیں ، دعا کی ضرورت ،دعا کے آداب واطوار واوقات ان سب کو جمع کیا ہے،
یہ کتاب 134 صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے، اس کتاب کی شروعات دو منظوم کلام سے ہے، اس کے بعد مرتب کتاب مشہور ومعروف صحافی فضل رحمن رحمانی نے  کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، پھر موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے اس کتاب اور دعا کے حوالے سے اپنے تاثرات سے نواز کر اس کتاب کو زینت بخشی، مفتی عین الحق امینی قاسمی صاحب نے اس کتاب پر نظر ثانی کی، اور اس کتاب  میں شامل مضامین ومفاہیم کا بہت ہی خوبصورت اور جامع انداز میں تعارف کرایا ، بعدہ صاحب کتاب حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی نے اس کتاب کی تصنیف وتالیف کی وجہ، تاریخی پس منظر، اور اپنے احساسات وجذبات جو کہ اس کتاب کے حوالے سے ہے اپنے مخصوص انداز میں متعارف کرایا۔
  شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو ایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام مذاہب وادیان میں دعا کا ثبوت ملتا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے جو تقدیر بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالک اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اس کے لئے تب ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے  جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کے دائرے کو ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سے کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں میں دعاؤں کے آداب طریقہ اور اوقات جمع کئے ہیں ۔زیرتبصرہ کتاب ''افادات سبحانی '' مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کی تصنیف ہے  ۔اس کتاب میں ایک خوبصورت انداز وبیان میں مکمل حوالے کے ساتھ دعا کے آداب واطوار واوقات ۔دعاؤں کی فضیلت  ان کے فوائد کےحوالے سے جو باتیں کہیں گئ ہیں وہ کتاب وسنت سے ثابت ہے جس  کی وضاحت بھی انہوں نے کی ہے ۔
دعا اللہ کو رب تسلیم کرتے ہوئے عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنے مطالبات رکھنے کا نام ہے ،دعا مومن کے لئے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں کیوں کہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمَ عَلَی اللہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاء (دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں ہے ) دعا اللہ تعالی کے یہاں بہت ہی مقبول ومحبوب عمل ہے ، سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ (اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے ) دعا سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے،دعا عبادات کو شرف قبولیت بخشنے میں معاونت کرتی ہے ، دعا عبادات کا مغز ہے، دعا سے اللہ تعالیٰ کا غضب وغصہ ختم ہوتا ہے ،ان سب کے باوجود دعا انبیاء علیہم السلام کی اوصاف حمیدہ میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام پر بھی جب جب کوئی آزمائش ومصائب آئیں تو انہوں نے دعا کے ذریعہ ہی اللہ سے مدد مانگی،اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے، بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ (دعا موٴمن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے ، اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کی تاکید کی ہے ، اس کی قبولیت کا وعدہ کیاہے نیز اس پر انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولوں کی تعریف کی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے: إنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْن (بے شک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرنے والے تھے اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے)اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف صاف اعلان کیا : وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ(جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، انہیں باتوں کو مکمل مفصل ومدلل اور سہیل انداز میں اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے،جو ہر مسلمان کی اشد ضرورت ہے ۔ اس تصنیف کے ذریعہ مولانا موصوف کو بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے، یہ چندمختصر پہلو ہیں جنہیں ہم نے اپنے تبصرے میں پیش کیا،مزید سمجھنے اور جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کریں، اس سے استفادہ کریں،مولانا محترم سے براہ راست ملاقات کرسکتے ہیں،ان سے دعائیں لینے کا اچھا موقع ہے ۔ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مولانا موصوف کو اور پوری ٹیم کو جو اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اپنی شایان شان جزا وبدلہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین،

اساتذہ سے غیر تدریسی کام __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اساتذہ سے غیر تدریسی کام __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 درس وتدریس کا مشغلہ بڑا محترم اور مقدس ہے ، نو نہالوں کو بنا سنوار کر اور تعلیمی اقدار وافکار سے مزین کرکے اچھے شہری بنانے کی ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے، ان کے ایک دن درس کے ناغہ سے کہا جا تاہے کہ چالیس دن کے سبق کی برکت ختم ہوجاتی ہے ، لڑکوں کا جو تعلیمی نقصان ہوتا ہے وہ الگ ، لیکن ادارے کے ذمہ داران اور حکومت کے افسران اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں میں لگاتے رہتے ہیں،دیگر اداروں میں بھی تدریسی عملہ سے غیر تدریسی کام لیا جاتا ہے لیکن اس پر دھیان رکھا جاتا ہے کہ طلبہ وطالبات کا درسی نقصان کم سے کم ہو، اسی لیے مدارس میں جو اساتذہ فراہمی مالیات کے لیے نکلتے ہیں ان کے لیے عموما شش ماہی یا سالانہ تعطیل کے وقت کا انتخاب کیا جا تا ہے؛ تاکہ تعلیمی نقصان نہ ہو جو اساتذہ تعلیمی اوقات میں نکلتے ہیں ا ن کے درس کا متبادل انتظام کیا جاتا ہے اس طرح نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں میں اس کا التزام نہیں کیا جاتا ، وہاں بی ، ایل، او، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری اور انتخابات کرانے کی ذمہ داری ان کے سر ڈال دی جاتی ہے اور اساتذہ مجبور ہوتے ہیں کہ وہ درس وتدریس چھوڑ کر اس کام میں لگیں، نہیں لگیں گے تو ان پر معطلی کی کارروائی ہو سکتی ہے اور نوبت بر خواستگی تک کی بھی آ سکتی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار محکمۂ تعلیم نے ان کے ذمہ میدان میں قضائے حاجت کر رہے لوگوں کی تصویر کھینچ کر محکمہ کو فراہم کرانے کا حکم دیا تھا، کتنی توہین آمیز بات تھی، اور کیسا عجیب لگے گا، جب مرد اساتذہ میدان میں قضائے حاجت کر رہی عورتوں کی تصویر لیتے اور عورتیں مردوں کی، یہ بے حیائی کی بات تھی، سخت اعتراض کے بعد یہ حکم واپس لے لیا گیا، ایک بار آوارہ کتوں کے بارے میں انہیں رپورٹ دینے کو کہا گیا تھا، ایسے میں کار طفلاں تمام نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، بعض اسکولوں میں دو ہی استاذ ہیں، ایک استاذمہینوں سے بی، ایل او کے کام کے نام پر اسکول سے باہر ہے، بعض کو امتحان کی گارڈنگ میں ڈال رکھا گیا ہے، اب ایک استاذ پانچ کلاس کو کیسے پڑھائے گا، ہر آدمی سمجھ سکتا ہے، اسی طرح بعض شعبہ کے اساتذہ کو غیر تدریسی کام کے لیے ڈپوٹیشن پر لگا دیا جاتا ہے، اس شعبہ میں ایک ہی استاذ ہو ایسے میں پورا شعبہ ہی بند ہوجاتا ہے۔
 صرف بہار ریاست کی بات کریں تو یہاں دس ہزار سے زیادہ اساتذہ بی ایل او کے کام پر لگے ہوئے ہیں، کئی اساتذہ دوسرے محکمہ میں ڈپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں،جب کہ محکمہ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری کی ہدایت ہے کہ کوئی استاذ ڈپوٹیشن پر نہیں رہے گا۔ جن اسکولوں سے اساتذہ محکمہ تعلیم کے افسران کے دفتر میں چلے گیے ہیں، وہاں کی تعلیم ٹھپ ہے اور اس قسم کے اسکولوں کی تعداداس قدر ہے کہ انہیں انگلیوں پر نہیں گنا جا سکتا۔
 بعض اسکول کے اساتذہ برسوں سے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں، پہلے ان کا استعمال صرف پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخاب میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب بی ایل او کا کام مستقل کام بن گیا ہے، اس سے سخت تعلیمی نقصان ہو رہا ہے، اساتذہ کی تنظیمیں اس کو ختم کرنے یا سلسلے کو مختصر کرنے کی مانگ کرتی رہی ہیں، لیکن مطالبہ پورا اس لیے بھی نہیں ہو رہا ہے کہ بہت سارے اساتذہ کی دلچسپی پڑھانے سے زیادہ باہر کے کام میں ہوتی ہے اور وہ اسکول سے باہر رہنا ہی پسند کرتے ہیں، اسی طرح جو اساتذہ ڈی ای ، او اور بی ای او وغیرہ کے دفتر میں ڈپوٹیشن پر ہیں، وہیں بنے رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ  وہاں بالائی آمدنی، سہولت پہونچانے کی فیس اور رشوت کے مواقع زیادہ ہیں، اسکول کی خشکی کے مقابلے انہیں وہاں کی تری زیادہ پسند ہے، وہ افسران کے نام پر رقم اینٹھنے کا بھی کام کرتے ہیں، اور افسران تک پہونچانے کا بھی، ایسے اساتذہ کی دلچسپی درس وتدریس سے نہیں ہوتی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو یہ انتہائی ضروری ہے کہ تدریسی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں پر نہ لگایا جائے، دوسرے کام بھی ضروری ہیں، لیکن اس کے لیے سرکار الگ محکمہ بنا کر بحالی کرے جو پورا وقت سروے، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری ، انتخابی کاموں پر لگائے ، اس لیے کہ یہ کام اب جز وقتی نہیں، کل وقتی ہو گیا ہے ۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

ہفتہ, دسمبر 03, 2022

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی
اردو دنیا نیوز ٧٢
 *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1 پھلواری شریف پٹنہ میں حضرت مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب امام و خطیب جامع مسجد خواجہ پورہ کی صدارت میں منعقد ہوئی. مولانا مفتی محمد اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف نے تلاوت کلام ربانی سے مجلس کا آغاز کیا. بعدہ مولانا حسیب جوہر صاحب امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت پیش کیا. نظامت کے فرائض مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام و خطیب سراۓ کی مسجد دانا پور نے انجام دیئے. مجلس کی کاروائی کو آگے بڑھانے سے قبل گزشتہ نشست کی کارروائی پڑھ کر سنائی گئی، بعد ازاں منظور شدہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا. حج کی ترغیب کے سلسلے میں یہ طے ہوا کہ ہر امام اپنے اپنے حلقہ میں ہر صاحب استطاعت شخص کے گھر جاکر ملاقات کرکے اسے ترغیب دی جائے اور اس کے لئے جو ضروری کاغذات ہوں وہ تیار کی جائے. جیسے پاسپورٹ کرونا ویکسین کا دونوں ڈوز وغیرہ. 
رسید کے تعلق سے بات ہوئی کہ تنظیم کی اپنی رسید ہو اور تنظیم کی جانب سے رسید چھپائی جائے، اسی طرح مکتب کے نظام کو مضبوط کیا جائے. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کریں، اگر اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے، تو کم ازکم ابتدائی تعلیم کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں، ہمارے قصبوں، گاؤں اور محلوں میں مساجد تو ہوتی ہیں، اگر اسی کے زیر انتظام مکاتب بھی قائم کر لیں، جہاں ہمارے بچے قرآن، سنت اور دینیات کی تعلیم بسہولت حاصل کر سکیں، تو اس سے معاشرے میں ایک انقلاب پیدا ہوگا اور ہماری آنے والی نسل مذہب کے اصول اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے آشنا ہوگی۔اور مکتب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ماہانہ ہر بچے پر فیس بھی رکھی جائے،
     اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ اصلاح نفس پر خصوصی دھیان دیا جاۓ، مثلاً شریعت کو خود پر مقدم رکھیں، پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام بہر صورت ہو، خود داری اور کفایت شعاری کو شخصیت کا حصہ بنائیں، لوگوں سے تعلق اور ملاقات بے لوث ہو، آخر میں مولانا عظیم الدین رحمانی صاحب امام وخطیب خواجہ پورہ کی دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا. 
آج کی مٹینگ میں شریک ہونے والے ائمہ کرام کے نام یہ ہیں. حضرت مولانا ظہیر عالم صاحب رحمانی و سرپرست تنظیم ائمہ و خطباء مساجد حضرت مولانا محمد عظیم الدین صاحب رحمانی صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد و حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب قاسمی امام وخطیب ہارون نگر سیکٹر ١.نائب صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا محمد گوہر امام صاحب قاسمی امام وخطیب شاہی سنگی مسجد پھلواری شریف سکریٹری تنظیم ائمہ وخطباء مساجد  و حضرت مولانا محمد ساجد صاحب رحمانی امام وخطیب ابوبکر مسجد عیساپور پھلواری شریف کنوینر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام وخطیب سرائے کی مسجد داناپور و مولانا ضیاء الحق صاحب رحمانی امام وخطیب مسجد عثمان غنی نہسہ و مولانا حسیب جوہر امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا پٹنہ و مولانا صادق حمیدی صاحب قاسمی امام وخطیب مدینہ مسجد خلیل پورہ مولانا شاہد صاحب قاسمی امام وخطیب مریم مسجد نیا ٹولہ پھلواری شریف و مولانا توقیر عبداللہ صاحب قاسمی امام وخطیب جامع مسجد کرجی پٹنہ 
 حضرت قاری محمد امام الدین صاحب نعمانی امام ملی مسجد ملت کالونی و مولانا ضیاءاللہ صوفی صاحب مسجد عیسیٰ پور. مولانا عرفان صاحب بلال مسجد نیورہ پٹنہ مولانا محمد شاہد قاسمی صاحب مریم مسجد پھلواری شریف پٹنہ مولانا عظمت اللہ صاحب مفتاحی مرہم مسجد  مولانا محمد ارشد رحمانی صاحب امام و خطیب بیور جیل مسجد پٹنہ مولانا محمد تعظیم الدین قاسمی صاحب امام فیصل کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا بدیع الزماں قاسمی صاحب امام و خطیب جامع مسجد ابوبکر سلطان گنج پٹنہ مولانا اشتیاق احمد صاحب امام آر، کے نگر پھلواری شریف پٹنہ مولانا اختر حسین صاحب مظاہری امام جمع خارج دیگھا پٹنہ مولانا خالد حسین صاحب امام مسجد نہسہ پھلواری شریف پٹنہ مولانا صدیق احمد فاروقی صاحب امام مسجد تاج پھلواری شریف پٹنہ مولانا شمیم عالم صاحب معاذ بن جبل نیورہ پٹنہ مولانا اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا مطہرعالم صاحب قاسمی امام وخطیب مسجد ہارون نگر سکٹر ٣ وغیرہم قابل ذکر ہیں.
تنظیم کی آئندہ نشست ٢٥ فروری ٢٠٢٣ روز سنیچر صبح سات بجے بمقام مسجد ابو بکر صدیق فیڈرل کالونی میں منعقد ہوگی ان شاء اللّٰہ.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...