Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 09, 2022

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
اردو دنیا نیوز ٧٢
11/دسمبر کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں پیام انسانیت فورم کے تحت لگنے والے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے تنظیم ابنائے ندوہ سرگرم۔

پٹنہ:(پریس ریلیز )مدرسہ محمدیہ نیو عظیم آباد کالونی کے مہتمم اور جامع مسجد پیر بہور کے امام و خطیب مولانا ثناءاللہ ندوی ازہری کی قیام گاہ پر تنظیم ابناء ندوہ بہار کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی۔ جسمیں شرکاء نے اس بات کا اظہار کیا کہ تنظیم ابنائے ندوہ بہار تحریک ندوہ کے ضمن میں قائم ہونے والے ملی سماجی و علمی اداروں کے فروغ کو اپنے مشن کا حصہ سمجھتی ہے۔ چنانچہ  تحریک پیام انسانیت کے تحت مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے احاطہ میں مورخہ 11/دسمبر کو منعقد ہونے والے بلڈ ڈونیشن و فری میڈیکل کیمپ کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں تنظیم ابنائے ندوہ سرگرمی کے ساتھ مہم چلارہی ہے۔ تنظیم کے ذمہ داران نے ملت کے نوجوانوں سے بالعموم اور ابنائے ندوہ سے بالخصوص اپیل کی ہے اس کیمپ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہونچ کر غریب مریضوں کی امداد میں اپنے خون کا عطیہ دیکر انکی جان بچانے میں معاون بنیں۔ اور بے سہاروں کا سہارا بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کو فروغ دینے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقاء و تحفظ میں اپنا کردار اداکرکے مثال پیش کریں۔
اس موقعہ پر لکھنؤ سے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے کہا کہ اس کیمپ کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کامیاب بنانے کیلئے پٹنہ و قرب و جوار میں موجود تنظیم کے کارکنان دو دو چار چار نوجوانوں کو خون کے عطیہ کیلئے تیار کرکے اپنے ساتھ لیکر کیمپ میں پہونچیں۔ تاکہ بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی خدمت اور غریب مریضوں کی جان بچانے کا ذریعہ بن کر سکون حاصل کرسکیں۔
مولانا غلام سرور ندوی نے کہا کہ گذشتہ ماہ پیام انسانیت کے اجلاس کے موقعہ پر تنظیم ابنائے ندوہ  کے کارکنان کے ساتھ میٹنگ میں تحریک پیام انسانیت کے روح رواں حضرت مولانا بلال حسنی ندوی صاحب نے پیام انسانیت کے پیغام اور مشن کو تحریک ندوہ کی فکر کا حصہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کام ملت کے ہر فرد کو اپنا کام سمجھ کر کرنا چاہئے۔ آجکے ملکی حالات میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کیلیے یہ ایک بہترین راستہ ہے۔ اور ابنائے ندوہ کو خاص طور پر اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔میٹنگ میں ڈاکٹر نورالسلام ندوی اور حافظ مولانا عارف نثار ندوی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے سے مستفید کیا،میٹنگ میں تنظیمی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی فعالیت پر زور دیا گیا،

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مغربی تہذیب وثقافت سے جو چیز ہم نے بر آمد کی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے، ان میں ایک ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ ہے، لڑکے، لڑکیوں کا ایک ساتھ ایک کمرہ میں رہنا اور ہر طرح کی بے راہ روی سے گذرنا ریلیشن شپ لوازمات میں سے ہے، یہ لیو ان ریلیشن شپ جس عمر کے بھی لڑکے لڑکیوں کو درمیان ہو، نہ عدالت کو اس پر اعتراض ہے اور نہ حکومت کو ، اعتراض ہے تو کم عمر بالغ لڑکے لڑکیوں کے نکاح پر ، کیرالہ ہائی کورٹ اسے پاکسو (PAXO)ایکٹ کے تحت ڈالنے پر مصر ہے، جب کہ دوسرے کئی ہائی کورٹ کا پہلے سے فیصلہ موجود ہے کہ مسلم پرسنل لا اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کو اس صورت حال پر سخت تشویش کا سامنا ہے، تفہیم شریعت کے ایک ورک شاپ میں بورڈ کی خاتون ممبر مونسہ بشریٰ نے بہت صحیح کہا کہ’’ہندوستان میں ایسے قوانین بنائے جا رہے جہاں ایک عورت کو رکھیل تو بنا کر رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کو عزت کے ساتھ بیوی بنا کر رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
لیو ان ریلیشن شپ کے مضر اثرات میں جنسی بے راہ روی کے علاوہ ہوس پوری ہونے کے بعد قتل کے واقعات بھی سامنے آر ہے ہیں، ابھی تازہ واقعہ شردھا والکر کا ہے، جس کو آفتاب امین پونے والا نامی پارسی نے جسم کی طلب ختم ہونے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف جگہوں پر اس کے اعضا کو منتشر کر دیا اور اب پولیس اس کی تحقیق میں جٹی ہوئی ہے اور آفتاب کا نارکو ٹسٹ کیا جا رہا ہے، تاکہ اس کے تحت الشعور میں جو باتیں اس قتل کے حوالہ سے دبی ہوئی ہیں، انہیں ہیناٹزم کے انداز میں باہر نکالا جائے، قتل کا یہ سلسلہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ میں دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 ہندوستان جیسے ملک میں جو مختلف مذاہب اور صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے، کبھی بھی اس قسم کی بیہودگی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا جو عالم ہم پر طاری ہے اس نے ہر بے ہودگی کو ثقافت اور کلچر کا درجہ دے  دیا ہے، جب کہ پوری دنیا میں مشرقی تہذیب وتمدن کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا رہا ہے، اس کی بقاوتحفظ کی کوشش کرنی چاہیے، بلکہ مہم چلانی چاہیے کہ ہندوستان میں یہ سلسلہ قانونی طور پر بند ہو، ورنہ اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی سے سماج، معاشرہ اور بہت سارے خاندان غلاظت کے اس دلدل میں ڈوبتے جائیں گے، جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہو سکے گا، وقت رہتے ہمیں اس طوفان بلا خیز کو روکنے کی شکلوںپر غور کرنا چاہیے۔

مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

نظافت سخن (مجموعہ حمد و نعت) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مصنف :شکیل سہسرامی

،✍️مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ موبائل نمبر 7909098319

اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دیں اور احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط کے آداب وعادات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات واحسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور جب اس شاعری کو مخصوص لہجہ وفن،اور کائنات کے مالک کی شان میں کہتا ہے تو وہ حمد کہلاتا ہے، 
حمد عربی زبان کا ایک لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہے جانے والے اشعار کو حمد کہتے ہیں، حمد میں اللہ رب العزت کی تعریف، فطرت کے مناظر، اللہ کی قدرت ان سب چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، کما حقہ اللہ کی تعریف وتوصیف بیان کرنا انسانوں کو اتنی قدرت  وطاقت نہیں کہ وہ اللہ کی حمد وثناء کرسکیں لیکن اس ذات کے احسانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں وہ کلمات سکھائے جن کے ذریعہ ہم اس ذات مقدس کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہیں، اور آغاز قرآن بھی ترتیبا حمد سے کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اللہ کی تعریف کس طرح بیان کریں، جب یہ دنیا وجود میں نہیں آئی تھی تب بھی فرشتے اور ابلیس اللہ کی حمد وثناء کرتے تھے، اردو زبان وادب کے بھی تقریباً تمام شعراء نے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے حمدیہ اشعار کہیں ہیں۔اور جب اس شاعری کا رخ دنیا کی سب سے محترم شخصیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتے ہے تو وہ نعت بن جاتی ہے،
اطاعت خدا اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اطاعت ہی نعت گوئی کا تقاضہ ہے ۔نعت مقدس، بابرکت اور پاکیزہ شاعری کے زمرے میں آتی ہے،
 یہ ادب کی ایک معروف مشہور ومانوس صنف ہے،
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کو نظم کے انداز میں بیان کرنا  نعت خوانی یا نعت گوئی کہلاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہا جاتا ہے۔شاعر کو اللہ رب العزت نے بہت حساس وبیباک بنایا ہے، شاعر کی تخیلاتی پرواز بہت بلند ہوتی ہے، وہ سمندر کو ایک کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے، پوری تاریخ کو دو سطروں میں بیان کرجاتا ہے، 
 دنیا کی ہر زبان میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھی جارہی ہے، پڑھی جارہی ہے ۔ لفط "نعت" اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے لئے مختص ہوگیاہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ، سیرت، اور زندگی کے حالات واقعات کو بیان کرنے کے لئے نعت سے زیادہ کوئی شاعری برتر نہیں۔ نعت میں شاعرسرور کونین ﷺکی ذات اقدس سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے خوبصورت الفاظ وانداز میں فن کے مکمل تقاضے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرکے اظہار محبت واطاعت کے ساتھ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ اکثر شعرا نے نعت گوئی کو باعث سعادت فخر و نجات گردانا ہے۔
شکیل سہسرامی اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ناظم ہیں،آپ کے والد صاحب کا نام مولوی عبد الوحید خاں غازی شمسی مرحوم ہے، آپ کا اصل نام محمد شکیل خان جبکہ دنیائے ادب آپ شکیل سہسرامی کے نام سے جانتی ہے، آپ کا تعلق بہار کا تاریخی شہر سہسرام سے ہے، حالیہ مقیم سمن پورہ پٹنہ، آپ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں، اب تک آپ کی چار تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں 
1: آوارجہ : غزلوں کا مجموعہ
2:  نظافت سخن : حمد و نعت و منقبت کا مجموعہ
3:  ابر سخن : مخلوط شعری مجموعہ
4:   گلبانگ چشم و قلم :  تبصروں کا مجموعہ
جبکہ  پانچواں شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے،
آپ کی شخصیت وفن دونوں باکمال ہے ۔آپ ایک نیک صفت، حق گو، بے باکی سے اپنی باتیں خواہ وہ نثر ہو یا نظم ہو کہ جاتے ہیں ۔آپ کی تخیلاتی پرواز کے ساتھ ساتھ اصول اور فن پر بھی آپ کو اچھی دسترس حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’نظافت سخن ‘‘ ( حمد و نعت  کا مجموعہ) ١٢٠ صفحات پر مشتمل حمد و نعت ومنقبت پر ایک شاہکار تصنیف ہے ،جس کا انتساب مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، اس کتاب کی شروعات میں مصنف عرض احوال کے ذریعہ اس کتاب کے سلسلے میں اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس توفیق وتوثيق پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس تصنیف کو اللہ کے یہاں شرف قبولیت کی دعائیں کی ہیں، ساتھ ساتھ کتاب میں شامل مضامین کا اجمالی خاکہ بہت خوبصورتی سے پیش کرکے مزید دلچسپ بنا دیا ہے،اس کتاب کو تصنیف کرنے کی غرض وغایت، اردو زبان وادب میں حمد اور نعت و منقبت کی اہمیت وضرورت ان سب کو بڑے دلچسپ پیرائے کے ساتھ بیان کرکے کتابوں میں شامل مضامین کا اچھا جائزہ پیش کیا ہے،کسی تصنیف کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کا مقدمہ اس انداز میں ہو کہ مقدمہ کے ذریعہ تصنیفی خاکہ کا علم ہوسکے ۔

کتاب سے چند حمدیہ اشعار

اس لئے دل میں ہے یہ ڈر تیرا
میں ہوں بندہ ترا بشر تیرا
میرے مولا مرے خدائے پاک
علم تیرا ہے، سب ہنر تیرا
تو طبیبوں کا ہے طبیعت خدا
ہر دوا تیری، ہر اثر تیرا

تجھ پہ ہر چیز ہے عیاں اللہ
کچھ بھی تجھ سے نہیں نہاں اللہ

تعداد کیا گناؤں میں لاکھوں ہزار کی
مخلوق بے شمار ہے پرور دگار کی
ہوتی ہے صبح وشام خدا ہی کے حکم سے
تقدیر وہی لکھتا ہے لیل ونہار کی

رلاتا وہی ہے ہنساتا وہی ہے
وہی مارتا ہے جلاتا وہی ہے

مجھے یقیں ہے کسی فکر میں نہ ڈالے گا
خدا خدا ہے کوئی راستہ نکالے گا

اسی کے حکم سے ہوگا فنا سب
اسی کے حکم سے عالم بنا ہے
اسی کا آسماں بے ستون ہے
اسی کی یہ زمین برملا ہے

اسی کے حکم سے روتا ہے بندۂ مقہور
اسی کے رحم سے عاجز بہل بھی سکتا ہے

رب العزت نے شکیل سہسرامی کو شاعری میں بہت کمال عطاء کیا ہے۔ شکیل صاحب نے حمدیہ کلام کے  تقاضوں کو مجموعی طور پر ملحوظ رکھنے کی بھر پور سعی کرتے ہوئے عجز وانکساری کے ساتھ رب کائنات کے جلال و جمال، سزا وجزا، عذاب وثواب،اور بندگی کے تقاضے کے کئ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اقرار واظہار کچھ ایسے دلکش وجاذب ودلچسپ انداز وبیان میں کیا ہے کہ قاری پر ایک سکینہ نازل ہونے لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہو کر اس کی عطاء اس کی رحمت اس کے کرم کا سوالی، اور اس کے قہر وغضب سے پناہ چاہ رہا ہے ۔نیز اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو قرآنی مفاہیم وتراجم کی جھلکیاں اور پہلو دیکھ سکتے ہیں، ان کے حمدیہ اشعار پر غور کریں تو 
دست قدرت میں فطری مناظر کو اللہ کی تخلیقات کو چاہے وہ سورج ہو چاند ہو زمین ہو یا آسمان ،خشکی ہو یا تری، صحرا ہوں یامیدان، گل ہوں یا خار، نظام لیل و نہار، خزاں و بہار،ہستی وپستی، چاند ستارے، دریا موج کنارے، غنچہ وگل،طوطی و بلبل، کڑ کتے بادلوں، بلند کہسار ، گرتی آبشار، برگ وثمر کا مفہوم لا کر کے شان ربوبیت کو بیان کیا ہے،۔رب کائنات کی صفات اور اسماء کا اظہاربھی بڑے عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے اللہ تعالی کے اوصاف کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں

نعتیہ کلام کے چند اشعار

اللہ اللہ کس قدر اعلیٰ ہے نام مصطفیٰ
ہے صراط خیر امت احترام مصطفیٰ

احاطہ کیا کرے کوئی بھلا آقا کی رفعت کا
خدا ہی کو پتہ ہے بس محمد کی حقیقت کا

اوقات اس کے سامنے کیا بحر وبر کی ہے
یہ نعت پاک حضرت خیرالبشر کی ہے

اے حلیمہ تیری تقدیر بڑی اعلیٰ ہے
تیری آغوش نے آقا کو مرے پالا ہے

آنکھیں روشن ہوں مری صورت طیبہ ہوکر
دل دھڑکتا رہے سینے میں مدینہ ہوکر

بڑی گمرہی تھی سیادت سے پہلے
محمد کی اعلیٰ قیادت سے پہلے
سجالے تو دل کو درود نبی سے
در مصطفیٰ کی زیارت سے پہلے

بصیرت جگمگاتی ہے بصارت جگمگاتی ہے
ہر اک فرمان میں ان کی ہدایت جگمگاتی ہے

بہت رسوا ہوئے ہیں عشق میں ہم در بدر ہوکر
ہمیں رہنا ہے اب شہر نبی میں معتبر ہوکر

مری بھی آرزو پوری یہ آخری ہوجائے
در حبیب پہ اپنی جو حاضری ہو جائے

یہ کلام مومنانہ
ہے پیام مومنانہ
تھی مثال آپ اپنی
شہ دین کا گھرانہ

حسیں کتنی مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے
یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے

منقبت کے چند اشعار

ذیشان، ذی وقار ہے، ذی احتشام ہے
محبوب کردگار جو خیر الانام ہے
صبر ورضا کا درس یہ ماہ صیام ہے
ماہ صیام رحمت حق کا انعام ہے

شکیل سہسرامی نے بہت محتاط انداز میں نعت گوئی کے دائرے کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اور نعتیہ شاعری میں ہر جہت سے فنی اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ تخیلاتی پرواز بھی بہت بلند رکھی ہے ۔ اپنے نعتیہ کلام کے ذریعہ اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ نعت گوئی در اصل سعادت ہے، عبادت ہے، اور محبت ہے، کیوں کہ یہ وصف بھی خدائی دین ہے ۔ شکیل سہسرامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ انہوں نے" با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار" کے مصداق سنبھل سنبھل کر نعت گوئی کا حق ادا کیا ہے۔المختصر ان کے حمدیہ ونعتیہ کلام میں عشق کی چاشنی ،عقیدت ومحبت کی خوشبو ، پیار سے بھرے جذبہ کی روانی، رب کی اطاعت وبندگی کے تقاضے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اصول، در رسول پر حاضری کی تمنا وتڑپ ،فراق و ہجر کی کیفیت، مدینے میں تدفین کی آرزو،شفاعت کی طلب وغیرہ سے معمورہے ۔ انہوں نے اپنے پاکیزہ جذبات کو شعری اظہار کا وسیلہ بنا یا ہے۔  برجستگی ، سلاست روانی، فصاحت و بلاغت ان کی شاعری کا خاصہ ہے ۔شکیل سہسرامی کی شخصیت اور فن کے چند پہلوؤں پر تذکرہ وتبصرہ کیا گیا ہے،وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر ہیں، مشاعروں میں نظامت کے فریضہ کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں، مزید انہیں اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی تصنیفات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے،ان سے براہ راست ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں

جمعرات, دسمبر 08, 2022

پڑوسی کی آہ لگی ہے پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھناہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

پڑوسی کی آہ لگی ہے 
پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 
وہ عورت میرے مکان کے قریب ہی رہتی ہے، جب ہم گھر سے نکلتے ہیں مجھےگھورتی ہے، میرا یہ یقین ہے کہ ہمیں اسی کی نظر لگی ہے،میرے اہل خانہ پریشان ہیں، اہلیہ خواب میں روزانہ گندی چیزیں دیکھتی ہے،بچے گھر آتے ہی عجیب کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، خانقاہ رحمانی مونگیر سے بھی ہم دعا درود لےکر آئے ہیں، باہر سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، گھر آتے ہی پریشانی شروع ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں سے بھی رابطہ کیا ہے،جانچ بھی کروالی ہے،ہمیں کوئی بیماری نہیں لگی ہے، ایک یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسی کی نظر لگی ہے،کوئی اچھا عامل بتائیے پلیز۰۰۰۔
مذکورہ بالا واقعہ ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے،اسمیں دو باتیں قابل غور ہیں، پہلی یہ کہ ایک غریب عورت جو موصوف کے پڑوس میں رہتی ہے شک کی سوئی اسی کی جانب گھوم گئی ہے،؟ ایک غریب پر شک کرنا اوراسے مورد الزام ٹھہرانا یہ نیا نہیں ہے،بالخصوص نظر کے معاملے میں ہمیشہ سماج کے کمزور طبقہ ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے،بسا اوقات اس کا انجام بہت بھیانک سامنے آجاتا ہے،اور اخبارکی زینت یہ خبر بن جاتی ہے کہ" ایک غریب عورت کو گاؤں کےدبنگ لوگوں نے ڈائن سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ مسلم سماج سے مارڈالنے والی کوئی خبرنہیں آئی ہے،مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ بھی اسلامی پٹری سے اترگیاہےاورغیروں کےڈگرپر چلا گیا ہے، بےاعتمادی کی یہاں فضا قائم ہوگئی ہے، پڑوسی کا مطلب قریب رہنے والا ہے ،مگر آج وہ ہم سے بہت دور ہوگیا ہے،محبت کی جگہ نفرت ہے،جبکہ اسلام میں ایک پڑوسی سے محبت وتعلق بڑھانے کی تعلیم دی گئی ہے، ہدایا وتحائف سے محبت بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے، جب گھر میں سالن بناؤ تو پانی بڑھا دو،اور اس سے اپنے ہمسایہ کی خبر گیری کرو، (مسلم)
دوسری بات جو اس واقعہ میں غور کرنے کی ہے،بغیر کسی بیماری اور پریشانی کے ایک صاحب ایمان پریشان ہے،اپنے عالیشان مکان میں رہتا ہے، چہار دیواری میں محفوظ ہے،مال واسباب رکھتا ہے، باوجود اس کے وہ پریشان ہے،اور گھر کے قریب شخص سے دور ہے،اس کی وجہ ھمسایہ کی حق تلفی ہے۔
  پڑوسی کے حقوق کی مذہب اسلام میں بڑی تاکید آئی ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛جبریل نےمجھےپڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کی میں نےسمجھاکہیں ان کو وراثت کا حق نہ دلادیں،(متفق علیہ)
چنانچہ بیماری میں عیادت کرنا، تنگدستی میں مالی تعاون کرنا،خوشی میں مبارکباد دینا،غمی میں ہمدردی کرنا،موت پر جنازہ میں شرکت کرنا،
یہ وہ حقوق ہیں جنہیں بحیثیت پڑوسی ادا کرنا ایک ایمان والے کے لیے ضروری ہے، ان ذمہ داریوں سے آنکھیں چراناحق تلفی ہےاور ظلم ہے۔
آج جھونپڑی میں رہنے والی ایک غریب عورت بھوک اور فاقہ کی وجہ سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے،اپنے درد اور تکلیف کی ہمیں دوااپنے خوشحال پڑوسی کو سمجھتی ہے،اور وہ حضرات مداوابننے کے بجائے تکلیف کا سامان بن جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کو مومن نہیں کہا ہےجس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے، (متفق علیہ )
ایمان واسلام کا مطلب امن وسلامتی بھی ہے،ہر وہ آدمی جو اسلام کے تقاضوں سے مسلمان ہوتے ہوئے بھی دور ہوتا ہےاسے عافیت کی زندگی نصیب نہیں ہوتی ہے، مذہب اسلام میں ایک مظلوم کی نظر نہیں بلکہ آہ لگتی ہے،یہ واقعی مصیبت اور نحوست کی چیز ہوتی ہے، مسلم سماج میں بھی یہ نحوست داخل ہوگئی ہے،اس کا احساس نہیں ہے، مرض کچھ اورہے،اور دوا کچھ اور کی جارہی ہے، آج عموما یہی ہوتا ہے کہ لوگ مظلومیں کی آہوں اور بددعاوں کا شکار ہورہے ہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں کی نظر لگی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنصیحت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور خدا کے بیچ میں کوئی پردہ نہیں ہے( بخاری ) 
           پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں  اپنے  بہت  اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم، تعارف و تبصرہڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم، تعارف و تبصرہ
ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

پٹنہ کے سبزی باغ میں واقع بک امپوریم بظاہر کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان ہے، مگر اس کی شہرت ہندوستان کے بیشتر اردو آبادی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علم و ادب کے شائقین کا مرکز ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادباء ، شعراء ، صحافی اور عاشقان اردو اس کے گرد جمع ہوتے تھے، ادبی موضوعات پر تبصرہ کرتے تھے، ادبی معرکے اور مکالمے بھی ہوتے تھے، یہ عاشقان اردو برنچ پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر گھنٹوں علمی موشگافیاں کرتے اور مزہ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بک امپوریم کے مالک حمید انور تھے، وہ پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ان کا خلوص ومحبت ادیبوں اور صحافیوں کو وہاں آنے پر مجبور کردیتا تھا، حمید انور کی ادب نوازی اور اردو زبان سے محبت نے چھوٹی سی دکان کو بڑی کائنات میں سما دی تھی۔ حالانکہ حمید انور خود نہ ادیب تھے نہ شاعر، نہ صحافی اور نہ مصنف، لیکن ان کے اردگرد ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مصنفوں کا جمگھٹا رہتا تھا، وہ کتابوں کے ایک تاجر تھے، لیکن عام تاجروں سے الگ اورمنفرد تھے وہ۔ ادباء، شعراء اور مصنفوں سے ان کا محض کاروباری رشتہ نہ تھا بلکہ کاروباری سے زیادہ قلبی تعلق تھا۔ وہ معاملات کے نہایت صاف ستھرے اور بے باق آدمی تھے۔ طلبہ کی رہنمائی اور مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ اکثر طلبہ ان سے نئے رسائل و جرائد اور کتابیں ادھار لے جایا کرتے تھے اور وہ بخوشی دے بھی دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال کی جب خبر ہوئی تو بڑے بڑے ادباء و شعراء نے اظہار تعزیت کیا اور ان پر تاثراتی مضامین تحریر کیے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’محب اردوحمید انور اور بک امپوریم ‘‘(مطالعات و مشاہدات ) حمید انور کے انتقال کے بعد لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، جسے ان کے لائق فرزند جناب ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب سات ابواب اور 356 صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب مضامین و تاثرات پر مشتمل ہے، اس باب میں حمید انور کے معاصرین، دوست و احباب اور رشتہ دار و متعلقین کے مضامین ہیں، جن کے مطالعہ سے حمید انور کی شخصیت پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ یہ مضامین حمیدانور کے خلوص ووفا، ایثار و قربانی محبت و اپنائیت، ادب نوازی، رشتہ کی پاسداری، معاملات کی صفائی، کردار کی پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں، انہوں نے خاموشی کے ساتھ اردو کی خدمت کی، ادیبوں کی کئی نسل کو فروغ دیا اور ان کے اندر ادب کا ذوق پیدا کیا۔ دنیا سے گزر جانے کے بعد کون کس کو یاد کرتا ہے، لیکن جس طرح ادباء و شعرا نے ان کے انتقال کے بعد تعزیتی پیغامات بھیجے اور طویل و مختصر مضامین تحریر کئے یہ اس بات پر دال ہے کہ حمید انور پرکشش شخصیت کے مالک اور ایک بے ضرر انسان تھے، وہ ایک ایسا شجر سایہ تھے جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر طلبہ و اساتذہ اور شعراء وادباء ٹھنڈک محسوس کرتے تھے اور کتب و رسائل کے ذریعے علمی پیاس بجھاتے تھے، مشہور ادیب و شاعر عطا عابدی اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں:
’’ دراصل حمید انور صاحب کی ذات سماجی و ادبی معاملات سے دلچسپی لینے کے سبب بھی مرکز توجہ تھی، انہوں نے کئی حوالوں سے ادیبوںو شاعروں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے ذریعے اردو کتب و رسائل کی ترقی اور فروغ کی راہیں استوار کیں۔‘‘
حمید انور نے اپنی چھوٹی سی دکان بک امپوریم کو ایسی شہرت دی کہ اس کی حیثیت ادبی اڈے کی ہوگئی، بیشتر مضمون نگاروں نے حمید انور کے ذکر کے ساتھ بک امپوریم کا ذکر بھی دل کھول کر کیا ہے۔ بک امپوریم کی اہمیت اور زبان وادب کے فروغ کے حوالے سے اس کی افادیت کا اندازہ ان مضامین کے مطالعہ سے خوب ہوتا ہے، چھوٹی سی دکان میں نئی نئی کتابیں اور ملک بھر سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد اور اردو ڈائجسٹ موجود ہوتے تھے۔محمد یونس ہرگانوی اپنے مضمون بعنوان ’’حمید انور ایک روایت، ایک حکایت‘‘ میں بک امپوریم کے تعلق سے تحریر کرتے ہیں:
’’ اردو بازار میں بلحاظ وسعت بک امپوریم سب سے چھوٹی دکان ہے، لیکن اس دکان کو روز اول ہی سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ حمید انور کو اردو ادبیات اور رسالہ جات سے خاص دلچسپی تھی، ہندوپاک کے ناول، افسانے،شعری مجموعے، رسالے اور ڈائجسٹ کہیں ملیں نہ ملیں بک امپوریم میں دستیاب تھے، ان کی فراہمی پر خصوصی توجہ تھی، یہی وجہ ہے کہ بک امپوریم ادبی حلقوں میں بہت جلد مقبول ہو گیا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ رحمانیہ ہوٹل کبھی ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ رہا ہے، گھنٹوں گھنٹوں ان کی بیٹھک ہوتی تھی، اور چائے پر چائے کے دور چلتے رہتے تھے،آتے جاتے یہ بک امپوریم پرضرور ٹکتے، بلاشبہ بک امپوریم کے مقبول عام ہونے میں حمید انور کی کاروباری سوجھ بوجھ، محنت و مشقت اور اخلاق بات کو بڑا دخل رہا ہے، بک امپوریم علمی وادبی حلقے کا انفارمیشن سینٹر بھی رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں میں کون کب آئے تھے؟کہاں گئے؟ کہاں ملیں گے؟ بک امپوریم سے معلوم کرلیں۔‘‘
دوسرا باب مکتوبات پر مشتمل ہے، اس باب میں 56 مکتوبات ہیں، مختلف ادباء ، شعراء، صحافی اور مصنفین حضرات کے وہ خطوط جو انہوں نے حمید انور کو تحریر کئے، اس حصہ میں بڑے سلیقے سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔خطوط کی ترتیب میں تاریخ اور سنین کی رعایت برتی گئی ہے،ان میں پہلا خط علقمہ شبلی کا ہے جو 23 مارچ 1955 کا ہے، آخری خط پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ہے جو 10 جون 2000 کا تحریر کردہ ہے، یہ خطوط تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں، ان میں زیادہ تر ذاتی اور تجارتی نوعیت کے ہیں،لیکن ان میں ان کے عہد کے نشیب و فراز اور حالات کی عکاسی بھی ہے اور علمی وادبی سرگرمیوں کی جھلکیاں بھی۔ تیسرا باب مشاہیر کے ان خطوط پر مشتمل ہے جو حمید انور کے انتقال کے بعد تعزیت کے طور پر لکھے گئے تھے۔ان خطوط کی تعداد 24 ہے، اس کی ترتیب میں بھی تاریخ اور سنین کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ چوتھاباب علقمہ شبلی اور پروفیسر راشد طراز کے منظوم خراج عقیدت پر مبنی ہے۔
پانچواں باب ڈائری کے اوراق سے ہے،حمید انور صاحب پابندی سے ڈائری لکھا کرتے تھے، ڈائری کے اس حصہ کا مطالعہ حمید انور کے عہد کی سماجی، ادبی، اور عصری منظر نامہ پر روشنی ڈالتا ہے، انہوں نے نہایت سادہ اور آسان زبان میں روزنامچے تحریر کیے ہیں،یہ حصہ گرچہ مختصر ہے،لیکن اہم ہے۔ ڈاکٹر قاسم خورشید اپنے مضمون میں حمید انور کی ڈائری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’حمید انور نے بہت عرق ریزی اور چابکدستی سے روزنامچہ تحریر کیا، مختلف نکات پر گفتگو بھی کی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے عہد کے سماجی، ادبی ،ملی و عصری منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ان روز نامچوں کا مطالعہ ناگزیر ہے، ان کی تحریر بالکل شخصیت سے مشابہ نظر آتی ہے۔‘‘
چھٹا باب متفرقات ہے اس میں مشاہیر کی ایسی تحریریں جمع کی گئی ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی جہت سے حمید انور سے رہا ہے۔ ساتواں باب تصاویر کی جھلکیاں پیش کرتا ہے۔ کتاب کی پشت پر معروف ادیب و صحافی حقانی القاسمی کی جامع تحریرکو جگہ دی گئی ہے۔ صفحہ28 پر ’’تو قیت حمید انور ‘‘ہے جسے محمد شکیل استھانوی نے محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس میں انہوں نے تاریخ پیدائش 25؍جنوری 1931 لکھاہے جبکہ انہوں نے خود اپنے مضمون میںصفحہ نمبر 174 پر تاریخ پیدائش 1930 تحریر کی ہے۔پہلا باب بہت طویل ہے، سارے مضامین اسی باب کے تحت جمع کردیئے گئے ہیں۔ اگر ان مضامین کو موضوعات کے تحت دوتین ابواب میں تقسیم کئے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
مذکورہ کتاب حمید انور کی پرکشش شخصیت اور حیات و خدمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے، اس کے ساتھ ہی بک امپوریم کی ادبی اہمیت اور اس کی تاریخ پر بھی خوبصورتی کے ساتھ روشنی پڑتی ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور نئی نسل کو خاص طور پر مطالعہ کرنا چاہئے۔بک امپوریم آج بھی قائم ہے، ان کے چھوٹے فرزند امتیاز انور فہمی اپنے والد کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بڑے فرزند ڈاکٹر ممتاز فرخ مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے والد بلکہ ایک خادم اردو اور عاشق اردو کی زندگی و شخصیت اور ان کے احوال و کوائف پر مشتمل کتاب ہمارے سامنے پیش کر دیا تاکہ ہم اپنے محسنوں کو جان سکیں، یاد کر سکیں اور ان سے استفادہ بھی کر سکیں، مرتب کتاب کا پیش لفظ بھی عمدہ ہے، انہوں نے اپنے والد کے بعض ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع اس کتاب کی قیمت 350 روپے ہے۔ کتاب کی ترتیب و پیشکش بہتر ہے،بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے یا مرتب کتاب سے اس نمبر 9798909392 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
______

ائمہ کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی

ائمہ کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
ملک کی اکثر وبیشتر ریاست میں سرکار کا ایک محکمہ وقف بورڈ ہے، اس کے ذمہ اوقاف کے تحفظ اور اس کی املاک سے ہونے والی آمدنی کے استعمال کا اختیار ہے، اوقاف مسلم پرسنل لا کے تحت آتے ہیں، اس لیے اس کی آمدنی کو خرچ کرتے وقت واقف کے منشا کی رعایت کی جاتی ہے، بہت سارے اوقاف مساجد کے ہیں، جن کی آمدنی کو مفاد مسجد میں خرچ کرنا متولیان کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے اوقاف کی زمینوں پر واقع مساجد کے ائمہ کو وقف بورڈ کے ذریعہ وظیفہ دیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تنخواہ کی ا دائیگی بھی کی جاتی ہے، اس سلسلے میں پنجاب ، دہلی اور بہار کا نام لیا جا سکتا ہے۔
 ابھی حال میں مرکزی اطلاعاتی کمیشن کے کمشنر” اُدے مہور کر“نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کل ہند تنظیم ائمہ مساجد کی عرضی پر ۳۹۹۱ءمیں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے، یہ تبصرہ انہوں نے سوبھاش اگروال کی اس عرضی پر کیا جو اس نے وقف بورڈ سے امام اور مو ¿ذن کو ملنے والی تنخواہ پر اطلاعاتی کمیشن میں داخل کیا تھا، مرکزی اطلاعاتی کمشنر نے وقف بورڈ کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اس اطلاعات کے حاصل کرنے میں سبھاش اگروال کا جو وقت لگا اور اسے جو پریشانیاں ہوئیں اس کے عوض وقف بورڈ اسے پچیس ہزار روپے ہرجانہ دے ۔
 کمشنر برائے اطلاعات کی رائے یہ تھی کہ تمام مذاہب کے عبادت کرانے والوں کو برابر کی تنخواہ دی جانی چاہیے، بقول یہ عجیب بات ہے کہ امام اور مو ¿ذن کو تو اٹھارہ ہزار اور سولہ ہزار روپے ماہانہ ملے اور ہندو وقف (نیاس) کے پجاریوں کو دو ہزار روپے دیا جائے، کمشنر صاحب یہ بھول گیے کہ جس وقف کی جیسی آمدنی ہے، اس کے اعتبار سے وظائف مقرر کیے جاتے ہیں، نیاس کی آمدنی کا بڑا حصہ پجاریوں کے پاس بلا حساب وکتاب منتقل ہوجاتا ہے، نیاس بورڈ کے ذریعہ دی جانے والی دو ہزار کی رقم صرف ٹوکن منی ہے جو نیاس سے پجاریوں کے تعلق کی علامت ہے، ظاہر ہے سب جگہ کشور کنال جیسا ذمہ دار تو ہے نہیں، جس نے گذشتہ بیس پچیس سالوں میں مندروں کی آمدنی سے مہابیر کینسر جیسا اسپتال کھڑا کر دیا اور دوسری جگہوں پر بھی مندر کی آمدنی کو ہندو سماج کے لیے با رآور اور ثمر دار بنانے کے لیے غیر معمولی کام کیا ہے۔
 اس کے بر عکس اوقاف کی آمدنی کا معاملہ ہے، یقینا لوٹ کھسوٹ یہاں بھی کم نہیں ہے، لیکن بڑی حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ اسے خُرد بُرد سے بچایا جائے اور چوں کہ یہ وقف جن کاموں کے لیے کیا گیا ہے، ان کے مدات کی رعایت ہمارا شرعی فریضہ ہے، اس کی یک گونہ حفاظت وقف بورڈ کے ساتھ متولیان اور کمیٹی کے دیگر افراد بھی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، اس لیے یہاں کی رقم ائمہ مساجد اور مو ¿ذنین پر خرچ کی جاتی ہے ۔
 کمشنر برائے اطلاعات ادے مہور کرنے یہ بھی کہا کہ مو ¿ذن اور امام کی یہ تنخواہ سرکاری ٹیکس کی رقم سے دی جاتی ہے ،وہ یہ بتانا بھول گیے یہ ٹیکس کی رقم بھی سرکار کے خزانے میں اوقاف کی آمدنی سے ہی آتی ہے ، مختلف ریاستوں میں اوقاف کی آمدنی پر الگ الگ ٹیکس لیا جاتا ہے، حالاں کہ ہمارا مطالبہ قدیم ہے کہ اوقاف کی جائیدا د کو ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جائے۔
اس پورے قضیہ میں یہ مسئلہ بھی بڑا اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ مناسب ہے ،یہ تو توہین عدالت کے مترادف ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میںپھر سے اٹھایا جائے اور عدالت اس پر نظر ثانی کرے، یہ تو ہو سکتا ہے؛ لیکن عدالت کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ عدالتی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ، اس لیے” ادے مہور کر“ کو اس قسم کے تبصرے سے بچنا چاہیے۔

بدھ, دسمبر 07, 2022

ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات:معروضی ، پس معروضی مطالعہکامران غنی صباصدر شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور

ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات:معروضی ، پس معروضی مطالعہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

کامران غنی صبا
صدر شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور

حالیہ چند برسوں میں ہارٹ اٹیک سے ہونے والی اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 17.3 ملین لوگ ہارٹ اٹیک کا شکار ہو رہے ہیں۔رواں ماہ (دسمبر 2022) کے پہلے ہفتہ میں "ہارٹ اٹیک" ٹیوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔ دنیا بھر کے ماہرین طب اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کے تعلق سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سبرت اکھوری (کارڈیالوجسٹ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز، فریدآباد) اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اگلے پانچ سے دس سال میں ہندوستان کے 20 فیصد لوگ ہارٹ اٹیک سے متاثر ہوں گے۔ ایک آر ٹی آئی سے جمع کی گئی معلومات کے مطابق ممبئی میں گزشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان کورونا سے زیادہ اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ مدت میں کورونا سے 10 ہزار 289 اموات ہوئیں جبکہ اسی مدت میں ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد 17 ہزار 880 تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں دنیا بھر میں 1.79 کروڑ اموات دل سے جڑی بیماریوں سے ہوئی تھیں۔
ہارٹ اٹیک کے اثرات نوجوانوں یہاں تک کہ طالب علموں اور کم عمر نوجوانوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔ حالیہ کچھ دنوں میں کئی ایسے واقعات مشاہدے میں آئے ہیں کہ کوئی گلوکار اسٹیج پرفارمنس کے دوران اچانک گرا اور اس کی روح پرواز کر گئی، کوئی طالب علم اسکول جاتے ہوئے اچانک لڑکھڑایا اور چشم زدن میں اس کی جان چلی گئی۔ہم میں سے کئی لوگ ایسی اموات کے شاہد ہیں جو انتہائی غیر متوقع تھیں۔
یہ واقعات ہمیں خوف زدہ کرتے ہیں۔ دنیا بھر کےڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کی وجوہ اور اس کے خدشات کو کم کرنے کی تدابیر پر نہ صرف غور و فکر کر رہے ہیں بلکہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ ہارٹ اٹیک بعض اہم وجو ہ درج ذیل ہیں:
نشہ آور چیزوں کا استعمال،غیر متوازن غذا،نیند کی کمی،سستی، ذہنی تنائو، بلڈ پریشر وغیرہ
ماہرین کے مطابق نشہ آور چیزوں سے گریز کرنے، متوازن غذا لینے، وقت پر سونے اور اٹھنے، متحرک رہنے، ذہنی تنائو سے بچنے اور اصول حفظان صحت پر عمل کرنے سے ہارٹ اٹیک کے خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک کے اسباب اور اس سے محفوظ رہنے کے طریقہ کار کا معروضی مطالعہ ضرور ہونا چاہیے لیکن کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو معروضیت سے پرے ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ ہارٹ اٹیک کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تنائو ہے۔اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جس تیزی سے ہارٹ اٹیک کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے انسانی ذہن تنائو کا شکار ہو رہا ہے۔ ماہرین صحت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ذہنی تنائو کم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے انسان کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے۔ہم پہلے کے مقابلے زیادہ اچھا کھانا کھاتے ہیں۔ رابطے آسان ہوئے ہیں۔آج ہم میں سے بیشتر لوگوں کے پاس اچھے موبائل فون ہیں۔ گھر ہے، گاڑیاں ہیں، تفریح کے مختلف ذرائع ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی طور پر ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ماہرین صحت کے پاس ملنا شاید مشکل ہے۔ شاید ہر سوال کا جواب سائنسی اصولوں کے مطابق بھی نہیں مل سکتا۔ اگر معروضیت سے پرے کچھ فطری اور روحانی اصولوں کو ہم سمجھ سکیں تو ممکن ہے کہ جواب تک ہماری رسائی ہو جائے۔ ماں سے بہت دور کوئی بچہ کسی خاص ساعت میں حادثہ کا شکار ہوتا ہے، ماں کو کسی مادی ذرائع سے حادثے کی اطلاع نہیں ملتی ہے لیکن اس کے باوجود جس وقت اس کا لخت جگر حادثے کا شکار ہوتا ہے، ماں کا دل تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ اب اس واقعہ کی کوئی معروضی وجہ نہیں بتائی جا سکتی۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے کی فی زمانہ جتنی کوششیں ہو رہی ہیں وہ سب معروضی ہیں۔ مثلاً صبح چہل قدمی کی جائے، ورزش کی جائے، موبائل فون کا استعمال کم کیا جائے، مکمل نیند لی جائے، غذا متوازن ہو، وقت پر ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ ساری تدابیر بھی اکثر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے اور زندگی کو پرسکون بنانے کے مختلف طریقے بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے مفید اور کارآمد ہوں لیکن فطرت سے قریب ہوئے بغیر نہ تو ہم ذہنی تنائو کو کم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔فطرت سے قربت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم وادیوں، جھرنوں، ندیوں اور سمندروں کا نظارہ کرنے لگ جائیں۔جب انسان کا ذہن اذیت میں ہوتا ہے تو اسے خوشگوار نظارے بھی بے لطف او ربے نور نظر آنے لگتے ہیں۔ فطرت سے قربت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کو اس کے اصل روپ میں قبول کریں۔ زندگی کا اصل روپ صرف خوشی نہیں ہے، غم بھی ہے۔ صرف خواب نہیں ہے، شکستِ خواب بھی ہے۔ زندگی صرف حاصل کا نام نہیں ہے، زندگی میں سعئی لاحاصل بھی ہے۔زندگی صرف تبسم سے مکمل نہیں ہوتی، اسے نالہ نیم شب بھی چاہیے۔  
آج کا انسان صرف خوش رہنا چاہتا ہے۔ وہ خوشی کا تعاقب کرتا ہے۔ جب اسے اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندرون میں خوشی نہیں ملتی تو وہ پارکوں، ہوٹلوں، بار اور نائٹ کلبوں کا رُخ کرتا ہے۔ اُسے وقتی طور پر خوشی مل بھی جاتی ہے لیکن واپس جب وہ اپنے اصل ماحول میں آتا ہے تو اسے وحشت سی محسوس ہوتی ہے، یہی وحشت اس کے ذہنی تنائو کا سبب بنتی ہے۔
آج کا انسان حقیقی مسرتوں سے محروم ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں کو نہیں پہچانتا، پہچانتا ہے تو بس اِس طور پر کہ ان سے گلے اور شکووں کا رشتہ ہے۔ اس نے اپنی مصروفیت کو کم کرنے کے لیے مشینیں خرید رکھی ہیں ، لیکن اس کی مصروفیات اور بھی بڑھ چکی ہیں۔ اس کے پاس اپنے بیوی بال بچوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ سچ پوچھیے تو اپنے لیے وقت نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تمنا میں وہ اپنی اوقات بھول چکا ہے لیکن جیسے ہی اسے اپنی اوقات یاد آتی ہے، وہ ذہنی تنائو کا شکار ہونے لگتا ہے۔
آج کا انسان قناعت کی دولت سے محروم ہے۔ وہ دنیا میں جنت کے مزے لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد کر کے حال کا شکر ادا نہیں کرتا، دوسروں کے حال کو دیکھ کر اپنے حال کی ناشکری کرتا ہے۔ یہ ناشکری اسے ذہنی طور پر منتشر کر دیتی ہے۔
ذہنی تنائو سے بچنے کی تمام سائنسی اور طبی تدابیر اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ خالق کے قرب کے بغیر ذہنی سکون کے حصول کی سبھی کاوشیں سعئی لاحاصل ہیں ۔ خالق کا قرب ہمیں اندیشہ سود و زیاں سے بے نیاز کرتا ہے۔ نمائش اور تصنع کو زندگی سے نکال دیا جائے تو زندگی پرسکون ہو سکتی ہے لیکن ہم انہیں نکالنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ نمائش اور تصنع سے ہمارا رشتہ منقطع تو ہوتا ہے لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اپنے سے چھوٹے لوگوں میں وقت گزارنے سے سکون ملتا ہے۔ کسی کا سکون غارت نہ کیا جائے تو سکون مل سکتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کی تمنا چھوڑ دی جائے تو سکون ملنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ سارے نکات معروضی نہیں ہیں اور ہم اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں کہ معروضیت کی عینک اتارے بغیر مطالعۂ کائنات ہمارے لیے مشکل ہے۔ اس مشکل کا حل تلاش کر لیا جائے تو ہارٹ اٹیک کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...