Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 10, 2022

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مذہب اسلام میں اخوت ومساوات کی تعلیم روز اول سے دی گئی ہے . ڈاکٹر عبد الودود قاسمی
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پراین، ایس، ایس، اکائی، سی ایم، بی کالج ڈیوڑھ گھو گھر ڈیہاکے زیر اہتمام ایک مذاکرہ کالج میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر کیرتن ساہو(پرنسپل کالج) نے کی اور نطامت کے فرائض ڈاکٹر عبد الودود قاسمی نے انجام دی، پروگرام کا آغاز کر تے ہو ئے ڈاکٹر قاسمی نے اس دن کے منائےجانے کی اہمیت اور افادیت اور تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 
 آج ١٠/دسمبر کو ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں  انسانی حقوق کا عالمی دن بڑے اہتمام سے منایا جارہاہے، یہ اخوت ومساوات اور انسانیت کے لئے بہت مثبت پہل اور بہتر قدم ہے. یہ دن آ ج سے 72/سال پہلے1948ءمیں اقوام متحدہ میں منظور کر دہ انسانی حقوق کے ایسے شاندار عالمی منشور کی یاد دلاتا ہے جسے یو نیورسل ڈیکلئریشن آ ف ہیومن رائٹس کا نام دیا گیا ہے. واضح رہے کہ 1948ء میں عالمی یوم انسانی حقوق منانے کی قراد داد پیش کی گئی تھی جس کے بعد 1950ء میں دسمبر کو اس کو قانونی حیثیت حاصل ہو ئی، اس اہم ڈے کو 28/ستمبر 1993ءکو ہندوستان میں بھی یوم انسانی حقوق کو نافذ کیا گیا، اسی سال بھارت میں 12/اکتوبر کو انسانی حقوق کمیشن کی تشکیل بھی عمل میں آئی تب سے لے کر آج تک ہندوستان میں بھی اس دن کو بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے،اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو قابل احترام مقام دینا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام ہے، عوام میں ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنا ہے، مذہب اسلام آپسی محبت وروادار ی اور مساوات کا درس ابتدائے ایام سے دیتا آرہا ہے. اسلام کے پیغمبر نے اخوت ومساوات اور حقوق انسانی کی ادائیگی کا حکم یوں تو بالکل شروع دن سے ہی دیتے رہے،پیغمبر اسلام نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کی عظمت واحترام اور حقوق  پر مبنی جوابدی تعلیمات اور اصول عطا کیے وہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں اس پر اگر سو فیصد عمل کرلیا جایے تو کسی قسم کی ناہمواریاں سماج میں نہیں رہ جائیں گیں. کیونکہ ایک صحت مند معاشرے کا قیام ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کے بغیر ناممکن ہے،مذکورہ باتیں ڈاکٹر عبدالود ود قاسمی (پروگرام آ فیسر این، ایس، ایس،سی، ایم، بی،کالج) نے اپنی باتوں میں کہیں ،پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو نے کہا کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے. کائنات کے تمام انسانوں کو برابر جینے اور زندگی گزارنے کا حق ہے. ڈاکٹر ہری شنکر رائے( بڑا بابو) نے کہا ہے دنیا میں جتنے مذاہب ہیں سب کے سب انسان دوستی اور آپسی بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے. کسی بھی بھید اور بھاو کی تعلیم کوئی مذہب نہیں دیتا، ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاست) نے کہا کہ بنیادی طور پر اس کائنات میں بسنے لوگ سارے لوگ ایک انسان ہیں اور انسانیت سےبہتر کوئی مذہب نہیں. آئیے آج ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اس روئے زمین سے تمام بھید بھاوکو مٹانے کی اپنے طور پر کوشش کر تے رہیں گے. پروگرام سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر سجیت کمار، ڈاکٹر جیتندر کمار سنگھ، ڈاکٹر پروین کمار، ڈاکٹر بریندر کمار، ڈاکٹراپیندر کمار راوت، ڈاکٹر آلوک کمار، ڈاکٹر پریم سندر، ڈاکٹر پربھاکر، ڈاکٹر بھاگوت منڈل. کے نام اہم ہیں اس موقع پر کالج کے طلباء وطالبات کے علاوہ تدریسی وغیرتدریسی ملازمین بھی شامل رہے.

یادوں کے چراغڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
شاہ فیصل اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ یافتہ، ماہر معاشیات، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق استاذ، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ، مقاصد شریعت پر گہری نظر رکھنے والے نامور مفکر اور صف اول کے قائد مسلم مشاورت کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ۲۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا، تدفین وہیں عمل میں آئی۔
 ڈاکٹر محمد نجات اللہ کا آبائی وطن اور جائے پیدائش گورکھپور ہے، ۱۳۹۱ءمیں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مرکز جماعت اسلامی رام پور یوپی تشریف لے گیے ، عربی کی تعلیم یہیں پائی، وہاں کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ کا رخ کیا اور وہاں کے جلیل القدر علماءواساتذہ سے کسب فیض کیا اور اسلامی معاشیات واقتصادیات کے رموز ونکات میں درک پیدا کیا، اعلیٰ عصری تعلیم کے حصول کے لیے علی گڈھ میں داخلہ لیا اور ۶۶۹۱ءمیں معاشیات میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،جب آپ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ ¿ معاشیات میں لکچرر اور ریڈر مقرر ہوچکے تھے ، چند سال بعد ۸۷۹۱ءمیں شاہ عبد العزیز یونیورسیٹی جدہ میں اسلامی معاشیات کے شعبہ میں تقرری عمل میں آئی، ۱۰۰۲ءمیں سبکدوشی کے بعد وہ کیلوفورنیا چلے گئے اورکیلی فورنیا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کئی زبانوں کے ماہر اور مختلف فنون پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کے مطالعہ وتحقیق کا اصل میدان، مقاصد شریعة اور اسلامی معاشیات ہی رہا ، انہوں نے اسلامی غیر سودی بینک کاری پر زبر دست کام کیا،ا ن کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے اور ”ہوٹ کیک“ کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے، ان کتابوں میں انہوں نے اسلامی اقتصادیات سودی بینک کاری کی بہ نسبت زیادہ مفید اور انسانوں کے لیے نفع بخش قرار دیا ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو تصنیف وتالیف کی جو صلاحیت اللہ نے بخشی تھی اس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا عالم اسلام وعرب میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور مطالعات اسلامی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے ۲۸۹۱ءمیں نوازے گیے، ان کی تصنیفات میں اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا نظریہ، ملکیت، غیر سودی بینک کاری، تحریک اسلامی عصر حاضر میں، اسلامی نشا ¿ة ثانیہ کی راہ اکیسویں صدی میں، اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی، معاصر اسلامی فکر ، مقاصد شریعت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے امام ابو یوسف کی کتاب الخراج اور سید قطب کی کتاب اسلام کے عدل اجتماعی کا ترجمہ بھی دوسری زبان میں کیا، مختلف جرائد ورسائل میں سینکڑوں علمی مضامین ومقالات لکھے، ان کی انگریزی کتابیں بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔
 ڈاکٹر صدیقی کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، وہ سر سری طور پر بات کرنے اور کچھ لکھنے کے عادی نہیں تھے، آج کل جو ہم لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ” کاتا اور لے دوڑے“، وہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، وہ علمی اختلافات کا بُرا نہیں مانتے تھے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے، اور اگر کسی کی دلیل مضبوط ہوتی تو رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے،ان کا اخلاقی مقام بھی بلند تھا، ان کے بعض آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علمی خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا متحمل ، بردبار اور صابر وشاکر تھے۔
 ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہے، لیکن قادر مطلق کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کے نعم البدل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔

دعتی کا کوئی عمل قبول نہیں شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔

بدعتی کا کوئی عمل قبول نہیں 
اردو دنیا نیوز٧٢
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی 
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔
مسلمانو کبھی نہ چلنا راہ بدعت پر
بدعت کی تعریف ۔
ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھۃ :  (در مختار ، حاشیہ شامی)
ترجمہ ۔ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے معروف و منقول ہے اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا ضد و عناد کے ساتھ نہیں بلکہ کسی شبہ کی بنا پر ۔
اور علامہ شامی نے علامہ شمسی سے اس کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے :
ما ا حدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ ﷺ  من علم أو عمل أ و حال بنوع شبھۃ واستحسان و جعل دینا قویما وصراطا مستقیما ؛
ترجمہ ۔ جو علم ، عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ  سے منقول ہے کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بنا پر اور پھر اسی دین قویم اور صراط مستقیم بنالیا جائے وہ بدعت ہے ۔ خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو طریقۂ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ  ﷺ  سے نہ قولا ثابت ہو، نہ فعلا ، نہ صراحتاً ، نہ دلالۃ ، نہ اشارۃ ۔ جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے بلکہ بزعم  خود ایک اچھی بات اور کار ثواب سمجھ کر اختیار کرے ۔ وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے ۔
بدعت کی قسمیں ۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ شرعیہ ،  دوسری بدعتِ لغویہ۔  بدعتِ شرعیہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کر لیا جائے جس کا کتاب و سنت ،  اجماعِ امت اور قیاس مجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو یہ بدعت ہمیشہ بدعتِ سیئہ ہوتی ہے اور یہ شریعت کے مقابلے میں گویا نئ شریعت ایجاد کرنا ہے ۔
بدعت کی دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا وجود رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں نہیں تھا جیسے ہر زمانے کی ایجادات ‌۔  ان میں سے بعض چیزیں مباح ہیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر کرنا وغیرہ اور ان میں جو چیز یں کسی اور مستحب کا ذریعہ ہوں وہ مستحب ہوں گی جو کسی امر واجب کا ذریعہ ہوں وہ واجب ہوں گی مثلاً صرف و نحو وغیرہ علوم کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنا ممکن نہیں اس لئے ان علوم کا سیکھنا واجب ہوگا اسی طرح کتابوں کی تصنیف مدارسِ عربیہ کا بنانا چونکہ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں اور دین کی تعلیم و تعلم فرض عین یا فرض کفایہ ہے تو جو چیزیں کہ بذات خود مباح ہیں اور دین کی تعلیم کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں وہ بھی حسبِ مرتبہ ضروری ہوں گی ان کو بدعت کہنا لغت کے اعتبار سے ہے ورنہ یہ سنت میں داخل ہیں ۔
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ھدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہیں اور امت کی صلاح و فلاح  ان کی پیروی و  پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لئے گمراہ ہوئیں کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا ۔ اعتقادات،  اعمال ،  اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت  ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی ضرورت ہے یقیناً کتاب اللہ اور سنتِ نبوی و طریق محمدی اس کے پورے کفیل ہیں اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضائے الہی اور فلاح اخروی کا وسیلہ  سمجھ کر اپنا لیا جائے دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے اگلی امتوں کو اس نے زیادہ تر اسی راستہ سے گمراہ کیا ہے مختلف امتوں کے مشرکوں میں بت پرستی عیسائیوں میں تثلیث اور حضرت مسیح کی انبیت و ولدیت اور کفارہ کا عقیدہ اور احبار و رہبان کو اربابا من دون اللہ بنانے کی گمراہی یہ سب اسی راستے سے آئی تھیں اور رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھیں وہ سب آپ کی امت میں بھی آئیں گی اور انہیں راستوں سے آئیں گی جن سے پہلی امتوں میں آئی تھیں اسی لئے آپ اپنے مواعظ و خطبات میں بار بار یہ آگاہی دیتے تھے بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے صرف وہی حق و ہدایت ہے اور اسی میں خیر و فلاح ہے اور محدثات و بدعات سے اپنی اور دین کی حفاظت کی جائے بدعت خواہ ظاہری نظر میں حسین وجمیل معلوم ہو فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے  اپنے مکتوبات میں  فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعت کو دو خانوں  ( بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ )  میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑے علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے  اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے ۔
کام  خواہ کتنا ہی بہتر اور نیک کیوں نہ ہو اگر سنت کے مطابق  نہیں تو و ہی بد سے بدتر ہے روزے نماز عبادت خدا کوئی بری چیز نہیں لیکن جب یہ خلاف سنت ہوں تو ان کی وجہ سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی بیزاری ہو جاتی ہے  یہ جو آج کل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب تیجے میں کیا حرج ہے؟ اللہ کے نام کا دینا ہی ہے میلاد میں کیا حرج ہے ؟ذکر اللہ ہی تو ہے تعزیہ داری میں کیا حرج ہے؟ نواسۂ رسول اللہ ﷺ کی عزت و عظمت کا اظہار ہی تو ہے یہ یاد رکھیں کہ گو کام کتنا ہی اچھا اور بالکل ہی عمدہ کیوں نہ ہو چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اس لئے بد سے بدتر ہے ان کاموں کے کرنے والے قیامت کے دن امت رسول میں شمار کئے جائیں گے اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ حضور صلی اللہ ﷺ کے بعد کسی کام کو دین میں نکالنا نہایت ہی برا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی پکڑ کے بعد ان کو شفاعت رسول خدا بھی میسر نہیں ہونے کی حالانکہ اور گناہگار شفاعت سے چھوڑ دئیے جائیں گے لیکن بدعتیوں سے خود رسول خدا ﷺ بیزار ہو جائیں گے اور صاف فرما دیں گے ان کا منہ جلاؤ اور انہیں میرے سامنے سے ہٹاؤ جنہوں نے  میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا تھا 
رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی قبول نہیں کرتا صاحب بدعت ( یعنی بدعتی )  سے روزہ نہ نماز نج زکوۃ نہ خیرات نہ حج نہ عمرہ نہ جہاد اور بدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے (ابن ماجہ) 
بدعتی کا اللہ تعالی نماز روزہ اور کوئی عمل اس لئے قبول نہیں کرتا کہ بدعتی خانہ ساز مسئلے بنا کر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا مقابلہ کرتا ہے حضور ﷺ  بھی خدا کی وحی سے کار ثواب بتائیں اور مقابلہ میں بدعتی بھی مسئلے بناۓ اور کار ثواب جاری کرے اس نبوت کا مقابلہ کرنے والے  بدعتی کا اللہ کوئی عمل قبول نہیں کرتا اس پر خدا کا قہر آتا ہے وہ مردود ہو جاتا ہے شرک نہ  اللہ اپنی ذات میں برداشت کرتا ہے اور نہ حضور ﷺ  کی رسالت میں خدا کی قولی بدنی اور مالی عبادت میں شرک کرنے سے سب اعمال حبط اور برباد ہو جاتے ہیں اور بدعت پر عمل کرنے سے اللہ بدعتی کا کوئی نیک کام قبول ہی نہیں کرتا تو مشرک اور بدعتی اگر ہزار سال کی عمر پاۓ اور ہزار سال تک نمازیں پڑھے سینکڑوں روزے رکھے حج کرے ہر سال زکوۃ دے کروڑ وں روپے خیرات کرے تہجد اشراق بھی پڑھتا رہے مر کر دوزخ میں جائے گا  ( اگر بلا توبہ مر گیا) الحاصل ترک سنت اکبر الکبائر گناہ ہے اور  فعل  بدعت اس سے بھی بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے تو ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ شرکیہ عقیدوں اور عملوں کو جانے بوجھے اور ان سے تازیست بچے اور بدعت کے کاموں کو بھی معلوم کرے کہ کون کون سے ہیں پھر ان سے حذر کرے

جمعہ, دسمبر 09, 2022

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
اردو دنیا نیوز ٧٢
11/دسمبر کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں پیام انسانیت فورم کے تحت لگنے والے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے تنظیم ابنائے ندوہ سرگرم۔

پٹنہ:(پریس ریلیز )مدرسہ محمدیہ نیو عظیم آباد کالونی کے مہتمم اور جامع مسجد پیر بہور کے امام و خطیب مولانا ثناءاللہ ندوی ازہری کی قیام گاہ پر تنظیم ابناء ندوہ بہار کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی۔ جسمیں شرکاء نے اس بات کا اظہار کیا کہ تنظیم ابنائے ندوہ بہار تحریک ندوہ کے ضمن میں قائم ہونے والے ملی سماجی و علمی اداروں کے فروغ کو اپنے مشن کا حصہ سمجھتی ہے۔ چنانچہ  تحریک پیام انسانیت کے تحت مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے احاطہ میں مورخہ 11/دسمبر کو منعقد ہونے والے بلڈ ڈونیشن و فری میڈیکل کیمپ کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں تنظیم ابنائے ندوہ سرگرمی کے ساتھ مہم چلارہی ہے۔ تنظیم کے ذمہ داران نے ملت کے نوجوانوں سے بالعموم اور ابنائے ندوہ سے بالخصوص اپیل کی ہے اس کیمپ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہونچ کر غریب مریضوں کی امداد میں اپنے خون کا عطیہ دیکر انکی جان بچانے میں معاون بنیں۔ اور بے سہاروں کا سہارا بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کو فروغ دینے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقاء و تحفظ میں اپنا کردار اداکرکے مثال پیش کریں۔
اس موقعہ پر لکھنؤ سے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے کہا کہ اس کیمپ کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کامیاب بنانے کیلئے پٹنہ و قرب و جوار میں موجود تنظیم کے کارکنان دو دو چار چار نوجوانوں کو خون کے عطیہ کیلئے تیار کرکے اپنے ساتھ لیکر کیمپ میں پہونچیں۔ تاکہ بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی خدمت اور غریب مریضوں کی جان بچانے کا ذریعہ بن کر سکون حاصل کرسکیں۔
مولانا غلام سرور ندوی نے کہا کہ گذشتہ ماہ پیام انسانیت کے اجلاس کے موقعہ پر تنظیم ابنائے ندوہ  کے کارکنان کے ساتھ میٹنگ میں تحریک پیام انسانیت کے روح رواں حضرت مولانا بلال حسنی ندوی صاحب نے پیام انسانیت کے پیغام اور مشن کو تحریک ندوہ کی فکر کا حصہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کام ملت کے ہر فرد کو اپنا کام سمجھ کر کرنا چاہئے۔ آجکے ملکی حالات میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کیلیے یہ ایک بہترین راستہ ہے۔ اور ابنائے ندوہ کو خاص طور پر اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔میٹنگ میں ڈاکٹر نورالسلام ندوی اور حافظ مولانا عارف نثار ندوی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے سے مستفید کیا،میٹنگ میں تنظیمی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی فعالیت پر زور دیا گیا،

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مغربی تہذیب وثقافت سے جو چیز ہم نے بر آمد کی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے، ان میں ایک ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ ہے، لڑکے، لڑکیوں کا ایک ساتھ ایک کمرہ میں رہنا اور ہر طرح کی بے راہ روی سے گذرنا ریلیشن شپ لوازمات میں سے ہے، یہ لیو ان ریلیشن شپ جس عمر کے بھی لڑکے لڑکیوں کو درمیان ہو، نہ عدالت کو اس پر اعتراض ہے اور نہ حکومت کو ، اعتراض ہے تو کم عمر بالغ لڑکے لڑکیوں کے نکاح پر ، کیرالہ ہائی کورٹ اسے پاکسو (PAXO)ایکٹ کے تحت ڈالنے پر مصر ہے، جب کہ دوسرے کئی ہائی کورٹ کا پہلے سے فیصلہ موجود ہے کہ مسلم پرسنل لا اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کو اس صورت حال پر سخت تشویش کا سامنا ہے، تفہیم شریعت کے ایک ورک شاپ میں بورڈ کی خاتون ممبر مونسہ بشریٰ نے بہت صحیح کہا کہ’’ہندوستان میں ایسے قوانین بنائے جا رہے جہاں ایک عورت کو رکھیل تو بنا کر رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کو عزت کے ساتھ بیوی بنا کر رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
لیو ان ریلیشن شپ کے مضر اثرات میں جنسی بے راہ روی کے علاوہ ہوس پوری ہونے کے بعد قتل کے واقعات بھی سامنے آر ہے ہیں، ابھی تازہ واقعہ شردھا والکر کا ہے، جس کو آفتاب امین پونے والا نامی پارسی نے جسم کی طلب ختم ہونے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف جگہوں پر اس کے اعضا کو منتشر کر دیا اور اب پولیس اس کی تحقیق میں جٹی ہوئی ہے اور آفتاب کا نارکو ٹسٹ کیا جا رہا ہے، تاکہ اس کے تحت الشعور میں جو باتیں اس قتل کے حوالہ سے دبی ہوئی ہیں، انہیں ہیناٹزم کے انداز میں باہر نکالا جائے، قتل کا یہ سلسلہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ میں دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 ہندوستان جیسے ملک میں جو مختلف مذاہب اور صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے، کبھی بھی اس قسم کی بیہودگی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا جو عالم ہم پر طاری ہے اس نے ہر بے ہودگی کو ثقافت اور کلچر کا درجہ دے  دیا ہے، جب کہ پوری دنیا میں مشرقی تہذیب وتمدن کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا رہا ہے، اس کی بقاوتحفظ کی کوشش کرنی چاہیے، بلکہ مہم چلانی چاہیے کہ ہندوستان میں یہ سلسلہ قانونی طور پر بند ہو، ورنہ اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی سے سماج، معاشرہ اور بہت سارے خاندان غلاظت کے اس دلدل میں ڈوبتے جائیں گے، جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہو سکے گا، وقت رہتے ہمیں اس طوفان بلا خیز کو روکنے کی شکلوںپر غور کرنا چاہیے۔

مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

نظافت سخن (مجموعہ حمد و نعت) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مصنف :شکیل سہسرامی

،✍️مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ موبائل نمبر 7909098319

اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دیں اور احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط کے آداب وعادات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات واحسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور جب اس شاعری کو مخصوص لہجہ وفن،اور کائنات کے مالک کی شان میں کہتا ہے تو وہ حمد کہلاتا ہے، 
حمد عربی زبان کا ایک لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہے جانے والے اشعار کو حمد کہتے ہیں، حمد میں اللہ رب العزت کی تعریف، فطرت کے مناظر، اللہ کی قدرت ان سب چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، کما حقہ اللہ کی تعریف وتوصیف بیان کرنا انسانوں کو اتنی قدرت  وطاقت نہیں کہ وہ اللہ کی حمد وثناء کرسکیں لیکن اس ذات کے احسانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں وہ کلمات سکھائے جن کے ذریعہ ہم اس ذات مقدس کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہیں، اور آغاز قرآن بھی ترتیبا حمد سے کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اللہ کی تعریف کس طرح بیان کریں، جب یہ دنیا وجود میں نہیں آئی تھی تب بھی فرشتے اور ابلیس اللہ کی حمد وثناء کرتے تھے، اردو زبان وادب کے بھی تقریباً تمام شعراء نے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے حمدیہ اشعار کہیں ہیں۔اور جب اس شاعری کا رخ دنیا کی سب سے محترم شخصیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتے ہے تو وہ نعت بن جاتی ہے،
اطاعت خدا اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اطاعت ہی نعت گوئی کا تقاضہ ہے ۔نعت مقدس، بابرکت اور پاکیزہ شاعری کے زمرے میں آتی ہے،
 یہ ادب کی ایک معروف مشہور ومانوس صنف ہے،
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کو نظم کے انداز میں بیان کرنا  نعت خوانی یا نعت گوئی کہلاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہا جاتا ہے۔شاعر کو اللہ رب العزت نے بہت حساس وبیباک بنایا ہے، شاعر کی تخیلاتی پرواز بہت بلند ہوتی ہے، وہ سمندر کو ایک کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے، پوری تاریخ کو دو سطروں میں بیان کرجاتا ہے، 
 دنیا کی ہر زبان میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھی جارہی ہے، پڑھی جارہی ہے ۔ لفط "نعت" اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے لئے مختص ہوگیاہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ، سیرت، اور زندگی کے حالات واقعات کو بیان کرنے کے لئے نعت سے زیادہ کوئی شاعری برتر نہیں۔ نعت میں شاعرسرور کونین ﷺکی ذات اقدس سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے خوبصورت الفاظ وانداز میں فن کے مکمل تقاضے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرکے اظہار محبت واطاعت کے ساتھ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ اکثر شعرا نے نعت گوئی کو باعث سعادت فخر و نجات گردانا ہے۔
شکیل سہسرامی اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ناظم ہیں،آپ کے والد صاحب کا نام مولوی عبد الوحید خاں غازی شمسی مرحوم ہے، آپ کا اصل نام محمد شکیل خان جبکہ دنیائے ادب آپ شکیل سہسرامی کے نام سے جانتی ہے، آپ کا تعلق بہار کا تاریخی شہر سہسرام سے ہے، حالیہ مقیم سمن پورہ پٹنہ، آپ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں، اب تک آپ کی چار تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں 
1: آوارجہ : غزلوں کا مجموعہ
2:  نظافت سخن : حمد و نعت و منقبت کا مجموعہ
3:  ابر سخن : مخلوط شعری مجموعہ
4:   گلبانگ چشم و قلم :  تبصروں کا مجموعہ
جبکہ  پانچواں شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے،
آپ کی شخصیت وفن دونوں باکمال ہے ۔آپ ایک نیک صفت، حق گو، بے باکی سے اپنی باتیں خواہ وہ نثر ہو یا نظم ہو کہ جاتے ہیں ۔آپ کی تخیلاتی پرواز کے ساتھ ساتھ اصول اور فن پر بھی آپ کو اچھی دسترس حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’نظافت سخن ‘‘ ( حمد و نعت  کا مجموعہ) ١٢٠ صفحات پر مشتمل حمد و نعت ومنقبت پر ایک شاہکار تصنیف ہے ،جس کا انتساب مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، اس کتاب کی شروعات میں مصنف عرض احوال کے ذریعہ اس کتاب کے سلسلے میں اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس توفیق وتوثيق پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس تصنیف کو اللہ کے یہاں شرف قبولیت کی دعائیں کی ہیں، ساتھ ساتھ کتاب میں شامل مضامین کا اجمالی خاکہ بہت خوبصورتی سے پیش کرکے مزید دلچسپ بنا دیا ہے،اس کتاب کو تصنیف کرنے کی غرض وغایت، اردو زبان وادب میں حمد اور نعت و منقبت کی اہمیت وضرورت ان سب کو بڑے دلچسپ پیرائے کے ساتھ بیان کرکے کتابوں میں شامل مضامین کا اچھا جائزہ پیش کیا ہے،کسی تصنیف کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کا مقدمہ اس انداز میں ہو کہ مقدمہ کے ذریعہ تصنیفی خاکہ کا علم ہوسکے ۔

کتاب سے چند حمدیہ اشعار

اس لئے دل میں ہے یہ ڈر تیرا
میں ہوں بندہ ترا بشر تیرا
میرے مولا مرے خدائے پاک
علم تیرا ہے، سب ہنر تیرا
تو طبیبوں کا ہے طبیعت خدا
ہر دوا تیری، ہر اثر تیرا

تجھ پہ ہر چیز ہے عیاں اللہ
کچھ بھی تجھ سے نہیں نہاں اللہ

تعداد کیا گناؤں میں لاکھوں ہزار کی
مخلوق بے شمار ہے پرور دگار کی
ہوتی ہے صبح وشام خدا ہی کے حکم سے
تقدیر وہی لکھتا ہے لیل ونہار کی

رلاتا وہی ہے ہنساتا وہی ہے
وہی مارتا ہے جلاتا وہی ہے

مجھے یقیں ہے کسی فکر میں نہ ڈالے گا
خدا خدا ہے کوئی راستہ نکالے گا

اسی کے حکم سے ہوگا فنا سب
اسی کے حکم سے عالم بنا ہے
اسی کا آسماں بے ستون ہے
اسی کی یہ زمین برملا ہے

اسی کے حکم سے روتا ہے بندۂ مقہور
اسی کے رحم سے عاجز بہل بھی سکتا ہے

رب العزت نے شکیل سہسرامی کو شاعری میں بہت کمال عطاء کیا ہے۔ شکیل صاحب نے حمدیہ کلام کے  تقاضوں کو مجموعی طور پر ملحوظ رکھنے کی بھر پور سعی کرتے ہوئے عجز وانکساری کے ساتھ رب کائنات کے جلال و جمال، سزا وجزا، عذاب وثواب،اور بندگی کے تقاضے کے کئ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اقرار واظہار کچھ ایسے دلکش وجاذب ودلچسپ انداز وبیان میں کیا ہے کہ قاری پر ایک سکینہ نازل ہونے لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہو کر اس کی عطاء اس کی رحمت اس کے کرم کا سوالی، اور اس کے قہر وغضب سے پناہ چاہ رہا ہے ۔نیز اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو قرآنی مفاہیم وتراجم کی جھلکیاں اور پہلو دیکھ سکتے ہیں، ان کے حمدیہ اشعار پر غور کریں تو 
دست قدرت میں فطری مناظر کو اللہ کی تخلیقات کو چاہے وہ سورج ہو چاند ہو زمین ہو یا آسمان ،خشکی ہو یا تری، صحرا ہوں یامیدان، گل ہوں یا خار، نظام لیل و نہار، خزاں و بہار،ہستی وپستی، چاند ستارے، دریا موج کنارے، غنچہ وگل،طوطی و بلبل، کڑ کتے بادلوں، بلند کہسار ، گرتی آبشار، برگ وثمر کا مفہوم لا کر کے شان ربوبیت کو بیان کیا ہے،۔رب کائنات کی صفات اور اسماء کا اظہاربھی بڑے عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے اللہ تعالی کے اوصاف کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں

نعتیہ کلام کے چند اشعار

اللہ اللہ کس قدر اعلیٰ ہے نام مصطفیٰ
ہے صراط خیر امت احترام مصطفیٰ

احاطہ کیا کرے کوئی بھلا آقا کی رفعت کا
خدا ہی کو پتہ ہے بس محمد کی حقیقت کا

اوقات اس کے سامنے کیا بحر وبر کی ہے
یہ نعت پاک حضرت خیرالبشر کی ہے

اے حلیمہ تیری تقدیر بڑی اعلیٰ ہے
تیری آغوش نے آقا کو مرے پالا ہے

آنکھیں روشن ہوں مری صورت طیبہ ہوکر
دل دھڑکتا رہے سینے میں مدینہ ہوکر

بڑی گمرہی تھی سیادت سے پہلے
محمد کی اعلیٰ قیادت سے پہلے
سجالے تو دل کو درود نبی سے
در مصطفیٰ کی زیارت سے پہلے

بصیرت جگمگاتی ہے بصارت جگمگاتی ہے
ہر اک فرمان میں ان کی ہدایت جگمگاتی ہے

بہت رسوا ہوئے ہیں عشق میں ہم در بدر ہوکر
ہمیں رہنا ہے اب شہر نبی میں معتبر ہوکر

مری بھی آرزو پوری یہ آخری ہوجائے
در حبیب پہ اپنی جو حاضری ہو جائے

یہ کلام مومنانہ
ہے پیام مومنانہ
تھی مثال آپ اپنی
شہ دین کا گھرانہ

حسیں کتنی مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے
یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے

منقبت کے چند اشعار

ذیشان، ذی وقار ہے، ذی احتشام ہے
محبوب کردگار جو خیر الانام ہے
صبر ورضا کا درس یہ ماہ صیام ہے
ماہ صیام رحمت حق کا انعام ہے

شکیل سہسرامی نے بہت محتاط انداز میں نعت گوئی کے دائرے کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اور نعتیہ شاعری میں ہر جہت سے فنی اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ تخیلاتی پرواز بھی بہت بلند رکھی ہے ۔ اپنے نعتیہ کلام کے ذریعہ اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ نعت گوئی در اصل سعادت ہے، عبادت ہے، اور محبت ہے، کیوں کہ یہ وصف بھی خدائی دین ہے ۔ شکیل سہسرامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ انہوں نے" با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار" کے مصداق سنبھل سنبھل کر نعت گوئی کا حق ادا کیا ہے۔المختصر ان کے حمدیہ ونعتیہ کلام میں عشق کی چاشنی ،عقیدت ومحبت کی خوشبو ، پیار سے بھرے جذبہ کی روانی، رب کی اطاعت وبندگی کے تقاضے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اصول، در رسول پر حاضری کی تمنا وتڑپ ،فراق و ہجر کی کیفیت، مدینے میں تدفین کی آرزو،شفاعت کی طلب وغیرہ سے معمورہے ۔ انہوں نے اپنے پاکیزہ جذبات کو شعری اظہار کا وسیلہ بنا یا ہے۔  برجستگی ، سلاست روانی، فصاحت و بلاغت ان کی شاعری کا خاصہ ہے ۔شکیل سہسرامی کی شخصیت اور فن کے چند پہلوؤں پر تذکرہ وتبصرہ کیا گیا ہے،وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر ہیں، مشاعروں میں نظامت کے فریضہ کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں، مزید انہیں اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی تصنیفات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے،ان سے براہ راست ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں

جمعرات, دسمبر 08, 2022

پڑوسی کی آہ لگی ہے پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھناہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

پڑوسی کی آہ لگی ہے 
پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 
وہ عورت میرے مکان کے قریب ہی رہتی ہے، جب ہم گھر سے نکلتے ہیں مجھےگھورتی ہے، میرا یہ یقین ہے کہ ہمیں اسی کی نظر لگی ہے،میرے اہل خانہ پریشان ہیں، اہلیہ خواب میں روزانہ گندی چیزیں دیکھتی ہے،بچے گھر آتے ہی عجیب کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، خانقاہ رحمانی مونگیر سے بھی ہم دعا درود لےکر آئے ہیں، باہر سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، گھر آتے ہی پریشانی شروع ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں سے بھی رابطہ کیا ہے،جانچ بھی کروالی ہے،ہمیں کوئی بیماری نہیں لگی ہے، ایک یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسی کی نظر لگی ہے،کوئی اچھا عامل بتائیے پلیز۰۰۰۔
مذکورہ بالا واقعہ ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے،اسمیں دو باتیں قابل غور ہیں، پہلی یہ کہ ایک غریب عورت جو موصوف کے پڑوس میں رہتی ہے شک کی سوئی اسی کی جانب گھوم گئی ہے،؟ ایک غریب پر شک کرنا اوراسے مورد الزام ٹھہرانا یہ نیا نہیں ہے،بالخصوص نظر کے معاملے میں ہمیشہ سماج کے کمزور طبقہ ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے،بسا اوقات اس کا انجام بہت بھیانک سامنے آجاتا ہے،اور اخبارکی زینت یہ خبر بن جاتی ہے کہ" ایک غریب عورت کو گاؤں کےدبنگ لوگوں نے ڈائن سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ مسلم سماج سے مارڈالنے والی کوئی خبرنہیں آئی ہے،مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ بھی اسلامی پٹری سے اترگیاہےاورغیروں کےڈگرپر چلا گیا ہے، بےاعتمادی کی یہاں فضا قائم ہوگئی ہے، پڑوسی کا مطلب قریب رہنے والا ہے ،مگر آج وہ ہم سے بہت دور ہوگیا ہے،محبت کی جگہ نفرت ہے،جبکہ اسلام میں ایک پڑوسی سے محبت وتعلق بڑھانے کی تعلیم دی گئی ہے، ہدایا وتحائف سے محبت بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے، جب گھر میں سالن بناؤ تو پانی بڑھا دو،اور اس سے اپنے ہمسایہ کی خبر گیری کرو، (مسلم)
دوسری بات جو اس واقعہ میں غور کرنے کی ہے،بغیر کسی بیماری اور پریشانی کے ایک صاحب ایمان پریشان ہے،اپنے عالیشان مکان میں رہتا ہے، چہار دیواری میں محفوظ ہے،مال واسباب رکھتا ہے، باوجود اس کے وہ پریشان ہے،اور گھر کے قریب شخص سے دور ہے،اس کی وجہ ھمسایہ کی حق تلفی ہے۔
  پڑوسی کے حقوق کی مذہب اسلام میں بڑی تاکید آئی ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛جبریل نےمجھےپڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کی میں نےسمجھاکہیں ان کو وراثت کا حق نہ دلادیں،(متفق علیہ)
چنانچہ بیماری میں عیادت کرنا، تنگدستی میں مالی تعاون کرنا،خوشی میں مبارکباد دینا،غمی میں ہمدردی کرنا،موت پر جنازہ میں شرکت کرنا،
یہ وہ حقوق ہیں جنہیں بحیثیت پڑوسی ادا کرنا ایک ایمان والے کے لیے ضروری ہے، ان ذمہ داریوں سے آنکھیں چراناحق تلفی ہےاور ظلم ہے۔
آج جھونپڑی میں رہنے والی ایک غریب عورت بھوک اور فاقہ کی وجہ سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے،اپنے درد اور تکلیف کی ہمیں دوااپنے خوشحال پڑوسی کو سمجھتی ہے،اور وہ حضرات مداوابننے کے بجائے تکلیف کا سامان بن جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کو مومن نہیں کہا ہےجس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے، (متفق علیہ )
ایمان واسلام کا مطلب امن وسلامتی بھی ہے،ہر وہ آدمی جو اسلام کے تقاضوں سے مسلمان ہوتے ہوئے بھی دور ہوتا ہےاسے عافیت کی زندگی نصیب نہیں ہوتی ہے، مذہب اسلام میں ایک مظلوم کی نظر نہیں بلکہ آہ لگتی ہے،یہ واقعی مصیبت اور نحوست کی چیز ہوتی ہے، مسلم سماج میں بھی یہ نحوست داخل ہوگئی ہے،اس کا احساس نہیں ہے، مرض کچھ اورہے،اور دوا کچھ اور کی جارہی ہے، آج عموما یہی ہوتا ہے کہ لوگ مظلومیں کی آہوں اور بددعاوں کا شکار ہورہے ہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں کی نظر لگی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنصیحت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور خدا کے بیچ میں کوئی پردہ نہیں ہے( بخاری ) 
           پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں  اپنے  بہت  اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...