Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 14, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پٹنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم صاحب کو جنہوں نے بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے طفل مکتب کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہندوستانی عدلیہ کو مرکزی حکومت سے آزاد رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری کا یہاں الگ نظام ہے، جسے کالجیم کہتے ہیں،،کالجیم کے ارکان طے کرتے ہیں کہ کس کی ترقی ہونی ہے اور کون جج یا چیف جسٹس بنے گا، تقرری کے اس کالجیم سسٹم کی وجہ سے مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ یہ بحالیاں مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونی چاہیے،ا س کی وجہ سے معاملہ گرما گیا ہے، سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں کالجیم کی سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری میں غیر معمولی تاخیر پر حکومت کو پھٹکار لگائی تھی ، اس پر وزیر قانون کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا کہ کالجیم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ بھیجے گیے ہر نام کو منظور کر لے ، اگر دستور کی روح یہی ہے تو سپریم کو رٹ کو خود سے تقرری کر لینی چاہیے،اس کے ساتھ ہی وزیر قانون نے سپریم کالجیم کے ذریعہ ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے پیش فائلوں کو کالجیم کو نظر ثانی کے لیے واپس کر دیا ہے اور ممبئی ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے بھیجے گیے ناموں میں سے صرف دو سینئر وکلاءسنتوش گووندراو ء اور منوہر ساٹھے کی تقرری کی منظوری دی ہے۔
 جن فائلوں کو حکومت نے کالجیم کو واپس کیا ہے ان میں سوربھ کرپال کی تقرری کی فائیل بھی شامل ہے، سوربھ کرپال ہم جنس پرست ہے اور وہ ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت میں بیان دیتے رہے ہیں، انہوں نے سیکس اینڈ دی سپریم کورٹ نامی کتاب بھی لکھی ہے ، وہ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس بی این کرپال کے بیٹے ہیں، ان کی سفارش اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمن نے کی تھی، ترقی کی یہ سفارش 11 نومبر 2021ءکو لی گئی تھی، اس کے قبل 2018ءسے اب تک ان کا نام بار بار بھیجا جا تا رہا ہے ، لیکن ان کی ترقی کی منظوری نہ ملنے میں ان کی جنسی بے راہ روی اور ان کے خیالات کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اگر ان کو دہلی ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا تو وہ پہلے ہم جنس پرست جج ہوں گے ، ظاہر ہے ہندوستانی دستور کے اعتبار سے یہ ایک غلط کام ہے اور ہندوستانی تہذیب وثقافت ، انسانی اقدار کے بھی خلاف ہے۔اس لیے حکومت نے ان کی تقرری کو روک رکھا ہے جو لائق ستائش ہے۔
 لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک غلط سفارش کی بنیاد پر ساری فائلوں کو واپس کر دیا جائے، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ججوں کی کمی کی وجہ سے ہی پورے ہندوستان کی عدالت میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہے۔

منگل, دسمبر 13, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پتنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشتی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم کو جنہوں بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے نااہلوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

جی ٹوینٹی (20)کی صدارت ___ مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جی ٹوینٹی (20)کی صدارت ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
  مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جی -۰۲ کی صدارت اس بار ہندوستان کے حصے میں آئی ہے، اس کے ارکان انیس ممالک اور ایک یورپین یونین ہے، جس کی وجہ سے اسے جی -۰۲ یعنی بیس کا گروپ کہا جاتا ہے، اس گروپ میں ارجنٹائنا، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا ، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپین یونین شامل ہے، اس طرح کہنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے بعد یہ سب سے مضبوط گروپ ہے، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک شامل ہیں، اس گروپ میں شریک ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی ، پچھہتر فی صد عالمی تجارت اور اسی فی صد سے زائد دنیا کی مجموعی گھریلو مصنوعات (GDP) پر قابض ہونے کی وجہ سے مضبوط ترین سیاسی قوت ہے، جو ہمہ جہت ترقی، موسمیات وماحولیات ، خوراک، پر امن بقاءباہم کے اصول اور حفظان صحت کے منصوبے پر کام کرتا ہے۔ ۶۲ ستمبر ۹۹۹۱ءکو اس گروپ کی تشکیل ہوئی تھی، مختلف ممالک کے بعد اب اس کی صدارت بھارت کے حصہ میں آئی ہے اوران دونوں وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی اس کے سر براہ ہیں۔
 اب تک دوسرے ممالک اس گروپ کے لیے ترجیحی ایجنڈا طے کرتے رہے ہیں، بھارت کے صدر ہونے کی حیثیت سے اب اس کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر گروپ کے دوسرے ممالک کو راضی کرکے کام کو آگے بڑھا سکے او راپنی ترجیحات کو مرکز توجہ بنا سکے، بالی کے حالیہ اجلاس میں جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس پر تمام ممالک کو متحد کرانے میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اہم رول ادا کیا اور ان کی تقریر کے اس جملے کو کہ ”آج کا عہد جنگ کا عہد نہیں ہونا چاہیے“ من وعن بالی اعلانیہ میں شامل کر لیا گیا، کاش بھارت کے اندرونی معاملات میں بھی مودی جی کا یہ نظریہ کام کرتا تو نفرت کی کاشت اس قدر نہیں ہو پاتی اور بھارت امن وسلامتی اور رواداری کا گہوارہ ہوتا۔

اتوار, دسمبر 11, 2022

مصنوعی اعضاءکی تیاری ____

مصنوعی اعضاءکی تیاری ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
اللہ رب العزت نے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہمیں ایک خوبصورت جسم دیا ہے، جسے قرآن میں ”احسن تقویم“ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ اعضاءقدرتی نظام کے تحت کام کرتے رہتے ہیں اور ان سے ہماری جسمانی ضرورت پوری ہوتی ہے، دل، پھیپھڑے، جگر وغیرہ کا شمار اعضاءرئیسہ میں ہوتا ہے، ان کے نظام میں گڑبڑی سے جسم کا سارا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود ان اعضاءکا متبادل اب تک تیار نہیں کیا جا سکا ہے، اسی لیے اگر کسی کے گردے وغیرہ میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو دوسرے انسان سے اعضاءلے کر اس کی پیوند کاری کی جاتی ہے، جس کے سہارے انسان زندگی کے کچھ ماہ وسال پا لیتا ہے، اس کام کے لیے اعضاءکی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، جب کہ یہ قانونی طور پر جرم ہے ، آئے دن آپریشن کے نام پر انسانی جسم کے مختلف اعضاءبغیر مریض کو بتائے نکال لیے جاتے ہیں، انہیں بھاری داموں میں بیچا جاتا ہے ، کچھ رشتہ دار بھی اپنے مریضوں کو اعضاءدے کر جان بچانے کا کام کر تے ہیں ، بعض پسِ مرگ اپنے اعضاءدوسروں کی پیوند کاری کے لیے دینے کی وصیت کر جاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد وہ مریض کے کام آجاتا ہے ، حالاں کہ شریعت کی نظر میں ایسی وصیت غلط ہے، اور اس کی تنفیذ نہیں ہونی چاہیے، لیکن ایسا ہو رہا ہے، اس کے باوجود جس بڑے پیمانے پر اعضاءکی ضرورت ہے،اس کی فراہمی موجودہ طریقہ ¿ کار میں ناممکن ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس میں کیمیکل اور کھاد کی شمولیت کی وجہ سے جسمانی اعضاءکثرت سے متاثر ہوتے ہیں، دو لاکھ لوگ ہر سال لیور کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور پیوند کاری کے مواقع نہیں فراہم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سوجاتے ہیں، ڈبلو ایچ او، ڈی جی ایچ ایس اور نوٹو کی مانیں تو اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہندوستان میں کم از کم پچیس سے تیس ہزار لیور کی ضرورت الگ سے پڑے گی، تاکہ وہ سنگین مریضوں میں لگایا جا سکے، جب کہ صرف پندرہ سو لوگوں کے ہی لیور کی پیوند کاری ابھی ممکن ہو پا رہی ہے، اسی طرح دو لاکھ گردے کے مریضوں کو گردے کی ضرورت ہے، لیکن چھ ہزار مریضوں سے زیادہ گردے کی تبدیلی نہیں ہو سکتی، کیوں کہ گردے دستیاب نہیں ہیں، اسی طرح پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کا دل اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ انہیں بدلنا ضروری ہوتا ہے، لیکن ہندوستان کے صرف اٹھہتر ہوسپیٹل میں ہی یہ سہولیات دستیاب ہیں، جہاں اوسطا دو سو پچاس مریضوں سے زیادہ کے قلب کی پیوند کاری ہو ہی نہیں سکتی، پیوند کاری کے لیے دل کی فراہمی ایک الگ مسئلہ ہے ۔
 سائنس دانوں کو مریضوں کی اس پریشانی سے پریشانی ہے ، تازہ اطلاع کے مطابق سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹر تیار کر لیا ہے، جو گوشت ، ہڈی کے ذرات اور کیمیکل کے آمیزہ سے خلیات ٹشوز تیار کر سکتا ہے، اسے سائنس دانوں نے میٹو پلس کا نام دیا ہے ، کوشش اس کی بھی جاری ہے کہ مصنوعی پھیپھڑا بنا لیا جائے، اس کھوج کو میڈکل کی اصطلاح میں ایکسوسوم تھروپی کے نام سے جانا جاتا ہے ،ا س طریقہ ¿ کار کی مدد سے پھیپھڑوں کو پہونچنے والے نقصانات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے ، اور ضرورت کے مطابق اس کی مرمت بھی کی جا سکتی ہے ، سائنس دانوں کا ایک تحقیقاتی منصوبہ تھری ڈی مِنی لیور ٹشوز بھی ہے، جس کی مدد سے پھیپھڑوں کے مختلف امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، آئی آئی ٹی کان پور مصنوعی دِل تیار کرنے میں لگا ہوا ہے، اگر یہ تحقیقات کامیابی کی منزل کو پالیتی ہیں تو اعضاءرئیسہ کے بہت سے امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، موت تو وقت پر ہی آتی ہے، لیکن اسباب کے درجہ میں مایوس لوگوں کے حق میں کامیابی کی طرف بڑھتے قدم کو امید افزا کہا جا سکتا ہے۔

ہفتہ, دسمبر 10, 2022

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مذہب اسلام میں اخوت ومساوات کی تعلیم روز اول سے دی گئی ہے . ڈاکٹر عبد الودود قاسمی
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پراین، ایس، ایس، اکائی، سی ایم، بی کالج ڈیوڑھ گھو گھر ڈیہاکے زیر اہتمام ایک مذاکرہ کالج میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر کیرتن ساہو(پرنسپل کالج) نے کی اور نطامت کے فرائض ڈاکٹر عبد الودود قاسمی نے انجام دی، پروگرام کا آغاز کر تے ہو ئے ڈاکٹر قاسمی نے اس دن کے منائےجانے کی اہمیت اور افادیت اور تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 
 آج ١٠/دسمبر کو ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں  انسانی حقوق کا عالمی دن بڑے اہتمام سے منایا جارہاہے، یہ اخوت ومساوات اور انسانیت کے لئے بہت مثبت پہل اور بہتر قدم ہے. یہ دن آ ج سے 72/سال پہلے1948ءمیں اقوام متحدہ میں منظور کر دہ انسانی حقوق کے ایسے شاندار عالمی منشور کی یاد دلاتا ہے جسے یو نیورسل ڈیکلئریشن آ ف ہیومن رائٹس کا نام دیا گیا ہے. واضح رہے کہ 1948ء میں عالمی یوم انسانی حقوق منانے کی قراد داد پیش کی گئی تھی جس کے بعد 1950ء میں دسمبر کو اس کو قانونی حیثیت حاصل ہو ئی، اس اہم ڈے کو 28/ستمبر 1993ءکو ہندوستان میں بھی یوم انسانی حقوق کو نافذ کیا گیا، اسی سال بھارت میں 12/اکتوبر کو انسانی حقوق کمیشن کی تشکیل بھی عمل میں آئی تب سے لے کر آج تک ہندوستان میں بھی اس دن کو بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے،اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو قابل احترام مقام دینا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام ہے، عوام میں ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنا ہے، مذہب اسلام آپسی محبت وروادار ی اور مساوات کا درس ابتدائے ایام سے دیتا آرہا ہے. اسلام کے پیغمبر نے اخوت ومساوات اور حقوق انسانی کی ادائیگی کا حکم یوں تو بالکل شروع دن سے ہی دیتے رہے،پیغمبر اسلام نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کی عظمت واحترام اور حقوق  پر مبنی جوابدی تعلیمات اور اصول عطا کیے وہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں اس پر اگر سو فیصد عمل کرلیا جایے تو کسی قسم کی ناہمواریاں سماج میں نہیں رہ جائیں گیں. کیونکہ ایک صحت مند معاشرے کا قیام ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کے بغیر ناممکن ہے،مذکورہ باتیں ڈاکٹر عبدالود ود قاسمی (پروگرام آ فیسر این، ایس، ایس،سی، ایم، بی،کالج) نے اپنی باتوں میں کہیں ،پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو نے کہا کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے. کائنات کے تمام انسانوں کو برابر جینے اور زندگی گزارنے کا حق ہے. ڈاکٹر ہری شنکر رائے( بڑا بابو) نے کہا ہے دنیا میں جتنے مذاہب ہیں سب کے سب انسان دوستی اور آپسی بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے. کسی بھی بھید اور بھاو کی تعلیم کوئی مذہب نہیں دیتا، ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاست) نے کہا کہ بنیادی طور پر اس کائنات میں بسنے لوگ سارے لوگ ایک انسان ہیں اور انسانیت سےبہتر کوئی مذہب نہیں. آئیے آج ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اس روئے زمین سے تمام بھید بھاوکو مٹانے کی اپنے طور پر کوشش کر تے رہیں گے. پروگرام سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر سجیت کمار، ڈاکٹر جیتندر کمار سنگھ، ڈاکٹر پروین کمار، ڈاکٹر بریندر کمار، ڈاکٹراپیندر کمار راوت، ڈاکٹر آلوک کمار، ڈاکٹر پریم سندر، ڈاکٹر پربھاکر، ڈاکٹر بھاگوت منڈل. کے نام اہم ہیں اس موقع پر کالج کے طلباء وطالبات کے علاوہ تدریسی وغیرتدریسی ملازمین بھی شامل رہے.

یادوں کے چراغڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
شاہ فیصل اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ یافتہ، ماہر معاشیات، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق استاذ، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ، مقاصد شریعت پر گہری نظر رکھنے والے نامور مفکر اور صف اول کے قائد مسلم مشاورت کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ۲۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا، تدفین وہیں عمل میں آئی۔
 ڈاکٹر محمد نجات اللہ کا آبائی وطن اور جائے پیدائش گورکھپور ہے، ۱۳۹۱ءمیں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مرکز جماعت اسلامی رام پور یوپی تشریف لے گیے ، عربی کی تعلیم یہیں پائی، وہاں کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ کا رخ کیا اور وہاں کے جلیل القدر علماءواساتذہ سے کسب فیض کیا اور اسلامی معاشیات واقتصادیات کے رموز ونکات میں درک پیدا کیا، اعلیٰ عصری تعلیم کے حصول کے لیے علی گڈھ میں داخلہ لیا اور ۶۶۹۱ءمیں معاشیات میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،جب آپ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ ¿ معاشیات میں لکچرر اور ریڈر مقرر ہوچکے تھے ، چند سال بعد ۸۷۹۱ءمیں شاہ عبد العزیز یونیورسیٹی جدہ میں اسلامی معاشیات کے شعبہ میں تقرری عمل میں آئی، ۱۰۰۲ءمیں سبکدوشی کے بعد وہ کیلوفورنیا چلے گئے اورکیلی فورنیا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کئی زبانوں کے ماہر اور مختلف فنون پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کے مطالعہ وتحقیق کا اصل میدان، مقاصد شریعة اور اسلامی معاشیات ہی رہا ، انہوں نے اسلامی غیر سودی بینک کاری پر زبر دست کام کیا،ا ن کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے اور ”ہوٹ کیک“ کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے، ان کتابوں میں انہوں نے اسلامی اقتصادیات سودی بینک کاری کی بہ نسبت زیادہ مفید اور انسانوں کے لیے نفع بخش قرار دیا ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو تصنیف وتالیف کی جو صلاحیت اللہ نے بخشی تھی اس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا عالم اسلام وعرب میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور مطالعات اسلامی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے ۲۸۹۱ءمیں نوازے گیے، ان کی تصنیفات میں اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا نظریہ، ملکیت، غیر سودی بینک کاری، تحریک اسلامی عصر حاضر میں، اسلامی نشا ¿ة ثانیہ کی راہ اکیسویں صدی میں، اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی، معاصر اسلامی فکر ، مقاصد شریعت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے امام ابو یوسف کی کتاب الخراج اور سید قطب کی کتاب اسلام کے عدل اجتماعی کا ترجمہ بھی دوسری زبان میں کیا، مختلف جرائد ورسائل میں سینکڑوں علمی مضامین ومقالات لکھے، ان کی انگریزی کتابیں بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔
 ڈاکٹر صدیقی کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، وہ سر سری طور پر بات کرنے اور کچھ لکھنے کے عادی نہیں تھے، آج کل جو ہم لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ” کاتا اور لے دوڑے“، وہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، وہ علمی اختلافات کا بُرا نہیں مانتے تھے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے، اور اگر کسی کی دلیل مضبوط ہوتی تو رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے،ان کا اخلاقی مقام بھی بلند تھا، ان کے بعض آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علمی خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا متحمل ، بردبار اور صابر وشاکر تھے۔
 ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہے، لیکن قادر مطلق کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کے نعم البدل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...