Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 16, 2022

بے لگام تبصروں پر لگام ___

بے لگام تبصروں پر لگام ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بے لگام تبصرے ہماری زندگی کا حصہ بن گیے ہیں، جو منہ میں آیا بَک دیا اور جو چاہا کہہ دیا، پھر اس بکواس اور کہنے کے لیے جگہ کی بھی قید نہیں ہے، چائے کی دوکان، کھانے کی میز ، دوستوں کی مجلس میں اس قدر تبصرے ہونے لگے ہیں کہ وہ دیہات کی چوپال کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں دیہات میں چند افراد حقہ کے گُر گرے کے ساتھ پورے گاؤں کی خبر لیا کرتے تھے، موبائل، نیٹ اور ٹی وی کے آجانے سے دیہات کا چوپال تو دم توڑ رہا ہے، لیکن بے لگام تبصرے اس روایت کو تسلسل عطا کرنے میں آج بھی مشغول ہیں۔
 ابھی حال ہی میں گجرات پولیس نے ترنمول کانگریس کے قومی ترجمان ساکیت گوکھلے کو جے پور ہوائی اڈہ سے گرفتار کرکے احمد آباد لے گئی کیوں کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر موربی پل حادثہ کے حوالہ سے غیر ضروری تبصرہ کیا تھا، اور ٹوئیٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم کے موربی دورے پر تیس کروڑ روپے خرچ کیے گیے،اس میں سے ساڑھے پانچ کروڑ روپے ان کے استقبال ، جائے معائنہ کے انتظام وانصرام اور فوٹو گرافی پر خرچ ہوئے جب کہ مرنے والے ایک سو پینتیس متاثرین کو چار لاکھ روپے فی کس کے حساب سے صرف پانچ کروڑ روپے ملے، پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے وزیر اعظم کی شبیہ خراب ہوئی، اسی طرح کی ایک خبر فلم ساز اگنی ہوتری کے بارے میں بھی آئی، جنہوں نے اکتوبر ۲۰۱۸ء میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس ایس مُرلی دھر کے خلاف ٹوئٹ کر دیا تھا، اگنی ہوتری نے دہلی ہائی کورٹ سے معافی مانگ کر ہتک عدالت کے مقدمہ سے اپنے کو بری کرالیا، لیکن ساکیت گوکھلے اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں، ممتا بنرجی نے اسے سیاسی کارروائی قرار دیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے لوگوں کی آزادی چھیننے سے تعبیر کیا ہے۔
 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غلط کاموں پر تنقید اور تبصرے نہ کیے جائیں، ضرور کی جائے لیکن اس کا دائرہ اتنا نہ پھیلا دیا جائے کہ اس کا سِرا جھوٹ، الزام تراشی، شخصیت کی کردار کُشی سے مل جائے، بد قسمتی سے ان دنوںیہی ہو رہا ہے ، پگڑیاں اچھالنے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی ہی جا رہی ہے، اس سے سماجی تانے بانے کو سخت نقصان پہونچ رہا ہے اور یہ خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، اسی وجہ سے صرف یو ٹیوب نے جولائی سے ستمبر کے درمیان ہندوستانیوں کے سترہ لاکھ ویڈیو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا ئے، یقینا شخصی آزادی دستور کے مطابق ہمارا حق ہے، لیکن سستی شہرت کے حصول کے لیے دوسروں کو ذلیل ورسوا کرنے کی اجازت کسی سطح پر نہیں دی جا سکتی ، حکومت کو ایک ایسا طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ تنقید وتبصرہ کے حدود وقیود متعین کرے؛ تاکہ بے لگام تبصروں پر لگام لگائی جا سکے۔

ترقی درجات کا الٰہی نسخہ:ایمان وعلم ___

ترقی درجات کا الٰہی نسخہ:ایمان وعلم ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131) 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم وتربیت کی جو اہمیت اور حصہ رہا ہے ، اس کے لیے اتنی بات کا سمجھ لینا کافی ہے کہ اسی علم کی بنیاد پر فرشتوں سے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کروایاگیا، اور حضرت آدم کو تمام انسانوں کا باپ اور پہلا نبی بنا کر انہیں تربیت کے کاموں پر مامور کیا گیا، اللہ رب العزت نے بیان کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں، جس طرح تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہواکرتے، قرآن کریم میں عروج کا جو نسخہ بنی آدم کے لیے اللہ رب العزت نے طے کیا، اس میں ایمان اور علم کو رفع درجات کا ذریعہ بتایا، سورة عصر میں انسان کو گھاٹے سے نکالنے والی چیز ایمان کو قرار دیا جو اللہ رب العزت اور رسالت پر اس کے تمام اوصاف اور خصوصی معتقدات پر ایقان واعتماد کا نام ہے، یہ ایقان واعتماد بغیر علم کے ممکن نہیں ، ایمان کے ساتھ عمل صالح کا مزاج تربیت سے بنا کر تا ہے ، حق پر ثبات اور صبر پر استقامت ہی اس تربیت کا حاصل ہے، جو انبیاءکرام لے کر کے آئے، اللہ رب العزت نے ایمان اور عمل صالح پر جمنے والے بندے کے لیے خلافت ارضی کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ہم انہیں ضرور بالضرور زمین میں خلیفہ بنائیں گے، جیسا پہلی قوموں کو ہم نے خلافت دی تھی، اللہ ان کے لیے جس دین پر راضی رہا اس پر استقامت عطا فرمائی اور خوف ودہشت کے ماحول کو پُر امن بنا دیا، قومیں جب تک ایمان ، عمل صالح کے ساتھ زندگی گذارتی رہیں، انہیں عروج رہا اور جب ان کے اندر ایمانی ، اعتقادی ، علمی اور اخلاقی زوال نے آلیا تو ان کا زوال شروع ہو گیا، دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے اور یہ سب سے بڑی سچائی ہے ، تمام انبیاءکی حیات وخدمات کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر نبی کو اس دور میں جیسا علمی اختصاص تھا، اسی اعتبار سے معجزے دیے گیے ، تاکہ ان کی علمی بر تری ان کی امت پر مسلم رہے، امت مسلمہ کے لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر مبعوث کیا اور علم وانکشافات کے دروازے اس قدر کھولے گیے کہ آپ معلم کا ئنات بن گیے اور اعلان فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس کے ساتھ تربیت کا بھی ذکر کیا کہ وہ معلم اس لیے بنا کر بھیجے گیے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تکمیل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کا مقصد اچھے کردار کا انسان بنانا ہے ، قرآن کریم میں تعلیم وتزکیہ کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا اور اسے کار نبوت قرار دیا گیا۔
 یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر قوموں کے عروج وزوال میں ان دونوں چیزوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم خدا شناشی اور خود شناشی کا ذریعہ ہے ، خدا شناشی انسانوں اور حکمرانوں کو ظلم وطغیان سے باز رکھتا ہے ، اس کے ذہن ودماغ میں اس کی وجہ سے فکر آخرت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ فکر اسے غلط راہوں پر جانے سے روکتی ہے ، وہ جانتا ، مانتا اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دنیا ہے ، جہاں ہمیں تمام اعمال کا حساب دینا ہوگا، اس دن زبان درازی کام نہیں آئے گی ، بلکہ زبانوں پر تالے لگ جائیں گے اور اعضا وجوارح ہاتھ پاوءں بولنا شروع کر دیں گے ، یہ بولنا در اصل کراما کاتبین کے ذریعہ تیار کیے گیے اعمال نامے کے محضر پر شہادت ہوگی اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی اخروی زندگی کا فیصلہ ہوگا، جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہوگی اس کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس علم کی وجہ سے انسان کے اندر جو نظریات پر ورش پاتے ہیں، اس پر جمنا آسان ہوجاتا ہے، ایسا شخص ڈُھل مُل یقین نہیں ہوتا، مُذَب ±ذَبِی ±نَ بَی ±نَ ذالکَ لَا اِلی ھٰو ءلائِ وَلَا الیٰ ھٰو ¿لَائِ کی کیفیت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی، یہ تیقن کی یہ کیفیت اس سے ان اعمال کا صدور کراتی ہے جو اس کے نظریہ کے مطابق ہوتے ہیں، اور عملی طور پر اسے استحکام بخشتے ہیں۔ علم کی وجہ سے جو خود شناشی پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے جھکتا نہیں ہے، اپنے نظریات سے سمجھوتا نہیں کرتا، اور علی وجہ البصیرت ان نظریات کو زمین پر اتارنے کے لیے جد وجہد کرتا ہے ، جس سے قوموں کے عروج کی داستان رقم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
 اس کے بر عکس جب علم کی کمی ہوتی ہے تو پہلے اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے، اس زوال کی وجہ سے دوسرے افکار ونظریات اس کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں، ایسے میں پہلے نظریات سے یقین اٹھ جاتا ہے اور جب جڑ میں کمزوری آجاتی ہے تو اس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے ، اس کی مثال اس کٹی پتنگ کی طرح ہوجاتی ہے ، جس کو ہوا کا ایک جھونکا اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور پتنگ کسی درخت کی شاخ سے الجھ کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے ، خود شناشی کی کیفیت کا اختتام قوموں کی اکثریت سے ہوجائے تو زوال شروع ہوجاتا ہے ،اس مسئلہ کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ گاڑی جب تک مسطح سڑک پر ہو،اس کو بریک لگا کر روکا جا سکتاہے، لیکن جب گاڑی ڈھلان پر چل پڑے تو بریک بھی کام نہیں کرتا،تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے، مثال کے طور پر آپ ہندوستان میں بودھوں کے عروج وزوال کی داستان پڑھیں ان کے یہاں اللہ پر ایمان ویقین کا واضح اعلان نہیں ہے ، وہ عقل کی آغوش میں چلے جانے کی بات کرتے ہیں، گویا گیان کی منزل ان کے یہاں عقل کی آغوش ہے، یہ عقل ، عقل کل یعنی اللہ بھی ہو سکتا ہے ، اور عقلیت بھی ، جس کے ماننے والے اسلام میں بھی کچھ لوگ ہیں، جینیوں کے یہاں جانداروں کی ہلاکت سے خود کو بچائے رکھنے کی بات کہی گئی ہے ، لیکن خدا کے وجود اور اس کے متعلقات پر توجہ نہیں دی گئی اس کا مطلب ہے کہ صحیح علم نے ان کے دل ودماغ کو منور نہیں کیا، اس لیے وہ عروج کی طرف بڑھ نہیں پائے ۔
 خود شناشی کے لوازمات میں سے خودی اور خود داری بھی ہے ، خودی معرفت نفس کا دوسرا نام ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا، گویا معرفت نفس ، معرفت رب تک پہونچنے کا زینہ ہے ، یہ علم جس قدر وسیع ہوگا کائنات کے اسرار ورموز بندے پر کھلنے لگیں گے ، اور جس قدر اسرار وموز سے واقفیت ہوگی بندہ سماجی اور ذہنی طور پر اسی قدر ترقی کرے گا، اسی لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ علم والے ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہ ڈر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتاہے، جو بندوں کے اعمال افکار اور اقدار کو صحیح سمت عطا کرنے کا کام کرتاہے، اس صحیح سمت کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے، اور اللہ کی نصرت ومدد کا حق دار ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ عروج کے منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت سے علم وانکشافات کے دروازے کھلے، اس کے قبل کا زمانہ آج بھی دور جاہلیت کہلاتا ہے، شعراءوادباءکی زمانہ کے اعتبار سے جو تقسیم کی گئی ،اس میں نزول قرآن کے قبل کی شاعری کو دور جاہلی کی شاعری اور ادب جاہلی کہا جاتا ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کی ایمانی، تہذیبی، تمدنی، عمرانی، سماجی اور معاشرتی رہنمائی فرمائی، اور اسے کتاب ہدایت کے طور پر نازل کیا، یہ ہدایت ہر میدان میں قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو ملی، اللہ رب العزت نے اسے تبیانا لکل شئی ہر چیز کو ظاہر کرنے والی کتاب کہا، اس اشارہ کی وجہ سے فلسفیوں نے اس سے اپنے مطلب کی چیز تلاش کی اور سائنس دانوں نے قرانی اشارات پر اپنی تحقیق کی بنیاد ررکھی، انہوں نے اللہ رب العزت کے ارشاد میں تسخیر کائنات، تخلیق انسانی کے مراحل، زمین کی تہہ میں چھپے معدنیات زمین اور سورج کی رفتار، دن اور رات کے رموز سبھی کچھ دریافت کر لیا، مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ان کی دریافت کا اصل ماخذ قرآن کریم ہی تھا، انہوں نے قرآن کریم میں تدبر اور غور وفکر کیا اور اس غور وفکر کے نتیجے میں دنیا کو علمی اور فنی اعتبار سے مالا مال کر دیا، ان کی محنتوں سے ایجادات وانکشافات کے نئے دروازے کھلے، اس کے بعد علم کی تقسیم ہوتی چلی گئی ،پہلے اسے نظری اور عملی میں تقسیم کیا گیا، پھر نظری کی تین اور تقسیم علم الٰہی ، علم حساب وریاضی اور علم طبعی میں ہو گئی، علم الٰہی کو علم اعلیٰ، علم ریاضی کو علم اوسط اور علم طبعی کو علم ادنی کے طور پر متعارف کرایا گیا، عملی کی بھی تین قسم اخلاق، تدبیر منزل اور سیاست مدن کے عنوان سے کی گئی، اس کے بعد اسے اسلامی غیر اسلامی کے عنوان سے تقسیم کیا گیا، علم الادیان اور علم الابدان کا تصور سماج میں عام ہوا، ابو نصر فارائی (م۹۲۳ھ) اور محمد یوسف خوارزمی(۷۸۳) نے علم کی جو درجہ بندی کی وہ مغربی دنیا میں بھی مقبول ہوئی، بر صغیر ہند وپاک میں علم دین ودنیا کی تقسیم نے اس قدر رواج پایا کہ علماءاور دانشور کا طبقہ الگ الگ وجود میں آگیا اور بقول مولانا مناظر احسن گیلانی ملت دو نیم ہو کر رہ گئی پہلے یہ تقسیم نظریاتی بنیاد پر ہوئی اور اب یہ انتظامی ضرورت بن گئی ہے، اس لیے اس فکر ی تقسیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن مدارس میں بعض عصری مضامین کی شمولیت اور عصری تعلیمی اداروں میں بنیادی دینی تعلیم کی شمولیت اور مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ اداروں میں اسلامی ماحول فراہم کرکے بڑی حد تک اس خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے۔

جمعرات, دسمبر 15, 2022

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد 

اردو دنیا نیوز٧٢ 
اردو زبان بھارتیوں کی دوسری قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی زبان ہے. 
کہا جاتا ہے کہ قوموں کا زوال بعد میں ہوتا ہے پہلے اس کی زبان کا زوال ہوجاتا ہے. 
اردو زبان کی بقا میں ہی مسلم قوم کی بقا کا راز مضمر ہے. 
اگر کہا جائے کہ اردو ہندی زبان سے بھی بڑی زبان ہے تو شاید غلط نہ ہوگا اس لئے کہ آج متعدد مملالک میں اردو بول چال کا چلن ہے. 
مگر اس حقیقت سے روگردانی کرنا بھی غلط ہوگا کہ کسی زبان کو روئے زمین سے مٹانے میں سب سے بڑا کردار اہل زبان ہی ادا کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے. غیر اہل اردو کو اس سے کیا واسطہ کہ زبان راہ فروغ پر ہے یا راہ زوال پر ہے. خود اہل زبان ہی اپنے معاشرتی زندگی میں اس کا چلن چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اگلی نسل اس سے ناواقف ہوجاتی ہے 
. اسی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی کئ موقعوں سے نعتیہ مشاعرہ کرواتی ہے تا کہ اردو کا فروغ ہو. اسے ایک چھوٹی سی کوشش کہہ سکتے ہیں. 
اسی سلسلے کی ایک کڑی سوشل میڈیا پلیٹ فارم زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہے. جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری نے کی. 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی نے اردو زبان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی. ضلع ارریہ کے شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پرتحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
اردو دنیا نیوز٧٢ 

 حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری تھے, 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

بدھ, دسمبر 14, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پٹنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم صاحب کو جنہوں نے بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے طفل مکتب کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہندوستانی عدلیہ کو مرکزی حکومت سے آزاد رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری کا یہاں الگ نظام ہے، جسے کالجیم کہتے ہیں،،کالجیم کے ارکان طے کرتے ہیں کہ کس کی ترقی ہونی ہے اور کون جج یا چیف جسٹس بنے گا، تقرری کے اس کالجیم سسٹم کی وجہ سے مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ یہ بحالیاں مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونی چاہیے،ا س کی وجہ سے معاملہ گرما گیا ہے، سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں کالجیم کی سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری میں غیر معمولی تاخیر پر حکومت کو پھٹکار لگائی تھی ، اس پر وزیر قانون کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا کہ کالجیم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ بھیجے گیے ہر نام کو منظور کر لے ، اگر دستور کی روح یہی ہے تو سپریم کو رٹ کو خود سے تقرری کر لینی چاہیے،اس کے ساتھ ہی وزیر قانون نے سپریم کالجیم کے ذریعہ ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے پیش فائلوں کو کالجیم کو نظر ثانی کے لیے واپس کر دیا ہے اور ممبئی ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے بھیجے گیے ناموں میں سے صرف دو سینئر وکلاءسنتوش گووندراو ء اور منوہر ساٹھے کی تقرری کی منظوری دی ہے۔
 جن فائلوں کو حکومت نے کالجیم کو واپس کیا ہے ان میں سوربھ کرپال کی تقرری کی فائیل بھی شامل ہے، سوربھ کرپال ہم جنس پرست ہے اور وہ ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت میں بیان دیتے رہے ہیں، انہوں نے سیکس اینڈ دی سپریم کورٹ نامی کتاب بھی لکھی ہے ، وہ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس بی این کرپال کے بیٹے ہیں، ان کی سفارش اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمن نے کی تھی، ترقی کی یہ سفارش 11 نومبر 2021ءکو لی گئی تھی، اس کے قبل 2018ءسے اب تک ان کا نام بار بار بھیجا جا تا رہا ہے ، لیکن ان کی ترقی کی منظوری نہ ملنے میں ان کی جنسی بے راہ روی اور ان کے خیالات کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اگر ان کو دہلی ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا تو وہ پہلے ہم جنس پرست جج ہوں گے ، ظاہر ہے ہندوستانی دستور کے اعتبار سے یہ ایک غلط کام ہے اور ہندوستانی تہذیب وثقافت ، انسانی اقدار کے بھی خلاف ہے۔اس لیے حکومت نے ان کی تقرری کو روک رکھا ہے جو لائق ستائش ہے۔
 لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک غلط سفارش کی بنیاد پر ساری فائلوں کو واپس کر دیا جائے، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ججوں کی کمی کی وجہ سے ہی پورے ہندوستان کی عدالت میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہے۔

منگل, دسمبر 13, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پتنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشتی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم کو جنہوں بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے نااہلوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...