Powered By Blogger

اتوار, دسمبر 18, 2022

علم وفن کے نیر تاباں " ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح ............................................................................مؤلف ومرتب: ڈاکٹر نورالسلا م ندوی✍🏻: عین الحق امینی قاسمی معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

"علم وفن کے نیر تاباں " 
            ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح 
............................................................................
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مؤلف ومرتب: ڈاکٹر نورالسلا م ندوی

✍🏻: عین الحق امینی قاسمی 
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

انسانوں سے آباد اس دنیا میں یوں تو بے شمار کمالات کے حامل انسان گذرے ہیں ،مگر ماضی قریب میں جن عظیم شخصیات نے اپنی ذہانت وذکاوت ، خدادادانتظامی صلاحیت وصالحیت، علم وفضل ،زہد وورع اور متنوع امتیازات سے متآثر کیا ہے ،ان میں ایک ممتاز نام ،فکر ولی اللہی کے امین، ریاست بہار کی  معروف بزرگ  شخصیت حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذات عالی تھی ،حضرت مولانا مختلف جہتوں کے مالک تھے ،وہ ملک کے کئی ممتاز اداروں میں رہ کر تدریس وتربیت اور انتظامی وروحانی فرائض انجام دیتے رہے،  دینی خدمات کی راہ میں   ایک لانبا عرصہ انہوں نے بتایا ،جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد تیار ہوئے ،جو ملک کے مختلف حصوں میں مصروف کار ہیں ،قضائے الٰہی سے وہ گذشتہ 14/فروری2021 میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

ضرورت تھی کہ ان کی حیات وآثار کو سمجھنے،سمجھ کر برتنے اور آئندہ ان پر بہت کچھ لکھنے پڑھنے کی غرض سے مولانا مرحوم کی شخصیت وخدمات پر مشتمل ایک جامع "نقش اول" سامنے لایا جاتا اور یہ "زندہ خدمت "کسی ایسی شخصیت سے ہی ممکن تھی کہ جومولانا مرحوم کے خاص تربیت یافتہ بھی ہوں اور جنہیں علم وقلم سے گہری وابستگی بھی ہو۔ محترم ڈاکٹر نورالسلام ندوی ہم سبھوں کےشکریہ کے مستحق ہیں ،جنہوں نے اس طرف خاص توجہ دے کرمطلوبہ نقش اول" یعنی علم وفن کے نیر تاباں " کو سامنے لانے میں انتہائی صبر آزما مرحلوں کو انگیز کیا اور بالآخر وہ "معیار "کو پالینے میں سولہ آنہ کامیاب بھی ر ہے ۔
ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا وطنی تعلق دربھنگہ کے "جمال پور " سے ہونے کی وجہ سے صورت کے ساتھ ساتھ سیرت وکردار میں بھی "جمال وکمال " پورے طور پر حلول کر گیاہے ،کم عمری کے باوجود تھوڑے وقت میں جس طرح سے انہوں نے ریاستی سطح پر  ہر طبقے میں متعدد جہتوں سے اپنی پہچان بنائی ہے یہ ان کے سنجیدہ ،محنتی ،قابل اور صالح ہونےکی دلیل ہے ۔لکھنے پڑھنے کے دھنی انسان تو ہیں ہی،منزل پانے کی جستجو اور لگن بھی جنون کی حدتک ہے ،نفیس ذوق کے مالک ہیں ،جس طرح وہ کسی کانفرنس اور سیمینار کے ڈائز پر اچھا بولتے ہیں ، بعینہ قلم میں بھی برجستگی ،شگفتگی صاف جھلکتی ہے ۔ ان کی کئی ایک کتابیں اس سے قبل کتب خانوں میں آچکی ہیں ۔راقم الحروف ان سے بہت پر امید ہے کہ آنے والے ہندستان میں ان جیسے جیالے ہی" امیدوں کے چراغ "ہوں گے,مگر سرکاری محکموں کے غیر مذہبی ماحول اور اطمینان بخش ملازمت نے مجبورا ہی سہی بہت سوں کو خاموش کردیا ہے ،اس پہلو سے ڈربھی لگتا ہے ،اللہ انہیں حوصلہ دے اور وہ ناخدائی کے جذبہ خدمت سے آشنا رہیں۔

" علم وفن کے نیر تاباں " ان کے حسین ذوق اور فکر وفن کا خوبصورت مرقع ہے ،یوں تو  یہ کتاب مولانا علیہ الرحمہ کی شخصیت پر لکھے گئےمتعدد اہل قلم  کے مضامین کا بیش قیمت مجموعہ ہے ، مگر خوبی کی بات یہ ہےکہ کتاب نہ عام  قلم کا اثر خامہ ہے اور نہ ہی روایتی طریقے سے اسے محض "مجموعہ" بناکر پیش کردیا گیا ہے ، بلکہ 256/ صفحے کی اس کتاب کو ظاہر بیں میں انتہائی نفاست آمیز سرورق کے ساتھ  سامنے لایاگیا ہے ،ایسالگتا ہے کہ ٹائٹل پیج تیار کروانے میں مرتب موصوف نے زندہ دلی سے کام لیا ہے اور ایسے ہی کتاب کے باطن کو سنوارنے میں بھی کم ازکم  شش جہت سے کام لیا ہے ۔کتاب کے مشمولات کا تعارف  فاضل مرتب نے اپنے مبسوط اور دمدارمقدمے کے اخیر حصے میں جس طرح سےکرایا ہے وہ یقینا "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات" کا مصداق ہے :
"کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ،پہلا باب نقوش حیات کے عنوان سے ہے ،اس باب میں مولانا کی زندگی کے ابتدائی احوال ،خاندانی پس منظر اور تعلیمی اداروں سے  وابستگی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس باب میں مولانا امیر معاویہ قاسمی ، مولا نا مفتی ثناء الہدی قاسمی ، مولانا رضوان احمد ندوی ، خاکسارنو رالسلام ندوی ، مفتی جمال الدین قاسمی، نسیم احمد رحمانی ندوی ،مولا نا مفتی سعید پالنپوری فلاحی ، مولا نا مفتی اشتیاق احمد قاسمی اور ابو معاو یہ محمد معین الدین ندوی قاسمی کے مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ دوسرا باب ’ ’ مشاہدات و تاثرات ‘ ‘ کے نام سے ہے ، اس باب میں مضمون نگاروں نے اپنے مشاہدات و تاثرات پر قلم بند کئے ہیں ۔ان میں مولانا بدرالحسن قاسمی ، مولانا عبدالرب قاسمی ، مولانا طارق شفیق ندوی ، مولانامفتی خالد نیموی قاسمی ، ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی ، مولانا احتشام الحق قاسمی رامپوری ، مولانا مفتی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سعد اللہ قاسمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ تیسرا باب تدریس وخطابت ‘ ‘ پرمشتمل ہے ، اس باب میں مولا نا مفتی ظفر عالم ندوی ، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی ، مولانامفتی مجاہد الاسلام قاسمی ، مولا نا اسعد ندوی ، مولا نا محمد علی اور مولانا امیر معاویہ قاسمی کے مضامین ہیں ، جن میں مولانا کی تدریسی صلاحیت و تجربات اور خطابت کے انداز واسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ چوتھا باب ’ ’ تعلیمی تنظیمی و تحریکی خدمات ‘ پر محیط ہے ، اس باب میں مولانا کی علمی مشغولیات تعلیمی کارنامے اور تنظیمی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس حصہ میں مولا نا خالد سیف اللہ ندوی ، مولانامفتی نافع عارفی ، مولا نامفتی عین الحق امینی قاسمی (بیگوسرائے)، حافظ مولا نا نعمت اللہ قاسمی ، احقر نورالسلام ندوی ، مولانا ابوعباده ، مفتی رضوان عالم قاسمی کے مضامین شامل اشاعت کئے گئے ہیں ۔ پانچواں باب مولانا کی تحریروں کے نمونے اور اخبارات کے تراشوں‘‘پر مشتمل ہے"
 
کتاب کے سرسری مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مضامین کو انہوں نے ازخود پڑھنے کے بعد ہی باب درباب تقسیم کیا ہے اور ہرممکن "بہتر سے بہتر " بناکراپنے قارئین کی بارگاہ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم پروف ریڈنگ کی بعض روایتی بھول چوک سے وہ ابھر نہیں سکے ہیں  چوں کہ 

غلطی سے مبرا کوئی انسان نہیں ہے 
یہ ذوق کا دیوان ہے قرآن نہیں ہے

مجموعی اعتبار سے کتاب  قابل حوصلہ ،طلب انگیز ،بصیرت افروز اور ثاقب فکر ونظر کی حامل ہے ، متعدد اہل تجربہ افراد کے پیش لفظ ، تقریظ ،دعائیہ کلمات ،تبریک ،حرف زریں اور خاص کر حافظ مولانا سفیان احمد ناظم مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور دربھنگہ کے حرف چند نے کتاب کی اہمیت بڑھادی ہے ۔ کتاب کی عام قیمت 300/روپے رکھی گئی ہے ۔ فاضل مرتب(9504275151 )   کے علاوہ بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ،مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور ،اور ناولٹی بک ہاؤس اردو بازار دربھنگہ وغیرہ سے کتاب بسہولت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

ہفتہ, دسمبر 17, 2022

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ نے ۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ بوقت ۳؍ بجے سہ پہر بھاگل پور میں بڑے بیٹے امجد حیات برقؔ کی رہائش گاہ پر اپنی آنکھیں موند لیں، ایک وقت کی نماز نہیں چھوٹی، بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس دنیا میں تو اب یہ آنکھ نہیں کھل سکے گی، نہ درد نہ بے چینی، نہ نزع کی تکلیف، نہ آہ وفغان، زندگی میں بھی پُر سکون رہتے تھے اور اسی سکون کی کیفیت کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے ، جنازہ ان کے مکان واقع زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور رات کے ڈیڑھ بجے پہونچا، لڑکے اور لڑکی کو دہلی اور پنجاب سے آنا تھا، اس لیے جنازہ میں تاخیر ہوئی اور سنیچر کے دن بعد نماز مغرب تجہیز وتکفین میں شرکت کے بعد احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مقامی قبرستان میں چہار دیواری سے اتر جانب متصل تدفین عمل میں آئی، اہلیہ ۲۷؍ جون ۲۰۱۲ء میں انتقال کر چکی تھیں، پس ماندگان میں تین لڑکے امجد حیات برقؔ ، سر ور حیات برقؔ ، انور حیات برقؔ اور ایک صاحب زادی کو چھوڑا، ایک لڑکا ارشد حیات چھ سال کی عمر میں استھانواں میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ بن حکیم محمدعبد اللہ (م ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ء ۔ اپریل ۱۹۹۴ء ) بن ممتاز حسین بن سخاوت علی بن مراد علی بن من اللہ کی ولادت بیندبلاک کے قریبی موضع میرہ چک ضلع نالندہ میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو ہوئی ، تعلیم کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہوا، کچھ دنوں بعد مقامی پاٹھ شالہ میں داخل ہوئے، لیکن کم وبیش چھ ماہ کے بعد بیند ہائی اسکول کے پہلے درجہ میں منتقل ہو گیے، یہ سال ۱۹۴۴ء کا تھا، ۱۹۴۶ء میں درجہ چہارم تک پہونچے ، ۱۹۴۶ء میں ہندو مسلم فساد کی وجہ سے برقؔ صاحب کے والد نقل مکانی کرکے استھانواں منتقل ہو گیے ، کیوں کہ میرہ چک میں صرف پانچ خاندان بستے تھے فساد کے بعد یہ تعدادگھٹ کر صرف دو رہ گئی تھی، بقیہ سارے غیر مسلم تھے، معاملہ بتیس دانت کے بیچ ایک زبان کا تھا، دانتوں سے زبان کا کٹنا نادر الوقوع ہے، لیکن غیر مسلموں کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی اور آج بھی یہ شاد ونادر نہیںہے ، جس پر الشاذ کالمعدوم کہہ کر بات آگے بڑھادی جائے۔
۱۹۴۶ء کے خون ریز فساد کے بعد برقؔؔ صاحب کو بیند ہائی اسکول چھوڑ دینا پڑا ، میرا چک سے استھانواں کی منتقلی برقؔ صاحب کی زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، اور آپ کی تعلیم اسکول کے بجائے مدرسہ محمدیہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہونے لگی، اس زمانہ میں مولانا عزیز احمد صاحب بھنڈاری مدرسہ محمدیہ کے ناظم تھے، یہاں برقؔ صاحب کا داخلہ تحتانیہ دوم میں ہوا، اور اسی مدرسہ سے آپ نے بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ کے نصاب کے مطابق عالم تک تعلیم پائی، اس وقت یہ مدرسہ تعلیم وتربیت کے ا عتبار سے مثالی سمجھاجاتا تھا، یہاں برقؔ صاحب نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علم وادب سیکھا، ان میں مولانا فصیح احمد ، مولانا رضا کریم، مولانا وصی احمد ، حافظ حفیظ الکریم رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا فصیح احمد اور مولانا رضا کریم جن کا شمار جید علماء میں ہوتا تھا اور جو تقویٰ طہارت امانت ودیانت میں بھی ممتاز سمجھے جاتے تھے، ان سے برقؔ صاحب نے نحو وصرف، حدیث وتفسیر، فقہ وعقائد منطق وفلسفہ اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، حافظ عبد الکریم نے گلستاں ، بوستاں، اخلاق محسنی، پند نامہ ، عطار کے اسباق پڑھا کر فارسی زبان وادب سے دلچسپی پیدا کی، انگریزی کی تعلیم ماسٹر انوار الحق استھانواں ، ماسٹر عبد الودود اکھدمی، ماسٹر عبد الصمد بہار شریف ، ماسٹر علی کریم استھانوی اور مشتاق بھائی ملک ٹولہ سے پائی، ان حضرات کی محنت سے انگریزی زبان وادب میں ایسی مہارت پیدا ہوئی کہ بعد کے دنوں میں فارسی کے استاذ ہونے کے باوجود لڑکے ان سے انگریزی کی ٹیوشن لیا کرتے تھے، ہندی اور حساب میں بھی گروسہائے پرشاد اکبر پوری نے خاصہ درک پیدا کر دیا تھا۔
برقؔ صاحب نے۱۹۵۹ء میں عالم کی ڈگری مدرسہ سے پانے کے بعد ۱۹۶۰ء میں میٹرک میں کامیابی حاصل کی، ۱۹۶۳ء میں دربھنگہ کے پُرکھوپٹی پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی، اس کے باوجود ۱۹۷۷ء تک تعلیم کے مراحل طے کرتے رہے ، ڈبل ایم اے کرنے کے ساتھ ۱۹۶۶ء میں ٹیچر ٹریننگ کا دو سالہ کورس مکمل کیا، بی اے آنرس فارسی، ایم اے فارسی، ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ایم اے فارسی میں ٹوپر کے ساتھ یونیورسٹی کے سابقہ ریکارڈ توڑنے میں بھی انہیں کامیابی ملی ، ۱۹۷۸ء میں امتیازی نتائج امتحان کی وجہ سے بہار یونیورسیٹی مظفر پور کے آر ڈی اس کالج میں آپ کی بحالی عمل میں آئی اور آپ نے قریب کے محلہ پوکھر یا پیر مظفر پور میں زاہدہ منزل کے کرایہ کے ایک کمرہ میں بود وباش اختیار کر لیا اور کالج کے اوقات کے علاوہ طلبہ کو انگریزی کا ٹیوشن کراتے تھے او رواقعہ یہ ہے کہ ان سے اردو وفارسی کے طلبہ کم اور انگریزی کے طلبہ زیادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔
میں جب دار العلوم دیو بند سے فارغ پاکر مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا تو کئی سال رمضان المبارک میں پوکھریا پیر کی مسجد میں تراویح میںقرآن سنانے کا اتفاق ہوا، وہ ان دنوں میرے مقتدی ہوا کرتے تھے او ربقیہ وقت مسجد میں خالصتا لوجہ اللہ امامت بھی کیا کرتے تھے، میں نے اپنی زندگی میں کسی پروفیسر کو اس پابندی کے ساتھ امامت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ۲۰۰۰ء میں وہ اردو فارسی کے صدر شعبہ کی حیثیت سے آر ڈی اس کالج سے ہی ریٹائر ہوئے، سبکدوشی سے پہلے ۱۹۹۲ء میں انہوں نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور میں ایک قطعۂ آراضی حاصل کرکے مکان تعمیر کرالیا تھا، اور وہیں آخری عمر تک رہے، اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے بڑے صاحب زادہ امجد حیات برقؔ کے ساتھ رہا کرتے تھے، جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا وہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوجاتے، چند مہینے قبل تک دربھنگہ تھے، پھر جب امجد حیات صاحب کا تبادلہ بھاگلپور ہو ا تو وہ ان کے ساتھ چلے گیے ، امجد حیات رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں، میری بھتیجی طلعت جہاں آرا عرف سوئیٹی بنت ماسٹر محمد رضا الہدیٰ رحمانی ان کے دوسرے صاحب زادہ سرور حیات کے نکاح میں ہے، میری ایک چچازاد بہن اور چھوٹے بھائی ماسٹر محمد نداء الہدیٰ کی اہلیہ زینت آرا عرف نوروزی نے ان کی رہنمائی میں عارف ماہر آروی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میرے ایک بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ فدا نے بھی ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا رکھا تھا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ فطری طور پر شاعر تھے، اسی لیے کم سنی سے ہی باوزن اور بے وزن اشعار کی پرکھ پیدا ہو گئی تھی ، ۱۹۵۵ء میں یاد رفتگاں کے نام سے ایک نظم لکھی تھی، گاہے گاہے طلب پر سہرا یا موضوعاتی نظم لکھتے رہے ، لیکن شاعری کبھی بھی ان کے لیے ذریعہ عزت نہیں رہی ، پروفیسر ثوبان فاروقی کی بیٹی کی ولادت پر انہوں نے سولہ اشعار پر مشتمل تہنیت نامہ لکھا تھا ، اس کے جواب میں پچاس اشعار پر مشتمل منظوم خط پروفیسر ثوبان فاروقی سابق صدر شعبہ اردو آر این کالج حاجی پور نے ان کو ارسال کیاتھا، برقؔ صاحب نے اس کے جواب میں چھہتر اشعار پر مشتمل دوسرا مکتوب ان کی خدمت میں ارسال کیا، ان تینوں کو ڈاکٹر امام اعظم نے تمثیل نو جنوری ۲۰۲۱ء تا جون ۲۰۲۲ء کے شمارہ میں شائع کر دیا ہے اسی شمارہ میں ’’کھینی امان اللہ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم ہے ، جن سے ان کی قادر الکلامی ، برجستہ گوئی، رفعت تخیل اور ندرت افکار کا پتہ چلتا ہے۔
برقؔ صاحب کی نانی ہال میر غیاث چک تھی ،ا ن کے والد حکیم عبد اللہ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین شادی کی تھی ، برقؔ صاحب محل اولیٰ سے تھے ، ان کے ایک اور بھائی سراج الحق تھے، جو ان سے بڑے تھے، جن کا انتقال ۲۰۱۲ء میں ہوا، ان کے تین علاتی یعنی باپ شریک بھائی اور ہیں جن کے نام اعجاز الحق، اظہار الحق اور نثار الحق ہیں،برقؔ صاحب کی شادی باڑھ سب ڈویزن کے گاؤں کنہائی چک ضلع پٹنہ میں دسمبر ۱۹۶۹ء میں ہوئی تھی ۔
 برقؔ صاحب کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب راجوی دربھنگوی دامت برکاتہم سے تھا، مظفر پور میں جب پروفیسر برقؔؔ صاحب کا قیام ہوتا مولانا کے ارادت مندوں کی مجلس ِمراقبہ اور ذکر پروفیسر برقؔ صاحب کے گھر پر ہی لگا کرتی تھی، گاہے گاہے وہ حضرت سے ملاقات کے لیے گنور وغیرہ کا سفر بھی کیا کرتے تھے، پرفیسر برقؔ تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد میں با جماعت نماز کے انتہائی پابند تھے، زکریا کالونی کے امام مفتی آصف قاسمی جب کبھی رخصت پر ہوتے تو وہاں کی امامت انہیں کے ذمہ ہوتی تھی اور تمام مقتدی ان کی امامت میں نماز کی ادائیگی سعادت سمجھتے تھے، جب گھٹنوں میں تکلیف رہنے لگی تو بھی مسجد کی حاضری نہیں چھوٹی، پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔
 برقؔ صاحب نے پی اچ ڈی تصوف پر کیا تھا، اس لیے ان کے مزاج میں صوفیت کا غلبہ تھا، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، زیادہ سنتے اور کم بولتے، غیبت وغیرہ کی مجلسوں سے دور رہتے، مولانا شمس الہدیٰ راجوی سے اصلاحی تعلق کے بعد اس کیفیت میں اضافہ ہو گیا تھا، تصوف کے رموز ونکات پر ان کی گہری نظر تھی ، وہ اپنے مرشد کی طرف سے دیے گیے اوراد ووظائف کے پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، انہوں نے اپنی مختصرآپ بیتی بعنوان ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ مولانا طلحہ نعمت ندوی استھانواں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) پٹنہ 
موبائل نمبر :  7909098319 

تمام تعریفیں اس رب کے لیے ہیں جس نے انسانوں کو قوت گویائی عطا کی ،جس سے انسان اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتا ہے ۔اور یہ اظہار کبھی نثر میں کرتا اور کبھی نظم میں ۔نظم کے ذریعہ جو اظہار خیال کرتا ہے وہ شاعر کہلاتا ہے، شاعر کو قدرت کی جانب وہ نعمتیں عطا کی گئی ہیں جن سے وہ اپنے احساسات وجذبات کو ایک نیا رنگ وآہنگ دے کر اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر دلچسپ بنا دیتا ہے ۔اسے وہ تخیلاتی وتصواراتی پرواز حاصل ہے جو اسے ممتاز بنا دیتا ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان میں اپنی گفتگو کرتا ہے تو وہ بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں پر گفتگو کرجاتا ہے ۔
کیوں کہ شاعری نام ہے ذہن وقلب، دل ودماغ میں اٹھتے تجربات مشاہدات اور اپنے ان احساسات وجذبات کو خوبصورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا جو بظاہر خود کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دنیا میں موجود خلق خدا کی ترجمانی ہوتی ہے جو ان مسائل ومصائب سے دو چار ہیں، یا آسائش سے آسودہ ہیں ۔ شاعر کو وہ بصارت و بصیرت، تصورات وتخیلات،تجربات ومشاہدات عطا کیا گیا ہے جن سے وہ ان کیفیات کا مشاہدات کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہیں ، انہیں وجوہات کی بنا پر شاعر کو دور اندیش، صاحب بصیرت وبصارت، حکیم وفلسفیانہ ذہنیت کا مالک تصور کیا جاتا ہے ۔

مظہر وسطوی ؔکا نام اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ریاست بہار کے ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پہلی تصنیف،، پئے تفہیم،، (شعری مجموعہ) شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے ۔ ان کا شمار ویشالی کے ممتاز شاعروں  میں اور عمومی طور پر صوبہ بہار کے معیاری شاعروں میں ہوتا ہے،آپ علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کو دبستان عظیم آباد کے بہت مشہور ومعروف اور بزرگ شاعر محترم قوس صدیقی کے شاگردی کا شرف حاصل ہے ۔آپ نے اپنی شعری تصنیف کے ذریعہ اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے، آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، آپ کو ادبی خدمات پر انعامات و اعزازات بھی مل چکے ہیں ۔خصوصاً ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے،، پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ 2018 ۔

ہمارے سامنے آپ کی تصنیف کردہ شعری مجموعہ،،، پئے تفہیم،،، کی سنہری تحریریں روح میں اتر کر تازگی کے ساتھ دل ودماغ کو معطر کر رہی ہیں ۔

پئے تفہیم(شعری مجموعہ) 92/صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع کیا گیا ہے۔
 اس میں ایک حمد، دو نعتیہ کلام ، پینسٹھ (۶۵) غزلیں ،اور سات نظمیں شامل ہیں ، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ استاذ الشعراء محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے،  کتاب کی شروعات حرفِ ابتدا میں مصنف شاعر نے وجہ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ شعر وادب سے وابستگی، شعر وادب کے تئیں احساسات وجذبات  کے اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں شاعری روح کی تسکین اور طمانیت قلب کے لئے کرتا ہوں، شاعری میری نگاہ میں تجارت وزراعت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔ہم اس سے ان کے جذبات واحسات کی بلندی اور عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
کے ساتھ ساتھ اپنے معاونین کا جنہوں نے اس تصنیف میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلے سب کا شکریہ ادا کیا ۔

پئے تفہیم کے حرف ابتدا کے بعد،، مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی،، کے نام سے عنوان قائم کرکے ڈاکٹر بدر محمدی نے بڑے تفصیلات سے شاعر کا تعارف، وصف شاعری، انداز شاعری، پیغام شاعری غرضیکہ کہ مظہر وسطوی کے فن شاعری کے تمام پہلوؤں کو مدلل ومفصل انداز میں  تبادلہ خیال کرتے ہوئے  بہترین تجزیہ پیش کیا ہے، جو مظہر وسطوی کو اور ان کے فن کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوگا ۔بعدہ نذرالاسلام نظمی (سابق مدیر، رابطہ، نئی دہلی) چین پور، ویشالی نے اس تصنیف کے تئیں اظہار خیال کیا ۔مشہور ومعروف  وبیباک شاعر وادیب وصحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج مظفّر پور، ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ، اور ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی آپ کی شاعری وفن پر مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے اس تصنیف پر مباکبادی پیش کی ہے ۔
آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے فن کو بر محل برتنے اور خیالات کو الفاظ کا سہارا ووسیلہ دے کر شاعری میں کس طرح حسن وجاذبیت پیدا کی جائے اس ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ اس کتاب میں شامل غزلیں، شاعر کے فکر وفن کی پختگی کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے،روانی وتسلسل کا عالم یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسی سواری پر سوار ہیں جو برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے،  لیکن ذرہ برابر بھی کہیں تھکاوٹ اور جرکن کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ شاعری ہمارے زبان کے راستے دل ودماغ تک اتر کر روح میں پیوست کر گئی ہے ۔اس کم عمری میں بھی شاعر کو  زندگی کا مکمل ادراک حاصل ہے۔  شعورو بیداری کے دائرے میں تخیلاتی پرواز تراش کر اپنے اندر کےاحساسات وجذبات وخیالات، اپنی خوشیاں، اپنے رنج وغم اور دکھ تکلیف کو حقیقی پیرائے میں آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی پیغام سنانے کا ہنر رکھتے ہیں ۔لا محالہ وہ اپنی غزل میں اپنی عمر، اپنے عہد کے اٹھنے والے کئ مسائل ومصائب ، اور سماج ومعاشرے کی بھر پور ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں ۔ بعض جگہوں پر،، خیر الکلام ما قل ودل،، کا بھی عکس ملتا ہے ۔شاعر نے دو مصرعوں میں پوری کائنات اور پورے عہد کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔اچھی شاعری کی یہی مظہر وجوہر ہے ۔ لفظوں کا پیچ وخم، ضخیم تعبیرات کے بجائے بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ اس نے غزل کو ایک نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔
کتاب کی شروعات حصول وبرکت کے لئے حمد و نعت سے کی گئی ہے ۔حمد و نعت کے چند اشعار 
ہر شئے میں سمایا ہوا کردار وہی ہے 
خالق بھی وہی مالک ومختار وہی ہے، 
ہر سمت ہیں جلوے بھی، تماشے بھی اسی کے 
ہر منظر پر نور میں ضو بار وہی ہے ۔

زمیں پر ان کے آنے سے جہانوں میں نکھار آیا 
تڑپتے ذرے ذرے کو سکوں آیا قرار آیا، 

خاتم الانبیاء حق کے پیارے رسول 
سارے عالم کے والی ہمارے رسول 
چاروں جانب اجالا اجالا ہوا 
ایسے چمکے قدم کے ستارے رسول ۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی تخیلاتی وتصوراتی پرواز جہاں بلند وبالا ہوں گے وہاں ان کا معیار اور مقام بھی متعین ہوتا ہے۔ اور بلند تخیلات وتصورات اور تجربات کے مشاہدات کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
الطاف حسین حالی اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کہتے ہیں ” قوت متخیلہ یا تخیل جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی اور جس قدر ادنیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ ہوگی”۔

 یہ موصوف محترم کی پہلی کتاب ہے۔ ابھی انہیں اونچی اڑان طے کرکے مزید کامیابی وکامرانی کی طرف جانا ہے، اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔
غزل کے چند اشعار 

غریبی میں بھی یوں خوش ہیں بسا اوقات ہنس ہنس کے 
قناعت کی کوئی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں، 
جومنصف بن کے آتے ہیں محلے کے تنازع میں 
جب اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو بستر اوڑھ لیتے ہیں ۔

یہ انداز محبت ہے ادائیں بات کرتی ہیں، 
ملاقاتیں نہیں ہوتی ہیں آہیں بات کرتی ہیں
عجب عالم ہے اس دل کا عجب عالم ہے اُس دل کا، 
زباں خاموش رہتی ہیں نگاہیں بات کرتی ہیں ۔
دل کی باتیں ساتھ کریں گے گھر آنا 
رستے میں کیا بات کریں گے گھر آنا، 

اگر سچائی کے حق میں تمھارا فیصلہ ہوگا
محبت کاصلہ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا، 
حسیں خوابوں کے نرغے سے سلامت میں نکل آیا
حسینوں کے قبیلے میں بڑا چرچا ہوا ہوگا، 

زمانہ بہت اب خراب آرہا ہے
ترقی کو تھامے عذاب آرہا ہے
محبت کی رسمی علامت ہے یہ بھی
کہ پرزے میں سوکھا گلاب آرہا ہے، 
کس نےکہا کہ آج کی دنیا مزے میں ہے
ہر شخص جانتا ہے وہ کتنا مزے میں ہے۔
جذبۂ انسانيت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے۔

چند متفرق اشعار 

پیار الفت کی زبان لشکری اچھی لگی 
سب زبانوں میں زبان مادری اچھی لگی، 
اس کی شیرنی کی قائل آج ہے ساری زباں 
اس سبب اردو زباں کی برتری اچھی لگی، 

حاجیو! اعلیٰ مقدر آپ کو میرا سلام 
رہ گذار نقش انور، آپ کو میرا سلام، 
آپ کی آمد مبارک، مرحبا صد مرحبا 
آپ ہیں کعبہ کے زائر، آپ کو میرا سلام، 

وہ ننھا پرندہ 
شاخ پر چپ چاپ 
کیوں بیٹھا ہوا ہے 
بہت خاموش اور رنجیدہ! 

وہ کلیم درد، میر کارواں رخصت ہوا 
پاسبان عظمت اردو زباں رخصت ہوا، 

اک ادائے خوش بیاں کی نغمگی جاتی رہی 
باغ اردو سے اچانک سر خوشی جاتی رہی، 

باکمال فکر وفن، محبوب انور محترم 
شاعر طرز سخن، محبوبِ انور محترم، 

شاعر کا ایک اپنا انداز وبیاں ہوتا ہے کبھی وہ تجاہل عارفانہ کے ذریعہ سوالی بن کر خود اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا پاجاتا ہے ۔کبھی زندگیوں کی تلخیاں کا تذکرہ کرتا ہے،اور کبھی زیست کی لذت سے متعارف کراتا ہے، غرضیکہ شاعری کے موضوعات کے دائرے بہت وسیع ہوتے ہیں، 
 اس کا سنجیدہ انداز بیان اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب اور محبت میں آنے والے نشیب وفراز، اذیت و کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے مگر اظہار اس انداز میں کرتا ہے کہ یہ ہر ایک کے مسائل ومصائب ہیں، گویا وہ آپ بیتی پیغام جگ بیتی کے ساتھ سنا جاتا ہے ۔ سوز وگداز اور ظاہری وباطنی کشمکش کا اظہار بڑے فنکارانہ انداز میں کرتا ہے ۔ کتاب کا ٹائٹل، سر ورق دیدہ زیب اور کتابت معیاری ہے،مزید اس نئی نسل کے شاعر کو اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، نئی نسل کے شاعر وادیب یہ ادب کے عظیم سرمایہ ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔اردو زبان وادب سے منسلک ہر ہر فرد کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ نئے قلمکاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان حوصلوں سے ان کے فن پر نکھار آئے ۔اور یہی نئی نسل کے شاعر وادیب زبان وادب کے لئے سرمایہ ہوں گے ۔ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مظہر وسطوی کے اس کار کردگی پر انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔

جمعہ, دسمبر 16, 2022

بے لگام تبصروں پر لگام ___

بے لگام تبصروں پر لگام ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بے لگام تبصرے ہماری زندگی کا حصہ بن گیے ہیں، جو منہ میں آیا بَک دیا اور جو چاہا کہہ دیا، پھر اس بکواس اور کہنے کے لیے جگہ کی بھی قید نہیں ہے، چائے کی دوکان، کھانے کی میز ، دوستوں کی مجلس میں اس قدر تبصرے ہونے لگے ہیں کہ وہ دیہات کی چوپال کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں دیہات میں چند افراد حقہ کے گُر گرے کے ساتھ پورے گاؤں کی خبر لیا کرتے تھے، موبائل، نیٹ اور ٹی وی کے آجانے سے دیہات کا چوپال تو دم توڑ رہا ہے، لیکن بے لگام تبصرے اس روایت کو تسلسل عطا کرنے میں آج بھی مشغول ہیں۔
 ابھی حال ہی میں گجرات پولیس نے ترنمول کانگریس کے قومی ترجمان ساکیت گوکھلے کو جے پور ہوائی اڈہ سے گرفتار کرکے احمد آباد لے گئی کیوں کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر موربی پل حادثہ کے حوالہ سے غیر ضروری تبصرہ کیا تھا، اور ٹوئیٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم کے موربی دورے پر تیس کروڑ روپے خرچ کیے گیے،اس میں سے ساڑھے پانچ کروڑ روپے ان کے استقبال ، جائے معائنہ کے انتظام وانصرام اور فوٹو گرافی پر خرچ ہوئے جب کہ مرنے والے ایک سو پینتیس متاثرین کو چار لاکھ روپے فی کس کے حساب سے صرف پانچ کروڑ روپے ملے، پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے وزیر اعظم کی شبیہ خراب ہوئی، اسی طرح کی ایک خبر فلم ساز اگنی ہوتری کے بارے میں بھی آئی، جنہوں نے اکتوبر ۲۰۱۸ء میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے جسٹس ایس مُرلی دھر کے خلاف ٹوئٹ کر دیا تھا، اگنی ہوتری نے دہلی ہائی کورٹ سے معافی مانگ کر ہتک عدالت کے مقدمہ سے اپنے کو بری کرالیا، لیکن ساکیت گوکھلے اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں، ممتا بنرجی نے اسے سیاسی کارروائی قرار دیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے لوگوں کی آزادی چھیننے سے تعبیر کیا ہے۔
 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غلط کاموں پر تنقید اور تبصرے نہ کیے جائیں، ضرور کی جائے لیکن اس کا دائرہ اتنا نہ پھیلا دیا جائے کہ اس کا سِرا جھوٹ، الزام تراشی، شخصیت کی کردار کُشی سے مل جائے، بد قسمتی سے ان دنوںیہی ہو رہا ہے ، پگڑیاں اچھالنے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی ہی جا رہی ہے، اس سے سماجی تانے بانے کو سخت نقصان پہونچ رہا ہے اور یہ خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، اسی وجہ سے صرف یو ٹیوب نے جولائی سے ستمبر کے درمیان ہندوستانیوں کے سترہ لاکھ ویڈیو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا ئے، یقینا شخصی آزادی دستور کے مطابق ہمارا حق ہے، لیکن سستی شہرت کے حصول کے لیے دوسروں کو ذلیل ورسوا کرنے کی اجازت کسی سطح پر نہیں دی جا سکتی ، حکومت کو ایک ایسا طریقۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ تنقید وتبصرہ کے حدود وقیود متعین کرے؛ تاکہ بے لگام تبصروں پر لگام لگائی جا سکے۔

ترقی درجات کا الٰہی نسخہ:ایمان وعلم ___

ترقی درجات کا الٰہی نسخہ:ایمان وعلم ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131) 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم وتربیت کی جو اہمیت اور حصہ رہا ہے ، اس کے لیے اتنی بات کا سمجھ لینا کافی ہے کہ اسی علم کی بنیاد پر فرشتوں سے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کروایاگیا، اور حضرت آدم کو تمام انسانوں کا باپ اور پہلا نبی بنا کر انہیں تربیت کے کاموں پر مامور کیا گیا، اللہ رب العزت نے بیان کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں، جس طرح تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہواکرتے، قرآن کریم میں عروج کا جو نسخہ بنی آدم کے لیے اللہ رب العزت نے طے کیا، اس میں ایمان اور علم کو رفع درجات کا ذریعہ بتایا، سورة عصر میں انسان کو گھاٹے سے نکالنے والی چیز ایمان کو قرار دیا جو اللہ رب العزت اور رسالت پر اس کے تمام اوصاف اور خصوصی معتقدات پر ایقان واعتماد کا نام ہے، یہ ایقان واعتماد بغیر علم کے ممکن نہیں ، ایمان کے ساتھ عمل صالح کا مزاج تربیت سے بنا کر تا ہے ، حق پر ثبات اور صبر پر استقامت ہی اس تربیت کا حاصل ہے، جو انبیاءکرام لے کر کے آئے، اللہ رب العزت نے ایمان اور عمل صالح پر جمنے والے بندے کے لیے خلافت ارضی کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ہم انہیں ضرور بالضرور زمین میں خلیفہ بنائیں گے، جیسا پہلی قوموں کو ہم نے خلافت دی تھی، اللہ ان کے لیے جس دین پر راضی رہا اس پر استقامت عطا فرمائی اور خوف ودہشت کے ماحول کو پُر امن بنا دیا، قومیں جب تک ایمان ، عمل صالح کے ساتھ زندگی گذارتی رہیں، انہیں عروج رہا اور جب ان کے اندر ایمانی ، اعتقادی ، علمی اور اخلاقی زوال نے آلیا تو ان کا زوال شروع ہو گیا، دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے اور یہ سب سے بڑی سچائی ہے ، تمام انبیاءکی حیات وخدمات کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر نبی کو اس دور میں جیسا علمی اختصاص تھا، اسی اعتبار سے معجزے دیے گیے ، تاکہ ان کی علمی بر تری ان کی امت پر مسلم رہے، امت مسلمہ کے لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر مبعوث کیا اور علم وانکشافات کے دروازے اس قدر کھولے گیے کہ آپ معلم کا ئنات بن گیے اور اعلان فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس کے ساتھ تربیت کا بھی ذکر کیا کہ وہ معلم اس لیے بنا کر بھیجے گیے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تکمیل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کا مقصد اچھے کردار کا انسان بنانا ہے ، قرآن کریم میں تعلیم وتزکیہ کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا اور اسے کار نبوت قرار دیا گیا۔
 یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر قوموں کے عروج وزوال میں ان دونوں چیزوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم خدا شناشی اور خود شناشی کا ذریعہ ہے ، خدا شناشی انسانوں اور حکمرانوں کو ظلم وطغیان سے باز رکھتا ہے ، اس کے ذہن ودماغ میں اس کی وجہ سے فکر آخرت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ فکر اسے غلط راہوں پر جانے سے روکتی ہے ، وہ جانتا ، مانتا اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دنیا ہے ، جہاں ہمیں تمام اعمال کا حساب دینا ہوگا، اس دن زبان درازی کام نہیں آئے گی ، بلکہ زبانوں پر تالے لگ جائیں گے اور اعضا وجوارح ہاتھ پاوءں بولنا شروع کر دیں گے ، یہ بولنا در اصل کراما کاتبین کے ذریعہ تیار کیے گیے اعمال نامے کے محضر پر شہادت ہوگی اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی اخروی زندگی کا فیصلہ ہوگا، جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہوگی اس کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس علم کی وجہ سے انسان کے اندر جو نظریات پر ورش پاتے ہیں، اس پر جمنا آسان ہوجاتا ہے، ایسا شخص ڈُھل مُل یقین نہیں ہوتا، مُذَب ±ذَبِی ±نَ بَی ±نَ ذالکَ لَا اِلی ھٰو ءلائِ وَلَا الیٰ ھٰو ¿لَائِ کی کیفیت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی، یہ تیقن کی یہ کیفیت اس سے ان اعمال کا صدور کراتی ہے جو اس کے نظریہ کے مطابق ہوتے ہیں، اور عملی طور پر اسے استحکام بخشتے ہیں۔ علم کی وجہ سے جو خود شناشی پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے جھکتا نہیں ہے، اپنے نظریات سے سمجھوتا نہیں کرتا، اور علی وجہ البصیرت ان نظریات کو زمین پر اتارنے کے لیے جد وجہد کرتا ہے ، جس سے قوموں کے عروج کی داستان رقم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
 اس کے بر عکس جب علم کی کمی ہوتی ہے تو پہلے اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے، اس زوال کی وجہ سے دوسرے افکار ونظریات اس کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں، ایسے میں پہلے نظریات سے یقین اٹھ جاتا ہے اور جب جڑ میں کمزوری آجاتی ہے تو اس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے ، اس کی مثال اس کٹی پتنگ کی طرح ہوجاتی ہے ، جس کو ہوا کا ایک جھونکا اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور پتنگ کسی درخت کی شاخ سے الجھ کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے ، خود شناشی کی کیفیت کا اختتام قوموں کی اکثریت سے ہوجائے تو زوال شروع ہوجاتا ہے ،اس مسئلہ کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ گاڑی جب تک مسطح سڑک پر ہو،اس کو بریک لگا کر روکا جا سکتاہے، لیکن جب گاڑی ڈھلان پر چل پڑے تو بریک بھی کام نہیں کرتا،تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے، مثال کے طور پر آپ ہندوستان میں بودھوں کے عروج وزوال کی داستان پڑھیں ان کے یہاں اللہ پر ایمان ویقین کا واضح اعلان نہیں ہے ، وہ عقل کی آغوش میں چلے جانے کی بات کرتے ہیں، گویا گیان کی منزل ان کے یہاں عقل کی آغوش ہے، یہ عقل ، عقل کل یعنی اللہ بھی ہو سکتا ہے ، اور عقلیت بھی ، جس کے ماننے والے اسلام میں بھی کچھ لوگ ہیں، جینیوں کے یہاں جانداروں کی ہلاکت سے خود کو بچائے رکھنے کی بات کہی گئی ہے ، لیکن خدا کے وجود اور اس کے متعلقات پر توجہ نہیں دی گئی اس کا مطلب ہے کہ صحیح علم نے ان کے دل ودماغ کو منور نہیں کیا، اس لیے وہ عروج کی طرف بڑھ نہیں پائے ۔
 خود شناشی کے لوازمات میں سے خودی اور خود داری بھی ہے ، خودی معرفت نفس کا دوسرا نام ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا، گویا معرفت نفس ، معرفت رب تک پہونچنے کا زینہ ہے ، یہ علم جس قدر وسیع ہوگا کائنات کے اسرار ورموز بندے پر کھلنے لگیں گے ، اور جس قدر اسرار وموز سے واقفیت ہوگی بندہ سماجی اور ذہنی طور پر اسی قدر ترقی کرے گا، اسی لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ علم والے ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہ ڈر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتاہے، جو بندوں کے اعمال افکار اور اقدار کو صحیح سمت عطا کرنے کا کام کرتاہے، اس صحیح سمت کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے، اور اللہ کی نصرت ومدد کا حق دار ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ عروج کے منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت سے علم وانکشافات کے دروازے کھلے، اس کے قبل کا زمانہ آج بھی دور جاہلیت کہلاتا ہے، شعراءوادباءکی زمانہ کے اعتبار سے جو تقسیم کی گئی ،اس میں نزول قرآن کے قبل کی شاعری کو دور جاہلی کی شاعری اور ادب جاہلی کہا جاتا ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کی ایمانی، تہذیبی، تمدنی، عمرانی، سماجی اور معاشرتی رہنمائی فرمائی، اور اسے کتاب ہدایت کے طور پر نازل کیا، یہ ہدایت ہر میدان میں قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو ملی، اللہ رب العزت نے اسے تبیانا لکل شئی ہر چیز کو ظاہر کرنے والی کتاب کہا، اس اشارہ کی وجہ سے فلسفیوں نے اس سے اپنے مطلب کی چیز تلاش کی اور سائنس دانوں نے قرانی اشارات پر اپنی تحقیق کی بنیاد ررکھی، انہوں نے اللہ رب العزت کے ارشاد میں تسخیر کائنات، تخلیق انسانی کے مراحل، زمین کی تہہ میں چھپے معدنیات زمین اور سورج کی رفتار، دن اور رات کے رموز سبھی کچھ دریافت کر لیا، مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ان کی دریافت کا اصل ماخذ قرآن کریم ہی تھا، انہوں نے قرآن کریم میں تدبر اور غور وفکر کیا اور اس غور وفکر کے نتیجے میں دنیا کو علمی اور فنی اعتبار سے مالا مال کر دیا، ان کی محنتوں سے ایجادات وانکشافات کے نئے دروازے کھلے، اس کے بعد علم کی تقسیم ہوتی چلی گئی ،پہلے اسے نظری اور عملی میں تقسیم کیا گیا، پھر نظری کی تین اور تقسیم علم الٰہی ، علم حساب وریاضی اور علم طبعی میں ہو گئی، علم الٰہی کو علم اعلیٰ، علم ریاضی کو علم اوسط اور علم طبعی کو علم ادنی کے طور پر متعارف کرایا گیا، عملی کی بھی تین قسم اخلاق، تدبیر منزل اور سیاست مدن کے عنوان سے کی گئی، اس کے بعد اسے اسلامی غیر اسلامی کے عنوان سے تقسیم کیا گیا، علم الادیان اور علم الابدان کا تصور سماج میں عام ہوا، ابو نصر فارائی (م۹۲۳ھ) اور محمد یوسف خوارزمی(۷۸۳) نے علم کی جو درجہ بندی کی وہ مغربی دنیا میں بھی مقبول ہوئی، بر صغیر ہند وپاک میں علم دین ودنیا کی تقسیم نے اس قدر رواج پایا کہ علماءاور دانشور کا طبقہ الگ الگ وجود میں آگیا اور بقول مولانا مناظر احسن گیلانی ملت دو نیم ہو کر رہ گئی پہلے یہ تقسیم نظریاتی بنیاد پر ہوئی اور اب یہ انتظامی ضرورت بن گئی ہے، اس لیے اس فکر ی تقسیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن مدارس میں بعض عصری مضامین کی شمولیت اور عصری تعلیمی اداروں میں بنیادی دینی تعلیم کی شمولیت اور مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ اداروں میں اسلامی ماحول فراہم کرکے بڑی حد تک اس خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے۔

جمعرات, دسمبر 15, 2022

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد 

اردو دنیا نیوز٧٢ 
اردو زبان بھارتیوں کی دوسری قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی زبان ہے. 
کہا جاتا ہے کہ قوموں کا زوال بعد میں ہوتا ہے پہلے اس کی زبان کا زوال ہوجاتا ہے. 
اردو زبان کی بقا میں ہی مسلم قوم کی بقا کا راز مضمر ہے. 
اگر کہا جائے کہ اردو ہندی زبان سے بھی بڑی زبان ہے تو شاید غلط نہ ہوگا اس لئے کہ آج متعدد مملالک میں اردو بول چال کا چلن ہے. 
مگر اس حقیقت سے روگردانی کرنا بھی غلط ہوگا کہ کسی زبان کو روئے زمین سے مٹانے میں سب سے بڑا کردار اہل زبان ہی ادا کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے. غیر اہل اردو کو اس سے کیا واسطہ کہ زبان راہ فروغ پر ہے یا راہ زوال پر ہے. خود اہل زبان ہی اپنے معاشرتی زندگی میں اس کا چلن چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اگلی نسل اس سے ناواقف ہوجاتی ہے 
. اسی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی کئ موقعوں سے نعتیہ مشاعرہ کرواتی ہے تا کہ اردو کا فروغ ہو. اسے ایک چھوٹی سی کوشش کہہ سکتے ہیں. 
اسی سلسلے کی ایک کڑی سوشل میڈیا پلیٹ فارم زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہے. جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری نے کی. 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی نے اردو زبان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی. ضلع ارریہ کے شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پرتحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
اردو دنیا نیوز٧٢ 

 حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری تھے, 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...