Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 24, 2022

اسم با مسمی شاعر کامران غنی صبا کی تصنیف ،،پیام صبا (شعری مجموعہ) کا ایک تجزیاتی مطالعہ مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ۔

اسم با مسمی شاعر کامران غنی صبا کی تصنیف ،،پیام صبا (شعری مجموعہ) کا ایک تجزیاتی مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ۔
موبائل نمبر:      7909098319 
اردو دنیانیوز ٧٢
اردو شاعری صدیوں کا سفر طے کرچکی ہے، اور آج بھی اسے وہی مقبولیت حاصل ہے جو ابتداء میں تھی۔آج بھی اردو شاعری مکمل جواں نظر آتی ہے، کیوں کہ اردو شاعری کا مزاج اور دامن ہمیشہ وسیع وعریض رہا ہے، اس لئے کہ اردو زبان وادب اور شاعری کے اندر وہ کشش اور جاذبیت ہے جو ہر ایک خاص وعام کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔
 اور شاعری در اصل نام ہی ہے اپنے احساسات وجذبات اور کیفیات کو اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ اظہار کرنے کا، شاعری اس مختصر عبارت وتحرير کا نام ہے جو بظاہر  مختصر معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی معنوی خوبیاں، گہرائی وگیرائ اس قدر ہوتی ہے کہ اس کی ابتداء وانتہاء کا تعین کرنا محال ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان سے لب کشائی کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک تاریخ بول رہی ، شاعر کو رب العزت نے ایسی بصیرت وبصارت اور خوبیاں عطا کی ہیں جو اسے اوروں سے ممتاز بناتی ہے ، اس وقت اردو شاعری پورے ہندوستان میں عروج پر ہے، ہندوستان کے ہر شہر وصوبہ میں اردو شاعری کو ایک اہمیت حاصل ہے، 
دبستان بہار خصوصیت کے ساتھ دبستان عظیم آباد نے بڑے بڑے شعراء وادباء پیدا کئے ہیں جن کی شاعری ونثر نگاری کی بنیاد پر وہ زیر زمین ہوکر بھی زندہ وجاوید ہیں،اور اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے شہر عظیم آباد میں ایک نوعمر شاعر کامران غنی صبا جو اپنے خاص لب و لہجہ اور بیباکی ومضبوطی سے اپنی بات کہنے والا،اپنے موقف پر قائم رہنے والا، خاموشی سے اپنی شاعری اور نثر کے ساتھ اٹھا اور دیکھتے دیکھتے دنیائے ادب پر بادلوں کی طرح چھا کر سیراب کرنے لگا ، جب وہ شاعری کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  اس کی شاعری ہماری سماعت سے ٹکرا کر جسم وجاں اور روح میں پیوست ہوکر ہمیں بیدار کر رہی ہے، زندگی کی حقیقت سے آشنائی کرا رہی ہے ،اس کی شاعری محض شاعری نہیں بلکہ پیغام ہے ۔اس کی آواز مخالف ہوا دبا نہیں سکتی ، کسی شور میں اس کی آواز گم نہیں ہوسکتی ، شاید وہ جواں شاعر جو دل پر گزرتا ہے اسے بے خوف وخطر قلم سے قرطاس پر رقم کرتا ہے، وہ شعر نہیں کہتا وہ سحر کرتا ہے، آپ کے دل میں ایک گھر بناتا ہے، یقینا وہ ایسا محبوب شاعر اور انسان ہے کہ جو بھی اس کے قریب ہوتا ہے اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔بہت پیارا شاعر اور ایک کامیاب وکامران انسان ہے، وہ ہر لحاظ سے عظیم ہے، خاندانی اعتبار سے بھی وہ بلند ہے،مشہور ومعروف حکیم، عالم دین، عربی اردو وفارسی زبان کے ماہر، مولانا علیم الدین بلخی رح کا نواسہ اور مولانا عثمان غنی رح(مفتی امارت شرعیہ و مدیر ہفت روزہ امارت) کا پوتا، معروف وبیباک صحافی وادیب، ریحان غنی کا فرزند ہے ۔

ہمارے زیر مطالعہ موصوف محترم کی پہلی تصنیف کردہ ”پیام صبا”(شعری مجموعہ  ١٢٨/صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے،جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ (بہار) کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے ۔

اس تصنیف میں کامران غنی صبا نے انتساب کتاب خدا کے نام پر کرکے بہت بڑا پیغام دیا ہے، اور وہ یہ کہ ہماری زندگی، ہماری سانس، ہماری کامیابی یہ محض اس خدا کا فضل وکرم ہے جس کے قبضہ قدرت میں سارے جہاں کی ملکیت ہے، 
مصنف اپنے رب کے سامنے انتساب کے ذریعہ اپنی بندگی کا اظہار اس طرح کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضا وخوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی،ہماری شاعری اور یہ ہماری تصنیفی کامیابی محض آپ کی رضا کے لئے ہے، 
اور یہ واقعی میں اظہار تشکر کا بڑا ذریعہ ہے ، دیگر مصنفین کو بھی اس جانب توجہ کی ضرورت ہے ۔عموماً عیش وعشرت میں بندہ خدا کو فراموش کرجاتا ہے حالانکہ یہ عیش وعشرت وآسودگی نعمتوں کے انبار یہ اللہ کی عطاء کردہ بڑی نعمت ہے موصوف نے حتی الامکان اس تصنیف کے ذریعہ رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بھر پور کوششیں کی ہیں، اللہ انہیں شرف قبولیت بخشے ۔ 
حرف آغاز میں انہوں نے اپنی شعری سفر کا آغاز، اپنی ماضی کی روداد،شاعری اور وصف شاعری کے حوالے سے جو باتیں کہیں ہیں وہ قابل تعریف ہیں ، اس کم عمری میں اللہ رب العزت نے جو سوجھ بوجھ، دور اندیشی، احساسات وجذبات سے بھرا دل، مردم شناس، اور اپنی باتیں مدلل بیان کرنے کا جو سلیقہ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
ساتھ ساتھ آپ نےچند لوگوں کا فرداً فرداً شکریہ بھی ادا کیا ہے جن میں آپ کے والد محترم ریحان غنی، والدہ محترمہ سلمیٰ بلخی، اور اساتذۂ کرام میں پروفیسر اسرائیل رضا، ڈاکٹر جاوید حیات، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر اشرف جہاں، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر، جناب ناصر ناکا گاوا، محترمہ سیدہ زہرہ عمران، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، جناب احمد کمال حشمی، جناب طارق متین، جناب احمد اشفاق، ڈاکٹر عبد الرافع، جناب ایم آر چشتی، محترمہ تحسین روزی، جناب مفتی منصور قاسمی، محترمہ نور جمشید پوری، جناب عطا کریم ندوی، جناب اصغر شمیم، محترمہ نرجس فاطمہ، محترمہ انجم اختر،انعام عازمی، طارق عزیز، ہیں ۔


اس کے بعد اردو زبان وادب کے چند مشہور ومعروف ادباء نے کتاب، صاحب کتاب، اور کتاب میں شامل حمد، نعت، منقبت ،غزل اور خصوصاً نظم،، مجھے آزاد ہونا ہے،، کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے، ان تعارف کے ذریعہ ہم مصنف شاعر کو بہت قریب سے سمجھ سکتے ہیں، پہچان سکتے ہیں،
حصول برکت ورحمت کے لئے مصنف شاعر نے  حمد و نعت اور منقبت سے کتاب میں شعر کا آغاز وانتخاب کیا ۔

حمد و نعت و منقبت کے چند اشعار

التجا 
خدائے برتر
میں جانتا ہوں
میں مانتا ہوں 
کہ میرا فردِ عمل گناہوں سے بھر چکا ہے
ابل چکا ہے
جو چند قطرات نیکیوں کے
ٹپک رہے ہیں
لرز رہے ہیں
کہ ان کی اوقات کچھ نہیں ہے
وہ بس نمائش کے چند ایسے گہر ہیں 
جنکی چمک حقیقت کا روپ بن کر
ڈرا رہی ہے
رُلا رہی ہے
مگر کہیں دور تیری رحمت
مرے گناہوں پہ ہنس رہی ہے
خدائے برتر 
اگر یہ سچ ہے
کہ تیری رحمت 
مرے گناہوں کی وسعتوں سے
وسیع تر ہے
تو میرے عصیاں کو اپنی رحمت کا لمس دے دے
مری اداسی کے خشک صحرا  کو
اپنی رحمت کی بارشوں سے
نہال کر دے۔۔۔ کمال کر دے


لب پہ ذکر حبیب خدا چاہیے
 کچھ نہیں، کچھ نہیں، ما سوا چاہئیے
دید کو ان کی چشم رسا چاع
زہد وتقوی سے کچھ ماورا چاہیے 
 سجدۂ شوق کو اور کیا چاہیے
 اپنے محبوب کا نقش پا چاہیے


نہ طلب ہے نام و نمود کی، نہیں چاہیے مجھے خسرو 
مجھے بخش دے تو مرے خدا در مصطفیٰ کی گداگری 
میں ہوں مبتلائے غم و الم، مرا چارہ ساز نہیں کوئی
 تمہیں در دل کی دوا بھی ہو، تمہی غم گسار میرے نبی
 میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم تیرا ہجر مجھ پہ عذاب ہے 
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے، کبھی در پہ ہو مری حاضری


وہ بالیقین حق کا استعارہ، حسین سا کوئی ہے بتاؤ
 کہ جس نے جاں دے کے دیں بچایا، حسین سا کوئی  ہے بتاؤ 
شہادتیں یوں تو اور بھی ہیں تڑپ اٹھیں جن سے دل ہمارے
 انہوں نے گھر بار سب لٹایا، حسین سا کوئی ہے بتاؤ


کتاب سے چند نظمیں 

مجھے آزاد ہونا ہے۔۔۔
کہاں تک بھاگ پاؤ گے
کہاں کس کو پکارو گے
یہ عزت اور شہرت، علم و حکمت
مال و دولت کی فراوانی
یہیں رہ جائے گی اک دن
بہت ہو گا تو بس اتنا 
کہ کچھ دن، کچھ مہینوں تک 
تمہارے نام کا چرچا رہے گا
کسی اخبار میں، جلسے میں، محفل میں
بہت ہو گا تو چلئے مان لیتے ہیں
کہیں کوئی 
تمہارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا
کوئی کندن بنائے گا، کوئی شہرت کمائے گا
تمہیں اس سے ملے گا کیا؟
کبھی سوچا ہے تم نے؟
غلغلہ جتنا اٹھے جب تک اٹھے
آخر بھلا ڈالیں گے سب تم کو
تمہیں معلوم ہے!
اس زندگی کے سارے شعبوں میں
سیاست میں، صحافت میں، ادب میں، 
صوت و رنگ و چنگ میں، 
دولت کمانے سینتنے میں اور لٹانے میں
ہزاروں نام ایسے ہیں
کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لوَ سا لگتا تھا
مگر کوئی کہاں باقی رہا، دائم رہا
سارے عدم کی راہ کے راہی
کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں جا بسے
جانو، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا
یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں
اور جب بھی سوچتا ہوں
تب مجھے یہ سب فقط کارِ عبث محسوس ہوتا ہے
مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ
کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں
جہاں میرے کسی پہچاننے والے
کسی بھی جاننے والے کے جانے کا
کوئی امکاں نہ ہو
اس گوشہء عزلت میں، اس پاتال میں 
گم نام ہو جاؤں
مجھے آزاد ہونا ہے
زمانے بھر کی ہر خواہش سے
ہر رعنائی سے جھوٹی نمائش سے
مجھے آزاد ہونا ہے

فنا آغوش

فنا ایسی حقیقت ہے
نہیں کچھ اختلاف اس میں
نہ مذہب کا، نہ دھرتی کا
نہ اعلیٰ کا، نہ ادنیٰ کا
نہ گورے کا، نہ کالے کا
نہ کمزور اور جیالے کا

مگر کیا اس حقیقت سے پرے بھی کچھ حقیقت ہے؟
یہاں آکر
مفکر، شاعر و صوفی، ادیب و فلسفی، عالم
سبھی کو خامشی درپیش ہوتی ہے
ہزاروں نکتہ ور آئے
مگر اس راز سے کوئی نہیں پردہ اٹھا پایا
کہ وہ لمحہ جسے سارے قضا کا نام دیتے ہیں
اس اک لمحے سے آگے ایک برزخ ہے
وہ برزخ بھی حقیقت ہے
کہ اس کے بعد بھی سب کچھ حقیقت ہے

وہ جس اک راز سے پردہ اٹھانے میں
رہے مصروف ساری عمر
اک لمحے میں پردہ اٹھ گیا اس سے
مگر اب ان کے لب ان کے قلم خامو ش ہیں

 اور وہ فنا آغوش ہیں سارے
مجھے بھی اک تجسس تھا
کہ دیکھوں تو!
کہ اس لمحے کے برزخ سے پرے کیا ہے

گزشتہ شب، نہ جانے کب
یہی کچھ سوچتے، میں نیند کی آغوش میں پہنچا
تو اک بے شکل سچائی، قریب آئی
کہا دیکھو! مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو
وہ میرے سامنے تھی اور
اس کی پشت پر
پردے ہی پردے تھے
کہا اُس نے:
 کہ ان پردوں کے پیچھے کیا ہے دیکھو گے؟
اگر تم دیکھنا چاہو
تو مجھ کو دیکھنے کی تاب تو لاو!
تمہیں سب کچھ بتا دوں گی
دکھا دوں گی
ہر اک پردہ اٹھا دوں گی

محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا

یہ کس نے کہہ دیا تم سے؟
’محبت روٹھ جاتی ہے‘
’محبت ٹوٹ جاتی ہے‘
سنو! تم کو بتاتا ہوں
محبت روح ہے اور روح کا رشتہ
ہمارے جسم و جاں سے اس قدر مربوط ہوتا ہے
اجل سے پہلے ہم اس کو
الگ کر ہی نہیں سکتے
سنو! تم کو بتاتا ہوں
کہ رسم و راہ اور قربت
محبت ہو نہیں سکتی
مراسم ختم ہونے سے
محبت مر نہیں سکتی
محبت جاوداں ہوتی ہے
لفظوں کا تعلق ٹوٹ بھی جائے
وصال یار کا دامن اگرچہ چھوٹ بھی جائے
بظاہر پاس ہو کر بھی
بہت سی دوریاں ہو جائیں
بہت مجبوریاں ہو جائیں
دلوں کے مقبرے میں دفن کرنے سے
محبت مر نہیں جاتی
تعلق ٹوٹ جانا تو محبت کی شہادت ہے
اور اس کے بعد جنت ہے
سو ائے جانِ وفا سن لو!
محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا

امی کے نام
(ان کی سالگرہ پر لفظوں کا ایک چھوٹا سا تحفہ)

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اُڑ جائے گی
سونے چاندی کے سب گہنے
بہن کے حصے میں جائیں گے
سوٹ کوئی اچھا سا کہیے
یا کچھ ناول اور کتابیں؟
لیکن یہ ساری چیزیں بھی
شیلف کی زینت بن جائیں گی
اچھا! امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ٓآپ کو لفظوں سے الفت ہے
آپ نے ہم کو بچپن میں ہی سمجھایا تھا
لفظوں کو ہی دوست بنانا
لفظ ہمیشہ ساتھ رہیں گے
لفظ ہمیشہ سچ بولیں گے
لفظ محبت بن جائیں گے
لفظ عبادت بن جائیں گے
پیاری امی! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت ، لفظ محبت
لفظ ندامت کے پیکر میں
آنکھوں سے اشکوں کی صورت
ٹپک رہے ہیں
پیار کے یہ دو سچے موتی
آپ کو اچھے لگتے ہیں نا؟

عید کا چاند

عید کا چاند تو خوشیوں کی علامت ہے مگر
درد والوں کے لیے زخم ہے رستا ہوا زخم
درد غربت کا اگر ہو تو یہی عید کا چاند
مسکراتا ہوا غربت کا اڑاتا ہے مذاق
اور اگر درد محبت میں ہم ایسا کوئی
ہجر کی رات کو اوڑھے ہوئے سو جاتا ہے
چاند پلکوں پہ ستاروں کو سجا دیتا ہے
کتنے خوابیدہ چراغوں کو جگا دیتا ہے

شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو
 
کیا ہوا۔۔۔۔؟
امن کے سب پیمبر کہاں کھو گئے؟
وہ جو نغمے محبت کے گاتے تھے اور
جن کی آواز سے
نفرتوں کے اندھیرے بھی چھٹ جاتے تھے
فاصلے سارے پل میں سمٹ جاتے تھے
شاعرو، صوفیو! تم بھی خاموش ہو۔۔۔۔۔؟
اب تمہارے یہاں کوئی ساحرؔ نہیں؟
کوئی نانکؔ نہیں، کوئی چشتیؔ نہیں؟
تم اگر ٹھان لو
وقت کے بہتے دریا کا رُخ موڑ دو
اور نفرت کے ہر ایک بت توڑ دو
جنگ سے مسئلے
حل ہوئے تھے، ہوئے ہیں نہ ہو پائیں گے
گھر ہمارے جلے
تو تمہارے بھی گھر تک دھواں جائے گا
لاش اور خون، آہ بکا سے 
بصارت، سماعت کو کس کی قرار آئے گا؟
شاعرو! صوفیو! عقل والو ! اٹھو ۔۔۔
اس سے پہلے کے نفرت کی چنگاریاں
آگ بن جائیں اور
گھر ہمارے جلیں، گھر تمہارے جلیں۔۔۔۔
ایسی چنگاریوں کو بجھا ڈالیں ہم
شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو

کتاب میں شامل غزل کے چند اشعار

ہر شخص ہے کیوں لرزہ بر اندام مری جاں
وہ کیا ہے، کوئی غازئ اسلام مری جاں؟
لازم نہیں لفظوں سے ہی اظہار وفا ہو
آنکھیں بھی سنا دیتی ہیں پیغام مری جاں

کبھی زمیں تو کبھی آسماں سے بولتا ہے
وہ اپنے درد کو سارے جہاں سے بولتا ہے
میں اعتبار کروں کیسے اس کی باتوں پر
وہ شخص اور کسی کی زباں سے بولتا ہے

درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی
سچ نہیں بولنے کی سب نے قسم کھائی ہے
آئینہ جھوٹ اگر بولے تو حیرت کیسی


اپنی پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہ کرو
ٹوٹ جاؤ گے مری طرح، تم ایسا نہ کرو 
مری دنیا میں بجز کرب رکھا ہی کیا ہے 
گر مجھے دیکھ لو جینے کی تمنا نہ کرو 

غم حیات کو لکھا کتاب کی مانند 
اور ایک نام کہ ہے انتساب کی مانند 
نہ جانے کہ دیا کس بے خودی میں ساقی نے 
سرور تشنہ لبی ہے شراب کی مانند 

طبیعت مضطرب بے چین دل یہ کیا ہوا مجھ کو 
ترے طرزِ تغافل نے پریشاں کردیا مجھ کو 
شب فرقت میں کیا گزری دل درد آشنا تجھ پر
میں ان سے پوچھنے کو تھا دکھایا آئینہ مجھ کو۔



کامران غنی صبا سچا شاعر اوراچھا انسان کی طرح انسانیت کے لیے دھڑکتا دل بھی رکھتا ہے، نثر ہو کہ نظم ان کی عبارت سے یہ خوبیاں صاف ظاہر  ہیں ۔ان کے ذہنی پس منظر میں اسلامی روایات سے سرشار ہیں ، ان کے جذبات واحساسات قوم وملت کے درد سے مملو ہیں، اسی دردمندی سے انہوں نے الفاظ کے موتی اور مفاہیم کی سوغات سے شاعری کا دامن وسیع وعریض کردیا ہے ۔

خیالات کی بلندیاں اُن کی شاعری میں ہے ۔جو نظریات وہ پیش کرتے ہیں وہ خود میں ایک نذیر ہے ۔جو احساسات ان کی نظموں اور غزلوں میں جھلکتے ہیں وہ  اُن کے مزاج کا حسیں عکس وآئینہ ہے ۔
اور ان کے مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ حسن سیرت وصورت کے جوہر سے بھی سجے سجائے نظر آتے ہیں اور ان أوصاف کے اثرات ان کی شاعری پر بھی غالب ہیں ، نمایاں ہیں ۔
یقیناً آپ کی شاعری میں انقلاب بھی ہے، وقت وحالات کی نزاکت بھی،
اِن کا شمار ملک کے اُن شاعروں میں ہے جن کے یہاں افکار ونظریات ، جذبات وتخیلات اور الفاظ ومعانی کے درمیان ایک ربط وتسلسل اور روانی پائی جاتی ہے ،  ان کی شاعری نظم ہو یا غزل  زندگی کی عکاسی، حالات وواقعات کی صحیح نمائندگی وترجمانی  ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے بہت قریب سے زندگی کے خزاں وبہار کو دیکھا ہے ۔
کیوں کہ اس دور انسان جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے ان میں عدم تحفظ ،غم روزگار، غم تنہائی وکرب ،احساس کمتری، بے چارگی،خوف وحراس ،خود سے اور زندگی سے بے زاری، اس طرح کے ڈھیروں مسائل ومصائب سامنے ہیں،  کامران غنی صبا نے اپنی شاعری میں انہیں جگہ دی ہیں ۔ مگر ان کے یہاں فکر وفن اور خیالات کی بلندی وگہرائ ہر جگہ نمایاں ہے۔وہ ضخامت الفاظ کے بجائے عام فہم اور سادے الفاظ وتراکیب ہی کے ذریعہ اپنے اشعار کو کمال ہنر مندی سے نئے معنی و مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں خود کلامی بھی ہے، اور کبھی کبھی وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں اور نہایت سادگی اور پر لطف اندوز سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ان کا دھیما لہجہ بہت مشہور اور دل کو چھو نے والا ہوتا ہے۔ان کے یہاں تشبیہ و استعارہ،علامات اور پیکر تراشی کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان الفاظ کے استعمال سے ان کے یہاں کسی طرح کی عبارت میں پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔

مضمون چونکہ پیام صبا (شعری مجموعہ) کے مطالعہ پر ہے اسی وجہ سے باتیں صرف پیام صبا سے متعلق ہوسکی ، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے منظوم کلام  اور نثر بھی ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ہم برادرم کامران غنی صبا کو مبارک بادی پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں دونوں جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، آمین ثم آمین

ظفرپیامی کا تخلیقی سفر

ظفرپیامی کا تخلیقی سفر 
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر عطاء اللہ خان علوی (ولادت ۲۳؍ ستمبر ۱۹۵۵ئ) بن ڈاکٹر محمد آل حسن خان بن ڈاکٹر نور حسن خان ساکن سہسرام موجودہ ضلع رہتاس اپنے ادبی اور قلمی نام اے کے علوی سے جانے پہچانے جاتے ہیں، خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں ، انہوں نے ایم اے پی اچ ڈی کیا ہے ، پوری زندگی تعلیم کے فروغ میں لگادی اسکول سے صدر مدرس کے عہدہ سے سبکدوش ہیں، تعلیمی میدان میں قابل قدر خدمات کی وجہ سے محکمہ وزارت تعلیم حکومت ہند کا ایوارڈ بدست صدر جمہوریہ ہند کے آرنرائنن پا چکے ہیں۔ اہل علم کے درمیان اچھے صحافی ، با شعور تنقید نگار، جرأت مند صحافی اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے متعارف ہیں، سہسرام کی تہذیبی، ثقافتی ادبی سرگرمیوں کی جان ہیں، سرکاری ، غیر سرکاری مختلف محکموں اور اداروں کے رکن اور مختلف ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ہیں، سمینار ،مشاعرہ، کوی سمیلن، سماجی ، تعلیمی اور طبی خدمات میں شرکت ان کی روز مرہ زندگی کے اہم مشاغل ہیں، عمر عزیز کے چالیس سال انہیں کاموں میں صرف کر دیے آج بھی فعال ، متحرک اور ہر دم رواں؛ بلکہ کہیے کہ بڑھاپے میں جواں نظر آتے ہیں، خان برادری کے مختلف گاؤں میں ان کی رشتہ داری ہے ، جسے وہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں، خاندانی نسب وسلاسل کے بھی حافظ ہیں، ایک بار تحریک پیدا کر دیجئے اور پھر ان کی گل افشانیٔ گفتار سے محظوظ ہوتے رہیے۔
 ’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر‘‘ اے کے علوی کا تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کی زیر نگرانی مکمل کیا اور پی اچ ڈی کی ڈگری پائی، اور اب مطبوعہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ، دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے ، ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی ہے ، اس لیے طباعت صاف ستھری ، دیدہ زیب اور قلب ونظر کو اپنی طرف  متوجہ کرنے والی ہے ، آپ لینا چاہیں تو بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کر سکتے ہیں، سہسرام علی گڈھ اور نئی دہلی کے مکتبوں پر بھی یہ کتاب دستیاب ہے ، کتاب اور بات دونوں کا لطف لینا چاہیں تو علوی ہاؤس ، ہاؤس نمبر (۱) وارڈ نمبر ۳۰، محلہ چوکھنڈی، سہسرام ضلع رہتاس بہار 821115سے 9304520864پر رابطہ کر سکتے ہیں، آپ کے اس رابطہ کا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ کتاب مفت میں مل جائے ، گومفت حاصل کرنے والی لَت اچھی نہیں ہے ، خرید کر پڑھنے سے ہر دو کا فائدہ ہے، آپ رقم خرچ کرنے کی وجہ سے دلچسپی کے ساتھ پڑھ لیں گے نہیں پڑھیں گے تو محسوس ہوگا کہ رقم ضائع گئی اور مصنف کو خرچ کا کچھ حصہ مل جائے گا ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کے نام ہے جو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی پٹنہ کے سابق وائس چانسلر اور پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل رہ چکے ہیں، اور جن کی زندگی مصنف کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی رہی ہے ۔
 پیش گفتار پروفیسر حسین الحق مرحوم سابق صدر شعبۂ اردوو فارسی مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا کا ہے ، جس میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی رودادکے ساتھ مصنف کے کام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، اپنی بات میں مصنف نے پوری کتاب کے مندرجات کا اجمالا ذکر کیاہے اور ظفر پیامی کی زندگی کے مختلف ادوار کو قلم کی زد میں رکھاہے ، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور اعانت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ، جن کی تعداد کم وبیش ڈیڑھ درجن ہے ۔
پی ایچ ڈی کے مقالہ میں مصنف کے عہد پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے کی روایت رہی ہے ، سو اس کتاب کا اصل آغاز ظفر پیامی کے عہد اور ان کے حالات زندگی سے ہوا ہے ، ان دونوں مراحل سے نمٹنے کے بعد علوی صاحب نے ان کے تخلیقی سفر کا تعاقب شروع کیا ہے اور تخلیقی سفر کے آغاز کے بعد ظفر پیامی کی تخلیقات کا صحافی، افسانہ نگار، ناول نگار، سفرنامہ نگار کی حیثیت سے جائزہ پیش کیا ہے، ظفر پیامی کی دیگر ادبی سرگرمیاں بھی معرض بحث میں آئی ہیں، ظفر پیامی کی وفات، ان کی شخصیت کے اہم پہلو اور پھر پوری تحقیقی کا نچوڑ، ’’حرف آخر‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا ہے ، سوانحی کوائف اور فوٹو فیچر پروفائل مصنف کے ذاتی احوال وکوائف اور سر گرمیوں کا افشا ہے، اس طرح دیکھیں تو اصل کتاب صفحہ ۲۱۱ ؍پر مکمل ہوجاتی ہے۔
دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی (ولادت ۱۹۳۲، وفات ۱۰؍ دسمبر ۱۹۸۹ئ) کی شخصیت کثیر الجہات تھی، ایسے لوگوں پر تحقیق کرنا اور ان کی کثیر الجہات شخصیت کے در وبست کے تما م تقاضوں کو پورا کرنا آسان کام نہیں ہے، ڈاکٹر اے کے علوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس پیش کش میں انہوں نے انصاف سے کام لیا ہے ۔ 
یہ مقالہ آج کل کے تحقیقی مقالوں میں ممتاز ہے، زبان صاف اور گنجلک سے پاک ہے ، ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی روداد انہوں نے اس طرح بیان کی ہے کہ پڑھنے میں قاری کو اکتاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور آخر تک دلچسپی بر قرار رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر حسین الحق نے ’’پیش گفتار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر علوی نے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے ،ا سکے با وجود کہ علم وادب کی دنیا میں کوئی کوشش حرف آخر نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر شہاب ظفر صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسیٹی کے اس خیال سے عدم اتفاق کی  کوئی وجہ سمجھ میں نہیںآتی ، لکھتے ہیں:’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر نہ صرف ظفر پیامی کی تخلیقی جہات اور ادبی آفاق کو نمایاں کرتی ہے؛ بلکہ مصنف کے نظریہ نقد اور اسلوب اظہار کا بھی اعتراف کرواتی ہے۔‘‘
ایک اور اقتباس پڑھ ڈالیے اور علوی کے اسلوب اور زبان وبیان کا مزہ لیجئے، اس سے کتاب کی ترتیب اور مصنف کے نقطۂ نظر تک بھی آپ کی رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ، لکھتے ہیں:’’اس کتاب میں سنجیدہ اور علمی مطالعہ کے آداب وطریقہ کا خیال رکھتے ہوئے  ادب وثقافت کی ایک فعال شخصیت کے حوالے سے ان کی یادگار خدمتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ کس قدر ذاتی خوبیوں کے مالک تھے، اگر یہ سچ ہے کہ اچھا انسان ہی اچھا فن کار ہوتا ہے تو یقینا اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ قبائے معیار وعظمت ان کی علمی وفکری قد وقامت پر پوری طرح راست آتی ہے (صفحہ۲۰)  
 بڑی کدو کاوش اورتحقیق کی جان کاہی کے باوجود اے کے علوی کا خیال ہے کہ 
’’میں اپنے اس مطالعہ کو ظفر پیامی کی تفہیم کے سلسلے میں پہلا قدم ہی سمجھتا ہوں، دیوان بریندر ناتھ سے ظفر پیامی بن کر اس اہم شخصیت نے جو پیام دیا ہے اس کی تفہیم کے لیے اور بھی مطالعات سامنے آنے چاہیے۔ (صفحہ ۲۱۰) 
قاری کو اپنے علم وتحقیقی کی روشنی میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر پر بحث ونظر کا حق تو ہے، لیکن مصنف کے تواضع اور انکساری سے بھرے ان جملوں کو رد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ کتاب کے مندرجات سے قارئین کی بہ نسبت زیادہ واقف ہیں، اے کے علوی ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے فکری ،فنی اور سوانحی اعتبار سے ظفر پیامی کو ہم تک پہونچا یا۔

ایس۔ آر ۔ میڈیا کی خدمات : اور فروغ اردو

ایس۔ آر ۔ میڈیا کی خدمات : اور فروغ اردو 
اردو دنیانیوز ٧٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخرالدین عارفی 
9234422559
قمر اعظم صدیقی صاحب ، ایک تخلیقی فنکار ہیں اور ان کا تعلق فکشن سے ہے ، وہ ایک اچھے ، ذہین اور باشعور قلم کار ہیں ۔  دوران طالب علمی شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے ، انہوں نے  حمد ، نعت اور  غزلیں بھی لکھی تھیں  ۔ لیکن جہاں تک میں نے ان کو سمجھا اور جانا ہے ، وہ بنیادی طور پر نثر کے آدمی ہیں ۔ ان کے اندر اردو زبان کے فروغ کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، شائد یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان اردو کے فروغ و ارتقا کے جذبات سے مغلوب ہوکر "ایس ۔ آر ۔ میڈیا "  کے نام سے اپنا ایک پورٹل بھی چلا رہے ہیں ۔  " ایس  آر  میڈیا  " پیج کی شروعات یکم اگست 2021 ء سے ہوئی ہے ۔ یہ پورٹل اردو آبادی کے درمیان اتنا معروف و مقبول ہوا کہ قمر اعظم صدیقی صاحب نے گزشتہ  کئی ماہ قبل سے "ایس آر میڈیا " کا اپنا ایک ویپ سائٹ بھی شروع کیا ہے  جو کامیابی کے ساتھ اپنا سفر طے کررہا ہے ۔ ساتھ ہی فیس بک پیج کے نام سے بھی یہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق ایس ۔ آر ۔ میڈیا اپنی زندگی کے تقریباً سترہ مہینوں میں 2000 دوہزار سے زائد ادبی ، ثقافتی ، مذہبی اور اصلاحی موضوعات پر مشتمل پوسٹ " ایس  آر میڈیا " کے پلیٹ فارم سے پوسٹ کرچکا ہے ۔ "  ایس ۔ آر  میڈیا " کی چوں کہ اپنی ایک مثبت اور تعمیری شناخت قائم ہوچکی ہے ، لہذا اردو آبادی کا ایک بڑا حلقہ نہ صرف یہ کہ اس پورٹل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، بلکہ اس بئنر کے تحت جو کچھ بھی مواد پوسٹ کیا جاتا ہے اس کا مطالعہ غایت دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ کرتا ہے ، ساتھ ہی پیش کردہ مواد سے استفادہ بھی کرتا ہے ۔ " ایس آر  میڈیا " کے پیج کو پسند کرنے والے لوگ نہ صرف ہندوستان ، بلکہ ساری دنیا میں موجود ہیں اور ان کی تعداد بھی اطمینان بخش ہے ۔ جس سے ایس  آر  میڈیا پیج کی مقبولیت کا ہمیں پتہ چلتا ہے اور اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں سرگرم سائٹس اور پورٹل کے درمیان " ایس  آر  میڈیا " اپنی ایک منفرد شناخت اور اہمیت و افادیت رکھتا ہے ۔ اس پیج کو کامیابی سے سرفراز کرنے اور معتبر بنانے میں قمر اعظم صدیقی صاحب کی کاوشوں کی اگر ہم ستائش نہ کریں تو یہ بہت بڑی ادبی بددیانتی ہوگی ۔ لہذا بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ " ایس  آر  میڈیا " کے نام سے ڈیجیٹل ورلڈ میں قمر اعظم صدیقی صاحب نے جو گراں قدر اور بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ان کو ڈیجیٹل ورلڈ کی تاریخ میں سدا سنہری حرفوں سے تحریر کیا جائے گا ۔ 
آج کی دنیا بالکل تبدیل ہوچکی ہے ، سب کچھ بدل چکا ہے ۔ آج مکانی فاصلہ کوئ اہمیت نہیں رکھتا ہے اور دنیا ہماری انگلیوں کے اشاروں پر ناچنے لگی ہے ۔ ایسے میں قمر اعظم صدیقی صاحب نے جو اہم کارنامہ انجام دیا ہے وہ ڈیجیٹل ورلڈ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ان کا نام قمر اعظم اور قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے ، ان کے والد کا نام شہاب الرحمٰن صدیقی ہے ۔ ان کے والد صاحب درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں اور ماضی قریب میں ہی اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوۓ ہیں  ۔ قمر اعظم صدیقی صاحب اور ان کے خانوادے کا تعلق بہار کے ضلع ویشالی ( حاجی پور ) کے نزدیک کے ایک مردم خیز خطہ "بھیرو پور " سے ہے ۔ قمر اعظم نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فاصلاتی کورس سے اردو میں ایم ۔ اے کی سند حاصل کی ہے ۔ 
وہ بنیادی طور پر ایک تخلیقی فن کار ہیں افسانہ نگاری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن شخصی مضامین و تبصرہ نگاری  ان کا خاص میدان ہے گوکہ شاعری کی مختلف اصناف میں بھی انہوں نے طبع آزمائ کی ہے ۔ ان کی تخلیقات ملک کے بیشتر اردو ویب سائٹ اور پورٹل  ، ادبی رسائل و مشہور و معروف اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کی کتاب کا ایک مسودہ اردو ڈائریکٹوریٹ میں جمع ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ ان کی ایک دوسری کتاب کا مسودہ "  این سی پی یو ایل میں  بھی جمع  ہے ۔ اس کتاب میں کل 33 مضامین شامل ہیں ۔ اس کتاب میں شامل تمام  مضامین  "ایس آر  میڈیا "  میں شائع ہوچکے ہیں ۔ 
قمر اعظم صدیقی صاحب کے یوں تو تمام مضامین اپنے موضوعات کے لحاظ سے انتہائی اہم  قابل ذکر اور کار آمد ہیں  ، لیکن ان میں ان کا سب سے اہم اور کار گر  اور اپنے موضوع کے لحاظ سے بالکل نیا ایک مضمون ہے ، جو انہوں نے " اردو میں سرگرم ویب سائٹس اور پورٹل ایک تجزیاتی مطالعہ " کے عنوان سے سپرد قلم کیا ہے ۔ جو پچاس سے زائد صفحات پر محیط ہے ، اس مضمون کی نوعیت بالکل الگ ہے اور قمر اعظم صدیقی کا یہ مضمون اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک بہترین تحقیقی کاوش  کا درجہ رکھتا ہے ، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔ یہ مضمون " صحافت دو صدی کا احتساب " نامی کتاب میں شامل ہے ۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ قمر اعظم صدیقی صاحب  ایک تخلیقی فنکار ہونے کے باوجود "ایس  آر  میڈیا " کے توسط سے اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا کے لیےء  جو خدمات انجام دے رہے ہیں وہ یقیناّ  دور رس نتائج کی حامل ہیں اور اس کے لیےء قمر اعظم صدیقی اور ان کے پیج "ایس آر  میڈیا " کی جتنی بھی ستائش کی جائے وہ کم ہے ۔ قارئین " ایس آر میڈیا " پیج کو اس لنک پر جاکر فالو کر سکتے ہیں 
https://www.facebook.com/profile.php?id=100071344443534&mibextid=ZbWKwL

 ایس آر میڈیا کی ویب سائٹ پر جانے  کے لیے اس لنک کو کلک کریں ۔  https://srmedia.webhutt.com 
قلمکار اپنی تحریر یونیکوڈ میں ٹائپ شدہ ان کے واٹس ایپ نمبر 9167679924  یا میل آئ ڈی srmedia373@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں۔ 

فخرالدین عارفی 
9234422559

جمعہ, دسمبر 23, 2022

خود اعتمادی __شخصی ارتقاءکا پہلا زینہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خود اعتمادی __شخصی ارتقاءکا پہلا زینہ
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہم بہت سارے فیصلے کرنے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوتے ہیں، اس کا حل شریعت میں مشورہ ہے، مشورہ کے لیے افراد کا انتخاب بھی ایک اہم کام ہے، آپ تجارت میں کاشت کار سے مشورے لے رہے ہیں، ڈاکٹری معاملات میں انجینئر سے مشورہ لے رہے ہیں، تعلیمی معاملات میں مشورہ کے لیے جاہل کے پاس جا رہے ہیں تو کام قابو میں نہیں آئے گا، بلکہ بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مشیر کار کا صحیح انتخاب کیا جائے، ایک مشیر ہمارے اندر بھی بیٹھا ہوا ہے ، یہ ہمارا دل ہے، اپنے دل سے استفسار کرنا چاہیے، اسی کو حدیث میں استفت قلبک سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اپنے دل سے پوچھو، دل کے یہ فیصلے ہی ہمارے اندر خود اعتمادی (Self confidence)پیدا کرتے ہیں اور ہم احساس کم تری کے دلدل سے نکل پاتے ہیں، خود اعتمادی سے ہمارے اندر قوت فیصلہ اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
خود اعتمادی کا بڑا فائدہ ہماری ذات کو پہونچتا ہے، ہم عزت نفس کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں، ہمارا ضمیر مردہ ہونے سے بچ جاتا ہے اورہم ہر کام کے کرتے وقت ضمیرکی آواز کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں، ضمیر کی آواز کو مضبوط اور اس کی رہنمائی کو یقینی بنانے کے لیے کچھ دیر مراقبہ کرنا بہت مفید ہے، اس سے ہمارے فکر وخیال میں ارتکاز پیدا ہوتا ہے، ہمارا دل اور دماغ ہمارے من سے جڑجاتا ہے، دن میں پندرہ ، بیس منٹ بھی اگر آپ اس کام کے لیے نکال سکیں تو ضمیر کی آواز تک پہونچنا اور خود اعتمادی کے ساتھ کام کو نمٹا نا آسان ہی نہیں، آسان تر ہوجائے گا، جو خیالات ذہن میں آئیں، اسے نوٹ کر لیں اور پھر کسی خالی وقت میں اس کے مثبت اور منفی پہلووءں کا تجزیہ کریں، ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مراقبہ کے وقت جو سگنل آپ کو ملتا ہے وہ دیر پا نہیں ہوتا، ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صرف تینتیس(35) سکنڈ کے بعد ان اشاروں کا کاغذ پر منتقل کرنا کبھی کبھی دشوار ہوجاتا ہے، روزانہ اس کا م کے لیے دس منٹ نکالیں، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بسا اوقات جب آپ کسی کام کے کر گذرنے کا عزم مصمم کر لیتے ہیں تو وہ کام ہوجاتا ہے، اقبال کے لفظوں میں سمندر پاٹنا اور کوہ سے دریا بہانا بھی ممکن ہوسکتا ہے، یہ خود اعتمادی کا ہی نتیجہ ہے، اس کے بر عکس کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ دریا پر بنے لکڑی کے پتلے پُل کو عبور کرتے وقت گھبرا جاتے ہیں، ریلنگ پر چلنا ہو تو کپکپی بدن پر طاری ہوجاتی ہے اور آپ نیچے گر جاتے ہیں، ایسا خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، آپ پورے اعتماد کے ساتھ طے کر لیں کہ میں اسے عبور کر سکتا ہوں، تو اللہ کی مدد سے آپ اسے عبور کرلیں گے۔
خود اعتمادی کی کمی ہمیں بہت سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارا بہت سارا وقت یہ سوچنے پر گذر جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے۔ اس کی وجہ سے بار بار ہم اپنے طریقۂ کار اور منصوبوں میں تبدیلی لاتے ہیں، جس سے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، ہمیں ناکامی کا ڈر ستانے لگتا ہے ، اس غیر ضروری سوچ کی وجہ سے خود اعتمادی کمزور پڑ جاتی ہے اور ہم آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں، اس نفسیاتی مرض کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دل ودماغ کے سب دروازے کھلے رکھیں، جو نئے منصوبے کسی کی طرف سے یا آپ کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اس کے مثبت ، منفی پہلوو ءں کا جائزہ لے کر مثبت راہ پر آگے بڑھیں، آپ محسوس کریں گے کہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ آپ نے جو فیصلہ لیا ہے اس کی وجہ سے کامیابی آپ کا مقدر بن گئی ہے ۔
 یقینا پیشہ وارانہ معاملات میں ہر جزو پر دھیان رکھنا ضروری ہے ، دور اندیشی سے کام کے بارے میں فیصلہ لینا بھی ضروری ہے ، لیکن اس فیصلہ میں اتنی تا خیر ہونا کہ کام وقت پر مکمل نہ ہوسکے آپ کی احساس کمتری اور اپنی ذات پر بے اعتمادی کا اشاریہ ہے، اس لیے تمام پہلو ءوں پر دھیان رکھیں ، کام آگے بڑھتا جائے گا، اسی لیے مفکرین کی رائے ہے کہ ایسی زندگی گذاریں جس میں ڈر سے زیادہ کچھ کر گذرنے کی جستجو اور حوصلہ پایا جائے، خود کو بہتر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں اور ایسے تجربات سے بھی بچیں جس نے آپ کو پہلے کسی مرحلہ میں ناکامی سے ہم کنار کیا ہو۔
 خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے معاملات میں دوسروں پر انحصار کرنا کم سے کم کریں، چھوٹے چھوٹے کام خود سے کرنے کی عادت ڈالیے، جو لوگ دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں اور بیساکھی کے سہارے چلتے ہیں وہ کبھی بھی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے، خود اعتمادی کا مطلب کبر نہیں ہے اور یہ تواضع کی ضد بھی نہیں ہے، کبھی یہ مت سوچیے کہ مجھے معزز بننے کے لیے اپنا قد دوسروں سے بڑا کرنا ہوگا، چاہے یہ بڑپن کسی کو روند کر ہی کیوں نہ حاصل ہو، قد کے بڑا کر لینے سے آدمی بڑا نہیں ہوجاتا، جھکنے سے بھی اونچائی ملتی ہے، من تواضع للہ رفعہ اللہ کا یہی مطلب ہے اور اونچی سڑک پر کمر جھکا کر چلنا بھی یہی بتاتا ہے، جو جھکنا نہیں جانتے انہیں وقت کا جھکڑ دیر سویر جھکا ہی دیتا ہے، اس لیے تواضع کو خود اعتمادی کے منافی نہیں سمجھیے، کبھی تو جھکنے سے ہی ایمونیٹی بڑھتی ہے، من کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اس کی صلاحیت بھی مراقبے اور گیان دھیان سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
 خود اعتمادی اور خود پسندی بھی دو الگ الگ چیز ہے، خود پسندی انسان کو کبر کی طرف لے جاتا ہے، اس کی نظر میں اپنے علاوہ دوسرا کوئی جمتا اور جچتا ہی نہیں ہے، ایسا شخص اپنے علاوہ دوسرے کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، اس کے بر عکس خود اعتمادی میں دوسروں کے لیے حقارت کا مادہ نہیں پایا جاتا ، وہ صرف اپنے کام اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچا نے کی دُھن میں رہتا ہے، دوسرے کیا کر رہے ہیں یا اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں،وہ اس میں پڑنا نہیں چاہتا ، اس کا ہر قدم پُر اعتماد انداز میں منزل کی طرف بڑھتا ہے اور بالآخر وہ اپنے ہدف کو پالیتا ہے۔
 خود اعتمادی کو کمزور کرنے کے لیے بہت سارے عوامل آپ کے ارد گرد بکھرے ہوتے ہیں، ان سے محتاط رہنا چاہیے، خصوصا ایسے لوگوں سے جو بار بار آپ کو یہ کہیں کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے، ایسے لوگوں سے خود کو دور رکھیے اور بار بار اس بات کو دہرائیے کہ ہم اللہ کے فضل سے سب کچھ کر سکتے ہیں، ہمارا دل، دماغ، ہاتھ پاوءں سب سلامت ہے تو پھر ہم اپنے منصوبوں کو نتیجے تک کیوں نہیں پہونچا سکتے۔
خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے بچوں پر ابتداہی سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ، بچہ سیڑھی پر چڑھتے ہوئے بار بار گر رہا ہے ، ایسے میں ماں، باپ، بھائی اس کو گودمیں اٹھا لیتے ہیں، یا بچہ پاوءں پاوءں چلنے کی عمر میں ہے ، اٹھتا ہے، تلملاتا ہے، گرتا ہے، پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے، ایسے میں آپ کی محبت کا تقاضہ ہے کہ اسے کوشش کرنے دیں، چند بار گرنے کے بعد جب وہ چلنے لگے گا یا سیڑھی پر خود سے چڑھ جائے گا تو اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی،یہ خود اعتمادی اس کی عمر کے ساتھ پروان چڑھتی رہے گی اور بڑا ہو کر وہ اس خود اعتمادی سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوگا، گارجین حضرات کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ خود اعتمادی بچے اور بڑے سب کے لیے ایک ایسا محرک ہے جو مختلف موقعوں پر حالات کا مقابلہ ، مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے قوت فراہم کرتا ہے، اس صلاحیت کو پیدا کرنے میں والدین اور خاندان کے لوگ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اگر والدین کا رویہ خود اعتمادی والا نہیں ہے تو بچہ اس راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، اس لیے خود اعتمادی کا جوہر اپنے اندر پیدا کیجئے تاکہ یہ بچوں میں منتقل ہو سکے، خود اعتمادی ہے یا نہیں اس کا پتہ انسان کے اعمال وکردار سے چلتا ہے ، اگر کوئی آدمی اپنی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کرتا، دوسروں سے مرعوب رہتا ہے، نئے تجربات سے گریز کرتا ہے، اس کے اوپر جھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے، وضع قطع بدلتے رہتاہے ، سماجی سر گرمیوں سے دلچسپی نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہے، جب کہ وضع قطع کی یکسانیت، مثبت تنقید کے قبول کرنے کا مزاج اپنی صلاحیتوں پر اعتماد، خود اعتمادی کی واضح علامتیں ہیں۔ ان صفات کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا تعلق ان لوگوں سے ہو جو خود اعتمادی کے ساتھ کام کیا کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کے معاملہ میں بخیل نہیں ہےں ، اور اچھے کاموں کو کھلے دل سے سراہتے ہیں، ایسے لوگ جو ہمارے مشوروں میں کیڑے نکالتے ہیں، اچھے کاموں کی پذیرائی بھی نہیں کرتے اور ہر وقت اپنا قد اونچا کرنے کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانے کی مہم چلاتے رہتے ہیں، وہ آپ کی خود اعتمادی کو کمزور کرکے احساس کمتری میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسے لوگ آپ کے دوست نہیں دشمن ہیں، جو آپ کی شخصی ارتقاءدیکھنا نہیں چاہتے، حالاں کہ خود اعتمادی شخصی ارتقاءکا پہلا زینہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں سے د وری بنائے رکھیے تاکہ آپ کی خود اعتمادی بحال رہے۔

بدھ, دسمبر 21, 2022

مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ کا خاتمہ ___

مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ کا خاتمہ ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مرکزی حکومت کی اقلیتی دشمنی کا ایک اور ثبوت سامنے آ یا ہے، اس نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے لیے جاری مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ بند کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیلو شپ پانچ سال کے لیے ہوتا تھا اور اقلیتی طبقات بدھ، جین، عیسائی، پار سی اور سکھ مذہب سے تعلق رکھتے والے طلبہ وطالبات کو ملا کرتا تھا، اس فیلو شپ کا دائرہ ہندوستان میں با قاعدہ اور کل وقتی تحقیق کرنے والے طلبہ وطالبات کے ساتھ یونیورسیٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کے ذریعہ تسلیم تمام یونیورسیٹیوں اور اداروں تک پھیلا ہوا تھا، اس کا آغاز 2009ءمیں راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی سفارشات کے بعد کیا گیا تھا، یہ اطلاع وزیر اقلیتی اموراسمرتی ایرانی نے کانگریس رکن پالیمان ٹی این پرتھا پن کے ذریعہ اٹھائے گیے ایک سوال کے جواب میں پارلیامنٹ میں دیا، انہوں نے کہا کہ اقلیتی طلباءوطالبات اسکالر شپ کی دوسری اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، البتہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ سے اب وہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کا خیال ہے کہ یہ اقلیتی برادری کے ساتھ نا انصافی ہے اور اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلبہ وطالبات کے منصوبوں پر اوس پڑجائے گی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جائیں گے ۔اسی درمیان وزیرخزانہ سیتارمن کا بیان آیا ہے کہ یہ اسکالر شپ ختم نہیں کیا گیا ہے، ان کے بیان کے آخری جملہ سے ختم نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جن کو مل رہا تھا انہیں پانچ سال کی مقررہ مدت تک ملتا رہے گا۔
حکومت کے اس فیصلے سے لوگوں میں یہ پیغام گیا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس بھی مودی جی کے دوسرے جملوں کی طرح محض ایک جملہ ہے اور انہیں اقلیتوں کی تعلیم اور ان کے اقتصادی حالات کو ٹھیک کرنے کے تعلق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ضرورت ہے کہ حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، تاکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اقلیتوں کی دشواریاں دو، ہو سکیں۔

منگل, دسمبر 20, 2022

علم وفن کے نیر تاباں"تعارف و تبصرہمفتی خالد نیموی قاسمی،صدر جمعیت علماء بیگو سرائے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
"علم وفن کے نیر تاباں"تعارف و تبصرہ
مفتی خالد نیموی قاسمی،صدر جمعیت علماء بیگو سرائے
اردو دنیا نیوز٧٢ 

 کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب کے ذوق و شوق کی آخری صدی ہے. 
لیکن کئی جہات سے یہ کلیہ درست نہیں معلوم ہوتا ہے. 
اس لیے کہ آج بھی بہت سی کتابیں پورے سج دھج کے ساتھ مارکیٹ میں آرہی ہیں اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا مقام حاصل کر رہی ہیں؛ کبھی تو کتاب کی کشش، کبھی صاحبِ کتاب کی کشش، کبھی جس شخصیت کی طرف اس کتاب کا انتساب ہے، اس شخصیت کی کشش
لوگوں کے مابین اس کتاب کو مقبولیت عطا کرتی ہے. 
ایسی ہی ایک کتاب" علم و فن کے نیر تاباں" کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے. اور مرتب کی عنایت سے آج ہی رجسٹرڈ ڈاک سے موصول ہوئی ہے. اس کتاب کے بارے میں امید ہے کہ مقبولیت کا مقام حاصل کرے گی. اس کتاب کو ہمارے عزیز دوست ممتاز صاحب قلم مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کمال مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ مرتب فرمایا ہے. یہ کتاب حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت پر اہل علم کے گراں قدر مضامین کا حسین گلدستہ ہے. اور اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے یہ کتاب "عروس جمیل" در لباس حریر "کی مصداق ہے. 
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مقالہ نگاروں نے پوری محنت اور دقت نظر سے اپنے اپنے مقالوں کو تیار کیا ہے اور مرتب کا کمال ہے کتاب میں یہ مقالات اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ مولانا کی زندگی گویا اس کتاب میں سماگئی ہے. امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب آئندہ مستقبل قریب میں مولانا کی شخصیت پر مزید کام کرنے والوں کے لئے
سنگ میل اور بنیادی مرجع ثابت ہوگی اور اہلِ علم اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقاتی کام انجام دے سکیں گے. 
یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ اس کتاب میں صرف مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کے احوال ہی کو قلمبند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطہ جس سے وہ تعلق رکھتے تھے؛ جمال پور دربھنگہ بلکہ پورے بہار کی تاریخ کو ابتدائیہ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اچھی تحقیق پیش کی گئی ہے. 
مقدمہ میں متھلا، متھلانچل، اور ترہت کی تاریخی پس منظر کو بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے. 
بعض تاریخی حقائق کے سلسلے میں
حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا جاتا؛ تو کتاب کی رونق میں اور تاریخی استناد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا. مثلاً" علمی مقام" کے زیر عنوان 
جن اکابر کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛ 
ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تو بڑا اچھا ہوتا. 
ہر باب کے آغاز پہ مناسب حال اشعار
کی سیٹنگ نے کتاب کے حسن کو اور دوبالا کردیا ہے. 
مثلا:باب اول نقوش حیات  ہے؛ تو اگلے صفحہ پر  میں مناسب حال  شعر درج ہے:
 موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
 ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
اسی طرح باب دوم مشاہدات و تاثرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اگلے صفحے میں یہ شعر درج ہے. 
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر جائیں گے
باب سوم تدریس و خطابت پر مشتمل ہے؛ اس سے اگلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے 
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
 ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
باب چہارم تعلیمی و تنظیمی خدمات پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر پسند کیا گیا ہے:. نہ پوچھ مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
باب پنجم تحریری نمونہ پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر منتخب کیا گیا ہے:
اٹھائےکچھ ورق لالے نےکچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری. 
ممتاز اہل قلم کے کی تحریر کی خوشبو نے اس کتاب کے بام و در کو معطر کر دیا اور امید ہے کہ قاری کا مشام جاں بھی معطر ہوجائے گا. اور کیوں نہ ہو جس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سیدابواختر قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا مشہود احمد ندوی، مولانا امیر معاویہ قاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی ،مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر نور السلام ندوی؛ مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی، مولانا بدرالحسن قاسمی؛ مفتی عین الحق امینی قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا رحمت اللہ ندوی مفتی ظفر عالم ندوی ؛مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی مفتی اسعد پالن پوری ،مفتی جمال الدین اور مولانا سفیان احمد کے مضامین ہوں، اس کی اثر انگیزی کے بارے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟؟ . 
یہ کتاب کل 256 صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ سبزی باغ اور دربھنگہ کے کتب خانوں سے یا مرتب سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے. 
تاثرات و تبصرہ :بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز 
مورخہ 17 /12 /2022

 کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب کے ذوق و شوق کی آخری صدی ہے. 
لیکن کئی جہات سے یہ کلیہ درست نہیں معلوم ہوتا ہے. 
اس لیے کہ آج بھی بہت سی کتابیں پورے سج دھج کے ساتھ مارکیٹ میں آرہی ہیں اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا مقام حاصل کر رہی ہیں؛ کبھی تو کتاب کی کشش، کبھی صاحبِ کتاب کی کشش، کبھی جس شخصیت کی طرف اس کتاب کا انتساب ہے، اس شخصیت کی کشش
لوگوں کے مابین اس کتاب کو مقبولیت عطا کرتی ہے. 
ایسی ہی ایک کتاب" علم و فن کے نیر تاباں" کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے. اور مرتب کی عنایت سے آج ہی رجسٹرڈ ڈاک سے موصول ہوئی ہے. اس کتاب کے بارے میں امید ہے کہ مقبولیت کا مقام حاصل کرے گی. اس کتاب کو ہمارے عزیز دوست ممتاز صاحب قلم مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کمال مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ مرتب فرمایا ہے. یہ کتاب حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت پر اہل علم کے گراں قدر مضامین کا حسین گلدستہ ہے. اور اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے یہ کتاب "عروس جمیل" در لباس حریر "کی مصداق ہے. 
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مقالہ نگاروں نے پوری محنت اور دقت نظر سے اپنے اپنے مقالوں کو تیار کیا ہے اور مرتب کا کمال ہے کتاب میں یہ مقالات اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ مولانا کی زندگی گویا اس کتاب میں سماگئی ہے. امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب آئندہ مستقبل قریب میں مولانا کی شخصیت پر مزید کام کرنے والوں کے لئے
سنگ میل اور بنیادی مرجع ثابت ہوگی اور اہلِ علم اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقاتی کام انجام دے سکیں گے. 
یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ اس کتاب میں صرف مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کے احوال ہی کو قلمبند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطہ جس سے وہ تعلق رکھتے تھے؛ جمال پور دربھنگہ بلکہ پورے بہار کی تاریخ کو ابتدائیہ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اچھی تحقیق پیش کی گئی ہے. 
مقدمہ میں متھلا، متھلانچل، اور ترہت کی تاریخی پس منظر کو بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے. 
بعض تاریخی حقائق کے سلسلے میں
حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا جاتا؛ تو کتاب کی رونق میں اور تاریخی استناد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا. مثلاً" علمی مقام" کے زیر عنوان 
جن اکابر کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛ 
ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تو بڑا اچھا ہوتا. 
ہر باب کے آغاز پہ مناسب حال اشعار
کی سیٹنگ نے کتاب کے حسن کو اور دوبالا کردیا ہے. 
مثلا:باب اول نقوش حیات ہے؛ تو اگلے صفحہ پر میں مناسب حال شعر درج ہے:
 موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
 ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
اسی طرح باب دوم مشاہدات و تاثرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اگلے صفحے میں یہ شعر درج ہے. 
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر جائیں گے
باب سوم تدریس و خطابت پر مشتمل ہے؛ اس سے اگلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے 
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
 ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
باب چہارم تعلیمی و تنظیمی خدمات پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر پسند کیا گیا ہے:. نہ پوچھ مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
باب پنجم تحریری نمونہ پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر منتخب کیا گیا ہے:
اٹھائےکچھ ورق لالے نےکچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری. 
ممتاز اہل قلم کے کی تحریر کی خوشبو نے اس کتاب کے بام و در کو معطر کر دیا اور امید ہے کہ قاری کا مشام جاں بھی معطر ہوجائے گا. اور کیوں نہ ہو جس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سیدابواختر قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا مشہود احمد ندوی، مولانا امیر معاویہ قاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی ،مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر نور السلام ندوی؛ مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی، مولانا بدرالحسن قاسمی؛ مفتی عین الحق امینی قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا رحمت اللہ ندوی مفتی ظفر عالم ندوی ؛مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی مفتی اسعد پالن پوری ،مفتی جمال الدین اور مولانا سفیان احمد کے مضامین ہوں، اس کی اثر انگیزی کے بارے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟؟ . 
یہ کتاب کل 256 صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ سبزی باغ اور دربھنگہ کے کتب خانوں سے یا مرتب سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے. 
تاثرات و تبصرہ :بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز 
مورخہ 17 /12 /2022

تحقیقی تبصرے -ایک مطالعہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ



تحقیقی تبصرے -ایک مطالعہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
اردو دنیا نیوز٧٢ 

قلمی نام ظفر کمالی سے مشہور جناب ڈاکٹر ظفر اللہ (ولادت 3؍اگست 1959ء) بن کمال الدین احمد مرحوم جائے پیدائش موضع رانی پور بڑہریا سیوان حال مقیم ایم ایم کالونی مل روڈسیوان ذکیہ آفاق کالج سیوان میں فارسی کے استاذ رہے ہیں، نثر نگاری میں انہوں نے مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا سے کسب فیض کیا ہے اور ان سے شرف تلمذ کو وہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں، احمد جمال پاشا کی فکاہت و ظرافت سے جو حصہ انہوںنے پایا اس کے نمونے شاعری میں ظرافت نامہ، ڈنک، وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، نثر میں چٹکیاں، بنام مجتبیٰ حسین، میں بھی اس کے نمونے پائے جاتے ہیں، لیکن تحقیقی مقالات و تبصروں میں ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو صاف و شفاف، تعقیدات لفظی و معنوی سے خالی اور سبک رو ہے۔ اس لیے ان کے تحقیقی تبصرے، تحقیق کی خشکی کے باوجود قارئین کے دل و دماغ کو بوجھل نہیں کرتے، ان کے یہاں اغلاق اور ابہام کا گذر نہیں ہے، جو کہتے ہیں برملا کہتے ہیں، برجستہ؛ مگر تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر کہتے ہیں۔ اس لیے قاری کو پڑھنے کے بعد اپنے علم میں اضافہ کااحساس ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی کتاب کو پڑھ کر آپ کے علم میں اضافہ نہ ہو تو ایسی کتابوں کے مطالعہ پر وقت لگانا تضیع اوقات کے زمرے میں آتاہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت بھی ختم ہوتی ہے قاری اور مصنف کے درمیان جو رشتہ ہوتا ہے وہ دھیرے دھیرے کمزور ہوجاتا ہے اور پھرکلیۃً ختم ہوجاتاہے۔
’’تحقیقی تبصرے ‘‘ظفر کمالی کی معتبر اور مستند تحقیق ہے۔ اس میں تبصرے کا عنصر کم اور تحقیقی ذوق زیادہ نمایاں ہے،ہمارے دور میں تبصرے کا مفہوم تعارفِ کتاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، تنقید کا عنصر تقریباً تبصرے سے غائب ہوگیا ہے، تبصرہ نگار کو تحقیق کی فرصت ہی نہیں ہوتی، تحقیق کے لئے جس جاں کاہی اور پِتّہ پانی کرنے کی ضرورت ہے، تبصرہ نگار اس مخمصے میں پڑنا نہیں چاہتا، بلکہ بعض اساطین ادب کی رائے ہے کہ تبصرہ میں تنقید نہیں ہونی چاہیے، میری رائے ہے کہ تبصرہ نگار کا مبلغ علم اگر اس قدر ہو کہ وہ کتاب کے مندرجات پر اپنی تحقیق کی روشنی میں تنقید کرسکتاہو تو اسے ضرور کرنی چاہے، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تبصرہ میں کتاب کے گلشن سے صرف پھول چن کر اس کی عطربیزی سے قارئین کو واقف کرانا چاہئے، کانٹوں سے دامن کشاں کشاں گزر جانا چاہئے۔ میرے خیال میں دونوں نظریات کے حامل افراط و تفریط کے شکار ہیں،اس سلسلہ میں گیان چند جین کی وہ تحریر جو  ان کی کتاب مقدمے اورتبصرے کے صفحہ ۱۴۹،۱۴۸پر درج ہے قول فیصل کی حیثیت رکھتاہے، جناب ظفر کمالی صاحب نے بھی اس اقتباس کو نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں:
’’ میرے نزیک موزوں تر یہ ہے کہ اپنی طرف سے کچھ لکھتے وقت اس موضوع پر دوسروں کی تحریروں میں کوئی تسامح دکھا ئی دے توصورت حال پیش کردی جائے ،کسی کتاب یامقالے پر تبصرہ لکھنا ہو تو اس کے دونوں پہلو پیش کردیئے جائیں، محض خوبیو ں پراکتفا کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا محض غلطیاں گنانا( ص ۱۲)
 تبصرہ میں تحقیق بھی ہونی چاہئے اور تنقید بھی، ورنہ کتاب میں جو غلط بات درج ہوگئی ہے، وہ نقل ہوتی رہے گی اور قاری گمراہ ہوتا رہے گاقاضی عبد الودود اور عطا کاکوی نے مختلف مضامین و مقالات کے ذریعہ قاری کو غلط اندراج کی جانکاری دی اور قسطوں میں اس کام کو آگے بڑھایا، مولانا عامر عثمانی نے تجلی میں کھرے کھوٹے اور ماہر القادری نے فاران میں تبصرے کا ایک معیار قائم کیا، ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں تبصرہ، تحقیق اور عملی تنقید کو یک جا کر اس روایت کو وسعت اور تسلسل عطا کیا ہے۔
تحقیقی تبصرے کی اشاعت ۲۰۱۷ء میں ہوئی ،اس کاسرورق خوبصورت اوردیدہ زیب ے،جو اظہا ر احمد ندیم کے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ ہے ،یہ الگ سی بات ہے ہے کہ احقر کو تجریدی آرٹ سے کوئی مناسبت نہیں ،اور جب بھی اس سے معانی اورمفاہیم کشید کرنا چاہتا ہوں ، ڈھیروں پسینہ پیشانی پر اتر آتا ہے،اس عرق ریزی کے بعد بھی پلے کچھ نہیں پڑتا،کمپوزنگ امتیاز وحید کی ہے اور بہت اچھی ہے ،جو اہر آفسیٹ پرنٹس دہلی کی مطبع سے چھپی ،اس کتاب کا ناشر عرشیہ پبلیکیشن ہے،دہلی، الٰہ آباد ،علی گڑھ ،ممبئی ،پٹنہ ،حیدرآباد ،اورنگ آباد، کولکاتا، جموں توی کشمیر نصف درجن سے زیادہ جگہوں سے یہ کتاب بآسانی آپ کو مل سکتی ہے،اتنی خوبصورت اوردوسوچالیس صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے جو زائد تو نہیں ہے ،البتہ اردو کے قارئین کی قوت خرید کمزور ہوتو اس میں مصنف کا کیا قصور ،دوسرے صفحات کے جومندرجات ہیں اس کے بالکل اوپر (C)نشان لگا کر رضیہ سلطانہ لکھا گیا ہے،یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ منظور علی بن محمد اسماعیل اسلامیہ محلہ گوپال گنج کی صاحبزادی رضیہ سلطانہ ظفر کمالی کی اہلیہ ہیں؛لیکن یہاں نام دینے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیاقصورمیری فہم ہی کا ہوسکتا ہے ،کتاب کاانتساب بغیر انتساب کے عنوا ن کے فارسی اوراردو کے اہم محقق سید حسن عباس کے نام ہے ،جو ظفر کمالی کے ذریعہ ان کی خدمات کا اعتراف اوردل میں ان کی عظمت کی دلیل ہے ۔
پیش گفتار میں ظفر کمالی نے ان محققین اوراساتذہ کا ذکرکیاہے جن سے انہوں نے تحقیق کا فن سیکھا ہے ،ان کے کالبدِخاکی میں جو روح ہے وہ انتہائی متواضع اورمنکسرالمزاج ہے اورروح ہی کیا ظاہری رکھ رکھاؤ بھی ان کا اسی انکسار اور تواضع کا مظہر ہے۔ اس لیے انہوں نے شروع میں ہی اس کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں محقق ہونے کا دعویٰ نہیں ،ان کی حیثیت ادنیٰ طالب علم کی ہے انہوں نے اس مختصر مضمون میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ
 ’’میں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ممکنہ طور پر پوری ایمانداری برتی ہے ،عجلت پسندی میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے،کسی بھی موضوع پرلکھتے ہوئے تلاش وجستجو سے کام لینے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے ، اورسچ کی پاسداری میں بے جا انکسار سے کام نہیں لیا گیا ہے،صداقت بیانی تحقیق کی بنیاد ی شرط ہے، یہ حقیقت ہمہ دم میرے پیش نظر رہی ہے،کوئی بات اگر صداقت سے پر ے ہے تو اس کا کہنے والا خواہ کوئی ہو اسے بے خوفی سے اجاگر کیا گیا ہے (ص ۱۰)
 ظفر کمالی کے نزدیک ’’تحقیق دراصل پتھر نچوڑ کر پانی نکالنے کا نا م ہے ،اس کے لیے جس جگر کاوی کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے بس کا روگ نہیں، یہاں سہل پسندی اورعقید ت مندی کا بھی گذر نہیں ہے،دقت پسندطبیعتیں ہی اس میدان میں سرخ رو ہوتی ہیں(ص۳۰)
مجھے خوشی ہے کہ ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں پتھر نچوڑ کرپانی نکالا ہے ،اورسہل پسندی سے کام نہیں لیا ہے ،البتہ میر ااحساس ہے اورضروری نہیں کہ یہ احساس صحیح بھی ہو کہ ظفر کمالی کو جن شخصیتوں سے عقیدت ہے ان پر لکھتے وقت ان کا لہجہ بدل جاتا ہے ،ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم جس قدر بھی معروضی مطالعہ کی بات کریں انسانی سرشت کی بڑی سچائی ہے کہ شعور یاتحت الشعور میں جن کی خوبیوں نے جگہ بنا رکھا ہے ہم اس سے اپنے کو الگ نہیں کرپاتے ،قلم خود سے چلتا نہیں، اسے ذہن ودماغ اورفکر وشعور کے آمیز ہ سے ہی تحریک ملتی ہے ۔
تحقیقی تبصرے میں کل گیارہ مقالات ہیں، جن کے عناوین درج ذیل ہیں۔
غلطیہائے مضامین: ایک تبصرے پر تبصرہ، ادبی تحقیق، مسائل اور تجزیہ، تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث-ایک تبصرہ، قاضی عبد الودود اور گیان چند جین، قاضی عبد الودود کا خود نوشت سوانحی خاکہ اور سید محمد محسن، قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ از ابوالبرکات کربلائی، مدرس، تدریس اور تحقیق، ضحاک کا ماخذ، بزم فرخ ناٹک، ڈراما اور اسٹیج، گلستاں کا باب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہیں۔
اس کتاب کا پہلا مقالہ سید شاہ عطاء الرحمن عطاکاکوی کے’’ غلطیہا ئے مضامین ‘‘کے اوپر جناب گیان چند جین نے جو تبصرہ کیا تھا اس تبصرہ پر تبصرہ ہے، عطا کاکوی کا یہ مضمون معاصر پٹنہ میں آٹھ قسطوں میں چھپا تھا، گیان چند جین کا یہ تبصرہ پہلے شاعر شمارہ 1986-8میں شائع ہوا تھااور بعد میں ان کی کتاب مقدمے اور تبصرے کا حصہ بنا۔ یہ کتاب 1990ء میں شائع ہوئی تھی۔
ظفر کمالی نے اس تبصرہ پر تبصرہ کا آغاز گیان چند جین کی کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘ کے ایک اقتباس سے کیا ہے اور اس کو اپنے مقالہ کا سرنامہ بنایاہے اور پھر عطاکاکوی کے مضمون اور گیان چند جین کے تبصرے کے اقتباس دے کر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ظفر کمالی کا یہ تحقیقی تبصرہ ایک محاکمہ ہے۔ جس میں ان کے علم کا وفور، تحقیق کا شعور، جانب داری سے نفور اور تنقید کی صلاحیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس محاکمہ کا اختتام ظفر کمالی نے اس خوش اسلوبی سے کیا ہے کہ گیان چند جین کی تحریر ہی سے ظفر کمالی کے نظریات کی تائید ہوگئی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’افسوس ہے کہ یہ غلطی ہائے مضامین پر قلم اٹھاتے وقت انہوں نے تحقیقی ذمہ داریوں کالحاظ نہیں رکھا اور حد درجہ بے نیازی سے کام لیا، انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’آپ کو بالکل درست جواب ملے تو لکھئے ورنہ موجودہ مواد کے پیش نظر اپنی معذوری کا اعتراف کرلیجئے  یہ ہرگز نہ ہوکہ آپ دوسرے کے بیان کو غلط ٹھہراکر کوئی تصحیح کردیں اور دوسرا اس تصحیح کا کھوکھلا پن بآسانی ثابت کرسکے، مجھے ان کے قول سے پورا اتفاق ہے۔(تحقیقی تبصرے 29)
اس کتاب کا دوسرا مقالہ رشید حسن خاں کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب’’ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘ پر ہے، یہ کتاب پہلی بار1978 ء میں چھپی تھی اور دوسرا ایڈیشن اترپردیش اردو اکادمی نے 1990ء میں لکھنؤ سے شائع کیاتھا، یہ تبصرہ بڑی حد تک رشید حسن خاں کی کتاب اور اسکے مندرجات سے اتفاق پر مبنی ہے۔ اس کا اسلوب اور لب و لہجہ اس بات کی طرف مشیر ہے کہ ظفر کمالی رشید حسن خاں کی شخصیت اور ان کی تحقیقات سے خاصے متاثر ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی  ہوسکتی ہے کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر کمالی صاحب کو بقول ان کے تحقیقی آداب سے آگاہی ہوئی، قاضی صاحب اور رشید حسن خاں نے صداقت اور جرأت اظہار کی طاقت بخشی۔‘‘ اس مقالہ کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے۔’’ جو لوگ تحقیق کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہوں اور وہ سرخ روئی اور سرفرازی کے بھی متمنی ہوںتو انہیں’’ ادبی تحقیقی مسائل اور تجزیہ‘‘ کو وظیفے کی طرح پڑھنا چاہیے۔‘‘(تحقیقی تبصرے ص54)
اس کے باوجود انہوں نے چند جگہوں پر رشید حسن خاں کی رائے سے اختلاف کیاہے ،رشید حسن خان نے تذکرے کے اردو تراجم کو فضول کام کہا  اور اسے لوگوں کی دلچسپی کی چیزنہیں مانا ہے، ظفر کمالی نے اس پر اپنے تبصرہ میںلکھا ہے کہ اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے ،دوسری طرف خاں صاحب نے یونیورسٹی میں لکھے جارہے پی ایچ ڈی کے مقالوں کا نثری مرثیہ لکھا تواس سے ظفر کمالی نہ صرف یہ کہ اتفاق کرتے ہیں ،بلکہ ان کے بقول آج تعلیم گاہوں میں تحقیق کی جو صورت حال ہے وہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں مجھے اس موقع سے پروفیسر چند گوپی نارنگ کی وہ بات یادآتی ہے جو انہوں نے اخباری نمائندہ کے سوال کے جواب میں کہی تھی جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کل تحقیقی مقالوں کے لے کیا چیز ضروری ہے فرمایا :دفتیوں کے درمیان چند اوراق لکھے ہونے چاہیے ،ظفر کمالی نے ادبی تحقیق ومسائل پر لکھتے وقت اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے انہوں نے اس کتاب کے مضمون ڈاکٹر گیان چند اورقاضی عبدالودود کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ نقوی کا مضمون قدرے مغالطہ میں ڈالنے والا ہے کیوں کہ یہ مقالہ دراصل بت شکن محقق کے بعض حصوں پرتبصرہ ہے ۔اس مقالہ کا اختتام ظفر کمالی کے ان جملوں پر ہوتا ہے:’’اس کتاب کے مطالعہ سے فہم وفراست اورمعانی ومفاہیم کے مختلف درکھلتے ہیں،ان کی دی گئی مثالوں سے چشم عبرت بیںبہت کچھ حاصل کرسکتی ہے،تحقیق ذہانت اورفکری بصیرت سے معمور نقوی صاحب کی اس کتاب اوران کی دیگر قابل قدر تصانیف کی روشنی میں انہیں عصرحاضر کی اردو تحقیق کامرد کامل کہا جاسکتا ہے(ص۷)
تیسرا مقالہ تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث پر تبصرہ ہے، یہ حنیف نقوی کی تصنیف ہے اور وہ بھی کمال صاحب کی پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں، ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے وقت کمالی صاحب کا قلم ان کی تعریف و توصیف زیادہ کرتا نظر آتاہے، تحقیقی تبصرے کے اس مضمون میں تجزیہ کا عنصر کم، تحقیق کا عنصر غائب اور تائید کا غلبہ ہے۔ اس کے باوجود جہاںکوئی بات سمجھ میں آگئی اس کا ذکرکرنے سے ظفر کمالی نے گریز نہیں کیاہے۔
چوتھا مقالہ قاضی عبدالودود اورگیان چند جین پر ہے جوگیان چند جین کے مضمون ’’قاضی عبدالودود اورمیں‘‘ میں جو غلط فہمیاں گیان چند جین نے قاضی صاحب کے بارے میں پھیلائیں تھی اس پر ظفر کمالی کا یہ تبصرہ ہے ،’’ا س مضمون کے ذریعہ انہوں نے قاضی عبدالودود کا حقائق کی روشنی میں دفاع کیا ہے تاکہ قاری گیان چند جین کے اس مضمون سے گمراہ نہ ہو،اس مضمون کے حوالہ سے گیان چند جین اورقاضی عبدالودود کے درمیان جو مراسلت ہوئی تھی، ظفرکمالی نے علی وجہ البصیر ت اس کا جائزہ لیا اوراس کے مندرجات کو اپنی تشریحات وتوضیحات سے واشگاف کیا ہے،تمام اقتباسات کے محاکمہ کے بعد ظفر کمالی کی رائے ہے کہ گیان چند جین اپنی طالب علمی کے زمانہ میں ہوسٹل میں سورش کرانے پر نکالے گئے تھے،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہوسٹل کے بعد اب وہ ادب میں بھی سورش بریا کرنا چاہتے ہیں۔
پانچواں مقالہ قاضی عبدالودود کی خود نوشت سوانحی خاکہ پر ڈاکٹر محمد محسن کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالا ت کے تجزیئے اوردفاع پر مشتل ہے ،اس مقالہ میں ہندوستانی سیاست کے بعض تاریخی واقعات پر بھی ضمناً روشنی ڈالی گئی ہے ،ظفر کمالی نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے جناب امتیازعلی عرشی ،یوسف حسین خاں وغیرہ کی آراء بھی اپنی تائید میں نقل کیا ہے،بعض اعتراضات کو برحق بھی بتایا ہے ،مثلا ان کاحافظہ آخر عمر میں کمزور ہوگیا تھااور انہیں اپنے نانا کے نام کے بارے میں بھی ایک بار مغالطہ ہوگیا تھا،ظفر کمالی نے صحیح لکھا ہے کہ پروفیسر محسن نفسیات کے آدمی ہیں اور ان کو اس فن میں جو مہارت ہے وہ لائق عز وشرف ہے ،اس میدان میں ان کا مقابلہ قاضی عبدالودود اورکلیم الدین احمد نہیں کرسکتے ۔ٹھیک اسی طرح اردو ادب کے میدان میں قاضی اورکلیم صاحبان کا مقابلہ ان کی تحریر یں کبھی نہیں کرسکتیں،اردو ادب میں انکے مقابلہ میںسکہ تو انہیں دونوں حضرات کا چلا ہے اور چلتا رہے گا۔(ص۳۱)
چھٹے مقالہ میں ابوالبرکات کربلائی کی تصنیف’’ مثنوی قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کو موضوع تحریر بنایاگیا ہے اوراس کتاب کی خامیوں اورکمیوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ،اورلکھا ہے کہ’’ ابوالبرکات کربلائی نوآموز ہیں انہوں نے وہاب اشرفی کے نسخے پر اعتماد کیا حالانکہ اس میں الفاظ کی غلط قرأ ت بھی موجود ہے اورناموزوں اشعار بھی کم نہیں ہیں،ایسے نسخے کوبنیاد بناکر جب لکھنا تھا تو مزید احتیاط کی ضرورت تھی ،لیکن موصوف نے احتیاط کا دامن سرے سے پکڑا ہی نہیں‘‘
اس مقالہ میں ظفر کمالی نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ابوالبرکات کربلائی نے اپنی کتاب میں وہاب اشرفی کی عبارتیں من و عن بغیر حوالہ کے نقل کر لی ہیں،جسے سرقہ بھی کہا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ ان کی قلت مطالعہ اورتحقیقی شعور کا یہ حال ہے وہ نثری کتابوں کو شعری کتاب سمھ لیتے ہیں،اورغلط بنیادوں پر تحقیقی کام کو آگے بڑھاتے ہیں،ظفر کمالی نے اپنے مقالہ میں بہت سارے اقتباسات دے کرواضح کیا ہے کہ ’’یہ کتاب جس نیک مقصد کے تحت لکھی گئی تھی اس میں قطعی طور پرناکام ہے،یہ قارئین کو فیض یاب کم ،گمراہ زیادہ کرتی ہے ‘‘
ساتواں مقالہ مدرس ،تدریس اورتحقیق کے حوالہ سے ہے اس مقالہ میں درسیات کی بہت ساری کتابوں میں جو اغلاط ہیں ان کو کھول کر رکھ دیا ہے ،ظفر کمالی واضح کرتے ہیںکہ جن اصحاب کا انتخاب نصابی کتابوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے ،ان میں سے اکثر اس کام کے لیے ناموزوں اور غیر مناسب ہوتے ہیں،نصابی کتابوں میں شامل نظموں میںکتابت کی جو غلطیاں در آئی ہیں اس نے مصرعوں کو غیر موزوں اورمعنیٰ کی ترسیل کو دشوار تر بنادیا ہے،جب اساتذہ متن کی خواندگی صحیح نہ کرسکیں تو اوزان ،قافیہ ،ردیف کے بارے میںطلبہ کو بتانا کس قدر مشکل ہوگا،متن کی خواندگی پر اپنے ساتھ گزرا ایک واقعہ برجستہ یاد آگیا کہ بیر ون ملک ایک انڈین اسکول میں ایک صاحب نے میرے سامنے یہ شعر پڑھا
جانا نہ تھا جہاں مجھے سوبار واںگیا
ضعفِ ِقوی سے دست بدیوارواں گیا
میں نے پوچھا :حضوریہ ضعفِ ِقویٰ کیا چیز ہے ،کہنے لگے بہت کمزوری کے معنیٰ میں ہے ،صفت موصوف ہے اسی لیے تو شاعر دیوار پکڑ کر جارہا ہے ،اب استاذ بھی قُوٰا ور قَوی میں فر ق محسوس نہ کرے تو کار طفلاں تو تما م ہوگا ہی ،ظفر کمالی نے بجا لکھا ہے کہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اغلاط کی طرف بچوں کی رہنمائی کریں ،جو کتابوں میں درج ہوگئی ہیں ، اس کے لیے ضروری ہے کہ استاذ کسی درجہ میں محقق بھی ہو تبھی تو وہ بتا سکے گا کہ ’’نگارشات فارسی‘‘ محمد حسین آزاد کا سفر نامہ نہیں فارسی شعراء کا تذکرہ  ہے ،فرہنگ مصطلحات ٹھگی کو کوئی رشیدحسن خاں کی کتاب کہتا ہے تو استاذ کو جاننا چاہیے کہ اس کتاب کے مصنف علی الٰہ آبادی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ تحقیقی تبصرے کا یہ مضمون عوامی بھی ہے اور شوق دلانے والا بھی ،اس میں تحقیق ہے ،لیکن قاری کے سر کو بوجھل کرنے والا نہیں،اس لیے عام قارئین کے لیے بھی یہ مقالہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔
آٹھواں مقالہ ڈاکٹر محمد حسن کے ڈرامہ ضحاک کے ماخذ کے سلسلہ میں ہے ،ڈراما تو ڈراما ہی ہوتا ہے ،ضحاک معرو ف کردار ہے ،ڈاکٹر محمد حسن نے اس ڈرامہ میں جو مواد استعمال کیا ہے اس کا ماخذ کیا ہے یہ اس مقالہ کا موضوع ہے ،اس ڈرامہ میں بہت سی باتیں طبع زاد ہیں جوکتابوں میں نہیں ملتیں،بعض واقعات کے سلسلہ میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ اختر شیرانی کے کتاب کا سرقہ یا چربہ  ہے،یہ بات حقیقت  سے انتہائی دور ہے، ظفر کمالی نے اپنی تحقیق کے مطابق حتمی اورآخری بات یہ لکھی کہ ’’فردوسی کے شاہنامہ کے ابتدائی حصہ میں ضحاک کا جو قصہ بیان ہوا ہے وہ محمد حسن ضحاک کے قصے کی بنیاد ہے، تھوڑی تبدیلیوں کے باوجود اس سے بہت قریب ہے ،سرور سلطانی سے استفادہ کی بات جزوی طورپر ہی درست کہی جاسکتی ہے؛ لیکن یہ بات سوفیصد درست ہے کہ محمد حسن نے کسی سے کوئی سرقہ نہیں کیا ہے‘‘
نواں مقالہ بزم فرح ناٹک معرو ف بہ فرخ سبھا حافظ کی تحقیق پر مبنی ہے ، اس مقالہ میںظفر کمالی نے حافظ محمد عبداللہ کے اس ڈرامے پر تحقیقی روشنی ڈالی ہے اوران کے مختلف کرداروں کاتذکرہ کیا ہے ،اوراس کی تلخیص پیش کی ہے ،اس ذیل میں امانت اورحافظ کے ڈراموں سے درج اشعار پیش کرکے اس پر امانت کے اثرات کو بھی واضح کیا ہے ،اوراس ڈرامہ کی خامیوں پر بھی روشی ڈالی ہے ، اورحافظ کے اس قول کی تردید کی ہے کہ ’’فرق شاعری وبیان کے اعتبار سے پارسیوں کی فر خ سبھا ز میں ہے ،تویہ آسمان (ص ۲۰۷)
اس کتاب کا دسواں مقالہ’’ ڈرامہ اورا سٹیج ‘‘کے نام سے ہے ،اس مقالہ میں ڈارمہ کی حقیقت اوراسٹیج سے اس کے تعلق پر ظفر کمالی نے گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ڈرامہ اسٹیج کا فن نہیں ہے اوریہ بھی صحیح نہیں ہے کہ کاغذ کے صفحات پر ڈرامے کے الفاظ بے روح اور جامدنقوش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ڈرامہ اور اسٹیج دونوں الگ الگ چیز ہے ،بقول ظفر کمالی ’’حقیقت یہ ہے کہ دونوں بالکل علاحدہ علاحدہ  چیزیں ہیں،ان کا آپسی رشتہ ضرور ہے مگر گوشت اورناخن کا نہیں ،اسٹیج ڈرامے کا دست نگر اورمحتاج ہوسکتا ہے اور ہے ؛لیکن ڈرامہ اسٹیج کا نہیں (ص۲۱۳)
اس کتاب کا آخری مقالہ گلستاں کاباب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہے، اس مقالہ میں کبیر احمد جائیسی کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان خیالات کی تردید کی گئی ہے ،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس باب کی مشہور حکایتوں میں سعدی نے ایسے مطالب تحریر کیے ہیں کہ ہمارے دور میں ننگوں کا کلب قائم کرنے والے لوگ بھی اس طرح کے مطالب معرض تحریر میںنہیں لائیں گے ۔اس مقالہ میںظفر کمالی نے گلستان باب پنجم کی تما م کہانیوں کا جائزہ لے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں اس قسم کے ا انتہائی نازیبا کلمات کہے جائیں،انہوں نے لکھا ہے کہ
’’ شیخ سعدی اردو کے ترقی پسند وں سے کئی سوسال پہلے اپنے عہد کے سب سے بڑے ترقی پسند ادیب وشاعر تھے ،آج ہم انہیں ترقی پسندوں کا امام بھی کہہ سکتے ہیں،اس حیثیت سے اگر شیخ سعدی کا جائزہ لیاجائے تو تفہیم کی کئی راہیں روشن ہوں گی (ص ۲۴۰)
مختصر یہ کہ ظفر کمالی نے اپنے تبصروں میں جو تحقیق کے فن کو برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے،اس طرح محنت اورجانکاہی کے ساتھ لکھنے والے ختم تو نہیں، کم ہوتے جارہے ہیں ،یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف ادب اطفال کے حوالہ سے کیا گیا اور انہیںساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ،ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور صحت وعافیت کے ساتھ ان کی درازئی عمر کی دعا کرتے ہیں ،آمین یارب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...