Powered By Blogger

منگل, جنوری 03, 2023

متھلا کے انمول رتن تھے ڈاکٹر نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی

متھلا کے انمول  رتن تھے ڈاکٹر  نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی 
اردو دنیا نیوز٧٢
                   آج بتاریخ ۳/ جنوری  ۲۰۲۳ ء کو عظیم سیاسی رھنما ڈاکٹر  نیلامبر چودھری  جی کی ۸۹ ویں یوم ولادت کے موقعہ  پر ایک مخصوص  مجلس منعقد  کی گئی  جس میں دربھنگہ کے  متعدد اصحاب  علم ودانش شریک ہو کر موصوف  کی علمی سیاسی وسماجی کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے موصوف کی تصویر پر گل پوشی کرکے موصوف  کو خراج عقیدت ومحبت  پیش کرتے ہوئے ان کے کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے  ڈاکٹر عبدالودود قاسمی  نے کہا کہ  موصوف قانون ساز کونسل میں اپنے دور میں پورے متھلا میں تعلیمی مشعل کی لو کو تا حیات بڑھانے کے لئے متفکر اور کوشاں رہے جسے فراموش  نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شخصیت  میں سادگی وسنجید گی کے ساتھ موصوف  گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے اپنی سنجیدگی کی وجہ سے ہندو مسلمان سارے طبقات  میں یکساں مقبولیت تھی ۔واقعی میں موصوف  متھلا کے انمول رتن تھے۔ ڈاکٹر  محمد سرفراز عالم نے  کہا کہ ڈاکٹر ڈاکٹر نیلامبر بابو نے متھیلا یونیورسٹی کے قیام میں بھی  نہات اہم کردار ادا کیا، ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں پر آج بھی طلباء اور اساتذہ کے درمیان موضوع  سخن بنا ہوا ہے۔مقررین میں ڈاکٹر جمشید عالم،  ڈاکٹر غلام محمد انصاری، عامر سلفی، سہیل ظفر  صاحب، نائب صدر مسٹر رام ناتھ پنجیار، جوائنٹ سکریٹری شیلیندر کمار کشیپ، ترجمان روشن کمار جھا، مسٹر سنگھ، ایڈووکیٹ شاہد  اطہر، شامل تھے۔ جتیندر پٹیل، ایڈوکیٹ بلجیت جھا، پروفیسر مسز پریتی جھا، مسٹر وجے کمار جھا، سوربھ مشرا، ترون جھا، سمر جھا، اشوک جھا وغیرہ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
 ،
اردو دنیا نیوز٧٢
 متھلا کے عظیم سپوت جناب للت نارائن مشر جی کو ان کے یوم وفات کے موقع پر این،ایس،ایس،اکائی سی ایم،بی،کالج،ڈیوڑھی گھو گھر ڈیہا، مدھوبنی میں بڑی عقیدت ومحبت سے ان کی تصویر  پر کالج کے جملہ تدریسی وغیر تدریسی ملازمین نے گل پوشی کی اس کے بعدموجود طلباء وطالبات سے این، ایس،ایس کے پروگرام افیسر ڈاکٹرعبدالودودقاسمی اور ڈاکٹر  کرتن ساہو پرنسپل  کالج نے تفصیل سے للت بابو کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی خدمات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ"للت نارائن مشر" کی پیدائش 02 فروری 1923 کو سپول ضلع کے باسوپتی گاؤں (بلوا) میں ہوئی۔  طالب علمی کے زمانہ میں ہی سیاست میں آگئے، انہوں نے 1945-48 میں پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا اور 1950 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن بن گئے۔  1972 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن چن لئے گئے ،اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے پارلیمانی سکریٹری، منسٹری آف پلاننگ، لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ (1957-1960) وغیرہ کے طور پر کام کیا اور 1973 سے 1975 تک ہندوستان کے وزیر ریلوے کے طور پر خدمات انجام دیں۔  غیر ملکی تجارت کے وزیر کے طور پر، نیپال بھارت کے درمیان سیلاب کنٹرول اور کوسی اسکیم میں مغربی نہر کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ۔  انہوں نے ملک اور بیرون ملک متھلا پینٹنگ (مدھوبنی پینٹنگ) کی ساکھ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔  بطور ریلوے وزیر متھلانچل میں 36 ریل پروجیکٹوں کے سروے کی منظوری دی، جھنجھار پور-لوکہا ریلوے لائن بھپٹیاہی سے فاربس گنج ریلوے لائن وغیرہ۔  اپنی مادری زبان میتھلی کے فروغ کے موصوف تا عمر کوشاں  رہے ۔  3 جنوری 1975 کو سمستی پور بم دھماکے میں ان کی موت ہوگئی۔ ایشور ان کی ا تمام کو شانتی دے۔خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں  ڈاکٹر  کیپٹن ساہو،ڈاکٹر  اجے کمار،ڈاکٹر پریم سندر،ڈاکٹر  ہری شنکر رائے،ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری،ڈاکٹر  جیتیندر کمار،ڈاکٹر سجیت کمار،ڈاکٹر  بریندر کمار،ڈاکٹر  بھاگوت منڈل،ڈاکٹر اوپیندر کمار راوت،ڈاکٹر  آلو ک کمار،ڈاکٹر  رتن کماری  جھا،دلیپ کمار،سچیدانند،ودیانندمنڈل، کے نام شامل ہیں۔

سد بابمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

سد باب
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے کہ فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹوں کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہاہو۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراءاورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہےں؛ تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔ان آیات واحادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف فتنہ وفساد سے روکا ، بلکہ اس کے رونما ہونے کی جو شکلیں پائی جاتی ہیں، ان کی بے بضاعتی کا احساس دلا کر فتنہ وفساد کے دروازے بند کر دیے۔

پیر, جنوری 02, 2023

چارۂ کار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

چارۂ کار ___
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے چارہ کار کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے؛ جو آج ہر سطح پر ایمان والوں کے درمیان اٹھ رہا ہے، لوگ ان حالات کو خطرناک سمجھ رہے ہیں اور اسے ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا سے جوڑتے ہیں، عام لوگوں کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اب تک یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ اصل خطرہ حالات سے نہیں ہے، بلکہ ہماری بے حسی سے ہے، دین کے معاملے میں اب بھی ہمارے اندر تبدیلی نہیں پائی جا رہی ہے ، کاروبار دنیا حسب سابق جاری ہے اور سوائے خوف ودہشت کے ہمارے اعمال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، حالاں کہ حالات میں سدھار عمال وحکام کے بدلنے سے نہیں، اعمال کے بدلنے سے ہوگا ، انابت الی اللہ اور دین پر مضبوطی سے کاربند ہونا وہ نسخہ کیمیا ہے، جو احوال وکیفیات کے بدلنے میں ہر دور میں معاون ومددگار رہا ہے، دلوں کو بدلنے والی ذات اللہ کی ہے اور اس کی مرضی ہو تو سب کچھ منٹوں میں نہیں سکنڈوں میں بدل جائے گا، ضرورت اللہ کو راضی کرنے کی ہے اور اس کی خفگی والے کاموں سے بچنے کی ہے ۔
اپنے غیر مسلم بھائیوں تک فکری اور عملی طور پر اسلام کا پیغام پہونچانا بھی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ہمیں انہیں ہر سطح پر یہ باور کرانا ہوگا کہ ہمارے وجود سے اس ملک کی سر سبزی وشادابی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہم اس ملک کے لیے مفید رہے ہیں، اس ملک پر جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو یہ ملک اس دور کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کر رہاتھا ، عظیم ہندوستان کا جو تصور آج پایا جاتا ہے اس کی داغ بیل مغلیہ دور حکومت میں پڑی تھی ، انگریزوں نے جتنے بڑے ہندوستان پر جبرا قبضہ کر لیا تھا ، اتنا بڑا ہندوستان تو آج بھی نہیں ہے، آزاد ہندوستان، پورا پورا ہندوستان باقی نہیں رہا ، اس ملک کی جتنی تاریخی عمارتیں ہیں، جن پر ہندوستان ناز کرتا ہے اور جو پوری دنیا میں ہندوستان کی شناخت اور پہچان کا سبب ہیں، وہ سب مسلمانوں کی دین ہیں، تاریخ کو دیومالائی روایت سے تبدیل نہیں کیا جا ئے اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ہر پڑھا لکھا آدمی اس کی تائید پر خود کو مجبور پائے گا۔
ہمیں انسانی بنیادوں پر خدمت خلق کے کام کو مزید آگے بڑھانا چاہیے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ خدمت خلق سے دل پر اور تعلیم سے دماغ پر قبضہ ہوتا ہے، موجودہ عدم رواداری کے ماحول میں اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہم انسانی بنیادوں پر خدمت کرکے نفرت کے اس ماحول کو بدل سکتے ہیں، یہ ہمارے لیے اور ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، یقینا مقابلہ جن لوگوں سے ہے وہ سخت دل ، جابر وظالم اور انسانیت کے احترام سے عاری لوگ ہیں، لیکن جب پتھر پر مستقل پانی پڑتا رہے تو وہ گھس جاتا ہے اور کبھی پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے توبھلا حسن اخلاق اور اچھے کردار سے ان کے دلوں پر دیا جانے والا دستک رائیگاں کیسے جا سکتا ہے۔اللہ رب العزت نے پتھر کی صفت بیان کی ہے کہ بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں۔ (البقرة : ۴۷) اس لیے ان سخت دل لوگوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ان پر دعوتی محنتیں جاری رہنی چاہیے، اس دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے حسن اخلاق کی بھی ضرورت ہے۔
برادران وطن کے ذہن کو جس چیز نے سب سے زیادہ خراب کیا ہے ، وہ فرقہ پرست طاقتوں کا یہ پروپیگنڈہ ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں، اور ہمیشہ ان کو نقصان پہونچانا چاہتے ہیں، یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو سچ معلوم ہونے لگا، حالانکہ ہم تو تمام انسانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مانتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ہم اس دعوت پر لبیک کہہ کر قبول کرنے والے لوگ ہیں، جب کہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کے لوگ امت دعوت ہیں، یعنی ان تک اسلام کا پیغام، دین کی دعوت پہونچانا، ہماری ذمہ داری ہے ، دونوں جب ایک نبی کی امت ہیں تو اس میں نفرت کا گذرہوہی نہیں سکتا،کیوں کہ ہم کسی سے نفرت کرکے اس تک دین کی دعوت پہونچا نہیں سکتے ، دعوت کا یہ کام محبت کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے، اور اس جذبہ اور سوچ کے ساتھ ہی ممکن ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں، اس کے لیے تو محبت ہی محبت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

اتوار, جنوری 01, 2023

جنسی بے راہ روی کو تحفظمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جنسی بے راہ روی کو تحفظ
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
کیرالہ کے اکتالیس سالہ تاجر جو سف شائنی (جو ان دنوں اٹلی میں قیام پذیرہے) نے دسمبر۲۰۱۷ء میں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں مفاد عامہ کے حوالہ سے ایک عرضی داخل کیا تھا ، جس میں دفعہ ۴۹۷ کو صنفی بنیاد پر تفریق قرار دے کر رد کرنے کی مانگ کی تھی ، اس دفعہ کی رو سے شادی شدہ مرد اگر کسی دوسرے کی بیوی سے اس کے شوہر کی رضا مندی سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا ہے ، البتہ بلا اجازت اگرکسی نے جنسی تعلق قائم کیا تو یہ جرم کے دائرے میں آتا تھا اور زنا کا ر مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی تھی ، ایسے معاملات میں اس دفعہ کی رو سے عورت کو متاثرہ مان کر چھوڑ دیا جاتا تھا ، اس پر کوئی داروگیر نہیں کی جاتی، اسی طرح اگر زنا کار کی بیوی نے اس مسئلہ پر خود کشی کر لیا تو اس شکل میں بھی شوہر خود کشی پر ابھارنے والا قرار دے کر مجرم گردانا جاتا تھا ، اس بنیاد پر طلاق کے لیے مقدمہ بھی قائم کیاجا سکتاتھا اور یہ تفریق کی بنیاد ہو سکتی تھی ۔
 یہ قانون ایک سو انٹھاون سال پرانا تھا، ۱۸۳۷ء میں تھا مس بائیگٹن میکالے (لارڈ میکالے) نے تعزیرات ہند کے پہلے مسودے میں اسے شامل نہیں کیا تھا، لیکن ۱۸۴۷ ء میں قانون ساز کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ زنا کاری کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دینا قطعا مناسب نہیں ہے ، لیکن اس بار بھی یہ دفعہ داخل نہیں کی جا سکی، البتہ ۱۸۶۰ء میں اسے آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ کے طور پر لاگو کیا گیا ، تب سے یہ قانون ہندوستان میں نافذ تھا، اس درمیان اس قسم کی عرضیاں ۱۹۵۴، ۱۹۸۵ئ، ۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۱ء میں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں؛ لیکن عدالت نے اسے صنفی بنیاد پر تفریق والا نہیں مانا تھا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندر چوڑ (جو ہندوستان کے چیف جسٹس بھی رہے) نے تیس سال پہلے اس قانون کو باقی رکھا تھا ۔
 ان دنوںہندوستان میں مغربی افکار واقدار کو اپنانے ، قبول کرنے اور اسے عدالت سے منظور کرانے کی جو منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں اس دفعہ کو نکال باہر کیا گیا ، چیف جسٹس دیپک مشرا کی سر براہی میں جسٹس اے ایم کھانو لکر، جسٹس آر اف نریمن، جسٹس ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی پانچ رکنی بینچ نے ۲۰۱۸ء میں نہ صرف آئی پی سی کی دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دیا ، بلکہ سی آر سی کی دفعہ ۱۹۸ کے ایک حصہ کو بھی منسوخ کر دیا، فیصلے الگ الگ سنائے گئے ، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے ، اسے دوسرے سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار ہے ، البتہ اگر شوہر کو اعتراض ہو تو وہ طلاق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ، جسٹس نریمن کی رائے تھی کہ شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا ، جسٹس چند ر چوڑ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ دفعہ عورت کو اس کی خواہش اور پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اس لیے غیر آئینی ہے ۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت کے جسم پر صرف اس کا حق ہے ، وہ شوہر کی جاگیر نہیں ہے ، شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی جنسی خواہش شوہر کو سونپ دے ۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنا کی وجہ سے شادی خراب نہیں ہوتی ، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے عورتیں غیر مرد کی طرف راغب ہوتی ہیں، ایسے میں اسے جرم مان کر سزا دینے کا مطلب ہے کہ دکھی لوگوں کے دکھ میں مزیداضافہ کیا جائے۔جوسف شائنی کی عرضی پینتالیس صفحات کی تھی ، عدالت عظمیٰ کے معزز حج صاحبان نے الگ الگ چار فیصلوں کے لیے ۲۴۳ صفحات کا لے کیے، اس معاملہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا تھا ، اس میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ اور سی پی سی کی دفعہ (۲) ۱۹۸ کو ختم کرنے کا سیدھا اثر ہندوستانی تہذیب وثقافت پر پڑے گا، چوں کہ یہ دفعات شادی کو مقدس رشتے کے طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
لیکن عدالت نے کسی کی نہیں سنی ، اور شائنی کی عرضی میں جو دلائل دیے گیے تھے اس کو مان کر میاں بیوی کو بے لگام جنسی تعلق بالفاظ دیگر قانون اور عدالتی جواز فراہم کر دیا ہے ، لطیفہ یہ ہے کہ جائز چار شادیوں پر یہاں واویلا مچایا جا تا ہے اورنا جائز رشتوں کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے ، یہاں بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کا جنسی تعلق قائم کرنا زنا کے زمرے میں آتا ہے ، بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے اور اٹھارہ ، اکیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی پر سزا دی جا سکتی ہے ، لیکن لیو ان ریلیشن شپ چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو، کی اجازت ہے ، یہ عدالت ہی کے مختلف فیصلے ہیں ، جس کی تلخیص یہاں ذکر کی گئی ہے ، ان فیصلوں کے نتیجے میں خاندانی نظام بر باد ہو رہا ہے ، اور جس طرح مغرب میں بن باپ کے بچوں کی باڑ ھ سی آئی ہوئی ہے اور باپ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کاغذات میں ماں کے نام درج کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، اس کی شروعات یہاں بھی ہو گئی ہے ،مستقبل کے ہندوستان میں حرام جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا، ایسے میں یا تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے یا آوارہ اوباش ، ناکندہ تراش ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی ، جس سے سارا سماج پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
معزز جج صاحبان نے اس فیصلہ میں ان ملکوں کا بھی حوالہ دیا ، جہاں اس قسم کے تعلق کو جرم نہیں مانا جاتا ، پتہ نہیں کیوں ہمارے جج صاحبان کو وہی ملک نظر آتے ہیں جہاں اس قسم کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکتوں کو قانونی جواز فراہم ہے ، دنیا کے بہت سارے ملک وہ بھی تو ہیں ، جہاں اس قسم کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، امریکہ کو ہی لے لیجئے ، یہاں کی اکیس ریاست میں یہ عمل غیر قانونی ہے ، اور مجرم کو عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے ، فلپاین میں چار مہینے سے لے کر چھ سال کی سزا بیاہی عورت کے دوسرے مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی دی جاتی ہے ، ایران میں ایسی عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ، سعودی عرب میں رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے عدالت نے طلاق کے مسئلے پر بھی ملکوں کا حوالہ دیا تھا تو کیا اس طرح غیر ملکی حوالہ دے کر جسم فروشی کو بھی یہاں قانونی جواز ملے گا، وہاں بھی تو عورت اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہ ایک پیشہ کے طور پر رائج ہے، ہمارے ہندوستان میں اب طوائفوں کو سیکس ورکر کہا جانے لگا ہے ، اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہی انداز رہا تو سارے کوٹھے کی گندگی گاؤں اور محلوں تک آجائے گی جو اب بھی تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت جرم ہونے کے باوجود کم نہیں ہے ۔

ہفتہ, دسمبر 31, 2022

دریچہ ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دریچہ  ___
اردو دنیانیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
صارفیت ، مصروفیت اور مشغولیات کے اس دور میں وقت کی کمی کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے ، اب لوگوں کے پاس داستان، ناول اور طویل افسانے پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے ، اس لیے داستان ناول، لکھنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے ، افسانہ مختصر کہانی کے طور پر ہی لکھا جاتا تھا اور وہ زندگی کے کسی ایک واقعہ؛ بلکہ کبھی واقعہ کے کسی ایک جز کو موضوع بنا کر لکھا جاتا تھا، پھر دھیرے دھیرے سعادت حسن منٹو نے مختصر ترین کہانی لکھنی شروع کی اور اسے ”سیاہ حاشیہ“ کے نام سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، منٹو کے اسلوب، سماج پر طنز اور تقسیم ہند کے پس منظر میں یہ 
کہا نیاں مقبول ہوئیں، افسانے کے اجزاءترکیبی کی وجہ سے یہ افسانہ ہی رہا، لیکن مختصر ترین ہونے کی وجہ سے” نون اور ہے کے درمیان ایک ”چ“ کا اضافہ کرکے اہل ادب نے اصناف ادب میں اسے ”افسانچہ“ کے عنوان سے متعارف کرایا، احمد رضا ہاشمی نے بجا طور پر اسے ”لمحاتی احساس کو لفظوں سے سجانے“ سے تعبیر کیا ہے۔افسانچوں میں پلاٹ ، کردار، مکالمہ ، ماحول اور مخالف ماحول پیدا کرنے سے زیادہ اس کے اختتامیہ پر پوری توجہ مرکز کرنی ہوتی ہے، جسے پنچ لائن کہتے ہیں، لطیفوں میں بھی یہی کچھ ہوا کرتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ لطیفوں کا اختتامیہ ایسے جملوں پر ہوتا ہے ، جس سے آپ کے ہونٹوں پر ہنسی کھیلنے لگتی ہے اور افسانچہ کی آخری سطر کو پڑھ کر آپ کو ہنسنے پر نہیں کچھ سوچنے اور اخلاقی اقدار کے زوال پر ماتم کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے، اسے ایک مثال سے سمجھئے۔ بہت پہلے ایک افسانچہ پڑھا تھا کہ” دو گدھ نے ایک مردار کو دیکھا، ایک نے دوسرے سے کہا ؛ چلو دوسروں کو خبر کرتے ہیں، سب مل بانٹ کر کھائیں گے، دوسرے نے کہا اس کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ہی اسے نوش کریں گے، دوسرے گدھ کا یہ جواب سن کر پہلے نے کہا یار! لگتاہے تو بھی انسان ہو گیا“ سعادت حسن منٹو کا ایک مشہور افسانچہ ان کی کتاب سیاہ حاشیے میں شامل ہے کہ ”آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا، صرف ایک دوکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے“۔
منٹو کے بعد ایک طویل فہرست افسانچہ نگاروں کی ہے، جن میں خواجہ احمد عباس، جوگندر یال، رتن سنگھ، رام لال، الیاس احمد گدی، شین مظفر پوری، عطیہ پروین، فاروق ارگلی،بشیشر پردیپ، افتخار ایلی، مناظر عاشق ہرگانوی، رضوان احمد، خسرو متین، انجم عثمانی، سید احمد قادری ، بانو سرتاج، نینا جوگن، نوشاد عالم آزاد، سو شو بھن سین گپتا وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں، ان حضرات کے افسانچوں کی فہرست طویل نہیں ہے، لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 افسانچوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک افسانے میں کئی کئی افسانچے ہوتے ہیں، آپ افسانے سے پیراگراف کاٹ کر لکھ دیجئے اور اختتامیہ کے جملے جاندار ہوں تو وہ افسانچہ بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم ارکان کی رعایت کے ساتھ نثری تحریروں میں سے الگ الگ جملوں کو لکھتے ہیں تو وہ نثری شاعری یا آزاد شاعری کے نام سے نئی چیز ہمارے سامنے ہوتی ہے، افسانچے نے جب افسانے سے الگ اپنی پہچان بنالی توپہلے سو الفاظ کے افسانے لکھے گیے، پھر پچاس الفاظ کے اور اب احمد بن نذر پچیس الفاظ پر مشتمل افسانچے لکھ رہے ہیں جو 
بر صغیر میں کافی مقبول ہیں، وہ بڑی تیزی سے افسانچوں کی تخلیق کر رہے ہیں، اور بڑی حد تک کامیاب ہیں۔
 ہمارے عہد میں ایک دوسرا بڑا نام افسانچوں کے حوالہ سے احمد رضا ہاشمی کا ہے ، بنیادی طور پر ان کی پیشہ وارانہ وابستگی ہندی صحافت سے ہے، دوردرشن پر ہندی کے ساتھ اردو کی بھی خبریں پیش کرتے ہیں، ماس کمیونیکیشن پٹنہ اور کالج آف کامرس میں بھی خدمات انجام دی ہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں مشغولیت کی وجہ سے بہت ساری تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا ہے، قابل ذکر یہ بات بھی ہے کہ ریاستی سطح کے مقابلے میں مختصر کہانی نویسی کا پہلا انعام بھی انہیں مل چکا ہے، ”ایساکیوں“ کے نام سے ہندی میں ان کے پچھہتر(75) افسانچوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے، اور اب یہ اردو کے قالب میں ہمارے سامنے ہے، ہم ان کو پڑھ کر سماج کے گھنونے احساس، ٹوٹتی قدریں اور مادیت کے دور میں منتشر ہوتے رشتوں کی باز گشت سن رہے ہیں اور ان کا اختتامیہ ہمیں سوچنے اور حالات کی سنگینی کو محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے، ان افسانچوں کے خیالات ہمارے گرد وپیش اور روز مرہ کی زندگی سے ماخوذ ہیں، بعض افسانچے خالصا اسلامی افکار وخیالات سے مستعار ہیں، جس کو افسانچہ نگار نے اپنے خاص اسلوب میں ہم تک منتقل کر دیا ہے، خصوصا ماں سے متعلق جو افسانچے ہیں اور اس کتاب کا نام جس افسانچہ سے لیا گیا ہے دریچہ، اس میں بھی انسانی اقدار کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔
اس مجموعہ کے سارے افسانچے تاثر کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں، بعضوں کا اختتامیہ اتنے سادے طور پر ہو گیا ہے کہ ہمارے ذہن میں کوئی خاص تاثر نہیں ابھرتا، یہ صحیح ہے کہ ہیئت اور فورم سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ پیغام کیا دیا جا رہا ہے ، البتہ جس ہیئت میں ہم پیغام دینا چاہتے ہیں ان کے خصائص اور مسلمات کی رعایت بھی ضروری ہے ، ورنہ افسانہ ، افسانچہ سیدھا اور سپاٹ ہو جاتا ہے، یا بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھر دُرا ، مثال کے طور پر بدلاؤ کے اختتامیہ کو دیکھا جا سکتا ہے ، کاش میرے والد زندہ ہوتے تو میں ان کی انگلی پکڑ کر چلنے میں خوش قسمت سمجھتا، بات سچی ہے، لیکن سپاٹ ہے،اسی طرح لگھوکتھا کا اختتامیہ بھی قاری پر کوئی خاص اثر نہیں چھوڑتا، بھیا جی ! اب تو میں آپ کی لگھو کتھا ہر دن سنوں گی، اپنی بستی میں لوگوں کو سناؤں گی، پڑھنا کوئی نہیں جانتا ، پر سندیس سب کو پسند ہے ، میرے بابا اور بٹیا بھی سنیں گے“۔
میں دریچہ کے سارے افسانے کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ رہا ، بلکہ بعض کے بارے میں یہ بات لکھی ہے اور میں نے شعوری اور احترازی طور پر اس کے لیے بعض لفظ کا استعمال کیا ہے،اسی طرح بعض کہانیوں کا اختتامیہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور اس سے غلط پیغام لوگوں تک پہونچے گا، مثال کے طور پر ”عبدل“ کو دیکھا جا سکتا ہے، اس افسانچہ کو اختتام تک پہونچاتے وقت احمد رضا ہاشمی کے دماغ میں شاید ندا فاضلی کا یہ شعر گردش کر رہا تھا، جو اختتامیہ میں سما گیا، ندا فاضلی کے اس شعر سے میں اتفاق نہیں کر سکا، لکھتے ہیں:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
 کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
یہ میرا اپنا احساس ہے، اس موقع سے میں اساطین ادب کے ان خیالات کو بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو اس کتاب کی مشمولات کا حصہ ہیں، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ناول نگار ڈاکٹر عبد الصمد لکھتے ہیں:
” جب ایک ساتھ میرے سامنے ان کے کئی مختصر افسانے آئے تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں ان کے افسانوں کو افسانچہ کے زمرے میں نہیں رکھ سکتا، ان کے افسانے مختصر ضرور ہیں، بلکہ بعض مختصر ترین ہیں، پھر بھی افسانے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں اور افسانہ نگار ان کے ذریعہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کی ترسیل کامیابی کے ساتھ ہوجاتی ہے“۔
یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے تعاون سے چھپی ہے، ایک سو ساٹھ صفحات کی قیمت دو سو روپے رکھی گئی ہے، سستی کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے، نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز کے تحت یہ قیمت زیادہ بھی رکھی جا سکتی تھی، ملنے کا پتہ ایک ہی القلم پبلک اسکول لوہروا گھاٹ عالم گنج پٹنہ 7ہے، انتساب والدین کے نام احمد رضا ہاشمی کی سعادت مندی اور قدردانی کی دلیل ہے، انتساب میں دعائیہ جملے آخرت کے اعتبار سے بھی مفید ہیں، اصل کتاب شروع کرنے سے قبل مصنف کا ابتدائیہ” میرے قلم سے“ ،”چھپی ہوئی چنگاری “ڈاکٹر عبد الصمد ،” دیباچے سے“ ڈاکٹر ریحان غنی، ”دریچہ زندگی کا“ جناب سر فراز عالم اور” من کا دریچہ“ جناب انظار احمد صادق کی تحریریں ان افسانچوں کو سمجھنے اور کتاب کی قدر وقیمت کو واشگاف کرنے میں معاون ہیں، یہ تحریریں نہ بھی ہوتیں تو مشک آنست کہ خود بیوید نہ کی عطار گوید کے مثل اس کتاب کی کہانیاں قاری کے دل ودماغ کو ان مسائل کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتیں، ان حضرات کی تحسین وتعریف کے کلمات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ کیا ہے۔

جمعہ, دسمبر 30, 2022

احمد علی برقی اعظمی ____

احمد علی برقی اعظمی ____
اردودنیانیوز٧٢
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو اور فارسی کے مشہورفی البدیہ شاعر، آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی شعبہ فارسی کے سابق سر براہ، غالب اکیڈمی کی گورننگ کونسل کے رکن ڈاکٹر احمد علی برقی کا حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ان کی سسرال جون پور یوپی میں انتقال ہو گیا ، وہ چند روز قبل ہی اعظم گڈھ سے جونپور گیے تھے، سوموار 4 دسمبر 2022ء صبح ا نہیں گھبراہٹ محسوس ہوئی، اسپتال میں بھرتی کرایا گیا، لیکن 5 بجے صبح 5 دسمبر کو جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا، جنازہ ان کے وطن کوٹ اعظم گڈھ لے جایا گیا اور اسی دن بعد نماز عشاءمقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔پس ماندگان میں اہلیہ شہناز بانو ایک لڑکا فراز عالم اور تین بیٹیاں رخشندہ پروین، نازیہ اور سعدیہ پروین کو چھوڑا۔
 احمد علی برقی اعظمی کی زندگی کا سفر 25 دسمبر1954 ءکو ان کے والد مشہور شاعر رحمت علی برق اعظمی کے گھر واقع محلہ باز بہادراعظم گڈھ سے شروع ہوا، درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پٹیلو محلہ آصف گنج شہر اعظم گڈھ سے حاصل کی، 1969ءمیں شبلی ہائر سکنڈری اسکول سے دسویں پاس کرنے کے بعد شبلی نیشنل کالج اعظم گڈھ سے 1971ءمیں انٹر ، 1973ءمیں بی اے اور 1975ءمیں ایم اے اردو نیز 1976ءمیں یہیں سے بی ایڈ کیا، 1979ءمیں جواہر لال نہرو یونیورسیٹی سے ایم اے فارسی اور 1996ءمیں وہیں سے پی ایچ ڈی کیا، ایران کلچر ہاؤس سے ملازمت شروع، جلد ہی وہ 1984ءمیں آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہوگے اور اپنی زبان دانی ، علمی رکھ رکھاؤ اور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے شعبہ کی سر براہی کے منصب تک پہونچے، 31دسمبر 2014ءکو ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی آکاش وانی والے جز وقتی طور پر آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ، ان کی شاعری کے دو مجموعے روح سخن اور محشر خیال علی الترتیب 2013ء اور 2019ءمیں اشاعت پذیر ہوئے۔
 اردو میں موضوعاتی شاعری اسلامی تناظر میں ابو الاثرحفیظ جالندھری نے شروع کیا تھا، جس کا مجموعہ شاہنامہ اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے ، ہمارے عہد میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی دربھنگہ اس فن کے امام ہیں، دوسرا بڑا نام احمد علی برقی اعظمی کا تھا جو ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیے،ا نہوں نے غالبا آخری نظم پروفیسر معراج الحق برق کے انتقال پر2دسمبر 2022ءکو کہی تھی ، جو ان کی علالت کی وجہ سے اخبارات کی زینت نہیں بن سکی، ان کی خدمات کے اعتراف میں دہلی اردو اکادمی نے انہیں اعزاز دیا ، اردو گلڈ جموں کشمیر نے 2014ءمیں فخر اردو ایوارڈ اور اکرم میموریل پبلک سوسائٹی نجیب آباد بجنور نے محمد علی جوہر ایوارڈ سے بھی نوازا تھا، ڈاکٹر احمد علی برق کی شخصیت پرت در پرت تھی وہ ایک بار میں کسی پر خود کو منکشف نہیں کر تے تھے آپ جتنے دن ان کے ساتھ رہتے ہر دن ان کی ایک نئی خصوصیت کا افشا آپ پر ہوتا ، وہ اردو فارسی کے ساتھ انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے؛ لیکن مزاج میں تعلی اور علم وفن کا پندار وغرور نہیں تھا، اس لیے جھیلانے والوں کو بھی برت لیتے تھے، تعصب وتنگ نظری سے کوسوں دور تھے، معاندانہ جذبات ان کو چھو کر نہیں گذر تے تھے اور چھل کپٹ ان کو آتی نہیں تھی، وہ احباب ورفقاءکے سخت جملوں اور طنز وتعریض سے بھری گفتگو کو بھی اچھا رخ دینا جانتے تھے، اس لیے ان کو کسی سے نہ کوئی گلہ تھا اور نہ شکوہ ، برقی اعظمی نے بہت لکھا اور بہت سارے موضوعات مثلاً سائنس ، طب، حالات حاضرہ ، آفات ارضی وسماوی، گلوبل وارمنگ ، سونامی اور زلزلے وغیرہ پرشاعری کی ، بڑی بات یہ ہے کہ ان کی زود نویسی نے ان کے فن کو نقصان نہیں پہونچایا، ان کی شاعری پر شمیم ریاض نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ڈاکٹر برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، جدت اور ہمہ گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے، برق رفتاری سے شاعری کے باوجود ان کا شعر فنی سقم سے بالکل منزہ ہوتا ہے، ان کے تخیل کی پرواز نے ان کی شاعری کو آفاقی بنا دیا ہے“۔( مطبوعہ انقلاب ۱۱ دسمبر 2022ء)
 گذشتہ چند دہائیوں مین انٹر نیٹ ہر کس وناکس اور ہر مہہ وکہہ تک پہونچ گئی،اس سے اطلاعاتی انقلاب آیا، برقی اعظمی نے انٹرنیٹ کے ذریعہ پروگرام کی رپورٹنگ اور اپنی شاعری وتحریروں کو جس تیزی کے ساتھ لوگوں تک پہونچانے کا کام کیا وہ اپنی نظیر آپ ہے، ان کے پوسٹ کی تفصیلات بھی شاعری میں ہی ہوا کرتی تھی، لوگ اس سے کافی محظوظ ہوا کرتے تھے۔
موضوعاتی شاعری کے بعد انہوں نے اردو غزل کی طرف اپنی توجہات مرکوز کیں اور غزل مسلسل کو عروج بخشا، انہوںنے شعراءوادباءکی کتابوں پر فی البدیہہ تبصرہ لکھا اور جب کسی کے مرنے کی خبر آئی ، ان کا ذہن مرثیہ گوئی اور خراج عقیدت میں لگ گیا، وہ بر جستہ اور فی البدیہہ شاعری میں مہارت رکھتے تھے، اور اس حوالہ سے ان کا نام اور کام انتہائی ممتاز ہے۔
ایسے با کمال انسان کا رخصت ہوجانا ایک بڑا نقصان ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل ۔ آمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...