Powered By Blogger

بدھ, جنوری 04, 2023

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ۔ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ۔ 
اردو دنیا نیوز٧٢
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی 
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
اس خدا کے لیے حمد ہے جس نے اسلام کو غالب رکھا جس نے اپنے نبی ﷺ  کو غلبہ دیا جس نے اپنے پسندیدہ دین کا  ہمیں پابند بنایا جس نے اپنی مہربانیوں سے ہمیں پالا پوسا جس نے جسم و جان کے ساتھ ہمیں ایمان بھی دیا جس نے ہمیں حدیث کے ساتھ قرآن بھی دیا اے  سب کچھ دینے والے اے ہر ایک کے کام آنے والے اے پروا پچھوا چلانے والے اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے نیست کوہست کرنے والے اے دکھ درد کے دور کرنے والے اے ناامیدوں کو کامیاب کرنے والے اے درد مند دل کی سننے والے اے سارے جہاں کے پالنے والے اے بگڑی کے بنانے والے اے بیماری کے بعد تندرستی عطا کرنے والے اے ہمیں راحت و آرام پہنچانے والے اے ہماری نمک حرامیوں کو دیکھتے ہوئے ہماری روزیاں جاری رکھنے والے اے رحیم و غفور اے  مالک و شکور تو سچا تیرا رسول سچا  تیرا کلام سچا 
روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بناکر اور روۓ زمین کے پانیوں کی روشنائی  گھول کر بھی اگر رب العالمین معبودِ برحق کی حمدوثنا لکھی جائے تو قلمیں گھس جائیں گی سیاہیاں ختم ہو جائیں گی لیکن رب کے پیارے اور نہ ختم ہونے والے اوصاف کبھی ختم نہ ہوں گے دنیا کی عمر کے برابر بھی اگر کوئی شخص خدا کی ان گنت اور بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہے تو ناممکن ہر ہر سانس پر رب کی تسبیح وتکبیر پڑھتا ر ہے مگر اس کی پاکیزگی اور بڑائی کے مقابلہ میں پھر بھی کچھ نہیں ہواؤں میں اڑنے والے پرند سوراخوں میں رہنے والے جانور گردن جھکائے چلنے والے چوپا ۓ زمین پر رینگنے والے کیڑے گھنے جنگلوں میں بادشاہت کرنے والے درندے سربفلک پہاڑوں کی چوٹیاں بچھی ہوئی اور پھیلی ہوئی زمین روانی سے بہتے ہوئے دریا موجیں مارنے والے سمندر خاموش درخت با ادب فرشتے ناری اور ترابی مخلوق زناٹے بھرتی ہوئی طاقت دار ہوا اونچا اور جھکا ہوا آسمان  چمکتے ہوئے ستارے اور سورج چاند کائنات کا ایک ایک ذرہ جس کی تعریفوں کے بیان میں مشغول ہے وہ ذات اقدس الہ العالمین اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی ہے سب اسی  کے محتاج اور وہ سب سے بے نیاز سب اس کا دیا کھانے والے اور اس کا ہاتھ تکنے والے کسی ایک کو نتھنا پھڑ کانے کی ایک سانس لینے کی بلکہ منہ پر سے مکھی اڑانے کی طاقت بھی نہیں اس کی عظمت کے سامنے سب دبکے ہوئے اس کے دبدبے کے سامنے سب دست بستہ کونسا دل ہے جس کی اس کی ذات  سے امیدیں بندھی ہوئی نہ ہوں کونسا دل ہے جو اس کے خوف سے خالی ہو سب کا مالک سب کا رازق وہی عزت و ذلت کا دھنی امیری غریبی پر قادر سارے ملک کا تنہا مالک مارنے اور جلانے والا تندرست اور بیمار کرنے والا بھوک کے وقت نرم و گرم غذا دینے والا پیاس کے وقت سرد و خنک پانی دینے والا سوتے ہوؤں کی حفاظت کرنے والا وہی ہے جس کا علم محیطِ کل  جس کی قدرت ہر چھوٹے بڑے پر جس کی سمع و بصر ادراک سے دور جو پانی کو پتھر کر دینے پر جو آگ کو باغ کر دینے پر جو دشمن کو دوست کر دینے پر جو رحمت کو زحمت کر دینے پر قادر ہے وہ وہی ہے جس کی سلطنت آسمان و زمین پر ہے جس کا حکم ہر شئے پر ہے جس کا کوئی ارادہ مراد سے جدا نہیں جس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں جس کا کوئی فرمان بدلتا نہیں جس کا نہ کوئی وزیر ہے نہ مشیر جس کا نہ کوئی ضد ہے جس کا نہ کوئی شریک نہ ساجھی  جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ جس کی نہ قوم نہ برادری جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا پھولوں میں خوشبو اس کی دی ہوئی منظروں میں دلفریبی اس کی رکھی ہوئی چہروں میں خوبصورتی اس کی پیدا کی ہوئی میاں بیوی میں اولاد اور ماں باپ میں محبت اس کی عطا فرمائی ہوئی پھلوں میں ذائقہ اس کا دیا ہوا پتیوں میں رنگ اس کا بھرا ہوا دریاؤں میں روانی اس نے دی سورج چاند میں روشنی اس نے دی زبان کو بولنے کی آنکھوں کو دیکھنے کی کانوں کو سننے کی دل کو سمجھنے کی ہاتھوں کو پکڑنے کی پاؤں کو چلنے کی معدے کو ہضم کرنے کی طاقت اسی نے دی ہے وہ بے شمار نعمتیں ہمیں دے چکا لیکن اس کے خزانے ویسے ہی بھرپور ہیں جیسے ان نعمتوں کے دینے سے پہلے تھے ہم ان گنت نعمتیں اس سے لے چکے  لیکن ہماری محتاجی ویسی ہی ہے جیسی ان نعمتوں کے ملنے سے پہلے تھی نہ کبھی اس کی بے نیازی ختم ہو نہ کبھی ہماری محتاجی ختم ہو سب کی سننے والا گنہگاروں پر بھی شفقت رکھنے والا کسی کو اپنے در سے محروم نہ پھیرنے والا گرے پڑوں کو سہارا دینے والا ضعیفوں اور عاجزوں کی فریاد رسی کرنے والا مصیبتوں میں کام آنے والا بے موسم پھل دینے والا بڑھاپے میں اولاد دینے والا مردوں کو زندہ کر دینے والا دور و نزدیک کی سننے والا وہی ہے وہ کون ہے جو تم پر تم سے زیادہ مہربان ہے وہ کون ہے جس نے ماں کے پیٹ میں تمہاری پرورش کی وہ کون ہے جس نے دنیا میں آنے سے پہلے تمہاری خوراک ماں کے سینے میں جمع کر دی وہ کون ہے جس نے آنکھ ناک کان اور زبان تمہیں دی وہ کون ہے جو تمہیں کھلاتا پلاتا ہے سلاتا جگاتا ہے بیوی بچے دوست احباب کس نے دئیے آسمان سے پانی اتارنا زمین سے اناج ا گانا کس کے ہاتھ ہے اسی کے جس کا عرش آسمانوں پر ہے جس کا حکم ہر جگہ ہے جس کی سلطنت چپے چپے پر ہے اسی کا نام اللہ وہی رحمن ہے وہی رحیم ہے وہی رب العالمین ہے وہی عبادتوں کے لائق ہے بہت سے کام ہیں جو عام لوگوں پر مشکل ہوتے ہیں بہت سے کام ہیں جو خواص کے بس کے بھی نہیں ہوتے لیکن ایسا کوئی کام نہیں جو خدا پر مشکل ہو جو اس کے بس کا نہ ہو چھ دن میں آسمان و زمین اور کل کائنات رچادی پھر بھی نہ تھکا نہ سستایا پھر قادر ہے کہ جب چاہے انہیں فنا کر دے اور پھر قادر ہے کہ جب چاہے پیدا کردے وہی ہے جس نے اپنے نبی حضرت موسی کو ان کے زبردست دشمن فرعون کی گودیوں میں پلوایا وہی ہے  جس نے حضرت ابراہیم جیسے اپنے خلیل کو کافروں کے ہاتھوں آگ میں ڈلوایا اور پھر ایک رونگٹے پر بھی آنچ نہ آنے دی  وہی ہے جس نے بنی اسرائیل جیسی مغلوب قوم کو طاقتور اور قوی بنا دیا ان کے  بادشاہ کو مع اس کے لاؤ لشکر کے چشم زدن میں غرق دریا کردیا جسے وہ عزت دے اسے کوئی ذلت نہیں دے سکتا جس سے وہ چھین لے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا ہمارا حمد الہی کرنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے ہماری ثناخوانی گونگوں کی گویائی ہے ہمارا درود بھیجنا اپنا ہی نفع سوچنا ہے ہمارا سلام پڑھنا اپنا فرض ادا کرنا  ہے جس کی حمد و ثنا میں بے حد و بے شمار مخلوق مشغول ہوں جس کے گن گانے میں رہتی دنیا تک پاک  فرشتے مصروف ہوں بھلا اسے ہم سے عاصیوں کی کج مج زبان سے حمد کی ادائیگی کی کیا پرواہ 
الہی تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں مسلمان بنایا موحد بنایا انسان بنایا متبع سنت بنا یا الہی جو کسر اور کمی ہم میں ہے اسے بھی تو پوری کردے تیری قسم اگر تیری دستگیری نہ ہوتی تو راہ راست پر کہاں ہوتے نہ جانیں کن کن پتھروں کے آگے سر پٹختے اور نہ جانیں کس کس سے مدد طلب کرتے پھرتے اور یوں ہی جہنم کے ایندھن بن کر ھاویه میں ٹھس جاتے ہم اس زبردست نعمت پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے آنکھوں دیکھتے ہیں کہ آنکھ کان دل زبان عقل و حواس رکھتے ہوئے  کوئی بتوں کو پوج رہا ہے کوئی صلیب کے سامنے ماتھا رگڑ رہا ہے کوئی قبروں کی پتھروں کی عبادت کر رہا ہے  ہم تیرے شکر گزار ہیں اور بہت شکر گزار ہیں کہ تو نے ہمیں اپنی عبادت نصیب فرمائی
الٰہی ہمارے ہر کام میں تو رہنمائی فرما قلت سے ذلت سے بری سمجھ سے بدراہ سے حماقت سے رذالت سے تو ہمیں بچا سیدھا راستہ دکھا ہر کام کا انجام نیک کر بھلے لوگوں کی راہ ہمیں بھی چلا انبیاء مطیع نیکوں کا ساتھی بھلوں کا رفیق بنا اپنی نعمت اپنی رحمت عطا فرما اے مالک الملک خدا بدیوں سے برائیوں سے خطاؤں سے گناہوں سے بری راہ سے بد ساتھیوں سے برے ارادوں سے ناپاکیوں سے گندگیوں سے واہی  خیالات سے برے سنگھاتیوں سے شرک و بدعت سے  گناہوں اور نفاق سے کفر اور تکبر سے اپنے غضب و قہر سے گمراہی اور بدنظمی سے برے انجام سے اور نا فہمی سے کج خلقی سے اور بد کلامی سے کمینہ پن اور سفلہ پن سے ہمیں بچا اپنی حفاظت نصیب فرما ہمیں وہ توفیق دے جس سے تیری رضامندی حاصل ہو ہمیں ان کاموں سے بچا جو تیری ناراضگی کا موجب بنیں الٰہی دین دنیا میں ہمیں سرسبز  خوش و خرم رکھ دونوں جہان سنوار دے اپنی محبت میں سرشار اپنے نبی ﷺ کی حدیثوں کا تابعدار رکھ ۔ آمین یارب العالمین
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ، کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

تارکین وطنمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

تارکین وطن
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

ایک طرف مرکزی حکومت سی اے اے کے نام پر زمانہ دراز سے رہ رہے لوگوں کی شہریت ختم کرنے کے نام پر قانون بنا چکی ہے ، دوسری طرف محکمہ وزیر داخلہ کے راجیہ منتری مرلی دھون نے پارلیامنٹ میں یہ اعداد وشمار پیش کرکے سب کو چونکا دیا ہے کہ بڑی تیزی سے ہندوستانی شہری یہاں کی شہریت ترک کررہے ہیں، ان کی اطلاع کے مطابق امسال ۲۰۲۲ءمیں ۳۱ اکتوبر تک ایک لاکھ تراسی ہزار سات سو اکتالیس (183741)لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کر دی ہے ، یومیہ حساب لگائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دن چھ سو چار (604)لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کرکے دوسرے ملک کا رخ کیا، گذشتہ دس سال کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سولہ (16)لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ہندوستان چھوڑ کر دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لی ، امسال یہ تعداد دو سرے سالوں کے مقابل زیادہ ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نومبر دسمبر میں یہ تعداد دو لاکھ سے اوپر جا سکتی ہے ، شہریت اور ویزا دلانے والی مشہور کمپنی ہنری اینڈ پارٹنر س (H&P)کاکہنا ہے کہ ۲۰۲۰ءکے مقابلے ۲۰۲۱ءمیں شہریت حاصل کرنے کے لیے پوچھ تاچھ کرنے والوں میں چون فی صدی کا اضافہ ہوا ہے ۔ ہندوستانی شہریت کے تارکین میں سے چوالیس (44)فی صدی لوگ امریکہ کی شہریت اختیار کر ہے ہیں، مالدار اور کروڑ پتی لوگ سرمایہ کاری کرکے پہلے گولڈن ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ گولڈن ویزہ بعد میں وہاں کی شہریت حاصل کر لینے میں مدد گارثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں نوبل انعام یافتہ ابھی جیت بین جی، ہندی فلموں کے مشہور اداکار اکچھیہ کمار، برطانیہ میں سکونت پذیر سب سے مالدار انسان گوپی چند ہندوجا، امرت سر کی دی پِت نول کا نام لیا جا سکتا ہے، جنہوں نے غیر ملکی شہریت قبول کر لی ہے ۔
ہندوستان کی شہریت ترک کرنے کی وجہ دوسرے ملکوں میں کاروبار اور کام کے آسان شرائط ، محفوظ تجارتی معاملات بھی ہیں، ہندوستان میں دہری شہریت ؛اس لیے جو لوگ ہندوستان سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے ۲۰۰۶ءسے حکومت ہند نے اوور سیئر سیٹیزن انڈیا کارڈ (OCI)جاری کیا ہے،ا س کارڈ کے ذریعہ تارکین کو پوری زندگی ہندوستان میں رہنے، کام کرنے ، معاشی لین دین کی اجازت ہوتی ہے البتہ اسے ملکی سیاست میں انتخاب لڑنے ووٹ ڈالنے، سرکاری ملازمت یا سرکاری عہد وں پر تقرری اور غیر منقولہ جائیداد کو خرید نے کا حق نہیں ملتا۔

منگل, جنوری 03, 2023

متھلا کے انمول رتن تھے ڈاکٹر نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی

متھلا کے انمول  رتن تھے ڈاکٹر  نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی 
اردو دنیا نیوز٧٢
                   آج بتاریخ ۳/ جنوری  ۲۰۲۳ ء کو عظیم سیاسی رھنما ڈاکٹر  نیلامبر چودھری  جی کی ۸۹ ویں یوم ولادت کے موقعہ  پر ایک مخصوص  مجلس منعقد  کی گئی  جس میں دربھنگہ کے  متعدد اصحاب  علم ودانش شریک ہو کر موصوف  کی علمی سیاسی وسماجی کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے موصوف کی تصویر پر گل پوشی کرکے موصوف  کو خراج عقیدت ومحبت  پیش کرتے ہوئے ان کے کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے  ڈاکٹر عبدالودود قاسمی  نے کہا کہ  موصوف قانون ساز کونسل میں اپنے دور میں پورے متھلا میں تعلیمی مشعل کی لو کو تا حیات بڑھانے کے لئے متفکر اور کوشاں رہے جسے فراموش  نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شخصیت  میں سادگی وسنجید گی کے ساتھ موصوف  گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے اپنی سنجیدگی کی وجہ سے ہندو مسلمان سارے طبقات  میں یکساں مقبولیت تھی ۔واقعی میں موصوف  متھلا کے انمول رتن تھے۔ ڈاکٹر  محمد سرفراز عالم نے  کہا کہ ڈاکٹر ڈاکٹر نیلامبر بابو نے متھیلا یونیورسٹی کے قیام میں بھی  نہات اہم کردار ادا کیا، ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں پر آج بھی طلباء اور اساتذہ کے درمیان موضوع  سخن بنا ہوا ہے۔مقررین میں ڈاکٹر جمشید عالم،  ڈاکٹر غلام محمد انصاری، عامر سلفی، سہیل ظفر  صاحب، نائب صدر مسٹر رام ناتھ پنجیار، جوائنٹ سکریٹری شیلیندر کمار کشیپ، ترجمان روشن کمار جھا، مسٹر سنگھ، ایڈووکیٹ شاہد  اطہر، شامل تھے۔ جتیندر پٹیل، ایڈوکیٹ بلجیت جھا، پروفیسر مسز پریتی جھا، مسٹر وجے کمار جھا، سوربھ مشرا، ترون جھا، سمر جھا، اشوک جھا وغیرہ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
 ،
اردو دنیا نیوز٧٢
 متھلا کے عظیم سپوت جناب للت نارائن مشر جی کو ان کے یوم وفات کے موقع پر این،ایس،ایس،اکائی سی ایم،بی،کالج،ڈیوڑھی گھو گھر ڈیہا، مدھوبنی میں بڑی عقیدت ومحبت سے ان کی تصویر  پر کالج کے جملہ تدریسی وغیر تدریسی ملازمین نے گل پوشی کی اس کے بعدموجود طلباء وطالبات سے این، ایس،ایس کے پروگرام افیسر ڈاکٹرعبدالودودقاسمی اور ڈاکٹر  کرتن ساہو پرنسپل  کالج نے تفصیل سے للت بابو کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی خدمات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ"للت نارائن مشر" کی پیدائش 02 فروری 1923 کو سپول ضلع کے باسوپتی گاؤں (بلوا) میں ہوئی۔  طالب علمی کے زمانہ میں ہی سیاست میں آگئے، انہوں نے 1945-48 میں پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا اور 1950 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن بن گئے۔  1972 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن چن لئے گئے ،اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے پارلیمانی سکریٹری، منسٹری آف پلاننگ، لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ (1957-1960) وغیرہ کے طور پر کام کیا اور 1973 سے 1975 تک ہندوستان کے وزیر ریلوے کے طور پر خدمات انجام دیں۔  غیر ملکی تجارت کے وزیر کے طور پر، نیپال بھارت کے درمیان سیلاب کنٹرول اور کوسی اسکیم میں مغربی نہر کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ۔  انہوں نے ملک اور بیرون ملک متھلا پینٹنگ (مدھوبنی پینٹنگ) کی ساکھ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔  بطور ریلوے وزیر متھلانچل میں 36 ریل پروجیکٹوں کے سروے کی منظوری دی، جھنجھار پور-لوکہا ریلوے لائن بھپٹیاہی سے فاربس گنج ریلوے لائن وغیرہ۔  اپنی مادری زبان میتھلی کے فروغ کے موصوف تا عمر کوشاں  رہے ۔  3 جنوری 1975 کو سمستی پور بم دھماکے میں ان کی موت ہوگئی۔ ایشور ان کی ا تمام کو شانتی دے۔خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں  ڈاکٹر  کیپٹن ساہو،ڈاکٹر  اجے کمار،ڈاکٹر پریم سندر،ڈاکٹر  ہری شنکر رائے،ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری،ڈاکٹر  جیتیندر کمار،ڈاکٹر سجیت کمار،ڈاکٹر  بریندر کمار،ڈاکٹر  بھاگوت منڈل،ڈاکٹر اوپیندر کمار راوت،ڈاکٹر  آلو ک کمار،ڈاکٹر  رتن کماری  جھا،دلیپ کمار،سچیدانند،ودیانندمنڈل، کے نام شامل ہیں۔

سد بابمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

سد باب
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے کہ فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹوں کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہاہو۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراءاورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہےں؛ تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔ان آیات واحادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف فتنہ وفساد سے روکا ، بلکہ اس کے رونما ہونے کی جو شکلیں پائی جاتی ہیں، ان کی بے بضاعتی کا احساس دلا کر فتنہ وفساد کے دروازے بند کر دیے۔

پیر, جنوری 02, 2023

چارۂ کار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

چارۂ کار ___
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے چارہ کار کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے؛ جو آج ہر سطح پر ایمان والوں کے درمیان اٹھ رہا ہے، لوگ ان حالات کو خطرناک سمجھ رہے ہیں اور اسے ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا سے جوڑتے ہیں، عام لوگوں کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اب تک یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ اصل خطرہ حالات سے نہیں ہے، بلکہ ہماری بے حسی سے ہے، دین کے معاملے میں اب بھی ہمارے اندر تبدیلی نہیں پائی جا رہی ہے ، کاروبار دنیا حسب سابق جاری ہے اور سوائے خوف ودہشت کے ہمارے اعمال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، حالاں کہ حالات میں سدھار عمال وحکام کے بدلنے سے نہیں، اعمال کے بدلنے سے ہوگا ، انابت الی اللہ اور دین پر مضبوطی سے کاربند ہونا وہ نسخہ کیمیا ہے، جو احوال وکیفیات کے بدلنے میں ہر دور میں معاون ومددگار رہا ہے، دلوں کو بدلنے والی ذات اللہ کی ہے اور اس کی مرضی ہو تو سب کچھ منٹوں میں نہیں سکنڈوں میں بدل جائے گا، ضرورت اللہ کو راضی کرنے کی ہے اور اس کی خفگی والے کاموں سے بچنے کی ہے ۔
اپنے غیر مسلم بھائیوں تک فکری اور عملی طور پر اسلام کا پیغام پہونچانا بھی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ہمیں انہیں ہر سطح پر یہ باور کرانا ہوگا کہ ہمارے وجود سے اس ملک کی سر سبزی وشادابی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہم اس ملک کے لیے مفید رہے ہیں، اس ملک پر جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو یہ ملک اس دور کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کر رہاتھا ، عظیم ہندوستان کا جو تصور آج پایا جاتا ہے اس کی داغ بیل مغلیہ دور حکومت میں پڑی تھی ، انگریزوں نے جتنے بڑے ہندوستان پر جبرا قبضہ کر لیا تھا ، اتنا بڑا ہندوستان تو آج بھی نہیں ہے، آزاد ہندوستان، پورا پورا ہندوستان باقی نہیں رہا ، اس ملک کی جتنی تاریخی عمارتیں ہیں، جن پر ہندوستان ناز کرتا ہے اور جو پوری دنیا میں ہندوستان کی شناخت اور پہچان کا سبب ہیں، وہ سب مسلمانوں کی دین ہیں، تاریخ کو دیومالائی روایت سے تبدیل نہیں کیا جا ئے اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ہر پڑھا لکھا آدمی اس کی تائید پر خود کو مجبور پائے گا۔
ہمیں انسانی بنیادوں پر خدمت خلق کے کام کو مزید آگے بڑھانا چاہیے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ خدمت خلق سے دل پر اور تعلیم سے دماغ پر قبضہ ہوتا ہے، موجودہ عدم رواداری کے ماحول میں اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہم انسانی بنیادوں پر خدمت کرکے نفرت کے اس ماحول کو بدل سکتے ہیں، یہ ہمارے لیے اور ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، یقینا مقابلہ جن لوگوں سے ہے وہ سخت دل ، جابر وظالم اور انسانیت کے احترام سے عاری لوگ ہیں، لیکن جب پتھر پر مستقل پانی پڑتا رہے تو وہ گھس جاتا ہے اور کبھی پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے توبھلا حسن اخلاق اور اچھے کردار سے ان کے دلوں پر دیا جانے والا دستک رائیگاں کیسے جا سکتا ہے۔اللہ رب العزت نے پتھر کی صفت بیان کی ہے کہ بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں۔ (البقرة : ۴۷) اس لیے ان سخت دل لوگوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ان پر دعوتی محنتیں جاری رہنی چاہیے، اس دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے حسن اخلاق کی بھی ضرورت ہے۔
برادران وطن کے ذہن کو جس چیز نے سب سے زیادہ خراب کیا ہے ، وہ فرقہ پرست طاقتوں کا یہ پروپیگنڈہ ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں، اور ہمیشہ ان کو نقصان پہونچانا چاہتے ہیں، یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو سچ معلوم ہونے لگا، حالانکہ ہم تو تمام انسانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مانتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ہم اس دعوت پر لبیک کہہ کر قبول کرنے والے لوگ ہیں، جب کہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کے لوگ امت دعوت ہیں، یعنی ان تک اسلام کا پیغام، دین کی دعوت پہونچانا، ہماری ذمہ داری ہے ، دونوں جب ایک نبی کی امت ہیں تو اس میں نفرت کا گذرہوہی نہیں سکتا،کیوں کہ ہم کسی سے نفرت کرکے اس تک دین کی دعوت پہونچا نہیں سکتے ، دعوت کا یہ کام محبت کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے، اور اس جذبہ اور سوچ کے ساتھ ہی ممکن ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں، اس کے لیے تو محبت ہی محبت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

اتوار, جنوری 01, 2023

جنسی بے راہ روی کو تحفظمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جنسی بے راہ روی کو تحفظ
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
کیرالہ کے اکتالیس سالہ تاجر جو سف شائنی (جو ان دنوں اٹلی میں قیام پذیرہے) نے دسمبر۲۰۱۷ء میں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں مفاد عامہ کے حوالہ سے ایک عرضی داخل کیا تھا ، جس میں دفعہ ۴۹۷ کو صنفی بنیاد پر تفریق قرار دے کر رد کرنے کی مانگ کی تھی ، اس دفعہ کی رو سے شادی شدہ مرد اگر کسی دوسرے کی بیوی سے اس کے شوہر کی رضا مندی سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا ہے ، البتہ بلا اجازت اگرکسی نے جنسی تعلق قائم کیا تو یہ جرم کے دائرے میں آتا تھا اور زنا کا ر مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی تھی ، ایسے معاملات میں اس دفعہ کی رو سے عورت کو متاثرہ مان کر چھوڑ دیا جاتا تھا ، اس پر کوئی داروگیر نہیں کی جاتی، اسی طرح اگر زنا کار کی بیوی نے اس مسئلہ پر خود کشی کر لیا تو اس شکل میں بھی شوہر خود کشی پر ابھارنے والا قرار دے کر مجرم گردانا جاتا تھا ، اس بنیاد پر طلاق کے لیے مقدمہ بھی قائم کیاجا سکتاتھا اور یہ تفریق کی بنیاد ہو سکتی تھی ۔
 یہ قانون ایک سو انٹھاون سال پرانا تھا، ۱۸۳۷ء میں تھا مس بائیگٹن میکالے (لارڈ میکالے) نے تعزیرات ہند کے پہلے مسودے میں اسے شامل نہیں کیا تھا، لیکن ۱۸۴۷ ء میں قانون ساز کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ زنا کاری کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دینا قطعا مناسب نہیں ہے ، لیکن اس بار بھی یہ دفعہ داخل نہیں کی جا سکی، البتہ ۱۸۶۰ء میں اسے آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ کے طور پر لاگو کیا گیا ، تب سے یہ قانون ہندوستان میں نافذ تھا، اس درمیان اس قسم کی عرضیاں ۱۹۵۴، ۱۹۸۵ئ، ۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۱ء میں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں؛ لیکن عدالت نے اسے صنفی بنیاد پر تفریق والا نہیں مانا تھا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندر چوڑ (جو ہندوستان کے چیف جسٹس بھی رہے) نے تیس سال پہلے اس قانون کو باقی رکھا تھا ۔
 ان دنوںہندوستان میں مغربی افکار واقدار کو اپنانے ، قبول کرنے اور اسے عدالت سے منظور کرانے کی جو منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں اس دفعہ کو نکال باہر کیا گیا ، چیف جسٹس دیپک مشرا کی سر براہی میں جسٹس اے ایم کھانو لکر، جسٹس آر اف نریمن، جسٹس ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی پانچ رکنی بینچ نے ۲۰۱۸ء میں نہ صرف آئی پی سی کی دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دیا ، بلکہ سی آر سی کی دفعہ ۱۹۸ کے ایک حصہ کو بھی منسوخ کر دیا، فیصلے الگ الگ سنائے گئے ، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے ، اسے دوسرے سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار ہے ، البتہ اگر شوہر کو اعتراض ہو تو وہ طلاق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ، جسٹس نریمن کی رائے تھی کہ شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا ، جسٹس چند ر چوڑ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ دفعہ عورت کو اس کی خواہش اور پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اس لیے غیر آئینی ہے ۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت کے جسم پر صرف اس کا حق ہے ، وہ شوہر کی جاگیر نہیں ہے ، شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی جنسی خواہش شوہر کو سونپ دے ۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنا کی وجہ سے شادی خراب نہیں ہوتی ، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے عورتیں غیر مرد کی طرف راغب ہوتی ہیں، ایسے میں اسے جرم مان کر سزا دینے کا مطلب ہے کہ دکھی لوگوں کے دکھ میں مزیداضافہ کیا جائے۔جوسف شائنی کی عرضی پینتالیس صفحات کی تھی ، عدالت عظمیٰ کے معزز حج صاحبان نے الگ الگ چار فیصلوں کے لیے ۲۴۳ صفحات کا لے کیے، اس معاملہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا تھا ، اس میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ اور سی پی سی کی دفعہ (۲) ۱۹۸ کو ختم کرنے کا سیدھا اثر ہندوستانی تہذیب وثقافت پر پڑے گا، چوں کہ یہ دفعات شادی کو مقدس رشتے کے طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
لیکن عدالت نے کسی کی نہیں سنی ، اور شائنی کی عرضی میں جو دلائل دیے گیے تھے اس کو مان کر میاں بیوی کو بے لگام جنسی تعلق بالفاظ دیگر قانون اور عدالتی جواز فراہم کر دیا ہے ، لطیفہ یہ ہے کہ جائز چار شادیوں پر یہاں واویلا مچایا جا تا ہے اورنا جائز رشتوں کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے ، یہاں بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کا جنسی تعلق قائم کرنا زنا کے زمرے میں آتا ہے ، بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے اور اٹھارہ ، اکیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی پر سزا دی جا سکتی ہے ، لیکن لیو ان ریلیشن شپ چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو، کی اجازت ہے ، یہ عدالت ہی کے مختلف فیصلے ہیں ، جس کی تلخیص یہاں ذکر کی گئی ہے ، ان فیصلوں کے نتیجے میں خاندانی نظام بر باد ہو رہا ہے ، اور جس طرح مغرب میں بن باپ کے بچوں کی باڑ ھ سی آئی ہوئی ہے اور باپ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کاغذات میں ماں کے نام درج کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، اس کی شروعات یہاں بھی ہو گئی ہے ،مستقبل کے ہندوستان میں حرام جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا، ایسے میں یا تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے یا آوارہ اوباش ، ناکندہ تراش ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی ، جس سے سارا سماج پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
معزز جج صاحبان نے اس فیصلہ میں ان ملکوں کا بھی حوالہ دیا ، جہاں اس قسم کے تعلق کو جرم نہیں مانا جاتا ، پتہ نہیں کیوں ہمارے جج صاحبان کو وہی ملک نظر آتے ہیں جہاں اس قسم کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکتوں کو قانونی جواز فراہم ہے ، دنیا کے بہت سارے ملک وہ بھی تو ہیں ، جہاں اس قسم کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، امریکہ کو ہی لے لیجئے ، یہاں کی اکیس ریاست میں یہ عمل غیر قانونی ہے ، اور مجرم کو عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے ، فلپاین میں چار مہینے سے لے کر چھ سال کی سزا بیاہی عورت کے دوسرے مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی دی جاتی ہے ، ایران میں ایسی عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ، سعودی عرب میں رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے عدالت نے طلاق کے مسئلے پر بھی ملکوں کا حوالہ دیا تھا تو کیا اس طرح غیر ملکی حوالہ دے کر جسم فروشی کو بھی یہاں قانونی جواز ملے گا، وہاں بھی تو عورت اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہ ایک پیشہ کے طور پر رائج ہے، ہمارے ہندوستان میں اب طوائفوں کو سیکس ورکر کہا جانے لگا ہے ، اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہی انداز رہا تو سارے کوٹھے کی گندگی گاؤں اور محلوں تک آجائے گی جو اب بھی تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت جرم ہونے کے باوجود کم نہیں ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...