Powered By Blogger

جمعہ, جنوری 06, 2023

ایک عدد نسیم چاہیےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۵/جنوری ۲۰۲۳ء

ایک عدد نسیم چاہیے
اردو دنیا نیوز٧٢ 

یہ خبر ہم اہالیان ارریہ پر بجلی بن کر گرگئی کہ حضرت مولانا نسیم الدین صاحب چیرہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے،عمر کی نو دہائیاں پار کر کےآخری سانس مشہور معالج جناب ڈاکٹر ارشد صاحب کے یہاں چھوٹ گئی،انا للہ واناالیہ راجعون،
                       ایک روشن دماغ تھا نہ رہا 
                   شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
  مولانا مرحوم پچھلے کئی سالوں سے اپنی پیرانہ سالی اورضعیفی کے سبب سفر واسفار سے گریز فرما رہے تھے، باوجود اس کے زندگی وزندہ دلی دونوں کا مکمل ثبوت پیش کرتے رہے،بصیرت وبصارت آخری دم تک سالم رہی، علاقہ کےنوجوان مقررین وشعراءملاقات کے لئے جب بھی حاضر ہوتے،مولانا ان کی رہنمائی فرماتے ،حوصلہ بڑھاتے، گر کی باتیں بتاتے ،اپنی روشن دماغی سے چند جملوں میں بہت سی باتیں کہ جاتے، سامنے والے خطیب یاشاعر کو ایک نیا عنوان مل جاتا،یا اپنی اصلاح کی کوئی بات سمجھ میں آجاتی، خود کی سرگرمی اور زندگی بڑی قیمتی معلوم  ہوتی ،ایک شاعرعشق رسول میں ڈوب کراشعار پڑھنے کی کوشش کرتا، اورایک خطیب کی تقریر بھی وعظ کے رنگ وآہنگ میں ڈھل کر ایک تحریک بن جاتی، یہ رہنمائی کا کام  مولانا مرحوم کاایک بڑا علمی احسان ہے،باری تعالٰی اجر جزیل عطا کرے، آمین 
          جن سے ملکر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
    آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ہوتے تو ہیں

    مولانا مرحوم کی پوری زندگی عالمانہ رہی ہے اور دعوت دین میں بسر ہوئی ہے،مدرسہ اسلامیہ جوگندر میں صدرالمدرسین کے عہدےپررہتے ہوئے بھی پورے علاقے کی فکر دامنگیر رہی،پھر جب سبکدوش ہوگئے تو خودکو وعظ ارشاد کے لئے وقف ہی کردیا، سنت وشریعت کے مکمل پابند اور بےشمار خوبیوں کے آپ حامل رہے ہیں، مگر ان تمام خوبیوں میں آپ کی بلا کی سادگی و خاکساری سب سے زیادہ نمایاں اور ضرب المثل رہی ہے، واقعی بقول معروف ناظم اجلاس جناب قاری نیاز صاحب قاسمی کے کہ "حضرت نمونہ اسلاف تھے "،علاقے میں چھوٹے  دینی مجالس ہوں ہو یا بڑے اجلاس مولانا کے بغیر منعقد نہیں ہوا کرتے، باوجود اس کے کبھی عجب وخود پسندی  نے آپ کو چھوا تک نہیں ہے، بس جلسہ کہاں ہے؟ یہ معلوم ہونا چاہیے، خود روانہ ہوجاتے اور بروقت جلسہ گاہ میں حاضر ہوجاتے،عموما پیدل سفر کرتے، ہاتھ میں ایک تھیلاہے،لنگی وکرتا زیب تن کئے ہوئے ہیں،تن تنہا رخت سفر باندھ لئے ہیں، سیدھے جلسہ گاہ پہونچ گئے ہیں،جہاں جگہ ملی بیٹھے ہیں، اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں،خطاب ہوا، دسترخوان پر جو کچھ ماحضر ملا تناول فرمالیا،بلکہ بقول مفتی حسین احمد ہمدم کے "حضرت کی بہترین ڈش جنگلی ساگ اور دوروٹیاں تھیں"
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
رب لم یزل ولایزال نے مولانا کو اپنی بات کہنے کا بڑا ملکہ دیا تھا، بہت ہی سہل انداز میں ہر فرد بشر تک اپنی بات پہونچادیتے ،ایک کم پڑھا لکھا ہی نہیں بلکہ ان پڑھ آدمی بھی آپ کا مخاطب ہوتا ،اور مکمل پیغام لیکر اجلاس سے گھر جاتا، یہی وجہ تھی کہ عورتوں میں مولانا بہت مقبول رہے ہیں، وہ گھر گرہستی کی باتوں کو شرعیت اسلامیہ کی روشنی  پیش کیاکرتے، عموما منتظمین اجلاس کی بھی یہ خواہش ہوتی کہ حضرت مستورات کے لئے خصوصی خطاب فرمائیں،بڑی خوبصورتی سے آپ انہیں خطاب کرتے اور ساس، سسر، شوہر، ماں، باپ اور رشتہ دار، نماز، روزہ، زکوٰۃ،دین کی بنیادی ضروری معلومات ان تک پہونچادیتے،ایسا محسوس ہوتا کہ دل سے نکلی ہوئی ساری باتیں پورےمجمع کے قلب وجگر میں اتر گئی ہیں، لیکن آج ہائے افسوس!!
      لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں 
     اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مرجاتے ہیں 
آج مولانا کےوصال کے بعد سب سے بڑا خلا یہی پیدا ہوا ہے، مقررین کی ایک بڑی تعداد ہے،تقریر زبردست ہورہی ہے،مگرآدھی آبادی اجلاس سے مایوس اپنے گھروں کوخالی اور محروم جارہی ہے، انہیں ایک عدد نسیم چاہیے.
    باری تعالی حضرت والا کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازدے، جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے، اور ہمیں نعم البدل عطا فرمائے، آمین، ایں دعا از من وجملہ جہاں امین باد
                جانے والے کبھی نہیں آتے 
             جانے والوں کی یاد آتی ہے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۵/جنوری ۲۰۲۳ء

جمعرات, جنوری 05, 2023

شعراء اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی___✍️انور آفاقی دربھنگہ

شعراء اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️انور آفاقی دربھنگہ 
 ہم جس معاشرے میں اپنے شب و روز گزارتے ہیں ان میں بے شمار انسانوں سے روزانہ سابقہ پڑتا رہتا ہے، ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ ان میں  کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے مل کر نہ خوشی کا احساس ہوتا ہے نہ ہی دکھ کا ، بس ملے اور پھر جلد ہی ذہن  سے ان کا نقش محو ہو جاتا ہے ۔ مگر ان ہی میں چند شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا نقش دل و دماغ پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جاتا ہے اور جن سے مل کر مسرت کا احساس روشنی کی کرن بن کر دل کے نہاں خانوں کو منور کرتی ہیں ۔
ایک ایسے ہی نہایت شریف و خلیق شخصیت کا نام مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ہے۔ مفتی صاحب کے لب و لہجے کی متانت گفتگو میں نرمی اور اپنا پن کی خوشبو ہم جیسوں کو ان کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔ 
مفتی صاحب پر یوں تو بہت سارے ادبا نے خامہ فرسائی کی ہے ۔ ان پر مضامین لکھے ہیں  کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ ان ہی میں مرحوم ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کا نام نامی بھی شامل ہے ۔ انہوں نے مفتی صاحب پر  بعنوان " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی: شخصیت اور خدمات" جیسی اہم کتاب لکھ کر ایک بڑا کام کیا ہے ۔ اس سے مفتی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
مگر اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ایک کتاب "مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں"ہے۔
اس کتاب میں شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شخصیت اور ان کی دینی و ادبی ،سماجی و فلاحی خدمات پر بہ زبان شاعری خیالات کا اظہار کیا ہے، ان پر نظمیں لکھی ہیں ۔ پیش نظر کتاب ان ہی شعراء کی شعری تخلیقات سے مزین ہے۔ اس کتاب کے مرتب کا نام عبدالرحیم  ہے ۔ ان کا آبائی وطن برہولیا دربھنگہ  ہے۔  اور وہ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں ۔  موصوف، عبدالرحیم برہولیاوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ اس سے قبل ان کے مضامین اخبار و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ وہ ایل۔ این ۔ متھلا  یونیورسٹی دربھنگہ سے ایم۔ اے ۔ اردو میں سند یافتہ ہیں۔  فی الحال سرائے، ضلع ویشالی ، بہار کے مدرسہ " معھد العلوم الاسلامیہ " میں استاد کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
72 صفحات کی یہ کتاب " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی :شعرائے کرام کی نظر میں، اسی سال 2022 کے جولائی ماہ میں منصہ شہود پر آئی ہے ۔کتاب کے مرتب " اپنی بات " میں فرماتے ہیں :
"مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئی ہے"۔
یقینا یہ سعادت عبدالرحیم برہولیاوی کے حصے میں آئی ہے ۔ اور اس طرح وہ تصنیف و تالیف کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں ۔
پیش لفظ ڈاکٹر کامران غنی صبا( اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو ، نِتیشور کالج مظفرپور نے تحریر کیا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں وہ رقم طراز  ہیں:
" عبدالرحیم برہولیاوی نے اس کتاب میں شعرائے کے کلام کو جمع کیا ہے ۔جن میں شعراء نے مفتی صاحب کے تئیں اپنی بھرپور عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور مفتی صاحب کی علمی، ادبی، مذہبی، سماجی اور فلاحی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے"۔ 
صفحہ 11 پر "دو باتیں" کے عنوان سے معروف و مشہور شاعر و ادیب عطا عابدی نے اپنی تحریر سپرد قلم کیا ہے۔ ان کی باتیں ان کی بالیدہ فکر و نظر کی عکاس ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
" شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شعر توصیف کے باب میں مبالغہ آرائی کو فن کا درجہ حاصل ہے ۔ تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے ۔ یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے"۔
مذکورہ کتاب میں 33 شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شخصیت اور علمی و ادبی کارناموں پر نظمیں 
  لکھی ہیں ۔ان شعراء کے نام اس طرح ہیں: محمد انوارالحق داؤد قاسمی،  مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی، حسن نواب حسن، عبد المنان طرزی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا، ڈاکٹر منصور خوشتر ،احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی،  اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، ذکی احمد زکی ، محب الرحمن کوثر ، مظہر وسطوی ،زماں برداہوی ،  محمد ضیاء العظیم،  محمد مکرم حسین ندوی ، ڈاکٹر امام اعظم ، عظیم الدین عظیم ،  کمال الدین کمال عظیم آبادی، وقیع منظر، فیض رسول فیض،  ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ، امان ذخیروی ، ولی اللہ ولی ، آفتاب عالم آفتاب، یاسین ثاقب ، مولانا سید مظاہر عالم قمر،  محمدبدرعالم بدر، ثنا رقم مووی ، فیاض احمد مضطر عزیزی،  عبدالصمد ، اور تحسین روزی۔
اس شعری حصے کی ابتدا محمد انوارالحق داؤد قاسمی کی نظم" سوانح حیات "سے ہوتی ہے جو 109 اشعار ر پر مبنی ہے۔ پوری نظم میں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی زندگی کی پورے طور پر شاعری میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ جن میں ان کی پوری شخصیت  ، علم و ادب ، بصیرت و بصارت ،ملی و دینی خدمات کو اشعار میں بڑی خوبی سے ڈھالا گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں اس نظم سے چند مصرعے۔؂

    ان  کی   ہے   شخصیت  اب   کثیر   الجہات
    رب نے بخشی ہے ان میں کچھ ایسی صفات
    پر کشش ان کی  ہے داستانِ حیات
    درد دل سے دیکھاتے ہیں راہِ نجات
    مہرباں  ان  پہ  ہے  خالقِ   ذوالمنن 
    ہیں ثنا الہدیٰ خود میں ایک انجمن
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب کو 2000 ء میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ مفتی صاحب نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے کئی جھنڈے
گاڑے ہیں ۔ وہ مختلف درسی و تعلیمی اسناد یافتہ ہیں ۔ جنکی مجموعی تعداد 17 ہے ۔  لہذا ان معلومات 
کو مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی نے شعری پیکر عطا کیا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

وہ محدث محقق سخنور بھی ہیں 
 مرکز علم و فن ہیں ثناء الہدیٰ 
قومی ایوارڈ سے بہرہ ور شخصیت
 خوب اچھے معلم ثناءالہدی 
 سترہ تعلیمی اسناد کے ہولڈر 
 ہیں مصنف، مولف ثناء الہدیٰ
مفتی صاحب کو کئی مرتبہ بیت اللہ کی زیارت اور حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔ ان کے چوتھے حج پر روانگی کے موقع سے حسن نواب حسن (مرحوم) نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے جو  نظم لکھی ہے، اس کے تین اشعار پیش خدمت ہیں۔؂

    مبارکباد کا پیش ان کو میں کرتا ہوں نذرانہ 
    ہے چوتھی بار جن کو حجِ بیت اللہ پر جانا 

    گئے تھے خادمِ حرمین کی دعوت پہ پچھلی بار
    تھا دعوت پر حکومت کی انہیں اعزاز یہ پانا

    خدا کو ایسا  بھایا  اپنے گھر  مہمان کا  آنا 
    کہ چوتھی بار بھی اس نے بلایا تو پڑا جانا 
            عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبد المنان طرزی نے  مفتی صاحب کے لیے تین نظمیں کہی ہیں جن میں  مجموعی اشعار کی تعداد 77 ہے۔ ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں ؂

ہو خطابت کے تحریر کا مرحلہ 
انفراد  اپنا  رکھتے  ثناء الہدی 
جائزہ لیں جو تصنیف و تالیف کا 
مرحبا  ،مرحبا ،  مرحبا  ،  مرحبا

عالم دین ہیں آپ ممتاز ہی
 ہے ادیب اور شاعر بھی ذات آپ کی

 یہ نہیں ہیں فقط دو رکعت کے امام 
رکھتے ہاتھوں میں شعر و ادب کی زمام 

 رب سے طؔرزی کی اپنے دعا ہے یہی
 سرخرو دو جہاں میں رہیں قاسمی 
           طارق بن ثاقب پورنوی جہاں بہت نفیس عربی کیلی گرافی پر قدرت رکھتے ہیں وہیں ایک عمدہ شاعر بھی ہیں ۔مفتی صاحب سے ان کے مراسم  بہت پرانے ہیں ۔ اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کرتے ہوئے فرماتے ہیں
روشنی پاتا ہے جن سے علم و حکمت کا چراغ 
رہبروں  کا  راہبر   فہم و   فراست   کا   چراغ 
 ضو فگن ہےجن میں تہذیب و ثقافت کا چراغ 
آندھیوں سے بجھ نہیں سکتا شرافت کا چراغ 
 حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
 دل بدل جاتا ہے اکثر آپ کی  تقریر سے
       نوجوان نسلوں کے ہر دل عزیز  اور نمائندہ شاعر اور اردو کے استاد جناب کامران غنی صبا نے مفتی ثناء الہدی صاحب سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔؂
ہیں علمِ شریعت کے وہ رازداں 
خاموشی میں جن کی نہاں داستاں

 ہیں جن کے تبسّم میں سنجیدگی 
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی 

مفکر    مدبر    کہ    دانشوراں 
سبھی انکے حق میں ہیں رطب للساں
           دربھنگہ ٹائمز کے مدیر اعلی، شاعر و صحافی  اور قومی تنظیم دربھنگہ کے بیوروچیف ڈاکٹر منصور خوشتر نے مفتی صاحب کی خدمت میں شاعری کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار  یوں
 کیا ہے۔؂
عالمانہ  برد باری  ان  میں  ہے
 ہے طبیعت میں بڑا ہی انکسار

 وہ بڑے ہمدرد ہیں گر ملک  کے
 ملتِ   اسلامی کے  ہیں غمگسار 

مختصر لفظوں میں جو خوشتر کہیں
 ہے خدا کا فضل ان پر بے شمار
           مانو کے ریجنل ڈائریکٹر ، معروف و مقبول شاعر و ادیب، صحافی اور تمثیل نو ، دربھنگہ کے اعزازی مدیر ڈاکٹر امام اعظم نے چھوٹے بحر میں مفتی صاحب کی شخصیت اور ان کے علم و فن پر خوبصورت انداز میں  دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے اشعار میں  کچھ اس طرح  اظہار خیال کیا ہے ۔۔۔انکے چند مصرعے آپ قارئین کی بصارتوں کی نذر ۔۔۔

        مفتی قاسمی صاحب!
         آپ کی یہ شخصیت 
         ہر  قدم  توانا ہو
        اعؔظم اب دعا میری
        بار گاہِ  رب میں ہو
        اس کی یوں قبولیت 
        خالقِ  جہاں  کی  ہو 
        ان پہ فضل اور رحمت
        عمرِ خِضر پائیں وہ 
        خدمتِ ادب و دیں
       جان و دل سے کر جائیں!

 اس کتاب کا اختتام تحسین روزی ، پٹنہ کے کلام پر ہوتا ہے ان کے دو اشعار قارئین کی نذر ؂

علم و ادب کے دین و شریعت کے ہیں منار
 روشن    ہے  با وقار  ہے    توقیر  آپ  کی 

 قلب و جگر میں آج کل ایک روشنی سی ہے
 آنکھیں   جو  پڑھ  رہی  ہیں  تحریر آپ کی

          اس کتاب میں مفتی محمد ثناء الہدی صاحب کے لیے کہے گئے شعراء کے اشعار کو جمع و ترتیب کرکے عبد الرحیم برہولیاوی نے مفتی محمد ثناء الہدی صاحب سے قلبی لگاؤ اور محبت و عقیدت کا اظہار بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

بدھ, جنوری 04, 2023

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ۔ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ۔ 
اردو دنیا نیوز٧٢
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی 
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
اس خدا کے لیے حمد ہے جس نے اسلام کو غالب رکھا جس نے اپنے نبی ﷺ  کو غلبہ دیا جس نے اپنے پسندیدہ دین کا  ہمیں پابند بنایا جس نے اپنی مہربانیوں سے ہمیں پالا پوسا جس نے جسم و جان کے ساتھ ہمیں ایمان بھی دیا جس نے ہمیں حدیث کے ساتھ قرآن بھی دیا اے  سب کچھ دینے والے اے ہر ایک کے کام آنے والے اے پروا پچھوا چلانے والے اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے نیست کوہست کرنے والے اے دکھ درد کے دور کرنے والے اے ناامیدوں کو کامیاب کرنے والے اے درد مند دل کی سننے والے اے سارے جہاں کے پالنے والے اے بگڑی کے بنانے والے اے بیماری کے بعد تندرستی عطا کرنے والے اے ہمیں راحت و آرام پہنچانے والے اے ہماری نمک حرامیوں کو دیکھتے ہوئے ہماری روزیاں جاری رکھنے والے اے رحیم و غفور اے  مالک و شکور تو سچا تیرا رسول سچا  تیرا کلام سچا 
روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بناکر اور روۓ زمین کے پانیوں کی روشنائی  گھول کر بھی اگر رب العالمین معبودِ برحق کی حمدوثنا لکھی جائے تو قلمیں گھس جائیں گی سیاہیاں ختم ہو جائیں گی لیکن رب کے پیارے اور نہ ختم ہونے والے اوصاف کبھی ختم نہ ہوں گے دنیا کی عمر کے برابر بھی اگر کوئی شخص خدا کی ان گنت اور بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہے تو ناممکن ہر ہر سانس پر رب کی تسبیح وتکبیر پڑھتا ر ہے مگر اس کی پاکیزگی اور بڑائی کے مقابلہ میں پھر بھی کچھ نہیں ہواؤں میں اڑنے والے پرند سوراخوں میں رہنے والے جانور گردن جھکائے چلنے والے چوپا ۓ زمین پر رینگنے والے کیڑے گھنے جنگلوں میں بادشاہت کرنے والے درندے سربفلک پہاڑوں کی چوٹیاں بچھی ہوئی اور پھیلی ہوئی زمین روانی سے بہتے ہوئے دریا موجیں مارنے والے سمندر خاموش درخت با ادب فرشتے ناری اور ترابی مخلوق زناٹے بھرتی ہوئی طاقت دار ہوا اونچا اور جھکا ہوا آسمان  چمکتے ہوئے ستارے اور سورج چاند کائنات کا ایک ایک ذرہ جس کی تعریفوں کے بیان میں مشغول ہے وہ ذات اقدس الہ العالمین اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی ہے سب اسی  کے محتاج اور وہ سب سے بے نیاز سب اس کا دیا کھانے والے اور اس کا ہاتھ تکنے والے کسی ایک کو نتھنا پھڑ کانے کی ایک سانس لینے کی بلکہ منہ پر سے مکھی اڑانے کی طاقت بھی نہیں اس کی عظمت کے سامنے سب دبکے ہوئے اس کے دبدبے کے سامنے سب دست بستہ کونسا دل ہے جس کی اس کی ذات  سے امیدیں بندھی ہوئی نہ ہوں کونسا دل ہے جو اس کے خوف سے خالی ہو سب کا مالک سب کا رازق وہی عزت و ذلت کا دھنی امیری غریبی پر قادر سارے ملک کا تنہا مالک مارنے اور جلانے والا تندرست اور بیمار کرنے والا بھوک کے وقت نرم و گرم غذا دینے والا پیاس کے وقت سرد و خنک پانی دینے والا سوتے ہوؤں کی حفاظت کرنے والا وہی ہے جس کا علم محیطِ کل  جس کی قدرت ہر چھوٹے بڑے پر جس کی سمع و بصر ادراک سے دور جو پانی کو پتھر کر دینے پر جو آگ کو باغ کر دینے پر جو دشمن کو دوست کر دینے پر جو رحمت کو زحمت کر دینے پر قادر ہے وہ وہی ہے جس کی سلطنت آسمان و زمین پر ہے جس کا حکم ہر شئے پر ہے جس کا کوئی ارادہ مراد سے جدا نہیں جس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں جس کا کوئی فرمان بدلتا نہیں جس کا نہ کوئی وزیر ہے نہ مشیر جس کا نہ کوئی ضد ہے جس کا نہ کوئی شریک نہ ساجھی  جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ جس کی نہ قوم نہ برادری جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا پھولوں میں خوشبو اس کی دی ہوئی منظروں میں دلفریبی اس کی رکھی ہوئی چہروں میں خوبصورتی اس کی پیدا کی ہوئی میاں بیوی میں اولاد اور ماں باپ میں محبت اس کی عطا فرمائی ہوئی پھلوں میں ذائقہ اس کا دیا ہوا پتیوں میں رنگ اس کا بھرا ہوا دریاؤں میں روانی اس نے دی سورج چاند میں روشنی اس نے دی زبان کو بولنے کی آنکھوں کو دیکھنے کی کانوں کو سننے کی دل کو سمجھنے کی ہاتھوں کو پکڑنے کی پاؤں کو چلنے کی معدے کو ہضم کرنے کی طاقت اسی نے دی ہے وہ بے شمار نعمتیں ہمیں دے چکا لیکن اس کے خزانے ویسے ہی بھرپور ہیں جیسے ان نعمتوں کے دینے سے پہلے تھے ہم ان گنت نعمتیں اس سے لے چکے  لیکن ہماری محتاجی ویسی ہی ہے جیسی ان نعمتوں کے ملنے سے پہلے تھی نہ کبھی اس کی بے نیازی ختم ہو نہ کبھی ہماری محتاجی ختم ہو سب کی سننے والا گنہگاروں پر بھی شفقت رکھنے والا کسی کو اپنے در سے محروم نہ پھیرنے والا گرے پڑوں کو سہارا دینے والا ضعیفوں اور عاجزوں کی فریاد رسی کرنے والا مصیبتوں میں کام آنے والا بے موسم پھل دینے والا بڑھاپے میں اولاد دینے والا مردوں کو زندہ کر دینے والا دور و نزدیک کی سننے والا وہی ہے وہ کون ہے جو تم پر تم سے زیادہ مہربان ہے وہ کون ہے جس نے ماں کے پیٹ میں تمہاری پرورش کی وہ کون ہے جس نے دنیا میں آنے سے پہلے تمہاری خوراک ماں کے سینے میں جمع کر دی وہ کون ہے جس نے آنکھ ناک کان اور زبان تمہیں دی وہ کون ہے جو تمہیں کھلاتا پلاتا ہے سلاتا جگاتا ہے بیوی بچے دوست احباب کس نے دئیے آسمان سے پانی اتارنا زمین سے اناج ا گانا کس کے ہاتھ ہے اسی کے جس کا عرش آسمانوں پر ہے جس کا حکم ہر جگہ ہے جس کی سلطنت چپے چپے پر ہے اسی کا نام اللہ وہی رحمن ہے وہی رحیم ہے وہی رب العالمین ہے وہی عبادتوں کے لائق ہے بہت سے کام ہیں جو عام لوگوں پر مشکل ہوتے ہیں بہت سے کام ہیں جو خواص کے بس کے بھی نہیں ہوتے لیکن ایسا کوئی کام نہیں جو خدا پر مشکل ہو جو اس کے بس کا نہ ہو چھ دن میں آسمان و زمین اور کل کائنات رچادی پھر بھی نہ تھکا نہ سستایا پھر قادر ہے کہ جب چاہے انہیں فنا کر دے اور پھر قادر ہے کہ جب چاہے پیدا کردے وہی ہے جس نے اپنے نبی حضرت موسی کو ان کے زبردست دشمن فرعون کی گودیوں میں پلوایا وہی ہے  جس نے حضرت ابراہیم جیسے اپنے خلیل کو کافروں کے ہاتھوں آگ میں ڈلوایا اور پھر ایک رونگٹے پر بھی آنچ نہ آنے دی  وہی ہے جس نے بنی اسرائیل جیسی مغلوب قوم کو طاقتور اور قوی بنا دیا ان کے  بادشاہ کو مع اس کے لاؤ لشکر کے چشم زدن میں غرق دریا کردیا جسے وہ عزت دے اسے کوئی ذلت نہیں دے سکتا جس سے وہ چھین لے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا ہمارا حمد الہی کرنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے ہماری ثناخوانی گونگوں کی گویائی ہے ہمارا درود بھیجنا اپنا ہی نفع سوچنا ہے ہمارا سلام پڑھنا اپنا فرض ادا کرنا  ہے جس کی حمد و ثنا میں بے حد و بے شمار مخلوق مشغول ہوں جس کے گن گانے میں رہتی دنیا تک پاک  فرشتے مصروف ہوں بھلا اسے ہم سے عاصیوں کی کج مج زبان سے حمد کی ادائیگی کی کیا پرواہ 
الہی تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں مسلمان بنایا موحد بنایا انسان بنایا متبع سنت بنا یا الہی جو کسر اور کمی ہم میں ہے اسے بھی تو پوری کردے تیری قسم اگر تیری دستگیری نہ ہوتی تو راہ راست پر کہاں ہوتے نہ جانیں کن کن پتھروں کے آگے سر پٹختے اور نہ جانیں کس کس سے مدد طلب کرتے پھرتے اور یوں ہی جہنم کے ایندھن بن کر ھاویه میں ٹھس جاتے ہم اس زبردست نعمت پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے آنکھوں دیکھتے ہیں کہ آنکھ کان دل زبان عقل و حواس رکھتے ہوئے  کوئی بتوں کو پوج رہا ہے کوئی صلیب کے سامنے ماتھا رگڑ رہا ہے کوئی قبروں کی پتھروں کی عبادت کر رہا ہے  ہم تیرے شکر گزار ہیں اور بہت شکر گزار ہیں کہ تو نے ہمیں اپنی عبادت نصیب فرمائی
الٰہی ہمارے ہر کام میں تو رہنمائی فرما قلت سے ذلت سے بری سمجھ سے بدراہ سے حماقت سے رذالت سے تو ہمیں بچا سیدھا راستہ دکھا ہر کام کا انجام نیک کر بھلے لوگوں کی راہ ہمیں بھی چلا انبیاء مطیع نیکوں کا ساتھی بھلوں کا رفیق بنا اپنی نعمت اپنی رحمت عطا فرما اے مالک الملک خدا بدیوں سے برائیوں سے خطاؤں سے گناہوں سے بری راہ سے بد ساتھیوں سے برے ارادوں سے ناپاکیوں سے گندگیوں سے واہی  خیالات سے برے سنگھاتیوں سے شرک و بدعت سے  گناہوں اور نفاق سے کفر اور تکبر سے اپنے غضب و قہر سے گمراہی اور بدنظمی سے برے انجام سے اور نا فہمی سے کج خلقی سے اور بد کلامی سے کمینہ پن اور سفلہ پن سے ہمیں بچا اپنی حفاظت نصیب فرما ہمیں وہ توفیق دے جس سے تیری رضامندی حاصل ہو ہمیں ان کاموں سے بچا جو تیری ناراضگی کا موجب بنیں الٰہی دین دنیا میں ہمیں سرسبز  خوش و خرم رکھ دونوں جہان سنوار دے اپنی محبت میں سرشار اپنے نبی ﷺ کی حدیثوں کا تابعدار رکھ ۔ آمین یارب العالمین
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا ، کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

تارکین وطنمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

تارکین وطن
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

ایک طرف مرکزی حکومت سی اے اے کے نام پر زمانہ دراز سے رہ رہے لوگوں کی شہریت ختم کرنے کے نام پر قانون بنا چکی ہے ، دوسری طرف محکمہ وزیر داخلہ کے راجیہ منتری مرلی دھون نے پارلیامنٹ میں یہ اعداد وشمار پیش کرکے سب کو چونکا دیا ہے کہ بڑی تیزی سے ہندوستانی شہری یہاں کی شہریت ترک کررہے ہیں، ان کی اطلاع کے مطابق امسال ۲۰۲۲ءمیں ۳۱ اکتوبر تک ایک لاکھ تراسی ہزار سات سو اکتالیس (183741)لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کر دی ہے ، یومیہ حساب لگائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دن چھ سو چار (604)لوگوں نے ہندوستانی شہریت ترک کرکے دوسرے ملک کا رخ کیا، گذشتہ دس سال کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سولہ (16)لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ہندوستان چھوڑ کر دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لی ، امسال یہ تعداد دو سرے سالوں کے مقابل زیادہ ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نومبر دسمبر میں یہ تعداد دو لاکھ سے اوپر جا سکتی ہے ، شہریت اور ویزا دلانے والی مشہور کمپنی ہنری اینڈ پارٹنر س (H&P)کاکہنا ہے کہ ۲۰۲۰ءکے مقابلے ۲۰۲۱ءمیں شہریت حاصل کرنے کے لیے پوچھ تاچھ کرنے والوں میں چون فی صدی کا اضافہ ہوا ہے ۔ ہندوستانی شہریت کے تارکین میں سے چوالیس (44)فی صدی لوگ امریکہ کی شہریت اختیار کر ہے ہیں، مالدار اور کروڑ پتی لوگ سرمایہ کاری کرکے پہلے گولڈن ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ گولڈن ویزہ بعد میں وہاں کی شہریت حاصل کر لینے میں مدد گارثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں نوبل انعام یافتہ ابھی جیت بین جی، ہندی فلموں کے مشہور اداکار اکچھیہ کمار، برطانیہ میں سکونت پذیر سب سے مالدار انسان گوپی چند ہندوجا، امرت سر کی دی پِت نول کا نام لیا جا سکتا ہے، جنہوں نے غیر ملکی شہریت قبول کر لی ہے ۔
ہندوستان کی شہریت ترک کرنے کی وجہ دوسرے ملکوں میں کاروبار اور کام کے آسان شرائط ، محفوظ تجارتی معاملات بھی ہیں، ہندوستان میں دہری شہریت ؛اس لیے جو لوگ ہندوستان سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے ۲۰۰۶ءسے حکومت ہند نے اوور سیئر سیٹیزن انڈیا کارڈ (OCI)جاری کیا ہے،ا س کارڈ کے ذریعہ تارکین کو پوری زندگی ہندوستان میں رہنے، کام کرنے ، معاشی لین دین کی اجازت ہوتی ہے البتہ اسے ملکی سیاست میں انتخاب لڑنے ووٹ ڈالنے، سرکاری ملازمت یا سرکاری عہد وں پر تقرری اور غیر منقولہ جائیداد کو خرید نے کا حق نہیں ملتا۔

منگل, جنوری 03, 2023

متھلا کے انمول رتن تھے ڈاکٹر نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی

متھلا کے انمول  رتن تھے ڈاکٹر  نیلامبر چودھری۔ڈاکٹر عبدالودود قاسمی 
اردو دنیا نیوز٧٢
                   آج بتاریخ ۳/ جنوری  ۲۰۲۳ ء کو عظیم سیاسی رھنما ڈاکٹر  نیلامبر چودھری  جی کی ۸۹ ویں یوم ولادت کے موقعہ  پر ایک مخصوص  مجلس منعقد  کی گئی  جس میں دربھنگہ کے  متعدد اصحاب  علم ودانش شریک ہو کر موصوف  کی علمی سیاسی وسماجی کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے موصوف کی تصویر پر گل پوشی کرکے موصوف  کو خراج عقیدت ومحبت  پیش کرتے ہوئے ان کے کارناموں  کا ذکر کرتے ہوئے  ڈاکٹر عبدالودود قاسمی  نے کہا کہ  موصوف قانون ساز کونسل میں اپنے دور میں پورے متھلا میں تعلیمی مشعل کی لو کو تا حیات بڑھانے کے لئے متفکر اور کوشاں رہے جسے فراموش  نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شخصیت  میں سادگی وسنجید گی کے ساتھ موصوف  گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے اپنی سنجیدگی کی وجہ سے ہندو مسلمان سارے طبقات  میں یکساں مقبولیت تھی ۔واقعی میں موصوف  متھلا کے انمول رتن تھے۔ ڈاکٹر  محمد سرفراز عالم نے  کہا کہ ڈاکٹر ڈاکٹر نیلامبر بابو نے متھیلا یونیورسٹی کے قیام میں بھی  نہات اہم کردار ادا کیا، ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں پر آج بھی طلباء اور اساتذہ کے درمیان موضوع  سخن بنا ہوا ہے۔مقررین میں ڈاکٹر جمشید عالم،  ڈاکٹر غلام محمد انصاری، عامر سلفی، سہیل ظفر  صاحب، نائب صدر مسٹر رام ناتھ پنجیار، جوائنٹ سکریٹری شیلیندر کمار کشیپ، ترجمان روشن کمار جھا، مسٹر سنگھ، ایڈووکیٹ شاہد  اطہر، شامل تھے۔ جتیندر پٹیل، ایڈوکیٹ بلجیت جھا، پروفیسر مسز پریتی جھا، مسٹر وجے کمار جھا، سوربھ مشرا، ترون جھا، سمر جھا، اشوک جھا وغیرہ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

سی،ایم،بی،کالج،گھو گھر ڈیہا میں للت نارائن مشر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
 ،
اردو دنیا نیوز٧٢
 متھلا کے عظیم سپوت جناب للت نارائن مشر جی کو ان کے یوم وفات کے موقع پر این،ایس،ایس،اکائی سی ایم،بی،کالج،ڈیوڑھی گھو گھر ڈیہا، مدھوبنی میں بڑی عقیدت ومحبت سے ان کی تصویر  پر کالج کے جملہ تدریسی وغیر تدریسی ملازمین نے گل پوشی کی اس کے بعدموجود طلباء وطالبات سے این، ایس،ایس کے پروگرام افیسر ڈاکٹرعبدالودودقاسمی اور ڈاکٹر  کرتن ساہو پرنسپل  کالج نے تفصیل سے للت بابو کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی خدمات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ"للت نارائن مشر" کی پیدائش 02 فروری 1923 کو سپول ضلع کے باسوپتی گاؤں (بلوا) میں ہوئی۔  طالب علمی کے زمانہ میں ہی سیاست میں آگئے، انہوں نے 1945-48 میں پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا اور 1950 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن بن گئے۔  1972 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن چن لئے گئے ،اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں نے پارلیمانی سکریٹری، منسٹری آف پلاننگ، لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ (1957-1960) وغیرہ کے طور پر کام کیا اور 1973 سے 1975 تک ہندوستان کے وزیر ریلوے کے طور پر خدمات انجام دیں۔  غیر ملکی تجارت کے وزیر کے طور پر، نیپال بھارت کے درمیان سیلاب کنٹرول اور کوسی اسکیم میں مغربی نہر کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ۔  انہوں نے ملک اور بیرون ملک متھلا پینٹنگ (مدھوبنی پینٹنگ) کی ساکھ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔  بطور ریلوے وزیر متھلانچل میں 36 ریل پروجیکٹوں کے سروے کی منظوری دی، جھنجھار پور-لوکہا ریلوے لائن بھپٹیاہی سے فاربس گنج ریلوے لائن وغیرہ۔  اپنی مادری زبان میتھلی کے فروغ کے موصوف تا عمر کوشاں  رہے ۔  3 جنوری 1975 کو سمستی پور بم دھماکے میں ان کی موت ہوگئی۔ ایشور ان کی ا تمام کو شانتی دے۔خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں  ڈاکٹر  کیپٹن ساہو،ڈاکٹر  اجے کمار،ڈاکٹر پریم سندر،ڈاکٹر  ہری شنکر رائے،ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری،ڈاکٹر  جیتیندر کمار،ڈاکٹر سجیت کمار،ڈاکٹر  بریندر کمار،ڈاکٹر  بھاگوت منڈل،ڈاکٹر اوپیندر کمار راوت،ڈاکٹر  آلو ک کمار،ڈاکٹر  رتن کماری  جھا،دلیپ کمار،سچیدانند،ودیانندمنڈل، کے نام شامل ہیں۔

سد بابمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

سد باب
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے کہ فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹوں کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہاہو۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراءاورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہےں؛ تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔ان آیات واحادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف فتنہ وفساد سے روکا ، بلکہ اس کے رونما ہونے کی جو شکلیں پائی جاتی ہیں، ان کی بے بضاعتی کا احساس دلا کر فتنہ وفساد کے دروازے بند کر دیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...