Powered By Blogger

منگل, جنوری 10, 2023

اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی

اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،
موبائل نمبر :7909098319
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 اردو  ایک شیریں اور زندہ وجاوید زبان ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقاء کی تمام کڑیوں سے گزری ہے اور تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اور علمی اثرات قبول کرکے دنیا کی سرمایہ دار زبانوں کی صف میں شمار ہوتی ہے ۔ اس زبان کا حسن اس کی شاعری ہے، اور شاعری زبان وادب کی ترجمانی و نمائندگی کرتی ہے، اس لئے کہ شاعری کے ذریعہ زبان وبیان کی جاذبیت، چاشنی، حسن، گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کو حسن وجاذبیت کے ساتھ چند اصول وضوابط کی پابندیوں کے ساتھ اظہار و خیال کا نام ہے۔ شاعری کے ذریعہ ہمیں بیک وقت کئی پہلوؤں کا علم و اندازہ ہوتا ہے، انسان  مناظر قدرت اور اپنی تفکرات میں گم رہتا ہے، ہر انسان کا ذاتی نظریہ، ذاتی تجربہ، اور ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے۔اور اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر اس کا اظہار کرتا ہے ۔شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ معاشرے کو درست اور صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر سماج ومعاشرہ کے ان مسائل پر بھی توجہ دلاتا ہے جہاں تک ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مثبت انداز فکر رکھنے والے شعراء نے قوموں میں ہمیشہ شعور بیدار کیا۔
الطاف حسین حالی نے شاعری کی تعریف یوں کی ہے،، 
خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزوں کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔
ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو وہ گویا سحر کرتا ہے، شاعری کی زبان در اصل ساحری کی زبان ہوتی ہے جس سے ہر خاص وعام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شاعر کی زبان پورے کائنات کی زبان ہوتی ہے کیوں کہ وہ  کائنات کے حادثات کو اپنے تخیلات میں سموئے رکھ کر گاہے بگاہے اس کا اظہار کرتا رہتا ہے،چونکہ شاعری کی بنیاد قوت متخیلہ پر ہے،  شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوتا ہے شعر میں بھی وہ بلندی، گہرائی وگیرائ نظر آتی ہے،
جب کوئی شاعر اپنے وسیع وعریض تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اپنی شاعری کو حقیقی رنگ و آہنگ دیتا ہے  تو اس میں مثبت سوچ ، عادلانہ فیصلے ، حکیمانہ فلسفے ، بصیرت وبصارت اور درد و رحم جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔
 
کائنات علم و ادب میں اپنے نام اور شہرت کا ڈنکا بجانے والے شاعر کا اصل نام محمد اسرار عالم سیفی ہے ۔ آپ 16 مئ1963ء؁ کو ضلع نالندہ کے مردم خیز گاؤں اسلام پور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کا نام مولوی محفوظ عالم مرحوم ہے ۔رائے پور چھتیس گڑھ میں محکمہ جنگلات میں آپ ملازم تھے ۔ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ۔ آپ حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، بی اے، اور ایم اے، اردو زبان میں پٹنہ یونیورسٹی سے کیا،آپ کے اساتذۂ کرام میں مولانا فصیح احمد، مولانا رضا کریم، مولانا سید محمد ندوی وغیرہ کا نام ہے، آپ کے بڑے بھائی محمد سرفراز عالم مرحوم نے آپ کی تعلیم وتربیت پر کافی جد وجہد کی، جس کا تذکرہ آپ نے اپنی تصنیف میں بھی کی ہے، آپ نے جن اساتذۂ کرام کی اردو زبان وادب میں رہنمائی حاصل کی ان میں پروفیسر جمیل احمد، پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر ڈاکٹر کلیم عاجز، پروفیسر اسرائیل رضا کا نام سر فہرست ہے۔

اسرار سیفی کی حمدیہ شاعری کے چند اشعار 

اے خدا اے پاک اے رب کریم
 تیری رحمت عام ہے بخشش عظیم
 اے کہ تیری ذات نوری لم یزل
 اے کہ تو ہے خالق حکم عمل
اے کہ تو ہے مالک ارض و سما
اے کہ تو آقا ہے لولاک لما 
تیری رحمت ہے محیط بے کراں
 تیری قدرت ہے صریح کن فکاں
  تجھ سے قائم ہے جہانِ رنگ و بو
 فرش سے تا عرش مولا تو ہی تو 
ہے اطاعت میں تیری مخفی نجات
 تو ہی اک رکھتا ہے لافانی صفات
عمر بھر سیفی ہو زندہ صبر سے
کلمہ پڑھتے نکلے اپنی قبر سے۔

حمدیہ شاعری اس سعادت وبندگی کا نام ہے جس میں براہ راست بندے کا تعلق خدا سے ظاہر ہو،  اور رب کائنات کو اس کے ذاتی وصفاتی اسماء سے اس طرح پکارا جائے کہ رب کی جانب سے اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا مصداق بن جائے، اس کی عظمت وکبریائ ، رحمت و مغفرت  اور محبوبیت کا اظہار ہوجائے ، اور ہر جہت سے بندے کا اپنے معبود حقیقی سے تعلق اور رشتہ  ظاہر ہو۔ اور ان تمام باتوں کا اظہار اسرار عالم سیفی کے حمدیہ اشعار میں نظر آتے ہیں

نعت کے چند اشعار

حشر کے دن کوئی آسرا چاہیے
ہاتھ میں دامن مصطفیٰ چاہیے
یوں کسی کو بھی دارین ملتا نہیں
اسوۂ خاتم الانبیاء چاہیے

کوئی امید کسی کا نہ سہارا کہیو
اس بھری دنیا میں کوئی نہ ہمارا کہیو
ہر خوشی غم میں انہیں کو ہے پکارا کہیو
اک جھلک مجھکو بھی دکھلائیں نظارہ کہیو

کاش مجھ کو بھی شہ دیں کی محبت ملتی
قلب کو ملتا سکوں روح کو راحت ملتی
خاک پا اپنی ان آنکھوں میں لگاتا میں بھی
تیرے روضے پہ جو آنے کی اجازت ملتی۔

نعتیہ کلام کا تعلق چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت حسنہ سے ہے، نعتیہ کلام میں شاعر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کرتا ہے اور یہ اظہار محبت در اصل بندگی کا سب سے اہم تقاضا ہے، کیوں کہ اللہ رب العزت نے واضح طور پر فرمایا کہ جو نبی سے محبت رکھتا ہے وہ دراصل ہم سے محبت کرتا ہے، موصوف نے نعت کے دائرے کو مکمل ملحوظ رکھتے ہوئے کلام فرمایا ہے، عموماً شعراء کرام نعتیہ کلام میں افراط اور تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں، لیکن آپ نے اپنے کلام کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔

غزل کے چند اشعار

خودی کی فکر ہے اہل سخنوراں میں ہوں
تلاش عشق ہے منزل کہ عاشقاں میں ہوں
تخیلات کی دنیا نہ پوچھئے مجھ سے
کمند ڈالتا پھرتا میں آسماں میں ہوں

مجھ سے ایثار، وفا، عشق جنوں مانگے ہے
زندگی اور ابھی میرا ہی خوں مانگے ہے
مانگنے کا بھی ہے انداز نرالا ایسا
راز پائے نہ سمجھنے کوئی یوں مانگے ہے۔


آپ کی شاعری محض شاعری نہیں ہے  بلکہ ایک فکر ہے، ایک ایسی ذات ہے  جہاں ایک حیات پھوٹتی ہے اور کہکشاں کی قوض و قضا سے کائنات روشن کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک نیوٹرون کی حیثیت ہے اسی طرح انسان خودی کا مظہر ہے۔

عرفان وآگہی کے انا کے خودی کے ہیں
آنسو جو چشم تر میں ہیں وہ بیخودی کے ہیں
اپنے لگائے فصل کو ہی کاٹتے ہیں لوگ
جو پیش مشکلات ہیں تحفے اسی کے ہیں،

خشم آلود تیور دیکھتا ہوں
ترے ہاتھوں میں خنجر دیکھتا ہوں
نظر کا زاویہ بدلا ہوا ہے
کہاں اب کچھ بھی بہتر دیکھتا ہوں۔

اسرار عالم سیفی اصول اور فن کے لحاظ سے ایک کامیاب شاعر نظر آتے ہیں، آپ کی شاعری فن پاروں پر مکمل اترتی نظر آتی ہے، آپ نے روایتی انداز سے ہٹ کر کلام کرنے کی سعی کی ہے، آپ اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کی حقیقت اور اس کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں،

میں ستم رسیدۂ عصر ہوں مجھے زندگی کی تلاش ہے
تری حمد خوانی کی جستجو تری بندگی کی تلاش ہے،
نہ غزل بیانی کا ذوق ہے نہ تو نغمہ خوانی کا شوق ہے
جو سکھائے سوز دروں فقط اسی شاعری کی تلاش ہے ۔

یقیناً کامیاب شاعری اور بامقصد شاعری وہ شاعری ہے جو حقیقت سے بالکل قریب ہو، کیوں کہ شاعری کے مقاصد لہو ولعب نہیں بلکہ شاعری ایک پیغام ہوتا ہے،
تسلسل روانی اور سلاست کی بات کریں تو ان کے کلام میں صاف نمایاں ہیں، جب ہم کلام پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان خود بخود کلام تک پہنچ رہی ہے، 

متاع دو جہاں ہے اور میں ہوں
خدائے کن فکاں ہے اور میں ہوں
فریبِ دوستاں ہے اور میں ہوں
ہجوم دشمناں ہے اور میں ہوں،

کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا۔

آپ کے چند اشعار سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات حاضرہ سے آپ کس قدر واقف ہیں، آپ کا دائرہ محض لوح اور قرطاس تک محدود نہیں، بلکہ آپ سماج ومعاشرہ کے احوال سے کلی طور پر واقف ہیں، اور ایک شاعر کے لئے یہ جزء لازم کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ماحولیاتی کا جائزہ لیتا رہے۔

وائرس کی نئی یلغار ہے دیکھو سمجھو
زیست اور موت کی تکرار ہے دیکھو سمجھو
داستاں آج بھی خوں رنگ مناظر کے لئے
غمزدہ صبح کا اخبار ہے دیکھو سمجھو

ہوس کی آگ بڑھتی جارہی ہے
مسلسل تشنگی ہی تشنگی ہے
خرد پہ تیرگی چھائی ہوئی ہے
گناہوں میں ملوث زندگی ہے

ہے دشمن بھائی کا بھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں
ادھر کنواں ادھر کھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،
کوئی مسلک میں الجھا ہے کوئی فرقہ پرستی میں
مسیحا نہ مسیحائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،

تمہاری الفت کا دم بھروں میں یہی تو مجھ سے ہوا نہیں ہے
جفاؤں کو بھی وفا ہی کہنا تقاضا انصاف کا نہیں ہے،

معرفت کی طرح آگہی کی طرح
زندگی ہے کہاں زندگی کی طرح
رب نے بخشی قیادت تمہیں تھی مگر
تم کھڑے ہو گئے مقتدی کی طرح،

کسی کو اب کسی کی سروری اچھی نہیں لگتی
بھلا اچھا نہیں لگتا خوشی اچھی نہیں لگتی
تمہارا کام ہے غیروں سے ملنا دل لگی کرنا
ہمیں سیفی یہ طرز مغربی اچھی نہیں لگتی،

یہ اس کی سلطنت جب بیخودی میں ڈوب جائے گی
پتہ کب تھا کسی کو دو گھڑی میں ڈوب جائے گی
تقابل عالموں کا جاہلوں سے ہو نہیں سکتا
جہالت علم کی تا بندگی میں ڈوب جائے گی،

چاند تنہا آسماں تنہا
باغ ہستی کا باغباں تنہا
کل قیامت میں بھول مت سیفی 
پاس کرنا ہے امتحاں تنہا 

امید ویاس کا جو آستاں نظر آیا 
ہمیشہ مجھ سے وہی بدگماں نظر آیا 
زمین سرخ ہے ظالم کے ظلم سے سیفی 
سکوں کا کوئی بھی خطہ کہاں نظر آیا

آپ سے میری ملاقات نہیں تھی پہلے
مہرباں صورت حالات نہیں تھی پہلے
تیرے کوچے سے اب اک پل بھی نکلنا ہے کٹھن
اس قدر تنگئ اوقات نہیں تھی پہلے،

چین حاصل ہے کسے اس گردشِ افلاک میں
کتنے انساں روز ملتے جارہے ہیں خاک میں
ہے جہان رنگ وبو میں اس قدر خوف وہراس
دل نہیں لگتا ذرا بھی کوچۂ سفاک میں،

ہر ظلم ترا پیار کی سوغات لگے ہے
تو قتل کرے بھی تو کرامات لگے ہے
تیرے لب و رخسار تو حد درجہ ہیں شیریں
لیکن تری تلوار سی ہر بات لگے ہے،

کام کچھ لوگ کیا کرتے ہیں نادانی کا
اور بن جاتے ہیں اسباب پشیمانی کا
ان کی تکلیف کبھی ختم نہ ہوگی سیفی
جن کو احساس نہیں اپنی پریشانی کا،

کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا،

چاندنی رات کی معدوم ہوئی جاتی ہے
ہر خوشی نقطۂ موہوم ہوئی جاتی ہے
اہل حق خوف سے خاموش ہیں یکسر سیفی
دنیا بھی صورت معصوم ہوئی جاتی ہے،

ابھی بھی خون و خنجر سامنے ہے
تباہی کا وہ منظر سامنے ہے
سدا ہوشیار رہنا ہے ضروری
بڑا خونخوار لشکر سامنے ہے،

محبت مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں
بصیرت عالمانہ ڈھونڈتے ہیں
تعبد بھی نمائش سے ہو عاری
تکلم مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں،

کہے ہے کون ہے بے کار شاعری کرنا
بڑا مزہ ہے مرے یار شاعری کرنا
یہ سوز قلب وجگر بھی ہے ساز عقل خرد
جنون کے بھی ہیں آثار شاعری کرنا،

کیوں بپا ہے حشر سامانی نہ پوچھ
آئینہ ہوں میری حیرانی نہ پوچھ
کارواں گم ہو گئے جس موڑ پر
پھر وہی راہیں ہیں انجانی نہ پوچھ۔

اسرار عالم سیفی کی شاعری میں درس وفا بھی ہے، عشق وعاشقی کا رنگ و آہنگ بھی، جنون وبیقراری بھی ہے، سکون وقراری بھی ہے، سوز وگداز بھی ہے، زندگی کے کئ رنگ بھی ہیں۔اسرار احمد کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست اور روانی ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں عام فہم زبان‘ آسان اور سہل الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آپ تکلف تصنع اور بناوٹ سے بچتے ہیں اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، مگر انداز نہایت ہی موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔
صداقت کا پہلو آپ کی شاعری میں ہر جگہ  نظر آتا ہے۔ وہ جذبات وخیالات کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔الطاف حسین حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے خلاف ہیں۔ اور حقیقت نگاری کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت کا ہو یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ اسرار احمد سیفی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ اسرار احمد سیفی کی شاعری حسن و بیان‘ بلند تخیلات ‘ حقیقت نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و سلاست پر مبنی ہے۔ آپ نے شاعری کوقوم وملت کی اصلاح کا بڑا اور اہم ذریعہ بتایا ۔ آپ اردو زبان وادب کے  بڑے خیر خواہ، اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) انسانی ہمدردی ایک بڑی شئے ہے، خالق سے محبت وہی کرسکتا ہے جو مخلوق سے محبت رکھتا ہے، نص قرآنی وأحاديث اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) انسانی ہمدردی ایک بڑی شئے ہے، خالق سے محبت وہی کرسکتا ہے جو مخلوق سے محبت رکھتا ہے، نص قرآنی وأحاديث اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔
اردو دنیا نیوز٧٢ 
(خير الناس من ينفع الناس) (حدیث) 
"تم سے بہتر لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔"
قرآن حکیم میں خیر کو کامیابی اور فلاح کا ضامن کہا گیا ہے۔ فرمایا:
(وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (قرآن) 
"اور نیکی کرو تاکہ تمہیں فلاح و کامرانی نصیب ہو۔"
اور لوگوں کو نفع پہنچانا سب سے بڑی نیکی ہے۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد بھی خلوص محبت، اخوت و بھائی چارگی، اور ایثار پر ہی ہے ۔
سال گذشتہ کی طرح اس سال بھی ضیائے حق فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی جانب سے غریبوں اور ضرورتمندوں میں کمبل سوئیٹر تقسیم کیا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق 08/09/جنوری 2023 کو یہ خدمات مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی، قاری عبدالواجد ،قاری عبد الماجد، قاری ابو الحسن اور بھی کئی اہم شخصیات کے زیر نگرانی انجام دیا گیا،اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے بھی فاؤنڈیشن کے ممبران سمیت تمام کارکنان کا اس کاوش پر مباکبادی پیش کرتے ہوئے انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی تھی اور اسی وقت سے تسلسل کے ساتھ یہ تنظیم اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض ومقاصد علمی وادبی وثقافتی کام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج واشاعت، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا، ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کرکے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیمی اداروں کا قیام، قدرتی آفات اور اجتماعی تشدد سے متاثرین کے لئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف، فری طبی امداد، غریب طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی فیس کا نظم ونسق وغیرہ ہے ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک سینکڑوں پروگرام کا انعقاد ہو چکا ہے جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ماتحت بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک دینی ادارہ,, مدرسہ ضیاء العلوم،،اور ایک لائبریری,, ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری ،، کا قیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،
,, ضیائے حق فاؤنڈیشن کی اپیل،،

ضیائے حق فاؤنڈیشن چونکہ ایک ایسی تنظیم ہے جو ہمیشہ غرباء، فقراء، اور ضرورتمندوں کی امداد کے لئے مستعد رہتی ہے،تنظیم کے اراکین اپنی ذاتی رقم سے ہی ان فریضے کو انجام دے رہے ہیں، لیکن بڑھتے اخراجات، اور خدمات کے دائرے دن بدن وسیع وعریض ہوتے جارہے ہیں، جس بنا پر اب اراکین فاؤنڈیشن سے اخراجات برداشت نہیں ہو رہے ہیں، اسی لئے آپ اہل خیر خواتین وحضرات سے گزارش ہے کہ اپنی ، اپنے اہل خانہ ، اور اپنے مرحومین کی جانب سے سالانہ، ماہانہ، مالی تعاون ،صدقات زکوٰۃ و عطیات کی رقم ٹرسٹ کو دے کر عند اللہ ماجور ہوں ،
موبائل نمبر 7909098319
9899972265

پیر, جنوری 09, 2023

سمستی پور کالج سمستی پور کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی میں تعاون کی اپیل سمستی پور

سمستی پور کالج سمستی پور کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی میں تعاون کی اپیل 
سمستی پور
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 (پریس ریلیز) سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے سبھی اساتذہ وکارکنان کے ساتھ نئے سال کے موقع پر ایک نشست کا انعقاد کیا ۔اس نشست میں تمام اساتذہ وکارکنان  شامل رہے۔  اس موقع پر  کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی اور تعلیم کو تعلیم کو بہتر بنانے کی اپیل کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سب کے تعاون سے ہی ترقی ممکن ہے، انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اساتذہ سمیت تمام کارکنان اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔  
متھلا یونیورسٹی  کے زیر اہتمام 10/دسمبر سے شروع ہونے والے بی اے سال دوم کے امتحانات پوری شفافیت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ 9 نومبر کو آخری پرچہ لیا گیا ،سمستی پور کالج میں  امتحانات میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے جدید آلات خصوصاً موبائل فون وغیرہ پر مکمل پابندی عائد تھی ۔کالج کے کارکنان ہمہ وقت مصروفِ عمل رہیں، جس کی بنا پر کسی بھی امتحانی مرکز میں کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہیں ہوا، تعلیمی بورڈ کی جانب سے امتحانی مراکز کی سیکورٹی کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے تھے۔واضح رہے کہ امتحان کے آخری دن سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک پر مغز خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ تعلیمی دراصل انسانی فلاح کا پہلا زینہ ہے، تعلیم سے ہی ہم جہالت کا قلعہ قمع کر سکتے ہیں، انسان کو چاہیے کہ دنیا کی تمام ضروریات میں اہم ضرورت حصول علم کو سمجھے، علم ہی وہ اجالا ہے جو تاریکی اور جہالت دور کرسکتی ہے ۔اس موقع درگیش رائے نے بھی اظہار خیال  کرتے ہوئے کہا کہ امتحان در اصل تعلیمی اور تدریسی پیمائش کا نام ہے، اور امتحان ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم اگر محنت و مشقت کریں گے تو اس کا نتیجہ بھی ہم خود دیکھیں گے ۔اس کے بعد سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار کی جانب ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام گیا،  اس موقع پر تمام کارکنان موجود رہیں۔ سمستی پور کالج کے اساتذہ میں ڈاکٹر صفوان صفوی،  ڈاکٹر صالحہ صدیقی، مالا کماری، روی کمار، منہر سنگھ و دیگر اساتذہ  بھی موجود رہیں اور انھونے بھی پرنسپل صاحب کا شکریہ ادا کیا،

اتوار, جنوری 08, 2023

عامر سلیم خان ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بے باک صحافی، ہمارا سماج دہلی کے مدیر ، ادیب

عامر سلیم خان ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 بے باک صحافی، ہمارا سماج دہلی کے مدیر ، ادیب، شاعر، ناول نگار، پریس کلب آف انڈیا کے رکن ، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر مرنجا مرنج شخصیت کے مالک چودھری امیر اللہ عرف عامر سلیم خان کا 12 دسمبر 2022ءکو دن کے ایک بجے بے بی پنت اسپتال نئی دہلی میں انتقال ہو گیا ، وہ قلب کے مرض میں مبتلا تھے اور 10 دسمبر کودوسری بار انہیں ہارٹ اٹیک ہوا، تین روز قبل انہیں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا، مرض اتار چڑھاؤ آتا رہا ، وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا، اور پھر سانس کی ڈور اس طرح اتری کے وہ دوبارہ چڑھ نہ سکی، پس ماندگان میں تین لڑکے اور ایک اہلیہ ہیں، سب سے بڑا لڑکا تیرہ سال کا ہے ، تینوں لڑکے اسکول میں پڑھتے ہیں، جنازہ دن گذار کر ساڑھے آٹھ بجے شب مہدیان قبرستان میں ہوا، مولانا محمد رحمانی ڈاکرئرکٹر جامعہ سنابل نئی دہلی نے جنازہ کی امامت فرمائی اور تدفین قبرستان مہدیان میں والد محمد سلیم خان کے پہلو میں ہوئی ، جنہوں نے صرف ایک ماہ دس دن قبل جان جان آفریں کے سپرد کیا تھا۔
عامر بن سلیم خان (م 2 نومبر 2022ء) اڑتالیس سال قبل1974ءمیں موجودہ ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے ”کوہڑا“ گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد نے ان کا نام چودھری امیر اللہ رکھا تھا، ابتدائی تعلیم کے بعد جب وہ دہلی آئے تو ان کے استاذ قاری فضل الرحمن انجم ہاپوڑی نے ان کا نام بدل کر عامر سلیم خان کر دیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہو گیے، دہلی انہیں مولانا ابو الوفا صاحب لے کر آئے تھے جو ان کے گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں، دہلی میں آگے کی تعلیم کے لیے ان کا داخلہ پہلے مدرسہ ریاض العلوم میں ہوا، پھر وہ مدرسہ رحمانیہ ابو الفضل انکلیو منتقل ہو گیے، وہاں سے جامعہ رحیمہ مہدیان آگیے اور یہیں سے فراغت پائی ، صحافی بننے کے قبل تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رحیمیہ مہدیان سے کیا، رہائش بھی ان مہدیان میں تھی ، اس لیے صحافی بننے کے بعد بھی تدریس کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، ان کا حافظہ مضبوط تھا اس لیے واقعات وحادثات حافظہ کی گرفت میں جلد آجاتے تھے، انہیں اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبان سے بھی خاصی انسیت تھی، ان کے ذمہ بہت دنوں تک جامعہ رحیمیہ کے حساب وکتاب کی ذمہ داری بھی رہی ۔
 عامر سلیم خان نے صحافت کا آغاز نامہ نگار کی حیثیت سے کیا،ا نہوں نے راشٹر یہ سہارامیں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا، دو سال بعد وہ ہندوستان اکسپریس دہلی سے وابستہ ہو گیے، ہندوستان اکسپریس سے الگ ہو کر خالد انورصاحب نے جب ہمارا سماج نکالا تو وہ اس سے وابستہ ہو گیے، خالد انور کے ایم ایل سی بننے کے بعد وہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر بن گیے اور آخر سانس تک ہمارا سماج کی خدمت کرتے رہے ،ا ن کا لکھنے کا انداز ، مخصوص لب ولہجہ اور لا جواب سر خیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
 صحافت کے ساتھ انہوں نے ایک ناول بھی لکھا تھا جسے انہوں نے با خبر ذرائع کے مطابق نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کے لیے اے رحمن ایڈووکیٹ اور ارشد ندیم کو میل سے بھیج دیا تھا، جنہوں نے اس ناول کو دیکھا ہے ان کے بقول اس کی کہانی دو مدرسہ میں پڑھنے والے لڑکوں کی کہانی ہے جو گاؤں سے شہر آ کر یہاں کے ماحول میں الجھ کر رہ جاتا ہے، عامر سلیم نے اس کہانی کا پلاٹ اس طرح تیار کیا ہے کہ سیاسیات ، سماجیات ، ماحولیات، وغیرہ سب کو اس کا حصہ بنا دیا ہے اور صاف شستہ زبان کے ذریعہ نیم رومانی انداز میں پلاٹ کو آگے بڑھا کر اختتام تک پہونچا دیا ہے ۔
عامر سلیم نے شاعرانہ ذوق بھی پایا تھا، کبھی کبھی اس میں بھی طبع آزمائی کرتے اور موقع ملتا تو مجلسوں میں بھی سنا بھی دیا کرتے تھے ، صحافت میں جس طرح بے باکی کے ساتھ وہ لکھا کرتے تھے، ان کی شاعری کے موضوعات بھی اسی طرح کے ہوتے تھے، جوہر اس شخص کو چوٹ پہونچاتے تھے جس سے ان اشعار کا تعلق ہوتا، ایسے موقع سے سامعین کو’ ’اَلحَقُّ مُرّ “ سچ کڑوا ہوتا ہے کی صحیح تصویر کا ادراک ہوتا۔
صحافت میں ہر موضوع پر لکھنا، صحافی کی مجبوری ہوتی ہے ، چنانچہ ان کی تحریروں کے موضوعات بھی متنوع ہوتے تھے، انہوں نے بعض شخصیات پر بھی مضامین لکھے، ان کی تعداد اتنی تو ضرورہے کہ وہ ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیں، لیکن اسے مرتب کرے گا کون؟ ان مضامین کو جمع کرنا اور پھر اسے طباعت کے مراحل سے گذارنا بہت آسان کام نہیں ہے، احباب ورفقاءبھی فاتحہ خوانی کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ متعلقین اس کام کے لیے فکر مند ہوں، اللہ کرے عامر سلیم خان کے معاملہ میں ایسا نہ ہو۔
 جس کم عمری میں عامر سلیم خان چل بسے، اس نے ان بچوں کی کفالت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے ، یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارا سماج کے چیف ایڈیٹر جناب خالد انور ایم ایل سی نے ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ، یہ ایک اچھی روایت قائم ہوئی ہے ، اللہ کرے اس پر عمل بھی ہوجائے، ورنہ کارکن صحافی کی موت کے بعد جو ان کے خاندان کا حشر ہوتا ہے ، اس کے لیے کسی مثال اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے ، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔آمین

ہفتہ, جنوری 07, 2023

مجھے موقع ملا تو اردو زبان ضرور سیکھوں گا: ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھاردو زبان سیل ،پٹنہ کے زیر اہتمام فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کا کامیاب انعقاد

مجھے موقع ملا تو اردو زبان ضرور سیکھوں گا: ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ
اردو زبان سیل ،پٹنہ کے زیر اہتمام فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کا کامیاب انعقاد


اردو دنیا نیوز٧٢ 





پٹنہ (پریس ریلیز) آئی اے ایس بننے کےبعد ٹریننگ کے دوران میںنے اردو زبان منتخب کیا تھاجو دوران ٹریننگ ہر آئی اے ایس کے لئے کسی ایک اضافی زبان کا سیکھنا لازمی ہے۔میں نے اردو سیکھنے کے لئے بڑی محنت بھی کی تھی۔ لیکن سروس کے دوران ذمہ داریوں کے بوجھ کے سبب اردو سیکھنے کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا اور اچھی طرح اردو نہیں سیکھ سکا، جس کامجھے آج بھی افسوس ہے۔ اور یہ عزم ہے کہ آئندہ موقع ملے گا تو اردو ضرور سیکھوں گا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ ضلع مجسٹریٹ پٹنہ نے کیا۔ آج وہ کلکٹریٹ سمینار ہال میں ضلع سطحی فروغ اردو سمینار ، مشاعرہ و اردو عمل گاہ کے افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے فروغ اردو سمینار میں مقررین کے ذریعہ پیش کئےگئے خیالات اور پٹنہ ضلع میں اردو کے فروغ کے لئے کئے گئے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے اور اسے اپنی سطح سے پورا کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے جس کا تحفظ و فروغ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے پٹنہ ضلع انتظامیہ پوری طرح سنجیدہ اور سرگرم عمل ہے۔ایڈیشنل کلکٹر نوشاد احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، جسے پوری ریاست سمیت پٹنہ ضلع میںبھی پوری مستعدی سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مسائل درپیش ہیں،جنہیں ضلع انتظامیہ کے توسط سے حل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ نئی نسل کو اردو زبان سے جوڑے رکھنے کے لئے تمام سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ مشنری اسکولوں کے طلبا کو بھی اردو پڑھانے کے لئے سرکاری سطح پر حکم نامہ جاری کیا جائے اور خاص طور پر انہیں کم از کم ایک اردو ٹیچر رکھنے کی ہدایت جاری کی جائے اور اسے اسکولوں کے الحاق کی شرط بنائی جائے ۔ اسکولوں میں تعلیم سے ہی اردو آتی ہے۔ بعد میں اردو سیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اردو کی بقا کیلئے درجہ اول سے بارہویں تک سرکاری وپرائیوٹ تمام اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔
اردو زبان سیل کے انچارج افسر اشوک کمار داس نے کہا کہ مقررین نے حکومت سے جو مطالبات کئے ہیں اسے اب حکومت تک پہنچانا ہماری ذمہ داری بن گئی ہے اور ضلع اردو زبان سیل پٹنہ کلکٹریٹ کے ذریعہ حکومت تک ان مطالبات کوضرور پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ آج کی محفل انتہائی شاندار اور بے حد کامیاب ثابت ہوئی جس میں کثیر تعداد میں ارد و داںطبقہ کے سبھی عمر کے لوگوں نے کثرت سے شرکت کی ہے۔ لیکن یہ سب ایک ماہ کی مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے جن میں اسٹیج کے پیچھے کام کرنے والے اردو زبان سیل ،پٹنہ کلکٹریٹ کے عملے کی بھر پور کاوش رہی ہے۔سمینار میں مشہور و معروف ناقد اور ادیب پروفیسر توقیر عالم ، سابق پرو وائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ نے اردو زبان کی اہمیت پر اپنا گرانقدر مقالہ پیش کیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ اس موقع پر انہوں نےمطالبہ کیا کہ پٹنہ ضلع کے تمام اسکولوں میں اردو ٹیچر وںکی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ مشن اسکولوں کو بھی حکم نامہ جاری کیا جائے کہ وہ اپنے اسکولوں میں کم از کم ایک ارد و ٹیچر بحال کرے۔ سنہا لائبریری میںاردو عملے بحال کئے جائیں۔معروف سنیئر صحافی عمران صغیر نے کہا کہ اردو زبان کے تعلق سے ریاست بہار کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ حکومت کی جانب سے نہ صرف اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ اس کے فروغ اور عملی نفاذ کے لئے بھی حکومت کے محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے تحت باضابطہ اردو ڈائرکٹوریٹ قائم ہے، جس کے تحت سرکاری دفاتر میں ہم اردو کا استعمال کر سکتے ہیں۔ معروف صحافی عتیق الرحمن شعبان اردو کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کے ذریعہ بہار میں اردو کو فروغ دئے جانے کے لئے بہت ایماندارانہ و مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جس کے مثبت و بہتر نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کےباوجود چند اہم مسائل بھی درپیش ہیں جن کی نشاندہی سے یقینی طور پر حکومت و انتظامیہ کو فائدہ ہوگا۔اردو کا ایک بڑا مسئلہ اردو کی بنیادی تعلیم کا فقدان ہے۔ بیشتر سرکاری و پرائمری اسکولوں میں اردو اساتذہ نہیں رہنے کے سبب اردو کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اس لئے اردو اساتذہ کی بحالی کے لئے ماضی کی طرح ایک بار پھر خصوصی انتظام کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے حکم نامہ کی روشنی میں بہار کے مختلف جگہوں پر نیم پلیٹ ، سائن بورڈ و دیگرسرکاری دفاتر و عمارتوں پر محکمہ کا نام اردو میں لکھے جا رہے ہیں لیکن ابھی بھی بہت سی جگہوں پر اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے جس پر جلد عمل درآمد کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر شبانہ پروین صدر شعبہ اردو ویشالی مہیلا کالج، حاجی پور ، محترمہ ثریا جبیں سنیئر صحافی دودرشن و آکاشوانی، پٹنہ اور محترمہ سمیہ فاطمی ادیب و ٹیچر نے بھی اردو کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نئی نسل میں اردو کے تئیں محبت اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے مقصد سے اسکول کے طلبا و طالبات کی تقریر کا بھی ایک حصہ مختص تھا جس کے تحت اردو زبان کی اہمیت پر مختلف اسکولوں کے گیارہ طلبہ و طالبات نے تقریر یںپیش کیں۔ بہترین پیش کش کے لئے مہ جبیں ( نجم ہائی اسکول)معاذ اقبال اور ماریہ فہیم( الحرا پبلک اسکول، شریف کالونی، پٹنہ) ،محمد شہباز( مسلم ہائی اسکول)، ثانیہ صبا ( ایوب گرلس ہائی اسکول، پٹنہ) کو نقد انعامات کے ساتھ توصیفی سند سے نواز ا گیا جب کہ دیگر طلبہ و طالبات کو بھی ڈی ایم پٹنہ کے ہاتھوں سرٹیفیکٹ دیا گیا۔محفل سخن کے تحت شاندار شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں شعراء حضرات نے اپنے خوبصورت کلام کے ذریعہ سامعین کو محظوظ کیا۔ محفل سخن میں خالد عبادی، ممتاز رعنا، نصر بلخی، ارون کمار آریہ، معین گریڈیہوی،رشمی گپتا، ڈاکٹر نعیم صبا، وارث اسلام پوری، میر سجاد، نصرت پروین شریک تھیں۔اس موقع پر معروف بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی کو شال پیش کرکے عزت افزائی کی گئی۔ضلع سطحی فروغ اردو سمینار و مشاعرہ کی نظامت ڈاکٹر نور السلام ندوی نے بحسن و خوبی انجام دی۔شکریہ کی تجویز اشوک کمار داس ،انچارج افسر اردو زبان سیل نے پیش کی۔پروگرام کو کامیاب اور با مقصد بنانے میں محمد نیاز،یحییٰ فہیم، شکیل احمد،فیاض، وسیم کرام، مصباح الجہاں کامنی، نغمہ،وسیم احمد،غلام سرور،شفیع احمد، شکیب ایاز،ڈاکٹر شاذیہ کمال، ڈاکٹر نعمت شمع، ڈاکٹر یاسمین خاتون، رحیمہ ناز، محمدذو الفقارعلی،محمد آصف، نشاط پروین وغیرہ نے نمایاں کردار ادا کیا۔مولانا حامد حسین ندوی، ڈاکٹر رحمت یونس ،حسیب الرحمن انصاری ،ڈاکٹر فہیم احمد، ڈاکٹر جاویداختر،عارف اقبال عبد الباقی، عدیل احمد ،امام الحسن قاسمی،ضیاء الحسن ،ڈاکٹر انوار الہدیٰ، ڈاکٹر افشاں بانو،معصومہ خاتون، سعید احمدوغیرہ سمیت متعدد اہم شخصیات تقریب کی کامیابی کا حصہ بنے۔

تفہیم وتنقید ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ محمد فرحت حسین

تفہیم وتنقید ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
محمد فرحت حسین (ولادت 5 جنوری 1958ء) بن سید علی مرحوم اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل کے نام سے زیادہ متعارف ہیں، ڈبل ایم اے بی ایڈ کیا ہے، جائے پیدائش برہ بھاگلپور ہے، لیکن بسلسلہ ملازمت ضلع اسکول ہزاری باغ سے منسلک ہوئے تو یہیں کے ہو کر رہ گیے اور اب سبکدوشی کے بعد پورا وقت ادب وتنقید اور شاعری کو دے رہے ہیں، محبت وتعلق میری غائبانہ ہی تھی، لیکن اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر 13اکتوبر 2022ءمطابق 16ربیع الاول 1444ھ بروز جمعرات امارت شرعیہ تشریف لائے اور مولانا سید محمد عثمان غنی پر اپنا کلام پڑھا تو لوگ متاثر ہوئے، غالبا دو شب قیام رہا اور اس قیام کے دوران قسطوں میں میری کئی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ امارت شرعیہ کے کاموں سے متاثر ہو کر واپس ہوئے، جاتے وقت میں نے اپنی کچھ تصنیفات حوالہ کی تھی اور آتے وقت وہ اپنی تصنیفات مقالات خوش دل ، تنقیدات خوش دل، نقوش خوش دل اور تفہیم وتنقید میرے لیے لیتے آئے تھے، اب تک ان کی دس کتابیں ایوان نعت (مختلف نعت گو شعراءپر مضامین )الحمد للہ( مجموعۂ حمد ومناجات، سمعنا واطعنا (مجموعۂ نعت پاک)، وجد ان کے پھول (مجموعۂ غزل) تنقیدات خوش دل (تنقیدی مضامین) پشپانجلی (بزبان ہندی)، انتخاب کلام بی ایس چیت جوہر اور نقوش خوش دل طباعت کے مرحلہ سے گذر کر مقبول ہو چکے ہیں، 2009ءمیں پہلی کتاب آئی تھی، اور 2022ءمیں ان کی آخری کتاب نے قارئین کے دلوں پر دستک دینے کا کام کیا ہے، وہ جو تخلیق انسانی کا دورانیہ شریعت نے چھ ماہ سے دو سال تک مقرر کر رکھا ہے ، ان کی کتابوں کے مجموعے بھی اسی انداز میں آئے ہیں، بعضے اس دورانیے سے کم میں وجود پذیر ہو گیے، مثلا 2019ءمیں تین کتابیں منظر عام پر آئیں، یہ تو مقررہ میعاد سے کم میں آگئیں، ہو سکتا ہے الگ الگ نہ آکر جڑواں آگئی ہوں، تو کسی کو اعتراض کا کیا حق ہو سکتا ہے، 2010ءمیں دو کتابیں آئیں، چھ چھ ماہ کا دورانیہ چلے گا، اس کے بعد 2014ء، 2016۶، 2017اور 2022ءمیں جو کتابیں منصہ
شہود پر جلوہ گر ہوئیں، ان کا وقفہ مناسب ہے۔ اب 2022ءختم ہوا  اور قارئین کو انتظار ابھی سے ”ایک لٹھ مار ناقد علامہ ناوک حمزہ پوری“ اور تفہیمات خوش دل کا انتظارہے، دیکھیے یہ کتابیں ہماری آنکھوں کوکب روشن اور دل کو شاد کرتی ہے، خوش دل شاعری میں ناوک حمزہ پوری کے شاگرد ہیں اور 1975ءسے اب تک جو کچھ ان کا شعری سرمایہ ہے، ان میں استاذ کی اصلاح اور توجہ کا بہت ہاتھ رہا ہے ، اس لیے کتاب کا نام” لٹھ مارنا قد“ تو مجھے بالکل پسند نہیں آیا، یہ استاذ کے حوالہ سے سوئے ادب بھی ہے اور لٹھ کی ٹھ تنافر حروف میں سے ہے، اس لیے سماعتوں پر گراں بار بھی معلوم ہوتا ہے ۔
مختلف اداروں کی طرف سے وہ بہتر استاذاور تاجدار سخن کا اعزاز پا چکے ہیں، حمد ونعت اکیڈمی نئی دہلی کی مجلس منتظمہ اور ہزاری باغ کی حمد ونعت اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ہیں، اس حوالہ سے ان کی خدمات ابھی جاری ہیں، ناوک حمزہ پوری نے اردو شعر وادب کا برق رفتار فنکار ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل نامی کتاب بھی ان پر تصنیف فرمائی ہے ، یہ استاذ کا اپنے شاگرد کے تئیں بے پناہ محبت کا صدقہ ہے ، ورنہ ان دنوں اساتذہ اپنے شاگردوں پر لکھنا کسر شان سمجھتے ہیں، حالاں کہ شاگرد جس قدر بھی بڑا ہوجائے اس کی بڑائی بڑی حد تک استاذ کے کاندھوں کی ہی رہین منت ہوتی ہے ،ا س کے علاوہ ماہنامہ قرطاس ناگپور نے خوش دل نمبر نکال کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ۔
تفہیم وتنقید خوش دل صاحب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، اس مجموعہ میں کل بیس (20)مضامین ومقالات ہیں، ایک مضمون اردو مرثیہ گوئی کو ایک تنقیدی نظر فن مرثیہ گوئی کی تاریخ ، تحقیق اور تنقید پر مشتمل ہے، اس مضمون میں مصنف نے بعض ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں، جن کی طرف نقادوں کی توجہ گئی نہیں ہے ، یاگئی ہے تو اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکا ہے، اس مقالہ کو پڑھ کر خوش دل کے مطالعہ کی گہرائی ، گیرائی اور تنقیدی کاوش کا پتہ چلتا ہے، اس کے علاوہ جو مقالات ہیں، وہ مختلف شعراءادباءحضرات کی شخصیت ان کی شاعری اور ان کی خدمات پر تنقیدی نظر ہے، اس درجہ بندی سے چاہیں تو ایک اور مقالہ علامہ شبلی نعمانی کے کارنامے کو الگ کر سکتے ہیں، جن شعراءپر گفتگو کی گئی ہے ان میں رفیق شاکر ،ا بو البیان حماد عمری، سید احمد ایثار ناطق گلاوٹھی، ناوک حمزہ پوری، طرفہ قریشی، سید احمد شمیم، اوج اکبر پوری، رند ساگری، اسد ثنائی، محمد ارشد، معین زبیری، اسحاق ساجد ، ایس ایچ ایم حسینی، طہور منصوری، ناز قادری، شرافت حسین، منیر رشیدی، گلشن خطاتی کشمیری کے فکر وفن ، ترجمے، تنقیدی شعور وغیرہ کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس فہرست کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرحت حسین خوش دل نے نئے اور پرانے قلم کاروں اور ان کی کتابوں کو موضوع تفہیم وتنقید بنایا ہے، ایک درجہ بندی معروف اور غیر معروف کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے ، چند ایک کو چھوڑ کر بیش تر غیر معروف ہیں، نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی خوش دل کے دل کو راس آتی ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد جو نسل شعروادب کی مشاطگی کے لیے آ رہی ہے، ان کے حوصلے بلند کیے جائیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی جا ئے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوش دل نے بے جا تعریف وتوصیف اور مدح وستائش سے کام لیا ہے، ایسا وہ عموما نہیں کرتے، بلکہ یک گونہ اسے وہ نا پسند کرتے ہیں، خوش دل نے جو کچھ لکھا ہے، پڑھ کر لکھا ہے، ممکن ہے ان کے مقالات کے بعض جزو سے آپ اختلاف کریں اور بعض کی تعریف وتوصیف پسند نہ آئے، لیکن ان کے خلوص پر شبہ کی گنجائش نہیں، تشکیلات سے متاثر ہو کر پر انہوں نے نعت کی جمع نعوت استعمال کی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ نعت کی جمع مکسر مستعمل نہیں ہے، جمع سالم ہی استعمال ہوتا رہا ہے ۔
 ایک سو نوے صفحات کی قیمت پانچ سو روپے اردو کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، خوش دل جیسے لوگ تو خرید سکتے ہیں، لیکن جن کی تنخواہ بھی ان کی پنشن سے کم ہے وہ اس کتاب کو اٹھا کر للچا کر چھوڑ دیں گے ، کیوں کہ ان کی قوت خرید ان کا ساتھ نہیں دے پائے گی۔ کتاب ملنے کے چار پتے درج ہیں، ہزاری باغ میں ہیں تو فرحت حسین خوش دل سے بلا واسطہ لے لیجئے، پٹنہ میں رہتے ہوں تو بک امپوریم سبزی باغ جائیے، بھاگلپور میں نیو کتاب منزل تاتار پور جا کر آپ کی مراد پوری ہو سکتی ہے ۔ طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے ، معیاری ہے، کورتجریدی آرٹ کا نمونہ ہے،لیکن ایسا معمہ نہیں کہ رنگوں کی پُتائی کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہ آئے، مرغی کا پر جو قلم کے طور پر دوات میں ڈالا ہوا ہے، اور کتاب کا ورق کھلا ہوا بھی دکھنے میں آجاتا ہے۔ آپ بھی پڑھ کر لطف اٹھائیے، اور ان شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور فکر وفن سے قلب ودماغ کو مجلیّٰ کیجئے۔

جمعہ, جنوری 06, 2023

ایک عدد نسیم چاہیےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۵/جنوری ۲۰۲۳ء

ایک عدد نسیم چاہیے
اردو دنیا نیوز٧٢ 

یہ خبر ہم اہالیان ارریہ پر بجلی بن کر گرگئی کہ حضرت مولانا نسیم الدین صاحب چیرہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے،عمر کی نو دہائیاں پار کر کےآخری سانس مشہور معالج جناب ڈاکٹر ارشد صاحب کے یہاں چھوٹ گئی،انا للہ واناالیہ راجعون،
                       ایک روشن دماغ تھا نہ رہا 
                   شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
  مولانا مرحوم پچھلے کئی سالوں سے اپنی پیرانہ سالی اورضعیفی کے سبب سفر واسفار سے گریز فرما رہے تھے، باوجود اس کے زندگی وزندہ دلی دونوں کا مکمل ثبوت پیش کرتے رہے،بصیرت وبصارت آخری دم تک سالم رہی، علاقہ کےنوجوان مقررین وشعراءملاقات کے لئے جب بھی حاضر ہوتے،مولانا ان کی رہنمائی فرماتے ،حوصلہ بڑھاتے، گر کی باتیں بتاتے ،اپنی روشن دماغی سے چند جملوں میں بہت سی باتیں کہ جاتے، سامنے والے خطیب یاشاعر کو ایک نیا عنوان مل جاتا،یا اپنی اصلاح کی کوئی بات سمجھ میں آجاتی، خود کی سرگرمی اور زندگی بڑی قیمتی معلوم  ہوتی ،ایک شاعرعشق رسول میں ڈوب کراشعار پڑھنے کی کوشش کرتا، اورایک خطیب کی تقریر بھی وعظ کے رنگ وآہنگ میں ڈھل کر ایک تحریک بن جاتی، یہ رہنمائی کا کام  مولانا مرحوم کاایک بڑا علمی احسان ہے،باری تعالٰی اجر جزیل عطا کرے، آمین 
          جن سے ملکر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
    آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ہوتے تو ہیں

    مولانا مرحوم کی پوری زندگی عالمانہ رہی ہے اور دعوت دین میں بسر ہوئی ہے،مدرسہ اسلامیہ جوگندر میں صدرالمدرسین کے عہدےپررہتے ہوئے بھی پورے علاقے کی فکر دامنگیر رہی،پھر جب سبکدوش ہوگئے تو خودکو وعظ ارشاد کے لئے وقف ہی کردیا، سنت وشریعت کے مکمل پابند اور بےشمار خوبیوں کے آپ حامل رہے ہیں، مگر ان تمام خوبیوں میں آپ کی بلا کی سادگی و خاکساری سب سے زیادہ نمایاں اور ضرب المثل رہی ہے، واقعی بقول معروف ناظم اجلاس جناب قاری نیاز صاحب قاسمی کے کہ "حضرت نمونہ اسلاف تھے "،علاقے میں چھوٹے  دینی مجالس ہوں ہو یا بڑے اجلاس مولانا کے بغیر منعقد نہیں ہوا کرتے، باوجود اس کے کبھی عجب وخود پسندی  نے آپ کو چھوا تک نہیں ہے، بس جلسہ کہاں ہے؟ یہ معلوم ہونا چاہیے، خود روانہ ہوجاتے اور بروقت جلسہ گاہ میں حاضر ہوجاتے،عموما پیدل سفر کرتے، ہاتھ میں ایک تھیلاہے،لنگی وکرتا زیب تن کئے ہوئے ہیں،تن تنہا رخت سفر باندھ لئے ہیں، سیدھے جلسہ گاہ پہونچ گئے ہیں،جہاں جگہ ملی بیٹھے ہیں، اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں،خطاب ہوا، دسترخوان پر جو کچھ ماحضر ملا تناول فرمالیا،بلکہ بقول مفتی حسین احمد ہمدم کے "حضرت کی بہترین ڈش جنگلی ساگ اور دوروٹیاں تھیں"
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
رب لم یزل ولایزال نے مولانا کو اپنی بات کہنے کا بڑا ملکہ دیا تھا، بہت ہی سہل انداز میں ہر فرد بشر تک اپنی بات پہونچادیتے ،ایک کم پڑھا لکھا ہی نہیں بلکہ ان پڑھ آدمی بھی آپ کا مخاطب ہوتا ،اور مکمل پیغام لیکر اجلاس سے گھر جاتا، یہی وجہ تھی کہ عورتوں میں مولانا بہت مقبول رہے ہیں، وہ گھر گرہستی کی باتوں کو شرعیت اسلامیہ کی روشنی  پیش کیاکرتے، عموما منتظمین اجلاس کی بھی یہ خواہش ہوتی کہ حضرت مستورات کے لئے خصوصی خطاب فرمائیں،بڑی خوبصورتی سے آپ انہیں خطاب کرتے اور ساس، سسر، شوہر، ماں، باپ اور رشتہ دار، نماز، روزہ، زکوٰۃ،دین کی بنیادی ضروری معلومات ان تک پہونچادیتے،ایسا محسوس ہوتا کہ دل سے نکلی ہوئی ساری باتیں پورےمجمع کے قلب وجگر میں اتر گئی ہیں، لیکن آج ہائے افسوس!!
      لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں 
     اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مرجاتے ہیں 
آج مولانا کےوصال کے بعد سب سے بڑا خلا یہی پیدا ہوا ہے، مقررین کی ایک بڑی تعداد ہے،تقریر زبردست ہورہی ہے،مگرآدھی آبادی اجلاس سے مایوس اپنے گھروں کوخالی اور محروم جارہی ہے، انہیں ایک عدد نسیم چاہیے.
    باری تعالی حضرت والا کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازدے، جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے، اور ہمیں نعم البدل عطا فرمائے، آمین، ایں دعا از من وجملہ جہاں امین باد
                جانے والے کبھی نہیں آتے 
             جانے والوں کی یاد آتی ہے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۵/جنوری ۲۰۲۳ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...