Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 21, 2023

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مولانا محمد مکرم حسین ندوی بن مولانا معظم حسین قاسمی کا تعلق علمی خانوادے سے ہے، اس خانوادہ کی علمی خدمات کا دائرہ متنوع بھی ہے اور وسیع بھی، خود مولانا محمد مکرم حسین ندوی اچھے حافظ قرآن ، بہترین نثر نگار، اور اچھے شاعر ہیں، انہوں نے جامعہ رحمانی مونگیر ، جامعہ عربیہ باندہ ، جامع العلوم پٹکا پور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کسب فیض کیا ہے، اور ان اداروں اور یہاں کے اکابرین کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، عالمانہ وقار، داعیانہ کردار اور سماج میں علم کو پھیلانے کی جد وجہد میں لگے رہے ہیں ان کی اس جد وجہد کا مرکز ان دنوں ماڈرن ویلفئیر اکیڈمی خان مرزا سلطان گنج پٹنہ ہے، وہ ابو البیان، ابو الکلام تو نہیں ہیں، لیکن ابو العمل ہیں، خاموشی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، شور وغوغا، جلسے جلوس اور ہنگامی زندگی کو پسند نہیں کرتے ، سنجیدگی مزاج میں ہی نہیں چال ڈھال ، بود وباش سبھی میں ہے، اتنی سنجیدگی کہ کبھی کبھی خشکی کا احساس ہوتا ہے، سنجیدگی کا غیر معمولی غلبہ ہوتا ہے، اس لیے ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے زیادہ نہیں کھلتے، شاید یہ کیفیت ان کے اوپر ان کے صاحب زادہ با بو حذیفہ کے انتقال کی وجہ سے ہوا ہو ، اس زخم جگر نے انہیں باضابطہ شاعر بنا دیا ، اس سانحہ اور حادثہ کی کہانی مولانا موصوف کی پہلی کتاب ’’کار نامۂ حیات‘‘ اور ’’زخم جگر‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔
’’موجودہ کشمکش کا حل او رمتنوع شعری مجموعہ‘‘ ان کی دوسری تصنیف ہے، جس کے صفحات ایک سو ساٹھ ہیں او رقیمت سو روپے زائد نہیں ہے، کمپوزنگ ان کی صاحب زادی صالحہ فردوس نے کی ہے، طباعت ایجوکیشنل پبلیکیشن نئی دہلی سے ہوئی ہے، آپ اسے پٹنہ کے مختلف مکتبوں او رمرکز سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آسانی سے ملنے کے لیے ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی سلطان گنج پٹنہ ، یا موبائل نمبر 9801266615 سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ نثری مضامین کے لیے اور ایک حصہ شعری ہے، جو نعت پاک، قصیدے، ترانے، سپاس نامے اور مرثیوں پر مشتمل ہے، چند اشعار کی ایک نظم احقر کے بارے میں بھی اس کتاب میں شامل ہے، اردو کے نام پر اور الیکشن کے احوال پر بھی ایک نظم شامل کتاب ہے، آخر میں قطعہ اور مناجات سے بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
نثری حصہ کا آغاز انتساب سے ہوتا ہے جو روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر ہے ، آپ روایتی انداز کے انتساب کی تلاش کرنا چاہیں تو مایوسی ہاتھ لگے گی،البتہ مصنف نے اس انتساب میں تصنیف کتاب کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں: 
’’موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت کا علاج وحل ڈھونڈھنا اور بتانا وقت کی اہم اور اشد ضرورت سمجھتے ہوئے حصول دنیا کے تذکروں اور تبصروں میں گم خدائے واحد اور رب کائنات کو کھل کر قرآن وسنت سے دور، قوت ایمانی اور غیر ت اسلامی سے محروم لوگوں کا رخ اس طرف موڑنا ضروری تھا کہ موجودہ کشمکش کا حل حدیث وقرآن پر عمل ، قوت ایمانی میں اضافہ ، اللہ سے دور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ایک پیراگراف پورے ایک جملہ میں سما گیا ہے، مقصد تصنیف کی پوری وضاحت ہو گئی، عموماطویل جملوں کی وجہ سے تعقید پیدا ہوجاتا ہے،ا سی لیے مختصر جملوں کا چلن آج عام ہے، لیکن جن معنی کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 کتاب کے نثری حصہ میں کل اکسٹھ (۶۱) مضامین ہیں اور تین نعتیں، ہوسکتا ہے ان میں اور نعتوں کا اضافہ ہو، یہ نعتیں نثری حصہ میں برکتاً اور تیمناً شامل ہیں، شعری حصہ میں دوسری تین نعتوں کو شامل کیا گیا ہے، مضامین میں بڑا تنوع ہے، جس طرح شعری حصہ میں تنوع ہے، بات قرآن کریم سے شروع کی گئی ہے، اللہ کی بندگی کے تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے، سیرت رسول سے دوری کو زوال کا سبب بتایا گیا ہے، دشمن کو شکست دینے کے فارمولے کا ذکر ہے، مساجد کے انہدام پر رجائیت بھری تحریر ہے اور کئی مضامین اس حوالہ سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی قدرت سے اپنے گھر کی تعمیر کرائیں گے ، مساجد توڑنے کے عوض لا تعداد مسجدوں کی تعمیر ہوئی ہے، مؤمن کامل بننے، تعلق مع اللہ پیدا کرنے، عمل وکردار سے اسلام کی اشاعت پر زور دیا گیا ، مجموعی طور پر جو مضامین ہیں، ان میں موجودہ کشمکش کے حل کے طور پر دین وایمان پر ثبات، اللہ پر بھروسہ کو ضروری اساس قرار دیا گیا ہے، مولانا نے حالات کا تجزیہ اپنی بصیرت اور تجربہ کی روشنی میں کیا ہے ، جو دلوں کو اپیل کرتا ہے ، اور عمل پر ابھارتا ہے۔
 شعری حصہ بھی سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے، بعض اشعار میں تخیل کی رفعت بھی ہے اور فکر کی ندرت بھی بہتر تو یہی ہوتا کہ نثری اور شعری حصہ الگ الگ کتاب کی شکل میں ہوتا ، کیوں کہ موجودہ دور مین یہ اختلاف مقبول نہیں ہے، لیکن مولانا کی اپنی کچھ مصلحت ہوگی، جو راقم الحروف نہیں جانتا، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو ملت کے لیے مفید بنائے اورمولانا کو فکر وخیال کے گلستاں آباد کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین یا رب العالمین

جمعہ, جنوری 20, 2023

تذکرہ مخدومان منیر __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تذکرہ مخدومان منیر __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
خانقاہوں نے اصلاح ظاہر وباطن ، تزکیۂ نفوس اور روحانی تربیت کے میدان میں پوری دنیا میں عموما نیز بر صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں خصوصا بڑا کردار ادا کیا ہے، خانقاہ سے منسلک ان بوریہ نشینوں ، سجادگان، اور صوفیاءکرام نے رب سے قریب کرنے اور دلوں کو جوڑنے کی مثالی اور انتھک جد وجہد کی جس کے اثرات اس قدر مرتب ہوئے کہ یہ مراکز بلا تفریق مذہب وملت مرجع خلائق بن گیے، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بڑھیا حلوہ بنا کر لائی اور اصرار کرنے لگی کہ میں تو اسے کھلا کرہی جاؤ گی، حضرت نے بڑھیا کی خواہش کا احترام کیا اور حلوہ کھالیا، بڑھیا کے جانے کے بعد مریدوں نے اس طرف متوجہ کیا کہ حضور آپ کا روزہ تھا، فرمایا : روزہ نفلی تھا اس کی قضا ہوجائے گی، لیکن یاد رکھو، دل کے ٹوٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے۔
 اسی طرح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک معتقد نے آپ کی خدمت میں قینچی پیش کی ارشاد فرمایا: فقیر کے یہاں قینچی کا کیا کام ، مجھے سوئی دھاگہ لا کر دو، وہ میرے کام کا ہے، اس لیے کہ میں توسِینے اورجوڑنے کا کام کرتا ہوں تو ڑنے اور کاٹنے کا نہیں۔
 خانقاہ میں جو کام ہوتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ”احسان“ کہتے ہیں اور عرف عام میں تصوف وطریقت، یہ وہ کام ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان کو اللہ رب العزت کا استحضار اس قدر ہوجاتا ہے کہ ہر عبادت کے موقع سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، اگر اس مقام تک نہیں پہونچ پاتا تو کم از کم اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دیکھ رہا ہے، حدیث جبریل میں زبانِ رسالت سے یہ مذکور ہے کہ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم انہیں دیکھ رہے اگر ایسا نہ ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہاہے۔
اللہ سے ایسی قربت پیدا کرنے اورسوئے حرم لے جانے کے لیے بہار میں بھی بہت ساری خانقاہیں قائم ہیں، ان خانقاہوں میں ایک قدیم اور بڑی خانقاہ ، خانقاہ منیر شریف ہے، جس نے سینکڑوں سال سے طریقت کی بساط پر رجال سازی کا کام جاری رکھا ہے ، اس کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری ہیں، جو سجادہ نشیں کے ساتھ ساتھ متولی ودیوان درگاہ خانقاہ منیر شریف بھی ہیں۔اسی خانقاہ اور خانوادہ کے گل سر سبد معروف عالم دین مولانا تقی الدین ندوی فردوسی مدظلہ العالی ہیں جن کے فیوض وبرکات ، شفقت ومحبت سے بندہ بھی پٹنہ میں مستفیض ہوتا رہتا ہے۔
”تذکرہ مخدومان منیر “ حضرت صاحب سجادہ مدظلہ کی قابل قدر ولائق تحسین تصنیف ہے، جسے جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف نے مرتب کیا ہے ، کتاب میں حضرت امام تاج فقیہ کے سلسلے کے اکابر اور سجادگان کے حالات زندگی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تاریخ بھی ہے، تذکرہ بھی ہے، تحقیق بھی ہے اور سلاسل سے متعلق معلومات کا ذخیرہ بھی ، اس نام میں تذکرہ کا لفظ دیکھ کر بے ساختہ مجھے موجودہ سجادہ نشیں کے والدحضرت سید شاہ نور الدین فردوسی منیری رحمة اللہ یاد آگیے، جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی کتاب ”تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی“ پیش کی تو فرمایا کہ آپ کے تواضع نے اس کتاب کو ”تذکرہ“ بنا دیا، ورنہ یہ تو ویشالی کی پوری تاریخ ہے، اس کتاب کے نام میں ”تذکرہ“ کا لفظ بھی کچھ ایسا احساس دلاتا ہے، لیکن میں صاحب سجادہ کو یہ کہنے کی پوزیشن میں اپنے کو نہیں پاتا۔
 یہ قیمتی تاریخی مرقع چھ ابواب پر مشتمل ہے اور قدیم طرز کے مطابق ہر باب کے ذیل میں چند فصول ہیں، پہلا باب ابتدائیہ، تشکر وامتنان ، تہدیہ وانتساب کے بعد شروع ہوتا ہے، جس میں دس فصلیں ہیں اور ان فصلوں کے ذیل میں تصوف کے تعارف، اشتقاقات، اصطلاحات، مقاصد ، حقائق ، اصحاب تصوف ، کتب تصوف، تعلیمات اور سلاسل تصوف کا تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا گیاہے ، اس باب میں مصنف کی محنت سے بڑے مفید مضامین جمع ہو گیے ہیں، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، گو مصنف نے اسے مقدمہ کا نام نہیں دیا ہے ۔
بابِ دوم امام تاج فقیہ اور منیر شریف کے عنوان سے ہے ، اس باب میں منیر شریف کی تاریخ ، مقدس بار گاہیں، مزارات ، مسجدیں، وہاں کے شہدائ، صحبت میلہ ، منیرکامشہور لڈو اور بزرگوں کے اعراس پر تاریخی حقائق، سلیقہ سے آٹھ فصلوں کے ذیل میں مذکور ومندرج ہیں ، اور کہنا چاہیے کہ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔
 بابِ سوم امام تاج فقیہ اور خانقاہ منیر شریف کے نام ہے، چوں کہ اس خانقاہ کی بنیادمیں امام تاج فقیہ ہیں؛ اس لیے اس باب میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ آیا ہے، لیکن اصلاً یہ باب خانقاہ منیر شریف کی تاریخ ، نادر تبرکات ، دوسری خانقاہوں سے اس کے تعلقات، امراءوسلاطین کی حاضری، جنگ آزادی میں خانقاہ منیر شریف کا کردار اور خانقاہ کے بزرگوں کے اعراس وتذکرہ پر مشتمل ہے، چھ فصلوں کے ذیل میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔
 اس تاریخی سلسلے کے ذکر کے بعد کتاب میں دوباب تذکرہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، چوتھے باب میں امام تاج فقیہ اور ان کے خانوادہ کا تذکرہ مرقوم ہے، جس میں ان کی ملی ، مذہبی ، تعلیمی دینی خدمات اور تصوف کے اعتبار سے ان حضرات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب بھی چھ فصلوں پر مشتمل ہے، جس مین بانی خانقاہ امام تاج فقیہ، ان کے تین صاحب زادگان مخدوم اسرائیل ، مخدوم اسماعیل اور مخدوم عبد العزیز رحمہم اللہ کے ساتھ امام تاج فقیہ کے پوتے مخدوم یحیٰ منیریؒ اور پرپوتے مخدوم شرف الدین بن یحیٰ منیریؒ کے احوال وآثار اور طریقت کے باب میں ان کی زریں خدمات کا تذکرہ بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے، یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت مخدوم شرف الدین احمدیحی منیری ؒ کی ولادت منیر شریف خانقاہ ہی کے احاطہ میں ہوئی تھی، آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے، اور زیارت کے لیے لوگوں کی وہاں کثرت سے آمد ورفت رہتی ہے۔
تذکرہ کا دوسراحصہ اور پانچواں باب خانقاہ منیر شریف کے سجادگان کے تذکروں پر مشتمل ہے، جس میں حضرت امام تاج فقیہ ہاشمیؒ سے لے کر موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری مدظلہ کے سوانحی کوائف اور خدمات کا مرقع پیش کیا گیا ہے، جس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ”ایں خانہ ہمہ آفتاب“ است۔
 کتاب کا آخری باب ”مناقب مخدومان منیر“ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس میں کل آٹھ فصلیں ہیں، ہر فصل میں سلسلہ کے ایک بزرگ کے احوال وآثار، خصائص وتفردات اشعار میں بیان کیے گیے ہیں، اس باب میں قصیدہ منیر شریف ، منقبت امام تاج فقیہ، مخدوم یحیٰ منیری ، مخدوم شرف الدین ابن یحیٰ منیری، مخدوم دولت شاہ منیری، مخدوم عنایت اللہ فردوسی منیری ، مخدوم نور الدین منیری رحمہم اللہ اور موجودہ سجادہ نشیں کے عنوان سے شاعر نے اپنے جذبات وخیالات ، مشاہدات واحساسات کو اشعار میں بیان کیا ہے۔ یہ ساری منقبت اور قصائد اس کتاب کے مرتب جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف کے فکروفن کا نتیجہ ہے ، ان اشعار میں عقیدت ومحبت کا سیل رواں موجزن ہے، اس قسم کے اشعار میں تخلیات کی رفعت ، فکر کی ندرت اور فنی باریکیوں کی تلاش کے بجائے طریقۂ اظہار وابلاغ عقیدت ومحبت پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے، اس اعتبار سے اس کا مطالعہ عام لوگوں کو عموما اور سلاسل سے منسلک لوگوں کو خاص کیف وسرور میں مبتلا کرے گا۔
 اس کتاب کا ناشر مخدوم جلیل منیری پبلشنگ اکیڈمی، جامعہ امام تاج الفقہائ، خانقاہ منیر شریف ہے، تقسیم کار کی ذمہ داری مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری کی ہے، سید شاہ میران فردوسی ، وردہ فردوسی اور شبنم بانو نے پروف ریڈنگ کا کام پوری توجہ سے کیا ہے، مخدوم یحیٰ منیری ریسرچ سنٹر نے پیش کش کی ذمہ داری لی، ان تمام حضرات کی محنت کے طفیل یہ قیمتی دستاویز اور تاریخی تحریر معمولی ہدیہ دو سو پچاس روپے میں آپ تک پہونچ رہی ہے، سب ہم تمام کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ رب العزت سب کو بہتر بدلہ عطا فرمائے اور خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔آمین

جمعرات, جنوری 19, 2023

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل ودماغ میں رچی بسی ہوئی ہے، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، اس کے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال ودولت ، گھر بار، باپ ماں اور بیوی بچوں کی بہ نسبت ایمان والوں کو اللہ ورسول سے زیادہ محبت نہ ہو تو سزا کے منتظر رہنے کو کہا ہے،ارشاد باری ہے: آپ کہہ دیجئے: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔ (سورہ توبہ : آیت ۴۲ رکوع ۳)
یہ آیت ہجرت کے پس منظر میں ہے، لیکن یہ حکم اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر دور کے لیے ہے،اس آیت میں اللہ اور رسول کی محبت کو تمام چیزوں کی محبت سے بر تر وبالا رکھنے کی بات کہی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پرسزا کا اعلان بھی کیا گیا ہے، اس لیے ایمانی واسلامی زندگی بغیراللہ رسول کی محبت کے ممکن ہی نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی اسوقت تک مو من کامل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاوں، ایک موقع سے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! سب کی محبت مغلوب ہو چکی ہے ، صرف اپنی ذات سے تعلق زیادہ معلوم ہوتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابھی نہیں عمر ، تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اب اپنی ذات سے بھی زیادہ آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے، ارشاد ہوا، ہاں اب ، یعنی اب ایمان مکمل ہو گیا ، اسی محبت کا تقاضہ تھا کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میں پھانسی کے پھندے سے اتار دیا جاؤں اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں کانٹے چُبھیں ۔
اس قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ اس لیے کرنی چاہیے کہ محبت کے تمام اسباب جمال، کمال، احسان اور قرب وہ سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں مکمل طور پر پائے جاتے ہیں، جمال ایسا کہ آپ سے زیادہ خوبصورت انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا، کمال ایسا کہ32 سال کی مختصر مدت میں کایا پلٹ کر دی، ایک خدائے واحد کی پرستش کا غلغلہ بند ہوا ، جہالت دور ہوئی، علم کی روشنی پھیلی، ظلم وستم کا خاتمہ ہوا، کراہتی ہوئی انسانیت نے سکون وآرام پایا، انصاف کی حکمرانی قائم ہوئی، احسان ایسا کہ انسان تو کیا چرند وپرند بھی آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہوئے، دشمنوں کی جان بخشی کی گئی، اور دوستوں پر شفقت ومحبت کی ایسی بارش ہوئی کہ سب گرویدہ ہو گئے اور قرب ایسی کہ قربت خداوندی کا حصول آپ کے قرب کے بغیرممکن نہیں ، اس لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت فطری ہے، اور اس کے لیے کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
حسن یوسف ، دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں اس نے ایمان کی حلاوت پالی، ایک وہ شخص جس کو اللہ کے رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے وہ شخص جو محبت صرف اللہ کے لیے کرے اور تیسرا وہ جسے اللہ نے کفر سے بچالیا اور وہ کفر کی طرف لوٹنے سے اس قدر نفرت کرے جیسی آگ سے کرتا ہو۔
ایک دوسری آیت میں اللہ سے محبت کا تقاضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرار دیا گیا ، اور اطاعت رسول پر مغفرت خدا وندی کا مزدہ سنایا گیا ، گویا اللہ کی خوشنودی کا حصول اتباع رسول کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کی مرضیات پر چلتے اور آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر قربان ہونے کو تیار رہتے تھے، ایک بار حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ کے اعلان کی آواز کانوں میں پڑی کہ بیٹھ جا وہیں بیٹھ گیے او رکہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ایک قدم آگے بڑھایا جائے، ایک صحابی نے اپنا قُبّہ صرف اس بات پر توڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرما یا تھا کہ یہ کس کا قبہ ہے، صحابی نے محسوس کیا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں کیا، تبھی تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح کا مال اس کے مالک کے لئے قیامت میں وبال جان ہوگا، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار کسم سے رنگا ہوا گلابی گیروا رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا ، یہ کیا ہے؟ یہ سن کر اس کپڑے کو چولھے میں ڈال کر جلا ڈالا ، دوسرے دن آنے پر دریافت کیا کہ اس کپڑے کو کیا کیا ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جلا ڈالا ، ارشاد ہواکسی عورت کو کیوں نہیں دے دیا ، ان کے لئے اس طرح کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے،اتنا ہی نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جاں نثاری کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے مقابل اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیر وتفنگ کا رخ بھی اپنی طرف کر لیتے تھے تاکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بھی بیکا نہ ہو، غزوۂ اُحد کے موقع سے حضرت ابو طلحہؓ آپ کی طرف آنے والے ستر سے زائد تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے پر روکا ، جس کے سبب ان کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا تھا، اسی موقع سے حضرت ابو طلحہؓ کا یہ قول بھی کتب احادیث میں مذکور ہے کہ میرا سینہ آپ کے لیے موجود ہے، اسی غزوۂ حضرت ابودجانہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ ڈھال بن گیے اور تیر ان کی پیٹھ میں پیوست ہوتے رہے، وہ حرکت بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں میری حرکت کی وجہ سے کوئی تیر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر تک پہونچ نہ جائے، جب دشمنوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیلائی تو ایک صحابیہ بے اختیار مدینہ سے چل کر اُحد پہونچیں راستہ میں انہیں بتایا گیا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا، وہ آگے بڑھتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں، پھر بتایا گیا کہ بھائی، بیٹا اور شوہر بھی اس لڑائی میں کام آگیے؛ لیکن ہر بار وہ یہی پوچھتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ آپ خیریت سے ہیں، کہتی ہیں مجھے ان کی زیارت کراؤ اور جب رخ انور کی زیارت ہو گئی توکہنے لگی میرا سب کچھ آپ پر قربان، باپ، بھائی، بیٹا ،شوہر سبھی قربان؛ آپ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں قابل برداشت ہیں۔
یہ اور اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام کے نزدیک محبت رسول کا مطلب اللہ کے رسول کی مرضیات پر چلنا تھا،اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے اور ہمارے ہر کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ان کی ہدایات کے مطابق ہوں ، مجازی محبت میں بھی آدمی محبوب کی ایک ایک ادا پر مر مٹتا ہے، یہ تو حقیقی محبت کا معاملہ ہے، اس میں کمی ، کوتاہی کسی صورت گوارہ نہیں، مسلمانوں کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مثالی ہے اور ہم سب اس کے لیے مر مٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ناموس رسالت پر کسی قسم کا حملہ اور کسی قسم کی توہین ہمیں بر داشت نہیں، جان ، مال ، آل واولاد، باپ ماں، سب آپ پر قربان ، اتنی محبت ہونے کے با وجود ہم اپنا رنگ ڈھنگ سنت کے مطابق نہیں بنا پا رہے ہیں، زندگی سنت کے مطابق نہیں گذر رہی ہے، سماجی ، معاشی ، معاشرتی زندگی میں عموما سنتوں کا چلن نہیں ہے، ان تمام معاملات میں ہم من مانی کر رہے ہیں، اور بھول جاتے ہیںکہ ہمارے اعمال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کرایا جاتا ہے، محبت رسول کے دعویٰ کے با وجود سنت رسول سے اس قدر دوری قابل غور ہے اور اس صورت حال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عملی زندگی میں سنت سے دوری کی کسر ہم اظہار محبت کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے پورے کر رہے ہیں، حالاں کہ اظہار محبت کا بھی وہی طریقہ معتبر ہے، جو محبوب کو پسند ہو ، محبوب جلسہ ، جلوس ، مظاہرے کو پسند نہ کرتا ہو اور ہم ا ن چیزوں کے ذریعہ محبت کا اظہار کریں، تو محبوب کی خوش نودی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ بلکہ جو طریقے انہیں پسند نہیں، اس کو اپنا کرہم کچھ ان کے عتاب کے ہی شکار ہوں گے، رضا کے نہیں، اس حقیقت کو ہم سب کو جان اور سمجھ لینا چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ ہمیں جشنِ آمدِ نبی تو یاد رہ گیا ہے، مِشن آمدِ نبی سے ہم سب غافل ہیں۔

بند فائلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بند فائلیں ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری دفاتر میں عموماً اور دوسری جگہوں پر خصوصا کچھ فائلیں ہوتی ہیں، جن کا تعلق افراد کی کار کردگی اور اس کے ذریعہ اٹھائے گیے ان اقدام سے ہوتا ہے، جن پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جاسکتے ہیں، یہ فائلیں عام حالتوں میں سرد بستوں میں بند رہتی ہیں، بہت خاص لوگوں کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرد بستہ جب گرم بستے میں بدلے گا تو ملکی حکومت پر، حزب مخالف پر یا کسی فرد پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ، پارٹیوں کے ذمہ دار ، حکومت کے سر براہان اور کچھ خاص لوگ وقت کا انتظار کر تے رہتے ہیں کہ اس بستے میں پڑے جِن کو کب باہر نکالا جائے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اور اپنے مخالفین کو زک پہونچائی جا سکے، جن لوگوں کی نظر سیاست پر ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ بر سر اقتدار لوگوں نے کس طرح اس کا استعمال کیا ہے او راپنے حریفوں کو چِت کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھ کنڈے اپنائے ہیں، ایسا ہندوستان ہی نہیں عالمی پیمانے پر ہوتا آرہا ہے اور ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرد بستے سے نکلنے والایہ جن کئی کو پھانسی کے پھندے ، حبس دوام ، عمر قید تک پہونچا چکا ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہوتا ہے جو مخالفین کو موافق بنانے ، ان کے منہ کو بند کرنے ، عوامی سطح پر ساکھ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا رہا ہے، یہ سو یا ہوا جن کتنی مدت سو یا رہے گا، کہا نہیں جا سکتا، اس کو جگانے کے لیے مناسب وقت آنے میں بر سہا برس لگ سکتے ہیں یہ کبھی بعد از مرگ بھی جاگتا ہے ، جب بھی جگایا جاتا ہے، ایک بھونچال آتا ہے، زلزلہ پیدا ہوتا ہے، اتھل پتھل مچتی ہے اور بہت کچھ بدلتا ہے یا بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 بات در اصل کہنے کی یہ ہے کہ جس طرح سرکاری فائلیں بستے میں بند ہو کر سوئی رہتی ہیں اور لوگ اس سے غافل رہتے ہیں اور گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان فائلوں کے کھلنے پر کن حالات سے سابقہ پڑے گا ویسے ہی انسانوں کے اعمال کی فائل کراماً کاتبین کے ذریعہ قلم بند ہو کر نامہ اعمال میں بند ہوتی رہتی ہے، دنیاوی فائلوں کے سامنے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، لیکن اللہ رب العزت نے نامہ اعمال کے اچھے یا برے ہونے کے اعتبار سے داہنے یا بائیں ہاتھ میں دینے کا اعلان کر رکھا ہے ، پھر ان اعمال کے تولنے کے لیے میزان قائم ہوگا اور اعمال تو لے جائیں گے، اس دن ہمارے بھلے برے اعمال کی وجہ سے جزا وسزا کا فیصلہ ہو گا، اس دن ہماری زبان بند ہوگی اور ہمارے ہاتھ پاؤں وغیرہ خود ہمارے خلاف گواہی دیں گے، اور جن کے اعمال اچھے ہوں گے وہ خوش، خوش جنت میں جائیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ اوندھے منہہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے؛ کیوں کہ وہ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارے کرتوت یوں ہی ختم ہو جائیں گے ، عقل مندوں کے لیے اس میں بڑی نصیحت ہے۔

بدھ, جنوری 18, 2023

سائبر حملے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

سائبر حملے ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف  
انٹرنیٹ کی سہولت ، ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی مہم، کیش لیس کا روبار، مختلف ایپ کے ذریعہ رقم کی لین، دین، رقم منتقل کرنے کی آن لائن سہولتوں نے جرائم کی دنیا میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے، یہ جرم ہے سائبرحملہ ، اعداد وشمار کی چوری، بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعہ لوٹ، فون، موبائل، وغیرہ کا ہیک کر لینا ، شاخ در شاخ سائبر حملے کی ہی مختلف قسمیں ہیں، ان حملہ آوروں او رہیکر کا اپنی مہم میں کامیاب ہوتے رہنا بتاتا ہے کہ سائبر تحفظ کے معاملہ میں ہم کافی پیچھے ہیں اور ہمارے نجی راز کی پرائیویسی معرض خطر میں ہے، سوشل سائٹس سے متعلق ایجنسیاں ، کمپنیاں اور ایپس چاہے ہمارے راز کی حفاظت کی جس قدر یقین دہانی کرائیں ،سچائی یہی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔
جن شعبوں پر سائبرحملہ آوروں کی سب سے زیادہ نظر ہے، ان میں بینکنگ، مالیاتی نظام اور بیمہ(BFSI)سر فہرست ہیں، سرکار نے پارلیامنٹ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہیں، ان تفصیلات سے سائبر حملوں کے رفتار پکڑنے کی تصدیق ہوتی ہے، اطلاع کے مطابق جون 2018ءسے مارچ 2022ءتک ہندوستانی بینکوں پر مجرمین کے ذریعہ دو سو اڑتالیس (248)سائبر حملے ہوئے، اعداد وشمار کی چوری کے یہ واقعات اکتالیس (41)عوامی دوسو پانچ(205) نجی اور دو(2) واقعات غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ درج کرائے گیے، چند ماہ قبل اتر پردیش سائبر پولیس نے لکھنؤ کے عوامی کوپریٹو بینک کے کھاتے سے ایک سو پینتالیس(145)کروڑ رقومات کی غیر قانونی طور پر نکالے جانے کا پردہ فاش کیا تھا، اس معاملہ میں کئی تکنیکی ماہرین اور سابق بینک کارکن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی، ڈرینک کے نام سے اینڈ رائیڈ میل ویر نے تو حد کر دی کہ محکمہ ٹیکس کا نام لے لے کر اس نے اٹھارہ بینکوں کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ڈارک ویب پر بی ڈین کیش کے نام سے غیر قانونی ویب سائٹ کا پتہ اس وقت چلا جب ہیکرس نے نوے لاکھ سے زائد افراد کے کریڈٹ کارڈ کی تقسیم، مفت میں اپ لوڈ کر دیا تھا، سنگا پور کی سائبر تحفظ فورم جو کلاوڈسیک کے نام سے کام کرتی ہے، اس نے گذشتہ سال جاری قرطاس ابیض (حقائق پر مبنی رپورٹ) میں کہا ہے کہ امسال جتنے سائبر حملے پوری دنیا پر ہوئے ان میں 7.4فی صد ہندوستان پر کیے گیے، قومی بینکوں، کرپٹو اکسچینج ، والٹس ، این بی ایف سی (NBFC) کی معلومات کا افشا، کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقوم کی نکاسی سب ہندوستان میں سائبر جرائم ہی کا حصہ ہیں۔
 سائبر مجرمین کے لیے آسان نشانہ درمیانی اور نچلے درجے کے کاروباری ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں سائبر حملوں سے تحفظ کا اچھا انتظام نہیں ہوتا، با خبر ذرائع کے مطابق تینتالیس(43) فی صد سائبر حملے 2022ءمیں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر کیے گیے، اپریل سے ستمبر 2022ءکے نصف تک 2.7لاکھ سائبر کرائم مختلف شعبہ حیات سے متعلق محکموں میں ہوئے، ان میں پٹرولیم بھی شامل ہے، یہ اطلاع 2022ءمیں سائبر ایپس کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ میں دی گئی ہے، مجموعی طور پر گذشتہ سال ایک کروڑ اسی لاکھ (اٹھارہ ملین) سائبر حملے اور دو لاکھ سائبر سیکوریٹی تھریٹ کے واقعات ہندوستان میں ہوئے۔
 ہندوستان میں سائبر حملوں سے محکمہ صحت بھی محفوظ نہیں رہ سکا، اس پر گذشتہ سال انیس لاکھ سائبر حملے ہوئے ۔ 23 نومبر 2022ءکو حملہ آوروں نے ملک کے مشہور اسپتال ایمس دہلی پر حملہ کر دیا اور اس کے سارے ڈیٹا کو ہیک کر لیا جس کے نتیجہ میں اسپتال کے سارے سرور نے کام کرنا بند کر دیا، مریضوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے کئی روز تک کمپیوٹر کے بجائے سارے کام ہاتھ سے کرنے پڑے، اس کے با وجود جو اعداد وشمار اور ڈیٹا چوری ہوگیے، اس کی تلافی مشکل قرار پائی، یہ اسپتال ڈیجیٹل کام کرتے ہیں، حملہ آوروں نے اس کی اس صلاحیت پر ہی حملہ بول دیا۔
 آئندہ اس قسم کے حملے کثرت سے ہوں گے۔ 5Gکے استعمال سے ان واقعات میں اور اضافہ ہوگا، ایک اندازہ کے مطابق 2025ءتک ہندوستان میں اٹھاسی ملین لوگ 5Gاستعمال کر رہے ہوں گے۔ لیکن صرف پندرہ ، سولہ فی صد ہی ایسے ادارے ہوں گے جو ان کو محفوظ رکھنے کی تکنیک سے واقف ہوں گے، ایسے میں سائبر کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام کے ساتھ سائبر جرام کرنے والوں کے لیے مضبوط قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، حکومت ہندکو ان حملوں سے بچنے کی ضرورت واہمیت پرکے مدنظر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

منگل, جنوری 17, 2023

سیاسی ”یاترائیں“ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سیاسی ”یاترائیں“
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 راہل گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے، نفرت کے بازار میں ”محبت کی دوکان سجانے“ کے نام پر نکلی اس ”یاترا“ کا چرچا پرنٹ میڈیا ، الکٹرونک میڈیا پر خوب ہوتا رہا ہے، ملک میں اس کی وجہ سے کانگریس کی مقبولیت اور راہل گاندھی کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے، راہل گاندھی نے اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاسی بقا کے لیے اس ”یاترا“ کی شروعات کی تھی ، شاہزادہ کا ہزاروں میل پیدل چلنا آسان کام نہیں تھا، اور اس پر سخت ٹھنڈ میں صرف ایک شرٹ پہن کر ، زندگی کو خطرات بھی بہت تھے، کیوں کہ ان کا سفر نفرت کے بازار ہو کر ہوتا رہا ہے، ان کے تحفظ پر سوالات بھی اٹھتے رہے ہیں، کانگریس ان کے حفاظتی حصار میں چوک کا چرچا کرتی رہی ہے، جب کہ پولیس والوں کو ان کے ذریعہ حفاظتی حصار خود توڑنے کا شکوہ ہے، وزارت داخلہ کو محکمہ پولیس کے ذریعہ یہی رپورٹ سونپی گئی ہے۔
 راہل گاندھی کی یہ ”یاترا“ گذشتہ سال 7 ستمبر 2022ءکو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی، اب تک وہ نو ریاست کے چھیالیس (46)اضلاع کی ”پد یاترا“ کر چکے ہیں،مختلف ریاستوں سے گذر کر ایک سو پچاس دن میں یہ ”یاترا“ کشمیر پہونچے گی، اور تقریبا تین ہزار پانچ سو ستر(3570) کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گی۔
 راہل گاندھی کی یہ سیاسی یاتر اپہلی یاترا نہیں ہے، اس سے قبل بھارت کے سابق وزیر اعظم سماجوادی قائد چندر شیکھر نے 6 جنوری سے 25جون 1983تک کنیا کماری سے راج گھاٹ نئی دہلی تک کا پیدل سفر کیا اور 4200کلو میٹر کی دوری پیدل طے کی تھی، یہ سفر کنیا کماری سے اس دن شروع ہوا، جس دن ان کی جنتا پارٹی نے کرناٹک میں شاندار جیت درج کی تھی، اس سفر کا اختتام ایمرجنسی کی آٹھویں سالگرہ پر کیا گیا ، اسی دن بھارت نے پہلی بار کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔
اس سفر نے چندر شیکھر کو سیاست میں نیا مقام دیا، پہلے وہ ایک جوان لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جن کی ہندوستانی سیاست میں کوئی پکڑ نہیں تھی، اس سفرکے بعد سیاست میں ان کی اہمیت محسوس کی جانے لگی، راجیو گاندھی کی حکومت کے اختتام کے بعد 1989ءمیں وہ وزیر اعظم کے دعویدار بنے اور بالآخر وی پی سنگھ کی حکومت کے بعد وہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گیے، ایک ایسے وزیر اعظم جو اس سے قبل کبھی کسی حکومت میں وزیر بھی نہیں رہ چکے تھے۔
سیاسی یاتراوں میں لال کرشن اڈوانی کی ”رام رتھ یاترا“ بھی تھی، یہ یاترا پیدل نہیں ایک بس کے ذریعہ 25 ستمبر سے 23 اکتوبر 1990ءتک چلی، مذہبی رنگ کی یہ یاترا منڈل کمیشن کی رپورٹ کے لاگو ہونے سے بھاجپا کو ہونے والے نقصان کی تلافی اور رام مندرتحریک تک کو تیزتر کے لیے سومناتھ مندر سے شروع ہوئی تھی، اسے اجودھیا پہونچنا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی ہدایت پر بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کر کے تاریخ رقم کر دی ، اس سفر کا فائدہ بھاجپا اور اڈوانی دونوں کو پہونچا، بھاجپا پہلی بار قومی پارٹی بننے کی پوزیشن میں آئی، پارلیامنٹ میں اس کی سیٹیں بڑھیں، وہ سیدھے ایک سو بیس(120)سے ایک سو پچپن(155)پر پہونچ گئی، اور اڈوانی اس سفر سے ملک گیر لیڈر بن گیے، وہ اٹل بہاری باجپائی سے آگے تو نہیں بڑھ سکے، لیکن نائب وزیر اعظم کے عہدے تک پہونچنے میں کامیاب ہو گیے، اس درمیان آر ایس ایس نے گجرات فساد کے بعد نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کیا، وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچنے کی لالچ نے اڈوانی کو ان کی مخالفت پر آمادہ کیا، یوں بھی نریندر مودی اڈوانی کی رتھ یاترا میں تقریر کرتے وقت ان کا مائیک پکڑے ہوتے تھے، مودی نے اس مخالفت کے نتیجے میں ان کو ”مارگ درشک منڈل“ میں داخل کر کے سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دیا، ان کوانتخاب میں ٹکٹ بھی نہیں دیا، اڈوانی صدر جمہوریہ بننے کے خواہش مند تھے، وہ آرزو بھی ان کی پوری نہیں ہوئی، لالو پرساد یادو نے اپنی ایک تقریر میں اڈوانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے بابری مسجد توڑوائی ہے آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، لالو پر ساد کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، آج اڈوانی زندہ تو ہیں،لیکن ہندوستانی سیاست میں ان کا وجود اور عدم برابر ہے۔
 ”سیاسی یاترائیں“ صوبائی بھی ہوتی رہی ہیں، صوبائی ”یاتراوں“ میں راجستھان میں وسندھرا راجے کی ”پربو رتن یاترا“ غیر منقسم آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی کی ”پرجا پرستھانم یاترا“ اور چندر ا بابو نائیڈو کی ”واستو نامی کی ہیم پدیاترا“ (میں آپ کے لیے آ رہا ہوں) کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان یاتراوں کے ذریعہ ان لیڈروں کاوزیر اعلی کی کرسی تک پہونچنا آسان ہو گیا۔
 راجستھان میں وسندھرا راج نے اس وقت کے بھاجپا کے جنرل سکریٹری پرمود مہاجن کی ہدایت اور تحریک پر 2003میں گاڑی کے ذریعہ ”پریورتن یاترا“ کے نام سے تقریبا تیرہ ہزار (1300)کلو میٹر کا سفر کیا، اس سفر سے وسندھرا کی ریاست میں سیاسی لیڈر کے طور پر شناخت بنی ، اس سفر کے ذریعہ وسندھرا عوام کے قریب ہوئیں اور راجستھان کی دوسو اسمبلی سیٹوں میں سے ایک سوبیس (120)سیٹیں لے کر ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
 غیر منقسم آندھرا پردیش میں سیاسی طور پر کانگریس کا زوال ہوا، اور تیلگو دیشم پارٹی حکومت پر دس سال تک قابض رہی ، ایسے میں کانگریس کے لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2003ءمیں ”پر جا پرستھانم یاترا“ شروع کی، دو ماہ تک سخت گرمی کے موسم میں انہوں نے پندرہ سو کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کیا، عوام سے جُڑے ، عوام کی محبت انہیں ملی اور 2004ءاور 2009ءکے اسمبلی انتخاب میں انہوں نے تیلگو دیشم پارٹی پر بڑی فتح حاصل کی اور دوبارہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچے، حالاں کہ جلدمیں ہی وہ ایک حادثہ میں آنجہانی ہو گیے تھے۔
 راج شیکھر ریڈی کی پدیاترا نے کانگریس کو اقتدار تک پہونچا دیا تھا، اور چندر ا بابو نائیڈو اقتدار سے بے دخل ہو گیے تھے، اس لیے نائیڈو نے راج شیکھر ریڈی والا نسخہ اقتدار میں پہونچنے کے لیے استعمال کیا اور 2013ءمیں ”واستو نامی کوسم“ کے نام سے ”پد یاترا “ شروع کی، دو سو آٹھ (208)دنوں میں انہوں نے دو ہزار آٹھ سو (2800)کلو میٹر کا پیدل سفر کیا، نو سال تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اس ”پدیاترا“ کی برکت سے 2014ءکے اسمبلی انتخاب میں ایک دو سو (102)سیٹیں حاصل کرکے ان کی پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور چندرا بابو نائیڈو وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچ گیے۔
ہمارے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی ”سیاسی یاترا“ کرنے میں ماہر ہیں، وہ اب تک بہت ساری ”یاترائیں“ کر چکے ہیں، ان میں ادھیکار یاترا، سیوا یاترا، نیائے یاترا، پرواس یاترا، دھنواد یاترا، وشواش یاترا، سماج سدھار یاترا اور سمادھان یاترا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان یاتراوں سے ان کی پارٹی کو مضبوطی ملی، حکومت کو استحکام عطا ہوا، ترقیاتی کاموں کا زمینی جائزہ ممکن ہوا، اور کام میں کوتاہی برتنے والے کی تادیبی کارروائی کی گئی، پدیاتراووں کا ذکر مکمل نہیں ہوگا اگر 2 اکتوبر 2022ءسے جاری پرشانت کشور کی سوراج پدیاترا کا ذکر نہ کیا جائے، جو تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔
 راہل گاندھی ان سیاسی یاتراوں کو تسلسل عطا کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں ہے کہ یہ نسخہ ہندوستانی سیاست میں کم از کم پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے میں کبھی فیل نہیں ہوا، ہے، اس لیے ”پد یاترا“ میں راہل گاندھی سخت اصول وضابطہ ہونے کے باوجود بڑی بھیڑ جمع کر پا رہے ہیں، جس سے کانگریس پارٹی کو اچھی توقعات ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھیڑ جمع کرنا بڑی بات ہے،لیکن اس بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرالینا بالکل دوسری بات۔

پیر, جنوری 16, 2023

کربِ آگہی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کربِ آگہی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حال ہی میں سابق وزیرمشہور سیاسی قائد جناب عبد الباری صدیقی کے ایک بیان کی وجہ سے سیاسی گلیاروں میں بھونچال آگیا، انہوں نے ایک کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ ”ہندوستان اب رہنے کے لائق نہیں رہا، فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرناک وخوفناک ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے ، اب یہاں امن پسند لوگوں کے لیے جینا محال ہو گیا ہے ، اس لیے میں نے اپنے بچوں سے( بیٹا جو امریکہ میں رہتا ہے اور بیٹی جو لندن میں رہتی ہے) کہا ہے کہ وہیں رہیں اور وہاں کی شہریت مل جائے تو وہاں کی شہریت بھی لے لیں۔“
 اس بیان پر جو تبصرے آئے اس میں غیروں نے دل کی بھڑاس نکالی اور انہیں پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دے دیا ، عظیم اتحاد کے بعض رہنماؤں نے اسے بز دلی سے تعبیر کیا اور انہیں اس ملک میں ان کی ذاتی حصولیابیاں گنائیں، یعنی انہیں اس ملک نے ایم ایل اے بنایا، وزیر بنایا وغیرہ وغیرہ، سب نے ان کے بیان کے ”اب“ کو نظر انداز کر دیا ، عبد الباری صدیقی کی قدر ومنزلت اور عہدے مناصب انہیں یہیں ملے، یہ ٹھیک ہے،لیکن وہ اس نفرت بھرے ماحول اور فرقہ واریت کی بات کر رہے ہیں، جو ”اب“ پیدا ہو گیا ہے، او ریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے انہوں نے پہلی بار کہا ہے، اس ملک کے فلم ادا کار ، دانشور اور سیاست داں پہلے بھی اس بات کو با ربار کہہ چکے ہیں، ہر بار اس ملک میں ایسے بیان پر طوفان کھڑا ہوا ہے، راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے درمیان جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“ تو وہ عبد الباری صدیقی کے فکر وخیال کی تائید ہی تو کر رہے ہیں، عبد الباری صدیقی محسوس کرتے ہیں کہ نفرت کی سودا گری اس ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور شاید ملک پر انی روش پر لوٹ نہیں پائے گا، اس لیے اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل کے لیے ایک مشورہ دے ڈالتے ہیں جس کا انہیں پورا حق ہے، یہ صحیح بھی ہے کہ ایسا مشورہ انہیں نہیں دینا چاہیے تھا اور دیا تھا تو بر ملا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا، یقینا انہوں نے حق بات کہی، جیسا محسوس کیا ؛لیکن ساری حق بات کہہ دی جائے اس کا مکلف کوئی نہیں ہے، یقینا جب بولیں، حق بولیں، لیکن سارے حقائق بیان کر دینے کے ہم پابند نہیں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر بڑے عہدے میں رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے اور چھوٹے دفاتر میں کارندوں سے راز مخفی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے ۔
جناب عبد الباری صدیقی نے جو کچھ کہا ، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ان کا کربِ آگہی ہے جو جملوں کی شکل میں ڈھل گیا اور بر سر عام نکل پڑا، در اصل با خبری انسان کو ہر معاملہ میں حساس بنا دیتی ہے، گھر میں بڑا سے بڑا حادثہ ہوجائے، بچے کھیلتے رہتے ہیں، پاس پڑوس بے خبر ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا؛ لیکن خاندان کے ایسے افراد جو موت کے بعد کی جدائی اور حالات کی سنگینی سے با خبر ہوتے ہیں، ان کا دل روتا ہے، آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اور ذہن ودماغ پر غم کی آندھیوں کا بسیرا ہوجاتا ہے، با خبری کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، خوشی کی خبر پر ہر موئے تن سے مسرت کی لہر چلتی ہے اور طربیہ لمحات کے کیف وسرور میں آدمی ڈوب جاتا ہے، اس مثبت اثرات کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور فرمایا : اللہ کے بندوں میں علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ، اللہ کی عظمت وجلال کا علم جس قدر بندوں کو ہوتا ہے ، اللہ کا خوف ، خشیت اسی قدر بندوں پر غالب ہوتا ہے، جو اللہ کی کبریائی اور قدرت سے نا واقف ہے اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔
 جناب عبد الباری صدیقی ہندوستان کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اس کے مضر اثرات نے انہیں کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور کرب کا بیانیہ جچے تلے جملے اور الفاظ میں نہیں ہوا کرتا وہ تو کبھی آہ کی شکل میں بھی نکل جاتا ہے، عبد الباری صدیقی کے حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...