Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 26, 2023

جمہوری اقدارکی حفاظت____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جمہوری اقدارکی حفاظت____
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
26جنوری کو ، ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، کرتوپتھ پر  ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان میں اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی جمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گوء رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑا کرنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ،
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

بدھ, جنوری 25, 2023

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی __

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
جمہوریت انگریزی لفظ ڈیموکریسی(Democracy)کا اردوترجمہ ہے، جویونانی زبان کے لفظ ڈیمو(Demo) اور کریٹوس (Kratos)سے مرکب ہے۔ڈیمو(Demo)کے معنی ہیں عوام اور کریٹوس(Kratos)کے معنی ہیں حکومت، اس طرح جمہوریت کا مطلب ہوا عوام کی حکومت ، لیکن عملاً اس پھیلی ہوئی دنیا اور بڑھتی ہوئی آبادی میں عوام کا براہِ راست اجتماعی طورپر حکومت میں حصہ لینا دشوار تھا،اس لیے(Democracy) کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ری پبلک(Republic)بھی جوڑ دیاگیا، یہ اطالوی زبان کے رس پبلیکا (Respublica)سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی ہیں”ایسی طرز حکومت جس میں عوام براہِ راست حصہ نہ لیتے ہوں، بلکہ عوام کے منتخب نمائندے اس بار گراں کو اٹھا کر سماجی،ثقافتی، اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہوں۔ اس لیے اب اگر ہم جمہوریت کالفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد ڈیموکریسی (Democracy)کے ساتھ ساتھ ری پبلک(Republic)نظام حکومت بھی ہوتاہے۔
تاریخی پس منظر: جمہوری نظام حکومت کی بنیاد کب سے پڑی، یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے تاہم اتنا ضرورکہا جاسکتاہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں جب انسان پتھر اورتانبے کے دور سے نکل کر ایک منظم سماج کی تشکیل کررہا تھا، تو سربراہ ، قائد اورقبیلوں کے سرخیل کے انتخاب میں لاشعوری طورپر جمہوری طرز اختیار کرتاتھا۔ چنانچہ یونان کے علاقہ ایتھنس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ایسی جمہوریت کا پتہ چلتا ہے جس سے دس ہزار کی آبادی میں سےایک تہائی یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار آدمی حکومت کے کاموں میں براہِ راست حصہ لیتے تھے۔ویشالی جو جمہوریت کی جائے پیدائش ہے وہاں کے ایوان میں سات ہزار سات سو ستہتر ارکان ہوا کرتے تھے۔
حکومت کی ارسطا طالیسی تقسیم :زمانہ قدیم میں قبل مسیح ہی سے عملاً شعوری طور جمہوریت قائم ہوگئی تھی، لیکن اسے کسی سیاسی نظریے کے طورپر قبول نہیں کیاجاسکا تھا، کیونکہ اس وقت معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرسکا تھا جو سیاسی اور سماجی طورپر کسی نظریے کی داغ بیل ڈالتا، بعد میں جب انسانی معاشرے نے کچھ ترقی کی اور سماج میں تہذیب وتمدن نے اپنا مقام حاصل کرلیا تو مشہور فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب ”سیاسیات “ میں (1)بادشاہت (Royalty) (2)شخصی حاکمیت(Autocracy) (3)طبقاتی حکومت (Oligarchy) اور (4)پالیٹی (Polity) کا سیاسی نظریہ پیش کیا، جو اب تک کی سب سے قدیم اور شاید سب سے سادہ تقسیم ہے،اس سے قبل جمہوریت کا کوئی فکری تصورنہیں تھا۔
جمہوریت ایک سیاسی نظریہ: زمانے نے کچھ اور ترقی کی، یہاں تک کہ سترھویں صدی کا انقلاب آفریں دور آگیا، عیسائی مذہب کی دیواریں منہدم ہونی شروع ہوگئیں، پاپائیت اورشخصی آمریت کی اہمیت باقی نہ رہی، ظلم وتشدد کے خلاف سماجی وسیاسی شورشیں زور پکڑنے لگیں، اور اس آگ کے شعلے مذہب کے دامن سے نکل کر سیاست کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے، میکاویلی(Macavelli)اور طامس ڈیکن(Thomas Decean)نے شخصی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے جمہوریت کو سیاسی نظریے کے طورپرپیش کیا، خوش قسمتی سے اس نظریے کو اپنے ابتدائی دور میں ہی سرطامس مور(Sir Thomesmore) جیسے مفکر کی حمایت حاصل ہوگئی، جس نے اپنے مشہور ومعروف کتاب ”لی ٹوپیا“(Litopia) میں مثالی اشتراکیت (Idealsocialion) اور جمہوری حکومت (Democraticstate) کے نظریے پرعقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں کرامویل کی قیادت میں 1688میں انقلاب برپا ہوا اور پھر عوام نے فرانس اور جرمن حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی جمہوریت کی آغوش میں دے دیا، مرور ایام کے ساتھ اس نظریے نے اتنا فروغ پایاکہ کہیں تو شاہوں نے برضا ورغبت گدی خالی کردی اور کہیں عوام نے جبراً تخت نشیں کو خاک نشیں بناکر اپنا تسلط قائم کرلیا۔
جمہوریت کی تعریف: ابراہیم لنکن(Abraham Lincoln) نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عوام کی حکومت جو عوام کے ہاتھوں اور عوام کے لیے ہو“(Government of the People for the People and by the people) کو جمہوریت کہتے ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے انتخاب کی بنائ پر کسی کو حاکم مقررکرلیاگیا ہو اوروہی شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہو“۔
جمہوریت کے اجزاءترکیبی: مختلف ماہرین سیاسیات نے جمہوریت کے مختلف اجزاءترکیبی بیان کیے ہیں، لیکن ان تمام میں دواجزاءمشترک ہیں،ایک سیکولرزم اور دوسرا نیشنلزم،سیکولرزم کے معنی لادینی، غیر مذہبی، خدا بیزاری کے ہیں، اوراصطلاح میں سیکولرزم ایسے رجحان کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق سیاسی اورسماجی اداروں میں ، مذہبی معتقدات اور مابعدالطبعی تصورات پر مبنی نہ ہوں، اس کا دوسرا جزئ نیشنلزم ہے جو مساوات ، انقلابی اور قومی نظریہ کے مترادف ہے۔ان کے علاوہ آج کے ترقی پذیر دورمیں مغربی جمہوریت کے کچھ اور اجزاءترکیبی امیدواری (Candidating) ورغلانا(Canvencing)پروپیگنڈہ، رائے دہندگی(Voting)اور کثرت رائے (Majortty) نکل آئے ہیں جو جمہوریت کے بازار میں سکہ رائج الوقت کی طرح چلتے ہیں۔
جمہوریت نے کیادیا؟ابتداءمیں جمہوریت کا نظریہ شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیش کیاگیاتھا، جس کے معنی یہ تھے کہ خاندان کے کسی ایک فرد کو لاکھوں اورکروڑوں انسانوں پرحکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، تمام انسان برابرہیں، ان میں سے ہرایک کی اپنی انفرادی اہمیت ہے، جب کہ شخصی حکومت میں انفرادی حیثیت غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس لیے انسانیت اور انفرادی اہمیت کی ازسرنو بحالی کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ جمہوریت کو فروع دیاجائے تاکہ انسان کی حیثیت صرف ایک خارجی شئے کی نہ رہ جائے بلکہ اسے سماجی ، سیاسی اور شہری حقوق بدرجہ اتم حاصل ہوں، وحشی مادی قوتوں اور بہیمانہ خاصیتوں کا زوال ہو، اور انسان انسانیت کی ڈگر پر آگے بڑھ سکے، اقتصادیات میں قومی دولت کو اتنا فروغ مل جائے کہ ملک کی ساری آبادی کو ایک معقول زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آسکے اور دولت کی تقسیم کا ایسا معقول انتظام ہو کہ سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی کشمکش ختم ہواور ہر ایک کو معیاری زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرائے جاسکیں۔
لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،جمہوریت کے تانے بانے بھی ان مسائل کو حل کرنے میں تارعنکبوت ثابت ہوئے، آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جن خطرات سے بچنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے گئے تھے وہ سب خواب وخیال بن کر آرزوؤں کی چتا پربے گور وکفن پڑے ہوئے ہیں، اس کے برعکس قومیت ووطنیت کے جھگڑے نے آج سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے،اورآمریت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے، استعماریت نے اپنے خونی پنجے انسانیت کی شہ رگ میں اتارناشروع کردیاہے، طبقاتی کشمکش اور غریبی امیری کی خلیجیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ شاید مدتوں تک انہیں پاٹا نہ جاسکے۔ اوراس طرح دنیا دوعالمگیر جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے،نیوکلیائی ہتھیاروں اورایٹمی توانائی کے اس دور میں جس کا روکنا شاید ممکن نہ ہو۔
غلطی کہاں ہوئی؟جمہوریت میں جہاں تک شخصی حاکمیت کے ختم کرنے کا تصور ہے وہ اپنی جگہ نہ صرف درست بلکہ لائق ستائش ہے،ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ جمہوریت کی دعوت ایک ایسی دعوت ہے، جوعام انسانی سوسائٹی کی عالمی انسانی تنظیم کے لیے کوشش کرتی ہے، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جمہوریت افراد اور قوموں کے درمیان بلاتفریق تمام نوع انسا ن کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے کوشاں ہے، اگربات اتنی ہی ہوتی تو اس سے انسانیت کودرپیش چیلنج کا حل بآسانی ہوسکتا، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ شخصی حکومت کے عدم سے ایک وجود اور نہیں سے”ہے“ نے جنم لے لیاہے۔ جوبنیادی طورپرغلط ہے ، عوام کی حکومت اور قانون سازی کا حق (Right to Rule) عوام کو دیدینا یہ جمہوریت کی اتنی بڑی خرابی ہے جس نے اس کے تمام اصلاحی اقدامات اور انقلابی افکار کو منجمد کردیاہے، جب سنگ بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو دیوار کے سیدھے ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں جمہوریت کے بانیوں اورداعیوں نے شدید ٹھوکریں کھائی ہےں وہ یہ بھول گئے کہ یہ نظر یہ انسان پر انسان کی برتری کوتسلیم کرتا ہے اوریہی ملوکیت کی دوسری شکل ہے،
 انھیں یہ بھی خیال نہیں رہاکہ جب قانون سازی کا حق عوام کو دے دیا جائے گا تو ہر قوم اپنے مفادات اور حالات کے اعتبار سے قوانین بنائے گی اور اگر یہ کام مجلس قانون ساز کے ذمہ بھی کردیا جائے گا تو بھی اس کے ارکان اپنے کو ذات پات کے حدود، قبائلی، علاقائی، لسانی ، اور جغرافیائی حصا رسے الگ نہیں کرسکیں گے، نتیجتاً ایسا قانو ن کبھی بن ہی نہیں سکے گا جو تمام طبقے کے لیے موزوں اور مناسب ہو،کہیں ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکراجائے گی،اور کہیں فرد کی بے لگام آزادی افکار وعمل کی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کردے گی اوراگر بالفرض ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی مغربی جمہوریت میں قومیت کا عنصر اتنا غالب ہے کہ وہ پوری عالم انسانیت کو ایک رشتے میں کبھی بھی منسلک نہیں ہونے دے گی۔ اورانسان کبھی بھی جاہلیت کے قومی تعصب اورنسلی امتیاز کے ریشمی قباکو چاک نہیں کرسکے گا اور جب تک تعصب کی یہ چادر باقی رہے گی امن وشانتی کی تمام تدبیریں ریت کی دیواروں کی طرح ہبائ ً منثورہ ہوتی رہیں گی۔
شخصی حاکمیت کا نعم البدل:
ان حالات میں آج دنیا کو ایک ایسے نظام حکومت کی ضرور ت ہے، جو مندرجہ بالا خرابیوں سے پاک وصاف ہو، اور وہ صرف اسلامی نظام حکومت ہے، اسلام بنیادی طورپر قانون سازی کا حق (Right to Rule)ایک ایسے قادر مطلق کے لیے ثابت کرتاہے، جس کے نزدیک امیر، غریب، عورت ،مرد ، کالے،گورے، شیعہ ، سنّی ، عرب وعجم، یونانی تورانی سب کے سب برابر ہیں، اس کے نزدیک نہ تو طبقاتی کشمکش ہے اور نہ اپنے حقوق محفوظ رکھنے کا کوئی سوال ، وہ جمہوریت کا قائل ہے، لیکن ایسی جمہوریت کا نہیں جوتمام دنیا کو خونی آماجگاہ بنادے، بلکہ وہ اپنی حکومت انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انسانوں کے ہاتھوں سے چلواتا ہے، گویاکہ اسلام کے نظریہ سیاسی میں عوامی حکومت (Government of The People) کے بجائے خدائی حکومت(Government of The God) کا تصور غالب ہے اوراسی لیے اس نے انسانوں کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایاہے، خدائی قانون کے علاوہ کسی بھی انسانی قوانین کو وہ جھوٹ ، کذب، اوربہتان طرازی سے تعبیر کرتاہے۔وہ تمام دنیاکے لوگوں کو ایک قانون اوراٹل دستور کا پابندکرنا چاہتاہے اور تمام غیر خدائی قوانین سے گریز کاحکم دیتاہے:وہ کہتا ہے کہ حکمرانی خدا ہی کی ہے، وہ جس کوچاہتا ہے ، اپنی حکومت بطور خلافت اس کے ذمہ کردیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتاہے۔وہ اپنی حکومت سے تمام شرکائ کی نفی کرتاہے ولم یکن لہ شریک فی الملک ، وہ بار بارآگاہ کرتا ہے کہ حکومت اسی کی ہے اور خلق بھی اسی کا ہے ، الالہ الخلق والامر اور پھر بھی اگر لو گ نہ مانیں اور اپنی حکمرانی ہی پر مصر ہوں تو اسلام آخری اور حتمی فیصلہ سنادیتاہے:کہ جولوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔

منگل, جنوری 24, 2023

سپریم کورٹ نے راستہ نکالا

سپریم کورٹ نے راستہ نکالا __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
یکساں شہری قانون کی تیاری اور اس کے نفاذ کےلئے بھاجپا اور اس کی حلیف پارٹیوں کی طرف سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں، اس معاملہ پر مخالفت کی وجہ سے مرکزی حکومت اب تک اس طرف قدم آگے نہیں بڑھاسکی ہے، اس کے باوجود اتراکھنڈ اور گجرات سرکار نے یکساں شہری قانون نافذ کرنے کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ طریقۂ کار کی تیاری اور اس کے نفاذ کے امکانات کا جائزہ لینے کےلئے کمیٹی بھی تشکیل دی اس واقعہ کے بعد انوپ برن والا نے مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کر اس پر روک لگانے کی مانگ کی، کیوں کہ دفعہ 44جس کے سہارے یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی ہے وہ مرکزی حکومت کا معاملہ ہے اور پورے ہندوستان کے لئے ہے، ریاستوں کو ایسے معاملے میں انفرادی طور پر کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں دونفری کمیٹی نے انوپ برن والا کی عرضی کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔ اس لیے کہ دستور کی دفعہ162ریاستوں کو یہ حق دیتی ہے کہ ہ وہ اس قسم کی کمیٹیوں کی تشکیل کرسکتی ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
عدالت کے اس فیصلہ سے ریاستوں میں یکساں شہری قانون کی تیاری اور نفاذ کے منصوبوں کو تقویت ملے گی، ابھی دو ریاست نے یہ کام شروع کیا ہے، دھیرے دھیرے بھاجپا اقتدار والی تمام ریاستوں میں اس کام کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی اور 2024ءکے الیکشن میں بھاجپا کے پاس یہ اہم مُدّا ہوگا، رائے دہندگان کو بتایا جائے گا کہ اب کے اگر بھاجپا اقتدار میں آئی تو پورے ملک میں یکساں قانون نافذہوگا اور وہ قانون یقینی طور پرہندومیتھالوجی پر مبنی ہوگا۔ اگر ایساہوتا ہے تو مختلف مذاہب کے لوگوں میں ایسی بے چینی پیدا ہوگی، جسے طاقت کے بل پر ختم نہیں کیا جاسکے گا، پھر ملک میں نفرت کی سوداگری شروع ہوگی جس میں اقلیتوں کے لئے جینا انتہائی دشوار ہوگا اور یہ ملک کی سا لمیت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہوگا۔

پیر, جنوری 23, 2023

مولانا محمد الطاف حسین رحمہ اللہ __

مولانا محمد الطاف حسین رحمہ اللہ __

اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
نامور عالم دین، دارالعلوم قاسمیہ چوک بلسوکرا، رانچی جھارکھنڈ کے ناظم، مدرسہ عراقیہ، دار القرآن رانچی اور مدرسہ عربیہ سونس رانچی کے سابق استاذ، صلاحیت، صالحیت اور تقویٰ میں مشہور خاص و عام مولانا محمد الطاف حسین بن حاجی محمد یعقوب (م 2002) بن نافر علی بن روزن علی بن بخش بن پھوندھی ساکن بلسوکرا ضلع رانچی نے 16دسمبر 2021ءکو بعد نماز عصر بروز جمعرات اس دنیا کو الوداع کہا، اگلے دن 17دسمبر 2021ءکو جنازہ کی نماز ان کی وصیت کے مطابق علاقہ کے مشہور عالم دین مولانا محمد فاروق قاسمی نے پڑھائی، جس میں جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں کے علمائ، صلحاءاور عام مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، بلسوکرا کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک لڑکاحاجی حسن اور دوبیٹیوں کو چھوڑا۔
مولانا کی آمد اس عالم آب و گل میں 12جنوری 1938ءمطابق 24ذی القعدہ1358ھ میں ضلع رانچی (موجودہ جھارکھنڈ) کی معروف بستی بلسوکرا میں ہوئی، ابتدائی تعلیم حافظ عبد الحمیدصاحب گیاوی سے حاصل کرنے کے بعد عصری تعلیم کے حصول کے لیے اردو مڈل اسکول بلسوکرا میں داخلہ لیااور مڈل پاس کیا، مڈل اس زمانہ میں ساتویں کلاس کو کہا جاتا تھا اور غیر منقسم بہار میں اُن دنوں اسرائیل کا بورڈ امتحان ہوا کرتا تھا، عصری علوم کے حصول میں طبیعت کچھ زیادہ لگی نہیں، اس لیے دینی علوم و فنون کی طرف متوجہ ہوئے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ میں داخل ہوئے اور یہیں سے عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم پائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضرعلیہ السلام کا واقعہ بتاتا ہے کہ دینی علوم کے حصول کے لیے دور دراز کے اسفار کرنے پڑتے ہیں، تبھی انسان مطلوب و مقصود تک پہونچتاہے، چنانچہ مولانا نے آگے کی تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا اور ایک غیرمعروف مدرسہ، مدرسہ دعائیہ میں داخلہ لے کر یہاں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، پھر دار العلوم دیوبند تشریف لے گیے، جہاں عربی چہارم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم وہاں کے نامور اور نابغۂ روزگار اساتذہ سے حاصل کرنے کی سعادت پائی، بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے پڑھی اور 1959ءمیں سند فراغ حاصل کرکے وطن لوٹ آئے۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عراقیہ رانچی سے کیا، لیکن جلد ہی دار القرآن رانچی منتقل ہوگیے۔ جامعہ عربیہ سونس رانچی کے مسند درس پر بھی چند سال متمکن رہے، خیال تجارت کا آیا، ذہن کے کسی گوشے میں اس کے سنت ہونے اور رزق میں وسعت کے ذریعہ کا تصور بھی بیٹھا ہوا تھا، اس لیے تجارت کا مشغلہ اختیار کیا، اللہ نے اس میں بڑی برکت دی اور کامیاب تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، لیکن اللہ رب العزت کو ان سے دوسری خدمت مطلوب تھی، اس لیے 1985ءمیں انہیں دار العلوم قاسمیہ مدرسہ چوک بلسوکرا کا ناظم منتخب کیا گیا، انہیں اس عہدہ کے قبول کرنے میں خاصہ تردد تھا، لیکن کمیٹی کے اصرار اور مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے اس عہدہ کو مجبوراً انہوں نے قبول کیا، عہدے بے طلب آویں اور اِشراف نفس نہ ہوتو اللہ کی نصرت اور مدد ضرور آتی ہے۔ مولانا نے اس ذمہ داری کو خلوص و للہیت کے جذبہ سے سنبھالا اور مدرسہ روز افزوں ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ آپ کے عہد میں مدرسہ کی تعلیمی و تعمیری ترقی خوب ہوئی، آمد و صرف میں شفافیت اور حسابات کے اندراج میں غیر معمولی احتیاط کی وجہ سے مدرسہ انتظامیہ پر عوام کا اعتماد بڑھا، اس اعتماد نے مدرسہ کو مالیاتی اعتبار سے بھی مضبوط کیا۔ مولانا کی خدمات کاایک بڑا میدان اصلاح معاشرہ و عقائد بھی تھا، انہوں نے علاقہ میں عقائد صحیحہ کی ترویج و اشاعت کے لیے محنت کی، اس کام میں ان کو مشہور مناظر مولانا طاہر حسین گیاوی کا تعاون اور ساتھ ملا۔جس سے مولانا کی تحریک اصلاح عقائد کو مزید تقویت ملی، اس تعلق اور ارتباط کو مضبوط کرنے کے لیے مولانا نے مولانا طاہر حسین گیاوی کو اپنے مدرسہ کا اعزازی مہتمم بنادیا، جس سے ان کی آمد و رفت وہاں زیادہ ہونے لگی اور لوگوں نے محسوس کیاکہ اس تحریک میں مولانا کو ایک بڑے عالم کا ساتھ ہے۔
مولانا سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ہوئی۔ مولانا کو یہ بات کسی نے پہونچا دی کہ تقریر میں بھی کرلیاکرتاہوں، چنانچہ انہوں نے پہلی بار مدرسہ کے جلسہ میں مجھے یاد کیا، اس زمانہ میں مولانا طاہر حسین گیاوی چاق و چوبند اور صحت مند تھے۔ اعزازی مہتمم ہونے کی وجہ سے وہ بھی وہاں موجود تھے، جلسہ کا انتظام و انصرام انتہائی سلیقہ سے کیاگیاتھا، علماءکی رہائش الگ الگ کمروں میں کی گئی تھی، ہر کمرہ میں صابن، تولیہ، بیت الخلاءکی چابھی رکھی گئی تھی؛ تاکہ ضرورت کے وقت پریشانی نہ ہو، مولانا طاہر حسین گیاوی خود ہی کمرے کمرے جاکر علماءکی مزاج پرسی کر رہے تھے، جلسہ میں لوگوں کی بڑی بھیڑ تھی، احقر نے کوئی ایک گھنٹہ بیان کیا، کیوں کہ یہی وقت ہمیں دیا گیا تھا۔ بعد میں امارت شرعیہ کے وفود کے دورے کے موقع سے کئی بار وہاں جانا ہوا، مولاناکی بینائی ختم تھی؛ لیکن مہمانوں کااکرام و احترام اس طرح کرتے کہ ہر آنے والا یہی محسوس کرتا کہ مولانا سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مولانا کی ظاہری بصارت تو چلی گئی تھی، لیکن بصیرت آخری وقت تک سلامت تھی، انہیں یہ کہنے کا حق تھا کہ ”بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے“ اس بصیرت کے سہارے آپ نے آخری وقت تک مدرسہ کے نظام کو پوری مستعدی کے ساتھ سنبھالا اور علاقہ کی دینی ضرورت کی تکمیل کے لئے سرگرم رہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل اور مدرسہ کو ان کا نعم البدل دے آمین یا رب العلمین و صلی اللہ علی النبی الکریم و علی اٰلہ و صحبہ اجمعین۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد 
پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مورخہ 22/جنوری 2023 (پریس ریلیز) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں دس بچے بچیوں نے تکمیل قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن مکمل کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
عمار رحمانی، فریحہ رحمانی، فقیھہ روشن ،عالیہ پروین ،صادقین اختر ،شاداب خان، سمیرہ پروین ،حماد رحمانی، انشاء ریاض، زینب پروین، زاہرہ پروین کا نام شامل ہے،
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے تمام بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے مستقبل کے لئے دعائیں دیں، فاؤنڈیشن کے برانچ اونر پٹنہ وڈائریکٹر مدرسہ ضیاء العلوم نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

اتوار, جنوری 22, 2023

اس مادّی کائنات میں انسان خداکی ایک افضل ترین مخلوق ہے لیکن چونکہ اس کاوجودگندے

مضمون)               
 ا عتراف و انحراف 
 اردو دنیا نیوز ٧٢
 ٭ انس مسرورؔانصاری 

 اس مادّی کائنات میں انسان خداکی ایک افضل ترین مخلوق ہے لیکن چونکہ اس کاوجودگندے پانی کی حقیربوندسے ہوتاہے اورادنیٰ سے اعلاکی طرف مراجعت کرتاہے۔اسی لیے قدرت نے اس کی فطرت میں متضاداوصاف کوودیعت کیا ۔چنانچہ اگریہ پاکیزگی میں فرشتوں سے برترہے تومعصیت میں شیطان سے بھی بدتر۔مختاربھی ہے مجبوربھی ۔قوی بھی ہے اورکم زوربھی۔بداعمال بھی ہے اورخوش خصال بھی۔ قدرت نے اسے یہ اختیاربھی دیاہے کہ وہ خودجیساچاہے ویسااپنے آپ کوبنائے۔اس دنیامیں اس پرکوئی گرفت نہیں،کوئی پکڑنہیں۔قدرت نے اسے زندگی کی شاہراہ پرکھڑاکردیاہے جہاں سے مختلف سمتوں میں راستے منقسم ہیں۔انسان پرقدرت کایہ عظیم احسان ہے لیکن انسان کے حق میں قدرت کے احسانات ونوازشات کاسلسلہ یہاں ختم نہیں ہوجاتابلکہ شاہراہِ زندگی سے مختلف سمتوں میں جانے والے راستوں کے انتخاب کے لیے قدرت نے انسان کوقوی ذہن اورادراک وعرفان کی بے حساب صلاحیتوں سے نوازہ اورانتخاب کی پوری پوری آزادی بخشی۔انسان کومکمل اختیاردیاکہ جس راستے پرچاہے،جاسکتاہے لیکن اپنے نفع ونقصان کاوہ خودذمّہ دارہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کوکسی رہنماکی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔کسی سہارے کی احتیاج ہوتی ہے۔وہ کسی ماورائی طاقت سے امدادکاطالب ہوتاہے۔پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ انسان متضادخصوصیات کامالک ہے۔جہاں وہ اتناقوی ہے کہ کائنات کی ہرشئے پر تصرفات کاحوصلہ رکھتاہے وہیں اتناکم زوربھی ہے کہ قدم قدم پراسے سہارے کی تلاش ہوتی ہے۔یہ سہاراخداکابھی ہوسکتاہے اورخودانسان کابھی۔!حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاہ راہ پرانسان کوبہرحال کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہاں ہمیں اس ماورائی طاقت کاادراک ہوتاہے جس نے انسان کی تخلیق کی اورجس کی مددسے ہم وجودکی اس منزل تک پہونچے ہیں اورجوکائنات کے میکانکی نظام کواس ترتیب اورتسلسل کے ساتھ چلاتی ہے کہ ہم اس میں کسی طرح نقص نہیں پاتے۔کوئی عیب ہمیں نظرنہیں آتا۔وہ ماورائی ان دکھی طاقت جسے ہم خداکہتے ہیں۔جب خداکاگیان حاصل ہوجاتاہے توہم اس سے مددمانگتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ہمیں قدم قدم پرخداکے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اس پراعتمادکرتے ہیں اوراسے راضی کرنے کے مختلف طریقے بروئے کارلاتے ہیں۔اسے قادرِ مطلق مان کراس کی مددسے ہم ان اشیاء پربھی تصرفات حاصل کرتے ہیں جوبظاہرہماری دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔ خداکے وجودکاادراک وعرفان نہ ہونے کی صورت میں یاادراک ہوتے ہوئے بھی اسے قادرِ مطلق نہ سمجھنے کی صورت میں انسان کے سامنے واحدراستہ یہ ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ اورفکروتدبّرکواپنا سہارابنائے اورمادّی اسباب پربھروسہ کرے۔فطری اقتضابہرحال انسان کوکسی نہ کسی چیزکاسہارالینے اوراس پراعتمادقائم کرنے پر مجبورکرتاہے۔غورطلب یہ بھی ہے کہ انسان کوقد رتی ا ختیارحاصل ہوتے ہوئے بھی وہ بے اختیارہے ۔قدرت نے اس کے اختیارات پر مکمل کنٹرول رکھاہے ورنہ یہ دنیا کب کی جہنم بن چکی ہوتی۔ دل ودماغ اورتدبّرواسباب پرکوئی اختیار نہیں۔چنانچہ جب تدبیرواسباب ناکام ہوجاتے ہیں اورحصولِ مقاصدکے لیے مادّی اسباب فراہم نہیں ہوتے توانسان مجبوراوربے دست وپاہوکررجاتاہے۔تدبّرو تفکراوروسائل واسباب قابل اعتمادہوتے تودنیاکے بڑے بڑے مفکرین ومدبرین کبھی ناکام نہ ہوتے۔نپولین کو مسلسل فتوحات کے بعد کبھی شکست نہ ہوتی اورمغل سلطنت کوکبھی زوال نہ آتا۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اعلیٰ مرتبت انسانوں کی زندگی میں باربارایسے مواقع آتے رہے ہیں جب تمام ترتدبیروں نے ان کاساتھ چھوڑدیا اورسارے اسباب وعوامل ان کی دست رس سے باہرہوگئے۔در حقیقت انسان اتناکم زورہے کہ تدبیراوروسائل واسباب پربھی اسے اختیارحاصل نہیں۔یہ بھی قدرتی اشاروں کے محتاج ہیں۔اس کے باوجود انسان کوخودمختاری کادعویٰ ہے۔ 
 خداکی اس زمین پر خداپرست اورمادّہ پرست انسان ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد مادّہ پرستی کوجس طرح فروغ حاصل ہوا،اس کی مثال نہیں ملتی۔اس کابہت برانتیجہ یہ سامنے آیا کہ انسانوں میں خودکشی کے رجحانات کوخوب تقویت ملی۔خودکشی کے عالمی اعدادوشماربتاتے ہیں کہ سکون وعافیت کی جستجو میں ناکامی کے سبب مادّہ پرست انسانوں میں منفی رجحانات کااضافہ شدت کے ساتھ ہواہے۔ چنانچہ مادّہ پرست انسان جب ناکام ومایوس ہوجاتاہے تواس کو تمام راستے مسدود نظرآتے ہیں اورخودکشی کے سواکوئی راستہ نظرنہیں آ تا۔زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی سہارانہیں ہوتا۔کوئی امیدنہیں ہوتی۔کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اس کے برعکس خداپرست انسان چونکہ ناکامی وکامیابی کاساراانحصاراپنے خداپررکھتاہے اس لیے جب بھی وہ اپنے مقصدمیں ناکام ہوتاہے توخداکے وجودکاایقان وعرفان اسے ہرکوشش کے بعدایک اورکوشش پرآمادہ رکھتاہے۔چونکہ اس کاایمان واعتماداقتدارِاعلاپرہوتاہے۔اسے یقین ہوتاہے کہ حاکمِ کُل خداہے جوقادرِ مطلق ہے ۔اس لیے اس کاکام کوشش وتدبیرہے۔اس کاخداجب چاہے گااس کی مطلوبہ چیزاسے فراہم کردے گا۔خداکی حاکمیت کایقین واعتراف اس کاسب سے بڑاسہاراہوتاہے جوخداپرست انسان کوکبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔جبکہ مادّہ پرست انسان کی تمام تدبیروں کاسرچشمہ مادّہ ہوتاہے جومجبورِ محض ہے۔ایسے شخص کی زندگی کاانحصاراتفاقات پرہوتاہے۔اتفاق سے وہ کامیاب ہوتاہے اوراتفاقات ہی پروہ جیتاہے۔ جب اتفاقات اس کاساتھ نہیں دیتے تووہ آندھی میں تنکے کی طرح بے وزن وبے وقارہوجاتاہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں حالتِ مایوسی میں خودکشی کے سوازندگی کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ہوتا۔خد انکار اور اس سے انحراف اصل میں باطل کااقرارواعتراف ہے اورخداکااقرارواعتراف اصل میں فطرت کااقرارواعتراف ہے اورفطرت وہ چیزہے جس کے بغیرحرکت وعمل اورکسی طرح کی زندگی کاتصورمحا ل ہے۔ 

 ٭٭ 
 
 انس مسرورؔانصاری 

 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔ 
امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
 (یوپی) 
 رابطہ۔9453347784 
 

ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے، اس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی تھی اور اسی وقت سے تسلسل کے ساتھ یہ تنظیم اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض ومقاصد علمی وادبی وثقافتی کام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج واشاعت، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا، ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کرکے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیمی اداروں کا قیام، قدرتی آفات اور اجتماعی تشدد سے متاثرین کے لئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف، فری طبی امداد، غریب طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی فیس کا نظم ونسق وغیرہ ہے ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک سینکڑوں پروگرام کا انعقاد ہو چکا ہے جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ماتحت بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک دینی ادارہ,, مدرسہ ضیاء العلوم،،اور ایک لائبریری,, ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری ،، کا قیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
اب ضیائے حق فاؤنڈیشن 2023 کا کیلنڈر بھی منظر عام پر آچکا ہے،جسے قارئین نے سراہا، کیلنڈر میں فاؤنڈیشن کا مختصراً تعارف بھی ہے، اور اب تک تقریباً دو سو لوگوں کو بذریعہ ڈاک بھیجا جا چکا ہے، اسے پٹنہ آفس برانچ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔یا ان نمبرات پر رابطہ کرکے بذریعہ ڈاک بھی منگا سکتے ہیں
7909098319
9899972265

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...