Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 28, 2023

کرو نہ غیبت انساں بچو برائی سے

کرو نہ غیبت انساں بچو برائی سے
اردودنیانیوز٧٢
✍️ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم میں  ،  غیبت نکال دیں تو فقط خامشی ہے ۔
زبان کے ذریعہ سے جو گناہ صدور میں آتے ہیں اور جن کے ذریعہ کھلم کھلا اللہ رب العزت کے ساتھ بے شرمی اور بے حیائی کا ثبوت دیا جاتا ہے ان میں ایک گھناؤنا جرم غیبت کا ہے یہ وبا آج چاۓ کے ہوٹلوں سے لے کر سفید پوش حاملین جبہ ؤ دستار کی مبارک مجلسوں تک پھیلی ہوئی ہے مجلس کی گرمی آج غیبتوں کے دم سے ہوتی ہے اور سلسلہ گفتگو دراز کرنے کے لیے عام طورپر غیبت ہی  کا سہارا لیا جاتا ہے اب یہ مرض اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کی برائی اور گناہ ہو نے کا احساس تک دل سے نکلتا جا رہا ہے یہ صورتِ حال افسوس ناک ہی نہیں بلکہ اندیشہ ناک بھی ہے
غیبت کی شناعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے غیبت سے بچنے کا حکم کرتے ہوئے غیبت کرنے کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے مثل قرار دیا ہے 
مفہوم  ،
  اور برا نہ کہو پیچھے ایک دوسرے کے بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گھن آتی ہے تم کو اس سے   (الحجرات) 
ظاہر ہے کہ کوئی شخص ہرگز ہرگز اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ کسی بھی مردہ کا گوشت کھائے چہ جائیکہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا قرآن کریم یہ یقین ہمارے دل میں بٹھانا چاہتا ہے کہ جس طرح تمہاری طبعیت اپنے بھائی کا گوشت کھانے  پر آمادہ نہیں ہوتی اسی طرح تمہیں اس کی برائی کرنے سے بھی پوری طرح احتراز کرنا چاہیے کیونکہ غیبت کرنا گویا کہ اس کی عزت نفس کو بیج کھانا ہے جو اسی طرح مکروہ اور ناپسندیدہ ہے جیسے اس کا گوشت کھانا نا پسندیدہ اور کراہت کا باعث ہوتا ہے 
غیبت کیا ہے ؟
جب غیبت پر کسی کو ٹوکا جاتا ہے تو وہ فوراً جواب دیتا ہے کہ کیا ہوا میں تو حقیقت حال بیان کر رہا ہوں گویا کہ یہ حقیقت بیان کرنا جائز ہے حالانکہ یہ خام خیالی ہے رسول اکرم ﷺ  کا ارشاد ہے کیا تمہیں معلوم ہے غیبت کیا ہے ؟  صحابہ نے عرض کیا  اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے تو آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کے بارے میں ان باتوں کا ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو ( غیبت ہے )  ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر میرے بھائی کے اندر وہ صفات ہوں جو میں نے کہی ہیں ( تو کیا پھر بھی غیبت ہوگی ) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ برائی تیرے ساتھی میں پائی جائے تبھی تو غیبت ہوگی اور اگر وہ بات اس کے اندر نہ ہو تو تونے اس پر بہتان باندھا ہے ( جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے ) 
اس سے معلوم ہوا کہ اس برائی کا بیان کردینا بھی غیبت ہے جو برائی مذکورہ شخص میں پائی جاتی ہو اور اس کے غموم میں ہر ایسی برائی کا بیان شامل ہے جس سے مذکورہ شخص کی عزت میں فرق  آتا ہو خواہ وہ دنیا کی برائی ہو یا دین کی جسم کی برائی ہو یا اخلاق کی اولاد کی برائی ہو یا بیوی کی خادم کی برائی ہو یا غلام کی الغرض جس چیز کے بیان سے کسی کی بےعزتی ہوتی ہو اس کا اظہار غیبت کے حکم میں داخل ہے  ( روح المعانی)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
ولا تغتب اخاک المسلم ۔ اپنے مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرو
پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی کوئی ایسی بات کرنا جو اگر اس کے سامنے کی جائے تو اسے نا پسند ہو اسے غیبت کہتے ہیں
غیبت صراحتاً بھی ہو سکتی ہے اشارتاً بھی ہو سکتی ہے زبان سے بھی ہو سکتی ہے قلم سے بھی ہو سکتی ہے نقل اتار کر بھی ہو سکتی ہے اور کسی کے نسب اخلاق جسم معاملات اور عبادات میں عیب نکال کر بھی ہو سکتی  ہے غیبت حرام ہے  اور سورہ حجرات میں غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے گویا جیسے کوئی شخص جوش غضب میں سنگدلی کی وجہ سے اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ کھاتا ہے اسی طرح غیبت کرنے والا بھی اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے پھر جیسے مردہ اپنا گوشت نوچنے والے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا اسی طرح جس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کی جائے وہ اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شب معراج میں میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جس کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کے عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے 
غیبت میں کئی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں بعض اوقات قتل و قتال تک نوبت پہنچ جاتی ہے اپنی برائیوں اور کمزوریوں سے نظر ہٹ جاتی ہے اور تجسس ہی میں لگ جاتا ہے کسی بھی مسلمان کو بد نام کرنا اس کی پردہ دری کرنا ہے خود ایک بڑی برائی ہے 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے وہ لوگو جو زبانی تو ایمان لائے ہو لیکن دلوں میں اب تک ا یمان پیوست نہیں ہوا تم مسلمانوں کو ایذا نہ پہنچاؤ انہیں عار نہ دلاؤ ان کی لغزشیں نہ ٹٹو لو نہ مسلمانوں کی غیبت کرو نہ انکی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑ و جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پوشیدگی کی ٹٹول اور ٹوہ میں لگ جائے گا اللہ تعالی اس کے پوشیدہ عیوب کے پیچھے پڑ جائے گا اور یقین مانو کہ جس کے عیوب کے پیچھے اللہ تعالی پڑ جائے اسے رسوا اور بد نام کر کے ہی رہے گا یہاں تک کہ خود اس کے گھر میں بھی اس کی بدنامی رسوائی اور فضیحتی ہو جائے گی 
کسی کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے غیبت کرنا ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ آخر کہاں تک اور کب تک تم بدکار لوگوں کی برائیوں کو بیان کرنے سے رکے رہو گے ان کے پردے چاک کر دو تاکہ لوگ ہوشیار ہو کر ان کی برائیوں سے بچاؤ کر لیں
یہ حدیث دلیل ہے کہ فاسق بدکاروں کی برائیاں مسلمانوں کی مصلحتوں کے لحاظ سے بیان کرنا یا دینی مصالح کی بنا پر کرنا درست ہے یہ چیز غیبت میں داخل نہیں 
غیبت کی سزا
روز محشر عدالت خداوندی میں غیبت کرنے والے سے اس کی نیکیاں لے کر جس کی غیبت کی گئی ہو اس کو دلائی جائیں گی اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو جس کی غیبت کی گئی اس کے گناہ غیبت کے بقدر اس پر ڈال دئیے جائیں گے 
الغرض مسلمانوں کو ایذا پہنچانا کبیرہ گناہ ہے مسلمانوں کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے مسلمانوں کی عیب جوئی کرنا کبیرہ گناہ ہے ان کی لغزشوں کو ٹٹولنا کبیرہ گناہ ہے ان کی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑجانا کبیرہ گناہ ہے ان کی ہتک  عزت کبیرہ گناہ ہے 
کرو نہ غیبت انساں بچو برائی سے
کرو جو بات کرو منھ پہ پشت رو نہ کرو

ذات پر مبنی مردم شماری ___

ذات پر مبنی مردم شماری ___
اردو دنیا نیوز,٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
حکومت بہار نے مرکزی حکومت کے انکار کے باوجود بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ اپنے صرفہ سے لے لیا ،تیاری پوری ہو گئی، خاکے بنائے گیے، اس مردم شماری میں بہار کے اڑتیس اضلاع کے پانچ سو بلاک کے 2.58 کروڑ گھروں تک سروے کنندگان پہونچیں گے اور 12.27 کروڑ لوگوں کی گنتی کا کام ذات کے اندراج کے ساتھ کیا جائے گا، یہ دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلا مرحلہ 7 جنوری سے 21 جنوری 2023 کو اختتام پذیر ہوا اس میں مکانات کی گنتی کی گئی ، ان پر نمبر لگائے گیے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ باہر سے دکھنے والےایک مکان میں کتنے خاندان رہ رہے ہیں، ان کا گارجین کون ہے اور اس خاندان میں کتنے لوگ ہیں، دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے 30 اپریل 2023 تک چلے گا، اس میں خاص طور سے ذات پر مبنی اعداد وشمار کو ڈیجیٹل انداز میں جمع کیا جائے گا، اس کام کے لیے بہار سرکار نے پینتیس( 35 )لاکھ ملازمین کو ٹریننگ دے کر تیار کیا ہے ، مردم شماری کرنے والوں کے اوپر بڑی تعداد میں سوپر وائزراور نگراں بنائے گیے ہیں اور ضلع مجسٹریٹ کو نوڈل افسر کی ذمہ داری دی گئی ہے تاکہ یہ کام سلیقہ سے اختتام تک پہونچے۔
 پہلے مرحلہ کے کام کی تکمیل پر مردم شماری کرنے والوں نے کچھ پریشانیوں کی رپورٹ بھی سرکار کو دی ہے۔ مثلا ایک آدمی کا مکان دیہات میں بھی ہے اور شہر میں بھی، اگر دونوں جگہ ایک ہی آدمی کے نام اور خاندان کا اندراج کیا جائے تو اعداد وشمار میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا، شہر میں ایک عمارت میں بہت سارے فلیٹس ہیں، جن کے مکیں مالک مکان نہیں، کرایہ دار ہیں، ظاہر ہے کرایہ دار کا جہاں اپنا مکان ہوگا وہاں کا پتہ دے گا، مالک مکان بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کرایہ دار کا نام اس مکان کے مکیں کے طور پر درج ہوجائے، کیوں کہ بعد میں وہ جب سرکار کے رکارڈ کا حصہ بن جائے گا تو مالک مکان کے لیے دشواریاں کھڑٰی ہو سکتی ہیں، ایک مسئلہ خالی پڑے مکان اور مذہبی عبادت گاہوں کا بھی ہے ، خالی پڑے مکان کی ملکیت جس کی ہے اس کا نام ذکر کیا جائے تو کئی جگہ اندراج ہو نے کی وجہ سے صحیح اعداد وشمار تک پہونچنا دشوار ہوگا، مسجد، مندر اور مذہبی مقامات کی عمارتوں پر مسجد ، مندر کا اندراج کافی ہے، لیکن بعض سروے کنندہ ان مقامات کا اندراج نہیں کر رہے ہیں، جو بعد میں دشواری کا سبب ہو سکتا ہے، اعلیٰ افسران ان معاملات ومسائل پر غور وخوض کر رہے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں واضح ہدایت دوسرے مرحلے کے شروع ہونے کے پہلے سروے کنندگان تک پہونچ جائے گی۔
 سروے کے بعد ایک مرحلہ ان اعداد شمار کے جمع کرنے اور تجزیہ کے بعد نتیجہ تک رسائی کا ہوگا۔ اس کام کے لیے ایک ماہ یعنی 31 مئی 2023 تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے ، یہ سارے مراحل کے مکمل ہونے میں عدالت کا فیصلہ بھی رکاوٹ بن سکتا ہے کیوں کہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کی طرف سے اس سروے کے خلاف درخواستیں عدالت میں زیر غور ہیں، اور عدالت نے اگر روک لگادی تو اس کام کوپایہ تکمیل تک پہونچا نا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
عدالت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آئی تو حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ، کیوں کہ اس مردم شماری کے لیے جدیو ارکان پارلیامنٹ نے وزیر داخلہ کے توسط سے وزیر اعظم کو اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیاتھا،لیکن 20 جولائی 2020ءکو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ 2021ءکی مردم شماری ذات کی بنیاد پر نہیں ہوگی،پھر23 اگست کو تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وزیر اعظم سے ہوئی، اس ملاقات میں بہار سے بی جے پی کے وزیر معدنیات جنک رام نے بھی نمائندگی کی تھی، لیکن وزیر اعظم اپنی جگہ اٹل رہے، اور انہوں نے بہار ہی نہیں مہاراشٹر اسمبلی کی پاس شدہ تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دستور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل 2010ءمیں پارلیامنٹ میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سوال اٹھا تھا، اصولی طورپر حکومت نے اسے مان بھی لیا تھا، لیکن یہ مردم شماری معاشی طورپر کمزور طبقات کے حوالہ سے کرائی گئی جس کے اعداد وشمار آج تک عام نہیں کئے گئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے 2017ءمیں روہنی کمیشن کی تشکیل کی، کمیشن نے پایا کہ دو ہزار چھ سو تینتیس(2633) پس ماندہ برادری میں سے ایک ہزار (1000)کو منڈل کمیشن کی سفارش کا فائدہ نہیں ملا ہے، اس کمیشن نے 27 فی صد رزرویشن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
 ذات کی بنیاد پر مردم شماری کاکام برانوے(92) سال قبل 1931ءمیں ہوا تھا، اس کے مطابق ہندوستان میں اونچی ذات کے برہمن 7ء2، بھومی ہار 9ء2، کائستھ 2ء1 کل تیرہ (13) فی صد تھے، اوسط معیار کی آبادیوں میں یادو 0ء11، کوئری1ء4، کرمی 6ئ3، بنیا6ء0 کل3ء19 فی صد ہوا کرتے تھے، پس ماندہ برادری میں بڑھئی0ء1، دھانک8ء1، کہار7ء1، کانو6ء1، کمہار3ء1، لوہار3ء1، حجام6ء1، تتوا6ء1، ملاح6ء1، تیلی8ئ2 فی صد تھے۔ایک فی صد سے نیچے رہنے والی پس ماندہ برادری1ء16، درج فہرست ذات1ئ14، درج فہرست قبائل 1ء9، مسلمان5ئ12، فی صد، اس فہرست میںدرج ہوئے تھے، منڈل کمیشن نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی تھی، البتہ ہندوستان کی مجموعی آبادی پس ماندہ طبقات کا تخمینہ باون (52) فی صد لگایا تھا، جسے27 فی صد رزرویشن دیا گیا تھا۔
ذات پر مبنی مردم شماری اگر ایمانداری سے کی گئی اور کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں برتا گیا تو اس کا فائدہ پس ماندہ طبقات کو ہوگا، محروم طبقات کی پہچان ممکن ہو گی اور سرکاری منصوبوںکی تیاری میں اس سے مدد ملے گی ، اور اگر سرکار کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو بہار پورے ملک کے لیے رول ماڈل بن جائے گا، اور نتیش کے اس اعلان کو تقویت ملے گی کہ جو ہم پانچ سال قبل سوچتے ہیں، پورا ملک اس تک پانچ سال بعد پہونچتا ہے۔

جمعرات, جنوری 26, 2023

جمہوری اقدارکی حفاظت____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جمہوری اقدارکی حفاظت____
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
26جنوری کو ، ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، کرتوپتھ پر  ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان میں اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی جمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گوء رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑا کرنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ،
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

بدھ, جنوری 25, 2023

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی __

ایک طرز حکومت ہے جمہوریت بھی __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
جمہوریت انگریزی لفظ ڈیموکریسی(Democracy)کا اردوترجمہ ہے، جویونانی زبان کے لفظ ڈیمو(Demo) اور کریٹوس (Kratos)سے مرکب ہے۔ڈیمو(Demo)کے معنی ہیں عوام اور کریٹوس(Kratos)کے معنی ہیں حکومت، اس طرح جمہوریت کا مطلب ہوا عوام کی حکومت ، لیکن عملاً اس پھیلی ہوئی دنیا اور بڑھتی ہوئی آبادی میں عوام کا براہِ راست اجتماعی طورپر حکومت میں حصہ لینا دشوار تھا،اس لیے(Democracy) کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ری پبلک(Republic)بھی جوڑ دیاگیا، یہ اطالوی زبان کے رس پبلیکا (Respublica)سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی ہیں”ایسی طرز حکومت جس میں عوام براہِ راست حصہ نہ لیتے ہوں، بلکہ عوام کے منتخب نمائندے اس بار گراں کو اٹھا کر سماجی،ثقافتی، اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہوں۔ اس لیے اب اگر ہم جمہوریت کالفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد ڈیموکریسی (Democracy)کے ساتھ ساتھ ری پبلک(Republic)نظام حکومت بھی ہوتاہے۔
تاریخی پس منظر: جمہوری نظام حکومت کی بنیاد کب سے پڑی، یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے تاہم اتنا ضرورکہا جاسکتاہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں جب انسان پتھر اورتانبے کے دور سے نکل کر ایک منظم سماج کی تشکیل کررہا تھا، تو سربراہ ، قائد اورقبیلوں کے سرخیل کے انتخاب میں لاشعوری طورپر جمہوری طرز اختیار کرتاتھا۔ چنانچہ یونان کے علاقہ ایتھنس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ایسی جمہوریت کا پتہ چلتا ہے جس سے دس ہزار کی آبادی میں سےایک تہائی یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار آدمی حکومت کے کاموں میں براہِ راست حصہ لیتے تھے۔ویشالی جو جمہوریت کی جائے پیدائش ہے وہاں کے ایوان میں سات ہزار سات سو ستہتر ارکان ہوا کرتے تھے۔
حکومت کی ارسطا طالیسی تقسیم :زمانہ قدیم میں قبل مسیح ہی سے عملاً شعوری طور جمہوریت قائم ہوگئی تھی، لیکن اسے کسی سیاسی نظریے کے طورپر قبول نہیں کیاجاسکا تھا، کیونکہ اس وقت معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرسکا تھا جو سیاسی اور سماجی طورپر کسی نظریے کی داغ بیل ڈالتا، بعد میں جب انسانی معاشرے نے کچھ ترقی کی اور سماج میں تہذیب وتمدن نے اپنا مقام حاصل کرلیا تو مشہور فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب ”سیاسیات “ میں (1)بادشاہت (Royalty) (2)شخصی حاکمیت(Autocracy) (3)طبقاتی حکومت (Oligarchy) اور (4)پالیٹی (Polity) کا سیاسی نظریہ پیش کیا، جو اب تک کی سب سے قدیم اور شاید سب سے سادہ تقسیم ہے،اس سے قبل جمہوریت کا کوئی فکری تصورنہیں تھا۔
جمہوریت ایک سیاسی نظریہ: زمانے نے کچھ اور ترقی کی، یہاں تک کہ سترھویں صدی کا انقلاب آفریں دور آگیا، عیسائی مذہب کی دیواریں منہدم ہونی شروع ہوگئیں، پاپائیت اورشخصی آمریت کی اہمیت باقی نہ رہی، ظلم وتشدد کے خلاف سماجی وسیاسی شورشیں زور پکڑنے لگیں، اور اس آگ کے شعلے مذہب کے دامن سے نکل کر سیاست کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے، میکاویلی(Macavelli)اور طامس ڈیکن(Thomas Decean)نے شخصی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے جمہوریت کو سیاسی نظریے کے طورپرپیش کیا، خوش قسمتی سے اس نظریے کو اپنے ابتدائی دور میں ہی سرطامس مور(Sir Thomesmore) جیسے مفکر کی حمایت حاصل ہوگئی، جس نے اپنے مشہور ومعروف کتاب ”لی ٹوپیا“(Litopia) میں مثالی اشتراکیت (Idealsocialion) اور جمہوری حکومت (Democraticstate) کے نظریے پرعقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں کرامویل کی قیادت میں 1688میں انقلاب برپا ہوا اور پھر عوام نے فرانس اور جرمن حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی جمہوریت کی آغوش میں دے دیا، مرور ایام کے ساتھ اس نظریے نے اتنا فروغ پایاکہ کہیں تو شاہوں نے برضا ورغبت گدی خالی کردی اور کہیں عوام نے جبراً تخت نشیں کو خاک نشیں بناکر اپنا تسلط قائم کرلیا۔
جمہوریت کی تعریف: ابراہیم لنکن(Abraham Lincoln) نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عوام کی حکومت جو عوام کے ہاتھوں اور عوام کے لیے ہو“(Government of the People for the People and by the people) کو جمہوریت کہتے ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے انتخاب کی بنائ پر کسی کو حاکم مقررکرلیاگیا ہو اوروہی شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہو“۔
جمہوریت کے اجزاءترکیبی: مختلف ماہرین سیاسیات نے جمہوریت کے مختلف اجزاءترکیبی بیان کیے ہیں، لیکن ان تمام میں دواجزاءمشترک ہیں،ایک سیکولرزم اور دوسرا نیشنلزم،سیکولرزم کے معنی لادینی، غیر مذہبی، خدا بیزاری کے ہیں، اوراصطلاح میں سیکولرزم ایسے رجحان کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق سیاسی اورسماجی اداروں میں ، مذہبی معتقدات اور مابعدالطبعی تصورات پر مبنی نہ ہوں، اس کا دوسرا جزئ نیشنلزم ہے جو مساوات ، انقلابی اور قومی نظریہ کے مترادف ہے۔ان کے علاوہ آج کے ترقی پذیر دورمیں مغربی جمہوریت کے کچھ اور اجزاءترکیبی امیدواری (Candidating) ورغلانا(Canvencing)پروپیگنڈہ، رائے دہندگی(Voting)اور کثرت رائے (Majortty) نکل آئے ہیں جو جمہوریت کے بازار میں سکہ رائج الوقت کی طرح چلتے ہیں۔
جمہوریت نے کیادیا؟ابتداءمیں جمہوریت کا نظریہ شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیش کیاگیاتھا، جس کے معنی یہ تھے کہ خاندان کے کسی ایک فرد کو لاکھوں اورکروڑوں انسانوں پرحکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، تمام انسان برابرہیں، ان میں سے ہرایک کی اپنی انفرادی اہمیت ہے، جب کہ شخصی حکومت میں انفرادی حیثیت غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس لیے انسانیت اور انفرادی اہمیت کی ازسرنو بحالی کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ جمہوریت کو فروع دیاجائے تاکہ انسان کی حیثیت صرف ایک خارجی شئے کی نہ رہ جائے بلکہ اسے سماجی ، سیاسی اور شہری حقوق بدرجہ اتم حاصل ہوں، وحشی مادی قوتوں اور بہیمانہ خاصیتوں کا زوال ہو، اور انسان انسانیت کی ڈگر پر آگے بڑھ سکے، اقتصادیات میں قومی دولت کو اتنا فروغ مل جائے کہ ملک کی ساری آبادی کو ایک معقول زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آسکے اور دولت کی تقسیم کا ایسا معقول انتظام ہو کہ سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی کشمکش ختم ہواور ہر ایک کو معیاری زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرائے جاسکیں۔
لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،جمہوریت کے تانے بانے بھی ان مسائل کو حل کرنے میں تارعنکبوت ثابت ہوئے، آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جن خطرات سے بچنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے گئے تھے وہ سب خواب وخیال بن کر آرزوؤں کی چتا پربے گور وکفن پڑے ہوئے ہیں، اس کے برعکس قومیت ووطنیت کے جھگڑے نے آج سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے،اورآمریت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے، استعماریت نے اپنے خونی پنجے انسانیت کی شہ رگ میں اتارناشروع کردیاہے، طبقاتی کشمکش اور غریبی امیری کی خلیجیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ شاید مدتوں تک انہیں پاٹا نہ جاسکے۔ اوراس طرح دنیا دوعالمگیر جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے،نیوکلیائی ہتھیاروں اورایٹمی توانائی کے اس دور میں جس کا روکنا شاید ممکن نہ ہو۔
غلطی کہاں ہوئی؟جمہوریت میں جہاں تک شخصی حاکمیت کے ختم کرنے کا تصور ہے وہ اپنی جگہ نہ صرف درست بلکہ لائق ستائش ہے،ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ جمہوریت کی دعوت ایک ایسی دعوت ہے، جوعام انسانی سوسائٹی کی عالمی انسانی تنظیم کے لیے کوشش کرتی ہے، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جمہوریت افراد اور قوموں کے درمیان بلاتفریق تمام نوع انسا ن کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے کوشاں ہے، اگربات اتنی ہی ہوتی تو اس سے انسانیت کودرپیش چیلنج کا حل بآسانی ہوسکتا، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ شخصی حکومت کے عدم سے ایک وجود اور نہیں سے”ہے“ نے جنم لے لیاہے۔ جوبنیادی طورپرغلط ہے ، عوام کی حکومت اور قانون سازی کا حق (Right to Rule) عوام کو دیدینا یہ جمہوریت کی اتنی بڑی خرابی ہے جس نے اس کے تمام اصلاحی اقدامات اور انقلابی افکار کو منجمد کردیاہے، جب سنگ بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو دیوار کے سیدھے ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں جمہوریت کے بانیوں اورداعیوں نے شدید ٹھوکریں کھائی ہےں وہ یہ بھول گئے کہ یہ نظر یہ انسان پر انسان کی برتری کوتسلیم کرتا ہے اوریہی ملوکیت کی دوسری شکل ہے،
 انھیں یہ بھی خیال نہیں رہاکہ جب قانون سازی کا حق عوام کو دے دیا جائے گا تو ہر قوم اپنے مفادات اور حالات کے اعتبار سے قوانین بنائے گی اور اگر یہ کام مجلس قانون ساز کے ذمہ بھی کردیا جائے گا تو بھی اس کے ارکان اپنے کو ذات پات کے حدود، قبائلی، علاقائی، لسانی ، اور جغرافیائی حصا رسے الگ نہیں کرسکیں گے، نتیجتاً ایسا قانو ن کبھی بن ہی نہیں سکے گا جو تمام طبقے کے لیے موزوں اور مناسب ہو،کہیں ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکراجائے گی،اور کہیں فرد کی بے لگام آزادی افکار وعمل کی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کردے گی اوراگر بالفرض ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی مغربی جمہوریت میں قومیت کا عنصر اتنا غالب ہے کہ وہ پوری عالم انسانیت کو ایک رشتے میں کبھی بھی منسلک نہیں ہونے دے گی۔ اورانسان کبھی بھی جاہلیت کے قومی تعصب اورنسلی امتیاز کے ریشمی قباکو چاک نہیں کرسکے گا اور جب تک تعصب کی یہ چادر باقی رہے گی امن وشانتی کی تمام تدبیریں ریت کی دیواروں کی طرح ہبائ ً منثورہ ہوتی رہیں گی۔
شخصی حاکمیت کا نعم البدل:
ان حالات میں آج دنیا کو ایک ایسے نظام حکومت کی ضرور ت ہے، جو مندرجہ بالا خرابیوں سے پاک وصاف ہو، اور وہ صرف اسلامی نظام حکومت ہے، اسلام بنیادی طورپر قانون سازی کا حق (Right to Rule)ایک ایسے قادر مطلق کے لیے ثابت کرتاہے، جس کے نزدیک امیر، غریب، عورت ،مرد ، کالے،گورے، شیعہ ، سنّی ، عرب وعجم، یونانی تورانی سب کے سب برابر ہیں، اس کے نزدیک نہ تو طبقاتی کشمکش ہے اور نہ اپنے حقوق محفوظ رکھنے کا کوئی سوال ، وہ جمہوریت کا قائل ہے، لیکن ایسی جمہوریت کا نہیں جوتمام دنیا کو خونی آماجگاہ بنادے، بلکہ وہ اپنی حکومت انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انسانوں کے ہاتھوں سے چلواتا ہے، گویاکہ اسلام کے نظریہ سیاسی میں عوامی حکومت (Government of The People) کے بجائے خدائی حکومت(Government of The God) کا تصور غالب ہے اوراسی لیے اس نے انسانوں کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایاہے، خدائی قانون کے علاوہ کسی بھی انسانی قوانین کو وہ جھوٹ ، کذب، اوربہتان طرازی سے تعبیر کرتاہے۔وہ تمام دنیاکے لوگوں کو ایک قانون اوراٹل دستور کا پابندکرنا چاہتاہے اور تمام غیر خدائی قوانین سے گریز کاحکم دیتاہے:وہ کہتا ہے کہ حکمرانی خدا ہی کی ہے، وہ جس کوچاہتا ہے ، اپنی حکومت بطور خلافت اس کے ذمہ کردیتاہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتاہے۔وہ اپنی حکومت سے تمام شرکائ کی نفی کرتاہے ولم یکن لہ شریک فی الملک ، وہ بار بارآگاہ کرتا ہے کہ حکومت اسی کی ہے اور خلق بھی اسی کا ہے ، الالہ الخلق والامر اور پھر بھی اگر لو گ نہ مانیں اور اپنی حکمرانی ہی پر مصر ہوں تو اسلام آخری اور حتمی فیصلہ سنادیتاہے:کہ جولوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔

منگل, جنوری 24, 2023

سپریم کورٹ نے راستہ نکالا

سپریم کورٹ نے راستہ نکالا __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
یکساں شہری قانون کی تیاری اور اس کے نفاذ کےلئے بھاجپا اور اس کی حلیف پارٹیوں کی طرف سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں، اس معاملہ پر مخالفت کی وجہ سے مرکزی حکومت اب تک اس طرف قدم آگے نہیں بڑھاسکی ہے، اس کے باوجود اتراکھنڈ اور گجرات سرکار نے یکساں شہری قانون نافذ کرنے کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ طریقۂ کار کی تیاری اور اس کے نفاذ کے امکانات کا جائزہ لینے کےلئے کمیٹی بھی تشکیل دی اس واقعہ کے بعد انوپ برن والا نے مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کر اس پر روک لگانے کی مانگ کی، کیوں کہ دفعہ 44جس کے سہارے یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی ہے وہ مرکزی حکومت کا معاملہ ہے اور پورے ہندوستان کے لئے ہے، ریاستوں کو ایسے معاملے میں انفرادی طور پر کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں دونفری کمیٹی نے انوپ برن والا کی عرضی کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔ اس لیے کہ دستور کی دفعہ162ریاستوں کو یہ حق دیتی ہے کہ ہ وہ اس قسم کی کمیٹیوں کی تشکیل کرسکتی ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
عدالت کے اس فیصلہ سے ریاستوں میں یکساں شہری قانون کی تیاری اور نفاذ کے منصوبوں کو تقویت ملے گی، ابھی دو ریاست نے یہ کام شروع کیا ہے، دھیرے دھیرے بھاجپا اقتدار والی تمام ریاستوں میں اس کام کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی اور 2024ءکے الیکشن میں بھاجپا کے پاس یہ اہم مُدّا ہوگا، رائے دہندگان کو بتایا جائے گا کہ اب کے اگر بھاجپا اقتدار میں آئی تو پورے ملک میں یکساں قانون نافذہوگا اور وہ قانون یقینی طور پرہندومیتھالوجی پر مبنی ہوگا۔ اگر ایساہوتا ہے تو مختلف مذاہب کے لوگوں میں ایسی بے چینی پیدا ہوگی، جسے طاقت کے بل پر ختم نہیں کیا جاسکے گا، پھر ملک میں نفرت کی سوداگری شروع ہوگی جس میں اقلیتوں کے لئے جینا انتہائی دشوار ہوگا اور یہ ملک کی سا لمیت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہوگا۔

پیر, جنوری 23, 2023

مولانا محمد الطاف حسین رحمہ اللہ __

مولانا محمد الطاف حسین رحمہ اللہ __

اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
نامور عالم دین، دارالعلوم قاسمیہ چوک بلسوکرا، رانچی جھارکھنڈ کے ناظم، مدرسہ عراقیہ، دار القرآن رانچی اور مدرسہ عربیہ سونس رانچی کے سابق استاذ، صلاحیت، صالحیت اور تقویٰ میں مشہور خاص و عام مولانا محمد الطاف حسین بن حاجی محمد یعقوب (م 2002) بن نافر علی بن روزن علی بن بخش بن پھوندھی ساکن بلسوکرا ضلع رانچی نے 16دسمبر 2021ءکو بعد نماز عصر بروز جمعرات اس دنیا کو الوداع کہا، اگلے دن 17دسمبر 2021ءکو جنازہ کی نماز ان کی وصیت کے مطابق علاقہ کے مشہور عالم دین مولانا محمد فاروق قاسمی نے پڑھائی، جس میں جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں کے علمائ، صلحاءاور عام مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، بلسوکرا کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک لڑکاحاجی حسن اور دوبیٹیوں کو چھوڑا۔
مولانا کی آمد اس عالم آب و گل میں 12جنوری 1938ءمطابق 24ذی القعدہ1358ھ میں ضلع رانچی (موجودہ جھارکھنڈ) کی معروف بستی بلسوکرا میں ہوئی، ابتدائی تعلیم حافظ عبد الحمیدصاحب گیاوی سے حاصل کرنے کے بعد عصری تعلیم کے حصول کے لیے اردو مڈل اسکول بلسوکرا میں داخلہ لیااور مڈل پاس کیا، مڈل اس زمانہ میں ساتویں کلاس کو کہا جاتا تھا اور غیر منقسم بہار میں اُن دنوں اسرائیل کا بورڈ امتحان ہوا کرتا تھا، عصری علوم کے حصول میں طبیعت کچھ زیادہ لگی نہیں، اس لیے دینی علوم و فنون کی طرف متوجہ ہوئے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ میں داخل ہوئے اور یہیں سے عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم پائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضرعلیہ السلام کا واقعہ بتاتا ہے کہ دینی علوم کے حصول کے لیے دور دراز کے اسفار کرنے پڑتے ہیں، تبھی انسان مطلوب و مقصود تک پہونچتاہے، چنانچہ مولانا نے آگے کی تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا اور ایک غیرمعروف مدرسہ، مدرسہ دعائیہ میں داخلہ لے کر یہاں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، پھر دار العلوم دیوبند تشریف لے گیے، جہاں عربی چہارم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم وہاں کے نامور اور نابغۂ روزگار اساتذہ سے حاصل کرنے کی سعادت پائی، بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے پڑھی اور 1959ءمیں سند فراغ حاصل کرکے وطن لوٹ آئے۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عراقیہ رانچی سے کیا، لیکن جلد ہی دار القرآن رانچی منتقل ہوگیے۔ جامعہ عربیہ سونس رانچی کے مسند درس پر بھی چند سال متمکن رہے، خیال تجارت کا آیا، ذہن کے کسی گوشے میں اس کے سنت ہونے اور رزق میں وسعت کے ذریعہ کا تصور بھی بیٹھا ہوا تھا، اس لیے تجارت کا مشغلہ اختیار کیا، اللہ نے اس میں بڑی برکت دی اور کامیاب تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، لیکن اللہ رب العزت کو ان سے دوسری خدمت مطلوب تھی، اس لیے 1985ءمیں انہیں دار العلوم قاسمیہ مدرسہ چوک بلسوکرا کا ناظم منتخب کیا گیا، انہیں اس عہدہ کے قبول کرنے میں خاصہ تردد تھا، لیکن کمیٹی کے اصرار اور مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے اس عہدہ کو مجبوراً انہوں نے قبول کیا، عہدے بے طلب آویں اور اِشراف نفس نہ ہوتو اللہ کی نصرت اور مدد ضرور آتی ہے۔ مولانا نے اس ذمہ داری کو خلوص و للہیت کے جذبہ سے سنبھالا اور مدرسہ روز افزوں ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ آپ کے عہد میں مدرسہ کی تعلیمی و تعمیری ترقی خوب ہوئی، آمد و صرف میں شفافیت اور حسابات کے اندراج میں غیر معمولی احتیاط کی وجہ سے مدرسہ انتظامیہ پر عوام کا اعتماد بڑھا، اس اعتماد نے مدرسہ کو مالیاتی اعتبار سے بھی مضبوط کیا۔ مولانا کی خدمات کاایک بڑا میدان اصلاح معاشرہ و عقائد بھی تھا، انہوں نے علاقہ میں عقائد صحیحہ کی ترویج و اشاعت کے لیے محنت کی، اس کام میں ان کو مشہور مناظر مولانا طاہر حسین گیاوی کا تعاون اور ساتھ ملا۔جس سے مولانا کی تحریک اصلاح عقائد کو مزید تقویت ملی، اس تعلق اور ارتباط کو مضبوط کرنے کے لیے مولانا نے مولانا طاہر حسین گیاوی کو اپنے مدرسہ کا اعزازی مہتمم بنادیا، جس سے ان کی آمد و رفت وہاں زیادہ ہونے لگی اور لوگوں نے محسوس کیاکہ اس تحریک میں مولانا کو ایک بڑے عالم کا ساتھ ہے۔
مولانا سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ہوئی۔ مولانا کو یہ بات کسی نے پہونچا دی کہ تقریر میں بھی کرلیاکرتاہوں، چنانچہ انہوں نے پہلی بار مدرسہ کے جلسہ میں مجھے یاد کیا، اس زمانہ میں مولانا طاہر حسین گیاوی چاق و چوبند اور صحت مند تھے۔ اعزازی مہتمم ہونے کی وجہ سے وہ بھی وہاں موجود تھے، جلسہ کا انتظام و انصرام انتہائی سلیقہ سے کیاگیاتھا، علماءکی رہائش الگ الگ کمروں میں کی گئی تھی، ہر کمرہ میں صابن، تولیہ، بیت الخلاءکی چابھی رکھی گئی تھی؛ تاکہ ضرورت کے وقت پریشانی نہ ہو، مولانا طاہر حسین گیاوی خود ہی کمرے کمرے جاکر علماءکی مزاج پرسی کر رہے تھے، جلسہ میں لوگوں کی بڑی بھیڑ تھی، احقر نے کوئی ایک گھنٹہ بیان کیا، کیوں کہ یہی وقت ہمیں دیا گیا تھا۔ بعد میں امارت شرعیہ کے وفود کے دورے کے موقع سے کئی بار وہاں جانا ہوا، مولاناکی بینائی ختم تھی؛ لیکن مہمانوں کااکرام و احترام اس طرح کرتے کہ ہر آنے والا یہی محسوس کرتا کہ مولانا سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مولانا کی ظاہری بصارت تو چلی گئی تھی، لیکن بصیرت آخری وقت تک سلامت تھی، انہیں یہ کہنے کا حق تھا کہ ”بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے“ اس بصیرت کے سہارے آپ نے آخری وقت تک مدرسہ کے نظام کو پوری مستعدی کے ساتھ سنبھالا اور علاقہ کی دینی ضرورت کی تکمیل کے لئے سرگرم رہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل اور مدرسہ کو ان کا نعم البدل دے آمین یا رب العلمین و صلی اللہ علی النبی الکریم و علی اٰلہ و صحبہ اجمعین۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد 
پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مورخہ 22/جنوری 2023 (پریس ریلیز) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں دس بچے بچیوں نے تکمیل قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن مکمل کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
عمار رحمانی، فریحہ رحمانی، فقیھہ روشن ،عالیہ پروین ،صادقین اختر ،شاداب خان، سمیرہ پروین ،حماد رحمانی، انشاء ریاض، زینب پروین، زاہرہ پروین کا نام شامل ہے،
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے تمام بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے مستقبل کے لئے دعائیں دیں، فاؤنڈیشن کے برانچ اونر پٹنہ وڈائریکٹر مدرسہ ضیاء العلوم نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...