Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 25, 2023

ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 

 بہار کے ضلع ارریہ میں "گرگدی" نام کا ایک گاؤں ہے، ضلع ہیڈ کوارٹرسے یہ محض گیارہ کلو میٹر فاصلے پرواقع ہے، یہاں کی کل آبادی ۳۵۰۰/سونفوس پر مشتمل ہے،اس بستی میں ۹۰۰/سو برادران وطن بھی بستےہیں، بقیہ سبھی مسلمان ہیں۔

ابھی چند دنوں قبل گاؤں والوں نے ملکر اصلاح معاشرہ کے عنوان پر ایک جلسہ کیا ہےجوآج ہمارا موضوع سخن ہے،خطاب کرنے والے علماء کرام اور شریک ہونے والے سامعین حضرات نے بھی اس پروگرام کوایک تاریخ ساز ویادگار اجلاس قرار دیا ہے۔

خاص بات یہ رہی کہ اسٹیج سےناظم اجلاس جناب مفتی راغب صاحب قاسمی نے کچھ لوگوں کے نام لیکر اظہار تشکر کیا ہےانمیں بطور خاص جناب منصور عالم صاحب، الحاج منظور عالم، الحاج مسرت کریم،ماسٹر وثیق الرحمن، محمد اشتیاق، فخرالدین وغیرہ تووہیں غیر مسلم بھائیوں کی بھی ایک فہرست پیش کی ہے،انمیں جناب دیوپرکاش منڈل جی،سنتوش بھگت،ڈاکٹر رامانند نرالا، لکھی چند شرما،سبودھ منڈل،لال چند رشی دیو،پریم لال منڈل کے نام مجمع عام میں بحیثیت منتظمین اجلاس کےپیش کیا ہے،ساتھ ہی بھاری بھرکھم الفاظ میں ان تمام حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

ایک رضاکار جناب بھائی اشتیاق سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آپ لوگوں کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہے،ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہےکہ خالص اصلاح کے موضوع پرجلسہ ہو، اسمیں برادران وطن کی بڑی تعداد شریک  ہو،اس کی وجہ کیا ہے؟ موصوف نے وجہ بتائی کہ؛ مولوی صاحب! ہم کسان آدمی ہیں، تعلیم کی ہمارے یہاں بڑی کمی ہے،گاؤں کی تعلیمی حالت کا اندازہ آپ کو اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ صرف چار آدمی گرگدی گاؤں کےسروس میں ہیں، بقیہ ہم سبھی کاشتکاری کرتے ہیں،ابھی کچھ سالوں سے ہمارے نوجوان طبقہ میں  بڑی بے راہ روی آگئی ہے،نشہ کی بیماری  عام ہوگئی ہے، یہ چیز سیلاب کی طرح ہر مکان میں داخل ہورہی ہے۔ہم سماج سے اس بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئندہ نسل کو بچانا چاہتے ہیں،آج یہ جلسہ بھی اسی مقصد سے منعقد ہوا ہے، ہم آپس میں ملکر اس کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو پھر سماج سے نشہ کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے، غیر مسلم بھائی ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں، اسی سماج کا حصہ ہیں، ہم ان کو لیکر نہیں چلیں گے تو پھر مکمل کامیاب نہیں ہوسکیں گے، ہم نے ان کو کہا تو خوشی خوشی ہمارے ساتھ آئے ہیں، بلکہ ہم سے زیادہ محنت انہیں لوگوں نے کی ہے،اوراب بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑےہیں ،یہ توآپ بھی دیکھ  ہی رہے ہیں۔

واقعی گرگدی گاؤں کے لوگوں نے نشہ کے سد باب کے لئے ایک نیا طریقہ تعلیم کیا ہے،ایک کسان اپنی فصل کی حفاظت کے لئے کھیت کے چاروں طرف باڑ اور رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے تاکہ اسمیں کوئی جانور گھسنے نہ پائے اور کھیتی کو خراب نہ کردے،اسی طرح اپنی نسل کی حفاظت کے لئے پورے گاوں کو جمع کرکے گویا اس کی حصار بندی کردی ہے،واقعی یہ مثالی کام ہے، ابتک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ کچھ لوگ کسی برائی کے خلاف متحد ہوتے ہیں، وہ صرف ایک ہی مذہب کے ہوتے ہیں، پورےسماج کے لوگوں کا ساتھ نہیں لیتے ہیں، نشہ کے جراثیم اسی راستے سے در آتے ہیں،روک تھام بیکار چلی جاتی ہےاورکامیابی صد فیصد نہیں مل پاتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے سلسلہ میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی یے، شراب بنانے والے پر، بنوانے والے پر،پینے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھائی گئی ہے اس پر، پلانے والے پر،بیچنے والے پر، قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدی گئی اس پر،(جامع ترمذی )

مذکورہ بالا حدیث میں گویا ان دس لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شراب کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں، نہیں تو یہ سبھی لعنت کے سزاوار اور اس کے فروغ کے ذمہ دار ہیں۔

گویا نشہ کےخاتمے کےلئےپورے سماج کا متحد ہونا ضروری ہے۔اس پر گرگدی گاؤں کے مسلمان بھائئ واقعی قابل تعریف ہیں، بہت پڑے لکھے نہیں ہیں باوجود اس کے انہوں نے ہندو مسلم سب کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ہمارے تمہارے غم برابر ہیں، موجودہ وقت میں  یہ عمل لائق ستائش ہے اور قابل تقلید بھی ہے،بلکہ ملک سے نفرت کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
             
ہمارے غم   تمہارے غم  برابر   ہیں 
سواس نسبت سےتم اورہم برابر ہیں

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __
urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
14 فروری کو محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پرایک ساتھ چھاپا مارااور یہ کارروائی تین دنوں تک جاری رہی، محکمہ نے اسے سروے کا نام دیا ہے، خدا معلوم یہ کیسا سروے ہے جو چھاپے کی شکل میں ہو رہا ہے،بی بی سی کے ملازمین کے فون، لیپ ٹاپ اور دوسری اشیاء جمع کرالیے گئے ہیں، اس اہم واقعہ پر امریکہ اور خود برطانیہ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، البتہ بی بی سی نے اپنے ملازمین کو جانچ میں تعاون کرنے کو کہا ہے اور جو لوگ جانچ کے دائرے میں نہیں ہیں ان کو گھر سے کام کرنے کا حکم دیا گیا گیا ہے۔
بی بی سی پر یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گجرات فساد پر اس کی دستاویزی فلم کو دکھانے پر مرکزی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے، پابندی کے بعد بھی بعض تعلیمی اداروں میں اسے دکھانے کی کوشش کی گئی اور نوجوانوں نے اسے دیکھنے پر زور دیا، تو حکومت نے طاقت کے بل پر انہیں روکا، اس کارروائی کو عام لوگ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور عام لوگوں کے نزدیک یہ میڈیا کے ساتھ حکو مت کا غیر جمہوری اور آمرانہ سلوک ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والا گروہ گجرات فساد پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے، اپنے پر پڑتی ہے تو اظہار رائے کی آزادی کا مفہوم بدل جاتا ہے، محکمہ انکم ٹیکس کے نزدیک یہ سروے بین الاقوامی ٹیکس چوری سے متعلق ہے، یہ جانچ اسی سلسلہ میں کی جارہی ہے۔
ہندوستان میں بی بی سی پر اندرا گاندھی کے دور حکومت میں پابندی لگی تھی؛ لیکن اس پر چھاپہ ماری کا عمل اس بار کی طرح نہیں ہوا تھا، اس واقعہ پر حکومت اور حزب مخالف آمنے سامنے ہے، حکومت اس چھاپے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے اپنی ساری طاقت صرف کر رہی ہے اور گودی میڈیا حسب سابق حکومت کے اس موقف کے ساتھ ہے، جب کہ حزب مخالف اسے جمہوری اقدار کے خلاف میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
اس چھاپے سے اتنی بات تو صاف ہوگئی ہے کہ جس طرح مرکزی حکومت اپنے مخالف سیاست داں اور بیوروکریٹ کو آئی بی، سی آئی ڈی،سی بی آئی کے ذریعہ ہراساں کرتی رہتی ہے اسی طرح اب وہ غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی ہراساں کر رہی ہے، تاکہ وہ حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف اپنی تحقیقات پیش کرنے سے گریز کریں،اور حقائق لوگوں کے سامنے نہ آسکیں۔ یہ کارروائی اگر حق بجانب ہوتو بھی جس وقت میں یہ چھاپہ ماری ہوئی ہے، اس کا پیغام عام لوگوں تک یہی گیا ہے۔

جمعہ, فروری 24, 2023

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں ہندوستان جیسے ملک میں اضافہ ہو رہا ہے، ”لیو ان رلیشن شپ“کے قانونی جواز کی وجہ سے بھی یہ تعداد بڑھ رہی ہے، ناجائز حمل ہمارے سماج میں اس گئے گزرے دور میں بھی لائق ملامت ہے، اس لیے ایسے بچوں کو اپنی حرام کاری کو چھپانے کے لیے پیدا ہو تے ہی جنگل جھاڑی یا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے، قسمت نے یاوری کی تو بچہ کسی انسان کے ہاتھ لگ کر زندہ رہتا ہے، ورنہ جانور اسے اپنی خوراک بنا لیتے ہیں اور بچہ کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے، پھینکے جانے والے بچوں میں ایک بڑی تعداد ان چاہے بچوں اور بچیوں کی بھی ہوتی ہے، مسلسل  بچیوں کی پیدائش سے تنگ آکر پھینکے جانے والی بچیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کوڑے دان میں ملے بچوں کی تعداد 240212، مدھیہ پردیش میں 224277، گجرات میں 149146، اتر پردیش میں 127163، کرناٹک میں 113171 ہے، ان میں ستر فیصد معصوم بچیاں ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ان بچیوں کی ہے جن کو ان کے والدین نے ہی کوڑے خانے کی نذرکر دیا۔
ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کم و بیش اس قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ماؤں میں بھی پہلے سی ممتانہیں رہی، پہلے بچوں کو ماؤں کے آنچل کا سایہ ملتا تھا، اب مائیں جینز پینٹ اور اسکرٹ میں آگئی ہیں دوپٹہ سروں سے غائب ہونے کی وجہ سے یہ سایہ بھی بچوں سے چھنتا جا رہاہے۔
جس بے دردی سے ان بچوں کو جنگل اور کوڑے دان میں پھینکا جا تا ہے، اس کی وجہ سے ننانوے فیصد بچوں کو چاہ کر بھی بچانا ممکن نہیں ہو تا؛ کیوں کہ وہ کھلے میں پڑے ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے انفیکشن اور جراثیم کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد ہندوستان میں تین کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے،یورپ اور مغربی ممالک میں یہ تناسب ہندوستان سے کہیں زیادہ ہے اور قدیم بھی، اس لیے وہاں اٹھارہویں صدی عیسوی سے ہی پھینکے گئے بچوں کو بچانے کی مہم شروع کی گئی اور اسے بے بی ہیچز(  hatches Baby) کا نام دیا گیاتھا، یہ ایک پالنا ہوتاہے جس کا ایک سرا ہاسپیٹل سے مربوط ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی بچہ اس پر رکھا گیا، الارم کی گھنٹی ہاسپیٹل میں بجتی ہے  اور ڈاکٹروں کی ٹیم اس کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہو جاتی ہے، 1991ء میں اس کی شروعات تمل ناڈو میں جے للیتا نے کی تھی اور اب اسے کریڈل بے بی اسکیم (Cradle Baby Scheme)کے تحت کیا جا رہا ہے،یہ تجربہ وہاں انتہائی کامیاب رہا اور گذشتہ پچیس سالوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس مہم کے تحت پانچ ہزار بچوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس کام کے لیے وزارت برائے وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے تحت ہر ضلع میں کریڈل بے بی رسیپشن سنٹر(Cradle Baby Reception Centre) موجود ہے اور سرکاری و غیر سرکاری اڈاپشن ایجنسیز( Adoption agencies)کے ذریعہ ایسے بچوں کے تحفظ کا نظم کیا جاتا ہے۔اگرکسی بچے کو کسی نے گود نہیں لیا  توایسے بچوں کی فوسٹر ہوم( Foster Home) چھ سال کی عمر تک پرورش و پرداخت کرتا ہے اور اس کے بعد انہیں بچوں کے گھر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اٹھارہ سال تک سرکاری صرفہ پر زندگی گزارتے ہیں، وہاں ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جاتی ہے اور اٹھارہ سال کے بعد وہ اپنا معاش خود حاصل کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔
معاشی کساد بازاری اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے عمومی مزاج کی وجہ سے ہندوستان میں بچوں کو گود لینے کا رجحان کم ہو تا جا رہا ہے،سنٹرل اڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA)کے مطابق 2021-22 میں 2991 بچوں کو ہی گود لیا جا سکا، جن میں 1293 لڑکے اور 1698 لڑکیاں تھیں،414 بچوں کو گود لینے والے غیر ملکی تھے، یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان میں کم و بیش پندرہ فیصد شادی شدہ جوڑے لاولد ہیں، جن کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق تیس ملین ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے واقعات نسبتاً کم ہیں، کیوں کہ اسلام کے نزدیک نو مولود کو کوڑے دان اور جنگلوں میں پھینکنا گناہ عظیم ہے، اورایسے بے سہارا بچوں کی کفالت اور پرورش و پرداخت ثواب کا کام ہے۔ اڈیشہ کے بسرا سندر گڑھ میں دشا نام سے ایک ایسا ادارہ آزاد بھائی نے قائم کیا ہے، جس میں پھینکے ہوئے نو مولود بچوں کی پرورش و پرداخت اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا نظم کیا جاتا ہے، ان نومولود بچوں کی خدمت کے لیے عورتوں کو ملازمت پر رکھا گیاہے،جو ان کی ضرورتوں کا دھیان رکھتی ہیں، وقت پر انہیں دودھ پلاتی ہیں اور ماؤں کی طرح ان کی غلاظتیں صاف کرتی ہیں، پڑھ لکھ کر جب یہ بچے، بچیاں شادی کے لائق ہوجاتی ہیں تو ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، اس ادارہ کاتذکرہ اس لیے کیا گیا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے، اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم بہت سارے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالامال کر سکیں گے، ان کی پرورش و پرداخت اسلامی انداز میں کر کے انہیں اچھا مسلمان اور بہتر شہری بنا سکیں گے، یہ مسئلہ کا حل بھی ہے اور ثواب کا ثواب بھی،

وفاق المدارس سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحان کا آغاز آج سے ٢٥/فروری : پھلواری شریف(پریس ریلیز)

وفاق المدارس سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحان کا آغاز آج سے
اردودنیانیوز۷۲ 
 ٢٥/فروری : پھلواری شریف(پریس ریلیز) وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحانات آج ٢٥فروری سے شروع ہو رہے ہیں تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، مراکز امتحانات پر کاپیاں اور سوالات کے پہونچانے کا کام مکمل ہوگیا ہے، ممتحن اور نگراں حضرات متعلقہ مراکز پہونچ گیے ہیں، طلبہ میں ایک جوش اور ولولہ ہے کہ وہ پورے بہار کے ملحق مدارس کے ساتھ اجتماعی نظام امتحان میں شریک ہورہے ہیں، اس سے ان کی صلاحیت کا مقابلہ دوسرے مدارس کے طلبہ سے بھی ہوگا اور وہ اپنے مدارس کے طریقۂ تعلیم کے موءثر اور مفید ہونے کا عملی مظاہرہ سوالات حل کرکے کر سکیں گے - ان خیالات کا اظہار ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے آج ایک اخباری اعلانیہ میں کیا، انہوں نے ذمہ داران مدارس سے اپیل کی ہے کہ وہ وفاق المدارس کے صاف وشفاف امتحان کی روایت باقی رکھنے میں ہر سال کی طرح امسال بھی تعاون کریں - اگر کوئی ممتحن یا محافظ ضرورت بشری کی وجہ سے حاضر نہ ہوں تو مرکزی دفتر وفاق کے مشورہ سے متبادل طے کرلیا جائے - امتحانات کے انعقاد کے بعد کاپیوں کی ترسیل مرکزی دفتر وفاق کو فوری طور پر کریں تاکہ بروقت کاپیوں کی جانچ اور نتائج امتحانات متعلقہ مدارس کو روانہ کیا جاسکے - دوران امتحان کسی قسم کی پریشانی امتحان سے متعلق سامنے آئے تو اس کی اطلاع فوری طور پر مرکزی دفتر وفاق کو دیں تاکہ بروقت اس کا تدارک کیا جاسکے - یہ اطلاع مفتی محمد سعید کریمی رفیق وفاق المدارس الاسلامیہ نے دی ہے -

جمعرات, فروری 23, 2023

سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ڈاکٹر محمد اشتیاق احمد اپنے قلمی نام اشتیاق احمد شاکر سے مشہور ہیں، 15 اپریل 1985 کو محمد غیاث الدین صاحب کے گھر آنکھ کھولنے والے اس مصنف کا آبائی گاو ¿ں لچھمن پور بوجگاو وایا قصبہ ضلع پورنیہ ہے، تعلیمی لیاقت بی ایڈ، ایم اے، پی ایچ ڈی ہے، مطلب تعلیمی لیاقت اور اسناد مضبوط ہے، پڑھنا اور پڑھانا یہی مشغلہ رہا ہے ، حیدر آباد، بہار اور جھارکھنڈ کے کئی اسکولوں سے مختلف اوقات میں وابستگی رہی ہے ، سفرنامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفرنامے، آزادی کے بعد ان کا پی اچ ڈی کا مقالہ ہے، جو تین ابواب پر مشتمل ہے اور جس میں سفرنامہ نگاری کا فن، سفرنامے کی روایت اور اردو سفرنامہ نگاری اور (آزادی کے بعد) اردو کے اہم سفر ناموں کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس کتاب کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے خود لکھا ہے کہ
”ادب کے موجودہ عصری منظرنامہ میں یہ کتاب طرز احساس کے اعتبار سے اور نئے ادبی رجحان کو معرض وجود لانے کے سلسلے میں ایک پہل ہے، جس میں سفرنامہ کا نظریہ بہت واضح طور پر موجود ہے، دیکھنے پرکھنے اور پیش کرنے کی جامعیت کی پذیرائی ہوگی، اسکا یقین ہے۔“ (صفحہ:6)
کتاب کا آغاز والدین ماجدین اور مشفق اساتذہ کرام کی محبتوں اور شفقتوں کے نام ہے، جن کی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور شفقتیں مصنف کے ساتھ رہیں اور جو زندگی کے لیے مشعل راہ ثائب ہوئیں، انتساب کے معا بعد مصنف کا پیش لفظ ہے ، جس کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے ، اس کے بعد مصنف اپنا رخ موضوع کی طرف کیا ہے اور بات شروع ہوگئی ہے ، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصنف نے کسی بھی اہل علم وقلم سے اس کتاب پر مقدمہ ، پیش لفظ، حرف چند اور تا ثرات لکھوانے سے قصدا گریز کیا ہے ، یہ گریز مصنف کی خود اعتمادی کو بتاتا ہے ، انہوں نے اس فارمولے پر عمل کیا ہے کہ مشک کی خوشبو مشام جاں کو خود ہی معطر کر دیتی ہے ، اسے کسی اور کو بتانے اور کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، انہوں نے اس کتاب کی اہمیت بیان کرنے اور کروانے کے لیے کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیا ہے ، جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے قارئین کی خدمت میں بلا واسطہ پیش کر دیا ہے۔
 زندگی مستقل ایک سفر ہے، اس سفر کی روداد، آپ بیتی کی شکل میں لکھنے کا رواج قدیم ہے، ہماری زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جگہ اور مختلف قسم کے اسفار میں گذرتا ہے، ان اسفار کی تفصیلات اگر سفرنامے کی شکل میں آجائیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان کاموضوع اور مواد جو بھی ہو ان کا پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا، سفر کے مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں، لیکن سب میں ”سیرو فی الارض“ کے خدائی احکام کی تعمیل ہوتی ہے ، کوئی سفر سے معاش حاصل کرتا ہے کوئی عبرت پکڑتا ہے، اور تاریخ کے دفینوں کو مشاہدے کے ذریعہ اپنے دماغ کو منور کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کرتا ہے ، اسی کو سفر نامہ نگاری کے فن سے مصنف نے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب اسی عنوان سے ہے ، جس میں مصنف نے سفرنامہ کا تعارف، سفر نامہ کے محرکات، موضوع، اسلوب، ہیئت، سفرنامے کی اہمیت وافادیت پر اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔
 یہ سفر نامے ایک طرح کے نہیں ہوتے، کیوں کہ لکھنے والوں کی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، بعض کا مشاہدہ قوی ہوتا ہے اور بعض کا کمزور ، بعض کو جزئیات نگاری میں کمال ہوتا اور بعض کو منظر نگاری میں ، کوئی سرسری سا اس جہاں سے گذر جاتا ہے، اور کوئی اس طرح دنیا کو دیکھتا ہے کہ وہ سفرنامے ”جہاں دیدہ“ کے ”جہانِ دیدہ“ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد شاکر نے ہر قسم کے سفرناموں پرروشنی ڈالی ہے، ان کے قلم میں تعلیمی وعلمی سفرنامے، سیاسی سفر نامے، مذہبی سفرنامے، داستانوی یا فرضی سفر نامے سبھی آگیے ہیں، انہوں نے سفر ناموں کے ابتدائی نقوش کا جائزہ بھی لیاہے اور سفر نامہ نگاری کے آغاز وارتقاءپر سیر حاصل گفتگو کے بعد آزادی کے قبل کے بیس سفرناموں پراپنی تفصیلی تحقیق پیش کی ہے۔
 اس باب سے نمٹنے کے بعد انہوں نے آزادی کے بعد اردو کے اہم سفر ناموں کا اجمالی تعارف کرایا ہے ، جس میں اٹھارہ سفرنامے شامل ہیں، اس سلسلے کا اختتام ڈاکٹر ارشد جمیل کے سفرنامہ غبار سفر پر ہوتا ہے۔ اس فہرست میں رضا علی عابدی کا مشہور سفرنامہ جرنیلی سڑک بھی موجود ہے۔دیگر سفرناموں میںرہ نور شوق -سید عابد حسین، جرمنی میں دس روز -علی احمد فاطمی، سیر کردنیا کی غافل - صغریٰ مہدی، ساحل اور سمندر- سید احتشام حسین، ازبکستان انقلاب سے انقلاب تک-پروفیسر قمر رئیس، سفر آشنا- گوپی چند نارنگ، خوابوں کا جزیرہ مورشیش- دردانہ قاسمی، دیکھا ہم نے استنبول- ڈاکٹر صبیحہ انور، یوروپ کا سفر نامہ - س اعجاز، استنبول سے استنبول تک - ادریس صدیقی، سیاحت ماجدی- مولانا عبد الماجد دریاآبادی،دو ہفتے امریکہ میں - بدر الحسن قاسمی، لندن یاترا - ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، چراغ راہ گذر - ظہیر انور ، یہ جو ہے پاکستان- شویندر کمار اور دنیا کو خوب دیکھا - پروفیسر محسن عثمانی ندوی خاص طور سے قبل ذکر ہیں۔
 دو سو سینتالیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے ہے، طباعت روشان پرنٹرس دہلی 6 کی ہے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو ¿س ناشرہے، طباعت عمدہ اور ٹائٹل دیدہ زیب ہے، ڈیڑھ درجن سے زائد مکتبوں کے پتے درج ہیں، جہاں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے ، آپ چاہیں تو 9182165095پر فون کرکے بلا واسطہ مصنف سے طلب کر سکتے ہیں۔

بدھ, فروری 22, 2023

مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی آمد پر مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں محفل اعزازیہ کا انعقاد

مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی آمد پر مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں محفل اعزازیہ کا انعقاد
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 22/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) خطابت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کےذریعہ ایک خطیب ومبلغ اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کا اظہار  دوسروں تک پہنچانے اور عوام الناس کو اسلامی افکار ونظریات سے روشناس کراتا ہے ۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتے ہیں، اور خطابت وبیان کے ذریعہ انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات  باوزن ہوتی ہے،جس سے سامعین کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔اس وقت ہندوستان کے مشہور ومعروف اور مقبول خطیب حضرت مولانا ومفتی سعد النجیب صاحب کے اعزاز میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اعزازیہ تقریب کا انعقاد مفتی سعد النجیب قاسمی صاحب کی زیر صدارت مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں کیا گیا ،
پروگرام کے کنوینر محمد ضیاء العظیم قاسمی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن تھے، پروگرام کا آغاز قاری واجد علی عرفانی نے تلاوتِ قرآن سے کی،نعت قاری فردوس صاحب سمستی پوری نے پیش کی، نظامت کے فریضہ محمد ضیاء العظیم نے انجام دی، مہمان خصوصی کے طور پر مولانا امتیاز صاحب جامعی،قاری لقمان دانش ،مہمان ذی وقار قاری فردوس سمستی پور رہے ،اس پروگرام میں مفتی سعد النجیب صاحب کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن نے اعزاز سے نوازا، پروگرام میں اہم شخصیات  مولانا امتیاز جامعی سوپول، جناب انصار صاحب ڈائریکٹر انصار میڈیا ٹی-وی ،قاری لقمان دانش ،قاری واجد علی عرفانی سمیت کثیر تعداد سامعین موجود تھے،اس موقع پر ضیائے حق کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف پیش کیا، اور مفتی سعد النجیب صاحب کے انداز بیان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب اپنے خطابت کی وجہ سے ایک اہم شناخت قائم کرچکے ہیں ، ان کے بیان وخطابت سے عوام الناس مستفیض ہورہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ بیان کے دوران وہ ایک مخصوص انداز میں ترنم کے ساتھ اشعار پڑھتے ہیں جس کا سامعین پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، ان کے بیانات اصلاحی پیغامات پر مشتمل ہوتے ہیں، 
مفتی سعد النجیب صاحب نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے خدمات کو سراہتے ہوئے دعائیں دیں، اور اپنے مخصوص لب ولہجہ میں قرآن کی تلاوت اور نصیحت سے نوازتے ہوئے  شکریہ ادا کیا، پھر صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا، 
واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں قاری واجد علی عرفانی ، قاری عبد الماجد، مفتی نور العظیم ،شاداب خان، شارق خان، محمد افضل، حافظ اشرف، محمد یوسف، مہدی حسن،محمد دانش کا نام مذکور ہے،

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام مخالف طاقتیں روز اول سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو دین سے بیزار کر کے راہ ہدایت سے ہٹا کر راہ ضلالت پر ڈال دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایمان قبول کرنے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ اسی لیے توڑے جاتے تھے کہ وہ کسی طرح کلمہ کا انکار کرکے پھر سے ضلالت وگمراہی اور شرک وبت پرستی کی راہ پر لگ جائیں، لیکن یہ کام اس دور میں ممکن نہیں ہو سکا؛ کیوں کہ جام وحدت پی کر جو ایمان ویقین ان کے سودائے قلب میں جاگزیں ہو گیا تھا اور معرفت الٰہی کی جو لذت انہیں ملی تھی، اس نے اس قدر انہیں سرشار کر دیا تھا کہ ایمان کاسرور کسی بھی ظلم وستم سے دور نہیں کیا جاسکا، بعد میں مسیلمہ کذاب کے زمانہ میں خود اس نے اورجھوٹے مدعیان نبوت ومہدیت نے ایک شیطانی نظام کے تحت مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کا کام کیا ، فرقہء باطنیہ جس کا بانی حسن بن صباح تھااورجس نے مصنوعی جنت بنا رکھی تھی چھٹی صدی ہجری میں اس فرقہ کے عروج نے کتنے ایمان والوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور کتنوں کو مصنوعی جنت کا خواب دکھا کر ایمان واسلام سے دور کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ہندوستان میں حزب الشیطان نے اس مہم کے ذریعہ بھولے بھالے اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اپنا شکار بنایا، قلوب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور اسلامی احکام ومعتقدات پر اعترضات کرکے اس کی حقانیت پر سوالات کھڑے کیے ، کبھی نیچریت نے زور پکڑا، کبھی حدیث کا انکار کیا گیا اور کبھی اسلام کے سارے احکامات وجزئیات کو قرآن کریم تک محدود کر دیا گیا ، ہندوستان سے باہر مستشرقین نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بزعم خود علمی انداز میں اسلام کے مسلمات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ہندوستان کا ایک طبقہ جو ہندوستان سے آکسفورڈ ، کیمبرج اور دوسری یورپی درسگاہوں میں حصول تعلیم کو فخر ومباہات کا ذریعہ سمجھتا تھا اور مغرب سے آنے والی ہر ہوا ان کے دماغ کو تروتازہ رکھتی تھی، مستشرقین کے احساسات وخیالات اوران کی غلط فہمیوں پر مبنی تخیلات وتحقیقات کو ہندوستان نے بر آمد کر لیا اور اپنی ہمہ دانی کے زُعم میں اسے ہندوستان میں تیزی سے پھیلانے کا کام کیا، اس طرح ہندوستان کی حد تک مستشرقین یورپ کی ضرورت باقی نہیں رہی، وہاں کے بیش تر فضلاءاور فارغین نے مرعوبیت کے زیر اثر مستشرقین کے شکوک وشبہات پھیلانے کے کام کو اپنے ذمہ لے لیا ، اب نقل (قرآن وحدیث) کے بجائے عقل میزان ہو گئی اور جو بھی چیز کھوپڑی میں نہیں سماسکی، اس کا انکار کیا گیا، بڑی تعداد میں مسلمان اس سے متاثر ہوئے، روس کے انقلاب کے بعد ایک بڑا طبقہ مارکسزم اور لینن واد کے زیر اثرآ گیا، جس کی وجہ سے مارکسی اور ترقی پسند ادب نے یہاں فروغ پایا ، معاش کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کو معطل اور کالعدم کرنے کے چکر میں مذہب بیزاری ، دین سے دوری ، اس قدر عام ہوگئی کہ دین ومذہب، خدا ورسول ، جنت وجہنم ، تقدیر خیر وشر کا تصور ذہن سے نکل گیا ، اس شجر خبیث سے جو سلسلہ چلا اس نے دہریت اور خدا کے تصور کے بغیر ساری کائنات کوعناصر میں ظہور ترتیب کا نتیجہ قراردیا ، اس لیے اس دور کے بہت سے ادبا، شعراءاور مفکرین نے مرنے کے بعد دفن ہونے کے بجائے، ”پنج تنر میں ویلین“ ہونے کے لیے اپنے کو آگ کے حوالہ کرنے کی وصیت کی اور دنیاہی میں ان کو آگ نے جلا کر نمونہ عبرت بنا دیا ، فکری ارتداد کا یہ سلسلہ مختلف عنوانوں سے آج بھی جاری ہے، بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ”ارتداد دبے پاوں آتا ہے، غیر محسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اترتا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین وتعریف کے جملے کہتا ہے۔“
ایک دوسرے طبقہ نے ارتداد کے جراثیم، مذہب کی چادر اوڑھ کر پھیلانا شروع کیا، مہدویت اور قادیانیت کی تحریک نے ختم نبوت کے عقیدے پر چوٹ کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے چیلوں نے ارتداد کی نئی مہم شروع کی، یہ مہم مذہب کی آڑ میں شروع کی گئی تھی؛ اس لیے زیادہ خطرناک تھی، چنانچہ مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ وغیرہ نے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری توانائی لگادی، حضرت مونگیری کا یہ جملہ ایک زمانہ میں زبان زد خلائق تھا کہ ”قادیانیوں کے خلاف اتنا لکھو اور اتنا چھاپو اور اس قدر تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح اٹھے تو اس کے سرہانے قادیانیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی رسالہ اور کتابچہ موجود ہو“۔
علماءکے نتائج سامنے آئے، اس فتنہ کے سیلاب بلا خیزپر بند باندھا گیا، اس کی طغیانی میں کچھ کمی آئی، پاکستان میں قادیانیوں کو پارلیامنٹ کے ذریعہ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود اس فتنہ کا پورے طور پر قلع قمع اب تک نہیں کیا جا سکاہے، انگریزوں کی یہ کاشت امریکہ ، برطانیہ ہی میں نہیں، ہمارے ملک میں بھی اپنے قدم جمانے میں لگی ہوئی ہے، اس کے عبادت خانے مختلف شہروں میں موجود ہیں، اس کے مکتبے اور رسائل اس کے معتقدات کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
 قادیانیت ہی کی ایک شاخ شکیل بن حنیف کا فتنہ ہے، جوان دنوں یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ میں برگ وبار لا رہا ہے، شکیل بن حنیف (ولادت ۸۶۹۱) پیدا عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ میں ہوا، تعلیم انجینئرنگ کی پائی، اس نے پہلے لکچھمی نگر دہلی میں ایک مکان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اب ان دنوں اورنگ آباد شہر سے باہر ”پڑے گاوں“ میں جا کر پڑگیا ہے، رحمت نگر کے نام سے پوری کالونی پولیس اکیڈمی کے قریب بنا لیا ہے اور جس طرح قادیانی جال میں پھانس کر قادیان لے جاتے ہیں اسی طرح یہ اپنے ماننے والوں کو اورنگ آباد بلاتا ہے، اور ذہنی تطہیر کے مرحلہ سے گذارتا ہے، یہ فتنہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ ابھی چند سال قبل ایک مذہبی خانوادہ میں نکاح پڑھانے کے لیے جانا ہوا،حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ بھی تشریف لے گیے تھے، نکاح سے قبل خبر ملی کہ یہ لڑکا شکیل بن حنیف کا مرید ہے، بلا کر حضرت نے بہت سمجھایا ، مہدی موعود کی علامت والی حدیثیں بھی سنائیں؛ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، مجبورا ہمیں اس نکاح کو روک دینا پڑا، حضرت مولانا جب کوئی حدیث سناتے تو وہ کہتا کہ یہ علامت شکیل بن حنیف میں پائی جا رہی ہے، بالآخر وہ گاوں چھوڑ کر شکیل کے پاس چلا گیا ، یہ ایک واقعہ ہے، لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کا فتنہ دیندارمسلم گھرانوں تک پہونچ رہا ہے، اس لیے اس کے تعاقب کی سخت ضرورت ہے، واقعہ یہ ہے کہ فتنوں کے اندھیرے ہماری دیواروں تک پہونچ گیے ہیں، اور ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
 اس لیے اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہرسطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ اہل خانہ کی فکری وایمانی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ وہ فتنوں سے با خبر رہیں، تاکہ ان کے جال میں نہ پھنسیں، جن علاقوں میں فتنے پھیل رہے ہیں، اس کا جائزہ لے کر علمائ، ائمہ مساجد ، مذہبی تنظیموں کو متوجہ کیا جائے، تاکہ اس فتنہ کے تدارک کے لیے وہ آگے آسکیں۔ بچوں کو فکری ارتداد سے بچانے کے لیے انہیں مشنری اسکولوں اور ایسے اداروں میں پڑھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے، جہاں دیوی دیوتاو ¿ں کی پوجا ، وندنا ، یوگا، پرارتھنا،ان کی روٹین کا حصہ ہو اور جہاں عیسائیت اور ہندوازم کو قومی ثقافت وکلچر ، تہذیب ووراثت کا حصہ بتاکر بچوں کے معصوم ذہنوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہو۔
ایک بڑا فتنہ ان دنوں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی اور ان کے گھر سے فرار ہونے کا ہے، اس فتنہ کی وجہ سے ارتداد کی نئی لہر نے مسلم گھرانوں پر دھاوا بول دیا ہے، ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد و زن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی ۔ کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتاہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان و مکان کے حدود و قیود سے بھی آزاد ہوگیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھاوا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آستہ خانہ بن گئی ہیں، ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جن کی وجہ سے ہماری لڑکیا مرتد ہورہی ہیں، جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا ایف آئی آر درج کرالیا جائے، وکلاءسے قانونی مدد لی جائے تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے۔
اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ گاو ¿ں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس کی وجہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ٹھیس پہونچتی ہے اور سماجی تانا بانا بکھر کر رہ جاتاہے، وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور سب کو اس فتنہ کے تدارک کے لیے آگے آنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...