Powered By Blogger

منگل, مارچ 21, 2023

مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) کی جانب سے شادماں اور فیضان کو انٹر کومرس(بارہویں) امتحان میں کامیابی پر مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 21/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)

مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) کی جانب سے شادماں اور فیضان کو انٹر کومرس(بارہویں)
 امتحان میں کامیابی پر مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد 
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 21/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
محمد فیضان بن عبدالعليم اور شادماں بنت ڈاکٹر نسرین بانو البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ نے انٹر کومرس  میں امتیازی نمبر سے کامیاب کر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
واضح رہے کہ محمد فیضان نے 429 نمبر اور شادماں نے 452 نمبر حاصل کیا ۔
اس موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں ایک دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں قوم وملت کے تمام بچوں کی کامیابی اور اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئ،اور اظہار خیال کیا گیا، 
مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں طالب علم مدرسہ ضیاء العلوم میں اردو دینیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یقیناً ان کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، ہم ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مستقبل کو تابناک بنائے ۔
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بھی بذریعہ فون مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان بچوں کو زندگی کی یہ کامیابی بہت بہت مبارک ہو، یقیناً ان کے والدین اور اساتذہ قابل تعریف ہیں جن کی کاوشوں کی بنا پر ایک اچھا نتیجہ سامنے آیا ۔
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر نسرین بانو، مولانا محمد عظیم الدین رحمانی، فاطمہ خان، عفان ضیاء زیب النساء، عفیفہ فاطمہ کا نام مذکور ہے
یقیناً تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ  کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِمۚ…. ﴾ (سورة البقرة: ١٢٩)اور نبی ﷺ ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں‘‘۔اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔
سماج ومعاشرہ میں اگر ایک بھی فرد کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سہرا پورے سماج ومعاشرہ کے سر باندھا جاتا ہے، یقیناً یہ کامیابی صرف ان بچوں اور ان کے والدین کی نہیں بلکہ پورے سماج ومعاشرہ کی کامیابی ہے ۔

حاجی پور کے دیو چند کالج میں فروغ اردو پر سمینار کا انعقاد حاجی پور ( قمر اعظم صدیقی )

حاجی پور کے دیو چند کالج میں فروغ اردو پر سمینار کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
 حاجی پور
 ( ✍️قمر اعظم صدیقی ) 
گزشتہ 20 مارچ 2023 ء  بروز سوموار  شہر حاجی پور کے  دیو چند کالج میں شعبہ اردو کی جانب سے ڈاکٹر سلطان اکبر خان صدر شعبہ اردو نے یک روزہ قومی سمینار  "  بہار میں فروغ اردو کے لیے کیا کیا جائے " کے عنوان سے ڈاکٹر تار کیشور پنڈت  پرنسپل  دیو چند کالج کی سرپرستی میں  سمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ جس کی صدارت مشہور و معروف ادیب ، قلمکار جناب انوار الحسن وسطوی صاحب نے فرمائ ۔ جبکہ نظامت کے فرائض پروفیسر حسن رضا صاحب استاد سکھ دیو مکھ لال نے انجام دیا ۔ جناب  انوار الحسن وسطوی نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے ۔ اس لیے تمام ہندوستانیوں کو اردو کے فروغ کے لیے آگے آنا چاہیے ۔ اردو بہت ہی پیاری و میٹھی زبان ہے لہذا تمام ہندوستانیوں کو اردو کو اپنانا اور گلے لگانا چاہیے ۔ جناب صدر نے بہار میں اردو ڈایروکٹریٹ کے ذریعہ غیر اردو دانوں کے لیے چلاۓ جا رہے آن لائن اردو کلاس کی جانب بھی توجہ دلائی اور کہا کہ اس کورس سے بہت سارے ہندی والوں نے فائدہ حاصل کیا ہے ۔ مزید انہوں نے ہندی دانوں سے اس پروگرام میں رجسٹریشن کرا کر آن لائن اردو سیکھنے کی گزارش کی ۔ جناب وسطوی نے دیو چند کالج کے صدر شعبہ اردو پروفیسر جناب سلطان اکبر خان اور وہاں کے پرنسپل پروفیسر تارکیشور پنڈت  کو کالج کی جانب سے پہلی بار اتنے بہترین سمینار کے انعقاد پر مبارکباد  پیش کی ۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے جناب شاہد محمود پوری نے  اپنے خطاب میں کہا کہ صوبہ بہار میں اردو زبان کی بقاء کے لئے تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے میں اردو کا جائزہ لیا جائے اور اس کے حساب سے لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔ جبکہ مہمان اعزازی  بدر محمدی نے اپنا مقالہ پڑھتے  ہوئے حکومت کے ذریعے کئے گئے وعدوں پر توجہ دلائی اور کہا کہ  اردو انقلاب کی چنگاری روشن کرنے والی اور غریبوں کو جگانے والی زبان ہے ۔  اردو ایک زندہ زبان ہے اس لیے اردو کو اپنائیں ۔  اس موقع پر ڈاکٹر منظور حسن  نے اپنی کلیدی خطبہ میں کہا کہ اردو مسلمانوں کی مادری زبان ہے لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اردو کی موجودہ صورت حال بہتر نہیں ہے ۔ اردو کے فروغ کے لئے اردو میں بول چال کو رواج دیں اور بچوں کو ابتدائی تعلیم بھی اردو میں دلوایئں ۔  اس موقع پر سمینار کے کنوینر ڈاکٹر سلطان اکبر خان صدر شعبہ اردو دیو چند کالج نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اردو والے احساس کمتری کے شکار ہیں ہمیں اس سے اوپر اٹھنا چاہیے ۔ اردو والے ایسا سوچتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کچھ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن ایسی بات ہرگز نہیں ہے ۔ آپ اردو پڑھ کر اساتذہ کی نوکری لے سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اردو اکادمی، اردو ڈائروکٹوریٹ میں کسی عہدے اور بلاک میں اردو مترجم کے جاب کو بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اردو سے آپ آئ ایس اور آئ پی ایس  وغیرہ کے امتحان میں شامل ہو کر بڑے عہدے پر بھی فائز ہو سکتے ہیں ۔  نظامت کر رہے جناب حسن رضا صاحب نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اردو ہندی دو سگی بہنیں ہیں ۔ ہندی بڑی تو اردو چھوٹی بہن ہے ۔ اس لیے  ہمیں لکھنے پڑھنے میں  دونوں  بہنوں کو شامل کرنا چاہیے ۔  عظیم الدین انصاری صدر ضلع اردو ایکشن کمیٹی ویشالی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کے فروغ کے لیے اسکول کالج کے طلباء کو اردو کے پروگراموں میں حصہ لینے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔  اس سمینار کے موقع پر نوجوان صحافی قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا نے سامعین سے خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ ہم لوگ خود کو موڈرن سمجھنے لگے ہیں اس لیے اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم انگریزی میں دلوانا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کو اردو سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے ۔ اگر یہی حالات رہے تو آج جو ہم لوگ تھوڑے بہت سمینار ، مشاعرے ، کانفرنس کر رہے ہیں  آنے  والے دنوں میں یہ سب بھی بند ہو جائنگے اور اردو کا کوئی نام لیوا بھی نہیں رہے گا  ۔ اس لیے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو انگریزی ، ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم بھی ضرور دلوائیں ۔ سمینار کے درمیان میں محترمہ ثانیہ فرحت جمال اور بدر محمدی نے اپنا کلام سنا کر سامعین کو محظوظ کیا ۔ پروگرام میں گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھتے ہوۓ کثیر تعداد میں ہندی اور اردو زبان کے شرکاء نے شرکت فرمائی ۔ اخیر میں ڈاکٹر آلوک کما صدر شعبہ ہندی ، دیو چند کالج کے اظہار تشکر پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔ آلوک کمار صاحب نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اردو سلیقے اور گنگا جمنی تہزیب کی زبان ہے ۔ آلوک کمار کو بہترین اردو بولنے کے لیے مہمانوں نے پھولوں سے خیر مقدم کیا اور مبارکباد پیش کیا ۔

پیر, مارچ 20, 2023

فارغ اوقات کا صحیح مصرف ___

فارغ اوقات کا صحیح مصرف ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
گذشتہ چند سالوں میں تعلیم کے مسئلہ پر مسلمانوں میں بیدا ری آئی ہے ، کنونٹ ، پرائیوٹ تعلیمی ادارے اور سرکاری اسکولوں میں مسلم بچے بچیوں کا تناسب تیزی سے بڑھا ہے، سہولتیں بھی پیدا ہوئی ہیں ، مکتب اور مدارس میں بھی طلبہ پہونچ رہے ہیں ؛یہ رجوع اس قدر بڑھا ہے کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ کا داخلہ جگہ اور وسائل کی قلت کی وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے ، یہی حال معیاری اسکولوں اور کنونٹ کا ہے ، بڑی بڑی رقمیں دینے اور بہت سارے اوقات صرف کرنے اور سفارشوں کے با وجود ، داخلے میں پریشانیوں کا سامنا ہے، ہمارے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ” اب تعلیم کے سلسلے میں معاملہ بے کسی اور بے بسی کا نہیں ہے ، اگر کوئی نہیں پڑھ رہا ہے تو یہ بے حسی ہے، گارجین کی اور ان لوگوں کی جن کی سر پرستی بچوں کو حاصل ہے ۔“
اس خوش کن صورت حال کے با وجود مکاتب اور مدارس کے دائرے سے باہر نکلیے تو ہمارے بچے جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، ان میں سے بیش تر میں بنیادی دینی تعلیم کا یا تو نظم ہی نہیں ہے یا ہے تو برائے نام ہے ، دوسرے موضوعات کی طرح اس پر توجہ نہیں ہے ، جس کی وجہ سے ہمارے طلبہ وطالبات بنیادی دینی تعلیم سے دور رہ جاتے ہیں ، اور ان کی دینی زندگی متاثر ہوتی ہے اور وہ بیش تر حالات میں دین سے نا بلد اور عمل سے دور ہو کر زندگی گذارتے ہیں ، اس افسوس ناک صورت حال کا حل یہ ہے کہ ہمارے اسکول اور کنونٹ جو مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں ، ان میں بنیادی دینی تعلیم کا مناسب اور معقول انتظام لا زما کیا جائے اور دوسرے موضوعات کی طرح اس پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ وہاں سے نکلنے والے طلبہ دینی تعلیم وتربیت سے پورے طور پر آراستہ ہوں ، جو ادارے دوسروں کے قبضے میں ہیں، ان میں ایسا دباو¿ بنایا جائے کہ وہ مسلم بچوں کے لیے مناسب دینی تعلیم کا نظم کریں ۔
ایک طریقہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے یہ بتایا ہے کہ بچوں کے لیے دینی اقامت گاہیں بنائی جائیں، جن میں اسکول کے بعد کا وقت بچے وہاں گذار یں اور کچھ اوقات ان کے لیے مختص کر دیے جائیں کہ ان اوقات میں بچے دینیات پڑھ لیں ، اقامت گاہیں اسلامی تربیت کا بھی مرکز ہوں جن میں بچوں کی نشوونما اسلامی اقدار کے ساتھ کی جائے، اسے ایک زمانہ میں ”گیلانی اقامت گاہ“ کا نام دیا گیا تھا ، یہ شکل صرفہ والی ہے، لیکن اوپر والی دونوں شکلوں سے زیادہ کار آمد ہے، ان دنوں ایک اور شکل مختلف علوم وفنون کے حصول کے لیے رائج ہے اورانتہائی مفید ہے وہ یہ کہ فرصت کے اوقات کا استعمال ”ووکیشنل کورس“ کے لیے کیا جائے اور فرصت کے ایام کو کار آمد بنایا جائے ، یہ کورس دینیات کا بھی چلایا جاسکتا ہے ، اور چند گھنٹوں اور چند ایام میں صحیح تعلیم وتربیت اور نصاب کے ذریعہ مقصد تک پہونچا جا سکتا ہے ، امارت شرعیہ اس سلسلہ میں کافی فکر مند ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ اسکول کے ذمہ داراپنے اسکولوں میں ووکیشنل کورس دینیات کا چلائیں ،مدارس اسلامیہ میں کم وبیش دو ماہ کی لانبی تعطیل شعبان ،رمضان میں ہوتی ہے،مدارس کے طلبہ اپنی عبادات کے ساتھ انگریزی ،ہندی وغیرہ کی ابتدائی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں، اس کام میں گارجین حضرات کی دلچسپی کی بھی ضرورت ہے کہ وہ فرصت کے ایا م واوقات میں اپنے بچوں کو قریب کے مکاتب ،مدارس اور مساجد کے ائمہ کرام اور عصری علوم کے اساتذہ کی خدمت میں بھیجنے کو یقینی بنائیں ،بچے تو بچے ہوتے ہیں ، گارجین حضرات کی دلچسپی نہیں ہوگی تو وہ سارا وقت کھیل کو د میں برباد کردیں گے ، اس کورس میں داخل ہونے سے ان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور غیر شعوری طور پر انہیں وقت کی قدر وقیمت کا بھی اندازہ ہو گا ، جس سے وہ آئندہ زندگی میں فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ائمہ حضرات جمعہ کی نماز سے قبل اگر اس موضوع کو اپنی تقریر کا موضوع بنائیں تو یہ منصوبہ تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے ، ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جو لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں وہ اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر ملت کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے فارغ کریں،ایسے کورسیز کے لیے ایک بڑا سوال نصاب کا ہوتا ہے ، میری رائے ہے کہ دینیات کا بالکل ہلکا پھلکا نصاب اسکولی طلبہ کے لئے رکھا جائے ، بوجھل نصاب طلبہ کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کراپائے گا ،اور اس سےفائدہ اٹھانا دشوار ہوگا۔

اتوار, مارچ 19, 2023

انس مسرورؔانصاری ایک پھول سے آجاتی ہے ویرانے میں رونقہلکا سا تبسّم بھی مری جا ن بہت ہے

**کُچھ تبسّم زیرِ لب**
        
       آخری خواہش
Urduduniyanews72
*انس مسرورؔانصاری 
ایک پھول سے آجاتی ہے ویرانے میں رونق
ہلکا سا تبسّم بھی مری جا ن بہت ہے
بھارت میں سب سے زیادہ بڑی ۔سب سے زیادہ غورطلب۔موذی،مہلک اوروبائی صورت میں پھیلنے والی بیماری کانام ‘‘نیتاگیری’’ہے۔یہ ایسی بیماری ہے کہ جسے لگ جاتی ہے اُس کی جان لے کرٹلتی ہے۔یہ بیماری کبھی خودلگتی ہے اور کبھی لگائی جاتی ہے۔سیاسی بیماری جب ترقی کرکے لاعلاج ہوجاتی ہے تواُسے نیتاگیری کہتے ہیں۔ہمارے ملک میں اسّی فی صدی آبادی اسی مرض میں مبتلاہے۔ہربستی ،ہرگاؤں، ہرشہراورہرنگرمیں یہ شہزادی راج کرتی ہے۔اس کے عشق میں ہرنیتاپاگل ہے۔اس شہزادی نے بہتوں کوآبادکیااوربہتوں کوبربادکیاہے۔ 
ہمارے ملک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اکثرنااہل اپنے آپ کوقیادت کااہل پاتے ہیں۔ہرکوئی قوم کی قیادت اوراپنی خدمت کرناچاہتاہے۔ پہلے زمانے میں وہی لوگ سیاسی میدان میں قدم رکھتے تھے جن کے دل گردے بہت بڑے اورمضبوط ہوتے تھے۔وہ ملک اورقوم کی ترقی کے لیے سوسوجتن کرتے اوراپناگھرپھونک کرتماشہ دیکھتے تھے۔موجودہ زمانہ میں سیاست ایک پروفیشنل بزنس کی طورپر سامنے آئی ہے۔اب نیتاگیری کامیاب ہوجاتی ہے تولاکھوں کروڑوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔اس لیے عام آدمی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نیتابن جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب نیتاگیری سے پہلے داداگیری سیکھنی پڑتی ہے۔بدمعاشوں اوراُٹھائی گیروں کاایک ہجوم اپنے ساتھ رکھناپڑتاہے۔نیتاگیری تب کامیاب ہوتی ہے جب چمچے اورخوشامدیوں کی تعدادزیادہ ہو۔ جرائم میں مہارت حاصل ہو۔سیاسی تجارت کے لیے بھارت کی زمین بڑی زرخیزہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثرغنڈے،موالی،بلیک میلراو رمافیا والے اپنااپنادھندہ چھوڑکرراج نیت میں آگئے کہ اس میں راجہ اورمہاراجہ بننے کے چانسزبہت زیادہ ہیں۔یہاں رام رام جپ کے پرائے مال کواپنابنالینابہت آسان ہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی نیتامنتری بنتاہے تووہ تنہامنتری نہیں بنتابلکہ گھروالی،سالے،سالی، اینڈسنزاینڈبرادرزسمیت منتری بنتاہے۔پھراُس کے پی،اے اورپیابھی ہوتے ہیں۔پرسنل سکریٹری ہرچند کہ سرکاری ہوتے ہیں مگر اصل سکریٹری تواس کے اپنے ہی خاص لوگ ہوتے ہیں۔انھیں کے رائے مشورہ سے ٹینڈرپاس ہوتے اور افسروں کے تبادلے ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتاہے۔ نیتاگیری میں قومی املاک نیتاؤں کے لیے ‘‘جملہ حقوق محفوظ’’کے زمرے میں آتی ہیں۔ 
ماسٹرپیارے لال جب منتری ہوئے توگاؤں میں اُن کی ان پڑھ،جاہل،گنوارانگوٹھاچھاپ دھرم پتنی آپ سے آپ منترائن بن گئیں اوراُن کی سکھی سہیلی جن کی سات پشتوں میں بھی کوئی چودھری نہیں تھا،گاؤں والے اُنہیں جوکھنی،سکھاری،بدھنی کے بجائے ڈرکے مارے اچانک چودھرائن کہنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین سال کے اندرماسٹرپیارے لال کامعمولی مکان عالی شان بلڈنگ میں بدل گیا۔ ان کامکان بن جانے سے گاؤں کی شوبھابہت بڑھ گئی۔ایک بارجب وہ فارن ٹورسے گھرواپس آئے تو ان کے کتوں نے ان کازبردست ، پُرجوش اورپُرخروش استقبال کیا۔وہ اتنابھونکے اتنابھونکے اوراس قدراپنی دُمیں ہلائیں کہ نیتاجی کوکہناپڑا۔‘‘بســ......بس......بہت ہوگیا۔اب مجھے اورشرمندہ نہ کریں۔’’ 
بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ہمارے دیش کے نیتاکام کچھ نہیں کرتے،بس وعدے کرتے ہیں اورآرام کرتے ہیں،لیکن ایسانہیں ہے۔وہ محنت بھی بہت کرتے ہیں۔ہمارے دوستوں میں ایک سردارجی نے بتایاکہ اُن کی وائف امریکہ کی بڑی تعریف کرتی ہیں۔کہتی ہیں کہ امریکہ ایک دولت منداورمہان دیش ہے۔’’ہمارے دوست نے ایک دن جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا:‘‘کی ہوتاہے دولت سے۔؟کوئی امریکن لیڈرایک دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرسکتاہے؟ہمارے دیش میں ساڈھا ہرنیتا ہر سال کئی کئی مرن برت رکھتاہے۔مہان ہے ہمارادیش اوراس کے نیتا۔’’ 
    انسان غلطیوں کاپُتلاہے۔کبھی کبھی ہم سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ایک سیاسی جلسہ میں شرکت کی غلطی ہوئی تودیکھا۔منچ پربہت سارے نیتابراجمان ہیں۔راجدھانی سے آئے ہوئے ایک بڑے نیتاکا بھاشن تھا۔پبلک بھی بہت تھی(پبلک بیچاری کیاکرے۔اُسے بھی توتفریح چاہئے)شہرکے نیتاباری باری منچ پرآتے اورمہمان لیڈرکے گن گان کرکے بیٹھ جاتے۔شہرکے ایک اورنیتاقصیدہ خوانی کے لیے جیسے ہی مائک پرآئے۔مائک والے نے اُن کے سامنے سے مائک ہٹالیا۔
‘‘کیوں ۔؟تم نے میری باری پرمائک کیوں ہٹالیا۔؟؟’’نیتاجی نے مائک والے پربرہم ہوتے ہوئے پوچھا۔
‘‘نیتاجی !تم مکھن بہت لگاتے ہو،اتناکہ میرامائک بلکہ ساراسِٹ چکناہٹ سے خراب ہوجاتاہے۔میں اپنے مائک میں تمھیں نہیں بولنے دوں گا۔’’
سارے نیتاؤں کی خصوصیات قریب قریب مشترک ہیں۔جب بھی وہ بھاشن دیں گے توساری جنتاکواپنے بھائی ،بہن،ماں ،باپ اورجانے کیاکیا بتائیں گے۔ان کی تقریرمیں سارے انسانی رشتے جمع ہوکرماں،باپ،بہن،بھائی ہوجاتے ہیں۔اسی لیے وہ اپنے ہربھاشن کی ابتداء ہمیشہ ‘‘میرے بھائیو،بہنوں اورماتاؤں’’سے کرتے ہیں۔چنانچہ شامتِ اعمال کہ ایک بار اورغلطی ہوئی اورہم ایک سیاسی جلسہ میں چلے گئے۔کسی نیتاکے اعزازمیں توصیفی تقریب تھی۔بہت دیرتک نیتاجی لگاتارجھوٹ بولتے رہے۔اپنی تعریف کرتے رہے۔عوام کوبیوقوف بناتے رہے۔جلسہ ختم ہواتومنچ سے نیچے آئے ۔بھیڑکافی تھی۔وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتے، ہاتھ جوڑکر نمشکارکرتے ۔ لگاتارمسکراتے ہوئے ،پھول مالاؤں سے لدے پھندے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ اچانک اس وقت ایک میڈیاوالے نے اُ ن سے سوال کیا۔‘‘شری مان جی!ابھی تک آپ نے شادی نہیں کی ۔؟کیااس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں۔؟’’
‘‘کیوں نہیں بھائی!’’وہ مسکراتے ہوئے بڑے شرمیلے انداز میں گویاہوئے۔‘‘تین چاربہنوں کے رشتے آئے ہوئے ہیں اورایک بہن جی سے توبات بھی چل رہی ہے۔’’
بھارت کاہرنیتاجب مرتاہے توہمیشہ سورگ واس ہی ہوتاہے۔کبھی نرک واس نہیں ہوتا۔ہم نے اخباروں میں ہمیشہ یہی پڑھا۔تمام نیتاؤں کی خواہشیں بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں مگرایک مشترکہ خواہش سب سے بڑی ہوتی ہے۔
شہرکے ایک بڑے اورمشہورنیتاسورگ واس ہوگئے۔شمشان گھاٹ جانے کے لیے بڑاہجوم اکٹھّا ہوگیا۔تل دھرنے کوجگہ نہیں رہی۔سورگ واسی نیتا کے سوگ میں ایک دن کے لیے سرکاری چھٹی کابھی اعلان ہوگیا۔ارتھی کے ساتھ جانے کے لیے بڑے بڑے نیتا،منتری،سنتری،سرکاری افسران اور ہٹوبچو کے لیے کافی تعدادمیں پولیس فورس بھی حاضروموجودتھی۔جب ارتھی بالکل تیار ہوگئی توسورگ واس نیتاجی کے آخری درشن کے لیے اُن کے عالی شان بنگلہ کے وسیع لان میں ارتھی لاکررکھ دی گئی۔بھیڑاُمنڈپڑی ۔ذراسی دیر میں ارتھی پھول مالاسے بھرگئی۔زندگی میں اتناپھول مالااُنھیں چڑھایا گیاہوتاتومارے خوشی کے پھولوں کے بوجھ سے بے موت مرگئے ہوتے۔اچانک ایک آواز اُبھری ۔
پہلی آوازـ:۔‘‘نیتارگھومل جی کی جئے ہو۔ساری عمردیش اورجنتاکی سیوامیں گزاردی۔’’
  دوسری آوازـ:۔‘‘نیتاجی مہان ہیں،مہان تھے اورسدیومہان رہیں گے(کیونکہ نیتاجی نے سدیوجنتاسے زیادہ خوداپنی خدمت کی۔جنتاسے بڑے بڑے وعدے کرکے ووٹ لیتے اور آخری سانس تک جھوٹے وعدوں پرٹرخاتے رہے) 
  تیسری آوازـ:۔ ‘‘نیتاجی بہت لوک پریئے تھے۔’’ (کیوں نہ ہوتے۔اُنھیں جنتاکواُلّو بنانے کاہنرمعلوم تھا) 
  چوتھی آواز:۔‘‘آج جمہوریت کے محل کاایک ستون گرپڑا۔جنتاپرپہاڑٹوٹ پڑا(حالانکہ نیتاجی جمہوریت کے معنی تک نہیں جانتے تھے۔نیتاگیری سے پہلے رائی کاتیل بیچتے تھے اورتیل کواصلی ثابت کرنے کے لیے اُس میں پیازکاعرق ملایاکرتے تھے تاکہ سونگھنے پرکڑواہٹ زیادہ معلوم ہواورتیل اصلی لگے)
  پانچویں آواز:۔ ‘‘ارتھی کواب اُٹھاناچاہئے۔سب نے درشن کرلیے ہیں۔؟جئے ہونیتارگھومل جی کی۔’’
  چھٹویں آواز:۔‘‘اب ارتھی اُٹھانے میں ادِھک سمئے نشٹ نہیں کرناچاہئے۔جلدسے جلددیش بھکت کی راکھ کودیش بھرمیں ہوائی جہازسے اُڑاناہے (تاکہ کھیت کھلیان بنجرہوجائیں،فصلیں تباہ ہو جائیں)آج دیش بھکت کی بھکتی سپھل ہوگئی۔ارتھی اُٹھائی جائے۔جئے ہونیتارگھومل جی کی۔نیتاجی امررہیں۔’’ 
  ساتویں آواز:۔‘‘ابھی ٹھہروبھائیو!تھوڑی دیراورکشٹ کرو۔بس میڈیاوالوں کوآجانے دو۔وہ لوگ آنے ہی والے ہیں۔نیتاجی کی آخری خواہش تھی کہ پہلے ٹی،وی اورپریس والے آجائیں تب ارتھی اُٹھانا۔’’ 
 ٭٭ 
  انس مسرورؔانصاری

قومی اُرد وتحریک فاؤنڈیشن                           (رجسٹرڈ)      
  سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
  (یو،پی) 
رابطہ:۔۰۹۴۵۳۳۴۷۷۸۴

ہم نے ایک بڑے ادیب عظیم نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد کو کھو دیا:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ہم نے ایک بڑے ادیب عظیم نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد کو کھو دیا:
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
ڈاکٹر منظر اعجاز کے انتقال پر اردو میڈیا فورم،کاروان ادب کے صدر اور اردو کاروان کے نائب صدر کا تعزیتی بیان 
پھلواری شریف پٹنہ 19مارچ2023(عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)ڈاکٹر منظر اعجاز نے ۱۹/مارچ ۲۰۲۳ ء کو علی الصباح تین بجے تقریباً ستر سال کی عمر میں آخری سانس لی،وہ بڑے ادیب،عظیم  نقاد،اچھے انسان اور بہترین استاد ہونے کے ساتھ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے،انہوں نے میری مرتب کردہ کتاب ”دیوان اوج“ پر بسیط تبصرہ لکھا تھا،اور اس کے اجراء کی تقریب میں بنفس نفیس مہوا تشریف لے جاکر سنایا بھی تھا، ان کا آبائی وطن اشوئی ترکی ضلع ویشالی کا ایک گاؤں تھا،جہاں گاہے گاہے ان کی آمد ہوتی رہتی تھی،ان سے آخری ملاقات سلطان شمسی کے مجموعہ کلام کے اجراء کے موقع سے گورنمنٹ اردو لائبریری پٹنہ میں ہوئی تھی،وہی شفقت و محبت،وہی انکساری اور تواضع جو ان کی زندگی کا لازمہ تھا،نظر آیا،اسی انداز میں ملے،جسم کمزور ہو گیا تھا،کورونا کے شکار ہو گئے تھے،بچ گئے،لیکن اس کے اثرات نے ان کا پیچھا آخری دم تک نہیں چھوڑا،انہیں تصنیف و تالیف کا صاف ستھرا ذوق تھا،ان کی کتابیں ”شخصیات و انتقادیات،فراق اور غزل کا اسلوب،اقبال اور قومی یک جہتی،ظفر عدیم ایک سخن ساز اور معاصر غزل کا منظر نامہ،نئی غزل میں تلمیح کی معنویت،متن سے مکالمہ،قومی وطنی شاعری کا منظر نامہ،انعکاس کا“فراق نمبرخاص طور سے قابل ذکر ہیں واقعہ یہ ہے کہ ہم نے علم و ادب کی ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا ہے،جن کی یاد برسوں آتی رہے گی،اور زمانہ دراز تک ان کی کمی محسوس کی جائے گی،اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے،اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے،اب ان کے لئے سب سے اہم کام دعائے مغفرت ہے،اللہ ان کی آخرت کی منزلیں آسان کر دے،تعزیت کے مستحق صرف ان کے پس ماندگان ہی نہیں، وہ تمام لوگ ہیں جو علمی ادبی ذوق رکھتے ہیں،میں سب سے تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں۔

شخصیات وانتقادیات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ

شخصیات وانتقادیات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
(۔ڈاکٹر منظر اعجاز کے انتقال پر ان کی زندگی میں لکھی گئی قدیم تحریر قاریین کے لیے پیش خدمت ہے)

 ڈاکٹر پروفیسر سید محمد مظہر الحق منظر اعجاز سابق صدر شعبہ اردو اے ان کالج پٹنہ،شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے مشہور عام وخاص ہیں،ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تنقید سے ادیب وشاعر کے مقام ومرتبہ کی تعیین ہوتی ہے، شخصیات وانتقادیات ان کی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے تین باب میں تقسیم کیا ہے، پہلا باب شخصیات وکارنامے، دوسرا باب کچھ یادیں، کچھ باتیں، اور تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر کے عنوان سے ہے، پہلے باب میں گیارہ مضامین سر سید احمد خان اور مدرسۃ العلوم، آگہی بردار بصیرت کے شاعر حالی، سید افضل الدین احمد اور فسانہ خورشیدی، شاد عظیم آبادی کے بعد شعری تثلیث، رضا نقوی واہی اور شعرستان، احمد یوسف اور آگ کے ہمسائے، قیصر صدیقی اور زنبیل سحر تاب کے نغمات، پروفیسر نجم الہدیٰ: شخصیت اور فن، محمد حسن اور غزل کی نکتہ چینیاں، خورشید سمیع کے تنقیدی معاملے کا معاملہ، اسد خستہ جاں، کا پہلا باب: ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے، دوسرے باب میں کچھ یادیں، کچھ باتیں کے عنوان سے وہاب اشرفی، اختر الایمان، لطف الرحمن اور ندا فاضلی کی شخصیت اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کے یادوں کی برات نکالی گئی ہے، جن کو پڑھ کر ان حضرات کی افتاد طبع اور ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات ہمیں ملتی ہیں، جو عموماً ان کی سوانح اور ان کے فکر وفن پر گفتگو کرنے والوں کی نگاہوں سے اب تک اوجھل تھیں۔ تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر، اقبال بنام صغرا ہمایوں مرزا، سردار بنام سلطانہ، مجروح بنام منظر اعجاز لکھے ہوئے خطوط پر مشتمل ہے، جس میں ان خطوط کی اہمیت پر ان کے اقتباس اور صاحب مکتوب کے شناخت نامہ کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، ان مضامین میں ڈاکٹر منظر اعجاز نے اپنے مطالعہ اور مکتوب نگار سے اپنی واقفیت کا ذکر اچھے انداز اور عمدہ پیرایہ میں کیا ہے، تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت چار سو نوے روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے ذریعہ چھپی اس کتاب کی طباعت روشن پرنٹرس دہلی میں ہوئی ہے، بک امپوریم اور پرویز ہاؤس سبزی باغ پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کتاب کا انتساب سید حسیب الرحمن ریٹائڑ جوائنٹ ڈائرکٹر ایگری کلچر، بہار کی نیک اطوار اورپُروقار شخصیت اور ان کی اہلیہ عشرت باجی مرحومہ کی نرم گداز یادوں کے نام ہے، کتاب کے شروع میں پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کا مقدمہ ”میری نظر میں پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز شخصیات وانتقادیات کے خصوصی حوالہ سے“ ہے، پیش لفظ پروفیسر خورشید سمیع نے لکھا ہے اور حرفے چند خود ڈاکٹر منظر اعجاز کا ہے۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جب کسی موضوع پر لکھتے ہیں تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ تمام اہم فنی وادبی پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی تحریر طویل ہوجاتی ہے اور شاید ہی کبھی کسی سمینار میں پوری تحریر پڑھنے کی نوبت آتی ہے، ڈاکٹر منظر اعجاز کو خود اس کا احساس ہے، وہاب اشرفی کے حوالہ سے انہوں نے خود ہی لکھا کہ”وہ میری تحریر وتقریر کی طوالت سے اکثر الجھن محسوس کرنے لگتے تھے... کئی بار تو ایسا ہوا کہ میری طوالت پر مجھے ٹوکا بھی اور روکا بھی، اور بعض دفعہ مجلس یاراں اور بزم ادب نگاراں میں شفقت ومحبت کے ساتھ میری سر زنش بھی کی“۔لیکن وہ علامہ شبلی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ”مجھے مختصر لکھنے کی فرصت نہیں ملی“۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جو کچھ لکھتے ہیں اس میں تحقیق وتنقید کا عنصر غالب ہوتا ہے، البتہ وہ اس کو فلسفیانہ رنگ وآہنگ دینے کے بجائے سادہ، سلیس اور رواں رکھنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ ان کے چہرے کو دیکھیے اور پڑھیے تو وہ پورے فلسفی نظر آتے ہیں، لیکن تحریر میں کہیں بھی یہ عنصر غالب نہیں ہوتا، ادب وشاعری پر بحث کرتے ہوئے وہ ادب کے مروجہ خانوں جدیدیت، ما بعد جدیدیت، ترقی پسندی وغیرہ اصطلاح سے بھی گریز کرتے ہیں،گو بعض الفاظ کے اردو بنانے کے چکر میں ان کی اصطلاح بوجھل بھی ہوجاتی ہے، جیسے موبائل جیسے چھوٹے لفظ کے لیے فارسی نما ترکیب ”آلہ سماعت اصوات بعیدہ“جب لکھتے ہیں تو قاری کے ذہن ودماغ پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
 کتاب کا نام شخصیات وانتقادیات دو جزء پر مبنی ہے، شخص کی جمع شخصیات عام طور پر مستعمل ہے، البتہ انتقادیات تنقید اور نقد کے معنی میں عربی زبان وادب کے واقفین کے لیے گراں بار ہے، کیوں کہ عربی میں مصدر کی جمع نہیں آتی ہے، انتقادباب افتعال کا مصدر ہے، اور اس کی جمع لائی گئی ہے، جو غیر مستعمل ہے، مجھے معلوم ہے کہ انتقادیات کے نام سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں نیاز فتح پوری، مقصودحنفی کی تنقیدی ولسانیاتی انتقادیات انہیں کی ادبی انتقادیات، سید تالیف حیدر کی خواجہ میر درد حیات وانتقادیات، احمد سہیل کی تاریخ کاری کا ساختیاتی مخاطبہ اور انتقادیات، ڈاکٹر ہلال نقوی کی انتقادیاتِ جوش، خاص طور پر قابل ذکر ہیں، یہ معاملہ خالص لسانیات کا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ الفاظ کی تشکیل وترتیب نیز ساخت میں خاندان السنہ کی رعایت ضروری ہے ورنہ الفاظ کا روٹ (Rout)ہی کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز بڑے ادیب، شاعر اور نقاد ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، انتقادیات پر بات چل پڑی تو یہ چند جملے لکھا گئے، اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ لفظ بہت پہلے سے رائج ہے اور ادباء وشعراء اس کا استعمال کرتے ہوئے آئے ہیں۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز کی یہ کتاب شخصیات اور ان کے ادبی شہ پاروں کوجانچنے اور پرکھنے کے سلسلے میں انتہائی مفید ہے، کیوں کہ بقول پروفیسر نجم الہدیٰ ”وہ لکھنے کے لیے جب کسی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں تو پہلے اس کے متعلق ممکنہ حد تک تمام دستیاب مواد تک رسائی کی کوشش ضرور کرتے ہیں، گہرے مطالعہ اور اپنے حاصل کردہ مفصل معلومات کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں، انتقادیات میں انصاف سے کام لیتے ہیں اور راست بازی کو مشعل راہ بناتے ہیں، ان کی تنقید کبھی تقابلی ہوتی ہے اور کبھی تجزیاتی، تقابل میں وہ کسی کو گھٹاتے بڑھاتے نہیں ہیں، مختصر یہ کہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ان کے تاثراتی، تنقیدی اور تجزیاتی مضامین کا یہ مجموعہ اس لائق ہے کہ لائبریریوں کی زینت بنے اور اردو کا ہر قاری بقدر ظرف اس سے استفادہ کرے، خورشید سمیع صاحب کی رائے ہے کہ اسے نصاب میں شامل کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔

رمضان کیوں؟(طلبہ و طالبات کے لیے)کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور

رمضان کیوں؟(طلبہ و طالبات کے لیے)
کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور 
Urduduniyanews72
رمضان کی آمد آمد ہے۔ اکثر کسی خاص یوم(Day) یا تیوہار کے موقع پر طلبہ و طالبات اُس خاص دن کے تعلق سے جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے یہ مضمون قلم بند کیا جا رہا ہے۔
رمضان کے معنی:
 رمضان کا مادہ ’رَمَضَ‘ ہے جس کا مطلب ’سورج کا شدت کے ساتھ ریت پر چمکنا ‘ہے۔اس مہینہ کو رمضان کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اُس وقت شدید گرمی کا موسم تھا۔ (مجمع البحرین: جلد 2،صفحہ:223)
روزہ کا مقصد:
 اسلام کے تمام احکامات و عبادات کا اولین مقصد انسان کے اندر ’تقویٰ‘ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ البتہ اسلامی احکامات و عبادات میں اتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے میں بعض دفعہ صدیاں گزر جاتی ہیں۔ روزہ کے تعلق سے ارشاد باری تعالی ہے:
 ترجمہ: ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)
 تقویٰ کیا ہے:
 تقوی کی تعریف خود قرآن کریم میں ہی موجود ہے۔ اختصار میں سورۃ البقرہ کی ہی ابتدائی آیات سے ’تقویٰ‘ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ترجمہ: اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ جو بغیر دیکھئے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۔ آیت 2-3)
 اس آیت کی رو سے متقیوں کی تین صفتیں بتائی گئی ہیں:
  (1)  غیب پر ایمان لانا: آیت کے اس حصہ کے تعلق ’عقیدہ ‘ سے ہے۔ یعنی بغیر کسی چون و چرا کے اللہ کو،اس کے فرشتوں کو ،اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو ، اللہ کی طرف سے لکھی گئی تقدیر کو اورموت کے بعد کی زندگی کومان لینا۔ 
 (2) نماز قائم کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’عبادات ‘ سے ہے۔ یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشونودی کے لیے اپنا سرِ نیاز اس کے احکامات کے آگے جھکا دینا۔
 (3) اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق سے خرچ کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’معاملات‘ یعنی Social Values سے ہے۔ یعنی بندگانِ خدا کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے؟ غریب، مسکین اور پریشان حال بندوں کے دکھ درد میں کس طرح شامل ہوا جائے۔
 اب ہم پھر سے اُس آیت کی طرف چلتے ہیں جس میں روزہ کی غرض و غایت ’تقویٰ‘ بتائی گئی تھی۔ : ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)۔ 
 اس آیت اور سورۃ البقر ۃ کی ابتدائی دو آیات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ کا مقصدہمارے ایمان (عقیدہ ) کو مضبوط کرنا، عبادات کی رغبت پیدا کرنا اور سماجی زندگی کو خدا کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گزانے کے لیے تیار کرنا ہے۔
 آئیے روزہ کے ان تینوں مقاصد کو مزید گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
 ایمان کی مضبوطی: بغیر دیکھے اورچون و چرا کیے بغیر اللہ کو اس کے تمام اختیارات اور حکمتوں کے ساتھ مان لینا ہی اصل ایمان ہے۔ انسان خواہ علم کی کتنی ہی اعلیٰ و ارفع منزلوں تک کیوں نہ پہنچ جائے، اللہ کی تمام حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہماری بہتری اسی میں ہے کہ اللہ کے تمام احکامات کوپہلے تو بغیر کسی دلیل اور توجیح کے قبول کر لیں، پھر اپنے علم اور عقل کے مطابق ان احکامات کے اندر پوشیدہ مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ روزہ کے تعلق سے جدید سائنس نے جتنے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، انہیں آج سے کچھ سال قبل تک سمجھ پانا ممکن نہیں تھا۔ طبی نقطۂ نظر (Medical Pont of View) سے روزہ کتنا مفید ہے، اسے سمجھنا ہے تو ’’یوٹیوب‘‘ پر غیر ملکی ڈاکٹروں کے کئی ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر پائول براگ(Paul C Bragg)(پیدائش 1895، وفات:1976) نے اپنی کتاب The Miracle of Fasting میں روزے کے جسمانی، ذہنی اور روحانی فوائدپر انتہائی تفصیل اور سائنسی استدال کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ طوالت کے پیش نظر مثال سے گریز کر رہا ہوں۔ پائول براگ نے اسی کتاب میں گاندھی جی کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے گاندھی جی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اُن کی کامیابی کا اصل راز ’ورت‘ یعنی روزہ میں ہی مضمر تھا۔گاندھی جی کا قول نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
All the vitality and energy I have comes to me,because my body is purified by fasting.– Gandhi
 مصنف نے اس کے علاوہ بھی کئی بڑی اور کامیاب ترین شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی بیشتر بڑی شخصیات کی کامیابی کا اصل راز اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک پر قابو رکھا۔
 عبادات کی رغبت: ایمان لانے کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا تقاضا اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ہے۔ عبادت جسم کے چند اشاروں اور رسومات کا نام نہیں ہے۔ عبادت ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ’عبادت‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیہ کے اصلی معنی خضوع اور تذلل کے ہیں۔یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف و سرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے ۔‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات)
 رمضان در اصل تربیت (Training) کا مہینہ ہے۔ اسی لیے اس مہینہ میں کثرت سے عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عبادت کا مطلب عام طور سے نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ و، جہاد غیرہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ عبادت کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ پیارے نبیﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
 جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے ’صدقہ ‘ہوگا۔
 آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:مسکین اوربیوہ کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اوررات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔
 ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کردرجہ کی چیز نہ بتاؤں۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے کہا : وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا۔
 سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں چونکہ اختصار کے ساتھ ایمان کی تین بنیادی علامتیں بتائی گئی ہیں۔ اس لیے عبادات کا ذکر کرتے ہوئے ’ام العبادات‘ نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نماز دن بھر میں پانچ بار فرض ہیں۔ یعنی دن بھر میں کم از کم پانچ بار ہمیں اپنی بندگی اور عاجزی کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ نماز کے علاوہ اور کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس کے لیے اس طرح وقت متعین ہے۔ زکوٰۃ کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔ خدمت خلق کے لیے بھی کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات بھی ہم اپنی سہولت اور سامنے والے کی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت انجا م دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ صدقہ خیرات کرنے اور سماجی و فلاحی کاموں میں تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن نماز کے معاملہ میں ان کے یہاں وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جس کا تقاضا قرآن اور احادیث مبارکہ میں بار بار کیا گیا ہے۔ شادی بیاہ اور تقریبات کے موقع پر، کالج اور یونیورسٹیوں میں، دفتر میں، دورانِ سفر نماز کا قضا کر دینا یا چھوڑ دینا ، ہماری تساہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ 
 سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری: تقویٰ کا تیسرا بڑا تقاضا سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ صرف ہم سے عبادات کا ہی تقاضا نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے، معاشرے کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزہ میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ روزہ کی حالت میں بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں اپنے معاشرے میں رہنے والے ایسے بے شمار لوگوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے کئی کئی وقت بھوکے رہتے ہیں۔ ہم اخبارات ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشی کی خبریں دیکھتے ہیں۔ کئی علاقوں کی سروے رپورٹ دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم اس کیفیت کا اندازہ اسی وقت صحیح طور پر کر سکتے ہیں جب ہم خود اس حالت سے گزر کر دیکھیں۔ روزہ کی حالت میں کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ بھوک و پیاس ہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے میں جرائم کو جنم دیتے ہیں۔
رمضان کے اثرات کو دیگر مہینوں میں کیسے قائم رکھیں:
 جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ رمضان دراصل تربیت(Training) کا مہینہ ہے ۔ یہ تربیت اسی وقت کامیاب سمجھی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد دیگر مہینوں میں بھی اس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر آئیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کی ٹریننگ کے اثرات ہمیشہ ہماری زندگی میں قائم رہیں تو ان چند نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے:
 ٭ دورانِ رمضان ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ ہم تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور رمضان میں کی گئیں عبادات اور اعمال کو بعد کے مہینوں میں بھی قائم رکھنا ہے۔ 
 ٭ جس طرح رمضان کے مہینہ میں کالج، یونیورسٹی، کوچنگ اور ملازمت(Job) میں رہتے ہوئے بھی ہم نے نماز اور خاص طور سے باجماعت نماز کے لیے وقت نکالے تھے، رمضان کے بعد بھی جہاں تک ممکن ہو سکے نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے۔
 ٭ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ کوشش کریں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع ہی سہی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ ترجمہ کا انتخاب آپ اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کر سکتے ہیں۔ 
 ٭ کم از کم ہر مہینہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے اتوار یا چھٹی کا دن منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اگر گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھنا دشوار معلوم ہو تو سردی کے موسم میں ایک دو روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
 ٭ ہفتہ میں کم سے کم ایک دن کسی ایک وقت کسی غریب پڑوسی کی دعوت کی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہووالدین کی اجازت سے کسی غریب کے گھر کھانا پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔
 ٭بھوک صرف کھانے کی ہی نہیں ہوتی۔ بہت سے ذہین بچے والدین کی معاشی حالت (Economical Condition) ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت یقینا ایک طالب علم تو نہیں کر سکتا۔ آپ اس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت میں اگر کوئی طالب علم معاشی تنگی کا شکار ہے۔ اس کے پاس ضرورت کی کتابیں، نوٹس، کاپیاں وغیرہ نہیں ہیں، تو آپ دوستوں کی مدد سے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔
 ٭ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی قیام الیل (رات میں اٹھ کر نفل نماز پڑھنا) کی کوشش کریں۔ شروع میں آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ جس دن نصف رات میں کسی ضرورت کے تحت آپ کی آنکھ کھل جائے تو اسی وقت وضو کر کے کم سے کم دو رکعت نفل نماز ضرور پڑھیں۔
 ٭ جس طرح رمضان میں آپ کی زندگی ایک اصول اور Routine کے مطابق گزر رہی تھی، عام دنوں میں بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...