Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 01, 2023

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغاماتمضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغامات
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے ۔رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقاصد کے تحت فرمائ ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئ ہے،،، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ ۞
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں،

عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا،
اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کئے ہیں جسے بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،
اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کئے ہیں ۔اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں ۔کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ
ترجمہ : رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیز گار) بن جاؤ۔
تقوی کیا ہے.... ؟
تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے ، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا  تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔
رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے،یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے،،، يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے،،،
یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، اس ماہ میں محض  کی خوشنودئ الہی کے لئے دینا کے مسلمان کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پوری کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور بزبان حال وقال  اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے، ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے ۔
وہی  رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے،،،لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا،، اللہ کسی شخص کو اس کی اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا،، یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے، وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں،، یریداللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر،، اللہ بندوں کے لئے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں،،، اور رمضان المبارک کے روزے یہ بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزہ سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا،، ان اللہ مع الصابرين،، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، صبر وتحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کامیاب وفلاح پا سکتی ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے ،،، والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: 134)

(اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔)
روزہ کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ ووسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا وخشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بیپناہ انعامات واکرامات کا ہے،

رمضان المبارک کے روزے کی اہمیت وفضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث، 

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)

روزہ سے روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے،  ارادوں اور نیتوں میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، اور صبر وشکر  کا خوگر وعادی بنتا ہے انسان، یہ جسم کوامراض سے بچاتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انسان کے دل میں قدر ومنزلت پیدا کرتا ہے۔
روزہ کے سلسلے میں نص الہی کی چند فضیلتیں، 

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
«الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة»

کہ جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لئے اسی طرح آگے کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑنہ ڈالے،
«علیکم بالصوم فإنه لا مثل له»

تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں

«قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك»

ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے،
ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر وتحمل کا پیغام دیتا ہے۔

فکری یلغار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

فکری یلغار ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقۂ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔
فکری یلغار کا یہ سلسلہ آج سے نہیں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، ہندوستان کی حد تک اس کا آغاز مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ، انگریزوں کے عہد میں فکری یلغار کا یہ سلسلہ دراز ہوا، لارڈ میکالے نے ایسی تعلیمی پالیسی غلام ہندوستان کو دیا ، جس کی وجہ سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی تھا ، لیکن اس کا ذوق ، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست انگریزوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ، یہی وہ چیز تھی جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند قائم کیا اور یہ فکر بخشی کہ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کر نی ہے؛ جو دیکھنے سننے اور رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو ، لیکن اس کے جسم میں دھڑکتا دل اور عقل وشعور ایمانی واسلامی پانی سے سیراب کیے گیے ہوں، اور تربیت اس نہج پر کی گئی ہو کہ ان پر اللہ کا رنگ غالب آگیا ہو اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا ۔الحمدللہ حضرت نانوتوی ؒ کا یہ فیضان جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا ۔
عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری مکمل ہے اور مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کردیا ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جارہا ہے جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کررہے ہیں، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیاگیا ہے ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں،اس مسئلہ کا صرف ایک حل ہے کہ ہم بنیادی دینی تعلیم کے نظام کو مضبوط کریں،اس کا ایسا نصاب ِتعلیم ہو جو شروع سے ہی طلبہ وطالبات پر ایمانی حرارت اور دینی غیرت پیدا کریں،سرکاری سطح پر نہ سہی،ہم اپنے طور پر انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے ذریں عہد سے واقفیت بہم پہونچائیں،اوران کی ہمہ جہت خدمات سے انہیں واقف کرائیں۔
عالمی سطح پر اسلام کے خلاف فکری یلغار امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور مغرب کی طرف سے ہو رہا ہے ، اور اب اس نے عالم عرب میں اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ہے، اس کے لیے امریکہ نے عالم اسلام کے قلب سعودی عرب میں اپنی آفس کھول رکھی ہے ، اس کا مقصد سعودی عرب میں رائج نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر دینی کتابوں سے تشدد پر مشتمل مواد کو خارج نصاب کرنا ہے، وہابی تحریک انگریزوں کے مخالف رہی ہے؛ اس لیے سعودی عرب کے نصاب سے وہابی تحریک کے ذکر کو حذف کر دینا ہے،ائمہ ، علماءاور نوجوانوں کی معتدل تربیت کا نظم اب وہائٹ ہاو ¿س کی نگرانی میں کیا جائے گا، تاکہ ایک اعتدال پسند نسل کو وجود میں لایا جائے ، جو عقال ، عبا اور چوغہ پہنتی ہو؛ لیکن اس کا دل ودماغ امریکہ وبرطانیہ کے افکار واقدار میں گروی ہو، اور اس کے معتقدات اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں،یہ سب محض خیالات نہیں ہیں، سموئیل ماری نیوس زویمر(Samuel Marinus Zwemer)نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اعلان کر دیا تھا ، کہ ہم نے اسلامی ممالک کے نظام تعلیم پر اپنا کنڑول کر لیا ہے، زویمر کے ساتھ کرومر(Cromer)بھی اس مہم میں شریک رہا ہے اور مصر کے تعلیمی نظام اور تربیتی اقدار کو تبدیل کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مصر کے بعد ترکی ان کا بڑا ہدف رہا ، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی نظریات اور طریقوں کو جس طرح وہاں سے حکومتی سطح پر بے دخل اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی، وہ تاریخ کا بد ترین باب ہے۔ اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔

جمعرات, مارچ 30, 2023

قیام اللیل ___✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

قیام اللیل ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی سورہ مزمل میں اپنے محبوب کو مخاطب کرکے آٹھ آیتوں تک قیام اللیل کی اہمیت ضرورت اور طریقہ کار کا ذکر کیا ہے ، ارشاد فرمایا : اے کپڑے لپٹنے والے رات کے وقت نماز میں کھڑے ہوجائیے آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم یا اس پر بڑھادیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف پڑھا کیجئے، ہم عنقریب آپ پر بھاری بات نازل کرنے والے ہیں، بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو درست کرنے والا ہے، یقینا آپ کو دن میں بہت مشغولیت رہتی ہے، اس لیے اپنے رب کے نام کا ذکر کیجئے، اور تمام مخلوقات سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ رہیے“ (سورةالمزمل آیت 1تا 8)
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنے معمولات کا حصہ بنا لیا اور بالالتزام قیام اللیل کا اہتمام ہونے لگا، دشواری وقت کی تعیین میں ہوتی تھی کہ کتنا وقت گذرا ، پھر دن کی مصروفیات کے بعد طویل قیام آسان کام بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتوں میں تخفیف کا حکم نازل کیا اور سابقہ حکم پر عمل کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام کی ایک جماعت دو تہائی رات، نصف رات اور ایک تہائی رات کے بقدر تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ تو اللہ کو ہی ے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہر گز نبھا نہ سکوگے، اس لیے اس نے تم پر مہربانی کی، لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہواتنا ہی پڑھو، اللہ رب العزت جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے ، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کی روزی تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے ، سو تم بآسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھ۔
 سورہ مزمل کے بعد کی آیتوں میں تہجد پڑھنے سے روکا نہیں گیا؛ بلکہ پہلے حکم میں تخفیف کی گئی ، تہجد کی یہ نماز امت پر فرض نہیں ہے ، لیکن دل تو یہی کہتا ہے کہ راتوں میں یکسوئی کے ساتھ تنہائی میں، اللہ کے سامنے جھک جایا جائے او ردعائیں کی جائیں۔
 رمضان المبارک میں تہجد کے ساتھ قیام اللیل کی ایک شکل تراویح کی نماز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کی راتوں میں تواتر اور کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح اور قراءت قرآن میں مشغول ہونے کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ جس نے ایمان ومحاسبہ کے ساتھ رمضان میں قیام اللیل کیا، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے (ترمذی: الجامع الصحیح، ابواب الصوم، باب الترغیب فی قیام رمضان وما جاءفیہ من الفضل حدیث رقم 808)
رمضان المبارک میں پورے ماہ تراویح کے اہتمام سے قیام اللیل کی فضیلت وبرکت حاصل ہوتی ہے ،ا س لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اس نماز کی با جماعت ادائیگی کی بڑی اہمیت ہے، سہولت ہو تو پورا قرآن تراویح میں سنا جائے، یا سنایا جائے، البتہ قراءت قرآن میں ترتیل کی رعایت ضروری ہے ، ایسی تیز رفتاری جس سے حروف کٹ جائیں اور حروف مخارج سے ادا نہ ہوں، غنہ، اخفا، مد غائب ہوجائے، یہ شریعت میں ممنوع ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا لازم ہے ، پورا قرآن سننے کی سہولت نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھ لی جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، روایتوں میں آتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں اللہ رب العزت سماءدنیا پر نزول فرما کر تین مرتبہ اپنے بندوں کو آواز لگاتے ہیں کہ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں،( بیہقی شعب الایمان ، رقم حدیث 3695)
بقول اقبال: اللہ فرماتا ہے: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔جب مالک کائنات خود دینے کے لیے آواز لگارہا ہو اور آپ گڑگڑا رہے ہوں تو حاجت روائی ، توبہ کی قبولیت اور مغفرت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے، رمضان المبارک کی راتوں کی قدر کیجئے، بد قسمتی ہے ہماری رمضان کی راتیں بھی سوکر گذر جاتی ہیں۔

بدھ, مارچ 29, 2023

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن_____

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن_____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ(9431003131)
اسلام کا نظام معیشت عدل وانصاف پر مبنی ایسا کامل ومکمل نظام ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی قدیم وجدید نظام میں نہیں ملتی۔ یہ نظام خشک وبے جان نظریات پر مبنی نہیں؛ بلکہ اس کی جڑیں دل وجذبات سے لے کر عمل تک اور معاشرہ کی نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک پیوست ہیں، جس میں جبر واستبداد اور ظلم وجورکی کوئی گنجائش نہیں، اسلام پہلے انسانی زندگی پر احکم الحاکمین کا دبدبہ قائم کرتا ہے اور اس کے احسانات یا د دلاتا ہے، اور انسانی ذہنوں میں یہ راسخ کرتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال ودولت ہے وہ سب رب العالمین کا عطیہ ہے،یہ مال در حقیقت اللہ تعالی کا ہے جو بطور امانت تمہارے سپرد کیا گیا: (وَآتُوْ ھُمْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ) (النور:۳۳) اور اللہ کے ا س مال میں سے انہیں دو جواس نے تمہیں عطا کیا؛لیکن اسلام انسانوں کو اپنے مال ومتاع کی مالکیت سے کمیونزم کی طرح محروم بھی نہیں کرتا ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے مال ودولت کا انتساب بار بار انسان کی طرف کیا ہے؛ تاکہ انسان کی خود اعتمادی اور جذبہئ مسابقت نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے بلکہ پر وان چڑھتا رہے، ارشاد باری ہے:(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (البقرہ:۷۶۲) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اسلا م کے عادلانہ نظام معیشت کے بہت سارے حصے ہیں؛لیکن ان میں اہم ترین شعبہ زکوٰۃ ہے یہ اسلام کا تیسرا رکن اوراہم ترین فریضہ ہے، اس کی اہمیت کااندازہ محض اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک دوجگہ نہیں بلکہ ۲۸ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے،(أقِیْمُوْ االصَّلوٰۃَ وآتُو الزَّکَوٰۃ) سے پورا قرآن بھر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان میں (یُوْتُوْنَ الزَّکَوٰۃَ) بار بار آیا ہے۔ اس موضوع پر احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں، اور امت کااس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ نماز کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دین کاخلاصہ حقوق اللہ او ر حقوق العباد کی ادائیگی ہے، پہلے کا عنوان نماز ہے او ردوسرے کا زکوٰۃ۔ ان کی بھر پورانداز میں تکمیل کے بعد ہی اقامت دین کا تصور کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ زکوٰ ۃ نہ دینے والوں کی نماز بھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:(لا یقبل اللہ تعالی صلوٰۃ رجل لا یودی الزکوٰۃ حتی یجمعھما فإن اللہ تعالی قد جمعھما فلا تفرقوا بینھما (کنز العمال: ۳/۵۲)کہ اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ ادا نہیں کر تا، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرے یعنی نماز اور زکوٰۃ دونوں ادا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔
زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اپنے نفس کو بخل، خود غرضی، انانیت، فقراء کی حق تلفی اور قلب کی قساوت سے پاک وصاف کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَئمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) (توبہ: ۳۰۱) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں گے۔ ا سکا مقصد یہ بھی ہے کہ فقراء وضعفاء اور حاجت مندوں کی حاجت رسی کی جائے، جس کی وجہ سے پاکی ونورانیت اور خیر و برکت کاظہور ہوگا۔(مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضَاً حَسَناً فَیُضَاعِفُہُ لَہُ اَضْعَافَاً کَثِیْرَۃً) (البقرۃ: ۵۴۲) کون شخص ہے جو اللہ کے لئے قرض حسن (زکوٰۃ یا صدقات) دیتا ہے؛ تا کہ اللہ تعالی اس کو اس شخص کے لئے بہت زیادہ بڑھا ئے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی لازمی ضرریات کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہو۔ معاشرے میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (إن اللہ فرض علی الأغنیاء فی أموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وإن جاعوا وعرووجھدو فیمنع الأغنیاء وحق علی اللہ أن یحاسبھم یوم القیٰمۃویعذبھم علیہ)۔ کہ اللہ تعالی نے مالدارلوگوں پر انکے مال میں اس انداز سے زکوٰۃ فرض قرار دیا ہے جو فقیروں کے لئے کافی ہوجائے، اب اگر فقراء، بھوکے، ننگے رہتے ہیں یا تکلیف میں رہتے ہیں تو یہ مالدار لوگوں کے زکوٰۃ نہیں ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان سے محاسبہ کرے اور زکوٰۃنہیں ادا کرنے پر عذاب دے۔
زکوٰۃ کے جو مقاصد ومصالح اور اس کے فوائد ذکر کئے گئے، ان کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی وصولیابی اور تقسیم کیلئے ایک جماعتی نظام موجود ہو، اس لئے کہ فرضیت زکوٰۃکے احکام و مصالح کی عمارت اسی پر کھڑی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ اور حج میں اجتماعیت کی روح کار فرما ہے کہ نماز کو جماعت کیساتھ ادا کرنا ہے، روزہ کی فرضیت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک ہی مہینے میں ہے، مناسک حج کی ادائیگی بھیڑ وازدہام، دشواری وپریشانی کے باوجود چند مخصوص ایام ہی میں کرنی ہے،
 ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اورا س کیلئے بھی اسلام نے ایک اجتماعی طریقہ کار مقرر کیا ہے کہ امیر کے تحت بیت المال قائم ہو، وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور مستحقین تک با عزت طریقے پر پہنچا ئے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھا) (التوبہ: ۳۰۱)کہ اے پیغمبر آپ مسلمانوں کے مالوں سے صدقہ وصول کیجئے اس کے ذریعہ ان کو پاک اور مزکی بنائیے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ آپ صاحب نصا ب مالداروں سے زکوٰہ وصول کیجئے؛ یعنی زکوٰۃ کی وصولی امام کے ذریعہ ہو امام وامیر کے تحت حسب مصالح زکوٰۃ کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو اور ”خذ“ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے وہ ”خطاب مواجہہ“ ہے چناں چہ علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں:(وخطااب مواجھۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو جمیع امتہ فی المراد سواء) (نووی:۱/۸۳)اور خذ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو خطاب ہے وہ ”خطاب مواجہہ‘‘ ہے، اسلئے حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں شامل ہیں۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے زکوٰۃ کی وصولی زیادہ سے زیادہ مقدارمیں ہو سکے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد کا تعاون ممکن ہو سکے گا۔ لوگوں کا تعاون انکی ضرورت کے لحاظ سے ہو گا۔ محتاج اور ضرورت مند لوگ سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکیں گے۔ زکوٰۃ کی رقم کوڑیوں میں بٹنے کے بجائے حسب ضرورت لوگوں کو ایک جگہ سے مل جائے گی، ان لوگوں تک بھی زکوٰۃ پہنچ جائے گی جن کی زبانیں حیا وخوددار ی کی و جہ سے بند رہتی ہیں، انفرادی زکوٰۃ کی مقدار، تقسیم کے بعد اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی غریب شخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتی،
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس ضرورت کو پوراکر تا ہے اور گدا گری کا خاتمہ کرتا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو بکر جصاص رازی ؒ اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:”خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً“کی آیت اس امر پردلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کو ہے اور بلا شبہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے اگر وہ خود مساکین کو دے دیں گے تو یہ جائز نہ ہوگا، اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کے لئے ثابت وقائم ہے۔ لہذا صاحب زکوٰۃکو امام کے اس حق کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ کے لئے عاملین کو بھیجا کرتے تھے اور حکم فرماتے تھے کہ انکی زکوٰۃ ان کی جگہ پر جا کر لیا کریں اور یہی حکم پھلوں کی زکوٰۃ کا ہے؛ بقیہ رہ گئی سونے، چاندی، در اہم ودنانیر کی زکوٰۃ تو یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خدمت میں داخل کی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہو وہ اپنے قرض کو ادا کرے پھر باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے، حضرت عثمان غنیؓ نے ارباب مال کو اختیار دیا کہ وہ زکوٰۃ مسکینوں کو ادا کریں۔ (احکام القرآن: ۳/۵۵۱) علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں خلیفہ اس پر قائم رہے۔ جب حضرت عثمان ؓکا زمانہ آیا اور لوگوں کا تغیر ظاہر ہونے لگا تو انہوں نے خیال کیا کہ لوگوں کے پوشیدہ مالوں کا خفیہ طریقہ سے پتہ لگا نا مناسب نہیں، اس لئے انہوں نے اس مال کی ادائیگی ان کے مالکان کے سپرد کردی اور صحابہ نے بھی اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی حیثیت امام کے حقِ وصول کو باقاعدہ ساقط کر دینے اور گزشتہ حکم کو منسوخ کر دینے کی نہیں تھی۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۳)
 اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کا مزاج اور شرعی تقاضہ ہے کہ وہ بیت المال میں جمع کی جائے اوران خلفاء وامراء کے سپرد کی جائے جو اس کے منتظم وذمہ دار ہیں۔ چناں چہ اسلامی خلافت اپنے درجات کے تفاوت کے باوجود برابر زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا عمل انجام دیتی رہی۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور تک یہ صورت حال بر قرار رہی بالآخر آہستہ آہستہ آنے والی مختلف حکومتوں نے اس نظام کی پابندی کو ختم کردیا، اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار بر پا ہوا، مسلمان شریعت اسلامی کی بر کتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور اسی کی سزا ہے کہ آج انکو ظالمانہ سرمایہ داری، پُر فریب سوشلزم اور انتہا پسندانہ وغیر متوازن کمیو نزم کا مزا چکھنا پڑرہا ہے۔
یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اسلام کا کامل تصور بغیر جماعت اور امارت کے ممکن نہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت سے محرومی اور انتشار میں مبتلا رہنا بہت بڑا نقصان اور دینی ودنیوی خسران کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بامارۃ) جب جماعت اور امارت قائم ہوگی تو ان شاء اللہ پوری امت پراللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوگا، ارشاد نبوی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ۔
لہذا وہ علاقے اور خطے جہاں اسلامی نظام امارت قائم نہیں، وہاں کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نظام امارت قائم کریں اور اپنے میں سے کسی ایک لائق شخص کو امیر منتخب کرلیں، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے لکھا ہے:(اما فی بلاد علیھا ولاۃ الکفار فیجوز للمسلمین إقامۃالجمعۃ والأعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیھم طلب وال مسلم)۔
جب امارت شرعیہ قائم ہو جائے جیسا کہ الحمد للہ صوبہ بہار، ڈڑیسہ وجھارکھنڈ وغیرہ میں قائم ہے تو اس کے تحت فوری طور پر بیت المال کا شعبہ قائم کیا جائے، جس میں کام کرنے والے عاملین کی ایک بڑی تعداد ہو۔ وہ لوگوں سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ مثلا عشرہ وغیرہ وصول کریں اوربیت المال کے ذریعہ اسے اسکے صحیح مصارف میں خرچ کیا جائے۔
زکوٰۃ کی تقسیم کہاں کی جائے:
زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی تقسیم کن لوگوں کے مابین ہونی چاہئے اس کیلئے خود اللہ تعالی نے سورہ برأۃ میں واضح حکم نازل فرمایا:ارشاد ہے(اِنَّمَا الَّصَدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالمُوَئلَّفَۃِ قُلُوْبِھِمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْن السَّبِیْل فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ‘ حَکِیْمُ‘) (توبہ: ۰۶) صدقات واجبہ تو صرف غریبوں، محتاجوں اوران کارکنوں کے لئے ہیں،جواس کام پر مقرر ہیں، نیز ان کاجنکی دلجوئی مقصود ہے، اور صدقات کو صرف کیاجائے گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امدادمیں،یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بڑا علم والا، بڑاحکمت والا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ صدقات کرنے والے کو اختیار نہیں کہ اپنی پسندیدگی سے اس کیلئے مصرف تجویز کرے اور اس میں خرچ کرے؛ بلکہ اللہ تعالی نے اسکے لئے خود مصرف مقرر فرمادیا ہے اور طے فرمادیا ہے کہ ان مدات کے سوا ان کو دوسری جگہ خرچ نہیں کیا جاسکتاہے۔ مذکورہ آیت میں کل آٹھ مصارف بیان ہوئے، یہ منصوص مصارف، زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ دائمی ہیں؛ البتہ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اکثر علماء، ائمہ اور فقہاء کا خیال ہے کہ اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی وجہ سے اب ان کے حصہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سلسلے میں قاضی ابو بکر ابن العربی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ واقتدار حاصل ہو تو ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان کو اسی طرح دینا چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے۔۔ قاضی ابو بکر کی اس رائے کو علامہ مناظر احسن گیلانیؒ، مفکر اسلام مولاناابو الحسن علی ندویؒ اور دیگر علماء نے پسند فرمایا ہے۔
مدارس اسلامیہ میں زیرتعلیم طلبہ بالاتفاق زکوٰۃ کا مصرف ہیں، بعض علماء انہیں ابن سبیل میں اور بعض انہیں فی سبیل اللہ یا فقراء ومساکین میں داخل مانتے ہیں۔ ان طلبہ کے لئے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام ہو تا ہے، اور زکوٰۃ کی وصولی کا کام مدرسہ کے اساتذہ،سفر اء اور مبلغین انجام دیتے ہیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا نو ے فیصد حصہ مدارس پر خرچ ہوتا ہے اور مدارس کا اتنا عظیم ڈھانچہ زکوٰۃ وصدقات کی رقم پرہی اصلاً قائم ہے۔ اور بلاشبہ یہ مدارس دین کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا منتشر طور پر زکوٰۃ وصول کرنا اور اس کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنا، کمیشن وغیرہ پر چندہ کروانا، شریعت اسلامیہ کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لہذا جن صوبوں میں امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے اور اس کے تحت بیت المال ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپناانسلاک بیت المال سے کریں،اگر یہ ممکن نہ ہو تو امیر شریعت کی طرف سے انہیں باضابطہ رقم کی وصولی کی اجازت دی جائے اور وہ اس کی آمد وخرچ کاحساب بیت المال میں داخل کریں، اگر ایسی صورت ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے سفراء ومحصلین ”عاملین علیھا“ کے مصرف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کمیشن پر چندہ کرنا بہرصورت ناجائز رہے گا۔ جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے، ان میں اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جب تک یہ نظام قائم نہ ہوجائے ارباب مدارس اس علاقے کے اربابِ حل وعقد کے مشورے سے اس کام کوکر سکتے ہیں، یا اس کے لئے کوئی انجمن، تنظیم وغیرہ بنائی جا سکتی ہے جو صالح وبہترین افراد پر مشتمل ہو اور زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کر سکے۔ آج مختلف ناموں سے غیر معتبر تنظیموں کے قیام کا ایک فیشن ساچل پڑا ہے، جو اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے امراء سے رقمیں حاصل کرتے ہیں اور من مانے طور پر جائز وناجائز مصارف میں اسے خرچ کرتے ہیں۔ ایسی انجمن، تنظیم اور فاؤنڈیشن کی قطعا حو صلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی جو روح ہے، وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ انفرادی نظام کی طرح ہو جائے گا۔

تقریب تقسیم انعامات اور نتائج سالانہ امتحاناتتسمیہ جونیر ہائی اسکول میں سالانہ امتحان بہ خیر وخوبی انجام پزیر ہوئے اچھے نمبر پانے والے بچوں کو انکی خوصلہ افزائی کے لئے تسمیہ جونیئر ہائی اسکول

تقریب تقسیم انعامات اور نتائج سالانہ امتحانات
Urduduniyanews72
تسمیہ جونیر ہائی اسکول میں سالانہ امتحان بہ خیر وخوبی انجام پزیر ہوئے اچھے نمبر پانے والے بچوں کو انکی خوصلہ افزائی کے لئے تسمیہ جونیئر ہائی اسکول

میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا اور بچوں کو انعامات سے نواز گیا۔

اس تقریب میں سید اعجاز احمد مہمان خصوصی رہے پرنسپل جاوید مظہر نے پھولوں کا گلدستہ اور یادگار نشان دے کر مہمان خصوصی کا استقبال کیا۔ درجات میں اول دوم اور سوم آنے والے بچوں کو انعامات سے نواز ا گیا انکے نام درجہ ذیل ہیں۔ درجہ ہو۔ کے۔ جی میں فاطمہ نے اوّل، ابرانے دوم، ماہرا ، عافیہ نے سوم پوزیشن حاصل کی درجہ ایل کے جی میں عبداللہ صدیقی اول ، رابعه دوم ، علینہ سوم درجہ اول میں شہباز اول، شفاء دوم، خدیجہ سوم درجہ دو میں حمیرہ اول، سروش دوم، فاطمہ سوم درجہ سوم میں طوبہ اول ہمیر دوم، ام حبیبہ اور جبر یہ سوم درجہ چہارم میں شیرین اول، عائشه دوم ، آمنہ سوم درجہ ہ میں نبیہ اول، اقراء دوم، تزکیه سوم درجہ میں محمد نعمان اقصی اول، زبان، نشرہ انصاری دوم، محمد عزیر ، ام ایمن سوم درجہ کے میں ابوزر، اقصی اول ، زکی ، سمیہ دوم، ارسلان اقرا سوم درجہ ۸ میں طیب ، صوفیہ اول، کاشف ، سارا دوم ہمیر شمائلہ سوم پوزیشن حاصل کی۔ ان بھی بچوں کو رپورٹ کارڈ کے ساتھ انعامات سے بھی نوازا گیا۔ سید اعجاز احمد نے اپنی تقریر میں بچوں کی خوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سچائی کے راستے پر چلنا اور کسی بھی محنت سے مت گھبرانا اللہ تعالی کسی کی محنت رائیگاں نہیں جانے دیتا آپ لوگ اس ملک اور قوم کا مستقبل ہوا اپنے آپ کو بہترین انسان بنانا اور زندگی میں آگے بڑھتے جانا۔ آخر میں اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے مہمان خصوصی اور سب لوگوں کا شکر یہ ادا کیا اور بچوں کو انکی کامیابی پر بہت مبارک باد پیش کی اور انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اسکول کے آپ بہت ہونہار طالب علم ہو ہمیں امید ہے کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح کامیابی حاصل کرتے رہو گے درجہ آٹھ جو تسمیہ جونئیر اسکول کی آخری کلاس ہے اسکے بچوں کو الوداعی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آپ لوگ دوسرے اسکول میں جا کر اپنے اسکول اور اساتذہ کا نام روشن کریں گے اور ہمیشہ کا میابی کی راہ پر گامزن رہیں گے انھوں نے کہا کہ ہماری نیک تمنائیں اور دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس تقریب میں تسمیہ جو میز ہائی اسکول کے سبھی اساتذہ شامل تھے اور پروگرام کو کامیاب بنانے میں کبھی اساتذہ کی کاوشیں رہیں اساتذہ نے بچوں کی کامیابی کے لئے بے حد محنت اور لگن سے کام کیا۔ مرسلین خان، ریشمه تقسم عصمت آرا، خوش نصیب ،لائقه، رقیه بانو امین انصاری، زبیر احمد محمد شوکت محمد پرویز، درخشان، ثانیہ مریم ، ناز یه من شمائله، انم فاطمہ، تاریخ ،عباس سیدہ ، یہ بھی اساتدہو پر وگرام میں شامل رہے۔

منگل, مارچ 28, 2023

روزہ لگ گیا ہے

روزہ لگ گیا ہے 
Urduduniyanews72
سال بھرکے بعد مکمل بھوک اور پیاس کا احساس ایک ساتھ ہوا ہے، یہ کیفیت ہر روزہ دار کے ساتھ خاص ہے،مگر بولتا کوئی نہیں ہے، رمضان کے مہینے میں بھوک کی لذت کو خوبصورت انداز میں بھی پیش کرنےپربھی زیر وزبر ہوناپڑتاہے،میں نے ایک موقع پراس کی بھول کی ہے،بس اتنا ہی کہا تھا کہ آج خاصابھوک کا احساس ہورہا ہے،بس کیا تھا،سامنے والے صاحب یہ سنتے ہی شروع ہوگئے؛مولوی صاحب!  آپ کوروزہ لگ گیا ہے، آپ نے سحری میں کوئی زود ہضم چیز کھالی ہوگی، اسی لیے یہ حال ہوا ہے، سحری میں کیلے کے ساتھ دودھ اور دہی کا استعمال کیجئے، دن بھر پیاس نہیں لگے گی، کھانے میں ایسی چیزیں کھائیے جو دیر سے ہضم ہوتی ہیں، تو دن بھر آپ کو بھوک نہیں لگے گی،وغیرہ بہت ساری نصیحتیں کرنے لگے، کسی کو روزگار لگ جائے یہ اچھی بات ہے مگر کسی کو روزہ لگ جائے تویہ بری بات سمجھی جاتی ہے، ایک شریف روزہ دار کے حق میں یہ بڑی بھونڈی گالی ہے، جبکہ روزہ شریعت اسلامیہ میں صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک کھانا پینا چھوڑنے، عورتوں سے الگ رہنے اور بری باتوں سے بچنے کا نام ہے،
اب کھانا چھوٹ گیا تو بھوک لگنی ہے اور پینا چھوٹ گیا تو پیاس لگنی ہے، روزہ دار کے لیے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے بلکہ ایک روزہ دار کے لیے یہ ضروری ہے،روزہ دار کےلیے روزہ لگنا یہ خوش آئند بات ہے، اگر روزہ لگا ہی نہیں تو وہ پھر کیسا روزہ دار ہے؟یہ بھوک وپیاس روزے کی روح ہے،،اس کے بغیر روزہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعہ شریعت نے بڑا پیغام بھی دیا ہے،علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں؛
"روزہ ہی امیروں اور پیٹ بھروں کو بتاتا ہےکہ فاقہ میں کیسی اذیت، اور بھوک وپیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی وقت اس کو اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہےاور معلوم ہوتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا ثواب ہے،جو خود بھوکا نہ ہو اس کو بھوک کی،اور خود پیاسا نہ ہو اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیوں کر ہوگا"(سیرت النبی ۵)
آج سوشل میڈیا پر ایسی تحریریں گردش کررہی ہیں جن کا عنوان ہی یہ ہوتا ہے کہ؛سحری کی ایسی غذائیں جن سے دن بھر بھوک نہیں لگتی ہے،انمیں مشورے دیے جاتے ہیں کہ براؤن رائس سحری میں لیجیے، پالک کا استعمال کیجئے، سالن مین مچھلی کھائیے، بھر پور توانائی ملے گی،دالیں، انڈے اور شکرقندی کھائیے دن بھر بھوک نہیں لگے گی،ایسی ایسی چیزوں کے نام لیے جاتے ہیں جنہیں پہلی بار سننے کا موقع ملتا ہے، یہ روزہ کے مقاصد سے دور کرنے کی کوشش ہے،امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں؛
" رمضان کے لیے بہت پہلے سے سامان خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اورنفیس کھانا کھایا جاتا ہے، جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے تاکہ تقوی کی صلاحیت پیدا ہوسکے۰۰۰اگر کوئی دن بھر کا حساب لگاکر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کافائدہ حاصل نہ ہوگا، (احیاءالعلوم)
روزہ مجبوری کا نام نہیں ہے، "لگی تو روزی نہیں تو روزہ" بلکہ خاص مقاصدکا حامل ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ اپنی کتاب ارکان اربعہ میں تحریر کرتے ہیں؛
روزہ اس وقت فرض کیا گیا جب سختیوں کے بادل چھٹ گئے،عسرت وتنگ دستی کا دور ختم ہوااور مسلمانوں نے مدینہ میں اطمینان کی سانس لی،اور ان کی زندگی کشادگی اور آرام کے ساتھ بسر ہونے لگی،ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اگر پریشان حالی کے دور میں روزہ کا حکم نازل ہوتا تو بہت سے لوگ اس کو مجبوری کا روزہ اور معاشی حالات اور اس ماحول کا نتیجہ سمجھتے جو مکہ میں تھا،(ارکان اربعہ) 
کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں، پھر بھی ایک روزہ دار بھوکارہتا ہے،دراصل بھوک کی لذت سے آشنائی  حاصل کرنے کا یہ ذریعہ بھی ہے،روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے، یہ بھی بغیراس کے حاصل نہیں ہوسکتا ہے، اور نہ شیطانی حملوں سے بچنے کے لیے یہ ڈھال بن سکتا ہے، جب تک کہ بھوک وپیاس کا سامنا ایک روزہ دار کو نہ ہو، آج اس تعلق سے بڑی غفلت دیکھنے میں آرہی ہے۔

مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۴/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ ؛9973722710

یادوں کے چراغ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ 
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز
ڈاکٹر ، پروفیسر سید محمد مظہر الحق قلمی نام منظر اعجاز اے این کالج ، پٹنہ اور پاٹلی پترا یونیورسیٹی کے سابق صدر شعبہ اردوکا 19 مارچ 2023ءمطابق 28 شعبان المعظم 1444ھ بروز اتوار بوقت صبح کے تین بجے جگدیش اسپتال پٹنہ میں انتقال ہو گیا، کم وبیش اکہتر(71) سال عمر تھی ، کورونا کے مریض ہو گئے تھے، اس سے بچ گیے، لیکن اعضاءوجوارح کمزور ہوتے چلے گیے، 14 جنوری 2023ءسے مستقل صاحب فراش تھے، اور بالآخر ملک الموت نے اپنا کام کر ڈالا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عصر کنکر باغ میں ہوئی ، مولانا دانش قاسمی امام کنکڑ باغ مسجد نے جنازہ کی امامت کی اور سیکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، پس ماندگان میں اہلیہ ناہید سلطانہ اور دو بیٹیاں فرخندہ اعجاز اور رخشندہ اعجاز ہیں، لڑکا کوئی نہیں تھا، وہ چار بھائی اور دو بہن تھے، وہ سید محمد عبد المنان، سید علی عباس کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، سب سے چھوٹے بھائی کا نام سید محمد احسن ہے۔
 پروفیسر منظر اعجاز کی ولادت 12 دسمبر 1953ءکو موجودہ ضلع ویشالی کے گاؤں ترکی رسول پور بھگوان پور ویشالی میں سید مقبول احمد (والد) اور سائرہ خاتون (والدہ) کے گھر ہوئی ، ان کے مورث اعلیٰ مخدوم سید شاہ فیروز علی عرف ترک شاہ تھے، شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ترکی رسول پور وایا بھگوان پور موجودہ ضلع ویشالی وارد ہوئے، شہنشاہ نے بہ لحاظ بزرگی وعظمت انہیں جاگیر عطا فرمائی تھی۔ (تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی صفحہ 75 بحوالہ حدیقة الانساب جلد ۱ 235)
 سلسلہ نسب ان کے دادا سید شاہ نعیم اللہ بن سید شاہ ولایت حسین بن دائم علی بن قائم علی بن نائم علی ، بن لطف علی بن قاضی روشن علی کا ذکر آتا ہے، سید شاہ ولایت حسین عرف ابو جان ساتویں پشت میں ملک شاہ فیروز کے آتے تھے، ڈاکٹر منظر اعجاز کی نانی ہال بھی رسول پور ترکی تھی، ان کے ناناکا نام سید شاہ ولی اللہ تھا، دادا اور نانا دونوں حقیقی بھائی تھے، شادی بہار شریف ضلع نالندہ سید محمد صالح (م 1982) بن سید نور الحسن صاحب عرف نور محمد کی صاحب زادی ناہید سے اپریل 1986) میں ہوئی تھی، رسول پور ترکی گاؤں مظفر پورشہر سے چوبیس میل اور بھگوان پور ریلوے اسٹیشن سے دو میل کی دوری پر واقع ہے۔ آباؤ اجداد زمیندار تھے، اس لیے ناز ونعم میں پرورش ہوئی، ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کرنے کے بعد قریب کے گاؤں بہاری کے پرائمری اسکول میں تعلیم پائی اور بھگوان پور اسکول سے مڈل اور ہائر سکنڈری کی تعلیم مکمل کی ، امتحان کا سنٹر مظفر پور تھا اس لئے پہلی بار 1980ءکے آخر یا 1981ءکے اوائل میں مظفر پور وارد ہوئے اور کوئی چار ماہ مظفر پور میں قیام پذیر رہے، اسی دوران منظر اعجاز صاحب کی ملاقات ظفر عدیم سے ہوئی اور پھر دوستی اس قدر پکی ہوئی کہ ایک جان دو جسم ہو کر رہ گیے۔ 1982ءکے نصف آخر میں منظر اعجاز مستقل قیام کی غرض سے مظفر پور آئے، اور یہیں سے آئی اے، بی اے اور ایم اے اردو فارسی میں کیا، اقبال ان کے محبوب شاعر تھے، اس لیے پی اچ ڈی بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کے لیے اقبال اور قومی یک جہتی کا انتخاب کیا اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر 1989ءمیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس طرح عنفوان شباب کے قیمتی مہ وسال انہوں نے مظفر پور کی نظر کی ۔ ظفر عدیم کی صحبتوں سے پروفیسر منظر اعجاز کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور ان میں نکھار آیا، اپنے ایک مضمون ، ظفر عدیم : شخص ، عکس اور جہتیں میں منظر امام صاحب نے خود ہی اس کا اعتراض کیا ہے ، لکھتے ہیں:
”سچی بات تو یہ ہے کہ عدیم صاحب کی صحبتیں راس آئیں اور شعر وادب کا ذوق جو مجھ میں عرصہ سے دبا دبا اور گھٹا گھٹا سا تھا ، ابھرنے، نکھرنے اور پروان چڑھنے لگا “۔ (82)
 منظر اعجاز صاحب آگے بڑھتے رہے، انہوں نے تدریسی زندگی کا آغاز اس یو کالج ہلسہ نالندہ سے کیا،۶۷-۱۹۹۱ءتک یہاں مقیم رہے،اس کے بعد اے این کالج پٹنہ چلے آئے،اور صدر شعبہ اردو کے منصب تک پہونچے، اور دسمبر 2018ءکوسبکدوش ہوگئے، اے ان کالج کے بعد صرف سوا ماہ تک وہ پاٹلی پترا یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہے ادھر کچھ دنوں سے ان پر ضعف کا غلبہ تھا، اس کے با وجود ادبی مجلسوں میں کسی کے سہارے پہونچ جاتے تھے، یہ ان کی ادبی دلچسپی کی بات تھی ، ورنہ قوی سفر کے قابل نہیں رہ گیے تھے۔ان کی رہائش گاہ پی سی کالونی کنکر باغ پٹنہ میں تھی۔
جہاں تک ان کی ادبی صلاحیتوں کا تعلق ہے، پوری اردو دنیا ان کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کی قائل تھی ، ان کی ادبی تحریروں اور تقریروں کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھا اور سنا جاتا تھا، ان کی تحریر اور تقریر میں ایجاز کا گذر نہیں تھا، انہیں باتوں کے پھیلانے کا ہنر آتا تھا، اور وہ پورے بسط وکشاد کے ساتھ اپنی باتیں رکھنے کے قائل تھے،ا ن کی یاد داشت بہت مضبوط تھی ، برسوں پہلے پڑھی یا سنی ہوئی بات ان کے حافظہ کے گرفت میں ہوتی اور حسب موقع اس کے استعمال پر وہ قادر تھے۔ تصنیف وتالیف کا اللہ رب العزت نے خصوصی ملکہ عطا فرمایا ، تجزیہ کی صلاحیت بھی مضبوط تھی ، ان کی کتابیں شخصیات وانتقادیات ، فراق اور غزل کا اسلوب، اقبال اور قومی یک جہتی ، ظفر عدیم ایک سخن ساز اور معاصر غزل کا منظر نامہ ، نئی غزل میں تلمیح کی معنویت ، متن سے مکالمہ ، قومی وطنی شاعری کا منظر نامہ ، انعکاس میں مظفر پور کا فراق نمبر، اقبال- عصری تناظر ، فیض احمد فیض اور صلیبیں میرے دریچے میں ، اعجاز نظر ، ورق ورق اجالا (مجموعہ غزل) فراق اور غزل کا اسلوب ، تجزیاتی مطالعے، وہاب اشرفی : نقاد اور تخلیق کار، ظفر عدیم کا نثری تخلیقی وجدان ، تجزیہ اور تخلیقی تجربہ، چند جاسوسی اور معاشرتی ناول فراق، سوائے شاعری وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کتابوں سے ان کے مطالعہ کی وسعت علم وادب پر محنت اوران کی قوت اخذ وعطا کا پتہ چلتا ہے، ان میں زیادہ تر کتابیں تجزیہ وتنقید سے تعلق رکھتی ہیں۔
 میرا ڈاکٹر منظر اعجاز صاحب سے تعلق انتہائی قدیم تھا اب تو مہہ وسال یاد بھی نہیں رہے، جب میں نے داغ کے شاگرد عبد اللطیف اوج کے دیوان کو ایک صاحب کے بکس سے نکلوا کر مرتب کیا اور شائع ہوئی تو اس کے اجراءکی تقریب میں بہ نفس نفیس مہوا تشریف لے گئے تبصرہ لکھا اور مجمع کو پڑھ کر سنایا اور کئی جگہ چھپوایا،ان سے میری آخری ملاقات 3 دسمبر 2022ءکو گورنمنٹ اردو لائبریری میں ہوئی تھی ، ہم لوگ سلطان شمسی کے شعری مجموعہ کے اجراءکی تقریب میں شریک تھے، انہوں نے اس موقع سے خطاب فرمایا تھا، ایسی علمی وادبی شخصیت کا رخصت ہوجانا علم وادب کی دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...