Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 06, 2023

ریان عالم کو تکمیلِ قرآن کریم پر مبارکبادی

ریان عالم کو تکمیلِ  قرآن کریم پر مبارکبادی
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ05/اپریل 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس، محترم، معتبر اور پاکیزہ کتاب ہے جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لئے  نازل کی گئی ہے ۔ یہ انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے نازل فرمائی ۔یہ وہ عظیم مقدس اور محترم الہامی کتاب ہے جو مکمل تاریخ اور اثرو رسوخ کے ساتھ اپنا تعارف کراتا ہےے۔اسے چھونا، اسے دیکھنا، اسے  پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا، اور اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب،اور سعادت مندی کی بات ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے،اور رہے گی،  اس کے حفاظت ضمانت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اورتلاوت سماعت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔یقیناً تیس پارے کا حفظ کرکے اپنے سینے میں محفوظ رکھنا یہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، قرآن مجید دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی، سنی جانے والی کتاب ہے ۔
محمد ریان عالم بن شاکر عالم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ نے رمضان المبارک کے بابرکت اور با سعادت موقع پر تکمیلِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ہے ۔
واضح رہے کہ ریان عالم بن شاکر عالم نے مدرسہ ضیاءالعلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں زیر تعلیم ہیں ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک مختصر دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ریان عالم کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئی ۔
فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کریم کی تلاوت بڑے سعادت کی بات ہے ہم بچے کے والدین اساتذہ کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچہ کے والدین کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ قوم وملت کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی ذریعۂ نجات بنے گا ، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں ۔
ماہر نفسیات حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔
ریان عالم کی والدہ بشریٰ صاحبہ نے بھی اساتذہ کا شکریہ ادا کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

منگل, اپریل 04, 2023

تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام ٭ انس مسرور ؔ انصاری


تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام 
 ٭ انس مسرور ؔ انصاری 
Urduduniyanews72
 اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے،اس صداقت سے کوئی بھی مسلمان،مسلمان ہونے کے بنیادی عقیدہ کی بنا پر انکار نہیں کر سکتا۔اسلام کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ر وحا نیت اور مادیت کے متضاد نظریوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں کھینچتا۔ دیگر مذاہب کی طرح صرف راہبانہ زندگی کی ترکیب نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے متوازن اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے دینی اور دنیاوی دونوں تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔اس کی عظیم صفت یہ ہے کہ آدمی کی پیدائش سے موت تک تمام شعبۂ حیات و کا ئنا ت میں انسان کی رہبری اس نہج پر کرتا ہے کہ آخرت بھی سنور جاتی ہے اور دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انسانی سماج کی فلاح واصلاح اور استحکام کے لیے اسلام کی طرف سے جو ہدایات اور احکام جاری ہوئے وہ سب کے سب عباد ا ت کادرجہ رکھتے ہیں۔ 
 اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں روزہ بھی ایک رکنِ عظیم ہے۔روزہ کے متعلق قرآن میں ہے کہ؛ ‘‘ روزہ کا مہینہ رمضان ہے جس میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور قرآن لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت اور حق وباطل کی تمیز کے کھلے کھلے حکم موجود ہیں۔ تو مسلمانو! جو تم میں سے اس مہینہ میں زندہ وموجود ہو تو چاہئے کہ مہینہ کے روزے رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پورے کرلے۔اللہ تمھارے ساتھ آسانی کرنا چاہتاہے،اور تمھارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا،اور یہ حکم اس نے تمھیں اس لیے دیئے ہیں تاکہ تم کو جو راہِ راست اللہ نے دکھائی ہے اس نعمت پر اس کی بڑائی اور تعریف بیان کرو اور تاکہ تم اس کا احسان مانو۔’’ 
 (القرآن، مفہوم )
 روزہ عبادت ہے، حکمِ خداوندی کی تکمیل ہے۔آدمی بھوکا رہ کر بھوک کی اذیت اور تکلیف کو اچھی طرح محسوس کر لیتاہے اور اسے غریب ونادار اور افلاس زدہ انسانوں کی دشوار کُن اور صعوبتوں سے بھری ہوئی زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔غور طلب یہ ہے کہ روزہ کے فوراََ بعد زکوٰۃ کا نمبر آجاتا ہے۔زکوٰۃ بھی اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔زکوٰۃ ہر آزادو خود کفیل مسلمان پر واجب ہے۔ یہ مال کا چالیسواں حصّہ ہوتا ہے اور شرائطِ مقررہ کے بموجب اس کی ادائیگی واجب ہے۔زکوٰۃ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب بھی دی جائے تو بہ رضا و رغبت اور بہ خوشی دی جائے نہ کہ جبرو کراہت اور مجبوری کے سبب ۔! زکوٰۃ دے کر احسان نہیں جتانا چاہئے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ۔؛ نرمی سے جواب دینا اور سائل کے اصرار سے در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے سائل پر کسی طرح کا احسان جتایا جائے، اور اللہ بے نیاز اور بُرد بار ہے۔’’
 ‘‘مسلمانو! خدا کی راہ میں ان عمدہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت وغیرہ میں کمائی ہوں اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہو ں ۔’’
 ‘‘اور جو لوگ خدا کی رضا کے لئے اپنی نیت ثابت رکھ کر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو انچی سطح پر واقع ہے ۔اس پر اگر زور سے پانی برسا تو وہ دو چند پھل لایا اور اگر اس پر زور کا پانی نہ بھی برسا تو اس کی ہلکی پھواریں بھی کافی ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔’’
 ادھر آپ بھوک کی اذیت سے واقف ہوئے اور ادھر حکم ہوا کہ:۔مسلمانو زکوٰۃ دو۔گویا اسلام نے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبہ کی تحریک کے لیے پہلے ایک ایسے عمل کا حکم دیا جسے ‘‘روزہ’’ کہتے ہیں۔یہاں زکوٰۃ سے متعلق چند باتوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔
 اسلام نے افراد کی ملکیت اور دولت جمع کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ، جائز طریقوں سے دولت پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہی انھیں اس جمع کی ہوئی دولت کا امین قرار دیا ہے ۔یعنی ان کے پاس جو دولت ہے وہ قوم کی امانت ہے۔اور یہ کہ اپنے جائز تصرف کے بعد اس کی شکل قومی سرمایہ کی ہوگی۔یہ دولت وقتِ ضرورت قومی ضروریات پر صرف کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسا وقت آیا ہے جب قومی اصراف کے لئے ریاست کو اپنے قومی فنڈ (بیت المال) میں دولت مند لوگوں سے چندہ جمع کرانا پڑا ہو، حا لانکہ سماج میں دولت کی مساوی تقسیم یا تکمیلِ ضرورت کے لئے ایسا بار بار ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام نے افراد کی جمع کی ہوئی دولت پر زکوٰۃ کی شکل میں براہِ راست ٹیکس لگا کر اسے ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے اور وراثت کی وسیع تقسیم کے ذریعے سے ا یک ہی جگہ املاک کے انجماد کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔
 زکوٰۃ دنیا کا واحد ٹیکس ہے جس میں ریاست کی مجلسِ منتظمہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔سماج میں دولت کی مساوی تقسیم سے متعلق اسلام نے ا پنے اقتصادی نظام کے نظریہ کو ایسی عملی شکل دی ہے کہ ا سلا می تاریخ میں ایسا بھی دور آیا ہے جب پوری ریاست میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ملا جو خود کفیل نہ ہو۔نادار ہو اور زکوٰۃ لینے کا مستحق ہو۔لوگ زکوٰۃ کو لیے لیے پھرتے اور پریشان ہوتے کہ کوئی حقدار اور مستحق مل جائے لیکن کوئی نہیں ملتا تھا۔مجبوراََ زکوٰۃ کی رقم ریاست کے بیت المال میں جمع کر دیتے ۔یہ اسلام کے اقتصادی نظام کی آفاقی خوبیاں ہیں۔ 
 اسلام نے بھیک مانگنے اور کسی انسان کو کسی انسان کا محتاج رہنے کو معاشرہ کی بڑی لعنت قرار دیا ہے۔انسان صرف خدا کا محتاج ہے اور اُسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔اسلام نے قومی اقتصادیات کو معتدل و متوازن رکھنے کے لئے جہاں بیکار افراد کو محنت و مشقت کی طرف راغب کیا ،ان کی روزی روٹی کے لئے وسائل و ذرائع فراہم کیے۔ وہیں برسرِ روزگار طبقہ اور دولت مندوں کو تاکید بھی کی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سرمایہ کو قومی امانت سمجھیں اور جائز ضروریات کے علاوہ جو کہ ان کے متعلقین اور ان کے لئے کافی ہوں،غیر شر عی طور پر 
ایک حبّہ بھی اپنے تصرف میں نہ لائیں۔یہی وجہ ہے کی نظامِ اسلام کے دائرۂ اختیار میں جو ادوار گزرے ان میں مسلم قوم دنیا کی سب سے زیادہ خوش حال اور مال دار قوم رہی ہے۔
 زکوٰۃ کے ذریعہ اسلام نے مسلم معاشرت اور اس کی اقتصادیات کو مستحکم و منظم اور مربوط کر دیا ہے۔آج نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی ممالک اپنے سماج کو غربت کی لعنتوں سے پاک رکھنے کے لیے ‘‘غریبی ہٹاؤــ’’ کے نعرے لگاتے لگاتے تھک ہار چکے ہیں لیکن ہنوز یہ نعرہ بے اثر ثابت رہا ہے۔روز نت نئی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تاکید کی جاتی ہے لیکن سماج سے ٖغربت و افلاس کو دور رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کے جو اصول وضع کئے ہیں اگر ان کو صحیح انداز سے برتا جائے تو مسلم معاشرہ کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے گی۔زکوٰۃ کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں دولت کی نسبتاََ مساویانہ تقسیم کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی طور پر جمع کیا جائے ۔ یعنی اگر ایک علاقہ میں دس افراد ایسے ہیں جو ہر سال زکوٰۃ نکالتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ فرداََ فرداََ تقسیم کرنے کے بجائے ،دسوں آدمیوں کی زکوٰۃ کو اکٹھا جمع کر لیا جائے اور اس بھاری رقم کو کسی ایک یا ایسے چند آدمیوں کو دے دی جائے جو مسلم سماج کے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے لوگ ہوں تاکہ وہ بر سرِ روز گار ہو جائیں نیز یہ کہ ممکن حد تک ان کے کارو بار کی نگرانی و سر پرستی بھی کی جائے تاکہ وہ ترقی کر سکیں اور آئندہ سال وہ خود بھی زکوٰۃ دینے کے قابل ہو سکیں۔اس طرح کچھ پچھڑے ہوئے لوگ زکوٰۃ کے سہارے ہر سال اوپر اٹھ کر ز کوٰ ۃ نکال سکیں گے اور زکوٰۃ کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔پھر مسلم سماج کو غربت کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔اس مسلم سماج کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
 زکوٰۃ کے اوّل مستحق آپ کے رشتے دار،اقرباء، پڑوسی، محلّہ اور شہر کے غرباومساکین ہیں۔ پھر درجہ بہ درجہ اور لوگ ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے کہ ‘‘ زکوٰۃ مال کا میل ہے۔ ’’ تو چاہئے کہ مال کے میل سے دین کا علم حاصل کرنے والے مدارس کے طلباء کی دینی تعلیم کا انتظام کرنے کے بجائے صاحبِ ثروت اور صاحبِ خیر حضرات اپنے پاکیزہ اور اصل مال سے اُ ن کی مدد کریں۔ارشادِ نبوی ہے کہ ایسے حاجت مندوں کو تلاش کرو جو زکوٰۃ کے مستحق تو ہو تے ہیں لیکن غیرت اور حیا کی وجہ سے کسی سے کچھ طلب نہیں کر تے۔ زکوٰۃ دینے والے کو اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے اور دل میں صرف نیت کر لی جائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔اور زکوٰۃ لینے والا شرمندگی سے بچ جائے گا۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہ مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے،توجب اپنے بھائی کو مصیبت میں پاؤ تو ہر طرح اس کی مدد کرو۔جسمانی مدد بھی اور مالی مددبھی۔مسلمان اس عمارت کی طرح ہیں جس کی انیٹیں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔مسلمان گویا ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے اعضاء اس تکلیف سے متاثر ہو تے ہیں۔
 تقسیمِ زکوٰۃ کا یہ طریقہ اس کا صحیح مصرف اور مسلم سماج کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے ۔آج ہمارے سماج میں ایسے لوگ آسانی سے مل جائیں گے جو محنت اور جدو جہد تو کرتے ہیں لیکن سرمایہ کی کمی اور محدود وسائل کے سبب ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔غریبی اور تنگدستی کی و جہ سے ان کی لڑکیوں کی شادیاں محال ہوتی ہیں لیکن زکوٰۃ کے ذریعہ انھیں اس لائق بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خوش حال ہو کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر طور پر تربیت دے کر انھیں اعلیٰ تعلیم دلا سکیں۔پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہی بچے ایک روزمسلم سماج کے استحکام و اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہوں گے۔ہمارے سماج میں ایسے خوش حال مسلم افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو ہر سال زکوٰۃ کی کافی بڑی

 رقم نکالتے ہیں لیکن اس رقم کو اتنے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ اس سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا او ر زکوٰۃ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ لوگو! اپنے اصل مال ہی کی طرح اپنی ز کا ۃ کے مال کی بھی حفاظت کرو۔ایسے لوگوں سے بچو جو زکوٰۃ کو تجارت بنائے ہوئے پچاس اور ساٹھ فیصد کمیشن پر شہروں شہروں،قصبوں قصبوں، گلیوں گلیوں روداد اور رسید بغل میں دبائے گھو متے پھرتے ہیں اور غریبوں، یتیموں، مسکینوں ،ا ور نادار مسلمانوں کے حقوق کو سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔پھر ‘‘ حیلۂ شرعی’’ کر کے مستحقین کے غصب شدہ ما ل سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں۔اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ان سے ہو شیار رہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم زکوٰۃ بھی ادا کرو اور وہ ادا بھی نہ ہو۔ اور مسلم سماج میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی رہے اور بڑھتی ہی رہے ۔اس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ‘‘بیت المال’’ کو رواج دو تاکہ مستحق کو اس کا وہ حق مل سکے جو اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ نے اسے د یا ہے۔ لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی قائم کردہ حدوں کو نہ تو ڑو۔ قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق کون لوگ ہیں ۔ جہاں تک معاملہ عربی مدارس کا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اصل ما ل سے ان اداروں کو چلائیں۔مدارس کے طلباء کی مدد کریں اور دین کا علم حاصل کرنے والوں کو اپنی خوشیوں اور دکھوں میں اس طرح شریک رکھیں کہ اُن کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو۔ دینی اور عصری علوم کی تحصیل میں ہر طرح ان کی مدد کریں،معاونت کریں۔یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔اور یاد رکھو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو۔ یقیناََ تم ہی فلاح پاؤ گے۔

       * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
              سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ 
                  امبیڈکر نگر (یو، پی) 
         وہاٹس ایپ /9453347784

آوارجہ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

آوارجہ ____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
  محترم جناب محمد شکیل خان اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام شکیل سہسرامی کے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، 5/ جولائی ۶1966ء؁ کو ہیڈ مولوی عبد الوحید خان غازی شمسی مرحوم اور پاکباز صالحہ خاتون کے گھر سہسرام میں اپنی آنکھیں کھولنے والے شکیل سہسرامی ان دنوں رحمن مسجد کے پاس سمن پورہ، راجہ بازار، پٹنہ میں مقیم ہیں، گو اصلی پتہ مولوی عبد الوحید منزل، کرن سرائے، سہسرام آج بھی ہے۔ ان کے ایک بھائی مختار احمد خان شگفتہ سہسرامی سے جو خوش گلو شاعر ہیں میری ملاقات برسوں پرانی ہے، البتہ پہلی ملاقات جامعہ ایوبیہ چک نصیر، ضلع ویشالی کے سنگ بنیاد کے موقع سے ہوئی تھی، جہاں ہم دونوں الحاج محمد سلیم رضوی مرحوم مالک ڈیزی ہوٹل دریاپور، سبزی باغ، پٹنہ کی دعوت پر جمع ہوئے تھے۔
”آوارجہ“ شکیل سہسرامی کی دوسو سے زائد غزلوں کا مجموعہ ہے، اوربقول ان کے یہ پختہ شاعر کی نا پختہ شاعری ہے، انہیں احساس ہے کہ
یہ اور بات کہ اس میں ہیں خامیاں کافی مگر خوشی ہے کہ سارا کلام اپنا ہے
آپ اس اعتراف کو ان کی تواضع اور انکساری پربھی محمول کر سکتے ہیں، البتہ ان کے اس بیان میں حقیقت ہے کہ انہوں نے ابتداء سے تا حال اپنے بالیدہ ذوق کے ساتھ مسلسل فنی ریاضت اور عصری تناظر میں مسائل ِحیات و کائنات پر اپنی بساط بھر غور و فکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آوارجہ اسی غور و فکرکا نتیجہ ہے۔آوارجہ کی غزلوں میں سادگی ہے، تنوع ہے اور فطری طرز تکلم کو برتا گیا ہے، مجموعہ میں تشکیلیات اور ساختیات کے قبیل کے الفاظ بھی نہیں ہیں، شاعر نے سامنے سے چیزوں کو اٹھا کر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس فطری طرز تکلم میں رفعت تخیل اور فکری ندرت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا ایک فائیدہ یہ ضرور ہوا کہ ان پر مشکل پسندی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شاعری”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کی مصداق بنے، شکیل سہسرامی نے اپنی غزلوں میں جن چیزوں کو برتا ہے، ان کو ”کلمات خویش“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ اقتباس پڑھئیے:”میں نے واضح شعور کے ساتھ روش عام سے ذرا ہٹ کر سہی، مگر ٹھکرائے ہوئے لفظوں کو دانستہ طور پر گلے لگایا ہے، مجھے یقین ہے کہ میری غزلوں میں سادگی و سلاست، تکلمی زبان، مقامی رنگ و آہنگ، جدید عصری الفاظ کا استعمال، احساسات کو مشاہدات کی سطح پر لا دینے کا انداز، کلام مشاہیر سے بہ طرز خاص غذا یافتگی کا عنصر، دعاء و تلمیح، رعایت لفظی، مناسبات تجنیس، تضاد و تکرار،ا مثال و محاورات۔ کچھ خاص لفظی حوالے اور تجربے سے عکس تضادات، عصری ایجادات کی لفظیات، بعض مصرعوں میں مقولے کی کیفیت، تراکیب کا حسن، طنز کا تیکھا پن، سیاقت عددو سیاقت تخلص، قوافی کا خاص انتخاب اور اصطلاحات و ہندی الفاظ کا استعمال، یقینا اہل ذوق کے لیے حظ و نشاط اور مسرت و بصیرت کے اسباب مہیا کر سکے۔“
اقتباس ذرا طویل ہو گیا، لیکن مجموعہ کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے اسے گوارہ کر لیجیے، البتہ ان تمام کو جوڑ کر اس طرح مت دیکھئے گا کہ یہ محض شاعرکی خوش فہمیوں کا صدقہ نظر آئے اور آپ ان کے درمیان تضادات تلاش کرنے لگیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ شاعر پر زیادتی ہو گی، کیوں کہ یہ تفصیلات کسی ایک غزل میں نہیں سما گئی ہیں، بلکہ الگ الگ غزلوں میں ان چیزوں کا استعمال ہوا ہے اور تناقض کے لیے زمان و مکان کی وحدت ضروری ہوا کرتی ہے۔
آوارجہ کا انتساب”تمام متشاعروں کے نام“ ہے، کچھ سمجھا آپ نے؟متشاعر کہتے ہیں بتکلف شاعر بننے کو، یہ تکلف سرقہ اور اساتذہ کے اشعار کو اپنے نام سے پیش کرنے کے سلیقہ سے بھی سامنے آتا ہے، کبھی کبھی تو توارد کا سہارا لے کر پوری پوری غزل متشاعر ہضم کر جاتا ہے، آج بہت سارے شاعر ہمارے درمیان حقیقتاً متشاعر ہیں۔ ٹھیٹ زبان میں کہیں تو وہ شاعر کم، گویّا زیادہ ہیں، ایسی تان سے پڑھتے ہیں کہ ”تان سین“ فیل ہو جائے، ایسے میں قافیہ وردیف کے تار سیمیں پر بل پڑ جاتا ہے۔
شکیل سہسرامی متشاعر نہیں،شاعر ہیں، ان کی غزلوں میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہے، مضامین کے اعتبار سے ان کی بعض غزلیں کلاسیکی انداز کی ہیں، جن کے اشعار میں محبت و عشق کی کیفیات، جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے، بعض غزلیں غم روزگار اور عصری مسائل و مشکلات پر مرکوز ہیں، ان کے تجزیہ سے ترقی پسندی کی بو آتی ہے۔ آج کے دور میں ایسی شاعری کو عصری حساسیت پر مبنی قرار دے کر یہ کہا جا تا ہے کہ شاعر اپنے گرد وپیش کے حالات سے با خبر ہے اور وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنی یہ باخبری قاری تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ شکیل سہسرامی غم یار کی بات کرتے ہوں یا غم روزگار کی، قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتے، سادے اور صاف اسلوب میں وہ قاری کے ذہن و دماغ پر حملہ آور ہو تے ہیں اور اس حملے کے نتیجے میں قاری کے ذہن و دماغ کے سارے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ شکیل سہسرامی نے اپنی شاعری میں جن لفظیات کو استعمال کیا ہے، ان میں تعقید لفظی و معنوی، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا کہیں گزر نہیں ہے۔سوائے اس مجموعہ کے نام ”آوارجہ“ کے جس کے معنی تک پہونچنے کے لیے قاری کو ذہنی جمناسٹک بھی کرنی پڑے گی، اور لغت کے اوراق بھی پلٹنے پڑیں گے۔آوارجہ کی متنی خواندگی لغت میں      ”آوَارِجَہ“ کے اعراب کے ساتھ درج ہے، یہ فارسی الاصل ہے، مذکر لفظ ہے اور اس کے معنی آمد و خرچ کے حساب کی کتاب ”بہی کھاتہ“،  ”روکڑ بہی“ کے آتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی ابتری، پریشانی، سراسیمگی، بے سر و سامانی، بیہودگی، خرابی، ویرانی، لُچپن، بد معاشی اور بد چلنی کے درج ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شاعر نے اس مجموعہ کا نام آوارجہ کس معنی میں رکھا ہے، آج کل لوگ ساختیات اور تشکیلیات کے حوالہ سے ایسا نام رکھتے ہیں۔ لیکن یہ تو تشکیلیات کے قبیل کا لفظ نہیں ہے، سر ورق پر جو تصویر دی گئی ہے، اس میں کتاب کے اوپر دو دل کی بھی تصویر مرصع ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ احوال دل کا بہی کھاتہ ہے۔قاری شکیل سہسرامی کے کسی شعر میں تو نہیں اٹکے گا، کیوں کہ وہ صاف اور سادہ ہیں، لیکن نام میں اٹک کر رہ جائے گا، اور اٹکنے کے بعد وہ شکیل سہسرامی کی یہ عبارت پڑھے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ یہ محض لفاظی ہے۔”دو از کار علامات و استعارات، خود رو پودوں کی مانند یوں قدم قدم پر پھیلا دیے جائیں کہ ترسیل و ابلاغ نہیں؛ بلکہ صرف اس کے المیے ہی المیے رہ جائیں اور کوئی’کلمہ تعوذ‘ قاری کو اس عفریت کے شکنجے سے پناہ نہ دے سکے۔“
ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور کے مطبع ارم پرنٹرس کے مطبع میں محکمہئ سکریٹریٹ اردو ڈائرکٹوریٹ کے تعاون سے چھپی اس دو سو چونسٹھ صفحے کی کتاب کی قیمت دوسو پچاس روپئے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے قیمتاً اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہفتہ, اپریل 01, 2023

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغاماتمضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغامات
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے ۔رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقاصد کے تحت فرمائ ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئ ہے،،، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ ۞
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں،

عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا،
اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کئے ہیں جسے بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،
اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کئے ہیں ۔اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں ۔کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ
ترجمہ : رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیز گار) بن جاؤ۔
تقوی کیا ہے.... ؟
تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے ، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا  تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔
رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے،یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے،،، يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے،،،
یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، اس ماہ میں محض  کی خوشنودئ الہی کے لئے دینا کے مسلمان کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پوری کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور بزبان حال وقال  اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے، ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے ۔
وہی  رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے،،،لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا،، اللہ کسی شخص کو اس کی اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا،، یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے، وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں،، یریداللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر،، اللہ بندوں کے لئے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں،،، اور رمضان المبارک کے روزے یہ بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزہ سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا،، ان اللہ مع الصابرين،، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، صبر وتحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کامیاب وفلاح پا سکتی ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے ،،، والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: 134)

(اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔)
روزہ کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ ووسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا وخشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بیپناہ انعامات واکرامات کا ہے،

رمضان المبارک کے روزے کی اہمیت وفضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث، 

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)

روزہ سے روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے،  ارادوں اور نیتوں میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، اور صبر وشکر  کا خوگر وعادی بنتا ہے انسان، یہ جسم کوامراض سے بچاتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انسان کے دل میں قدر ومنزلت پیدا کرتا ہے۔
روزہ کے سلسلے میں نص الہی کی چند فضیلتیں، 

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
«الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة»

کہ جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لئے اسی طرح آگے کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑنہ ڈالے،
«علیکم بالصوم فإنه لا مثل له»

تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں

«قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك»

ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے،
ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر وتحمل کا پیغام دیتا ہے۔

فکری یلغار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

فکری یلغار ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقۂ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔
فکری یلغار کا یہ سلسلہ آج سے نہیں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، ہندوستان کی حد تک اس کا آغاز مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ، انگریزوں کے عہد میں فکری یلغار کا یہ سلسلہ دراز ہوا، لارڈ میکالے نے ایسی تعلیمی پالیسی غلام ہندوستان کو دیا ، جس کی وجہ سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی تھا ، لیکن اس کا ذوق ، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست انگریزوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ، یہی وہ چیز تھی جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند قائم کیا اور یہ فکر بخشی کہ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کر نی ہے؛ جو دیکھنے سننے اور رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو ، لیکن اس کے جسم میں دھڑکتا دل اور عقل وشعور ایمانی واسلامی پانی سے سیراب کیے گیے ہوں، اور تربیت اس نہج پر کی گئی ہو کہ ان پر اللہ کا رنگ غالب آگیا ہو اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا ۔الحمدللہ حضرت نانوتوی ؒ کا یہ فیضان جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا ۔
عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری مکمل ہے اور مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کردیا ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جارہا ہے جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کررہے ہیں، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیاگیا ہے ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں،اس مسئلہ کا صرف ایک حل ہے کہ ہم بنیادی دینی تعلیم کے نظام کو مضبوط کریں،اس کا ایسا نصاب ِتعلیم ہو جو شروع سے ہی طلبہ وطالبات پر ایمانی حرارت اور دینی غیرت پیدا کریں،سرکاری سطح پر نہ سہی،ہم اپنے طور پر انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے ذریں عہد سے واقفیت بہم پہونچائیں،اوران کی ہمہ جہت خدمات سے انہیں واقف کرائیں۔
عالمی سطح پر اسلام کے خلاف فکری یلغار امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور مغرب کی طرف سے ہو رہا ہے ، اور اب اس نے عالم عرب میں اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ہے، اس کے لیے امریکہ نے عالم اسلام کے قلب سعودی عرب میں اپنی آفس کھول رکھی ہے ، اس کا مقصد سعودی عرب میں رائج نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر دینی کتابوں سے تشدد پر مشتمل مواد کو خارج نصاب کرنا ہے، وہابی تحریک انگریزوں کے مخالف رہی ہے؛ اس لیے سعودی عرب کے نصاب سے وہابی تحریک کے ذکر کو حذف کر دینا ہے،ائمہ ، علماءاور نوجوانوں کی معتدل تربیت کا نظم اب وہائٹ ہاو ¿س کی نگرانی میں کیا جائے گا، تاکہ ایک اعتدال پسند نسل کو وجود میں لایا جائے ، جو عقال ، عبا اور چوغہ پہنتی ہو؛ لیکن اس کا دل ودماغ امریکہ وبرطانیہ کے افکار واقدار میں گروی ہو، اور اس کے معتقدات اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں،یہ سب محض خیالات نہیں ہیں، سموئیل ماری نیوس زویمر(Samuel Marinus Zwemer)نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اعلان کر دیا تھا ، کہ ہم نے اسلامی ممالک کے نظام تعلیم پر اپنا کنڑول کر لیا ہے، زویمر کے ساتھ کرومر(Cromer)بھی اس مہم میں شریک رہا ہے اور مصر کے تعلیمی نظام اور تربیتی اقدار کو تبدیل کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مصر کے بعد ترکی ان کا بڑا ہدف رہا ، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی نظریات اور طریقوں کو جس طرح وہاں سے حکومتی سطح پر بے دخل اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی، وہ تاریخ کا بد ترین باب ہے۔ اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔

جمعرات, مارچ 30, 2023

قیام اللیل ___✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

قیام اللیل ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی سورہ مزمل میں اپنے محبوب کو مخاطب کرکے آٹھ آیتوں تک قیام اللیل کی اہمیت ضرورت اور طریقہ کار کا ذکر کیا ہے ، ارشاد فرمایا : اے کپڑے لپٹنے والے رات کے وقت نماز میں کھڑے ہوجائیے آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم یا اس پر بڑھادیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف پڑھا کیجئے، ہم عنقریب آپ پر بھاری بات نازل کرنے والے ہیں، بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو درست کرنے والا ہے، یقینا آپ کو دن میں بہت مشغولیت رہتی ہے، اس لیے اپنے رب کے نام کا ذکر کیجئے، اور تمام مخلوقات سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ رہیے“ (سورةالمزمل آیت 1تا 8)
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنے معمولات کا حصہ بنا لیا اور بالالتزام قیام اللیل کا اہتمام ہونے لگا، دشواری وقت کی تعیین میں ہوتی تھی کہ کتنا وقت گذرا ، پھر دن کی مصروفیات کے بعد طویل قیام آسان کام بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتوں میں تخفیف کا حکم نازل کیا اور سابقہ حکم پر عمل کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام کی ایک جماعت دو تہائی رات، نصف رات اور ایک تہائی رات کے بقدر تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ تو اللہ کو ہی ے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہر گز نبھا نہ سکوگے، اس لیے اس نے تم پر مہربانی کی، لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہواتنا ہی پڑھو، اللہ رب العزت جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے ، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کی روزی تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے ، سو تم بآسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھ۔
 سورہ مزمل کے بعد کی آیتوں میں تہجد پڑھنے سے روکا نہیں گیا؛ بلکہ پہلے حکم میں تخفیف کی گئی ، تہجد کی یہ نماز امت پر فرض نہیں ہے ، لیکن دل تو یہی کہتا ہے کہ راتوں میں یکسوئی کے ساتھ تنہائی میں، اللہ کے سامنے جھک جایا جائے او ردعائیں کی جائیں۔
 رمضان المبارک میں تہجد کے ساتھ قیام اللیل کی ایک شکل تراویح کی نماز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کی راتوں میں تواتر اور کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح اور قراءت قرآن میں مشغول ہونے کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ جس نے ایمان ومحاسبہ کے ساتھ رمضان میں قیام اللیل کیا، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے (ترمذی: الجامع الصحیح، ابواب الصوم، باب الترغیب فی قیام رمضان وما جاءفیہ من الفضل حدیث رقم 808)
رمضان المبارک میں پورے ماہ تراویح کے اہتمام سے قیام اللیل کی فضیلت وبرکت حاصل ہوتی ہے ،ا س لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اس نماز کی با جماعت ادائیگی کی بڑی اہمیت ہے، سہولت ہو تو پورا قرآن تراویح میں سنا جائے، یا سنایا جائے، البتہ قراءت قرآن میں ترتیل کی رعایت ضروری ہے ، ایسی تیز رفتاری جس سے حروف کٹ جائیں اور حروف مخارج سے ادا نہ ہوں، غنہ، اخفا، مد غائب ہوجائے، یہ شریعت میں ممنوع ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا لازم ہے ، پورا قرآن سننے کی سہولت نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھ لی جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، روایتوں میں آتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں اللہ رب العزت سماءدنیا پر نزول فرما کر تین مرتبہ اپنے بندوں کو آواز لگاتے ہیں کہ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں،( بیہقی شعب الایمان ، رقم حدیث 3695)
بقول اقبال: اللہ فرماتا ہے: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔جب مالک کائنات خود دینے کے لیے آواز لگارہا ہو اور آپ گڑگڑا رہے ہوں تو حاجت روائی ، توبہ کی قبولیت اور مغفرت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے، رمضان المبارک کی راتوں کی قدر کیجئے، بد قسمتی ہے ہماری رمضان کی راتیں بھی سوکر گذر جاتی ہیں۔

بدھ, مارچ 29, 2023

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن_____

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن_____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ(9431003131)
اسلام کا نظام معیشت عدل وانصاف پر مبنی ایسا کامل ومکمل نظام ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی قدیم وجدید نظام میں نہیں ملتی۔ یہ نظام خشک وبے جان نظریات پر مبنی نہیں؛ بلکہ اس کی جڑیں دل وجذبات سے لے کر عمل تک اور معاشرہ کی نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک پیوست ہیں، جس میں جبر واستبداد اور ظلم وجورکی کوئی گنجائش نہیں، اسلام پہلے انسانی زندگی پر احکم الحاکمین کا دبدبہ قائم کرتا ہے اور اس کے احسانات یا د دلاتا ہے، اور انسانی ذہنوں میں یہ راسخ کرتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال ودولت ہے وہ سب رب العالمین کا عطیہ ہے،یہ مال در حقیقت اللہ تعالی کا ہے جو بطور امانت تمہارے سپرد کیا گیا: (وَآتُوْ ھُمْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ) (النور:۳۳) اور اللہ کے ا س مال میں سے انہیں دو جواس نے تمہیں عطا کیا؛لیکن اسلام انسانوں کو اپنے مال ومتاع کی مالکیت سے کمیونزم کی طرح محروم بھی نہیں کرتا ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے مال ودولت کا انتساب بار بار انسان کی طرف کیا ہے؛ تاکہ انسان کی خود اعتمادی اور جذبہئ مسابقت نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے بلکہ پر وان چڑھتا رہے، ارشاد باری ہے:(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (البقرہ:۷۶۲) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اسلا م کے عادلانہ نظام معیشت کے بہت سارے حصے ہیں؛لیکن ان میں اہم ترین شعبہ زکوٰۃ ہے یہ اسلام کا تیسرا رکن اوراہم ترین فریضہ ہے، اس کی اہمیت کااندازہ محض اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک دوجگہ نہیں بلکہ ۲۸ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے،(أقِیْمُوْ االصَّلوٰۃَ وآتُو الزَّکَوٰۃ) سے پورا قرآن بھر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان میں (یُوْتُوْنَ الزَّکَوٰۃَ) بار بار آیا ہے۔ اس موضوع پر احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں، اور امت کااس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ نماز کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دین کاخلاصہ حقوق اللہ او ر حقوق العباد کی ادائیگی ہے، پہلے کا عنوان نماز ہے او ردوسرے کا زکوٰۃ۔ ان کی بھر پورانداز میں تکمیل کے بعد ہی اقامت دین کا تصور کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ زکوٰ ۃ نہ دینے والوں کی نماز بھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:(لا یقبل اللہ تعالی صلوٰۃ رجل لا یودی الزکوٰۃ حتی یجمعھما فإن اللہ تعالی قد جمعھما فلا تفرقوا بینھما (کنز العمال: ۳/۵۲)کہ اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ ادا نہیں کر تا، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرے یعنی نماز اور زکوٰۃ دونوں ادا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔
زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اپنے نفس کو بخل، خود غرضی، انانیت، فقراء کی حق تلفی اور قلب کی قساوت سے پاک وصاف کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَئمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) (توبہ: ۳۰۱) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں گے۔ ا سکا مقصد یہ بھی ہے کہ فقراء وضعفاء اور حاجت مندوں کی حاجت رسی کی جائے، جس کی وجہ سے پاکی ونورانیت اور خیر و برکت کاظہور ہوگا۔(مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضَاً حَسَناً فَیُضَاعِفُہُ لَہُ اَضْعَافَاً کَثِیْرَۃً) (البقرۃ: ۵۴۲) کون شخص ہے جو اللہ کے لئے قرض حسن (زکوٰۃ یا صدقات) دیتا ہے؛ تا کہ اللہ تعالی اس کو اس شخص کے لئے بہت زیادہ بڑھا ئے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی لازمی ضرریات کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہو۔ معاشرے میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (إن اللہ فرض علی الأغنیاء فی أموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وإن جاعوا وعرووجھدو فیمنع الأغنیاء وحق علی اللہ أن یحاسبھم یوم القیٰمۃویعذبھم علیہ)۔ کہ اللہ تعالی نے مالدارلوگوں پر انکے مال میں اس انداز سے زکوٰۃ فرض قرار دیا ہے جو فقیروں کے لئے کافی ہوجائے، اب اگر فقراء، بھوکے، ننگے رہتے ہیں یا تکلیف میں رہتے ہیں تو یہ مالدار لوگوں کے زکوٰۃ نہیں ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان سے محاسبہ کرے اور زکوٰۃنہیں ادا کرنے پر عذاب دے۔
زکوٰۃ کے جو مقاصد ومصالح اور اس کے فوائد ذکر کئے گئے، ان کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی وصولیابی اور تقسیم کیلئے ایک جماعتی نظام موجود ہو، اس لئے کہ فرضیت زکوٰۃکے احکام و مصالح کی عمارت اسی پر کھڑی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ اور حج میں اجتماعیت کی روح کار فرما ہے کہ نماز کو جماعت کیساتھ ادا کرنا ہے، روزہ کی فرضیت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک ہی مہینے میں ہے، مناسک حج کی ادائیگی بھیڑ وازدہام، دشواری وپریشانی کے باوجود چند مخصوص ایام ہی میں کرنی ہے،
 ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اورا س کیلئے بھی اسلام نے ایک اجتماعی طریقہ کار مقرر کیا ہے کہ امیر کے تحت بیت المال قائم ہو، وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور مستحقین تک با عزت طریقے پر پہنچا ئے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھا) (التوبہ: ۳۰۱)کہ اے پیغمبر آپ مسلمانوں کے مالوں سے صدقہ وصول کیجئے اس کے ذریعہ ان کو پاک اور مزکی بنائیے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ آپ صاحب نصا ب مالداروں سے زکوٰہ وصول کیجئے؛ یعنی زکوٰۃ کی وصولی امام کے ذریعہ ہو امام وامیر کے تحت حسب مصالح زکوٰۃ کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو اور ”خذ“ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے وہ ”خطاب مواجہہ“ ہے چناں چہ علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں:(وخطااب مواجھۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو جمیع امتہ فی المراد سواء) (نووی:۱/۸۳)اور خذ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو خطاب ہے وہ ”خطاب مواجہہ‘‘ ہے، اسلئے حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں شامل ہیں۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے زکوٰۃ کی وصولی زیادہ سے زیادہ مقدارمیں ہو سکے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد کا تعاون ممکن ہو سکے گا۔ لوگوں کا تعاون انکی ضرورت کے لحاظ سے ہو گا۔ محتاج اور ضرورت مند لوگ سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکیں گے۔ زکوٰۃ کی رقم کوڑیوں میں بٹنے کے بجائے حسب ضرورت لوگوں کو ایک جگہ سے مل جائے گی، ان لوگوں تک بھی زکوٰۃ پہنچ جائے گی جن کی زبانیں حیا وخوددار ی کی و جہ سے بند رہتی ہیں، انفرادی زکوٰۃ کی مقدار، تقسیم کے بعد اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی غریب شخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتی،
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس ضرورت کو پوراکر تا ہے اور گدا گری کا خاتمہ کرتا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو بکر جصاص رازی ؒ اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:”خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً“کی آیت اس امر پردلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کو ہے اور بلا شبہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے اگر وہ خود مساکین کو دے دیں گے تو یہ جائز نہ ہوگا، اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کے لئے ثابت وقائم ہے۔ لہذا صاحب زکوٰۃکو امام کے اس حق کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ کے لئے عاملین کو بھیجا کرتے تھے اور حکم فرماتے تھے کہ انکی زکوٰۃ ان کی جگہ پر جا کر لیا کریں اور یہی حکم پھلوں کی زکوٰۃ کا ہے؛ بقیہ رہ گئی سونے، چاندی، در اہم ودنانیر کی زکوٰۃ تو یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خدمت میں داخل کی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہو وہ اپنے قرض کو ادا کرے پھر باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے، حضرت عثمان غنیؓ نے ارباب مال کو اختیار دیا کہ وہ زکوٰۃ مسکینوں کو ادا کریں۔ (احکام القرآن: ۳/۵۵۱) علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں خلیفہ اس پر قائم رہے۔ جب حضرت عثمان ؓکا زمانہ آیا اور لوگوں کا تغیر ظاہر ہونے لگا تو انہوں نے خیال کیا کہ لوگوں کے پوشیدہ مالوں کا خفیہ طریقہ سے پتہ لگا نا مناسب نہیں، اس لئے انہوں نے اس مال کی ادائیگی ان کے مالکان کے سپرد کردی اور صحابہ نے بھی اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی حیثیت امام کے حقِ وصول کو باقاعدہ ساقط کر دینے اور گزشتہ حکم کو منسوخ کر دینے کی نہیں تھی۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۳)
 اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کا مزاج اور شرعی تقاضہ ہے کہ وہ بیت المال میں جمع کی جائے اوران خلفاء وامراء کے سپرد کی جائے جو اس کے منتظم وذمہ دار ہیں۔ چناں چہ اسلامی خلافت اپنے درجات کے تفاوت کے باوجود برابر زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا عمل انجام دیتی رہی۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور تک یہ صورت حال بر قرار رہی بالآخر آہستہ آہستہ آنے والی مختلف حکومتوں نے اس نظام کی پابندی کو ختم کردیا، اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار بر پا ہوا، مسلمان شریعت اسلامی کی بر کتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور اسی کی سزا ہے کہ آج انکو ظالمانہ سرمایہ داری، پُر فریب سوشلزم اور انتہا پسندانہ وغیر متوازن کمیو نزم کا مزا چکھنا پڑرہا ہے۔
یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اسلام کا کامل تصور بغیر جماعت اور امارت کے ممکن نہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت سے محرومی اور انتشار میں مبتلا رہنا بہت بڑا نقصان اور دینی ودنیوی خسران کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بامارۃ) جب جماعت اور امارت قائم ہوگی تو ان شاء اللہ پوری امت پراللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوگا، ارشاد نبوی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ۔
لہذا وہ علاقے اور خطے جہاں اسلامی نظام امارت قائم نہیں، وہاں کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نظام امارت قائم کریں اور اپنے میں سے کسی ایک لائق شخص کو امیر منتخب کرلیں، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے لکھا ہے:(اما فی بلاد علیھا ولاۃ الکفار فیجوز للمسلمین إقامۃالجمعۃ والأعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیھم طلب وال مسلم)۔
جب امارت شرعیہ قائم ہو جائے جیسا کہ الحمد للہ صوبہ بہار، ڈڑیسہ وجھارکھنڈ وغیرہ میں قائم ہے تو اس کے تحت فوری طور پر بیت المال کا شعبہ قائم کیا جائے، جس میں کام کرنے والے عاملین کی ایک بڑی تعداد ہو۔ وہ لوگوں سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ مثلا عشرہ وغیرہ وصول کریں اوربیت المال کے ذریعہ اسے اسکے صحیح مصارف میں خرچ کیا جائے۔
زکوٰۃ کی تقسیم کہاں کی جائے:
زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی تقسیم کن لوگوں کے مابین ہونی چاہئے اس کیلئے خود اللہ تعالی نے سورہ برأۃ میں واضح حکم نازل فرمایا:ارشاد ہے(اِنَّمَا الَّصَدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالمُوَئلَّفَۃِ قُلُوْبِھِمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْن السَّبِیْل فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ‘ حَکِیْمُ‘) (توبہ: ۰۶) صدقات واجبہ تو صرف غریبوں، محتاجوں اوران کارکنوں کے لئے ہیں،جواس کام پر مقرر ہیں، نیز ان کاجنکی دلجوئی مقصود ہے، اور صدقات کو صرف کیاجائے گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امدادمیں،یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بڑا علم والا، بڑاحکمت والا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ صدقات کرنے والے کو اختیار نہیں کہ اپنی پسندیدگی سے اس کیلئے مصرف تجویز کرے اور اس میں خرچ کرے؛ بلکہ اللہ تعالی نے اسکے لئے خود مصرف مقرر فرمادیا ہے اور طے فرمادیا ہے کہ ان مدات کے سوا ان کو دوسری جگہ خرچ نہیں کیا جاسکتاہے۔ مذکورہ آیت میں کل آٹھ مصارف بیان ہوئے، یہ منصوص مصارف، زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ دائمی ہیں؛ البتہ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اکثر علماء، ائمہ اور فقہاء کا خیال ہے کہ اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی وجہ سے اب ان کے حصہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سلسلے میں قاضی ابو بکر ابن العربی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ واقتدار حاصل ہو تو ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان کو اسی طرح دینا چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے۔۔ قاضی ابو بکر کی اس رائے کو علامہ مناظر احسن گیلانیؒ، مفکر اسلام مولاناابو الحسن علی ندویؒ اور دیگر علماء نے پسند فرمایا ہے۔
مدارس اسلامیہ میں زیرتعلیم طلبہ بالاتفاق زکوٰۃ کا مصرف ہیں، بعض علماء انہیں ابن سبیل میں اور بعض انہیں فی سبیل اللہ یا فقراء ومساکین میں داخل مانتے ہیں۔ ان طلبہ کے لئے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام ہو تا ہے، اور زکوٰۃ کی وصولی کا کام مدرسہ کے اساتذہ،سفر اء اور مبلغین انجام دیتے ہیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا نو ے فیصد حصہ مدارس پر خرچ ہوتا ہے اور مدارس کا اتنا عظیم ڈھانچہ زکوٰۃ وصدقات کی رقم پرہی اصلاً قائم ہے۔ اور بلاشبہ یہ مدارس دین کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا منتشر طور پر زکوٰۃ وصول کرنا اور اس کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنا، کمیشن وغیرہ پر چندہ کروانا، شریعت اسلامیہ کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لہذا جن صوبوں میں امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے اور اس کے تحت بیت المال ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپناانسلاک بیت المال سے کریں،اگر یہ ممکن نہ ہو تو امیر شریعت کی طرف سے انہیں باضابطہ رقم کی وصولی کی اجازت دی جائے اور وہ اس کی آمد وخرچ کاحساب بیت المال میں داخل کریں، اگر ایسی صورت ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے سفراء ومحصلین ”عاملین علیھا“ کے مصرف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کمیشن پر چندہ کرنا بہرصورت ناجائز رہے گا۔ جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے، ان میں اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جب تک یہ نظام قائم نہ ہوجائے ارباب مدارس اس علاقے کے اربابِ حل وعقد کے مشورے سے اس کام کوکر سکتے ہیں، یا اس کے لئے کوئی انجمن، تنظیم وغیرہ بنائی جا سکتی ہے جو صالح وبہترین افراد پر مشتمل ہو اور زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کر سکے۔ آج مختلف ناموں سے غیر معتبر تنظیموں کے قیام کا ایک فیشن ساچل پڑا ہے، جو اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے امراء سے رقمیں حاصل کرتے ہیں اور من مانے طور پر جائز وناجائز مصارف میں اسے خرچ کرتے ہیں۔ ایسی انجمن، تنظیم اور فاؤنڈیشن کی قطعا حو صلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی جو روح ہے، وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ انفرادی نظام کی طرح ہو جائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...