Powered By Blogger

منگل, اپریل 11, 2023

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے باڈی لنگویج یا اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں۔ 
 اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں، ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی زبان استعمال کر نے لگے ہیں، جو کسی طرح شرفاء کی زبان نہیں قرار دی جا سکتی،اور یقینی طور پر ان جملوں سے ایک خاص فرد یا طبقہ کی توہین ہوتی ہے ، مسلمانوں کوہندو کہنا، ہندو محمدی کے طور پر متعارف کرانے کا مشورہ دینا، سیکولر لوگوں کو نا جائز اولاد قرار دینا، تمام دہشت گردوں کو مسلمان قرار دینا ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، ایم پی ششی تھرور کی بیوی آنجہانی سونندا کو پچا س کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دینا، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو اور دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں، سونیا گاندھی کے بارے میں یہ کہنا کہ گوری چمڑی کی وجہ سے وہ کانگریس کی صدر بنیں جیسے جملے ، اسی قبیل کے ہیں، ان جملوں کے کہنے والے پر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی ہے اور شاید ہو بھی نہیں، البتہ راہل گاندھی کے اس بیان پر داروگیر ہو گئی ہے کہ رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی نام مودی ہی کیوں ہے، سورت کی عدالت سے دو سال کی سزا سُنانے کے بعد ان کی رکنیت جا چکی ہے، اور ۲۲؍ اپریل تک گھر بھی خالی کرنا ہوگا۔
 اس کے جواب میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے ، وہ بھی چنڈو خانے کی زبان ہے، اور یہ ایک غلطی کو دور کرنے کے لیے دوسری غلطی کے ارتکاب کے مترادف ہے ۔ کیسا لگتا ہے، جب ہمارے سیاست داں بھی اس قسم کے گھٹیا بیانات دیتے ہیں، ایسے میںکس سے امید رکھی جائے کہ ان کے بیانات سماج میں صالح اقدار کو فروغ دے سکیں گے،یہ معاملہ صرف سیاست ہی کا نہیں ہے؛ بلکہ وہ لوگ جو مسلکی معاملات میں شدت پسند ہیں او ر تعصب نے ان کے اندر جڑ پکڑ لیا ہے، مناظروں کے شوقین ہیں، وہ بھی اپنی بات کو ثابت کرتے وقت دوسرے مسلک والوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے ، بات مدلل ہو، زبان پاکیزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، جس بات کو حق سمجھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، لیکن استہزا، تمسخر ، ہر زہ گوئی حق کو ثابت کرنے میں معاون نہیں ہواکرتے؛ بلکہ علمی لوگوں کے اندراس انداز سے نفور پیدا ہوتا ہے، اور وہ ایسی کتابوں کو ہاتھ لگانے اور ایسی تقریروں کو سننے سے گریز کرتے ہیں، اس سے سماجی انتشار اور کبھی کبھی معاملہ قتل وغارت گری تک پہونچ جاتا ہے، یہی حال خانگی نزاعات اور جھگڑوں کا ہے، اس میں بھی جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، اسے ہم مہذب نہیں کہہ سکتے ، اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور اپنے حق کے حصول کے لیے ہر سطح پر جد وجہد کرنی چاہیے، یہ قطعا مذموم نہیں ہے، مگر اس کے لیے جو زبان استعمال کی جائے، کیا ضروری ہے کہ وہ سوقیا نہ ہو، مادر، پدر آزاد ہو، جب کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائیں، اسی طرح کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے ، کیونکہ استہزاء ہمیشہ اپنے کو بڑا اور اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ کون اچھا ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو مذاق اڑارہا ہے وہی اپنی اخلاقیات ، کیرکٹر اور کردار کے اعتبار سے کمزور اور بد تر ہو ، اس کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں ملکوں ، قبیلوں ، سماج اور خاندان میں تفرقہ ، انتشار، افتراق کے دروازے کھلتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے، جہاں نرمی ہوتی ہے وہاں حسن ہوتا ہے جہاں نرمی نہیں ہوتی، وہاں بد صورتی ہوتی ہے، پھوہڑ پن ہوتا ہے۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں، کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول  ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔ کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔ 
پھر الیکشن آ رہا ہے، مہم ووٹروں کے جوڑنے کی بھی چل رہی ہے، اور ووٹروں کے توڑنے کی بھی، آتشیں بیانات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے ، پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے، ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا ، مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔

اتوار, اپریل 09, 2023

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات
 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے اور اسلام میں مالداری کا تصور حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت سے زیادہ مال کا ملکیت میں ہونا ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے اس زائد مال پر سال بھی گذر نا چاہیے، یہ سال تمام مسلمانوں کے مال پر ایک ساتھ تو گذر نہیں سکتا،اس لیے زکوٰۃ کے لیے سب کا مالی سال الگ الگ ہوتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بیش تر لوگ وجوب زکوٰۃ کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور رمضان المبارک کو اپنا مالی سال ادائیگی زکوٰۃ کے لیے سمجھتے ہیں، اس موقع سے کثرت سے زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے ۔
 زکوٰۃ کن لوگوں کو دینی ہے اس کے مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں، فقرائ، مساکین، زکوٰۃ جمع کرنے والے عاملوں اور اس سے متعلق کام کرنے والے، تالیف قلب کے لیے غلام کو آزاد کرانے کے لیے ، قرض کی ادائیگی کے لیے ، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے اور مسافروں کے ساتھ نا گہانی حادثات کے موقع سے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے ، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مصارف وہ ہیں جن میں مسلمانوں کی شخصی ضروریات ، اجتماعی حفاظت اور حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کو ملحوظ رکھا گیا ہے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے فقر اور سفر کو تمام مدات کا خلاصہ بتایا ہے، بعض مدات میں ان دنوں بغیر کسی دلیل کے تیزی سے لوگ توسع کیے جا رہے ہیں، سارے لوگوں کی نگاہ زکوٰۃ پر ہے کتابیں بھی اس سے چھپوائی جا رہی ہیں، چلت پھر ت کا کام بھی اسی مد سے کرایا جا رہا ہے ، ایک بڑی رقم زکوٰۃ کی خود کفیل بنانے اور امپاورمنٹ کے نام پر صرف کی جا رہی ہے ، بعضوں کی تجویز تو یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے کار خانہ کھول دو اور غیر مستطیع کو ملازمت سے لگادو، وہ سب خود کفیل ہو جائیں گے ،یہ غیر اسلامی تصور تیزی سے مسلمانوں میں پروان چڑھ رہا ہے، اتنا سرمایہ انفرادی طور پر جمع کرنا آسان کام نہیں ، اس لیے اجتماعی نظام زکوٰۃ کی اہمیت پر سمینار ، سمپوزیم کرکے ماحول کو سازگار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہاں بھی پریشانی یہ ہے کہ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قیام کے نام پر چند افراد مل کر ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اجتماعی نظام بغیر امیر کی اجازت کے قائم نہیں ہو سکتا، ہندوستان میں امارت شرعیہ مختلف صوبوں میں قائم ہے، وہاں کے امیر کی اجازت سے اجتماعی نظام قائم ہو سکتا ہے ، چونکہ مسلمانوں میں مسلکی اور تنظیمی بنیادوں پر بھی جماعت جمعیت اور امارت قائم ہے ، اس لیے جو جس جماعت سے متعلق ہے کم سے کم اس جماعت کے امیر کی اجازت تو لے لے، بیت المال کا قیام یقینا شرعی ضرورت ہے، لیکن اس کے قیام کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں، ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ورنہ ہم ایک شرعی کام غیر شرعی انداز میں کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔
 اس موقع سے مدارس کے سفراء بڑی تعداد میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں، اس کام کے لیے ان کے پاس مختلف تنظیموں کے تصدیق نامے ہوتے ہیں، یہ ان طلبہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتے ہیں جو ان کے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غیر مستطیع ہوتے ہیں، اصلا یہ مہتمم ، ناظم صاحبان کے واسطے سے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں، ان کو دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی ملتا ہے ، اور اشاعت دین کا بھی۔
 آج کل بہت سارے مدارس رسید پر ہی ہوتے ہیں، زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت اس کی تحقیق کرلینی چاہیے، اس تحقیق کی تکمیل قابل ذکر اداروں کے ذریعہ دیے گیے تصدیق ناموں سے بھی ہوجاتی ہے، امراء کے یہاں ایک رواج یہ بھی چل پڑا ہے کہ وہ سابقہ ریکارڈ دیکھ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، اور اس طرح وہ بار بار کی تحقیق سے بچ جاتے ہیں، جن مدارس کے پاس پہلے کا رکارڈ نہیں ہوتا، انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’ہم نئے مدرسے کو نہیں دیتے‘‘، یہ اچھی بات نہیں ہے ، ہو سکتا ہے وہ مدرسہ بہت معیاری ہو ،کمی صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے نہیں پہونچ پایا تھا، آپ کو تحقیق کا تو حق ہے ، دینے کی گنجائش نہیں ہے تو معذرت اور معافی بھی ایک شکل ہے ، لیکن یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم ’’نئے کو نہیں دیتے‘‘ اس لیے کہ اس جملہ کے بدلہ میں اگر اللہ نے آپ کو کچھ نئے دینے کا سلسلہ روک دیا تو آپ کی ساری امیری کچھ ہی دن میں غریبی میں بدل جائے گی۔
 محصلین کے ساتھ امراء کا رویہ عموما ہتک آمیز رہتا ہے ، اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ، اکرام مسلم شرعی چیز ہے اور مسلمان بھی جو عالم حافظ قاری ہو اور اپنے لیے نہیں دینی تعلیم کے فروغ اور مہمانان رسول کی خدمت کے لیے اس کام کے لیے آپ تک پہونچا ہو ، ایسوں کی توہین اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن جائے تو کچھ بعید نہیں۔
 یقینا محصلین بھی الگ الگ نو عیت کے ہوتے ہیں، سب متقی، پر ہیز گار اور شریعت کے پابند اس قدر نہیں ہوتے جیسا ہونا چاہیے، بعضے تو رکارڈ کو ادھر اُدھر کرنے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے،ایسے لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے، محصلین میں ایک بات قدر مشترک ہونی چاہیے کہ وہ اس کام کو عزت نفس کے ساتھ کریں ، گڑگڑانا ، کاسہ لیسی کرنا ، خوشامد کرنا یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے، ان کو ’’جو دے اس کا بھی بھلا اور نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے،ا س سے کام میں برکت بھی ہوتی ہے اور عالمانہ کردار اور داعیانہ وقار بھی محفوظ رہتا ہے ۔
 زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اپنے اعزواقرباء اور اپنے قرب وجوار کے غرباء ومساکین کا بھی خیال رکھیں ، پیشہ وارانہ لوگوں کی بات میں نہیں کرتا، ایسے لوگ جو روزی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور ہاتھ پھیلا نے کی ذلت سے بچنا بھی چاہتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ انجان لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ غریب ہوتے ہیں، لپٹ کر مانگنا ان کا شیوہ نہیں ہوتا، ایسے لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں، اگر آپ انہیں مستحق زکوٰۃ سمجھتے ہیں تو بغیر بتائے بھی ان پر یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں، زکوٰۃ آپ کی ادا ہوجائے گی۔

جمعرات, اپریل 06, 2023

ریان عالم کو تکمیلِ قرآن کریم پر مبارکبادی

ریان عالم کو تکمیلِ  قرآن کریم پر مبارکبادی
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ05/اپریل 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس، محترم، معتبر اور پاکیزہ کتاب ہے جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لئے  نازل کی گئی ہے ۔ یہ انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے نازل فرمائی ۔یہ وہ عظیم مقدس اور محترم الہامی کتاب ہے جو مکمل تاریخ اور اثرو رسوخ کے ساتھ اپنا تعارف کراتا ہےے۔اسے چھونا، اسے دیکھنا، اسے  پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا، اور اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب،اور سعادت مندی کی بات ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے،اور رہے گی،  اس کے حفاظت ضمانت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اورتلاوت سماعت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔یقیناً تیس پارے کا حفظ کرکے اپنے سینے میں محفوظ رکھنا یہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، قرآن مجید دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی، سنی جانے والی کتاب ہے ۔
محمد ریان عالم بن شاکر عالم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ نے رمضان المبارک کے بابرکت اور با سعادت موقع پر تکمیلِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ہے ۔
واضح رہے کہ ریان عالم بن شاکر عالم نے مدرسہ ضیاءالعلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں زیر تعلیم ہیں ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک مختصر دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ریان عالم کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئی ۔
فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کریم کی تلاوت بڑے سعادت کی بات ہے ہم بچے کے والدین اساتذہ کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچہ کے والدین کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ قوم وملت کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی ذریعۂ نجات بنے گا ، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں ۔
ماہر نفسیات حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔
ریان عالم کی والدہ بشریٰ صاحبہ نے بھی اساتذہ کا شکریہ ادا کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

منگل, اپریل 04, 2023

تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام ٭ انس مسرور ؔ انصاری


تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام 
 ٭ انس مسرور ؔ انصاری 
Urduduniyanews72
 اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے،اس صداقت سے کوئی بھی مسلمان،مسلمان ہونے کے بنیادی عقیدہ کی بنا پر انکار نہیں کر سکتا۔اسلام کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ر وحا نیت اور مادیت کے متضاد نظریوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں کھینچتا۔ دیگر مذاہب کی طرح صرف راہبانہ زندگی کی ترکیب نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے متوازن اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے دینی اور دنیاوی دونوں تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔اس کی عظیم صفت یہ ہے کہ آدمی کی پیدائش سے موت تک تمام شعبۂ حیات و کا ئنا ت میں انسان کی رہبری اس نہج پر کرتا ہے کہ آخرت بھی سنور جاتی ہے اور دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انسانی سماج کی فلاح واصلاح اور استحکام کے لیے اسلام کی طرف سے جو ہدایات اور احکام جاری ہوئے وہ سب کے سب عباد ا ت کادرجہ رکھتے ہیں۔ 
 اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں روزہ بھی ایک رکنِ عظیم ہے۔روزہ کے متعلق قرآن میں ہے کہ؛ ‘‘ روزہ کا مہینہ رمضان ہے جس میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور قرآن لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت اور حق وباطل کی تمیز کے کھلے کھلے حکم موجود ہیں۔ تو مسلمانو! جو تم میں سے اس مہینہ میں زندہ وموجود ہو تو چاہئے کہ مہینہ کے روزے رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پورے کرلے۔اللہ تمھارے ساتھ آسانی کرنا چاہتاہے،اور تمھارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا،اور یہ حکم اس نے تمھیں اس لیے دیئے ہیں تاکہ تم کو جو راہِ راست اللہ نے دکھائی ہے اس نعمت پر اس کی بڑائی اور تعریف بیان کرو اور تاکہ تم اس کا احسان مانو۔’’ 
 (القرآن، مفہوم )
 روزہ عبادت ہے، حکمِ خداوندی کی تکمیل ہے۔آدمی بھوکا رہ کر بھوک کی اذیت اور تکلیف کو اچھی طرح محسوس کر لیتاہے اور اسے غریب ونادار اور افلاس زدہ انسانوں کی دشوار کُن اور صعوبتوں سے بھری ہوئی زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔غور طلب یہ ہے کہ روزہ کے فوراََ بعد زکوٰۃ کا نمبر آجاتا ہے۔زکوٰۃ بھی اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔زکوٰۃ ہر آزادو خود کفیل مسلمان پر واجب ہے۔ یہ مال کا چالیسواں حصّہ ہوتا ہے اور شرائطِ مقررہ کے بموجب اس کی ادائیگی واجب ہے۔زکوٰۃ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب بھی دی جائے تو بہ رضا و رغبت اور بہ خوشی دی جائے نہ کہ جبرو کراہت اور مجبوری کے سبب ۔! زکوٰۃ دے کر احسان نہیں جتانا چاہئے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ۔؛ نرمی سے جواب دینا اور سائل کے اصرار سے در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے سائل پر کسی طرح کا احسان جتایا جائے، اور اللہ بے نیاز اور بُرد بار ہے۔’’
 ‘‘مسلمانو! خدا کی راہ میں ان عمدہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت وغیرہ میں کمائی ہوں اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہو ں ۔’’
 ‘‘اور جو لوگ خدا کی رضا کے لئے اپنی نیت ثابت رکھ کر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو انچی سطح پر واقع ہے ۔اس پر اگر زور سے پانی برسا تو وہ دو چند پھل لایا اور اگر اس پر زور کا پانی نہ بھی برسا تو اس کی ہلکی پھواریں بھی کافی ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔’’
 ادھر آپ بھوک کی اذیت سے واقف ہوئے اور ادھر حکم ہوا کہ:۔مسلمانو زکوٰۃ دو۔گویا اسلام نے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبہ کی تحریک کے لیے پہلے ایک ایسے عمل کا حکم دیا جسے ‘‘روزہ’’ کہتے ہیں۔یہاں زکوٰۃ سے متعلق چند باتوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔
 اسلام نے افراد کی ملکیت اور دولت جمع کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ، جائز طریقوں سے دولت پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہی انھیں اس جمع کی ہوئی دولت کا امین قرار دیا ہے ۔یعنی ان کے پاس جو دولت ہے وہ قوم کی امانت ہے۔اور یہ کہ اپنے جائز تصرف کے بعد اس کی شکل قومی سرمایہ کی ہوگی۔یہ دولت وقتِ ضرورت قومی ضروریات پر صرف کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسا وقت آیا ہے جب قومی اصراف کے لئے ریاست کو اپنے قومی فنڈ (بیت المال) میں دولت مند لوگوں سے چندہ جمع کرانا پڑا ہو، حا لانکہ سماج میں دولت کی مساوی تقسیم یا تکمیلِ ضرورت کے لئے ایسا بار بار ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام نے افراد کی جمع کی ہوئی دولت پر زکوٰۃ کی شکل میں براہِ راست ٹیکس لگا کر اسے ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے اور وراثت کی وسیع تقسیم کے ذریعے سے ا یک ہی جگہ املاک کے انجماد کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔
 زکوٰۃ دنیا کا واحد ٹیکس ہے جس میں ریاست کی مجلسِ منتظمہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔سماج میں دولت کی مساوی تقسیم سے متعلق اسلام نے ا پنے اقتصادی نظام کے نظریہ کو ایسی عملی شکل دی ہے کہ ا سلا می تاریخ میں ایسا بھی دور آیا ہے جب پوری ریاست میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ملا جو خود کفیل نہ ہو۔نادار ہو اور زکوٰۃ لینے کا مستحق ہو۔لوگ زکوٰۃ کو لیے لیے پھرتے اور پریشان ہوتے کہ کوئی حقدار اور مستحق مل جائے لیکن کوئی نہیں ملتا تھا۔مجبوراََ زکوٰۃ کی رقم ریاست کے بیت المال میں جمع کر دیتے ۔یہ اسلام کے اقتصادی نظام کی آفاقی خوبیاں ہیں۔ 
 اسلام نے بھیک مانگنے اور کسی انسان کو کسی انسان کا محتاج رہنے کو معاشرہ کی بڑی لعنت قرار دیا ہے۔انسان صرف خدا کا محتاج ہے اور اُسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔اسلام نے قومی اقتصادیات کو معتدل و متوازن رکھنے کے لئے جہاں بیکار افراد کو محنت و مشقت کی طرف راغب کیا ،ان کی روزی روٹی کے لئے وسائل و ذرائع فراہم کیے۔ وہیں برسرِ روزگار طبقہ اور دولت مندوں کو تاکید بھی کی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سرمایہ کو قومی امانت سمجھیں اور جائز ضروریات کے علاوہ جو کہ ان کے متعلقین اور ان کے لئے کافی ہوں،غیر شر عی طور پر 
ایک حبّہ بھی اپنے تصرف میں نہ لائیں۔یہی وجہ ہے کی نظامِ اسلام کے دائرۂ اختیار میں جو ادوار گزرے ان میں مسلم قوم دنیا کی سب سے زیادہ خوش حال اور مال دار قوم رہی ہے۔
 زکوٰۃ کے ذریعہ اسلام نے مسلم معاشرت اور اس کی اقتصادیات کو مستحکم و منظم اور مربوط کر دیا ہے۔آج نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی ممالک اپنے سماج کو غربت کی لعنتوں سے پاک رکھنے کے لیے ‘‘غریبی ہٹاؤــ’’ کے نعرے لگاتے لگاتے تھک ہار چکے ہیں لیکن ہنوز یہ نعرہ بے اثر ثابت رہا ہے۔روز نت نئی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تاکید کی جاتی ہے لیکن سماج سے ٖغربت و افلاس کو دور رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کے جو اصول وضع کئے ہیں اگر ان کو صحیح انداز سے برتا جائے تو مسلم معاشرہ کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے گی۔زکوٰۃ کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں دولت کی نسبتاََ مساویانہ تقسیم کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی طور پر جمع کیا جائے ۔ یعنی اگر ایک علاقہ میں دس افراد ایسے ہیں جو ہر سال زکوٰۃ نکالتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ فرداََ فرداََ تقسیم کرنے کے بجائے ،دسوں آدمیوں کی زکوٰۃ کو اکٹھا جمع کر لیا جائے اور اس بھاری رقم کو کسی ایک یا ایسے چند آدمیوں کو دے دی جائے جو مسلم سماج کے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے لوگ ہوں تاکہ وہ بر سرِ روز گار ہو جائیں نیز یہ کہ ممکن حد تک ان کے کارو بار کی نگرانی و سر پرستی بھی کی جائے تاکہ وہ ترقی کر سکیں اور آئندہ سال وہ خود بھی زکوٰۃ دینے کے قابل ہو سکیں۔اس طرح کچھ پچھڑے ہوئے لوگ زکوٰۃ کے سہارے ہر سال اوپر اٹھ کر ز کوٰ ۃ نکال سکیں گے اور زکوٰۃ کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔پھر مسلم سماج کو غربت کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔اس مسلم سماج کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
 زکوٰۃ کے اوّل مستحق آپ کے رشتے دار،اقرباء، پڑوسی، محلّہ اور شہر کے غرباومساکین ہیں۔ پھر درجہ بہ درجہ اور لوگ ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے کہ ‘‘ زکوٰۃ مال کا میل ہے۔ ’’ تو چاہئے کہ مال کے میل سے دین کا علم حاصل کرنے والے مدارس کے طلباء کی دینی تعلیم کا انتظام کرنے کے بجائے صاحبِ ثروت اور صاحبِ خیر حضرات اپنے پاکیزہ اور اصل مال سے اُ ن کی مدد کریں۔ارشادِ نبوی ہے کہ ایسے حاجت مندوں کو تلاش کرو جو زکوٰۃ کے مستحق تو ہو تے ہیں لیکن غیرت اور حیا کی وجہ سے کسی سے کچھ طلب نہیں کر تے۔ زکوٰۃ دینے والے کو اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے اور دل میں صرف نیت کر لی جائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔اور زکوٰۃ لینے والا شرمندگی سے بچ جائے گا۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہ مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے،توجب اپنے بھائی کو مصیبت میں پاؤ تو ہر طرح اس کی مدد کرو۔جسمانی مدد بھی اور مالی مددبھی۔مسلمان اس عمارت کی طرح ہیں جس کی انیٹیں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔مسلمان گویا ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے اعضاء اس تکلیف سے متاثر ہو تے ہیں۔
 تقسیمِ زکوٰۃ کا یہ طریقہ اس کا صحیح مصرف اور مسلم سماج کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے ۔آج ہمارے سماج میں ایسے لوگ آسانی سے مل جائیں گے جو محنت اور جدو جہد تو کرتے ہیں لیکن سرمایہ کی کمی اور محدود وسائل کے سبب ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔غریبی اور تنگدستی کی و جہ سے ان کی لڑکیوں کی شادیاں محال ہوتی ہیں لیکن زکوٰۃ کے ذریعہ انھیں اس لائق بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خوش حال ہو کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر طور پر تربیت دے کر انھیں اعلیٰ تعلیم دلا سکیں۔پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہی بچے ایک روزمسلم سماج کے استحکام و اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہوں گے۔ہمارے سماج میں ایسے خوش حال مسلم افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو ہر سال زکوٰۃ کی کافی بڑی

 رقم نکالتے ہیں لیکن اس رقم کو اتنے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ اس سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا او ر زکوٰۃ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ لوگو! اپنے اصل مال ہی کی طرح اپنی ز کا ۃ کے مال کی بھی حفاظت کرو۔ایسے لوگوں سے بچو جو زکوٰۃ کو تجارت بنائے ہوئے پچاس اور ساٹھ فیصد کمیشن پر شہروں شہروں،قصبوں قصبوں، گلیوں گلیوں روداد اور رسید بغل میں دبائے گھو متے پھرتے ہیں اور غریبوں، یتیموں، مسکینوں ،ا ور نادار مسلمانوں کے حقوق کو سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔پھر ‘‘ حیلۂ شرعی’’ کر کے مستحقین کے غصب شدہ ما ل سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں۔اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ان سے ہو شیار رہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم زکوٰۃ بھی ادا کرو اور وہ ادا بھی نہ ہو۔ اور مسلم سماج میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی رہے اور بڑھتی ہی رہے ۔اس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ‘‘بیت المال’’ کو رواج دو تاکہ مستحق کو اس کا وہ حق مل سکے جو اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ نے اسے د یا ہے۔ لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی قائم کردہ حدوں کو نہ تو ڑو۔ قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق کون لوگ ہیں ۔ جہاں تک معاملہ عربی مدارس کا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اصل ما ل سے ان اداروں کو چلائیں۔مدارس کے طلباء کی مدد کریں اور دین کا علم حاصل کرنے والوں کو اپنی خوشیوں اور دکھوں میں اس طرح شریک رکھیں کہ اُن کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو۔ دینی اور عصری علوم کی تحصیل میں ہر طرح ان کی مدد کریں،معاونت کریں۔یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔اور یاد رکھو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو۔ یقیناََ تم ہی فلاح پاؤ گے۔

       * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
              سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ 
                  امبیڈکر نگر (یو، پی) 
         وہاٹس ایپ /9453347784

آوارجہ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

آوارجہ ____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
  محترم جناب محمد شکیل خان اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام شکیل سہسرامی کے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، 5/ جولائی ۶1966ء؁ کو ہیڈ مولوی عبد الوحید خان غازی شمسی مرحوم اور پاکباز صالحہ خاتون کے گھر سہسرام میں اپنی آنکھیں کھولنے والے شکیل سہسرامی ان دنوں رحمن مسجد کے پاس سمن پورہ، راجہ بازار، پٹنہ میں مقیم ہیں، گو اصلی پتہ مولوی عبد الوحید منزل، کرن سرائے، سہسرام آج بھی ہے۔ ان کے ایک بھائی مختار احمد خان شگفتہ سہسرامی سے جو خوش گلو شاعر ہیں میری ملاقات برسوں پرانی ہے، البتہ پہلی ملاقات جامعہ ایوبیہ چک نصیر، ضلع ویشالی کے سنگ بنیاد کے موقع سے ہوئی تھی، جہاں ہم دونوں الحاج محمد سلیم رضوی مرحوم مالک ڈیزی ہوٹل دریاپور، سبزی باغ، پٹنہ کی دعوت پر جمع ہوئے تھے۔
”آوارجہ“ شکیل سہسرامی کی دوسو سے زائد غزلوں کا مجموعہ ہے، اوربقول ان کے یہ پختہ شاعر کی نا پختہ شاعری ہے، انہیں احساس ہے کہ
یہ اور بات کہ اس میں ہیں خامیاں کافی مگر خوشی ہے کہ سارا کلام اپنا ہے
آپ اس اعتراف کو ان کی تواضع اور انکساری پربھی محمول کر سکتے ہیں، البتہ ان کے اس بیان میں حقیقت ہے کہ انہوں نے ابتداء سے تا حال اپنے بالیدہ ذوق کے ساتھ مسلسل فنی ریاضت اور عصری تناظر میں مسائل ِحیات و کائنات پر اپنی بساط بھر غور و فکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آوارجہ اسی غور و فکرکا نتیجہ ہے۔آوارجہ کی غزلوں میں سادگی ہے، تنوع ہے اور فطری طرز تکلم کو برتا گیا ہے، مجموعہ میں تشکیلیات اور ساختیات کے قبیل کے الفاظ بھی نہیں ہیں، شاعر نے سامنے سے چیزوں کو اٹھا کر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس فطری طرز تکلم میں رفعت تخیل اور فکری ندرت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا ایک فائیدہ یہ ضرور ہوا کہ ان پر مشکل پسندی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شاعری”از دل خیزد، بر دل ریزد“ کی مصداق بنے، شکیل سہسرامی نے اپنی غزلوں میں جن چیزوں کو برتا ہے، ان کو ”کلمات خویش“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ اقتباس پڑھئیے:”میں نے واضح شعور کے ساتھ روش عام سے ذرا ہٹ کر سہی، مگر ٹھکرائے ہوئے لفظوں کو دانستہ طور پر گلے لگایا ہے، مجھے یقین ہے کہ میری غزلوں میں سادگی و سلاست، تکلمی زبان، مقامی رنگ و آہنگ، جدید عصری الفاظ کا استعمال، احساسات کو مشاہدات کی سطح پر لا دینے کا انداز، کلام مشاہیر سے بہ طرز خاص غذا یافتگی کا عنصر، دعاء و تلمیح، رعایت لفظی، مناسبات تجنیس، تضاد و تکرار،ا مثال و محاورات۔ کچھ خاص لفظی حوالے اور تجربے سے عکس تضادات، عصری ایجادات کی لفظیات، بعض مصرعوں میں مقولے کی کیفیت، تراکیب کا حسن، طنز کا تیکھا پن، سیاقت عددو سیاقت تخلص، قوافی کا خاص انتخاب اور اصطلاحات و ہندی الفاظ کا استعمال، یقینا اہل ذوق کے لیے حظ و نشاط اور مسرت و بصیرت کے اسباب مہیا کر سکے۔“
اقتباس ذرا طویل ہو گیا، لیکن مجموعہ کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے اسے گوارہ کر لیجیے، البتہ ان تمام کو جوڑ کر اس طرح مت دیکھئے گا کہ یہ محض شاعرکی خوش فہمیوں کا صدقہ نظر آئے اور آپ ان کے درمیان تضادات تلاش کرنے لگیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ شاعر پر زیادتی ہو گی، کیوں کہ یہ تفصیلات کسی ایک غزل میں نہیں سما گئی ہیں، بلکہ الگ الگ غزلوں میں ان چیزوں کا استعمال ہوا ہے اور تناقض کے لیے زمان و مکان کی وحدت ضروری ہوا کرتی ہے۔
آوارجہ کا انتساب”تمام متشاعروں کے نام“ ہے، کچھ سمجھا آپ نے؟متشاعر کہتے ہیں بتکلف شاعر بننے کو، یہ تکلف سرقہ اور اساتذہ کے اشعار کو اپنے نام سے پیش کرنے کے سلیقہ سے بھی سامنے آتا ہے، کبھی کبھی تو توارد کا سہارا لے کر پوری پوری غزل متشاعر ہضم کر جاتا ہے، آج بہت سارے شاعر ہمارے درمیان حقیقتاً متشاعر ہیں۔ ٹھیٹ زبان میں کہیں تو وہ شاعر کم، گویّا زیادہ ہیں، ایسی تان سے پڑھتے ہیں کہ ”تان سین“ فیل ہو جائے، ایسے میں قافیہ وردیف کے تار سیمیں پر بل پڑ جاتا ہے۔
شکیل سہسرامی متشاعر نہیں،شاعر ہیں، ان کی غزلوں میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہے، مضامین کے اعتبار سے ان کی بعض غزلیں کلاسیکی انداز کی ہیں، جن کے اشعار میں محبت و عشق کی کیفیات، جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے، بعض غزلیں غم روزگار اور عصری مسائل و مشکلات پر مرکوز ہیں، ان کے تجزیہ سے ترقی پسندی کی بو آتی ہے۔ آج کے دور میں ایسی شاعری کو عصری حساسیت پر مبنی قرار دے کر یہ کہا جا تا ہے کہ شاعر اپنے گرد وپیش کے حالات سے با خبر ہے اور وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنی یہ باخبری قاری تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ شکیل سہسرامی غم یار کی بات کرتے ہوں یا غم روزگار کی، قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتے، سادے اور صاف اسلوب میں وہ قاری کے ذہن و دماغ پر حملہ آور ہو تے ہیں اور اس حملے کے نتیجے میں قاری کے ذہن و دماغ کے سارے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ شکیل سہسرامی نے اپنی شاعری میں جن لفظیات کو استعمال کیا ہے، ان میں تعقید لفظی و معنوی، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا کہیں گزر نہیں ہے۔سوائے اس مجموعہ کے نام ”آوارجہ“ کے جس کے معنی تک پہونچنے کے لیے قاری کو ذہنی جمناسٹک بھی کرنی پڑے گی، اور لغت کے اوراق بھی پلٹنے پڑیں گے۔آوارجہ کی متنی خواندگی لغت میں      ”آوَارِجَہ“ کے اعراب کے ساتھ درج ہے، یہ فارسی الاصل ہے، مذکر لفظ ہے اور اس کے معنی آمد و خرچ کے حساب کی کتاب ”بہی کھاتہ“،  ”روکڑ بہی“ کے آتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی ابتری، پریشانی، سراسیمگی، بے سر و سامانی، بیہودگی، خرابی، ویرانی، لُچپن، بد معاشی اور بد چلنی کے درج ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شاعر نے اس مجموعہ کا نام آوارجہ کس معنی میں رکھا ہے، آج کل لوگ ساختیات اور تشکیلیات کے حوالہ سے ایسا نام رکھتے ہیں۔ لیکن یہ تو تشکیلیات کے قبیل کا لفظ نہیں ہے، سر ورق پر جو تصویر دی گئی ہے، اس میں کتاب کے اوپر دو دل کی بھی تصویر مرصع ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ احوال دل کا بہی کھاتہ ہے۔قاری شکیل سہسرامی کے کسی شعر میں تو نہیں اٹکے گا، کیوں کہ وہ صاف اور سادہ ہیں، لیکن نام میں اٹک کر رہ جائے گا، اور اٹکنے کے بعد وہ شکیل سہسرامی کی یہ عبارت پڑھے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ یہ محض لفاظی ہے۔”دو از کار علامات و استعارات، خود رو پودوں کی مانند یوں قدم قدم پر پھیلا دیے جائیں کہ ترسیل و ابلاغ نہیں؛ بلکہ صرف اس کے المیے ہی المیے رہ جائیں اور کوئی’کلمہ تعوذ‘ قاری کو اس عفریت کے شکنجے سے پناہ نہ دے سکے۔“
ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور کے مطبع ارم پرنٹرس کے مطبع میں محکمہئ سکریٹریٹ اردو ڈائرکٹوریٹ کے تعاون سے چھپی اس دو سو چونسٹھ صفحے کی کتاب کی قیمت دوسو پچاس روپئے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے قیمتاً اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہفتہ, اپریل 01, 2023

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغاماتمضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی

رمضان المبارک کے روزے زہدوتقوی کے پیغامات
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے ۔رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقاصد کے تحت فرمائ ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئ ہے،،، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ ۞
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں،

عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا،
اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کئے ہیں جسے بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،
اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کئے ہیں ۔اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں ۔کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ
ترجمہ : رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیز گار) بن جاؤ۔
تقوی کیا ہے.... ؟
تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے ، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا  تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔
رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے،یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے،،، يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے،،،
یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، اس ماہ میں محض  کی خوشنودئ الہی کے لئے دینا کے مسلمان کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پوری کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور بزبان حال وقال  اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے، ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے ۔
وہی  رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے،،،لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا،، اللہ کسی شخص کو اس کی اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا،، یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے، وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں،، یریداللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر،، اللہ بندوں کے لئے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں،،، اور رمضان المبارک کے روزے یہ بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزہ سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا،، ان اللہ مع الصابرين،، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، صبر وتحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کامیاب وفلاح پا سکتی ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے ،،، والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: 134)

(اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔)
روزہ کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ ووسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا وخشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بیپناہ انعامات واکرامات کا ہے،

رمضان المبارک کے روزے کی اہمیت وفضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث، 

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)

روزہ سے روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے،  ارادوں اور نیتوں میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، اور صبر وشکر  کا خوگر وعادی بنتا ہے انسان، یہ جسم کوامراض سے بچاتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انسان کے دل میں قدر ومنزلت پیدا کرتا ہے۔
روزہ کے سلسلے میں نص الہی کی چند فضیلتیں، 

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
«الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة»

کہ جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لئے اسی طرح آگے کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑنہ ڈالے،
«علیکم بالصوم فإنه لا مثل له»

تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں

«قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك»

ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے،
ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر وتحمل کا پیغام دیتا ہے۔

فکری یلغار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

فکری یلغار ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقۂ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔
فکری یلغار کا یہ سلسلہ آج سے نہیں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے ، ہندوستان کی حد تک اس کا آغاز مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ، انگریزوں کے عہد میں فکری یلغار کا یہ سلسلہ دراز ہوا، لارڈ میکالے نے ایسی تعلیمی پالیسی غلام ہندوستان کو دیا ، جس کی وجہ سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی تھا ، لیکن اس کا ذوق ، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست انگریزوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا ، یہی وہ چیز تھی جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند قائم کیا اور یہ فکر بخشی کہ ہمیں ایک ایسی نسل تیار کر نی ہے؛ جو دیکھنے سننے اور رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو ، لیکن اس کے جسم میں دھڑکتا دل اور عقل وشعور ایمانی واسلامی پانی سے سیراب کیے گیے ہوں، اور تربیت اس نہج پر کی گئی ہو کہ ان پر اللہ کا رنگ غالب آگیا ہو اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا ۔الحمدللہ حضرت نانوتوی ؒ کا یہ فیضان جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا ۔
عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری مکمل ہے اور مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کردیا ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جارہا ہے جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کررہے ہیں، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیاگیا ہے ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں،اس مسئلہ کا صرف ایک حل ہے کہ ہم بنیادی دینی تعلیم کے نظام کو مضبوط کریں،اس کا ایسا نصاب ِتعلیم ہو جو شروع سے ہی طلبہ وطالبات پر ایمانی حرارت اور دینی غیرت پیدا کریں،سرکاری سطح پر نہ سہی،ہم اپنے طور پر انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے ذریں عہد سے واقفیت بہم پہونچائیں،اوران کی ہمہ جہت خدمات سے انہیں واقف کرائیں۔
عالمی سطح پر اسلام کے خلاف فکری یلغار امریکہ ، اس کے حلیف ممالک اور مغرب کی طرف سے ہو رہا ہے ، اور اب اس نے عالم عرب میں اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ہے، اس کے لیے امریکہ نے عالم اسلام کے قلب سعودی عرب میں اپنی آفس کھول رکھی ہے ، اس کا مقصد سعودی عرب میں رائج نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر دینی کتابوں سے تشدد پر مشتمل مواد کو خارج نصاب کرنا ہے، وہابی تحریک انگریزوں کے مخالف رہی ہے؛ اس لیے سعودی عرب کے نصاب سے وہابی تحریک کے ذکر کو حذف کر دینا ہے،ائمہ ، علماءاور نوجوانوں کی معتدل تربیت کا نظم اب وہائٹ ہاو ¿س کی نگرانی میں کیا جائے گا، تاکہ ایک اعتدال پسند نسل کو وجود میں لایا جائے ، جو عقال ، عبا اور چوغہ پہنتی ہو؛ لیکن اس کا دل ودماغ امریکہ وبرطانیہ کے افکار واقدار میں گروی ہو، اور اس کے معتقدات اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں،یہ سب محض خیالات نہیں ہیں، سموئیل ماری نیوس زویمر(Samuel Marinus Zwemer)نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اعلان کر دیا تھا ، کہ ہم نے اسلامی ممالک کے نظام تعلیم پر اپنا کنڑول کر لیا ہے، زویمر کے ساتھ کرومر(Cromer)بھی اس مہم میں شریک رہا ہے اور مصر کے تعلیمی نظام اور تربیتی اقدار کو تبدیل کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مصر کے بعد ترکی ان کا بڑا ہدف رہا ، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی نظریات اور طریقوں کو جس طرح وہاں سے حکومتی سطح پر بے دخل اور نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی، وہ تاریخ کا بد ترین باب ہے۔ اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...