Powered By Blogger

بدھ, مئی 03, 2023

خوشی وخوش حالی رپورٹ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

خوشی وخوش حالی رپورٹ 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عالمی خوشی خوش حالی رپورٹ ۲۰۲۳ء ء ابھی حال میں شائع ہوئی ہے ، اس رپورٹ کے مطابق خوش حال ملکوں میں ہندوستان 126نمبر پر ہے ۔ گذشتہ سال کی بہ نسبت تین پائیدان یہ اوپر ضرور ہوا ہے ، لیکن یہ اپنے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت خوش حالی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے، اس رپورٹ میں پاکستان کو 108، بنگلہ دیش کو 118، شری لنکا کو 112، نیپال کو 78میانمار کو 72اور چین کو 66ویں نمبر پر جگہ دی گئی ہے، خوش حالی سے متعلق یہ رپورٹ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ تیار کرتا ہے او رتیار کرتے وقت جی ڈی پی، سماجی تعاون، بد عنوانی کے واقعات اور ان کی سطح ، سماجی آزادی، سماجی تحفظ اور معیار زندگی کو سامنے رکھا جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں خوشی اور خوش حالی کم ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، بظاہر تو ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے زیادہ خستہ حال ہیں، لیکن اس رپورٹ میں انہیں کو بہتر بتایا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خوش حالی کا احساس اسباب ووسائل سے زیادہ ذہنی مسرت وخوشی کے تابع ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آرام وآسائش کی ساری سہولتوں کے ہوتے ہوئے آدمی ذہنی تناؤ ،عدم تحفظ کے احساس اور سماج کے تفرقے اور انتشار کی وجہ سے پریشان رہتا ہے، جسمانی ضرورتوں کی تکمیل تو جیسے تیسے ہوجاتی ہے ، لیکن ملک کے جو حالات ہیں اس میں مسرت وخوشی کی لہریں دماغ میں نہیں دوڑ پاتی ہیں، غالباً اسی وجہ سے اس رپورٹ میں ہم دوسروں سے پچھڑ گیے ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کا مقصد ہی ہندوستا ن کو نیچا دکھانا ہو ایسے میں ہمیں اس رپورٹ کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر اپنی مخالفت درج کرانی چاہیے۔
 یہ شبہہ اس لیے بھی پید اہوتا ہے کہ اس رپورٹ سے قبل اس حوالہ سے دو رپورٹ شائع ہو چکی ہے ، ایک رپورٹ کنسلٹنگ فورم ہیپی پلس کی’’ دی اسٹیٹ آف ہیپی نیس 2023‘‘ کے نام سے آئی، جس کے مطابق 65فی صد لوگ ہندوستان میں خوش ہیں، ایک دوسری رپورٹ ’’ایپ سوس گلوبل ہیپی نیس‘‘کی ہے جس نے کہا ہے کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں73فی صد لوگ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ۔ ان دونوں رپورٹوں کو سامنے رکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ کے ذریعہ جاری رپورٹ میں کہیں نہ کہیں کچھ خامی ہے ، کیوں کہ کورونا کے بعد حکومتی سطح پر وقتا فوقتا جو اعداد وشمار جاری کیے جاتے رہے ہیں، اس کے مطابق گذشتہ نو سالوں میں ملک میں غریبی کا تناسب 22فی صد سے گھٹ کر آٹھ فی صد تک آگیا ہے ، غیر ملکی زر مبادلہ بھی پہلے سے دو گنی مقدار میں موجود ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ، غذائی اجناس کی پیدا وار بھی بڑھی ہے ، ان سب کے باوجود اگر ہم خوش نہیں ہیں، اور ہمارے اندر خوش حالی نہیں ہے تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ ملکی حالت کی وجہ سے ہم ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہیں، اطمینان بھی خوش حالی کے لیے ضروری ہے ، اس لیے ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں ہیں، اس ایک وجہ کے علاوہ خوش حالی میں ہمارے پیچھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ حکومت اگر اس ایک وجہ کو دور کر دے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے پیچھے کر رہ جائیں۔

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ
اردودنیانیوز۷۲ 
موجودہ حالات میں اخبارات نکالانا بہت مشکل امر ہے : اشرف فرید
 ارد و میڈیا فورم کے زیر اہتمام اردو گوریمنٹ لائبریری میں تعزیتی نشست کا انعقاد ‘ دانشوران ادب و صحافت کی شمولیت

پٹنہ : (اسٹاف رپورٹر)ایم اے ظفر مردم سازی کا فن جانتے تھے مسائل کے وقت حالات سےنبرد آزما ہونا جانتے تھے وہ ایک انتظامی صحافی تھے یہ باتیں اردو میڈیا فورم کے زیر اہتمام منعقد تعزیتی نشست سےمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم اے ظفر نے صحافیوں کے قلم کو کبھی پکڑا نہیں بلکہ انہیں آزادی کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا موقع دیا‘ وہ کارکن صحافیوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ان کے اندر انکساری تواضع کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں یہ اونچا مقام عطا کیا۔ ایم اے ظفر جھکنے کا فن جانتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے ۔ وہیں نشست خطاب کرتے ہوئے فورم کے سرپرست و قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ ظفر کا جلدی چلاجانا صحافت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ انہوں نے اخبارات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس وقت اخبارات نکالنا بہت مشکل کام ہے ۔اردو اخبارات کا مستقبل تابناک نہیں ہے ہم سب کو احساس کمتری سے نکل کر اردو کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
مشہور و معروف کالم نگار و ناقد صفد ر امام قادری نے کہا کہ ایم اے ظفر کی شخصیت میں توازن تھا جس کی بنیاد پر انہوں سخت مزاج صحافیوں کو اپنے اخبار میں جگہ دی اور ان کے کالم کو بھی شائع کیا۔ اجمل فرید کے ساتھ وہ نظر آتے تھے انہوں نے بڑی مشقت کے ساتھ اخبار کو کھڑا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اخبارات کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھایا جائے جہاں سے ایم اے ظفر نے چھوڑا ہے اسے آگے بڑھانے کی ذمہ داری ان کے فرزند پر ہے اسے بہتر طریقے سے آگے بڑھائیں اور ایم اے ظفر کی خدمات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لائیں۔
مشہور فکشن نگار مشتاق احمدنوری نے کہا کہ ظفر فاروقی کے چہرے پر مالکانہ سرور نہیں تھا وہ عام آدمی کی طرح سب کے ساتھ مل کر چلنا پسند کرتے تھے ۔ آج صحافیوں کے قلم کو روکا جاتا ہے لیکن ایم اے ظفر نے ہمیشہ صحافیوں کو لکھنے کی پوری آزادی دی تھی۔ انہوں نے خورشید پرویز جیسے دھار دار صحافی کو موقع دیا جو ہمیشہ اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔
صحافی سید شہباز نے کہا کہ ایک بڑے صحافی نے دنیا ئے فانی سے رحلت کی ہے جو صحافت کیلئے خسارہ ہے وہ بہت ہی ملنسار اور اخلاق کے بلند پایے پر تھے ۔اسحاق اثر نے کہا کہ ایم اے ظفر جیسے صحافی بہت کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کارکن کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔ امتیاز احمد کریم نے کہا کہ ایم اے ظفر نے اردو صحافت کو بام عروج عطا کیا ہے انہوں نے جھارکھنڈ میں ایسے وقت میں اخبار نکلا جب اردو کا جنازہ نکل رہا تھا اور آج تک وہ اخبار جھارکھنڈ سے نکل رہا ہے۔ ہمارا نعرہ کے مدیر اعلیٰ انوار الہدیٰ نے کہاکہ ظفر مرحوم نے تین اخبار نکالے پہلا اخبار ہمالہ نکالا جبکہ دوسرا اخبار فاروقی تنظیم اور تیسرا اخبار نوید نکالا ۔ آغاز انجام کے ذریعے صحافت میں قدم رکھا۔ وہ کم عمری میں ہی اخبار کے مدیر ہوگئے کیونکہ والد کا سایہ جلد اٹھ گیا۔انہوں نے دھیرے دھیرے مضبوط قدم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے بالاخر انہیں بڑی کامیابی ملی اور آج ہم سب کے سامنے فاروقی تنظیم ایک تناور درخت کی طرح کھڑا ہے۔ وہیں اسلم جاویداں نے کہا کہ ایم اے ظفر خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرت بھی تھے منکسرالمزاج تھے۔ کم عمری میں اخبار سنبھالا اور کارکن صحافیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے انہوں نے لوگوں کے دلوں میں تاج محل بنایا ہے ظفر فاروقی پر ایک دستاویز نکالاجانا چاہیے۔ایم اے ظفر مرحوم کے صاحبزادے اقبال ظفر نے کہا کہ والد محترم کے نقش قدم پر چل کر اردو صحافت کی خدمت کرتا رہوں گا آپ سب کے مشورے کی ضرورت آج بھی فاروقی تنظیم کو ہے ۔ فاروقی تنظیم نے ہمیشہ صحافیوں کا خاص خیال رکھا ہے ۔ مرحوم صحافی کی خدمات کو دستاویز ی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔فاروقی تنظیم کے نمائندہ ہارون رشید نے کہا کہ ایم اے ظفر کی رحلت ہم سب کیلئے بڑا صدمہ ہے اردو صحافت کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھانے میں ایم اے ظفر کا کوئی ثانی نہیں ان کے طریقہ کار سے دوست تو دوست دشمن بھی گرویدہ ہو جاتا تھا ۔
بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے کہا کہ میری ملاقات تو نہیں رہی ہے لیکن ہماری غزلیں فاروقی تنظیم میں ہمیشہ شائع ہوتی رہی ہیں یہ ان کی محبت کا ثمرہ تھا۔ مشہور شاعر اثر فریدی نے کہا کہ وہ مخلص انسان تھے خورشید پرویز جیسے صحافی کے ساتھ اخبار کو بہتر کرنے کی کوشش کی انہوں نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
اس موقع پر عبد الواحد انصاری ‘ سیف اللہ شمسی ‘ سید اقبال امام ‘ آصف عطا ‘ عظیم الدین انصاری ‘ امتیاز انصاری ‘ فیروز منصوری ‘ وثیق الزماں ‘ مبین الہدیٰ‘ اظہر الحق ‘عبید اللہ ‘ منوج کمار نے بھی خطاب کیا ۔ نشست کا آغاز عبد الدیان شمسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ نظامت کے فرائض عزیز تنظیم کے مدیر انوار اللہ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔اس موقع پر ‘ توقیر عالم ‘ نثر عالم ‘ عارف انصاری ‘ رضیہ سلطانہ ‘ فضل احمد خان ‘ محمد حسنین ‘ آفتاب خان ‘ معین گریڈیوی ‘ عزیز الحسن‘ شبیر احمد و دیگر معززین علم واو ادب بھی موجودتھے۔

منگل, مئی 02, 2023

سیاسی شعور کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سیاسی شعور کی ضرورت __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
Urduduniyanews72
اس وقت ملک میں مسلمانوں کی آبادی پچیس کروڑ سے کم نہیں ہے ، تعداد سے قطع نظر وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ضرور ہیں ،اور اس اعتبار سے و ہ نظام حکومت میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں ، حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو ،وہ نہ تو ان کی آواز کو دبا سکتی ہے ،او ر نہ ہی اسے سنی ان سنی کر سکتی ہے ،ان کے ملی مفاد کی ان دیکھی کرنا یا انہیں نقصان پہونچانے کی کوشش کرنا بھی ان کے لیے مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ۔ لیکن آج کے ہندوستان میں یہ سب خواب و خیال کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں ، مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں بے وقعت ہیں ، ان کے مفاد کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں ، ان کے مفاد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، ملک کے دستور نے انہیں جو ضمانتیں دی ہیں ، ان کی بھی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، مگر ان کے ضبط اور صبر و تحمل کا یہ عالم ہے کہ نا مساعد حالات کا رونا رونے لگ جاتے ہیں ، اس سے آگے بڑھنے کی ہمت کی تو حکومت وقت کا شکوہ کرنے لگ گئے ، اور پھر کچھ اور ہمت جٹائی تو سازشوں کا ذکر کرنے بیٹھ گئے ، مگر اپنا محاسبہ کرنا اور اپنے اندر جھانکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ، کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے ، کیا خامی ہے ، کس چیز کا فقدان ہے اور خود ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہو رہی ہے ، ہندوستان کے مسلمان آج جس حال کو پہونچ گئے ہیں ، ان کا ایک طبقہ وسیع تر ملی مفاد کے حصول و تحفظ پر توجہ دینے کے لیے یا تو تیار نہیں ہے یا ا سکی ضرورت ہی نہیں سمجھتا ، جب کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبہ میں خوا ہ وہ سیاست ہو ، معیشت ہو یا روز مرہ کے معمولات زندگی ہوں ، اجتماعیت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اتحاد عمل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان کسی ایک ہی سیاسی پارٹی میں شامل ہو جائیں ، ایسا ممکن بھی نہیں ہے اور شاید یہ مناسب بھی نہیں ، لیکن جو ملی معاملات ہیں، ان کے لیے اتحاد عمل کا مظاہرہ یقینا کیا جا سکتا ہے ، مسلمان دوسرے اقلیتی فرقوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی سیاسی وفاداریوں کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوم کے مسائل کے لیے کس طرح باہم متحد ، مربوط اور ایک جٹ ہو جاتے ہیں ، اور ان کو حل بھی کرا لیتے ہیں ، اور متعلقہ پارٹیاں بھی اس معاملہ میں ان کو اپنا بھر پور تعاون دیتی ہیں ، مگر مسلمانوں کے ساتھ صورتحال بالکل بر عکس ہے ، اول تو مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنی پارٹی کی سطح پر مسلم مسائل اٹھاتے ہی نہیں ہیں او ر اگر کسی نے ہمت سے کام لیا تو خود اسی کے جماعتی رفقاءبجائے اس کے کہ اسکو تعاون دیں اس کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بالفرض اگر ایسا نہیں ہوا اور ان کی آواز پارٹی کے اندر ون خانہ سے باہر آتی ہے تو دوسری پارٹیوں کے لیڈر اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں ، اس کی دو وجہ ہے ، ایک کا تعلق جماعتی تعصب سے ہے، اور دوسری کا اس خوف سے ہوتا ہے کہ اگر حریف کی آواز میں آواز لگائی تو پارٹی سے نکالے جائیں گے ، نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل یوں ہی پڑے رہ جاتے ہیں ، ہاں جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے، تو تمام پارٹیوں یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی مسلمان اور ان کے مسائل ، ان کے دکھ درد اور ان کی پسماندگی کی یاد بے چین کر دیتی ہے ، لیکن جیسے ہی انتخابی نتائج کااعلان ہوا ، وہ مسلمانوں کا پھر سے استحصال شروع کر دیتے ہیں ، جب کہ گذشتہ دس برسوں سے ملک کی بی جے پی حکومت اور ان کے لیڈر ان اکثریتی ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی شعائر اور مذہبی تشخصات کو نشانہ بناتے آرہے ہیں ۔
 یہ صورت حال بہت ہی افسوس ناک ہے اور اس بات کی مظہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری کی کمی ہے، اور وہ اجتماعی مفاد پرتوجہ نہیں دیتے ، جس ملت کا سیاسی شعو ر بیدار ہوتا ہے ،وہ ملت ایسی نہیں جیسی کہ ہندوستان کے مسلمان ، کوئی ملت سیاسی اعتبار سے کس قدر بیدار ہے، اس کا اندازہ انتخابی عمل کے دوران بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس کے کتنے فیصدافراد اس عمل میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ۔

نام:محمد انسقلمی نام:انس مسرور انصاریتاریخ ولادت:02 مئی 1954ء

نام:محمد انس
قلمی نام:انس مسرور انصاری
تاریخ ولادت:02 مئی 1954ء
Urduduniyanews72
وطن:قصبہ ٹانڈہ، ضلع امبیڈکر نگر-224190
والد کا نام:چودھری احمد اللہ المتوفی 1975ء
والدہ کا نام:علیم النساء المتوفی 21 نومبر 2004ء
اہلیہ:اختر جہاں
علمی و ادبی سرپرست:مولانا عبید الرحمٰن شاہ منظری
تربیت و تلمذ:شاد فیض آبادی، والی آسی لکھنوی
             شمیم فیض آبادی، ڈاکٹر احمد مبارکی ردولوی
             مولانا کبیر الدین واصف نگپوری
             ڈاکٹر احمد علی فضا بنارسی
حفظِ قرآن:استاذ الحفاظ حافظ غلام رسول شاہ 
ارادت:شیخ المشائخ حضرت مولانا ابو شحمہ شاہ
تعلیم:ایم اے (اردو)، اودھ یونیورسٹی
       منشی، کامل، مولوی، عالم، عربی فارسی بورڈ (یوپی)
        ادیب کامل، جامعہ اردو، علی گڑھ
مکمل انجیل کورس:مرکزی چرچ (مدراس)
معاش:مزدوری
صحافت:سابق ایڈیٹر پندرہ روزہ ”مبصر“ ٹانڈہ
مشاغل:مطالعۂ کتب، تصنیف و تالیف
تصانیف
۔۔۔۔۔۔
۔   (1)نور و نکہت (نعت)-1974ء
۔   (2)سنہری جالیاں (نعت)-1987ء
۔   (3)سبز گنبد (نعت)-1988ء
۔   (4)دیارِ مدینہ (نعت)-1975ء
۔   (5)تسبیح کے دانے (نعت)-2006ء
۔   (6)مخدوم سمنانی (منقبت)-1982ء
۔   (7)کرب و طرب (نظم و غزل)-1981ء
۔   (8)قطرہ قطرہ خونِ دل-2001ء
۔       (رباعیات)
۔   (9)فجر کا الاؤ (نظم و غزل)-2006ء
۔   (10)اسلام کا سماجی نظریہ-1979ء
۔   (11)ملفوظاتِ جہانگیری (تاریخ)-1980ء
۔   (12)عبدالرحیم خان خاناں-1981ء
۔         (تاریخ)
۔   (13)عرب سے یورپ تک-1987ء
۔         (تاریخ)
۔   (14)اورنگ زیب عالمگیر-1991ء
۔         (تاریخ)
۔   (15)فنِ خطوط نگاری-1992ء
۔         (تاریخ)
۔   (16)سیف اللہ خالد بن ولید
۔         (تاریخ)(تاریخ)-1995ء
۔   (17)رسول اللہ کی تلوار-1995ء
۔         (تاریخ)
۔   (18)کمسن مجاہد (تاریخ)-1995ء
۔   (19)صلاح الدین ایوبی-1996ء
۔         (تاریخ)
۔   (20)اسلام کی تاریخی کہانیاں-1991ء
۔         (تاریخ)
۔   (21)صلوٰۃ التسبیح(فاطمہ کی نماز)
۔         1996ء
۔   (22)خواجہ حسن بصری (سوانح)-1992ء
۔   (23)ہاتھیوں کی لڑائی-1991ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (24)سونے کا باغ-1988ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (25)ایک تھی رانی-1990ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (26)مولا بخش ہاتھی-1990ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (27)انسانی دماغ ، کمپیوٹر اور تعلیم
۔         (ادبِ اطفال)-2022ء
۔   (28)آدرش بال پوتھی (ہندی)-1995ء
۔   (29)ننھے بچے کے من کے سچے
۔         (نظمیں)-2015ء
۔   (30)دوپہر کی دھوپ (نظمیں)-2015ء
۔   (32)دھوپ اور سائبان (مضامین)-2021ء
۔   (33)عکس اور امکان (مضامین)-2022ء
۔   (34)ادراک اور وجدان-(مضامین)-غیرمطبوعہ
۔   (35)عطر کے داغ-رباعیات و قطعات
۔   (36)دیوان نسیم میسوری-(تحقیق و تدوین)
۔         (غیرمطبوعہ)
۔   (37)اردو تنقید کا معیار-(جائزہ و تجزیہ)
۔         (غیرمطبوعہ)
۔   (38)کربلا کے مسافر (مثنوی)-غیرمطبوعہ
۔   (39)مجروح سلطان پوری-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (40)شکیب جلالی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (41)بشیر بدر-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (42)پروین شاکر-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (43)نازش پرتاب گڈھی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (44)شہر یار-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (45)مجاز لکھنوی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (46)شاداب احسانی (کراچی)-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (47)انس مسرور انصاری-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (48)علامہ حماقت بیگ-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (49)تکیہ و رومال کے اشعار-1990ء
۔         (اردو، ہندی)
۔   (50)خط کے اشعار-1990ء
۔         (اردو، ہندی)
۔   (51)ہنسی کا فوراہ-1995ء
۔   (52)ہنستے رہیے-1996ء
۔   (53)قہقے در قہقے-1997ء
۔   (54)مسکراتے رہیے-1999ء
۔   (55)قہقہوں کا طوفان-2000ء

جمعرات, اپریل 27, 2023

انجینیر محمد فخرالہدی پوری سادگی کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک

انجینیر محمد فخرالہدی پوری سادگی کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک
Urduduniyanews72
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر شریعت ، نایب امیر شریعت ،امتیاز احمد کریمی ، قاری صہیب ،نواز دیوبندی وغیرہ نے مبارکباد دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مظفر پور ٢٦ اپریل۔ نمائندہ) امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نایب ناظم ، اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی کے تیسرے صاحب زادہ انجینیر محمد فخرالہدی پوری سادگی کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔نکاح کا انعقاد بھوانی پور مسجد موتی ہاری مشرقی چمپارن میں بعد نماز ظہر قاری جلال الدین صاحب امام جامع مسجد موتی ہاری کی صاحبزادی ذکری کوثر سے ہوا۔جس میں مفتی صاحب کے ساتھ گھر کے چند لوگ شریک ہوئے ۔اس موقع سے امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ، نایب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی ،مسلم مجلس مشاورت کے انوار الھدیٰ ، قاری صہیب ایم ایل سی، ڈاکٹر نواز دیوبندی ،ڈاکٹر امام اعظم مانو ریجنل ڈایریکٹر کولکاتہ ،مولانا محمد مظاہر عالم ،حاجی عارف انصاری خیرآباد ،سابق وزیر برشن پٹیل،ڈاکٹر مظاہر حسین  یوکے ،محمد زبیر دربھنگہ، مولانا ابوالکلام قاسمی شمشی، اعظم ایڈووکیٹ وغیرہ نے مفتی صاحب اور صاحب زادہ کو مبا رک باد پیش کی۔ دوسرے دن ولیمہ کی تقریب میں مفتی صاحب کے اعز و اقارب  ، معتقدین متوسلین کے ساتھ علم و ادب کی نامور شخصیات نے شرکت کی ۔ جن میں امتیاز احمد کریمی،  پروفیسر فاروق احمد صدیقی سابق صدر شعبہ اردو بہار یونی ورسٹی مظفر پور  ،  مولانا محمد انوار اللہ فلک بانی و مہتمم ادارہ سبیل الشریعہ آوا پور، قاری ایاز احمد جامعہ مدنیہ سبل پور ، مولانا حسین احمد ناصر ی، مفتی سلیم احمد ناصری ، اردو ایکشن کمیٹی کے انوار الحسن وسطوی ، ماسٹر عظیم الدین انصاری ، اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا صدر عالم  ندوی ،  دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد کے مولانا سراج الہدی ند وی ازہری، اردو کونسل کے اسلم جاوداں ،امارت شرعیہ کے مولانا عادل فریدی ، تاثیر کے نمایندہ اسلم رحمانی ، ایس آر میڈیا کے بانی و ایڈمن قمر اعظم صدیقی ، العزیز  میڈیا کے بانی و ایڈمن عبد الرحیم بڑھولیاوی ، ڈاکٹر کامران غنی صبا نتیشور کالج مظفر پور ،  ڈاکٹر اشتیاق احمد پروفیسر صوفیہ کالج چکیا  مد رسہ حسینیہ کے مہتمم مولانا قمر عالم ندوی ،امارت شرعیہ ضلعی کمیٹی سیتامرھی کے صدر ڈاکٹر ساجد علی ،حاجی محمد نعیم ، ماسٹر انظار الحسن  عارف اقبال ای ٹی وی پٹنہ حاجی محمود عالم کلکتہ ،وغیرہ نے شرکت کی اور نو عروس جوڑے کے لیے نیک خواہشات پیش کیں۔تقریب ولیمہ عصر کے قریب بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔مہمانوں کے استقبال اور انتظا م وانصرام میں خانوادہ ھدی کے افراد اور متعلقین پیش پیش رہے۔

بدھ, اپریل 26, 2023

محترم جناب بہت ہی مسرت کے ساتھ یہ خبر شائع کی جا رہی ہے

محترم جناب بہت ہی مسرت کے ساتھ یہ خبر شائع کی  جا رہی ہے
Urduduniyanews72
حضرت مولانا محمد اقرار بیگ موضع  مبارک پور خوشہ  ضلع بجنور کی صاحبزادی مدیحہ پروین   نے دس 10, وی کلاس میں تقریباً 70 سے  کامیابی حاصل کی ہے    خوشی کے اس موقع پر   ہم اردو دنیا کے احباب مولانا کو  مبارکباد پیش کرتے ہیں وسلام

منگل, اپریل 25, 2023

یادوں کے چراغمولانا حسین احمد قاسمی ؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ
Urduduniyanews72
مولانا حسین احمد قاسمی ؒ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ پریم جیور دربھنگہ کے بانی وناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی کے سابق صدر مدرس بھیرو پٹی سمستی پور اور کٹکی مسجد دربھنگہ کے سابق امام ، مولانا حافظ حسین احمد قاسمی کا 3؍ مئی 2021ء مطابق 19؍ رمضان 1442ھ بروز اتوار بوقت پانچ بجے شام دربھنگہ میڈیکل کالج اینڈ ہوسپیٹل (DMCH)میں انتقال ہو گیا ، وہ برسوں سے شوگر کے مریض تھے دو سال قبل کڈنی نے کام کرنا بند کر دیا تھا، ڈائیلاسس پر زندگی چلتی رہی ، چھ ماہ تک یہ عمل جا ری رہا ، پھر انتقال سے چار روز قبل کورونا میں مبتلا ہو گیے، اور بظاہر یہی مرض الموت ثابت ہوا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشا ان کے قائم کردہ مدرسہ میں مولانا امداد احمد قاسمی نے پڑھائی اور مقامی آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو صاحب زادے حافظ ومولوی معتصم باللہ، حافظ محمد انس اور چار لڑکیاں ہیں، جن میں سے دو مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی اور مولانا عادل فریدی قاسمی کے نکاح میں ہیں، مولانا رحمت اللہ ندوی سمستی پور میں بورڈ کے مدرسہ شمس العلوم کاشی پور میں استاذ ہیں اور مولانا عادل فریدی کی خدمات امارت شرعیہ کو حاصل ہیں، والدہ کا انتقال مولانا کے گذرنے کے صرف انتیس دن  (13؍ 5؍ 2021) بعد ہوا،اہلیہ ایک سال نو ماہ پہلے ان کی زندگی میں رخت سفر باندھ چکی تھیں، مولانا امداد احمد قاسمی کو وہ روحانی بھائی تسلیم کرتے تھے، وہ  بقید حیات ہیں اور مولانا کے گھر کے ایک فرد ہی کی طرح ان کا تعامل ہے، وہ مولانا مرحوم کے ابتدائی استاذ جناب مولوی مشتاق صاحب کے صاحب زادہ ہیں، مولوی  مشتاق صاحب رشید پور کے رہنے والے تھے، پوری زندگی مولانا مرحوم کے دروازہ پر ہی بنیادی دینی تعلیم دیتے رہے، استاذ ، زادے کی حیثیت سے مولانا کے نزدیک ان کی بڑی قدر تھی، اور مولانا امداد احمد صاحب ان کے انتقال کے بعد بھی اس ربط وتعلق کو نبھا رہے ہیں۔
 مولانا حسین احمد قاسمی بن ماسٹر ظہور الحسن (ولادت 18؍ جنوری 1933- وفات 5؍ اکتوبر 1999) بن محمدنذیر (م 1934) بن محمد مہدی حسین بن اخیار علی بن امام علی کی ولادت 1964ء میں لہیریا سرائے دربھنگہ سے پورب پریم جیور گاؤں میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال حیا گھاٹ ضلع دربھنگہ تھی، ان کے نانا چودھری صغیر احمد بن چودھری سراج الدین تھے۔
 مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں جوان کے دروازہ پر ہی چلا کرتا تھا مولوی مشتاق احمد صاحب رشید پوری سے حاصل کی ، حفظ قرآن بھی انہیں سے کیا، پہلا دور مدرسہ امدادیہ میں مکمل کرنے کے بعد مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ چلے گیے اور قاری یار محمد کی درسگاہ سے حفظ قرآن کا دور مکمل کیا ، ان کی یاد داشت بہت مضبوط تھی اور علاقہ کے ا چھے حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا، عربی دوم تک مدرسہ رحمانیہ میں پڑھنے کے بعد عربی چہارم تک مدرسہ اتحاد المسلمین باگھا کسما ر موجودہ ضلع مدھوبنی میں تعلیم پائی، یہ مدرسہ بورڈ سے منسلک ہے، اس لیے فوقانیہ کا امتحان دیا اور اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے، عربی پنجم وششم کی تعلیم مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ سے حاصل کیا، نیز عربی ہفتم میں دار العلوم دیو بند میں داخل ہو کر یہیں سے 1987ء میں سند فراغ حاصل کیا، ماہرین علم وفن کی صحبت نے آپ کے اندر صلاحیت اور صالحیت اور تمام تعلیمی اداروں میں نامور اساتذہ سے کسب فیض نے ان کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، ان کا شمار اپنے علاقہ کے زمینی علماء میں ہوتا تھا، جن کے اثرات عام اور فیوض تام تھے، اصلاح معاشرہ اور تعلیم کی ترویج واشاعت کو انہوں نے اپنا مشن بنایا اور پوری زندگی اس میں لگادی ، فراغت کے قبل ہی 1985میں سلیمان پور، اجیار پور موجودہ ضلع سمستی پور کے ذی حیثیت اور زمیندار خاندان میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، آپ کے سسر میر شفیع کریم (ولادت 1926-وفات 13نومبر2013) بن عنایت کریم تھے، جن کی تیسری لڑکی رضیہ شاہین (م2اگست 2019مطابق یکم ذی الحجہ 1441ھ) آپ کے نکاح میں آئیں وہ مولانا مرحوم کے تعلیمی کاموں میں بڑی معاون تھیں، خود بھی اور اد واذکار ، تلاوت قرآن کا اہتمام تھا، اور مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ میں قیام پذیر مہمانان رسول کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتی تھیں، مولانا کی گرتی صحت پر ان کی وفات کا غیر معمولی اثر پڑا، اور کہنا چاہیے کہ گھریلو اعتبار سے مولانا کے دست وبازو ٹوٹ گیے۔
 دار العلوم سے فراغت کے بعد امامت سے منسلک ہوئے، دو سال تک بھیرو پٹی (سمستی پور) اور تین سال دربھنگہ شہر کی کٹکی بازار واقع جامع مسجد میں دینی خدمات پیش کیں، تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے عصری علوم کا رخ کیا اور متھلا یونیورسیٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی سے کیا، صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے پانچ سالہ قیام میں مدرسہ کے تعلیمی معیار کو بلند کیا، اور انتظامی اعتبار سے مدرسہ کو استحکام بخشا، ان کا درس طلبہ میں مقبول تھا اور مہمان رسول پر ان کی شفقت مثالی تھی، اپنی سادگی ، تقویٰ شعاری، خلوص وللہیت اور کام کی لگن کی وجہ سے وہ عوام وخواص کے منظور نظر رہے، مدرسہ کی مالیات کو مضبوط کیا اور مدرسہ عارفیہ کی مغربی عمارت کو دو منزلہ کرایا، 1999میں انہوں نے اکابر کے مشورے سے پریم جیور میں مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، اپنی زمین مدرسہ کو دیا، اور جلد ہی اپنی محنت سے انگریزی سے مرعوب لوگوں کے درمیان دینی تعلیم کا مزاج بنانے میں کامیاب ہوئے، شہری حلقوں سے طلبہ کا رجوع مولانا کے مدرسہ کی طرف ہونے لگا، یہ اپنے میں بڑی بات تھی، مولانا خود تو لگے ہی رہتے ، مولانا کی اہلیہ بھی اس کام میں ان کی بڑی ممد ومعاون رہیں، جس کی وجہ سے مدرسہ کا کام تیزی سے آگے بڑھتا رہا ، مولانا نے مدرسہ کی تعمیر وترقی کی طرف توجہ دی، الحمد للہ آج مدرسہ کی عمارت اور مسجد کی تکمیل ہو چکی ہے اور مدرسہ کا نظام حسب سابق جاری ہے۔
مولانا سے میری ملاقات قدیم تھی کئی جلسوں میں ایک ساتھ شرکت ہو چکی تھی، وہ مجھ سے محبت کرتے تھے، لیکن گفت وشنید میں میرا خیال رکھتے، اس لیے میں ان سے کبھی بے تکلف نہیں ہو سکا، میری مشغولیت ان کے گاؤں اور مدرسہ میں جانے سے مانع ہوئی، مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی کی تقریب نکاح مین شریک ہوا تھا، ان کی زندگی میں پھر دو بارہ ان کے گاؤں جانا نہیں ہوا، ان کے رفیق خاص، ہم دم وہمراز مفتی انوار احمد قاسمی ناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام ہیں، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں مہمان خصوصی وہی ہوا کرتے ، وہ روایتی جلسوں کے مخالف تھے، جس میں کئی کئی مقرر اور نعت خواں بلائے جاتے ہیں، وہ ایک دو مقرر کو بلا تے او رتاریخ بدلنے کے پہلے جلسہ ختم کر دیتے، ہر سال اس موقع سے دس بارہ حفاظ کی دستار بندی بھی ہوا کرتی۔ امسال گیارہ مارچ کو پہلا موقع تھا کہ ان کے مدرسہ کے جلسہ میں حاضری کی سعادت پائی، مدرسہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک شخص کتنا بڑا کام کر گیا، اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...