Powered By Blogger

بدھ, مئی 10, 2023

شرعی زندگی حصہ سوم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شرعی زندگی حصہ سوم 
Urduduniyanews72
مفتی  محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 شاہ انظار کریم فریدی چک بہاؤ الدین ضلع سمستی پور کے رہنے والے ہیں، مشغلہ ایمس دہلی میں لیب ٹیکنیشین کا ہے ،ا سلامی تحریکات سے متاثر ہیں، اپنی زندگی میں اسلام کو پورے طور پر برتتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس دائرہ میں لا کر اپنے اور دوسروں کے لیے اخروی سرخروئی کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں، اپنی رہائش کے قریب زید پور ایکسٹنشن حصہ ۲، بدر پور نئی دہلی میں دینی مکتب چلا تے ہیں اور ڈیوٹی کے بعد جو وقت بچتا ہے اس کو دینی تعلیم کی ترویج واشاعت میں صرف کرتے ہیں، ظاہری وضع قطع بھی درست ہے، چہرے پر داڑھی اس طرح دراز اور گھنی ہے کہ بادی النظر میں کسی شیخ وقت کا گمان ہوتا ہے ۔
 شرعی زندگی حصہ سوم حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہے، شروع کے دو حصہ میں کیا ہے اس کا علم مجھے نہیں ، کتاب کے صفحات دو سو بہتر ہیں اور قیمت ایک سو پچاس روپے ہے جو آج کل اردو کتابوں پر درج قیمت کے اعتبار سے کم ہے ، آج کل فی صفحہ ایک روپیہ قیمت رکھنے کا مزاج بن گیا ہے ، یوں بھی اردو کتابوں کے قاری کی تعداد بھی کم ہے اور ان کی قوت خرید اس سے بھی کم تر، شاہ انظار کریم فریدی نے قیمت اس لیے کم رکھی ہے تاکہ وہ زیادہ لوگوں تک پہونچ سکے اور اس کا فائدہ عام وتام ہو ، اس کتاب کی ترتیب میں مولانا انظر خان قاسمی نے ان کی معاونت کی ہے اور ان کا نام بھی سر ورق پر درج ہے۔
 پیش لفظ میں مصنف نے اپنی علمی صلاحیت اور اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ نہ میری علمی صلاحیت کاکوئی معیار ہے اور نہ ہی میری کوشش اس انداز کی ہے ، جس سے مجھے یقین ہو کہ اس کتاب یعنی شرعی زندگی حصہ سوم سے قوم کو کچھ فائدہ حاصل ہوگا، مصنف کاکہ جہالت کی تاریکی میں ایک شمع جلا کر اپنی حصہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں اور جہالت نیز عقائد باطلہ ، رسوم وشرک وبدعات کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں: 
’’میں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش میں قریہ قریہ ، شہر شہر اس کتاب کی روشنی کو پھیلا نا چاہتا ہوں، جس سے قوم کے بچے اور بڑوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے اور لوگوں کو ارتداد سے بچانا آسان ہو جائے۔‘‘
 کتاب کا آغاز اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت سے کیا گیا ہے ، پھر اسلام، ایمان ، کفر، شرک وبدعات اللہ کے نظام میں فرشتوں کا کردار ، قرب قیامت کی علامتیں، جنت ودوزخ ، طہارت ، نماز کی اہمیت وفضیلت ، احکام نیت، رمضان، زکوٰۃ ، حج قربانی وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، حقوق العباد کے ضمن میں والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں ، ضرورت مندوں کے حقوق پرقلم بند کیے گیے ہیں ، شراب نوشی کے دینی ودنیوی نقصانات پر بھی گفتگو کی گئی ہے ، حقیقت جن، تعویز ،گنڈے، صبح وشامل کے اذکار  پربھی اچھی گفتگو شامل کتاب ہے ۔
 شاہ انظار کریم فریدی کی اس کتاب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر اصلاح کا جوش وجذبہ پورے طور پر موج زن ہے، وہ شریعت کے احکام بلاواسطہ نصوص سے اخذ نہیں کر سکتے، اس لیے ان کے مطالعہ کا مرکز ومحور زیادہ تر ان موضوعات پر لکھی اردو کتابیں رہی ہیں، قرآن کے تراجم سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے، آیات واحادیث کے حوالہ کا اہتمام تو کیا ہے ، لیکن اس میں جدید انداز کو نہیں برتا ہے ، کتابوں کا نام لکھ دینا ہی کافی نہیں ہے ، اس کے باب اور احادیث کے نمبرات کا اندراج بھی ضروری ہے ، بلکہ اس قسم کی کتابوں میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آیات قرآنی اور حادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل متن ، عربی عبارت مع اعراب کے درج کرنا چاہیے،ا س سے دو فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ قاری کا ذہن مطمئن ہو کہ یہ فلاں کتاب سے ماخوذ ہے، ہوا میں تیر نہیں چلائی گئی ہے ، دوسرے اگر قاری ان آیات واحادیث کو یاد کرنا چاہے تو اسے عربی عبارت کے یاد کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، تجربہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اردو ترجمہ حافظہ کی گرفت سے جلد نکل جاتا ہے اور عربی عبارتیں ایک بار یاد کر لی جائیں تو مدتوں ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہوجاتی ہیں، مصنف نے کہیں کہیں اس کا التزام کیا ہے، لیکن یہ کم ہے، شاید کتاب کی ضخامت کو کم کرنے کے لیے ا نہوں نے ایسا کیا ہے ، یا پھر وہ قاری کے ذہن کو حوالہ دے کر بوجھل نہیں کرنا چاہتے، حوالوں کی کثرت سے مطالعہ کا تسلسل ٹوٹتا ہے، لیکن بہر کیف حوالوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
دوسری کمی اس کتاب میں مضامین کی ترتیب کی ہے، شاہ انظار کریم فریدی کے حاصل مطالعہ کو مولانا انظر خان قاسمی کی صحیح معاونت مل جاتی تو مندرجات کے اعتبار سے اسے زیادہ مفید بنایا جا سکتا تھا، اس کتاب میں نہ حقوق اللہ کی درجہ بندی ہے اور نہ حقوق العباد کی، کیف ما اتفق قدیم بیاض کے انداز میں مضامین کا اندراج کر دیا گیا ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے حقوق اللہ کے عنوانات کی فہرست ہوتی ، پھر حقوق العباد کی درجہ بندی کی جاتی ، اس طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے جو بہت ساری چیزیں رہ گئیں ، وہ بھی کتاب کا حصہ بن جاتیں۔
 کتاب میں پروف کی اغلاط بھی کافی ہیں، ان پر سخت محنت کی ضرورت ہے ، یقینا کتابوں میں غلطیاں رہ جاتی ہیں، لیکن اس قدر نہیں کہ ہر صفحہ میں دو چار اغلاط نکل آئیں، اس سے کبھی تو معنی تک پہونچنا ممکن نہیں رہتا اور کبھی دشوار تر ہوجاتا ہے، اس لیے اس طرف توجہ کی بھی خاص ضرورت تھی ۔
 کتاب کے مندرجات مفید ہیں، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کا جذبہ نیک ہے، شاہ انظار کریم فریدی سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں، میں انہیں مخلص سمجھتا ہوں او ربھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی ان کی جد وجہد کو پسند کرتا ہوں، ان کی کوششوں کی قدر کرتا ہوں، جو باتیں لکھی گئیں وہ اس کتاب کی قدر وقیمت کو کم کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ اسے مزید مفید اور کار آمد بنانے کے لیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے فائدہ کو عام وتام فرمائے اور جن مقاصد کے لیے اسے ترتیب دیا گیا ہے اس کی تکمیل میں معاون بنائے اور مصنف کو ان کے اخلاص ، محنت ، جد وجہد اور لوگوں کو دین تک لانے کی مہم کا بہترین اجر عطا فرمائے، آمیں یا رب العالمین

منگل, مئی 09, 2023

ک پھو ل سے آجا تی ہےویرانےمیں رونق ہلکا سا تبسّم بھی مر ی جا ن بہت ہے ہے

(کچھ تبسّم زیرِ لب)     
 Urduduniyanews72
                       آم کی چٹنی
 
 ٭ انس مسرورؔانصاری
 
ا ک پھو ل سے آجا تی ہےویرانےمیں رونق 
ہلکا سا تبسّم بھی مر ی جا ن بہت ہے ہے
گرمیوں کے موسم کاآغازہوچکاہے۔آ م کے پیڑوں پرامولیاں آگئی ہیں۔آم کے باغوں میں بچے گھومنے پھرنے لگے ہیں۔ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھرلیے امولیوں کوللچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔خواتین اوربچوں کے لیے یہ امولیاں بڑی کشش رکھتی ہیں۔ان کی کھٹاس من کوبہت بھاتی ہے۔ ان دنوں گھروں میں آم کی چٹنی کابڑارواج ہے۔خوشبو،کھٹاس،لذّت،کیاکچھ نہیں ہوتاآم کی چٹنی میں۔آم کی ریڈیمیڈچٹنیاں بھی کئی کمپنیاں بناتی ہیں،مگران میں وہ بات کہاں۔آم کی چٹنی پنڈت دیارام کوبہت پسند تھی۔ 
پنڈت دیارام اورمولوی قدرت اللہ میں بڑی گہری دوستی تھی۔دونوں لنگوٹیایارتھے۔دونوں میں چھوت چھات کی بیماری بھی نہ تھی۔مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی اپنے اپنے مذہبوں کے پیشواتھے۔پنڈت جی ایک ودّیالیہ میں سکچھاپردان کرتے تھے جبکہ مولوی قدرت اللہ ایک عربی مدرسہ میں در س تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔اتنے زیادہ فرق کے باوجود پنڈت اورملّا میں گاڑھی چھنتی تھی۔بس پنڈت جی کوایک ہی بات بہت بُری لگتی تھی۔جب بھی مولوی قدرت اللہ ‘‘گلاب جامن’’کانام لیتے،پنڈت جی چڑھ جاتے اورانھیں بہت بُرابھلاکہتے۔کھری کھوٹی سناتے۔ بھلا‘‘گلاب جامن ’’بھی کوئی مٹھائی ہے۔ بالکل واہیات۔مولوی صاحب کوبھی انھیں چھیڑنے میں بڑالطف آتا۔کسی نہ کسی بہانے وہ بات ہی بات میں گلاب جامن کاذکرچھیڑہی دیتے اورپنڈت جی کاپارہ گرم ہوجاتا۔پنڈت جی کوتمام مٹھائیوں میں گلاب جامن سے الرجی تھی۔اُن کے سامنے کوئی بھولے سے بھی گلاب جامن کانام بھی لے لیتاتواُس کی خیر نہ تھی۔مزالینے کے لیے بچے اکثر اُنھیں دیکھ کر گلاب جامن کہتے اورپنڈت جی دیرتک اُنھیں اوراُن کے آباواجدادکوکھری کھری سناتے رہتے۔ 
 آخرایک دن مولوی قدرت اللہ نے پوچھ ہی لیا:‘‘پانڈے!ایک بات بتاؤ۔؟’’ 
 ‘‘کون سی بات۔؟’’     ‘‘یہی کہ گلاب جامن جیسی بڑھیامٹھائی سے اتناچڑھتے کیوں ہو۔گلاب جامن نے تمھارا کیا بگاڑاہے۔؟’’   ‘‘دیکھومولوی کے بچے!خبردارجواب تم نے اُس کانام بھی لیا۔اچھانھیں ہوگا۔سمجھے۔’’
‘‘اچھاپیارے یہی بتادوکہ تمھیں کون سی چیزسب سے زیادہ پسندہے۔؟’’ 
پنڈت جی دیرتک سوچتے رہے۔پھربولے۔‘‘مجھے آم کی چٹنی بہت پسندہے۔دال بھات کے ساتھ مزادے جاتی ہے۔’’ 
‘‘اچھایادرکھناکہ تمھیں آم کی چٹنی بہت پسندہے۔’’ 
‘‘بھلایہ بھی کوئی بھولنے کی چیزہے۔بھگوان قسم آم کی چٹنی کاتوجواب ہی نہیں ہے۔’پنڈت جی چٹخارے لیتے ہوئے بولے۔مانو منھ میں پانی آگیاہو۔  
ایک ہفتہ بعد مولوی قدرت اللہ نے اپنے چندشاگردوں کوتیارکیااورانھیں سمجھایاکہ تمھیں کون ساکام کس طریقے انجام دیناہے۔کام چونکہ مزیدارتھااس لیے شاگرد لڑکے خوشی سے تیارہوگئے۔ 
گرمی کاموسم تھا۔دوپہرتپ رہی تھی۔پنڈت جی پسینے میں شرابوراسکول سے بھوجن کے لیے گھر لَوٹے تھے۔ہاتھ منھ دھوکربھوجن کے لیے بیٹھے۔اُن کی پتنی پنڈتائن نے بھوجن پروساہی تھاکہ مولوی قدرت اللہ کاایک شاگردلڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی مہاراج!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’ 
  ‘‘بیٹا!آج توآم چٹنی نھیں بنی ہے،کل بھیج دوں گا۔’’ لڑکاواپس آگیا،لیکن ابھی پنڈت جی نے بھوجن شروع بھی نہیں کیاتھاکہ دوسرالڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی !پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’ 
‘‘بھئی ایک بالک چٹنی کے لیے آیاتھالیکن افسوس کہ آج آم کی چٹنی بنی نہیں ہے۔بنی ہوتی توبھلاکیوں نہ دیتا۔مولوی صاحب سے کہناکہ آم کی چٹنی بنے گی توبھیج دوں گا۔’’پنڈت جی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ 
دوسرالڑکابھی واپس گیا۔پنڈت جی نے جیسے ہی بھوجن شروع کیا،تیسرالڑکاپہنچ گیا۔‘‘پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’اب توپنڈت جی کاپارہ گرم ہوناشروع ہوگیا۔نہایت خفگی سے بولے۔ 
‘‘ایک بارنہیں بلکہ تین بارکہہ چکاہوں کہ آج میرے گھرآم کی چٹنی نہیں بنی ہے۔اپنے مولوی سے آخری بارکہہ دینا۔بنے گی توبھیج دوں گا۔’’ 
پنڈت جی کے گھرسے تیسرالڑکاباہرنکلاتوفوراََچوتھاپہنچ گیا۔ 
‘‘پنڈت جی!پنڈت جیــ.......!’’  
‘‘کیاہے؟کیابات ہے؟’’ پنڈت جی نے لڑکے کوقہربھری نظروں سے دیکھا ۔
 ‘‘وہـــ.....وہ....’’لڑکاہکلایا۔‘‘وہ جی ہمارے مولوی صاحب نے آم کی چٹنی.......’’ 
 ‘‘آم کی چٹنی کے بچّے!ابھی میں تھکاماندہ اسکول سے چلاآرہاہوں۔بھوجن تک نہیں کیااورتم کم بختو!میراجیناحرام کیے دے رہے ہو۔کتنی بارکہوں کہ آم کی چٹنی نہیں بنی۔کہاں سے لاؤ ں آم کی چٹنی۔؟ بھاگ جاؤ بدبختو۔’’پنڈت جی کوغصّہ میں بھرے دیکھ کرلڑکابھاگ نکلا۔یہ چوتھالڑکاجیسے ہی دروازہ کے باہر ہوا۔پانچواں لڑکاپنڈت جی کے سرپرپہنچ گیا۔
‘‘پنڈت جی!آم کی چٹنی.......!’’پانچواں لڑکاابھی اتناہی کہہ پایاتھا کہ پنڈت جی آپے سے باہرہو گئے۔بھوجن سے بھری تھالی لڑکے پر کھینچ ماری۔لڑکاجھکائی نہ دے جاتاتواُس کاسرہی پھٹ جاتا۔وہ لڑکابھاگاہی تھاکہ چھٹواں لڑکاآدھمکا۔
‘‘پنڈت جی..........!’’
‘‘ہاں.ہاں.....کہوبیٹا۔!’’وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
‘‘مولوی صاحب.........آم کی چٹنی۔’’
‘‘ہاں ہاں....کیوں نہیں۔ابھی دیتاہوں آم کی چٹنی۔’’پنڈت جی نے لپک کرکونے میں کھڑی بید کی چھڑی اُٹھائی اورلڑکے کی طرف بڑھے۔لڑکابھاگ کھڑاہوا۔وہ چیخنے لگے۔
‘‘بلاؤ مولوی قدرت کو۔آج ہی میں اُسے آم کی چٹنی کھلاؤں گا۔حرام خور.......بدمعاش...... کمینہ......میں سب سمجھتاہوں۔ارے کیاتم کبھی ملوگے نہیں........سمجھ لوں گابیٹا۔!میں بھی پنڈت دیا رام ہوں۔گن گن کے بدلہ لوں گا۔’’ 
‘‘اجی کیاہوا۔؟کیوں چیخ رہے ہو۔؟؟’’پنڈتائن ہانپتی کانپتی ہوئی کمرے میں آئیں توساراکمر ہ کباڑخانہ بناہواتھا۔ ‘‘یہ سب کیاہے ؟کیوں چلّارہے ہو۔’’وہ حیران وپریشان کبھی اپنے پنڈت کودیکھتیں اورکبھی کمرے کو۔
‘‘بس کچھ مت پوچھوساویتری۔!وہ کم بخت مولوی کابچہ ....!وہ آم کی چٹنی..... !’’پنڈت جی بُری طرح ہانپ گئے۔ 
‘‘آم کی چٹنی.....؟کیامطلب....؟’’پنڈتائن نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘بس بس ساو یتری !آگے کچھ بھی نہیں۔’’وہ بوکھلائی بوکھلائی اپنے پتی دیوکاچہرہ تک رہی تھیں۔آم کی چٹنی کامطلب وہ نہیں سمجھ پارہی تھیں۔ پنڈت جی کے ہاتھ میں بیدوالی چھڑی تھی اوروہ دروازہ کے باہرجھانک رہے تھے۔شاید وہ ساتویں لڑکے کی راہ تک رہے تھے۔لیکن ساتواں لڑکاآم کی چٹنی کے لیے نہیں آیا۔اُنھیں غصّہ کے ساتھ سخت مایوسی بھی ہوئی۔البتہ اس دن کے بعدسے وہ ‘‘گلاب جامن’’کے ساتھ‘‘آم کی چٹنی’’ سے بھی چڑھنے لگے۔ 
یہ گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں ہیں۔جب ہندومسلم ایک قوم ہواکرتے تھے۔بھائی چارہ اور یک جہتی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ خوشی اورغم میں جینامرناتھا۔ہولی کے تیوہارمیں مسلمان دل کھول کرشریک ہوتے۔محرم میں ہندوامام حسین کاماتم کرتے اورتعزیئے رکھتے۔منتیں مانتے۔ ہولی اوردیوالی کے تیوہاروں پر مسلمانوں کے گھروں میں بھی قسم قسم کے پکوان بنتے۔ دیوالی کے چراغاں میں مسلمان بھی برابرکے شریک ہوتے۔عیدکے روزعیدگاہ کے باہر ہندوبھائی گلاب جل لیے کھڑے رہتے۔جیسے ہی مسلمان عیدکی نماز پڑھ کرعیدگاہ سے باہرنکلتے،اُن پرگلاب جل کاچھڑکاؤ کرتے ۔گلے ملتے۔مبارک سلامت کی صدائیں گونجتیں۔گزراہوازمانہ ہے خواب سازمانہ۔میری اِن بوڑھی آنکھوں نے اُن حسین منظروں کوبارباردیکھاہے۔اُن خوبصورت رنگین زمانوں کی یادیں آج خون کے آنسورلاتی ہیں۔کیسے بے ریااورمخلص لوگ تھے۔ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں برابرکے شریک۔! ہندوپڑوسی جنازہ کے ساتھ گورستان جاتے۔مسلم پڑوسی ارتھی کے ساتھ شمشان گھاٹ جاتے ۔ایک دیوارپرکئی کئی لوگ اپنی اپنی چھتیں ڈالتے اوردیوارکے مالک کوذراسابھی اعتراض نہ ہوتا۔ اُن میں ہندومسلم کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔غریبی میں بڑی خوش حالیاں تھیں۔
 ٭٭

خواتین کی بے توقیریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

خواتین کی بے توقیری
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی  نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ہندوستان میں خواتین کی بے توقیری کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں، بازار میں زدوکوب کرنا ، مادر زاد برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمانا، ان کے سر کے بال مونڈدینا اورجنسی ہراسانی کے مختلف طریقے ان پر آزمانا عام سی بات ہے ، لیکن یہ بے توقیری اگر قانون کا سہارا لے کر کیا جائے اور انسانی حقوق کی پاسداری اور تحفظ کرنے والی ایجنسیوں کے ذریعہ سامنے آئے تو یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہوجاتا ہے۔
 بہت سارے معاملات میں پولیس خواتین کی بکارت کا ٹسٹ (Virginity Test)کراتی رہی ہے ، ظاہرہے یہ عورت کی انتہائی بے توقیری اور اسے نفسیاتی طور پر ذلیل کرنے کا ایک طریقہ ہے ، آبروریزی کے مقدمات میں عام طور پر خواتین کو اس مرحلے سے گذارا جاتا ہے ، کم عمری کی شادی میں بلوغیت کی جانچ کے لیے بھی خواتین پر اس طریقہ کار کو آزمایا جاتا ہے۔
 معاملہ یکم مئی 2010کا ہے ، جنوبی دیناج پور کے بالور گھاٹ ضلع میں ربی رائے نام کے ایک شخص نے ایک نابالغہ لڑکی کی عصمت دری کی کوشش کی ، عدالت کے حکم پر نا بالغہ کا میڈیکل ٹسٹ کرایا گیا، 2019میں مسٹر سیفی نے عدالت میں درخواست دی کہ اس کی مرضی کے بغیر سی بی آئی نے اس کی بکارت کا ٹسٹ کرایا۔
 کولکاتہ اور دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس قسم کی جانچ کو غیر آئینی اور متعلقہ ملزم کے وقار کے منافی قرار دیا ہے ، دہلی ہائی کورٹ جج جسٹس سوریہ کانتا شرما نے اپنے فیصلہ میں کہا بکارت (کنوارپن) کا ٹسٹ قانون کی وفعہ 21کے خلاف ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی۔
 عدالت کا یہ فیصلہ خواتین کی بے توقیری کو روکنے میں نظیر بنے گا، اس فیصلہ کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے ذریعہ یہ کام غیر قانونی ہوگا، البتہ عدالت اس کی ضرورت محسوس کرے تو وہ ایسا کراسکتی ہے ، اس طرح عدالت نے پولیس کے ذریعہ کرائی جانے والی جانچ کو غیر قانونی اور عصمت دری کے مترادف ٹھہرایا ہے ، چوں کہ بے راہ رویاں زیادہ وہیں ہوتی ہیں، عدالت کے ذریعہ کیا جانے والا ٹسٹ انتہائی ضرورت کے وقت ہی ہوگا، اس لیے اس پر نکیر نہیں کی جا سکتی۔

اتوار, مئی 07, 2023

رومان اشرف کی کامیابیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

رومان اشرف کی کامیابی
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
امسال میٹرک کے نتیجہ ٔ امتحان میں اسلامیہ ہائی اسکول شیخ پورہ کے رومان اشرف نے پورے بہار میں ٹاپ کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے ، اس نے پانچ سو نمبر میں سے چار سو نواسی (489) 8ء 98فی صد نمبرات حاصل کرکے سولہ لاکھ تیس ہزار چار سو چودہ شرکاء امتحان کو پیچھے چھوڑ دیا، اور اپنی بر تری اور سر فہرست ہونے کا جھنڈا گاڑ دیا، اس نے لڑکیوں کے سبقت لے جانے کی قدیم روایت کو بھی توڑ کر رکھ دیا اور ثابت کیا کہ لڑکے بھی پڑھنے میں دل لگاتے ہیں ، رومان ایک چھوٹے ضلع شیخ پورہ کے رہنے والے ہیں، لیکن ان کی سخت محنت اور آگے بڑھنے کے پختہ ارادے نے انہیں یہ دن دکھایا، ان کے گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا وہ بھی ان کے جہد مسلسل میں معاون بنا، رومان اشرف کے والد ایک اسکول میں استاذ ہیں اور رومان نے اپنے والد کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کی اور تمام لڑکوں کا وقار بلند کیا۔
 ٹاپ۱۰؍ میں ایک نام نہا پروین کا بھی ہے، اس کے والد شیخ خلیل درزی کا کام کرتے ہیں، نہا پروین نے پانچ سو میں چار سو تراسی (483)نمبر حاصل کیا ، وہ میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہے، وہ ٹی ایل ایم بالیکا انٹر اسکول گوگری کھگڑیا کی طالبہ تھی، اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کرکے ثابت کر دیا ہے کہ غربت آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہیں ہے ، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دور میں اگر کوئی نہیں پڑھ رہا ہے ، تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو یہ معاملہ بے کسی ، بے بسی کا نہیں، بے حسی کا ہے ، نہا پروین نے بڑی کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور ان کے والد غریب ضرور ہیں، لیکن بے حس نہیں ہیں، رومان اشرف اور نہا پروین کویہ کامیابی مبارک ہو، امید کی جاتی ہے کہ اس کامیابی سے دوسرے لڑکے لڑکیوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر بڑا نام کما سکیں گے۔
 امسال بہار بورڈ کے امتحان میں 4ء 81فی صد طلبہ وطالبات نے کامیابی حاصل کی جو گذشتہ سال کی بہ نسبت بہتر ہے، چار لاکھ چوہتر ہزار چھ سو پندرہ فرسٹ ڈویزن، پانچ لاکھ گیارہ ہزار چھ سو تینتیس سکنڈ ڈویزن اور دو لاکھ ننانوے ہزار پانچ سو اٹھارہ نے تھرڈ ڈویزن سے کامیابی حاصل کی ، جموئی ضلع نے اپنا جلوہ حسب سابق بر قرار رکھا ہے ، سر فہرست دس میں بارہ اضلاع کے طلبہ وطالبات نے جگہ بنائی ہے، جس میں تینتیس لڑکیاں ہیں، دوسرے نمبر پر نمرتا اور گیانی انوپما ہیں، ان دونوں نے برا بر 486یعنی ۷ء ۹۷ فی صد نمبرات حاصل کیے۔

ہفتہ, مئی 06, 2023

آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 نیند سے ہمارے جسم کو راحت ملتی ہے اور تکان دور ہوتی ہے، کام کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور من میں فرحت ومسرت کا نفوذ ہوتا ہے، لیکن ایک سروے کے مطابق ۲ئ۹ کروڑ ہندوستانیوں کو اچھی نیند نہ آنے کا شکوہ ہے، آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندوں کے پیچھے اپنا ہی کیا دھرا کام کر رہا ہے ، ذہنی تناؤ ، رات کو دیر تک جاگنا اور سونے سے قبل دیر تک اسمارٹ فون پر آنکھ گڑا کر سوشل میڈیا پر مشغول رہنا اس کا برا سبب ہے، ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان کے ۵۹؍ فی صد لوگ گیارہ بجے رات کے بعد ہی بستر پر جاتے ہیں اور ان میں سے اٹھاسی (۸۸) فی صد لوگ سونے سے قبل موبائل کا استعمال کرتے ہیں، اس سے نیند پر اثر پڑتا ہے اور بہت سارے لوگ کروٹ بدل بدل کر رات گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے میڈیکل سائنس نے ایک بڑا بازار نیند لانے اور گہری نیند سلانے کے لیے سجا لیا ہے ، اس وقت صرف نیند لانے کے لیے جو سامان بازار میں دستیاب ہے وہ ۲۰۲۱ء میں ۳ء ۷۴ بلین امیریکی ڈالر کا تھا، اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک یہ مار کیٹ تقریبا ۹۷ء ۱۲۴ ملین امریکی ڈالر تک پہونچ جائے گا، اور تب کہنا چاہیے کہ نیند آئے گی نہیں بلکہ خریدی جائے گی ، ہمارے بچوں کو سلانے کے لیے مائیں، دادیاں، وغیرہ لوریاں سناتی تھیں اور بچہ ا ن لوریوں کو سن کر سوجاتا تھا، یہ لوریاں الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہوتی تھیں، ایک لوری بہت مشہور تھی’’ آجورے نینیا، بچے کو سلادے، آدھی روٹی روز دیو ٹکری مہینہ، مسلم گھروں میں حسبی ربی جل اللہ مافی قلبی غیر اللہ پڑھ کر بچوں کو سلایا جاتا تھا، اب دادی ، ماں وغیرہ کے پاس وقت نہیں ہے ، اب میوزک نکال دی گئی ہے ، جسے سن کر نیند کی آغوش میں  انسان چلا جاتا ہے اسے لوفائی سلیپ میوزک کا نام دیا گیا ہے ، دوائیاں، سلپنگ پیڈ، خواب آورپینٹس اور نیکر وغیرہ کی خریداری پر موٹی رقمیں خرچ کی جا رہی ہیں،اس کے باوجود رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ جاتی ہے، اسلام میں سونے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے کہ با وضو سویا جائے، دائیں کروٹ سویا جائے، ایک خاص ہیئت اختیار کیا جائے اور زبان کو ذکر اللہ سے تر رکھا جائے تا آں کہ آنکھوں میں نیند بھر آئے اور آپ سوجائیں، تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آنکھوں کو بند کرکے درود شریف پڑھنا شروع کر دیجئے، آپ کا تناؤ دور ہوگا اور آپ تیزی سے نیند کی آغوش میں چلے جائیں گے ، آزما کر دیکھیے، کسی بھی دوا اور سائنسی آلات سے یہ زیادہ مفید اور کا ر گر ہے ۔

جمعہ, مئی 05, 2023

مغلیہ حکومت کے نقوشمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مغلیہ حکومت کے نقوش
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے مغلیہ عہد حکومت کے اسباق نکال باہر کر دیے گیے ہیں، تاکہ طلبہ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ نہ پڑھ سکیں، گاندھی اور گوڈسے کے متعلق اسباق کو بھی نکال دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل گاندھی جی کے کردار سے واقف نہ ہو اور جد وجہد آزادی میں جو ان کا رول رہا ہے اس سے وہ غافل رہ جائیں، گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے کی جو شرمناک حرکت کی تھی وہ بھی نئی نسل تک منتقل نہ ہو سکے ، پھر کچھ دنوں کے بعد ساورکر، گروگوالکر اور گوڈسے کو ملک کا ہرو بنا کر پیش کیا جائے گا، اور بتایا جائے گا کہ اصل یہی لوگ تھے، مؤرخین نے غلط باتیں کتابوں کی زینت بنا رکھی تھی، اسے نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے ۔
 در اصل فرقہ پرستوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ مغلیہ دور حکومت کے نقوش نصاب کے علاوہ پورے ہندوستان میں زمین پر بکھرے پڑے ہیں، تاج محل ، لال قلعہ، پرانا قلعہ، گولکنڈہ، آگرہ کا قلعہ دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار وغیرہ ہندوستان کی سر زمین پر شاندار جاندار اور تابناک عہد رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں، ان کو نیست ونابود نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ بعض سر پھرے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو منہدم کرکے اس پر مندر بنانے کی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سر پھرے تو سر پھرے ہی ہوتے ہیں، جنون اور پاگل پن عروج کو پہونچ جائے تو ایسے ہفوات وبکواس زبان سے نکلنے لگتے ہیں، یہ عمارتیں جب تک روئے زمین پر موجود ہیں اور ان کے اوپر جو کتبات لگے ہوئے ہیں، وہ عہد رفتہ کی تاریخ سیاحوں کو بتاتے رہیں گے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے عہد حکومت کو مٹانا آسان نہیں ہے ،اس لیے کہ مغلوں نے جادہ جادہ اپنے یادوں کے نقوش چھوڑے اور آنے والے قافلوں کے وہ رہنما رہے ہیں ۔

جمعرات, مئی 04, 2023

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت
Urduduniyanews72
مدھوبنی 5 /مئی (پریس ریلیز) گزشتہ دنوں ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی جنرل سیکرٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار کے بڑے صاحبزادے انس امام دلشاد کا نکاح ہمراہ طیبہ حسن بنت انظار الحسن ،پرسونی ،بسفی ،مدھو بنی ،مفکر ملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ،قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے پڑھا یا، اور 2/مئی کو ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی، اس موقع پر علاقہ اور ریاست کی اہم شخصیات کی شرکت ہوئ،
اس موقع پر شریک ہوکر نو عروس جوڑے کو دعاؤں سے نوازنے والے والے حضرات میں جناب ڈاکٹر فیاض احمد ،ممبر آف پارلیمنٹ راجیہ سبھادہلی ،پروفیسر ڈاکٹر سرور عالم ندوی، صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی، جناب حماد قاسم، سیکریٹری رفاہ امت سوسائٹی دریا پور پٹنہ ،جناب ارشد عالم ،سیکریٹری جامع مسجد دریا پور سبزی باغ پٹنہ ،جناب ریاض الدین خوشنود، خازن رفاہ امت سوسائٹی پٹنہ ،الحاج اشرف عالم، کوہ نور جوئیلرس پٹنہ، مولانا عبد الرحیم برہولیاوی حاجی پور، مفتی شکیل احمد قاسمی صدر مدرس بشارت العلوم کھرما پتھرا ،دربھنگہ ،ہیرا مکھیا پتونا، شاکر حسین عرف ابو، سابق مکھیا نورچک ،ڈاکٹر محمد عالم عشورہ، ڈاکٹر سرفراز پٹنہ، افضل حسین پٹنہ، نظام الدین چاند پٹنہ، کانگریسی لیڈر صابر مستان پرسونی ،قاضی اعجاز احمد قاسمی دملہ، مولانا محمد اکرم قاسمی پتونا، مولانا اعجاز احمد اسراہی، مولانا نسیم احمد نعمانی پرسونی، ماسٹر عزیز احمد پرسونی، مولانا شعیب سلفی سمیلا، اظہر امام اشکی، پیغمبر پور، اور حافظ عبد الرحمن دہلی وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں معززین شریک ہوئے، اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے دعائیں دیں.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...