Powered By Blogger

جمعرات, جون 01, 2023

حج کی سماجی معنویت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حج کی سماجی معنویت ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
 حج اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے ، جس پر اسلام کی پر شکوہ، بلند وبالا، اخلاق وکردار سے مزین عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر حج مقبول نصیب ہوجائے تو انسان اس سفر سے ایسا پاک وصاف ہو کر لوٹتا ہے، جیسے وہ ماں کے بطن سے آج ہی نمودار ہوا ہے، دنیاوی کثافت، گناہوں کی غلاظت سے پاک وصاف، نو مولود بچے کی طرح معصوم ۔ ہر آدمی کے لیے یہ سفر ممکن نہیں، کبھی مال ودولت کی کمی رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی جسمانی اعذار سفر کی اجازت نہیں دیتے؛ اس لیے حج کی فرضیت کے لیے استطاعت کی قید لگائی گئی، کیوں کہ حج میں سفر بھی کرنا ہوتا ہے، اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، اب اگر آدمی بیمار ہے ، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کر سکتا ، قید میں ہے تو اس سے نکل نہیں سکتا، تندرست وتوانا ہے اور مالدار بھی، لیکن راستہ پُرا من نہیں ہے، یا ویزا میں کوئی رکاوٹ آگئی، ان تمام صورتوں میں انسان ’’غیرمستطیع‘‘ ہے، اس لیے حج فرض ہی نہیں ہوگا، تا آں کہ یہ اعذار ختم ہوجائیں۔
 حج کی فرضیت شرعی مصلحتوں کے علاوہ اپنے کو دوسرے سے ممتاز سمجھنے والی بیماری کو دور کرنے کے لیے ہے، یہ بیماری انسان ہیں ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جہاں کوئی نہیں، وہاں ہوا، کا ٹھکانہ  ہوتا ہے، جو آدمی غریب ہے، پلاسٹ اور چھپر کے مکان  میں زندگی گذارتا ہے، خانہ بدوش ہے اس کے اندرخود کو ممتاز اور نما یاں کرنے کی بیماری پیدا ہی نہیں ہوتی، اس لیے غرباء پر حج فرض نہیں کیا گیا، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بلند وبالا نقشوں کی عمارتیں، قسم قسم کے ڈیزائن کے کپڑوں کا استعمال یہ خود کو الگ تھلگ اور ممتاز دِکھنے کے لیے ہی کئے جاتے ہیں، جینس پینٹ میں کئی کئی جگہ پھٹا ہونا خواتین کے کپڑوں میں آگے پیچھے لٹکتے ہوئے چتھرے ، یہ سب امتیازہی کے لیے لیے تو ہیں، غریب تواپنا تن ڈھک لے یہی بڑی بات ہے، وہ قسم قسم کے ڈیزائن والے کپڑے کہاں سے لائے گا، اس لیے غریبوں کو اس سے الگ رکھا گیا اور امراء پرعموما اس بیماری کا غلبہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس پر حج فرض کیا گیا ۔
 حج صرف محبت وعبادت کا سفر نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بڑی سماجی معنویت ہے، اس سفر کا آغاز احرام کے کپڑوں سے ہوتا ہے، یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہوتے، اور عموما رنگین بھی نہیں ہوتے ؛ کیوں کہ ان سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، ٹوپی کے مختلف ڈیزائن ہوتے ہیں اور یہ بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہم کس طرف کے ہیں، کس پیر کے مرید اور کس مسلک کے ترجمان ہیں؛ اس لیے ٹوپی سرے سے اتار دی جاتی ہے، تاکہ اللہ کے مہمان کی صرف ایک شناخت ’’ضیوف الرحمن‘‘ کی رہ جائے۔ احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد کفن کی یاد آتی ہے، اور آدمی محسوس کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں اسی طرح کپڑوں میں لپیٹ کر لوگ قبر میں رکھ دیں گے، موت کی یہ یاد لوگوں کو اچھے کام کی طرف راغب کرتی ہے، اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ احرام کی دورکعت نماز اللہ کی بندگی اور اس کی بڑائی کے استحضار کے لیے ہوتا ہے۔
 احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد لبیک اللہم لبیک پڑھ تا ہے، اور بندہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریفیں اور نعمتیں سب تیری ہیں اور تیری حکومت میں کوئی شریک نہیں، یہ اعلان انسانی ذہن کو ایک خاص رخ پر لگا تا ہے، بندہ اللہ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے، اللہ کی بڑائی تسلیم کرتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تو ہی بڑا ہے، سماج کے سارے جھگڑے اپنے کو بڑا سمجھنے کی  وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، ’’میں‘‘ نے اس دنیا کو تشدد کی آماجگاہ بنا دیا ہے، جب حاجی یہ ترانہ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن سے اپنی بڑائی کا خیال جاتا رہتا ہے ۔
 وہ مکہ پہونچ کر اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں ، برکتوں ، نعمتوں سے بڑا حصہ پالیتا ہے، وہ حجر اسود کا بوسہ لیتا ہے، نہیں پہونچ پاتے تو دور سے ہی ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف کرکے چوم لیتا ہے، حجر اسود کبھی سفید تھا، اب تو کالا ہی ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم گورے ضرور ہیں ، لیکن کا لے کو اپنے سے قریب کرنے بلکہ چومنے تک کے لیے تیار ہیں۔
 طواف میں پوری دنیا کے مختلف رنگ ونسل کے لوگ ہوتے ہیں، جو صرف اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے گھر کا طواف لگا رہے ہوتے ہیں، اس میں سماجی طور پر یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ رنگ ونسل ، ذات وبرادری اور بود وباش کی اہمیت نہیں ہے ، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے پر کالے کوکو ئی فوقیت حاصل ہے، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے۔
 طواف کرتے وقت داہنا کاندھا کھولا جاتاہے اور شروع کے چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلا جاتا ہے، تاکہ دیکھنے والے جسم کی لاغری کو کمزوری نہ سمجھیں، اس کے اندر کی طاقت وتوانائی کو محسوس کریں اور کسی کو جسمانی اعتبار سے حقیر سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر آدمی اپنی عاجزی، کم مائیگی اور فروتنی کا اقرار کرتا ہے، اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہہ کر اور سجدے میں سر رکھ کر تلبیہ میں جو اعلان کیا تھا اس کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے، اور کبر و انانیت سے پاک وصاف دل لے کر وہاں سے اٹھتا ہے، پھر شکم سیر ہو کر زمزم پیتا ہے، زمزم کا یہ پانی جسمانی وروحانی امراض کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ چشمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیر رگڑنے سے پھوٹا تھا، یہ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے پتھر یلی زمین سے میٹھے پانی کا چشمہ نکال دیا، یہ اللہ کی قوت کاملہ کی روشن دلیل ہے۔
 صفا ومروہ کا چکر لگاتے وقت اسے حضرت ہاجرہ کی وہ بے کلی اور بے چینی یاد آتی ہے جو وہ بچے کے لیے پانی کی تلاش میں برداشت کر رہی تھیں، جب بچہ نظر وں سے اوجھل ہوجاتا تو وہ کس طرح دوڑتی تھیں،’’ میلین اخضرین‘‘ اسی کی یا دہے، حضرت ہاجرہؑ کے اس عمل کی معنویت کو محسوس کرنے کی غرض سے عورتوں کو نہیں، مردوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ماں کی بے تابی اور بے چینی کو مرد بھی محسوس کریں ۔
 یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حج کا سفر بیت اللہ کے نام پر ہی ہوتا ہے، لیکن سوائے طواف کے حج کا کوئی عمل بیت اللہ میں نہیں ہوتا، حج کے لیے انسان پہلے منیٰ جاتا ہے ، جہاں خیموں کا شہر آباد ہے، بلند وبالا عمارت میں رہنے سے جو فخر اور امتیاز کی بیماری پیدا ہو گئی تھی ، وہ ان خیموں میں رہ کر دور ہوجاتی ہے، پھر عرفہ جاتا ہے، وہاں بھی خیموں کا شہر ، بندہ روتا ہے، گڑ گڑا تا ہے اور لمبی لمبی دعائیں مانگتا ہے، اس سے بندہ کا یقین اللہ پر مزید پختہ ہوجاتا ہے او راس کے ذہن ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، بقیہ سب محتاج ہیں، محتاجوں سے کیا مانگنا ، جو خود محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔
عرفہ سے روانگی مزدلفہ کو ہوتی ہے، یہاں خیمہ بھی نہیں ہے، کھلے آسمان کے نیچے رات گذاریے، یہاں سماج کے وہ لوگ کثرت سے یاد آتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ان کی پریشانی ، بے خوابی اور رات بھر کروٹ بدلنے کے کرب کاتھوڑا بہت احساس ہر ایک کو ہوتا ہے، یہاں کنکری چنتے ہونے خیال ان غریبوں کا بھی آتا ہے جو کھیت کھلیان میں کرے دانے دُنکے چُن کر اپنی زندگی گذارتے ہیں مزدلفہ سے لوٹ کر یہ کنکریاں جمرات پر ماری جاتی ہیں، یہ جمرات شیطان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ماری گئی کنکریوں کی یاد دلاتے ہیں، لیکن اب تو شیطان نہیں ہے، یہ کنکریاں در اصل اپنے نفس امارہ کو ماری جاتی ہے اور اگرپہلے دن جمرہ عقبیٰ اور بقیہ دو دن تینوں جمرات کی رمی کے بعد نفس امارہ کی موت نہیں ہوئی اور انسان نفس مطمئنہ کے مرحلہ تک نہیں پہونچا تو سمجھنا چاہیے کہ کہیں کوئی کمی رہ گئی ۔ اس کے بعد قربانی دی جاتی ہے، قربانی کے جانور کو ذبح کے بعد وہاں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ، لیکن اگر آپ دیکھ سکیں تو پائیں گے کہ جانوروں کی آنکھیں عموما کھلی رہتی ہیں، اور زبان حال سے یہ سوال کرتی ہیں کہ میں نے تو اللہ کے نام پر جان قربان کر دیا، لیکن کیا تم نے بھی اپنے دل میں چھپے کینہ ،کدورت ، فسق وفجور اور خواہشات کی قربانی دی ، اگر آپ نے ایسا کر لیا تو میری قربانی رائیگاں نہیں گئی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میری قربانی رائیگاں چلی گئی، قربانی سے فارغ ہو کر وہ اپنے بال منڈواتا ہے تاکہ سابقہ زندگی کی کثافتوں کو اتار پھینکے اب وہ ایسا ہو گیا ، جیسے وہ معصوم ساآج ہی پیدا ہوا ہے، ساری پاکی حاصل ہو گئی تو وہ احرام کے کپڑے اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر پھر کعبۃ اللہ آتا ہے، اور اللہ کی عظمت کے گن گان کرتا ہے، مدینہ طیبہ کی زیارت پہلے اگر نہیں کیا ہے تو وہ زیارت کے لیے جاتا ہے اور اس رحمۃ للعالمین پر درود وسلام پیش کرتا ہے ، جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں انقلاب آیا؛ بلکہ یہ پوری کائنات ان کے صدقے اور طفیل میں بنی، مدینہ کے مقررہ ایام گذار کر حاجی اپنے گھر لوٹتا ہے، وہ وہاں سے کھجور اور زلزم کے ساتھ اللہ پر توکل ، تحمل ، برداشت اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونے اور رہنے کا تحفہ لے کر اپنے گھر لوٹنا ہے، جس کی وسماجی اہمیت ومعنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کرن رجیجو کی رخصتی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

کرن رجیجو کی رخصتی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
 وزارت قانون وانصاف سے کرن رجیجو کو رخصتی مل گئی ہے اور ان کو ارضیاتی سائنس کی وزارت دی گئی ہے ، جب کہ وزارت قانون وانصاف کا کام اب ارجن رام میگھوال آزادانہ طور پر وزارت ثقافت کے ساتھ دیکھیں گے ، نریندر مودی کے دوسرے دور حکومت میں وزیر قانون روی شنکر پرساد بنے تھے، دو سال کے اندر ہی ان سے یہ وزارت لے کر رجیجوکو سپرد کی گئی اور ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ انہیں ہٹا کر میگھوال کو وزیر قانون وانصاف بنا دیا گیا، اس طرح کرن رجیجو سے وزارت قانون لے کر جو وزارت دی گئی ہے وہ انہیں زمین پر پٹک دینے کے مترادف ہے، ارضیاتی سائنس زمین کے بارے میں جاننے سمجھنے، برتنے کا ہی دوسرا نام ہے، کرن رجیجو کو قانون سے تھوڑی بہت واقفیت تھی گو وہ روی شنکر کے پائے کے قانون داں نہیں تھے، ارضیاتی سائنس ہے تو زمینی کام؛ لیکن ان کے سر کے اوپر سے گذرجانے والا محکمہ ہے، اگر ان کی وزارت کے عملہ نے ایمانداری سے ان کا ساتھ نہیں دیا تو اس محکمہ سے بھی ناکامی ان کے حصے میں آئے گی۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وزارت قانون سے کرن رجیجو کی چھٹی کیوں ہوئی، اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ وہ عدلیہ سے ٹکرانے لگے تھے، ان کے بیانات نے عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا اور بہت سارے ریٹائرڈ جج ان کے خلاف میدان میں اتر آئے، انہوں نے ججوں کی تقرری کے موجودہ کالجیم سسٹم پر سخت بیانات دیے اور اس کے اختیارات ختم کرنے کی مہم چلائی، سبکدوش ججوں پر انہوں نے ہندوستان مخالف گروہ کا حصہ بننے تک کے سنگین الزامات لگائے، اس پر تین سو سے زائد وکلا نے ان کے خلاف بیان دیا کہ وزیر قانون دھمکیاں اور بے بنیاد الزامات لگا کر عوام میں یہ احساس اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت پر تنقید نا قابل برداشت ہے۔ان کے اس رویہ سے عوام میں حکومت کی شبیہ مسلسل بگڑتی چلی گئی تھی۔
 اس درمیان عدلیہ نے بعض ایسے فیصلے دیے جو بھاجپا حکومت کے منصوبوں کے خلاف تھے، عدالت نے الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفافیت لانے کے لیے تقرری کے نظام میں بڑی تبدیلی کا حکم صادر فرمایا، کرناٹک میں چار فی صد مسلم رزرویشن کو ختم کرکے اسے لنگایت اور کلینگا برادریوں کو دیے جانے کے حکم پر روک لگا دی، مرکزی حکومت کے خلاف دہلی کے لفٹنٹ گورنر کے اختیارات محدو کر دیے، اور وزیر اعلیٰ کو اختیارات سونپ دیے، مہاراشٹر میں ادھو حکومت گرانے میں گورنر کے کردار کو غیر قانونی قرار دے کرحکومت کے منہہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا کہ مرکزی حکومت بلبلا اٹھی اور اس نے عدالت کے اس رخ کو کرن رجیجو کی کارستانی سمجھا اسے محسوس ہوا کہ عدلیہ کے ساتھ تصادم کا یہ طریقہ غیر مناسب ہے اور اب صرف ایک سال کا عرصہ انتخاب میں رہ گیا ہے، ایسے میں اگر منظر بدلنا ہے تو سامنے سے کرن رجیجو کوہٹا نا ہی پڑے گا، چنانچہ ان کی چھٹی کردی گئی، وہ یقینا اسی لائق تھے، کیوں کہ جمہوریت کے تین ستون کے منہدم ہونے کے بعد عدالت ہی ایسی جگہ ہے جس پر عوام کا اعتماد کسی درجہ میں قائم ہے اگر اس کے کردار کو مشکوک کردیا جائے گا تو جمہوریت سے رہی سہی توقعات بھی ختم ہو جائے گی ۔

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظرمفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لیے آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ واحدہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک امت اور ایک جماعت بنایااور مسلمانوں کو متحد رہنے اور اجتماعی نظام کو برپا اور بر قرار رکھنے کی تعلیم دی، اس سے جو الگ ہوا، اسے جہنم کی وعید سنائی، اللہ رب العزت نے اعتصام بحبل اللہ یعنی دین کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا، اور تفرقہ سے دور رہنے کی تلقین کی۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے خلافت کو علی منہاج النبوة باقی رکھا اور امیر المومنین کے لقب سے یاد کیے گیے، بعد میں ”المومنین“ کا لفظ ہٹ کر صرف ”امیر“ رہ گیا، چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ امیر ہی سے مشہور ہوئے ،پھر دھیرے دھیرے یہ امیری، ملوکیت اور شہنشاہیت میں بدل گئی، پورے دور بنو امیہ اور بنو عباسیہ میں یہی کیفیت رہی، اسلام کے بعض اصول وضوابط پر عمل ہوتا رہا اور بیش تر امور بادشاہوں کے چشم وابرو کے اشارے پر انجام پذیر ہوتے رہے، ایسے میں دھیرے دھیرے خلافت ختم ہو گئی اور عربوں میں ملوکیت کا غلبہ ہو گیا، مرکزِ خلافت عربوں سے نکل کر ترکی منتقل ہوا، یہاں بھی سلطانی جمہور کا ایک طویل دور گذرا، پھر خلافت عثمانیہ قائم ہوئی، دور دراز کے ممالک اس کے زیر نگیں تھے، ہندوستان میں گو انگریزوں کی حکومت تھی؛ لیکن مسلمان خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے، مغلیہ حکومت کے ز وال کے بعد وہ خلافت عثمانیہ کو علامتی طور پر گم گشتہ سرمایہ سمجھتے تھے،28/ جولائی 1914سے 11/ نومبر1918ءتک پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے حلیف ممالک کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا، مغربی ممالک نے معاہدہ لوزان کرکے ترکی کو بے دست وپا کر دیا، اور ترکی کا ”مرد بیمار“ اس کا مقابلہ نہیں کر سکا، اور بالآخر یکم نومبر 1922ءکو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، ہندوستان میں زبر دست خلافت تحریک چلی؛ لیکن حاصل کچھ نہیں نکلا۔کچھ سالوں قبل ترکوں کا ”مرد بیمار“ تندرست وتوانا و دانا ہو کر ہمارے سامنے آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی_
 مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کو اللہ رب العزت نے دور اندیشی اور فکر وفہم کی دولت سے مالامال کیا تھا، اپنی دور اندیشی سے انہوں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے، وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں بھی سلطانی جمہور کا زمانہ آنے والا ہے، ایسے میں خلافت علی منہاج النبوة کا قیام ہندوستان میں ممکن نہیں ہوگا، انہوں نے ایک نیا تصور پہلی بار ”تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة“ کا دیا، یعنی نبوی طریقہ کار کو سامنے رکھ کر اپنے اوپر شریعت کو نافذکیا جائے، ان کی اس نئی سوچ اور فکر کی ہندوستانی علماءنے تائید کی، مولانا نے تین مرحلوں میں الگ الگ پلیٹ فارم سے اس فکر کو عام کرنے کے لیے تحریک چلائی، پہلے انجمن علماءبہار بنایا، پھر جمعیت علماءکی داغ بیل اکابر علماءکے ساتھ مل کر ڈالی اور بالآخر اسلام کے اجتماعی نظام کی بقاءاوراس کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے 26جون 1921ءمطابق 19شوال 1339ھ کوغیر منقسم بہار میں ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ کی جدوجہد سے امارت شرعیہ کاقیام عمل میں آیا، یہ دراصل خلافت راشدہ کی عدم موجودگی میں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی ایک شکل اور ملت کی شیرازہ بندی کے لئے ایک شرعی تنظیم ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی ؒ نے امارت شرعیہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ”کسی ایک لائق شخص کی سربراہی میں افراد امت کی ایسی شیرازہ بندی کہ اس پر جماعت کا اطلاق ہو سکے، احکام شرعی کا نفاذ واجراءبقدر امکان انتظام پا سکے اور جمعہ وجماعت، نکاح وطلاق ومیراث وغیرہ کے احکام کی تنفیذ ہو سکے اور اگر اس سے زیادہ قوت ہو تو استخلاف وتمکین فی الارض کا وہ فرض بھی ادا ہو سکے جس کی بشارت قرآن پاک نے دی ہے“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ:9)
مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے امارت کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ”اس قسم کے نظم ملت سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کی وحدت نمایاں ہو، ان کے تمام مذہبی وملی کام منظم ہوں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں، ان کے مصارف مداخل ملی میں ایک نظم پیدا ہو اور اصلی جماعتی روح ان میں نمایاں ہو، دار القضائ، دار الافتاءاور بیت المال کا قیام ہو، ان کے غریبوں اور محتاجوں کی با قاعدہ امداد ہو، ان کی معاشرتی خرابیوں کی اصلاح ہو، تبلیغ واشاعت کا سلسلہ قائم ہو، ان کے مکاتب ومدارس مالی نزاع سے نجات پائیں“(ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ 96)
اس تنظیم میں کلیدی حیثیت امیر شریعت کو حاصل ہے، سارے امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے ان کی سمع وطاعت معروف میں واجب ہے، زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں انجام پائیں، اس کی کوشش کی جاتی ہے؛ البتہ ان کی حیثیت امیر کی ہوتی ہے، امیر المومنین کی نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ایک کارکن نے اپنی ترقی سے متعلق درخواست پر بمد خوش کرنی مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس کو امیر المومنین لکھ دیا تھا تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہاں امیرشریعت ہوتا ہے، امیر المومنین نہیں۔
 ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی لکھنؤ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: ”امیر شریعت امام اعظم نہیں ہے، جس کی ولایت عامہ تمام ممالک اسلامیہ کو محیط ہوتی ہے ؛بلکہ وہ والی ہے اور اس کی ولایت عامہ ان بلاد وقریہ کو محیط ہوتی ہے کہ جس کی ولایت اس کے سپردکی گئی ہو“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت۔ صفحہ 10)
 امارت شرعیہ کے شعبہء جات میں تنوع ہے، یہاں مذہبی رہنمائی اور عائلی امور میں ظلم اور ناانصافی کو دور کرنے کے لئے دارالقضاءودارالافتاءقائم ہے،تعلیم کے میدان میں دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی اور بڑی تعداد میں مکاتب قائم ہیں، عصری علوم کے لئے امارت پبلک اسکول، مولانا منت اللہ رحمانی اردوہائی اسکول،قاضی نورالحسن اسکول اور پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ مستحکم اور منظم انداز میں کام کررہے ہیں، مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مزید معیاری بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ قائم ہے، خدمت خلق کے لئے اسپتال اور غریب ومسکین،بیواوءں کے وظیفے،غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد،امداد علاج اور زمینی وآسمانی مصیبت کے وقت ریلیف کا مضبوط نظام ہے، جس کی کوئی نظیر دوسری نہیں ملتی، یہ سارے کام بیت المال سے انجام پاتے ہیں، اس نظام کومضبوط اور مستحکم انداز میں زمینی طورپر نافذ کرنے کے لئے اب تک مختلف ادوار میں آٹھ امراءشریعت بشمول موجودہ امیر شریعت مفکرملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ پوری تن دہی اور لگن سے کام کرتے رہے ہیں، ان کی معاونت کے لئے ہردور میں نائب امراءشریعت کا بھی سلسلہ رہاہے،موجودہ نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی ہیں،اورایک بڑا عملہ امرائے شریعت کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے خدمت کے جذبہ سے نظامت کی نگرانی میں کام کرتارہاہے،اور اجتماعی طریقہء کار کو روبعمل لاکر امارت شرعیہ کے کام، کاز اور نصب العین کو آگے بڑھانے میں اپنی توانائی لگائی ہے،یہاں مسلمانوں کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد کرنے اور تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة پر زندگی گذارنے کے لیے محنت ہوتی ہے، اس کام کو کرنے کے لئے نظامت کی نگرانی میں شعبہء تنظیم مسلسل سرگرم عمل ہے اور گاؤں گاؤں میں تنظیم بنانے کا عمل جاری ہے۔ 
امارت شرعیہ اپنے قیام کے زمانہ سے ہی فعال اور متحرک رہی ہے اور لوگوں کی حمایت ہردور میں اسے حاصل رہی اور یہاں کے امرائے شریعت نے جراءت اور اولوالعزمی کی تاریخ رقم کی، حکمران وقت سے آنکھوں سے آنکھیں سے ملاکر بات کیا اور ہردور میں ملت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے،معاملہ طلاق ثلاثہ کا ہو یا سی اے اے کا،مسلم پرسنل لا پر آنچ آرہی ہو یا فساد کی آگ میں برباد مسلمانوں کا معاملہ، تمام موقع سے امارت شرعیہ نے ملت کو بیدار کرنے کا کام کیااور کئی معاملوں میں اس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ امارت شرعیہ نے اس طریقہ کار سے ملت میں نفع رسانی کا کام کیا اور قدرت کا اصول یہ ہے کہ نفع بخش چیز باقی رہتی ہے، اور غیر نفع بخش چیزیں فنا ہوجاتی ہیں، امارت شرعیہ کا سو سال سے زائد سے مسلسل اور متواتر خدمت انجام دینا اور باقی رہنا اس کی نفع بخشی کی دلیل ہے۔
احکام خداوندی واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا پر عمل اور امت کو ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گذارنے کے لئے اس ادارہ سے وابستگی ضروری ہے،اسلام کا حکم یہی ہے کہ تم جہاں کہیں رہو ایک امیر کے ماتحت زندگی گذارو، اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت بھی کرو، اگر کوئی اجتماعی نظام سے نہیں جڑا توان احکام پر عمل کی دوسری کوئی شکل موجود نہیں ہے،اس لئے امارت شرعیہ سے وابستگی ہماے لیے دینی، ایمانی اور شرعی تقاضہ ہے، اسی لئے بڑوں نے کہاہے کہ امارت شرعیہ ہمارے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے اور خدمات کے اعتبار سے یہ ہمارے ملی وجود کی روشن علامت ہے۔
اس شرعی تقاضہ کی تکمیل سے دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کلمہ کی بنیادپر اتحاد کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے ملت کے مفاد میں یکسو اور یک جٹ ہوکر کام کرنے کا مزاج پیدا ہوتاہے، اتحاد کی قوت کی وجہ سے بہت سارے مسائل حکومتی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اور سماجی ،سیاسی میدان میں اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے، جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، جس قدر امارت شرعیہ سے لوگ جڑیں گے اسی قدر اس کی افادیت ملکی سطح پر بھی بڑھتی جائے گی اور ہرمیدان میں کامیابی قدم چومے گی، عصر حاضر میں انفرادی کاموں سے زیادہ ٹیم ورک کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کاموں کے پھیلاﺅ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی ہرمحاذ پر کام کرے ،ایسے میں مختلف قسم کی صلاحیتوں کے لوگ جب امارت شرعیہ سے جڑیں گے اور ان کا تعاون ملے گا تو کام تیزی سے نمٹے گا اور ٹیم ورک کے ذریعہ یہ ممکن ہوسکے گاکہ ہم مختلف میدانوں میں تیزی سے معیاری انداز میں کام کو آگے بڑھائیں۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ٹیم ورک ہے اور یہاں ہر ایک کی اپنے اعتبار سے بڑی اہمیت ہے، ہمیں اس اہمیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

منگل, مئی 30, 2023

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد 
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 29/مئی 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم قاسمی ) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے  قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں چار طلبہ وطالبات نے آغاز قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن کا آغاز کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
علقمہ بن عرشی
حذیفہ بن عرشی
ارقم حیات بن فضل ربی
نایاب حسین بنت ساجد علی۔
اس موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم کے أستاذ قاری ابوالحسن نے سورہ فاتحہ کی تلاوت سے باضابطہ آغاز کرایا ،  مدرسہ ضیاء العلوم کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔

پیر, مئی 29, 2023

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __
#Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
ریزو بینک آف انڈیا (RBI)نے اپنے ایک حکم نامہ میں دو ہزار روپے کے نوٹ کو ستمبر تک بینک میں جمع کرادینے کو کہا ہے،اس  نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ چار ماہ گذرنے کے بعد بھی اگر کسی کے پاس یہ نوٹ ہوگا تو اسے نا قابل قبول نہیں قرار دیا جائے گا ، البتہ ایک بار میں دو ہزار کے بیس نوٹ ہی بدلے جا سکیں گے، بینک اس سے یہ دریافت نہیں کرے گا کہ اس کے پاس اتنے نوٹ کس طرح آئے،2016کی نوٹ بندی کے مقابل یہ نوٹ بندی نہیں جمع بندی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کے لیے ہمارے وزیر اعظم کو سامنے نہیں آنا پڑا ہے۔
 مرکزی حکومت نے 8نومبر2016 کو جب نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا، پانچ سو اور ایک ہزار کے پرانے نوٹ کو چلن سے خارج کیا تھا تو اسے کا لا دھن پر روک لگانے کی سمت میں اہم قدم قرار دیا تھا، کچھ دن کے بعد جب ایک ہزار کے بدلے دو ہزار کے نوٹ مارکیٹ میں آئے تو عوام نے جان لیا کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے، کیوں کہ کالا دھن جمع کرنے والے کو چھوٹا نوٹ لے کر اس سے بڑا نوٹ فراہم کر دیا گیا ہے، تاکہ وہ دو ہزار کے نوٹ کے ذریعہ زیادہ آسانی سے کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں، دیر سے ہی صحیح، سرکار کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ قدم اس کا غلط تھا، چنانچہ دو ہزار کے نوٹوں کی چھپائی کا کام 2018-19کے مالی سال میں بند کر دیا گیا، اب یہ نوٹ عام طور سے چلن میں نظر نہیں آرہے تھے، کیوں کہ کالے دھن والوں نے اسے جمع کر لیا تھا، آر بی آئی کے اس اعلان سے کا لے دھن کو سفید کرنے کا انہیںقیمتی موقع ہاتھ آیا اور وہ اس کا استعمال تیزی سے کر رہے ہیں، عوام کے پاس یہ نوٹ تو ہے ہی نہیں، اس لیے عوام پر اس حکم کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، رہ گیے کالے دھن والے تو ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ مختلف اوقات میں جتنے نوٹ چاہیں بدلیں، انہیں کسی شناختی کارڈ ، فارم یا کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمارا یہ ماننا ہے کہ نہ پہلے کی نوٹ بندی سے کالے دھن میںکوئی کمی آئی تھی اور نہ اب کہ دو ہزار کے نوٹ جمع کرنے سے کوئی فرق پڑے گا۔ دو ہزار روپے کا نوٹ نومبر 2016میں آر بی آئی ایکٹ 1934کے سیکشن 24(1)کے تحت سامنے لایا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کے خارج کرنے کے بعد صارفین کی ضرورت کو پورا کرنا تھا، آر بی آئی نے اسے جمع کرانے کی وجہ’’ کلین نوٹ پالیسی‘‘ پر عمل کرانا ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو دس، بیس ، پچاس اور سو روپے کے نوٹ اس کام کے لیے بڑی تعداد میں دستیاب ہیں، جنہیں صارفین نے لکھ لکھ کر گندہ کر رکھا ہے اسے جمع کرایا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ کلین ہو سکیں۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایک ہے عوامی سطح پر اس کرنسی کا چلن نہ ہونا اور دوسرا ہے قانونی سطح پر اس کو چلن سے خارج کرنا، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، عوامی سطح پر کسی سکے او رروپے کا استعمال نہ کیا جانا عوام کے حق پر چوٹ نہیں ہے، مثلا ایک پیسہ، دو پیسہ، تین پیسہ، پانچ پیسہ، دس پیسہ ، بیس پیسہ، چونی، اٹھنی، ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ عوامی سطح پر استعمال میں نہیں دکھتے ، کیوں کہ اب وہ ان کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ، اٹھنی تک کی تو اب کوئی چیز بھی نہیں ملتی، ایک روپے میں دستیاب ہونے والی اشیاء کو بھی اب انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، ان سکوں اور رروپیوں کو چلن سے باہر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا، لیکن یہ خود بخود ختم ہو گیے، اس کے بر عکس جب سرکار کسی نوٹ پر پابندی لگاتی ہے تو یہ عوام کی محنت کی کمائی کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور انہیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ 8نومبر 2016کی نوٹ بندی کے موقع سے دیکھا گیا۔

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج __
#@Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
 یونین پبلک سروس کمیشن(UPSC)نے تحریری وتقریری امتحان کے بعد نو سو تینتیس(933)امیدواروں کوکامیاب قرار دیا ہے، بیٹیوں نے اس بار پھر اچھی کار کر دگی کا مظاہرہ کیا اور اول ، دوم پوزیشن پر قبضہ کرنے کے ساتھ سر فہرست پچیس (25)کامیاب امیدواروں میں چودہ لڑکیوں نے اپنی جگہ بنائی، سرفہرست دس کامیاب امیدواروں میں ساتواں رینک وسیم احمد بھٹ نے حاصل کیا، پہلی، دوسری پوزیشن پر بہار کی لڑکیوں نے ریاست کا نام روشن کیا، اتفاق سے دونوں کے والد پہلے ہی مر چکے تھے اور ان دونوں نے ماں کی نگرانی میں وسائل سے محروم ہونے کے باوجود تیاری کی اور ہدف کو پالیا، ان میں سے ایک ایشی تاکشور، پٹنہ اور دوسری گریما لوہیا بکسر کی رہنے والی ہے، پتہ چلا کہ محنت اور مسلسل محنت ہی ہدف تک پہونچنے کا اصل ذریعہ ہے، ارادے پختہ ہوں تو راستہ کی رکاوٹوں کا دور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ بہار کی لڑکیوں نے ٹوپ کیا ہے بلکہ لگاتار تین سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔چھ سو تیرہ (613)لڑکے اور تین سو بیس (320)لڑکیوں اس بارکامیابی کا مزدہ سنایا گیا۔ 
اس امتحان میں شریک مسلم امیدواروں کی بات کریں تو بتیس (32)مسلم امید واروں نے کامیابی حاصل کی جن میں (9)لڑکیاں ہیں، سر فہرست کامیاب امیدواروں میں وسیم احمد بھٹ ساتویں، نوید احسان بھٹ84اور اسد زبیر رینک کے اعتبار سے 86نمبر پر ہیں، یہ نتائج بہت تشفی بخش تو نہیں، لیکن بہترہیں۔
 درجہ بندی کے اعتبار سے دیکھیں تو جنرل کوٹے سے 345ای ڈبلو ایس 99اوبی سی 263درج فہرست ذات اور قبائل سے 72امید وار منتخب ہو کر آئے، ان تمام کامیاب امیدواروں میں 38امور خارجہ 180آئی اے ایس، 200آئی پی ایس، 473مرکزی حکومت کے گروپ اے اور 31گروپ بی کی خدمات پر لگائے جائیں گے۔
 امسال کے نتائج امتحان کا جائزہ لیں تو مسلم امیدواروں کے حق میں یہ زیادہ بہتر نہیں ہیں، بلکہ مفت کوچنگ کے نام پر ملت کا جس قدر سرمایہ اس کام پر لگ رہا ہے، ہمیں اس تناسب سے کامیابی نہیں مل رہی ہے، تمام تر محنت کے باوجود ہمارے طلبہ اصل تحریری امتحان (مینس) میں نہیں لکھ پا رہے ہیں، اس لیے ان کے کٹ آف مارکس کم آ رہے ہیں۔2020میں ہمارے بچوں کا کٹ آف مارکس صرف پچاس فی صد تک جا سکا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ کس قدر پیچھے ہیں، جو تنظیمیں طلبہ کو یو پی ایس سی کے لیے تیار کرتی ہیں، انہیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری محنت میں کہاں کمی ہے، جو نتائج خاطر کواہ سامنے نہیں آ رہے ہیں، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم ان بچوں پر اپنی محنت اور سرمایہتو نہیں لگا رہے جو اپنی قابلیت اور ذہانت کے اعتبار سے اس امتحان کی تیاری کے لیے ہی موزوںنہیں ہیں۔

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

آزادی -انسان کا بنیادی حق ____
#Urduduniyanews72 #
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 محترم جناب مولانا محمد عبد الحفیظ اسلامی (1997)بن محمد قاسم صاحب مرحوم 1957میں غیر منقسم آندھرا پردیش اور موجودہ حیدر آباد دکن تلنگانہ کے ایک با شعور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، جامعہ نظامیہ حیدر آبادسے 1969میں فراغت حاصل کی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی تصنیفات وتالیفات سے استفادہ کرکے فہم قرآن اور فہم دین کی صلاحیت پائی ، رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کو زندگی کا نصب العین اور ایک خدا کی بندگی، تفرقہ سے اجتناب اور بنی آدم کے تصور انسانیت کی ترویج واشاعت کو زندگی کا مشن بنایا، اس فکر کو عام کرنے کے لیے ۲۵؍ نومبر 1996سے سینئر کالم نگار اور آزاد صحافی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور کثرت سے مضامین لکھنے، ہندوستان کا شاید ہی کوئی قابل ذکر اخبار ہوگا، جس میں مولانا کی تحریریں روز بروز نہ چھپتی ہوں، زود نویس ہیں، اس کے باوجود ان کے مضامین قرآن وحادیث سے مزین اور منطقی اسلوب سے آراستہ ہوتے ہیں، اس لیے قارئین پسند کرتے ہیں، موصوف کی کم وبیش سات کتابیں اے ایمان والو، رب کائنات کا فرمان، واقعہ معراج، تعارف قرآن ، تذکیرات، آداب بندگی اور آئینہ شہر وغیرہ طباعت کے مراحل سے گذر کر نذر قارئین ہو چکی ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں تلنگانہ اسٹیٹ اور مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں اعزازات وایوارڈ سے نوازا ہے۔
 انہیں مولانا عبد الحفیظ اسلامی کی کتاب آزادی- انسان کا بنیاد ی حق- دستور آسمانی اور منشور سلطانی کا تقابلی جائزہ ہے ۔ ایک سو چھپن صفحات کی یہ کتاب اس موضوع پر مختصر مگر دریا بکوزہ کے مصداق ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ اس کتاب کی قیمت دو سو روپے اردو کتاب کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، دار الاشاعت تعلیمات (فطرت انسانی) حیدر آباد اس کتاب کا ناشر ہے، ملنے کے پتے حیدر آباد کے ہی نصف درجن ہیں، سہولت مرکزی مکتبہ اسلامی چھتہ بازار حیدر آباد سے لینے اور منگوانے میں ہے، آپ چاہیں تو مصنف کے پتہ مکان نمبر  18-13- 8/J33/1 یونیک ریسیڈنسی، بنڈلہ گولہ، مین روڈ، جہانگیر آباد ، حیدر آباد 500005سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب کا پیش لفظ مفتی محمد ظہیر صادق حسامی ندوی نے لکھاہے ، آغازآغاز خود مصنف کتاب کا ہے، انتساب والدین مرحومین کے نام مولانا کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔
 کتاب کا آغاز اقوام متحدہ کا منشور ۔ ایک حسین دستاویز کے عنوان سے ہوتا ہے ، اس کے ذیل میں منشور کی حقیقت ، رکن ممالک ، حقوق کی پامالی، انسانی المیوں کو روکنے میں ناکامی اور اس جیسے کئی موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، مسئلہ فلسطین، بوسینیا میں مسلمانوں کے قتل عام، عراق پر حملہ، روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا بھی ذکر ہے، منشور سلطانی کے در وبست کا جائزہ لینے کے بعد مولانا دستور آسمانی پر آتے ہیں، اور ’’قوانین باری تعالیٰ میں انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت‘‘ قرار دیا ہے، اس ضمن میں آسمانی دستور کا دائزہ اطلاق، تصور حاکمیت ، فرائض کی اولیت، فطری اور پیدائشی حقوق، احترام آدمیت ، مشاورت کی اہمیت اور خلافت پر تفصیل سے مولانا نے روشنی ڈالی ہے، مولانا نے آسمانی حکمرانی کے لیے خلفاء راشدین کو مستقل نمونۂ تقلید قرار دیا ہے اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓکے دورخلافت کو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے۔ البتہ حضرت ابو بکر صدیق ؒ کے دور خلافت کا تذکرہ ذرا ہلکا ہے، حضرت عثمانؓ کا دور، ابتلاء وآزمائش کا ضرور تھا، لیکن اس موضوع سے متعلق ا ن کے دور کے کارہائے نمایاں کا ذکر بھی تفصیل سے آنا چاہیے تھا، کیوں کہ یہ نئی نسل کی ذہنی تطہیر کے لیے ضروری تھا، جو اس دور کے واقعات کو پڑھ کر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور صحابہ کرام کی طرف بھی ان کی نظر ترچھی ہوجاتی ہے، اور وہ اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کے حدیث ہونے کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ اس دور کے بڑے محقق محدث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد ؒ پالن پوری اسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیتے ہیں۔
 ان موضوعات سے فراغت کے بعد مولانا نے آداب معاشرت ، شخصی آزادی کے تحفظ ، اظہار رائے کی آزادی، مذہب ودھرم کے لیے زور زبر دستی نہیں اور بھارت دیش ایک عظیم جمہوریت کو بھی اپنی تحریر کا موضوع قرار دیا ہے۔
 مولانا کی تحریر کا اپنا رنگ وآہنگ ، فکر کی راستگی اور مطالعہ کی گہرائی ہے، قرآن واحادیث اور نصوص پر ان کی نظر اچھی ہے، اس لیے جو بھی لکھتے ہیں، مدلل لکھتے ہیں، البتہ حوالہ جات کے ذکر کا اہتمام کم کرتے ہیں، مضامین میں اس کی گنجائش بھی ذرا کم ہی ہوتی ہے، قاری حوالوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے اور مطالعہ کا تسلسل متاثر ہوجاتا ہے، مضمون کو پڑھتے وقت جو فکری ارتکاز اور یک سوئی ہونی چاہیے، وہ باقی نہیں رہتی ، اس لیے رسائل کے لیے جو مقالات لکھے جاتے ہیں، ان میں اس کا اہتمام کیاجاتا ہے، مضامین میں نہیں ، لیکن یہ مضامین ایک خاص ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں اکائی کے طور پر قارئین کے سامنے لائے گئے ہیں، اس لیے ان میں حوالوں کا اہتمام ہونا چاہیے تھا۔
 مولانا کی یہ کتاب اس خاص موضوع پر اہم ہے،اس موضوع پر مولانا اختر امام عادل کی کتاب ’’حقوق انسانی کا عالمی منشور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور مقبول ہے۔ کتاب خوبصورت چھپی ہے، دیدہ زیب ہے، سر ورق پر دو ہاتھوں کی تصویر ہے، جس نے زنجیروں کو توڑ دیا ہے، اس سے مصنف کی رجائیت کا پتہ چلتا ہے کہ ظلم وجور ، حق تلفی ، ستم شعاری کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور دستور آسمانی سے منشور سلطانی مغلوب ہو کر رہ جائے گا، بے اختیار فیض یاد آگیے، کہتے ہیں۔
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں 
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...