Powered By Blogger

جمعرات, جون 22, 2023

قربانی ___ سنت ابراہیمی✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قربانی ___  سنت ابراہیمی
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی(9431003131)
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلامی شریعت وتاریخ میں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ جو بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا ہے، اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار اور خاتم النبین ہیں، ان کے مقام ومرتبہ کو تمام انبیاء اپنی عظمت کے باوجود نہیں پہونچ سکتے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نبی کو فضیلت دی گئی وہ حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی ہے، یہ اہمیت وفضیلت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک درود شریف ہی درود ابراہیمی کے نام سے منسوب ہے اور اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور برکت کی دعا میں حضرت ابراہیم کا ذکر خاص طور پر مذکور ہے، اس کے علاوہ کسی انبیاء کے عمل کو امت محمدیہ کے لیے سنت نہیں قرار دیا گیا ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کو ہی نہیں ان کی زوجہ مطہرہ کے عمل کو بھی اسوۃ اور نمونہ بنادیا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین کی خاطر اپنا علاقہ، گھر ، در ، والدین کو چھوڑا اور دوسرے علاقہ میں پناہ لیا تو ’’ہجرت‘‘ دین کی حفاظت کے لیے امت محمدیہ کے لیے بھی مشروع قرار دی گئی ، حضرت ابراہیم نے وادیء غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا، تو دین کی خاطر اس کی بھی اہمیت بیان کی گئی، حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفاء مروہ کے چکر لگائے تو عمرہ اور حج کی سعی اس کی یاد گار قرار پائی، بچے کے نظر سے اوجھل ہونے پر حضرت ہاجرہ کی بے قراری اور دوڑ کر اس راستے کو عبور کرنااور اس وقت تک دوڑتے رہنا جب تک بچہ پھر سے نظر نہ آنے لگے، میلین اخضرین کی دوڑ اسی کی تو یاد گار ہے، یہ دوڑ حضرت ہاجرہ کی قیامت تک تمام عورتوں کے لیے کافی ہو گئی ، اس لیے اب انہیں اس جگہ دوڑ نہیں لگانی ہے، مردوں کو لگانی ہے، تاکہ وہ بھی محسوس کریں کہ بچے کی جدائی کا کرب کیسا ہوتا ہے، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے قربانی کے لیے لے جاتے وقت شیطان کا بھٹکانے کی کوشش کرنا اور اس کو بھگانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کنکریاں مارنا تاریخ میں مذکور ہے، رمی جمار حج کے موقع سے اسی کی یاد گار ہے، تمام تر شفقت ومحبت کے باوجود اللہ کے حکم پر سِن شعور کو پہونچ رہے بچے کو قربانی کے لیے لٹا کر گردن پر چھری چلا دینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی دل گردے کا کام ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس امت پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے ہی اس امت کا نام مسلمان رکھا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اس استفسار پر کہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے، انہوں نے ہی تمہارا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے، حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنا تواس قربانی کا نقطۂ عروج ہے، ہم صرف جانور کی قربانی پیش کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں، ایسانہیں ہے ، قربانی ہر طرح کی پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح حضرت ابراہیم کو اس کے ذریعہ آزمایا گیا، اسی طرح امت مسلمہ آج بھی آزمائش میں مبتلا ہے، یہ آزمائشیں جان ومال ، فصل وتجارت ، پھل وباغات کے ضیاع اور خوف کے ذریعہ ہم پر مسلط ہے، احوال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کی طرح ہیں تو اعمال اور قربانی بھی اسی انداز کی پیش کرنی ہوگی، ورنہ ہندوستان میں خصوصا دین وشریعت کے حوالہ سے مسلمانوں کو اور بھی ظلم وجور کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
 جانوروں کی قربانی ہمارے اندر ہر طرح کی قربانی کا مزاج پیدا کرتا ہے ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کی قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کچھ بھی محبوب نہیں ہے، حالاں کہ یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک جانوروں کے گوشت ، پوست کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اس کے پاس پہونچتا بھی نہیں ہے، اصل چیز نیتوں کا خلوص اور دل کے احوال ہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کی ہو، نمود ونمائش کی کوئی بات نہ ہو تو یہ قربانی دیگر چیزوں کی قربانی پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور تقویٰ کی کیفیت سے انسان سرشار ہوجاتا ہے، تقویٰ کی یہ کیفیت انسانی زندگی کو بیلنس ، معتدل اور متوازن کرتی ہے، یہ قربانی کا فلسلفہ اور حکمت ہے۔
 اخروی اعتبار سے دیکھیں تو قربانی کے جانور کے ہر بال پر ایک نیکی ملتی ہے، جانور کے بالوں کو جس طرح گننا ممکن نہیں ، اسی طرح قربانی کے اجر وثواب کو کلکولیٹر سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو ہماری سمجھ کے لیے کہا گیا ہے، لیکن مراد یہی ہے کہ بے شمار اجر وثواب اس قربانی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا اخروی فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ پل صراط پر ہماری سواری کے کام آئیں گے، اسی لیے حکم دیا گیا کہ صحت مند اور توانا جانور کی قربانی کی جائے، ایسے لاغر ، بیمار اور عیب دار جانورکی قربانی نہ دی جائے جو مذبح تک چل کر نہ جا سکتا ہو اور جسے عرف میں عیب دار سمجھا جاتا ہو، اسکا مطلب یہ ہے کہ قربانی میں جانور کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور غیر مسلموں کی طرح ’’سڑل گائے بابھن کودان ‘‘ کے فارمولے پر عمل نہ کیا جائے، اللہ رب العزت نے محبوب اور پسندیدہ چیزوں کے خرچ پر بھلائی تک پہونچنے کی بات کہی ہے ، ظاہر ہے لاغر، کمزور، عیب دار چیز تو انسان کی پسند ہی نہیں ہوتی اس لیے ایسے جانور کی قربانی کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
 جانور سے محبت ہوجائے ، اس لیے اس کے پوسنے پالنے اور اس کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس محبت کی قربانی کے لیے ہی اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ ہر ممکن اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کیا جائے، تاکہ ان احساسات کی بھی قربانی ہو جائے جو جانور کی محبت کے نتیجے میں گذشتہ چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے صرف اللہ کی محبت قلب وجگر میں جاگزیں رہے، اگر خود سے ذبح نہیں کر سکتا ہوتو کم سے کم وہاں پر موجود رہے، تاکہ جانور کو قربان ہوتے ہوئے دیکھے۔
 جانور کی یہ قربانی اللہ کے نام سے اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے، ہمارے یہاں یہ جو مشہور ہے کہ قربانی کس کے نام سے ہوگی، صحیح نہیں ہے، قربانی تو سب اللہ کے لیے اللہ کے نام سے ہوگی، اسی لیے جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں اس شخص کی طرف سے قبولیت کی دعا کی جاتی ہے۔ اللھم تقبل ھذہ الاضحیۃ ۔ قربانی سے پہلے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جاتی ہے، جس میں بندہ یہ اعلان کرتا ہے ، میری نمازیں، قربانیاں، حیات وموت سب اللہ کے لیے ہی ہیں۔
 جانور ذبح کر دیا ، قربانی ہو گئی، حکم ہوا کہ گوشت کے تین حصے کرلو، ایک حصہ غرباء کو دو، ایک حصہ عزیز واقرباء کو اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھ لو، تاکہ سب تمہاری قربانی سے فائدہ اٹھا سکیں، غربا ومساکین جو صاحب استطاعت نہیں ہیں، قربانی کے جانور نہیں خرید سکتے ان کو اپنی قربانی سے حصہ دو تاکہ وہ ایام تشریق میں اللہ کی میزبانی سے فائدہ اٹھا سکیں، اس معاملہ میں ہمارے یہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے، بڑے جانور کی قربانی میں تو گوشت غرباء تک پہونچ جاتا ہے ؛لیکن خصی کے گوشت میں ایمانداری سے تقسیم کا عمل نہیں ہوتا اور جب سے فِرج ہمارے گھروں میں آگیا ، بیش ترگوشت اسی میں ڈال دیا جاتا ہے؛ تاکہ دیر تک گھر والے کھائیں، کسی کا خاندان بہت بڑا ہو تو فتویٰ کی زبان میں اس کی گنجائش ہے، لیکن ایساکرنے سے یہ معلوم تو ہوہی جاتا ہے کہ جانور کی قربانی کے باوجود گوشت کی قربانی دینے کا مزاج نہیں بنا ورنہ  گوشت کی تقسیم میں انصاف سے کام لیا جاتا ۔
 گوشت کے بعد چمڑہ بچ جاتا ہے، یہ چمڑہ اگر بیچا گیا تو قیمت صدقہ کرنا ہے، غرباء ومساکین کا حق ہے، لیکن اگر آپ اسے خود استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس کو دفن کر دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی کیوں کہ یہ مال کا ضیاع ہے، جب سے چمڑے کی قیمت کم ہو گئی ہے تب سے کئی گاؤں سے یہ خبر آ رہی ہے کہ قربانی کا چمڑہ دفن کیا جا رہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، جس قیمت پر بھی ہو اسے فروخت کرکے رقم مدارس کے غریب ونادار طلبہ یا سماج کے ضرورت مندوں تک پہونچا دینا چاہیے، جو صاحب استطاعت نہ ہوں، اگر یہ ممکن نہ ہو تواسے اپنے استعمال میں لے آئیں، دباغت کے بعد جائے نماز اور دوسری چیزیں اس سے بنا کر استعمال کی جاسکتی ہیں۔
قربانی کے جانور کے جو فضلات وباقیات ہیں اس کو راستوں کے کنارے ادھر ادھر نہ پھینکیں، اس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے ، جو انسانوں کی صحت کے لیے مضر ہے، اس سے آپ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ راستوں کے بھی حقوق ہیں، ادھر اُدھر پھینکنے سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان فضلات کو گڈھا کھود کر گاڑ دینا چاہیے تاکہ کتے اور دوسرے جانور اٹھا کر اِدھر ُادھر نہ لے جائیں، اور جو سرانڈ ہے، اس سے صحت متاثر نہ ہو۔ اس طرح آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کہنے کو یہ ایک جانور کی قربانی ہے، لیکن اس ایک قربانی کو قربانی بنانے کے لیے کتنے اصول وہدایت کی پابندی ضروری ہے۔
ہمارے یہاں قربانی کے جانوروں کا گاؤں اور محلوں میں مقابلہ اور موازنہ شروع ہوتا ہے، اس سے نمود ونمائش اور ریا کاری کا کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اس کی وجہ سے دل ودماغ کبر کی غلاظت سے آلودہ ہوتا ہے، اس آلودگی سے بچنے کے لیے عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق ہر نماز کے بعد کم از کم ایک بار پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مرد زور سے پڑھیں اور عورتیں دھیمی آواز میں، اس کے علاوہ عیدگاہ جاتے وقت تکبیر تشریق پڑھنا اور عید الاضحیٰ کی نماز میں چھ تکبیروں کے ذریعہ اللہ کی بڑائی کا اعلان کرنا ، اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے، آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تکبیر تشریق میں اللہ کی بڑائی کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں ہے، اللہ کی بڑائی کا یہ خیال بندوں کو اپنی بڑائی کے خیال سے آزاد کر دیتا ہے، اور یہ اس شخص کے لیے ذاتی طور پر فائدہ مندتو ہے ہی سماج کے لیے ضروری ہے۔
عید الاضحی کے جو دس ایام ہیں ان کے فضائل بھی احادیث میں ہیں، ان کا خیال رکھیے، نو ذی الحجہ کا روزہ ہمارے دیار میں عرفہ کے روزہ کے نام سے منسوب ہے، یہ عوامی اصطلاح ہے، اسے حاجیوں کے یوم عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ حاجیوں کا عرفہ تو ایک دن قبل گذر چکا ہوتا ہے، اس دن کے روزہ کے فضائل بہت ہیں، البتہ یہ فرض واجب نہیں ہے، نفل اور مستحسن ہے، اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے اور جو لوگ نہیں رکھ رہے ہیں، ان کو ترغیب تو دے سکتے ہیں، لیکن نہ رکھنے پر انہیں بُرا بھلا نہیں کہنا چاہیے، شریعت میں عبادتوں کے بھی مدارج ہیں اور مدارج کی تعیین میں شریعت سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔
 عید الاضحی کے دس دن میں چاند دیکھے جانے کے بعد ان لوگوں کے لیے جن کی طرف سے قربانی ہونی ہے، بال، ناخن وغیرہ کا نہ تراشنا بہتر ہے، یہ حکم عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، اسی طرح قربانی کے جانور کے گوشت سے اس دن کھانا شروع کرنا اچھی بات ہے، لیکن جو لوگ مریض ہیں ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے، سماج میں جو بقرعید کے دن نماز کے پہلے روزہ کی بات عرف میں کہی جاتی ہے وہ اسی پس منظر میں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اس دن روزہ کا لفظ نماز سے پہلے کچھ نہ کھانے کے معنی میں ہے، اس کا اصطلاحی روزہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

رشوت خوری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

رشوت خوری ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری ”نیم سرکاری“ بلکہ بعض پرائیوٹ کمپنیوں میں بھی مواقع کا فائدہ اٹھانے اور مفاد کے حصول کے لیے رشوت دینا ہوتا ہے، سرکار جتنے اعلانات بد عنوانی کو ختم کرنے کے لیے کرتی، رشوت کا بازار اسی قدر گرم ہوتا ہے، سرکار کا اعلان رشوت اور بد عنوانی کے معاملہ میں عدم بر داشت کا ہے، لیکن اس اعلان کے باوجود سرکاری ملازم رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جارہے ہیں، یہ ہندوستانی سماج کا المیہ ہے کہ جن کے اوپر قانون کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، وہی قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔
 بہت دن پہلے کی بات ہے ایک سرکاری دفتر میں ایک کام سے جانا ہوا، اتفاق سے وہاں ایک افسر میرے جان کار بھی تھے، میں نے ان سے اپنی پریشانی بتائی، انہوں نے از راہ ہمدردی متعلقہ کلرک کو بلا کر کام کر دینے کو کہہ دیا ، میں بہت خوش ہوا کہ اب کام ہوجائے گا ، کل ہو کرپھر دفتر پہونچا تو فائل وہیں کی وہیں تھی میں نے اپنے متعارف افسر کے پاس جاکر یہ صورت حال بتائی ، کہنے لگے، شِیَر نہیں ملا ہوگا، میں نے کہا: آپ کی سفارش کے بعد بھی اس کی ضرورت ہے، کہنے لگے، ہاں!میری سفارش کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کا کام یقینی ہوگا، کوئی دھوکہ نہیں دے گا، رہ گئی ”دستوری“ تو وہ تو دینا ہی ہوگا، چنانچہ میں ناکام ونامراد وہاں سے واپس آگیا۔یہ معاملہ کسی ایک دفتر کا نہیں ، یہاں تو ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے۔
 بہت لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پکڑ دھکڑ اور رنگے ہاتھوں بد عنوان افسروں کی گرفتای عوام کے بیدار ہونے کا نتیجہ ہے، مجھے یہ صحیح نہیں لگتا ، عوام جب کسی دفتر میں کام کرانے جاتی ہے اور اسے کل آنے کو کہا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دوبارہ آنے جانے ، رہنے، کھانے پینے میں اس سے زیادہ خرچ آجائے گا، چلو کچھ ”دستوری“ دے کر آج کے آج کام کرالوں، چنانچہ لینے والا تو انتظارہی میں رہتا ہے، دینے والے لوگوں کی بھی لائن کمزور نہیں ہوتی، یعنی دینے والا اور لینے والا دونوں بد عنوانی کے شریک ہوتے ہیں، گو ہندوستانی قوانین میں دینے والوں کو مجبور محض سمجھ کر سزا کے دائرہ میں کم ہی لایا جاتا ہے، لینے والا پکڑا گیا تو اس کی زندگی بھی تباہ نہیں ہوتی اور رشوت یہاں بھی کام کر تی ہے، اور مجرم آسانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں گنہگار ہے، اگر دینے والا اپنی حرکت سے باز آئے اور ایسا ماحول بنائے کہ رشوت خور بچ نہ پائے تو رشوت کی گرم بازاری پر قابو پایا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنم کی ”خوش خبری“ سنائی ہے، الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار 
بد قسمتی کی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں رشوت کی بُرائی کا احساس باقی نہیں ہے ، اب تو اسے دفاتر میں ”سُوِیدھا شلک“ یعنی آسانی بہم پہونچانے کی فیس سے تعبیر کیا جاتا ہے، رشوت ایک سماجی لعنت ہے،نام چاہے اسے جو دے لیں، عام لوگوں کا کام اس کی وجہ سے دشوار تر ہوجاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری افسران جن لوگوں سے خار کھائے بیٹھے رہتے ہیں، اگر رشوت نہ ملے تو جائز کام بھی نہیں کرکے دیتے ہیں۔
 یقینا ایمان دار اور اچھے لوگوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ ایمان دار افسر اور کلرک کام کرنے کے سلسلے میں بڑے سست واقع ہوتے ہیں، بد عنوان افسروں کے ٹیبل پر رشوت فائلوں کو  دوڑادیتی ہے، لیکن ایمان دار افسر کے ٹٰیبل پر فائل کو رینگنے میں کبھی کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں، رشوت نہ لینا ایک اچھی عادت ہے، لیکن کام میں تاخیر کرنا بُری عادت ہے، اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

منگل, جون 20, 2023

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟  
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

قربانی ہر اس مسلمان عاقل، بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سے زائد موجود ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان، یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ (فتاویٰ شامی )
قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں ( بدائع الصنائع ) 
بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو بھی تو اس پر یا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں ( بدائع الصنائع ) 
اسی طرح جو شخص شرعی قائد کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں ( فتاویٰ شامی) 
جس شخص پر قربانی لازم نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس پر قربانی واجب ہوگی (عالمگیری)
وجوب قربانی کا نصاب 
سونا چاندی اور دیگر گھریلو سامان خواہ استعمال ہونے والا ہو یا نہ ہو ان سب کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے ( حاشیہ ردالمختار )
قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟
زکوٰۃ بھی صاحب نصاب پر واجب ہوتی ہے اور قربانی بھی صاحب نصاب ہی پر واجب ہے مگر دونوں کے درمیان دو وجہ سے فرق ہے ایک یہ کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لئے شرط ہے کہ نصاب پر سال گزر گیا ہو جب تک سال پورا نہیں ہوگا زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ( در مختار)
قربانی کے واجب ہونے کے لئے سال کا گزرنا کوئی شرط نہیں بلکہ اگر کوئی شخص عین قربانی کے دن صاحب نصاب ہو گیا تو اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری) 
 جبکہ زکوۃ سال کے بعد واجب ہوگی ۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ نصاب" نامی" ( بڑھنے والا) ہو شریعت کی اصطلاح میں سونا چاندی نقد روپیہ مال تجارت اور چرنے والے جانور مال نامی کہلاتے ہیں ( تنویر الابصار)
اگر کسی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ مگر قربانی کے لیے مال کا نامی ہونا بھی شرط نہیں ۔مثال کے طور پر کسی کے پاس اپنی زمین کا غلہ اس کی ضروریات سے زائد ہے اور زائد ضرورت کی قیمت 
2625 روپے کے برابر ہے چونکہ یہ غلہ مال نامی نہیں اس لئے اس پر زکوۃ واجب نہیں چاہے سال بھر پڑا رہے لیکن اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری) 
میاں بیوی میں سے کس پر قربانی واجب ہے ؟
اگر میاں بیوی دونوں صاحب نصاب ہوں تو دونوں پر الگ الگ قربانی واجب ہے (حاشیہ ردالمختار)
گھر کا سر براہ جس کی طرف سے قربانی کرے گا ثواب اسی کو ملے گا
گھر کا سربراہ اگر قربانی کرتا ہے تو قربانی کا ثواب صرف اسی کو ملے گا دوسرے لوگوں کو نہیں اگرچہ وہ اس کی کفالت میں ہی کیوں نہ ہو۔
گھر کا سربراہ اگر اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں میں سے کسی کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو جس کی طرف سے قربانی کر رہا ہے اس کی طرف سے تو قربانی صحیح ہو جائے گی اور ثواب بھی اسی کو ملے گا چاہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے اس پر قربانی واجب ہو یا نہیں۔ لیکن گھر کے سربراہ کے سلسلے میں دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ ہے کہ اگر سربراہ پر بھی قربانی واجب ہے تو اب سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی طرف سے مستقل قربانی کرے اور نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار ہو گا کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے سے اپنا ذمہ ساقط نہیں ہوتا ( بدائع الصنائع)
دوسری صورت یہ ہے کہ سربراہ پر شرعی طور پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن وہ کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو اس صورت میں جس کی طرف سے قربانی کی ہے اس کی طرف سے قربانی صحیح ہو گی اور گھر کے سربراہ پر چونکہ قربانی واجب نہیں تھی اس لیے اس کو مستقل قربانی کی ضرورت نہیں ( الفقہ الاسلامی)
قربانی کے بدلے میں صدقہ و خیرات کرنا ۔
اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہ کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے ( بدائع الصنائع)
لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کردینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا ہمیشہ گناہ گار رہے گا کیوں کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی زکوٰۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی رسول کریم ﷺ کے ارشادات اور تعامل اور پھر اجماع صحابہ اس پر شاہد ہیں ( بدائع الصنائع)
اور جس کے ذمہ قربانی واجب نہیں اس کو اختیار ہے خواہ قربانی کرے یا غریبوں کو پیسے دے دے لیکن دوسری صورت میں قربانی کا ثواب نہیں ہوگا صدقے کا ثواب ہوگا ۔
قربانی کا جانور اگر فروخت کردیا تو رقم کو کیا کرے ؟
 رقم صدقہ کر دے اور استغفار کرے اور اگر اس پر قربانی واجب تھی تو پھر دوسرا جانور خرید کر قربانی کے دنوں میں قربانی کرے (ردالمختار)
قربانی کا جانور گم ہو جائے تو کیا کرے ؟
جس شخص پر قربانی واجب تھی اگر اس نے قربانی کا جانور خرید لیا پھر وہ گم ہوگیا یا چوری ہو گیا یا مر گیا تو واحب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اگر دوسری قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس کی قربانی اس پر واجب نہیں اگر یہ غریب ہے جس پر پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی نفلی طور پر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر وہ مر گیا یا گم ہو گیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر گم شدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے اور ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور کا یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے بدائع الصنائع)
گابھن جانور کی قربانی کرنا ۔
گابھن گائے وغیرہ کی قربانی جائز ہے دوبارہ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں بچہ اگر زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر لیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اس کو پھینک دیا جائے بہرحال حاملہ جانور کی قربانی میں کوئی کراہت نہیں (در مختار)
اگر قربانی کے جانور کا سینگ ٹوٹ جائے ؟
سینگ اگر جڑ سے اکھڑ جائے تو قربانی درست نہیں (فتاویٰ عالمگیری)
اور اگر اوپر کا خول اتر جائے یا ٹوٹ جائے مگر اندر سے گودا سالم ہو تو قربانی درست ہے (رد المحتار)
کیا مقروض پر قربانی واجب ہے ؟
اگر قرض ادا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو تو قربانی واجب ہے ورنہ نہیں (فتاویٰ شامی)
نابالغ بچے کی قربانی اس کے مال سے جائز نہیں ۔
نابالغ بچے کے مال پر نہ زکوۃ فرض ہے ( ھدایۃ)
نہ قربانی واجب ہے اس لیے ولی کو ان کے مال سے زکوۃ اور قربانی کی اجازت نہیں (بدائع الصنائع)
البتہ ان کے مال سے ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے اور ان کی دیگر ضروریات پر خرچ کرے (الدر المختار مع الرد المختار)
قربانی کا گوشت ۔
قربانی کا گوشت اگر کئی آدمیوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کو اٹکل سے تقسیم کرنا جائز نہیں بلکہ خوب ا حتیاط سے تول کر برابر حصہ کرنا درست ہے ہاں اگر کسی کے حصے میں سر اور پاؤں لگا دیئے جائیں تو اس کے وزن کے حصے میں کمی جائز ہے (حاشیہ ردالمختار)
قربانی کا گوشت خود کھا ۓ دوست احباب میں تقسیم کرے غریبوں مسکینوں کو دے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے ایک اپنے لئے ایک دوست احباب اور عزیز و اقارب کو ہدیہ دینے کے لیے اور ایک ضرورت مند ناداروں میں تقسیم کرنے کے لئے الغرض کم از کم تہائی حصہ خیرات کر دے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا باقی سب کھا لیا یا عزیز و اقارب کو دے دیا تب بھی گناہ نہیں (حاشیہ رد المحتار)
قربانی کے خون میں پاؤں ڈبونا ۔
یہ خون نجس ہوتا ہے اور نجاست سے بدن کو آلودہ کرنا دین و مذہب کی رو سے عبادت نہیں ہو سکتا اس لیے یہ اعتقاد گناہ اور یہ فعل نا جائز ہے (حلبی کبیر)

پیر, جون 19, 2023

ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“ ✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جناب عین الحق خان متخلص نا شاد اورنگ آبادی (ولادت 15 جنوری 1935ئ۔وفات 18جون 2023ئ) بن محمد ہدایت اللہ خان مرحوم کی جائے پیدائش شمشیر نگر ضلع اورنگ آباد ہے، وہ ریلوے کے سبکدوش افسرتھے، ان کی شاعری کے کئی مجموعے پرواز سخن (1990) میل کا سفر (ہندی1991) ، لمحے لمحے کا سفر (2009)ہم سفر غزلیں (ہندی 2009) اور رخت سفر کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں، ”غزل کیسے لکھیں“ کی ترتیب کا کام بھی انہوں نے کیا تھا۔جس میں غزل کے حوالہ سے قیمتی مضامین اور ہندی کے سیکڑوں شعراءکی غزلوں کو جمع کیا گیا ہے، اردو ادب اور شعر گوئی میں امتیاز کی وجہ سے انجمن محمدیہ پٹنہ سیٹی، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، ابھویکتی دلسنگ سرائے، بہار اردو اکیڈمی پٹنہ، اردو سرکل حیدر آباد، پریاس فرید آباد، ہریانہ، عالمی ہندی کانفرنس دہلی، سولبھ انٹرنیشنل ساہتیہ اکیڈمی دہلی کُسم پانڈے سنستھان سمستی پور، جیمنی اکیڈمی پانی پت ہریانہ، نہرو یوا کیندر بھونیشور، شاداسٹڈی سرکل پٹنہ، اردو دوست فرید آباد ہریانہ، مدرٹریسا سوسائٹی پٹنہ، ماہنامہ خاتون مشرق، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، اکبر رضا جمشید اکیڈمی پٹنہ، اعتماد نیشنل فاؤنڈیشن نئی دہلی کے ذریعہ مختلف انعامات ، اعزازات اور ایوارڈ سے نوازے گئے تھے۔
 ناشاد اورنگ آبادی نے پہلا شعر تیرہ سال کی عمر میں کہا اور 1965سے باضابطہ شعر گوئی کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہونے لگے، اوران کی عمر اٹھاسی(88) سال کی ہو گئی تھی ؛لیکن ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے، ادب وشاعری کے حوالہ سے پٹنہ اور اس کے نواح میں کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی، جہاں ان کی با وقار حاضری نہیں ہوتی رہی ہو، کبھی خالی ہاتھ شریک نہیں ہوتے تھے، تازہ کلام اور قطعات سے سامعین کی ضیافت ضرورت کرتے تھے، عمر کی اس منزل میں بھی وہ چاق وچوبند نظر آتے تھے، ان کے ہونٹوں پر تبسم کی زیریں لہریں، دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا تھاکہ اس شخص نے اپنا تخلص ”ناشاد“ کیوں رکھ لیا ، ہو سکتا ہے جوانی میں کسی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہوں اور فریق ثانی کی طرف سے انہیں بے وفائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ جد وجہد آزادی میں وہ انگریزوں کے ظلم وستم سے متاثر ہو کر ناشاد ہو گیے ہوں، ہو سکتا ہے کہ بدلتے اقدار اور احوال نے انہیں ناشاد ی کے مرحلہ تک پہونچا دیا ہو، کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاد عظیم آبادی کے وطن میں ایک اورنگ آبادی ”ناشاد“ ہو کر ہی اپنی شناخت بنا سکتا تھا، ان کا یہ شعر دیکھیے
اب تو نا شاد بھی اے شاد عظیم آبادی  آپ کے شہر میں اشعار سنا دیتا ہے
یہ سب قیاسیات اور امکانات کی باتیں ہیں، یقین کے ساتھ کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
 ”رخت سفر“ ناشاد اورنگ آبادی کا مجموعۂ کلام ہے۔ 128صفحات کی قیمت 200روپے اردو کے قارئین کے لیے قابل قبول نہیں ہے، حالاں کہ مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ یہ قیمتیں صرف درج کی جاتی ہیں، کتابیں اہل علم وادب تک مفت ہی پہونچانی پڑتی ہیں، کچھ نسخے بک گیے تو کتب خانہ والا نصف سے زیادہ کمیشن کاٹ لیتا ہے، بے چارہ شاعر اور ادیب قیمت لکھنے میں ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز “ پر عمل کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی لکھ دیتا ہے، کتاب کی کمپوزنگ فرید اختر نے کی ہے، ملنے کے پتے پانچ درج ہیں، لینا ہو تو ادھر اُدھر چکر لگانے کے بجائے بک امپوریم سبزی باغ چلے جائیے، اور اپنی ادب نوازی کا ثبوت دیجئے، دو سو روپے نکالیے اور خرید لیجئے۔
 کتاب کا انتساب طویل ہے، جس میں والدہ کے ساتھ احباب ورشتہ دار ، اہل علم وفن ، قارئین، نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازنے والوں کے ساتھ مخلص دوست صوفی شرف الدین اور مرحومہ اہلیہ شہناز آرا کے نام ہیں، جتنے لوگوں کے نام یہ انتساب ہے، مجموعہ کا ایک ایک صفحہ بھی ان کو دیا جائے تو کم پڑجائے گا، اور صفحہ پھاڑ کر بانٹنے کی تجویزتو کوئی نہیں دے سکتا۔
 حرفِ آغاز مشہور شاعر فرد الحسن فرد کا ہے، جو ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور پٹنہ کے مالک ہیں، کتاب ان کے یہاں ہی چھپی ہے، انہوں نے حرف آغاز میں طول بیانی سے کم کام لیا ہے، لیکن منتخب اشعار کی کثرت سے صفحات بڑھانے کا کام کیا ہے، اپنا تعارف خود ناشاد اورنگ آبادی نے کرایا ہے جو بڑا نازک کام ہے، کچھ لکھیے تو احباب ”در مدح خود می گویم“ کی بھپتی کسنے لگتے ہیں اور نہ لکھیے تو کتِمان کا شکوہ ہوتا ہے، ناشاد اورنگ آبادی نے اس تعارف میں دراز نفسی سے کام نہیں لیا ہے، اور جو ضروری تھا وہ لکھ دیا ہے، ایوارڈ دینے والے اداروں کی جو تفصیل میں نے اوپر درج کی ہے وہ ان کے تعارف سے ہی اصلا ماخوذ ہے، اس کتاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ فہرست کتاب میں موجود نہیں ہے، اس سے قاری کا تجسس بنا رہتا ہے کہ آگے کیا ہے اس طرح قاری آخری صفحہ تک پڑھنے اورورق گردانی کرنے کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔
 رخت سفر میں ایک حمدیہ دو ہے، ایک نعتیہ دو ہے، دو نعت شریف، انٹھاون غزلیں، اور متفرقات کے ذیل میں کئی نظم اور قطعات ہیں، غزلوں میں دو تاریخی ہےں، اس میں غزل کی آن بان شان تو نہیں ہے، لیکن ادباءوشعراءکے ناموں کے اندراج نے اسے خاصا دلچسپ بنا دیا ہے، ناموں کی کھتونی میں غزل کی چاشنی کی تلاش تو فضول ہے، لیکن ناشاد نے اسے تاریخی غزل کا نام دیا ہے، اور بڑی حد تک کوشش کی ہے کہ غزل کا لب ولہجہ باقی رہے، ناموں کی کھتونی کے باوجودکم ہی سہی ان میں تغزل ہے سلاست ہے ، روانی ہے اس لئے مطالعہ شاق نہیں گذرتا۔وفیات عطا کاکوی اور شریک حیات مرحومہ شہناز آرا کے نام ہیں، متفرقات میں ”نذر“ کچھ زیادہ ہی ہے، مہاتما گاندھی ، مظہر امام، اہل گورکھپور، منشی پریم چند، سجاد ظہیر، شاد عظیم آبادی، سہیل عظیم آبادی، حفیظ جالندھری، شاداں فاروقی، رام دھاری سنگھ دنکر میں سے ہر ایک کے نام چار چار مصرعے نذر کیے گیے، بعض شعراءکے سانحہِ ارتحال پر بھی چار مصرعے رخت سفر میں شامل ہیں، علامہ جمیل مظہری ، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ہیرا نند سوز ان افراد میں ہیں جن کی وفات پر قطعات کہے گیے ہیں،البتہ جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری کو دو دو مصرعے دے کر نمٹا دیا گیا ہے، حالاں کہ دونوں اس سے زیادہ کے مستحق تھے، خصوصا اس لیے بھی کہ دونوں کا رنگ وآہنگ الگ الگ ہے، اشعار ، قومی گیت، قومی یک جہتی ، قومی ترانہ، قومی دوہے، کرفیو، دیوالی کے دیپ اور اردو پر دوہے، گیت اور نظم کی شکل میں موجود ہےں، کہنا چاہیے کہ ”رخت سفر“ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ڈھونڈھنے سے ہرقاری کو اپنے اپنے ذوق کی چیز مل جائے گی ۔
 جہاں تک ناشاد اورنگ آبادی کی شاعری کا تعلق ہے،ان کے یہاں شعری روایات کی پاسداری بدرجہ ¿ اتم موجود ہے، قافیہ، ردیف اور بحور پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ خود انہوںنے بیان کیا ہے۔
فعلن فعلن خوب پڑھا ہے تب جا کر لکھ پایا ہوں ورنہ کچھ آسان نہیں تھا کہہ لینا دشوار غزل
ناشاد اورنگ آبادی کی غزلوں میں ان کا ” میں“ بولتا ہے، یہ میں کبر وغرور اور تعلی کا نہیں، بلکہ جو دل پر گذرتی ہے، رقم کرنے سے عبارت ہے، علیم اللہ حالی کے لفظوں میں اسے ”حدیث ذات“ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعری میں آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کے قائل نہیں ہیں اور ان کی غزلوں میں ”حدیث دیگراں“ کا تصور نہیں پایا جاتا، اسی لیے ان کی غزلوں میں ”عصری حسیت“ سے بھرپور اشعار کی کمی محسوس ہوتی ہے، انہوں نے اپنے اشعار کو ترقی پسند وں کی طرح غم روزگار اور غم کائنات تک نہیں پھیلایا ہے، اور نہ جدیدیوں کی طرح رمز وعلامات کے سہارے بات کہی ہے، ان کی شاعری ان حدودمیں قید نہیں ہے ،غزلیہ روایات کی پاسداری ان کے فن کا امتیازہے ، ہمارے بہت سارے شعراء، نثری شاعری پر اتر آتے ہیں، اور اس میں طبع آزمائی کو اپنی شان سمجھتے ہیں، ناشاد اورنگ آبادی کے اس مجموعہ میں ہمیں نثری شاعری کا نمونہ نہیں ملتا، یہ ایک اچھی بات ہے۔
 ناشاد اورنگ آبادی نے بھر پور زندگی گذاری تھی،وہ گرمی کی تمازت اور لوُ کی چپیٹ میں آگئے اور رختِ سفر کے خالق نے جلد ہی رختِ سفر باندھ لیا،بیش تر زندگی سمستی پور اور پٹنہ میں گذارنے والے نے اپنی آخری آرام گاہ کے لئے اپنے وطن کا انتخاب کیااور وہیں مدفون ہوئے،انہوں نے کہا تھاکہ

ناشاد ڈھلنے والی ہے اب زندگی کی شام اب تو سمیٹ لیجیے خاشاکِ آرزو
خاشاکِ آرزو اس قدر وہ جلد سمیٹ لیں گے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

آٹھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

آٹھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے 
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (18/062023 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور قاری عظمت اللہ نور فیضی 
زیر سرپرستی حضرت مولانامشتاقاحمدصاحب قاسمی گنگولی/
قاری مطیع اللہ صاحب جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی جناب شاہد سنگاپوری نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری شہزاد صاحب رحمانی استاد دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا چوک مینا 
قاری شہزاد صاحب رحمانی استاذ دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام محمد اعظم حسن صاحب ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی عادل امام صاحب کھگڑیا
جناب قاری جمشید انجم صاحب کھگڑیا حضرت مولانا گلشادصاحب صاحب قاسمی گنگولی 
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل مولانا فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
 اورقاری خورشید قمر صاحب
حسن آواز صاحب ارریہ 
قاری مجاہد صاحب فیضی نرپتگنج 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجکر ۲۰منٹ شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :۴۵بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

ہفتہ, جون 17, 2023

قانون سے باخبر ہونے کی اہمیت ___ایک فعال معاشرے کا ایک ستون ✍️عادل ظفر

قانون سے باخبر ہونے کی اہمیت ___ایک فعال
 معاشرے کا ایک ستون  
اردودنیانیوز۷۲ 
        ✍️عادل ظفر
کسی بھی معاشرے میں، قوانین کی موجودگی نظم، انصاف اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بنیاد کا کام کرتی ہے۔ قوانین محض صوابدیدی قوانین نہیں ہیں۔ وہ ایک کمیونٹی کے تانے بانے کو تشکیل دیتے ہیں اور بقائے باہمی کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ ایک فعال معاشرے میں حصہ ڈالنے کے لیے افراد کے لیے قانون اور اس کے مضمرات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مضمون ان وجوہات کی کھوج کرتا ہے کہ کیوں قانون سے آگاہ ہونا افراد اور اجتماعی بہبود دونوں کے لیے ضروری ہے۔
 1. انفرادی حقوق کو برقرار رکھنا:
قوانین انفرادی حقوق کا تحفظ اور تحفظ کرتے ہیں، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے انصاف اور مساوات کو یقینی بناتے ہیں۔ قانون سے آگاہ ہونے سے، افراد اپنے حقوق، آزادیوں اور قانونی تحفظات کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ علم افراد کو خود پر زور دینے، انصاف حاصل کرنے اور اپنے حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے بااختیار بناتا ہے۔ یہ انہیں قانونی عمل کو نیویگیٹ کرنے کے قابل بناتا ہے اور ممکنہ بدسلوکی یا استحصال سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔
2. سماجی ترتیب اور استحکام کو فروغ دینا:
قانون سماجی نظام اور استحکام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تنازعات کو حل کرنے، تنازعات کو روکنے اور کمیونٹی کے اندر امن برقرار رکھنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ جب افراد قانون سے واقف ہوتے ہیں، تو وہ اس پر عمل کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مجرمانہ سرگرمیوں، تنازعات، اور معاشرتی بدامنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ قانون کا احترام کرنے اور اس پر عمل کرنے سے، افراد اپنی کمیونٹی کی مجموعی بہبود میں حصہ ڈالتے ہیں، ہر ایک کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ مستحکم ماحول کو فروغ دیتے ہیں۔
3, اقتصادی ترقی کی سہولت:
قانون معاشی سرگرمیوں اور ترقی کی بنیاد بناتا ہے۔ قانونی تقاضوں سے آگاہ ہو کر، افراد ایک صحت مند اور مسابقتی مارکیٹ کو فروغ دیتے ہوئے، قانونی کاروباری طریقوں میں مشغول ہو سکتے ہیں۔ معاہدے کی ذمہ داریوں، دانشورانہ املاک کے حقوق، اور صارفین کے تحفظ کے قوانین کو سمجھنا افراد کو باخبر فیصلے کرنے اور معاشی لین دین میں اعتماد کے ساتھ حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ قانون کی تعمیل بھی منصفانہ مسابقت کو یقینی بناتی ہے، دھوکہ دہی کو روکتی ہے، اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس سے معاشی ترقی اور خوشحالی ہوتی ہے۔
4. ذاتی اور عوامی تحفظ کو یقینی بنانا:
عوامی تحفظ سے متعلق قوانین، جیسے ٹریفک کے ضوابط، ماحولیاتی تحفظ، اور صحت عامہ کے اقدامات، افراد اور معاشرے کی مجموعی فلاح کے لیے اہم ہیں۔ قانون سے آگاہی افراد کو ذمہ دارانہ رویے اپنانے کی اجازت دیتی ہے، اس طرح حادثات میں کمی، ماحول کی حفاظت، اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ حفاظتی ضوابط سے آگاہی افراد کو ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور باخبر انتخاب کرنے کا اختیار دیتی ہے جو ان کی اپنی اور دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں۔
5, جمہوری عمل میں حصہ لینا:
جمہوری معاشروں میں بامعنی شہری مصروفیت کے لیے قانون سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ قانونی نظام، ووٹنگ کے طریقہ کار اور شہریوں کے حقوق کو سمجھنا افراد کو عوامی پالیسیوں کی تشکیل اور نمائندوں کو منتخب کرنے میں فعال طور پر حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ قانون سے آگاہ شہری تبدیلیوں کی وکالت کر سکتے ہیں، خدشات کا اظہار کر سکتے ہیں اور حکام کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں۔ یہ فعال مصروفیت جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ حکومت شفاف، جوابدہ اور عوام کی مرضی کی نمائندہ رہے۔

قانون سے آگاہ ہونا صرف انفرادی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو آسانی سے چل سکے۔ قانون کو سمجھنے اور اس کا احترام کرنے سے، افراد اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں، سماجی نظم کو فروغ دے سکتے ہیں، اقتصادی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں، ذاتی اور عوامی تحفظ کو یقینی بنا سکتے ہیں، اور جمہوری عمل میں فعال طور پر حصہ لے سکتے ہیں۔ قانون سے آگاہی کے ذریعے ہی ہم ایک منصفانہ، جامع اور خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کو برقرار رکھا جائے۔

جمعرات, جون 15, 2023

ناول : نوحہ گر ناول نگار: نسترن احسن فتیحیمبصر : غضنفر

ناول : نوحہ گر
اردودنیانیوز۷۲ 
 ناول نگار:  نسترن احسن فتیحی
مبصر  :  غضنفر 
خامۂ خواتین اردو شاعری کے قابلے میں صفحۂ فکشن پر ہمیشہ ہی کچھ زیادہ رواں رہا ہے۔اور اس کی روانی  کی موجیں طرح طرح کی ترنگیں اٹھاتی رہی ہیں ۔آج بھی اس نسائی قلم کی روانی اور تیز گامی برقرار ہے۔ موجیں آج بھی ترنگیں اٹھا رہی ہیں اور دریاۓ فسانہ میں ہلچل مچا رہی ہیں مگر یہاں اس کے اسباب سے بحث  نہیں بلکہ اس افسانوی گرداب کی طرف اشارہ کرنا  مقصود ہے جو ایک نسائی خامے کی جنبش‌ سے اردو فکشن  کے آب میں"نوحہ گر " کے عنوان سے  اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
   " نوحہ گر " سے پہلے نسترن نے' لفٹ ' لکھا
جو اردو کے کیمپس ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی گھناؤنی سیاسی چالبازیوں مکروہ بد عنوانیوں اور درس وتدریس و انتظامیہ سے وابستہ افراد کی نفسیاتی الجھنوں کو دلچسپ افسانوی رنگ و آہنگ کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے مگر اہل نظر نے اس ناول پر وہ توجہ نہیں فرمائی جس کا وہ متقاضی تھا ۔
      ' نوحہ گر' نسترن احسن فتیحی کی نوکِ قلم سے نکلا ہوا ان کا دوسرا ناول ہے جو ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا نوحہ ہے جو اپنے سینے میں ان لوگوں کا سوز رکھتا ہے جو ایک بھرے پورے ملک کی ہری بھری وادی میں بھی ایک طبقے کو اندر باہر دونوں طرف سے جھلساتا رہتا ہے۔ ان کے دلوں کو زرد اور جسم کو  سیاہ کرتا جاتا ہے۔ان کی سانسوں میں دھواں اور رگ و ریشے میں زہر بھرتا جاتا ہے ۔ اس صدی میں بھی انھیں آدی باسی بنائے رکھتا ہے مگر ان کی حالت زار کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی گھٹن کسی کو دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کی چبھن  کسی کے احساس میں نہیں چبھتی ۔ ان کی اینٹھن کسی کےادراک  میں بل نہیں ڈالتی۔بلکہ الٹے ان کی تڑپ اور چھٹپٹاہٹ پر انھیں معتوب، مغلوب اور مصلوب بھی کیا جاتا ہے۔
    نسترن فتیحی لائق, تعظیم اور قابل,داد ہیں کہ انھوں نے اس طبقے کی حالت, زار اور ان کے سینے کے سوز کو محسوس کیا۔ یہ بیڑا اٹھایا کہ ایک پیڑا جو سینے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے اسے  سماعتوں تک پہنچائیں ۔ایک کراہ جو چیخ رہی ہے اسے چپ کرائیں۔ اس انسان کو جسے آج بھی جنگلی سمجھا جاتا ہے اسے انسان کا درجہ دلائیں۔ ساتھ ہی اس نوحہ گر نے ایک اور مظلوم کے سینے میں دہکنے والی آگ  کی لپٹوں کو بھی اپنے بیان میں لپیٹ کر ہماری بصارتوں اور سماعتوں تک لانے کی کوشش کی ہے ‌۔ نیز نسترن نے اپنی اس تخلیق میں اس  قوت کو بھی دکھانے کی سعی کی ہے کہ اگر ادھر توجہ نہیں دی گئی تو ایک آگ جو ابھی سلگ رہی ہے کہیں بھڑک گئی  سب کو جلا کر خاک نہ کر دے ۔
     نسترن فتیحی ان خواتین قلم کاروں میں سے  ایک ہیں جن کا قلم ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اپنی جنگ لڑتا رہتا ہے ۔ لفٹ کے
بعد انھوں نے معاشرے کے ایک اور اہم مسئلے کو نہایت ہی پر زور آواز  میں اٹھایا ہے اور ایسا پر سوز لہجہ اختیار کیا ہے کہ پڑھتے وقت ناول ایک نوحے میں بدل جاتا ہے اور قاری پر رقت طاری کر دیتا ہے۔اس کیفیت کو پیدا کرنے میں نسترن کے حساس اور درد مند دل کا ہاتھ تو ہے ہی ان کی قوت, بیان نے بھی اہم کردارنبھایا ہے ۔
  نسترن فتیحی کی اس افسانوی تخلیق میں
موجزن اثریت کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس ناول کو ڈرائنگ روم میں یا اسٹڈی ٹیبل پر  بیٹھ کر نہیں لکھا ہے بلکہ اس کے لیے وہ اپنے آرام دہ خواب گاہ سے نکل کر  پرخار راستوں پر چلی ہیں ۔ بدبو دار گلیوں میں گھومی ہیں ۔تنگ و تاریک علاقوں میں پہنچی ہیں ۔ طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں ہیں۔ مصیبتیں جھیلی ہیں ۔
    مجھے امید ہے کہ نوحہ گر کا نوحہ ضرور  اپنا اثر دکھاۓگا اور معاشرے کے جمود کو پگھلاۓ‌ گا۔ پتھر دلوں کو موم کرے گا اور نگاہوں کو اس جانب بھی مرکوز کر ے گا
جدھر آہیں اور کراہیں کب سے راہ دکھ رہی ہیں ۔
  اس اچھے،بامعنی اور اثر دار ناول کی تخلیق کے لیے نسترن فتیحی کو ڈھیروں مبارکباد ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...