Urduduniyanews72
آج عید الاضحٰی کا دن ہے،حدیث شریف میں اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگارکہا گیا ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛ یہ بہت بڑا امتحان تھا، (سورةالصافات)
یادگار اور تاریخ ساز کیوں ہے؟اس کی تفصیل بھی قرآن میں لکھی ہوئی ہے کہ؛
خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں جو پہلی اولاد عطا کی وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی اس پیاری اور اکلوتی اولاد کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں، نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا ہے، بیٹے سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا ہوں، تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ؛ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے پورا کیجئے، ان شاء اللہ مجھے صابر پائیں گے،خدا کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاامتحان مقصود تھا کہ اپنی پیاری چیز میری راہ میں نذر کرتے ہیں یا نہیں؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے تو خدا نے اسی وقت نتیجہ بھی شائع فرمادیا کہ، واقعی آپ نے حق ادا کردیاہے،اپنےخواب کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیاہے، یہ ایک انسان کے لئے بڑا مشکل کام ہےجو آپ نےکر دکھایا ہے، یہ امتحان بھی سخت ترین نوعیت کا ہے،اسمیں اپنی سب سے پیاری چیز مانگی گئی ہے، ایک کمزور انسان سے کمزوری اور بڑھاپے کے عالم میں بڑا مطالبہ کیا گیا ہے، گویا انسانی فطرت اور اس کے نبض پر ہاتھ رکھاگیا ہے، ایک انسان کے یہ بہت بڑا امتحان ہے،انسان اس میں کامیاب ہوسکتا ہےاور نہ اتنا سخت مطالبہ پورا کرسکتا ہے،باوجود اس کےحضرت ابراہیم علیہ السلام نےاسے پورا کردیا ، چنانچہ رزلٹ کے بعد انعام سے بھی اسی وقت وہ نوازے گئے ہیں۔
جنت الفردوس سے انعام واکرام میں اسپیشل مینڈھا بھیجا گیا، خصوصی قاصداور مقرب ترین فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے،اور وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر قربان کردیا گیا،پہلے انسان حضرت آدم سے لیکر قیامت تک کی انسانی تاریخ میں یہ قربانی تاریخ ساز ہوگئی، ،اس عمل کو خدا نے اس حد تک پسند فرمایا کہ قیامت تک کے لئےاس کی یاد کو جاری وساری فرمادیا،اس طرح یہ دن یادگاربن گیا ہے،نیزرب لم یزل ولایزال نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں اس واقعہ کوتفصیلی جگہ دے کرقیامت تک کے لئے زندہ وجاوید بھی کردیاہے،
تکبیر تشریق کیاہے؟
ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ہم ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں، اس کی حیثیت واجب کی ہے، یہ بھی آج ہی کےدن کی یادگار ہے، یہ واقعہ بھی آج ہی کی تاریخ میں رونما ہوا ہے،حضرت جبریل نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلارہے ہیں، اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اسماعیل کوذبح نہیں ہونا ہے،بلکہ ان کے بدلہ بطور فدیہ جنت کے مینڈھےکی قربانی ہونی ہے،وہ دور سے بلند آواز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگاہ کرنے کے لئےیہ کہنے لگے، "اللہ اکبر، اللہ اکبر" موحد اعظم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر جب حضرت جبریل پڑی تو یہ کلمہ زبان سے بے ساختہ جاری ہوگیا"لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر"
حضرت اسماعیل علیہ السلام کوجب یہ علم ہوا کہ خدا نےمیری جان بخش دی ہے، شکرانےکے یہ الفاظ کہنے لگے"اللہ اکبر، وللہ الحمد"
یہ تین بزرگوں کے تین بول ہیں، اسے مکمل ایک دعا کی شکل دیدی گئی ہے، اور پوری تکبیر تشریق یہ پڑھی جاتی ہے؛ الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد "
یہ تکبیر بھی آج کے دن کی یادگار ہے،
آج عید الاضحٰی کے نماز کے لئے جاتے ہوئے اور واپسی میں آتےہوئے بھی اس تکبیر کو پڑھنا مسنون ہے۔
آج ہمیں عید الاضحٰی کے دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ان کی یادگار کے طور پر دیکھنا اور محسوس کرنا چاہئے،ساتھ ہی اپنی قربانی وخلوص سے اس دن کو ایک یادگار دن بنانے کی بھی ضرورت ہے،مگر ہمیں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ برعکس ہوگیا ہے،دین کی بنیادی وابتدائی باتوں سے بھی ہم لاعلم ہیں، یہی وجہ ہےکہ قربانی کا بھی مقصود اصلی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے،قرآن میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ؛قربانی کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہونچتا ہے بلکہ خدا کے حضور دل کا تقوی اور خلوص پہونچتا ہے،اسی لئے قربانی کی بنیادحضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل پر رکھی گئی ہے، انہوں اپنی پیاری چیز اکلوتی اولاد کی گردن پر آج کے دن چھری چلادی ہے،درحقیقت اس قربانی کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، مگر ہم آج جانور کی قربانی کرتے ہیں مگراس احساس کو زندہ نہیں کرپاتے ہیں اور قربانی کی روح کو اپنے اندرجاری نہیں کرپاتے ہیں،
یہ ہمارے شرم کی بات ہے کہ آج ہم سے جانور کی قربانی تو ہوتی ہے مگراس کے گوشت کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ کرتے ہیں،اور جھوٹی تاویل سے کام لیتے ہیں، عید قرباں کے موقع پر یہ بات عام طور پر چرچے میں رہتی ہے کہ پہلے کی طرح اب لوگ قربانی کا گوشت لینے نہیں پہونچتے ہیں، کچھ حد تک صحیح بھی ہے، مگر اپنی کمیوں کی طرف ہماری نگاہ نہیں جاتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے کی طرح قربانی کرنے والے مخلص لوگ اس وقت نہیں نظر آرہے ہیں، جو جانور کے ہر ہرعضو کو برابر تقسیم کرتے، ایک تہائی غربا کے لئے وہی نکالتے جو اپنے استعمال میں رکھتے،افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ اب لوگ صرف بڑے جانوروں میں غربا کا حق سمجھتے ہیں، اور چھوٹے جانوروں کا پورا گوشت خود سمیٹ لیتے ہیں، یہ عمل قربانی کی روح کے خلاف ہے،اس سے ہمیں بچنا چاہئے،بلکہ قربانی کا جذبہ تو یہ کہتا ہے کہ اس معاملہ میں یتیم ونادر اور مفلس کو خود پر ترجیح دینی چاہیے۔ موجودہ وقت کی ہوش ربا مہنگائی کےدور میں دیہات ہی نہیں بلکہ شہر میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں جنہیں سال بھر بکرے کا گوشت نصیب نہیں ہوتا ہے،نہ کوئی انہیں اپنی شادی اور ولیمے میں مدعو کرتا ہے اور نہ ہمیں عید قرباں کے موقع پر انکی یادآتی ہے،آج قربانی کےبکرے کا گوشت عموما ایسے گھروں میں پہونچ رہا ہے جو خوشحال اور صاحب نصاب لوگ ہیں،سال بھر ان کے دسترخوان پر یہ موجود بھی ہوتا ہے،ان حالات میں غریبوں کو خوب سے خوب نواز کرآج کےدن کو ہم بھی یادگار بناسکتے ہیں،بالفرض ہمارے لئے پیاری چیز گوشت ہی ہےتو اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے کا یہ دن ہم سے تقاضہ کرتاہے۔
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری