Powered By Blogger

بدھ, جولائی 12, 2023

ترکیہ اور اس کی قیادت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ترکیہ اور اس کی قیادت  _
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ترکیہ (سابق نام ترکی) سے ہندوستانی مسلمانوں اورعالم اسلام کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے ، یہاں کی خلافت عثمانیہ سولہویں اور سترہویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی ، چھ سو اکتیس (631)سال تک قائم اس حکومت کے زوال کا آغاز پہلی جنگ عظیم سے ہوا، جب اس نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھانے کے بعد سیورے معاہدہ کے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تقسیم کر دیا ، 19؍ مئی 1919ء کو اس جارحیت کے خلاف ترکوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں تحریک آزادی کا اعلان کیا اور 18؍ ستمبر 1922ء کو غیر ملکی افواج سے ملک کو خالی کرالیا گیا  اور جمہوریہ ترکی کے نام سے ایک نئی ریاست تشکیل پائی ، یکم نومبر 1922ء کو ترکی کی مجلس پارلیمان نے خلافت کا خاتمہ کر دیا ، جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی، ہندوستان میں خلافت کے احیاء کے لیے تحریک چلائی گئی ، جو تاریخ میں خلافت تحریک کے نام سے موسوم ہے اور جنگ آزادی کی تحریک کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک سمجھی جاتی ہے ۔
مصطفی کمال پاشا اپنی سیاسی حصولیابی کے طفیل اتاترک (ترکوں کا باپ) بن بیٹھا ، اس نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی تشخص کے خاتمہ کی جتنی کوششیں ہو سکتی تھیں، کر ڈالیں ، اس نے عربی پر پابندی لگایا ، ترکی زبان کے رسم الخط کو بھی عربی سے لاطینی کی طرف منتقل کر دیا اور ملک میں لا دینی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ، 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال کے بعد ان کے نائب عصمت انونو بھی اسی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اصلاح کا عمل جاری رکھا ۔ 
ترکی کے آئین کے مطابق’’ مسلح افواج ترک آئین وسلامتی کی محافظ ہے‘‘ ، اس جملے کا سہارا لے کر فوج نے متعدد بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ، سب سے بڑی بغاوت 1960ء میں وزیر اعظم عدنان میندرس کے خلاف ہوئی تھی ، عدنان کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی اصلاحات کے ذریعہ ترکوں کوسیکولرزم کے نئے معنی ومفاہیم سے آشنا کیا اور مذہب اسلام پر مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کے اختتام کا اعلان کیا ، فوج کو یہ گوارہ نہیں ہوا، اور عدنان کا تختہ پلٹ کر فوج نے اسے تختہ دار پر چڑھا دیا۔
 1980ء میں مخلوط حکومت کے خلاف فوج نے پھر بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرکے ہزاروں مخالفین کو قید کر لیا اور کئی کو سزائے موت دی گئی ، لیکن جلد ہی عوام کے رخ کو دیکھ کر ترکی میں نیا آئین 1982ء میں نافذ ہوا ، لیکن فوج اقتدار پر قابض رہی ، بالآخر 1989ء میں طور غوث اوزال صدر بنے اور فوج اپنے بیرکوں میں واپس گئی ، اوزال نے انتہائی تدبر اور فراست کے ساتھ ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو نئے خطوط پر استوار کیا ، معاشی اصلاحات کی وجہ سے عالمی برادری میں ترکی کا وزن بڑھا ، مئی 1993ء میں ان کے انتقال کے بعد سلیمان دیمرل صدر منتخب ہوئے اور جون 1993ء میں راہ حق پارٹی کی جانب سے پہلی خاتون وزر اعظم تانسو چیرل نے کام شروع کیا ، ملک تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ چلتا رہا ، 1995ء کے انتخاب میں پہلی بار اسلامی افکار ونظریات کے لیے مشہور رفاہ عام پارٹی ترکی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے، لیکن وہاں کی قومی سلامتی کونسل سے ان کے اختلافات ہوئے، کیونکہ دونوں دو،سِرے پر تھے، اربکان اسلامی نظریات واقدار کو ملک میں رائج کرنا  چاہتے تھے جب کہ کونسل ترکی کے لا دینی نظام اور مغربی افکار ونظریات کو فروغ دینا چاہتی تھی ، اسے خطرہ تھا کہ کہیں ملک اسلامی راہ پر نہ چل پڑے ؛چنانچہ اس نے اربکان پر مستعفی ہونے کے لیے دبا ؤ بنایا، اربکان اس دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکے اور انہیں نہ صرف استعفا دینا پڑا بلکہ ان پر کونسل نے پوری زندگی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ، اس کے بعد کئی اتار چڑھاؤ آئے، جس کے نتیجے میں بلند ایجوت وزیر اعظم بنے اور 5؍ مئی 2000ء کو ترکی عدالت عالیہ کے سابق سر براہ احمد نجدات صدر منتخب ہوئے، اور 16؍ مئی کو صدارتی عہدے کا حلف لے کر صدارتی محل میں قیام پذیر ہوئے، یہ صدارتی محل انقرہ کے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے ایک ہزار کمروں پر مشتمل یہ محل امریکہ کے وہائٹ ہاؤس اور روس کے کریملن سے کافی بڑا ہے ، اکسٹھ کڑوڑ پچاس لاکھ ڈالر سے زائد اس کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے یہ صدارتی محل ترکی کی شان ، آن بان کا تاریخی طور پر شاہد ہے ۔ 
 موجودہ صدر رجب طیب اردوگان جنہوں نے تیسری بار صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے، اپنے اسلامی خیالات کے لیے مشہور ہیں ، ان کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں ، گنبد ہمارے خود (سر کی حفاظت کر نے والا لوہے کا ٹوپ) مینار یں ہماری سنگینیں اور مؤمن ہمارے سپاہی ہیں، اردوگان 1954ء میں بحر اسود کے ساحلی علاقے میں ایک گارڈ کے گھر پیدا ہوئے، بعد میں اپنے والد کے ساتھ نقل مکانی کرکے استنبول آئے، معاشی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے ا نہوں نے روغنی روٹیاں فروخت کیں ، مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، فٹ بال کے پیشہ ور کھلاڑی رہے ، مرمر یونیورسٹی استنبول سے منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی ، زمانہ طالب علمی میں نجم الدین اربکان کے قریب آئے ، ان کے خیالات سے متاثر ہوئے، 1994ء میں استنبول کے میر(Mayor) بنے اور پورے شہر کو لا لہ زار بنا دیا ، پیڑ پودے اور ہر یالی سے یہ شہر سج سنور گیا ، لیکن 1999ء میں ان پر مذہبی بنیادوں پر اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر قید میں ڈال دیا گیا ، جہاں انہیں چار ماہ گذارنے پڑے ، اس سزا کے بعد انہوں نے سیاست میں اپنی پکڑ مضبوط کی ، عوام ان کے لیے فرش راہ ہوئی اور بالآخر اے کے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 2003ء میں وزیر اعظم اور پھر 2014ء میں صدر کے منصب پر فائز ہوئے ،فوج نے ایک بار بغاوت کی جسے عوام نے کچل کر رکھ دیا، یہ اردگان کی مقبولیت کی انتہاتھی، انہوں نے ناٹو کے رکن ہونے کے با وجود اسلامی اصلاحات کی اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اس کوشش کے نتیجے میں ملک میں جو ماحول بنا، اس کی وجہ سے معاشی ترقی ہوئی ، روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوئے، ملک سے قرض کا بوجھ کم ہوا، 24 نئے ایر پورٹ بنائے گیے اب ان کی تعداد پچاس ہو گئی ہے ، ہزاروں کلو میٹر نئی سڑکیں اور ہائی اسپیڈ ریلوے لائن بچھائی گئی ، صحت کے محکمہ پر توجہ دی گئی اور غریب عوام کے لیے مفت طبی مراکز بنائے گیے ، بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے لیے مختص کیاگیا ، یونیورسیٹیوں کی تعداد بڑھائی گئی ،ترک کرنسی لیراکی قدر وقیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، یہ وہ وجوہات ہیں ، جس نے صدر رجب طیب اردوگان کو ملک میں مقبول بنا رکھا ہے ، اس مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ وہ تیسری بار صدارت کے با وقار منصب پر فائز ہوئے ہیں، ان کی مقبولیت کو لوگ ان کی دہشت سے تعبیر کرتے ہیں ، غیر ملکی میڈیا انہیں تانا شاہ اور ڈکٹیٹر باور کرانا چاہتا ہے، جو ان کے دل کے پھپھولے ہیں، تانا شاہ اور ڈکٹیٹر اتنا مقبول ومحبوب نہیں ہوتا کہ مغربی قوتوں کی سخت ترین مخالفت کے باوجود تیسری بار فتح حاصل کرلے۔

نایاب ہورہی فصلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نایاب ہورہی فصلیں ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً بہت ساری فصلیں اور اناج ہمارے کھیتوں سے رخصت ہوچکے یا ہوتے جارہے ہیں ، عجیب وغریب با ت یہ ہے کہ جانوروں کی بعض نسلوں کے ختم ہونے کی فکر سرکار کو زیادہ ہے اور جن جانوروں کی نسلیں ہندوستان سے نایاب ہورہی ہیں انہیں موٹی قیمت اور بڑے خرچ پر ہندوستان لاکر چڑیا خانے میں رکھا جارہا ہے اور مرکزی حکومت اس کا فخریہ ذکربھی کرتی ہے، مثال کے طور پر چیتا کا ذکر کیا جا سکتا ہے ، جس کے باہر ملک سے لانے پر سوشل اور الکٹرونک میڈیا نے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے اور خوب واہ واہی ہوئی۔
جانوروں کی نسلوں کی جس قدر حفاظت کی فکر حکومت کو ہے ویسی فکر نایاب ہورہی فصلوں، غلوں اور اناج کے سلسلے میں نہیں کی جا رہی ہے۔ اناج کی بہت ساری قسمیں جو غذائیت سے بھرپور تھیں اور صحت کے لئے انتہائی مفیدتھیں ہماری نئی نسلوں نے ان کا نام تک نہیں سنا ہے، جیسے جوار ، باجرہ ، ساما ، کونی، کودو، مڑوا، رام دانا ، کنگنی، الوا(شکرقند) سُتھنی، کٹکی وغیرہ۔ آج کسان اس کو اگانے سے اس لئے بیزار ہے کہ ہماری تھالی سے یہ اناج غائب ہوگئے ہیں۔اناج کا استعمال نہ ہوتو اس کے دام بازار میں نہیں ملتے، کھانے میں ان کی افادیت اور غذائیت جتنی ہو، یہ موٹے اناج کہے جاتے ہیںاور دسترخوان پر مہمانوں کے سامنے اسے پیش نہیںکیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آبادی اب چین سے زیادہ ہو گئی ہے ان فصلوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ حالات ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے ،۱۹۶۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر ہندوستان کے روایتی کھانے کو غائب کر کے گیہوں چاول اور مکئی کی کھیتی کو بڑھاوا دیاگیا اور دوسری فصلوں کے مقابلے اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ مقرر ہوئی، کسان پورے طور پر اس طرف راغب ہوگئے اور دھیرے دھیرے موٹے اناج کا اگانا بند کر دیا۔
ابھی بھی سرکار کی توجہ ان فصلوں کے واپس لانے کی طرف نہیں ہے، زرعی سائنسدانوں کے متوجہ کرنے سے تھوڑا سااحساس جاگا ہے، یہ احساس اندرون ملک کے لیے نہیں ، عالمی برادری کے لیے ہے ، اسی لیے موٹے اناج کے استعمال اور اس کی پیدارار کو بڑھانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک تجویز بھیجی تھی ، اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرکے ۲۰۲۳ء کو ’’عالمی موٹا اناج سال‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ میں جو فروری میں پیش کیا گیا تھا اور جس میں وزیر خزانہ نے موٹے اناج کی اہمیت اور ہندوستان کے روایتی کھانے کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ’’شری انن یوجنا ‘‘ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ اب تک وعدہ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
موٹے اناج کی فصل اگانے میں محنت بھی کم پڑتی ہے، پانی کا استعمال بھی گیہوں وغیرہ کی طرح نہیں ہوتا ، اور اس میں کیمیاوی کھاداور جراثیم کش دواؤں کے استعمال کی بھی حاجت نہیں ہوتی، فصل کاٹ کر اس کا باقی حصہ جانور کے چارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ، ان کوجلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی نہیں پیدا ہوتی اور اس کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ کورونا کے بعد یہ اناج جسم کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح ان فصلوں کی اہمیت کسی درجہ میں سامنے آئی ۔
ملک کی زرعی یونیورسیٹیوں میں موٹے اناج پر تحقیق کا کام چل رہا ہے، جن ریاستوں نے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے وہاں ان کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں ان فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے لیکن شمالی ہندوستان بشمول بہارمیں ابھی کام شروع نہیںہوا ہے، حالانکہ موٹے اناج میں کلشیم، آئرن ، جنک ، فاسفورس، مینگنی شیم ، پوٹاشیم، فائبر، وٹامن ، کیروٹن، لیسی تھین وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے امراض قلب شوگر، تنفس وغیرہ میں راحت ہوتی ہے، تھائرائٹ ، یورک ایسیڈ ،کڈنی، لیورکے امراض بھی ان موٹے اناج کے استعمال سے قابو میں رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر بیداری لائی جائے اور اس بیداری کو عملی رنگ وروپ دینے کے لئے سرکار اور حکومت کا تعاون ملے،بازار میں ان فصلوں کی مناسب قیمت سرکار مقرر کرے، ورنہ جس طرح جانوروں کی بعض نسلیں ختم ہوگئیں ان فصلوں کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا اور آنے والی نسل جانے گی ہی نہیں کہ کبھی یہ اناج ہماری تھالی کی رونق ہوا کرتے تھے۔

پیر, جولائی 10, 2023

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
Urudduinyanews72
پٹنہ 10 جولائ (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
مناظر اسلام، فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کے ترجمان معروف علمی شخصیت حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کے انتقال پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب نے ان کے انتقال کو علمی دنیا کا بڑا خسارہ قرار دیا ہے.آپ نے کہا کہ حضرت مولانا طاہر گیاوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک پوری دنیا میں فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کی ترجمانی کی اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیا. اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حوالے سے بڑی مقبولیت اور محبوبیت عطا کی تھی.
آپ کا خطاب بڑا پر اثر اور دلائل و براھین سے پر ہوتا،علمی اور فقہی نکات سے بھر پور اور مسکت جواب سے وہ مخالفین کو لا جواب کر دیا کرتے تھے، اللہ نے آپ کو زبان و قلم کا یکساں ملکہ دیا تھااور ایک لمبی مدت تک آپ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ فقہ حنفی خاص کر مسلک دیوبند کا مضبوط دفاع کیا.
ان کے انتقال سے علمی دنیا میں ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جس کی تلافی میں بڑا وقت لگے گا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے، پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت کو نعم البدل عطا فرمائے آمین

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ للہ
اردودنیانیوز۷۲
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نو منتخب سکریٹری، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں،جامعہ رحمانی،رحمانی تھرٹی،رحمانی فاؤنڈیشن اور درجنوں مدارس اسلامیہ کے سر پرست،امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے آنکھوں کا تارہ،امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے خلف اکبر،وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر،خانقاہ،جامعہ،امارت شرعیہ کے ہزاروں معتقدین،متوسلین اور محبین کے مرجع اور مربی،مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی ولادت 12/مئی1975ءکو خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی،خانقاہ اور جامعہ رحمانی کے روحانی اور علمی ماحول میں پلے،بڑھے،کچھ بڑے ہوئے تو جامعہ رحمانی کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،اور ان کے فیوض وبرکات کو اپنے ذہن ودماغ میں سمیٹا،اجازت حدیث سند عالی کے ساتھ حضرت مولانامحمد یحیٰ ندوی(م 2023)سے پائی،عربی زبان و ادب میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے لئے جامعہ ازہر مصر کے بڑے اساتذہ کے زیر درس رہے،اور عربی بولنے لکھنے پر قدرت حاصل کی،عصری علوم کے لیے امریکہ کا سفر کیا اور وہاں سے انجینئرنگ کی اعلی تعلیم پائی، انہیں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل ہے،ان زبانوں میں جب حضرت بولنے لگتے ہیں تو ان کی مادری زبان کی طرح معلوم ہوتی ہے، علوم و فنون سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی خدمات امریکہ کی مختلف کمپنیوں کو دیں،2001ءسے خدمات کا سلسلہ شروع ہوا، بہت ساری کمپنیوں میں مختلف مناصب اور عہدے پر آپ نے کام کیا، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی کیلی فورنیانے بھی آپ کی خدمات حاصل کیں اور آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا، اکتوبر2015ءمیں حضرت امیر شریعت صاحب رحمة اللہ علیہ نے فاتحہ کی مجلس کے موقع سے اگلے سجادہ نشیں کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا، حضرت کے وصال کے بعد 9/ اپریل 2021 کو حضرت کے خلفاءکی موجودگی میں آپ کے سر پر دستار باندھی گئی اور روایتی خرقہ زیب تن کرایا گیا،9/ اکتوبر2021 ءکو ارباب حل و عقد امارت شرعیہ نے کثرت آراءسے آپ کوامیر شریعت منتخب کیا اور 3/ جون 2023 کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے 28ویں اجلاس اندور مدھیہ پردیش میں آپ سکریٹری منتخب ہوئے، اس طرح آپ کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کی صحت و عافیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کو درازیءعمر عطا فرمائے تاکہ آپ ملت کی بیش بہا خدمات انجام دے سکیں، 
 حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کا اپنا ایک نظریہ اور کام کے تئیں ان کا ایک وژن ہے، انہوں نے امارت شرعیہ کے تمام شعبوں کو فعال، متحرک اور مزید بااثر بنانے کے لیے کئی اقدام کئے، کئی شعبوں کا اضافہ کیا،دارالقضاءاور شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور نئے نصاب تعلیم کی ترتیب کے لئے کمیٹی بنائی،اسی طرح دارالقضاءکی تعداد آپ کے وقت میں کافی بڑھی، خود کفیل مکاتب کامنصوبہ 1965 میں ترتیب پایا تھا،اشتہارات اور کیلنڈر کے ذریعہ اسکی تشہیربھی کی گئی تھی؛ لیکن زمین پر کام حضرت کے وقت میں ہی اتارا جا سکا، امارت شرعیہ کی غیر منقولہ جائیداد کے تحفظ کے لئے اصلاحات اراضی اور اوقاف کی جائیداد کی صورت حال سے واقفیت کے لئے بھی حضرت نے شعبے قائم کئے۔
  حضرت اپنے والد محترم کی طرح ہی تھکنا نہیں جانتے مسلسل دورے اور کاموں میں انہماک آپ کی خصوصیت ہے، آپ کی سادگی تواضع، انکساری،کسی بھی بھول چوک پر معذرت پیش کرنا، اپنا سامان خود اٹھانا اور مشکل حالات میں بھی انفعالی کیفیت سے دوچار نہ ہونا، آپ کی زندگی کا لازمہ ہے،بات غور سے سنتے ہیں اور اپنی بات دو ٹوک رکھنے کے عادی ہیں،حق واضح ہونے کے بعدلیت ولعل کا مزاج نہیں ہے،سیدھے سیدھے قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، جہانگیر نے مظلوموں تک پہنچنے کے لئے ایک رسی باندھ رکھی تھی جس کو کھینچنے سے جہانگیر تک گھنٹی کی آواز پہنچ جاتی تھی اور مظلوم انصاف پالیتاتھا، اسی طرح حضرت نے ایک لیٹر بکس اپنی آفس کے سامنے لگا رکھا ہے، چابی حضرت کے پاس ہی رہتی ہے آپ اگر اپنی بات نہیں کہہ پا رہے ہیں یا ملاقات نہیں ہوپا رہی ہے تو اپنی عرضی لیٹر بکس میں ڈال دیجئے نام چھپانا چاہتے ہیں تو نام مت لکھئے، حروف سے پہچان لیے جانے کاخدشہ ہو تو کمپوز کرکے ڈال دیجئے،حضرت تک آپ کی معروضات پہنچ جائے گی،یہ امارت کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے، اس قسم کا سسٹم یہاں پہلے کبھی نہیں رہا۔اس لیے اسے حضرت امیر شریعت کے اولیات میں شمار کر نا چاہئے ،حضرت کاہٹو بچو کا بھی مزاج نہیں ہے،اور نہ ہی استقبال کے لئے کارندوں اور کارکنوں کی صف بندی کو پسند کرتے ہیں،کبھی کبھی تو ان کے آنے کے بہت بعدہم لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ حضرت تشریف لائے ہیں،ضرورت محسوس کیا تو کبھی یاد بھی کر لیتے ہیں،ضروری بات مکمل ہوگئی تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کارکنان زیادہ دیر ان کے پاس نہ بیٹھیں، تاکہ دفتر کے کاموں کا حرج نہ ہو،حضرت کو کسی کی بیماری کی خبر مل جائے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی تیمار داری کریں، نہیں ممکن ہو تو فون پر ہی مزاج پرسی کر لیتے ہیں، ابھی اسی اندور کے سفر میں جس میں حضرت سکریٹری منتخب ہوئے، میری طبیعت بگڑ گئی، میں مفتی ذکاءاللہ شبلی صاحب کے یہاں چلا آیا،حضرت کو بھی وہاں آنا تھا، تشریف لائے،میری خرابی صحت کا علم ہوا تو دیر تک میرے پاس رہے، اپنے ہاتھ سے دوا لکھا اور اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک دواآنہیں گئی اور اپنے سامنے مجھے کھلا نہیں دیا، جانے کے بعد فون سے کئی بار خیریت دریافت کیا صبح کو جب میں نے اپنی طبیعت ٹھیک ہونے کی اطلاع دی تو ان کو اطمینان ہوا،حضرت کی قوت تمیزی اور قوت فیصلہ اس قدر مضبوط ہے کہ وہ رطب و یابس، معاصرانہ اور حاسدانہ چشمک کو بھی خوب سمجھتے ہیں ایسے موقع سے ان کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں مزید گہری ہو جاتی ہیں،ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہتی ہے کہ کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کر لی جائے،کم و بیش دو سالوں میں حضرت نے اپنی صلاحیتوں سے اداروں کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے، امید کرنی چاہیے کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کا کام بھی حضرت کے سکریٹری شپ میں آگے بڑھے گا اور ملت اسلامیہ ہندوستان وستان میں اپنا وقار بلند کرنے میں کامیاب ہوگا

اتوار, جولائی 09, 2023

یہ گھر تمہارا ہے لوٹ آنا : نصر عالم نصر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک شاعر پانچ کلام کا انعقاد

یہ گھر تمہارا ہے لوٹ آنا : نصر عالم نصر 
اردودنیانیوز۷۲
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک شاعر پانچ کلام کا انعقاد 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 9/جولائی 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم) 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے 09/جولائی 2023 بروز اتوار  کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ میں آن لائن پروگرام”ایک شاعر پانچ کلام“ کا انعقاد کیا گیا، جو کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم مثلا یو ٹیوب، فیس بک پر بھی لائیو رہا، جسے دنیا بھر کے لوگوں نے سنا اور سراہا ، یہ پروگرام ضیائے حق فاؤنڈیشن کا یو ٹیوب چینل ”علم کی دنیا “ پر بھی لائیو رہا ۔ اس پروگرام میں مہمان شاعر نصر عالم نصر (پٹنہ) نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ بنیادی طور پر شاعری اور طب سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی  شعری مجموعہ،، غم آبدار،، منظر عام پر آچکی ہے جس کا ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام رسم اجرا عمل میں آیا تھا ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن اردو ہندی زبان و ادب کے فروغ کے لیے خصوصی کام کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ادارہ وقتا فوقتا مختلف ادبی، علمی، لٹریری اور مذہبی پروگرام وسیمینار کا انعقاد کرتا ہے۔ جس میں عمومی طور پر نوجوان اور بزرگ شعراء و ادبا اور خصوصی طور پر نئے قلم کاروں کو  پلیٹ فارم دیا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ادبی خدمات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے نظریے کے تحت اس فاؤنڈیشن نے اب تک کئی اہم پروگرام خصوصا ”ایک شاعر پانچ کلام“ میں نوجوان قلم کاروں کو ادبی، علمی، شعری وتخلیقی حلقوں میں متعارف کرانے کا کام کیا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ پروگرام رہا جس میں مہمان شاعر نصر عالم نصر کو اس پلیٹ فارم کے ذریعہ متعارف کرایا گیا۔ انہوں نے حمدیہ کلام کے اشعار کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا. اس کے بعد انھوں نے اپنی بہت خوب صورت چار غزلیں اور ایک نظم سنائیں ۔ پیش خدمت ہے نصر عالم نصر کے چند اشعار جو انہوں نے اس پروگرام میں سنایا ۔
حمد کے اشعار 
خدا کی قدرت میں کیا نہیں ہے
تو  مانگ کیوں  مانگتا  نہیں ہے
خدا  کی  حمد و ثنا  سے  بہتر
دلوں  کی  کوئی  صدا  نہیں ہے۔

نعت کے چند اشعار 

عرش کا نور حقیقت کا حوالہ کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے، 
ہر بشر کے لئے وہ خیر بشر کیوں نہ ہوں 
مصطفیٰ جیسا کوئی چاہنے والا کیا ہے۔
        غزل کے چند اشعار 
میرے بچو مری دستار گرا مت دینا
جگ ہنسائی مری دنیا میں کرا مت دینا 
میں نے دامن کو ابھی تک ہے بچاۓ رکھا
آپ دامن پہ کوئی داغ لگا مت دینا۔

قیامت بپا کر رہے ہو
بتاؤ یہ کیا کر رہے ہو
نہ جانے تمہیں کیا ہوا ہے
خطا پر خطا کر رہے ہو۔

دل ہوا آدمی کا پتھر کیوں
آدمی ہو گیا ستمگر کیوں
تم بھی رہتے ہو کانچ کے گھر میں
پھینکتے ہو کسی پہ پتھر کیوں۔

نظم کے چند اشعار 
وہ دور مجھ سے نہ جا سکے گی
اکیلے کیسے نبھا سکے گی 
ذرا سا غصہ کا تاب اتنا 
گناہ چھوٹا عذاب اتنا 
ہماری باتوں میں تھی خرابی
ہمیں نہ سمجھو خراب اتنا۔
            
اس پروگرام میں نصر عالم نصر کی ادبی وشعری خدمات پر ان کی حوصلہ افزائی کی گئ، اس موقع پر نصر عالم نصر نے کہا: ”اس طرح کے پروگرام نوجوان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بے حد اہم ہے ، میں اس فاؤنڈیشن کے اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کی اس کاوش کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ کیونکہ اس سے نہ صرف شعر و شاعری کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ شعر و شاعری اور ادب کی طرف نوجوانوں کا رحجان بھی پیدا ہوگا۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے جس کا ہم سب کو استقبال کرنا چاہیے۔ نصر عالم نصر ایک سنجیدہ، فعال اور محنتی  قلم کار کے ساتھ ساتھ طب کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں ۔“ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کی اور تعارف وتشکر محمدضیا ء العظیم (برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ)  نے انجام دی۔
محمد ضیاء العظیم نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آج کے ہمارے مہمان نصر عالم نصر کا ہم تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، نصر عالم نصر ایسے ڈاکٹر ہیں جو جواں دل رکھتے ہیں، موصوف جسم کے ساتھ ساتھ روح وقلب کا بھی علاج ومعالجہ کرتے ہیں، دوا کے ذریعہ جسمانی علاج ، اور شعرو شاعری کے ذریعہ روحانی علاج کرتے ہیں، ان کا تشریف لانا ہم سب کے لئے باعث فخر ومسرت ہے، 
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بھی ان کا پر زور استقبال کرتے ہوئے کہا کہ نصر عالم نصر کی شخصیت نایاب اور انوکھی ہے، طب کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا ذوق یہ ان کے اعلیٰ ذوق کی بہترین مثال ہے ۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

ناقابل تبدیل ___ الٰہی قانون مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ناقابل تبدیل ___ الٰہی قانون 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)
Urudduinyanews72
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو پیدا کیا ، انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، اسے عزت وتکریم کا شرف بخشا، ساری دنیا کو اس کے لیے مسخر کیا ، چاند ، تارے، سورج، دریا ، درخت، پہاڑ، نباتات وجمادات سبھی کچھ انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ، اور ان بے شمار نعمتوں کو استعمال کرکے ، کھاپی کر جو جسم پروان چڑھا اور دل میں ایمان کی جو حرارت پیدا ہوئی، اسے جنت کے بدلے میں خرید لیا ، ایسا خریدار کوئی دوسرا اس کائنات میں موجود نہیں ہے۔
ایمان کی جو دولت ہمیں ملی اور جس کی وجہ سے ہم مؤمن کہلائے وہ بھی اسی خدا کے فضل سے ملی، اس نے ہمیں مؤمن گھرانے میں پیدا کر دیا اگر کسی دوسرے مذہب والے کے یہاں پیدا کیا ہوتاتو اللہ جانے ہمارا کیاحشر ہوتا، کیونکہ ہم میں سے بیش تر کا ایمان نسلی ہی ہے، ہم نے اس کے حصول کےلئے محنت نہیں کی اور اس کے بقا کی لئے بھی محنت ہماری نہ کے برابر ہے۔
 لیکن اللہ بڑا کریم ہے، اس نے انسانوں کو جب دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تو روئے زمین کے پہلے انسان کو نبی بنایا؛تاکہ پہلے دن سے اس روئے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کی پوجا نہ ہو ، یہ سر جسے اللہ نے جسم کے سب سے اوپری حصے میں رکھا ہے، یہ پوری مخلوق کے سامنے بلند رہے،جھکے تو صرف اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے ، مانگے تو اسی سے مانگے ، ہاتھ پھیلائے تو اسی کے سامنے پھیلائے، اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے کو ذلیل ورسوا نہ کرے؛لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے کھلے ہوئے دشمن شیطان کو بھی بہکانے بھٹکانے اور راہ راست سے دور کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ، چنانچہ شیطان انسانی افکار وخیالات ، اعمال وکردار پر حاوی ہوتا رہا ، اور اپنی ساری طاقت وتوانائی اس نے انسانوں کو جہنم کی طرف لے جانے کے لئے لگادیا ، اللہ دار السلام کی طرف بلاتا ہے اور شیطان جہنم کی طرف لے کر بھاگنا چاہتا ہے جب جب انسانوں پر شیطانیت کا غلبہ ہوا اور بڑی آبادی نے اپنا رخ کفر وعناد کی طر ف کر لیا تو اللہ نے انبیاءورسل کو بھیجا ، احکام وہدایت پر مبنی کتابیں اور صحیفے دیے ، یہ انبیاءورسل انسانوں میں سے ہی بھیجے گیے ؛تاکہ اس کی اتباع اور پیروی آسان ہو ، اگر جناتوں اور فرشتوں میں سے انبیاءورسل ہوتے تو انسان یہ کہہ سکتا تھا کہ جو نبی ہم میں سے نہیں ہے اور جس کے اندر شر کی صلاحیت نہیں ہے، جو اللہ کی نا فرمانی کی قوت ہی نہیں رکھتا، اس کی اتباع انسانوں سے کیوں کر ممکن ہے، جس کے اندر خیر وشر دونوں کی صلاحیت رکھی گئی ہے؛چنانچہ انبیاءورسل آتے رہے، ایک محدود زمانے کے لیے ،متعینہ علاقوں کے لئے، زمانہ ختم ہوا تو دوسرے نبی آگیے، دوسرے علاقہ میں دو سرے نبی مقرر کیے گیے، اور یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے ہماے آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا ، اللہ رب العزت نے آپ کی ذات پر اس سلسلے کو بند کر دیا ،اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا ، اور نہ دوسری کوئی کتاب آئے گی ، آپ اللہ کے آخری رسول اور قرآن کریم اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی آخری کتاب ہے ۔
اسی خاتمیت کی وجہ سے ضروری ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو سب کا رسول بنایا جائے چنانچہ زبان مبارک سے اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی کہ آپ کہہ دیجئے میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں، پھرقرآن کریم آخری کتاب ہے ، اس لیے اس کی حفاظت کا ہر سطح پر انتظام کیا گیا کہ حتی لکھنے کے انداز کو بھی محفوظ کر دیا گیا ، اس میں جو احکام دیے گیے اس کے بارے میں صاف صاف اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کے احکام میں تبدیلی نہیں ہوتی ، اللہ کے طریقے بدلا نہیں کرتے اور ان میں الٹ پھیر نہیں ہوا کرتا۔
 قرآن کریم اور احادیث رسول میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اٹل ہیی، تبدیلی کی گنجائش اس میں نہیں ہے، یہ عقل کے بھی مطابق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانون ایک ایسی ذات پاک کا بنایا ہوا قانون ہے جو اپنی مخلوق کی تمام ضرورتوں اور اس کے فطری اوصاف وکمالات سے پورے طور پر واقف ہے، وہ ایک ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں ہے ،کوئی علاقہ نہیں ہے ، کوئی زبان نہیں ، اس کی اپنی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ نہ کھاتا ، نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے وہ بے نیاز ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے ، وہ اپنی مخلوق کی ضروتوں سے واقف ہے، پھر اس کا علم پوری کائنات کو محیط ہے ، اس کے علم میں ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی تفریق نہیں ہے،اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں، وہ جس طرح ماضی اور حال کو جانتا ہے ویسے ہی وہ مستقبل کے تمام پیش آنے والے واقعات وحوادثات ، تغیر وتبدل اور بدلتی قدروں سے واقف ہے، اس لیے اس نے جو قانون بنایا وہ اس کے لا محدود علمی سمندر کا مظہر اتم ہے جس کے مقابلے میں انسان کا علم چڑیا کی چونچ میں اٹھے ہوئے پانی کے قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔
 انسان کا علم انتہائی محدود ،اور اس کی ضرورتیں لا محدود ہیں، اس کے مفادات نیز قبائلی نسلی اور لسانی تعصب کی وجہ سے ہر دور میں اسے قانون بنانے پر آمادہ کرتا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اس کی ذات برادری اوراس کے علاقے وغیرہ کو پہونچے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا قانون الگ ہوتا ہے، بلکہ ایک ملک کی بعض ریاستوں میں ریاستی قانون بھی الگ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ سب کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے۔
 محدود علم اور مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے نا واقف اور مفاد کے تحفظ کی نیت کی وجہ سے انسانوں کے ذریعہ بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرور ت ہوتی ہے اور Amendmenetہوتے رہتے ہیں، خود ہمارے ہندوستانی قانون کی کتنی دفعات چھیاسٹھ سالوں میں بدل چکی ہیں اور کتنے دفعات کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
 اس کے بر عکس اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت کسی مرحلے میں پیش نہیں آتی اور وہ ہر دور کی ضرورتوں کی تکمیل کی صلاحیت رکھتا ہے ،جن ممالک میں الٰہی قانون پر پورے طور پر نہیں ، تھوڑا بہت بھی عمل ہے تو وہ بڑی حد تک مطمئن ہیں اور مال ودولت کی فراوانی اللہ نے ان کو دے رکھی ہے۔
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان اللہ کے قانون کا پابند ہے، اور اس کی بقا کے لیے اسے جد وجہد کرنی چاہیے، اس معاملہ میں اگر کسی مسلم ملک نے اللہ کے قانون کا پاس ولحاظ نہیں رکھا اور اس نے اپنے طور پر کچھ تبدیلیاں کر ڈالیں تو اس نے بہت غلط کیا، اس کو دلیل اور ثبوت بنا کر کسی بھی مسلمان کو اس کی تقلید کرنے یاکسی ملک کو اس جیسی تبدیلی کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ کسی مسلمان یا کسی مسلم ملک کا اللہ کے قانون کے خلاف کرنا دوسر ے مسلمان کے لیے نہ حجت ہے نہ دلیل ، مؤمن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند ۔
 ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت میں اللہ کے قانون کا احترام ملحوظ تھا ، پورے طور پر تو نہیں ، لیکن بڑی حد تک اسلامی قانون کا پاس ولحاظ رکھنے کی روایت قائم تھی ، اور کم از کم الحاد وکفر کی دعوت دینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، لیکن مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد انگریزوں کے دور حکومت میں اسلامی قانون کی پامالی کے واقعات کثرت سے ہوئے اور اس کو ختم کرنے کے منصوبے نہ صرف بنائے گیے، بلکہ پورے ہندوستان میں کوشش کی گئی کہ مسلمان اپنے دین ومذہب پر قائم نہ رہیں، اور ان میں ایک ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو جسمانی طور پر ہندوستانی اور دل ودماغ کے اعتبار سے انگریزی تہذیب وثقافت کا نمونہ ہوں، یہی وہ دور ہے جس میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دار العلوم قائم کرکے اس سیلاب بلا خیز کو روکنے کی عملی جد وجد کا آغاز کیا ، اورجب پورے قانون الٰہی پر عمل در آمد کی شکل باقی نہیں رہی ، تو ایسے قوانین جن کا تعلق مسلمانوں کے آپسی معاملات سے تھا ، مثلا نکاح، طلاق ، خلع ، وراثت ،ہبہ ، پرورش ، وصیت وغیرہ جس میں ہمیں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے سابقہ نہیں پڑتا اور جس میں دونوں فریق مسلمان ہوتے ہیں، ان پر عمل کرنے کی اجازت باقی رہی ، اسے باقی رکھنے کےلئے علماءنے جو قربانیاں دی ہیں، اسکی داستان بڑی طویل ہے، ان قربانیوں کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا یعنی شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937ءپر آزادی سے پہلے بھی عمل ہوتا رہا اور آزادی کے بعد بھی دفعہ 25 کے تحت اس آزادی کو باقی رکھا گیا اور واضح کیا گیا کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے معتقدات اور رسم ورواج کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل آزادی ہوگی اور ان کے پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا۔
ہم ہندوستانی مسلمان اسلامی افکار وعقائد اور احکام وہدایات کے پابند ہونے کے ساتھ ہندوستانی آئین کی بھی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، اسی لیے جب جب دفعہ 25کے بنیادی حق پر حکومت حملہ کرتی ہے توہم دستورکے تحفظ کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں اور حکومت کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے پرسنل لا کو ختم کرنے کی کوشش در اصل دستور ہند کی خلاف ورزی ہے، اور ہم جیتے جی ایسا نہیں ہونے دیں گے ، اس کے لیے ہی لے پالک بل کی ہم نے مخالفت کی،نفقہ مطلقہ کے مسئلے پر شاہ بانو کیس میں ہم سڑکوں پر آئے اور دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات کو بچانے کام کیا ، جس کے نتیجے میں متبنی بل اور طلاق کے بعد منٹی ننس کے قانون سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا۔
حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، ہر دور میں مسلم پرسنل لا پر شب خوں ما رکر یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی اور اس کے لیے دستور کے رہنما اصول میں سے دفعہ 44کا سہارالیا جاتا رہا ہے، جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکومت تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون بنانے کی کوشش کرے گی، اس دفعہ کا سہارا لے کر مختلف موقعوں پر عدالت نے بھی حکومت کو ایسا قانون بنانے کی تجویز رکھی، حالاں کہ جب دستور ساز کمیٹی میں اس دفعہ پر بحث ہوئی تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے یہ کہا تھا کہ کوئی پاگل اور نادان حکومت ہی مختلف مذاہب، قبائل اور نسلوں کے امتیازات کو نظر انداز کرکے اس قسم کا فیصلہ لے گی۔
 ہندوستان کے لا کمیشن نے مختلف موقعوں پر یکساں شہری قانون کے حوالہ سے عوام کی رائے مانگی تھی اور ہر بار مختلف مذاہب قبائل اور طبقات نے اس کی مخالفت کی اور لا کمیشن نے حکومت کو باور کرادیا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ 2024کا الیکشن آنے والا ہے، بھاجپا حکومت کے پاس انتخاب کے لیے کوئی ”مُدّا“ نہیں ہے، چنانچہ اس نے ہندو ووٹ کو متحد کرنے کی غرض سے پھر سے لا کمیشن کو عوامی رائے عامہ طلب کرنے کو کہا ہے، لا کمیشن نے صرف ایک ماہ14 جون سے14 جولائی تک کا وقت دیا ہے، اسی درمیان عوام اور مذہبی تنظیموں کو اپنی رائے کمیشن کو دینی ہے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت پر بڑے پیمانے پر رائے عامہ یکساں شہری قانون کے خلاف تیار کرنے کی مہم چل رہی ہے، سماج کے ہر طبقہ کو اس کام کے لیے جوڑا جا رہا ہے، ضلع وار دوروں کی ترتیب بن گئی ہے، ادھر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی اور اس کے ذمہ داران بھی اس کام میں لگ گیے ہیں، نتیجہ چاہے جو ہو، ہم اپنی حد تک کوشش کے پابند ہیں، اس سے ہمیں بھر پور جد وجہد کرنی چاہیے، زیادہ سے زیادہ میل لا کمیشن کو اس کی مخالفت میں جانے چاہیے، جس کا ایک نمونہ لوگوں تک پہونچانے کا کام کیا جا رہا ہے، آپ بھی ساتھ آئیے، اپنے احباب ورفقاءکو اس پر آمادہ کیجئے، یہ اس وقت کا بڑا کام ہے، قائدین کے اگلے قدم کا انتظار کیجئے،مگر ابھی میل بھیجنے سے زیادہ کچھ اور نہ کیجئے۔
مسائل آتے ہیں اور آتے رہیں گے، ہمارے قائدین کی مومنانہ فراست اور حکمت وبصیرت کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملتی رہی ہے، اب پھر وقت آگیا ہے، کیونکہ حکومت یونی فارم سول کوڈ کی راہ پر چل پڑی ہے، اس نے عدالت اور لا کمیشن دونوں کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ مسلم پرسنل لا پر سوالات کھڑے کئے جائیں ان سوالات واعتراضات کا سہارا لے کرمسلم پرسنل لا کو دفن کر دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلم پرسنل لا ہمارے دین وایمان کا لازمی حصہ ہے اورہم اس سے کسی بھی قیمت پر دست بردار نہیں ہو سکتے، اس معاملے میں سارے مسلک اور مکتب فکر کی ایک رائے ہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت بھی انتہائی مضبوط اور عزم محکم کی پیکر ہے،ہمیں امید ہے کہ لے پالک بل او رنفقہ مطلقہ کی طرح اس معاملہ میں بھی فتح، حق کی ہوگی جوہمارے ساتھ ہے

ہفتہ, جولائی 08, 2023

صلاحیت کا غلط استعمال ٭ انس مسرورانصاری


صلاحیت کا غلط استعمال
Urudduinyanews72
      ٭ انس مسرورانصاری 
 
قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیامیں بے شمارقومیں پیداہوئیں۔عروج وارتقاء کی منزلوں سے ہم کنارہوئیں،رفعت وسربلندی نے اُن کے قدم چومے، لیکن طاقت واقتدارکانشہ طاری ہواتو غرور ونخوت میں مبتلاہوئیں،خودپرستی اور خدافراموشی کواپناشعاربنالیا،خداکی قائم کرد ہ حدوں سے اجتناب کیا۔ہراُس برائی کواختیارکیا، رواج دیاجوقو مو ں کے زوال کاسبب ہوتی ہیں۔آرام طلبی و عیش کوشی اور غفلت وبے خبر ی میں ایسے کھوگئیں کہ اُنھیں اپنی ذات اوراپنی طاقت کے سِواکچھ بھی نظرنہ آتاتھا۔اُن کے علماء اوردانشوربھول گئے کہ انسان کامقصودِ حیات کیاہے۔ انھوں نے اپنے فرائض ِمنصبی سے غفلت کا گناہ کیا۔دربارگیری ،حاشیہ برداری اورجاہ طلبی اُن کی زندگی کامقصدومشن بن گئے۔وہ بھو ل گئے کہ خدانے اُنھیں دینی ودنیاوی منفعت بخش علوم سے سرفرازکیا ہے۔ دینی و دنیاوی سعادتیں عطا فرمائیں توقوم کی صحیح رہنمائی کاذمّہ دار بھی ٹھہرایا۔ مگروہ اپنی رہنمایانہ حیثیت کوفراموش کربیٹھے۔ طرح طرح کی لغویات اورخرافات کے اسیرہوگئے۔اس کے بعدبھی خدانے اُنھیں سنبھلنے اورپھرسے راہِ راست پرچلنے کے مواقع باربارعطاکیے۔لیکن جب اُن کی نادانیاں اورنافرمانیاں قدرت کے آئین سے متصادم ومتجاوزہونے لگیں ،ٹکرانے لگیں تو زوال کواُن کامقدرکردیاگیا۔پھروہ تباہ وبرباد ہوگئیں۔اُن کانام ونشان تک مٹ گیا۔بعض قومو ں کوتاریخ کے صفحات میں بھی پناہ نہ مل سکی اور نیست ونابود ہوگئیں۔ 
مصرکی فاطمی خلافت،بغدادکی خلافتِ عباسیہ ،خلفائے اسپین اورخلافتِ عثما نیہ کے جاہ وجلال اور سربلند ی و سرفرازی کی مثال نہ تھی۔اُن کے خلفاء یورپ کے بڑے حصے پرقابض ہوگئے تھے۔دنیاکے نصف سے زیادہ حصوں پراُن کاتسلّط تھا۔ وہ دینی ودنیاوی سعادتوں کے امام تھے۔یورپ کے کسی حکمراں کواُن سے آنکھیں چارکرنے کی مجال نہ تھی۔اُن میں ہمت تھی،بہادری اورشجاعت تھی،اُن کے بازوتواناتھے، نہ وہ خود چین سے بیٹھتے اورنہ اپنے عسکریوں کوآرام کا موقع دیتے،وہ خودبھی متحرک رہتے اوراپنی عسکری طاقت کوبھی متحرک رکھتے۔ خشکی پربھی وہ مقتدر تھے اورسمندروں پربھی حکمراں۔ عدل وانصاف،امن ومساوات،خداترسی،اتحادواتفاق اوراسلامی تہذیب وتمدّن کے وہ نگراں و محافظ تھے۔ انھوں نے علوم وفنون کوبہت فروغ دیا۔زندگی کے ہرشعبہ میں کارہائے نمایاں کیے۔پھراُن کے بعداُن کے جانشین آئے اورمحل سراؤں میں اسیرہوکرعیش پرستی میں مبتلاہوگئے۔اُن کے بازوکمزور ہوگئے۔اُن کی طاقت گھٹتی گئی۔وہ مخلوقِ خداسے غافل ہوکر شراب وشباب کے ہوش ربا طلسم میں کھوگئے۔یہ اُن کاآخری گناہ تھا۔پھراُنھیں قدرت نے معاف نہیں کیا۔صلاح الدین ایوبی نے اُس نام نہاد خلافت کوختم کردیااورایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ملّتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوکنارامل گیا۔قوموں کے زوال کے اسباب مختلف ہیں لیکن عیش پرستی اورمخلوقِ خداسے بے نیازی مشترک ہے ۔ بلاشبہ عہدِ عباسیہ میں علوم وفنون کوبڑی ترقی ملی۔بہت بڑے بڑے فلاسفراورسائنس داں پیدا ہوئے جن کے کارنامے تاریخ میں محفوظ ہیں۔خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں علمِ کلام کوعروج حاصل ہوااورخلقِ قرآن کافتنہ کھڑاہوا۔بہت سے حق پسندوحق پرست علماء وصالحین شہیدکردیے گئے۔مامون رشیدنے اُنھیں حق بیانی کے جرم میں سزائیں دیں۔امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کے ہمنواؤں کوقیدوبندکی صعوبتیں جھیلنی پڑیں،یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہوگئے۔مامون رشیدکے بعدبھی یہ فتنہ پُرجوش طریقے سے جاری رہا۔یہ خلفاء قرآن کومخلوق مانتے تھے ۔اُن کے حامی مصلحت پسند علماء کی تعدادکثیرتھی۔پھر ایک انقلاب پسند اورحق بیان پیداہوا۔اس نے کہا۔‘‘جس بات میں رسولِ خداخاموش رہے۔ان کے اصحاب چپ رہے۔تابعین کی جماعت خاموش رہی’اس بات پرتم لوگ بحث کررہے ہو‘جراح وتعدیل اورتاویلات سے کام لے رہے ہو‘یہ بڑی جسارت کی بات ہے۔’’ اس کے بعد یہ فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔ جس علم الکلام کی بنیادپریہ فتنہ کھڑاہوتھا،وہ علم مسلمانوں کوبہت مرغوب ومحبوب تھا۔خلافتِ عباسیہ کے آخری عہد میں علم کلام نے ایک نئی کروٹ بدلی۔اُس کی بنیادپرمناظروں کی گرم بازار ی شروع ہوئی۔مسجدوں میں مناظرے۔شاہراہوں اوربازاروں میں مناظرے۔مسلکی مناظرے۔ نسلی مناظرے۔ارضی وسماوی مناظرے۔ قسم قسم کے مناظرے ومباحثے ۔ طرح طرح کے موضوعات پر اِن مناظروں نے دیگرعلوم کی اہمیت کوکم کردیا۔پوری قوم مناظرہ بازی کے مرض میں مبتلاہوگئی۔ لیکن علم الکلام ہویا کوئی دوسراعلم، اپنے آپ میں اچھایابرانہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کم ظرف آدمی کوعلم حاصل ہوجائے تووہ اُس کواپنے مزاج ومذاق کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگرمزاج صالح نہ ہوتوعالم کاعلم بھی شیطانی خرافات کاسرچشمہ ہو جاتاہے۔شہرت اورمعیشت کی طلب علمی سچائی کوکھاجاتی ہے۔علم کاغلط استعمال بہت برے نتائج سامنے لاتاہے۔چنانچہ اُس دور کے شہرت طلب علمائے سُؤ نے اپنے اصل کام دعوت وتبلیغ اورفروغِ دین وملّت کوپسِ پشت ڈال دیا۔ اپنی عسکری طاقت سے غافل آخری دَورکے خلفاء اپنی حرم سراؤں میں شراب وکباب کی لذتوں اورحسن وجمال کی رعنائیوں میں ایساگرفتارہوئے کہ پھررہائی نصیب نہ ہوسکی۔اپنے تحفظ اوربقاء کے جس تابوت میں یہ کیلیں ٹھونکتے آئے تھے،چنگیزخاں نے اُس میں آخری کیل ٹھونک دی اورخلافتِ عباسیہ کانام ونشان مٹ گیا۔مسلمان چُن چُن کر قتل کیے گئے۔معصوم بچوں کونیزوں پر اُچھالاگیا۔چنگیزخاں خداکاقہربن کرنازل ہوا۔زمین اپنی تمام تر فراخیوں کے باوجود مسلمانوں پرتنگ ہوگئی۔ 
خلافتِ اسپین کے زوال کے اسباب بھی مذکورہ دونوں خلافتوں سے مختلف نہ تھے۔قریب آٹھ سوسالہ اس خلافت کونااہل اورنا لائق بادشاہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے کفن پہنادیا۔مسلمانوں کاقتلِ عام ہوا۔وہ ذلّت کے ساتھ اسپین سے نکال دیے گئے۔عورتیں باندیاں بنالی گئیں اوراسپین میں بچے کھچے مسلمان غلام ہوگئے۔ عیسائیوں نے اُن کے عبادت خانوں کوگر جا گھروں میں تبدیل کرلیااورباقی مساجد کو گھوڑوں کااصطبل بنادیا۔یہ اُس قوم کاانجام ہے جس کے بزرگوں کی بخشی ہوئی علم کی روشنی سے سارایورپ جگمگارہاہے۔ 
ہندوستان میں مغل سلطنت کاعروج تاریخ کاایک زرّیں باب ہے۔اور نگ زیب عالمگیرتک اس سلطنت کی حدودمیں اضافہ ہوتارہا۔کوئی طاقت مغلوں کاسامناکرنے کی جرأت نہیں رکھتی تھی۔ اورنگ زیب نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے بعد حکمراں طبقہ آپسی اختلافات کاشکارہوگیا۔کشمیرسے کنّیاکماری اور رنگون سے کابل تک پھیلی ہوئی اس عظیم الشان سلطنت کے زوال کے اسباب بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ اورنگ زیب کے بعد کئی بادشاہوں نے تخت وتاج کوسنبھالا مگراُن کابوجھ اُٹھانے کی طاقت کسی میں بھی نہ تھی۔ ہمیشہ کی طرح عیش پرستی،بزدلی،خو ابِ غفلت اورعلمی انحطاط کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت سمٹتے سمٹتے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے عہدمیں صرف دہلی تک محدودہوگئی۔بس لمبے لمبے القاب باقی رہ گئے۔جب کلکتہ سے انگریزی فوج دہلی کی طرف بڑھ رہی تھی اورمنزلوں پرمنزلیں سرکرتی ہوئی دہلی کی طرف چلی آرہی تھی اُس وقت بوڑھااورکمزوربادشاہ اپنی عسکری طاقت کاجائزہ اوراسلحوں کی درستی اورفراہمی کے بجائے شطرنج کھیلنے اورغزلیں کہنے میں مصروف تھا۔اُس کے حاشیہ نشین شعراء ومصاحبین اُس کی شان میں قصیدے کہہ کہہ کراُسے گمراہ کررہے تھے۔اُس مجبوراوربے بس دعاگوبادشاہ کو ظلِّ الٰہی اورسلطانِ عالم کے القاب سے پکارتے تھے۔ دشمن منزل بہ منزل بڑھتاچلاآرہاتھا اوربادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے اورقسم قسم کے جانورپالنے اوران سے دل بہلانے میں مست تھا۔بچی کھچی فوج کوتنخواہیں نہیں مل پاتی تھیں۔اسلحے زنگ آلودہو گئے تھے۔بادشاہ شاعرانہ ومتصوفانہ تخیّلات کی دنیا میں فر ارہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کی حالت اُس شترمرغ جیسی ہوگئی تھی جوخطرہ محسوس کرتے ہی ریت میں گڑھاکھودکر اپنے سر کو چھپالیتاہے اورخیال کرتاہے کہ وہ دشمن کی نگاہوں سے محفوظ ہے۔ 
 مغلیہ سلطنت کے زوال پذ یر عہدکی دہلی میں عوام اورخواص کی خصوصی تفریحات کے دوبڑے ذرائع تھے۔ایک تومشاعرے اوردوسرے طوائفوں کے مجرے۔خاقانیِ ہندذوقؔ دہلوی اپنی بلاغت۔ مرزاغالبؔ اپنی فکری اورفلسفیانہ بصیرت۔مومنؔ اپنی معاملہ بندی ورومان پسندی اورداغؔ اپنی سادگی وفصاحت میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔مشاعروں کی محفلیں بڑے پیمانے پربرپاہوتیں۔طوئفوں سے مجرے سننا،ان کے بالاخانوں پرجانا،رسم وراہ رکھناتہذیب وشرافت میں داخل تھے۔اپنے بچوں کی تہذیبی تربیت کے لیے طوائفوں کی خدمات حاصل کرنااس زمانے کے شرفاء کی خاص امتیازی شان تھی۔اُس زمانہ میں ‘‘اودھ اورشاہانِ اودھ’’ کابھی یہی عالم تھا۔نزاکت ایسی کہ سامنے کھیرایاککڑی کاٹ دو تو زکام ہوجائے۔اپنے اقتدارکے لیے قوم کاسودا کرنے والے ان عیش پرستوں نے قوم کوبیچ دیا
ایسٹ انڈیاکمپنی شہروں پرشہراورقصبوں پرقصبے فتح کرتی ہوئی تیزی سے دہلی کی جانب بڑھ رہی تھی مگردہلی والے طوائفوں سے مجرے سننے اورمشاعروں میں شعرأ کودادوتحسین سے نوازنے میں مصروف تھے۔مشہورہے کہ مرزاداغؔ نے دہلی میں شاعری کاوہ جادوجگارکھاتھاکہ سامعین اُن کی غزلیں سن کر مسحورہوجاتے۔کہتے ہیں کہ جب داغؔ مشاعروں میں اپناکلام سناتے تو دادوتحسین کے شور سے مشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑ جاتیں۔ذوقؔ وغالبؔ،مومنؔ وداغؔ کے علاوہ اردواورفارسی کے بہت سے اہلِ کمال وفن جوذہانت وذکاوت اورلیاقت وصلاحیت کے اعتبارسے اعلاترین معیارپرتھے،زندگی بھر شعرکہتے اوردادوتحسین وصول کرتے رہے۔اسی پروہ خوش تھے،قانع و مطمئن تھے۔جن کے شعروں پرمشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں اورجوبہترین دماغ اوراعلا صلاحیتوں کے مالک تھے۔اپنی قوم کے لیے کوئی ایساعلمی وتعمیری کارنامہ نہ کرسکے جس پر آج ان کی قوم فخرکرسکتی۔ سودوسوغزلوں کے بجائے انسانیت کی ترقی اور تحفظ کے لیے صرف ایک تھیوری اور سائنٹفک نظریہ دے جاتے توآج پوری انسانیت ممنونِ احسان ہوتی۔حدتویہ ہے کہ جولوگ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کوافیون دے کرسُلارہے تھے،جب 1857ء میں قوم پر سامراجی مظالم کی جابرانہ افتادپڑی تو یہی لوگ قوم کوغنودگی کی حالت میں چھوڑکرحصولِ عیش و معاش کے لیے دوسری ریاستوں کی طرٖف بھاگ کھڑے ہوئے۔قدرت نے انھیں اعلادماغ اور بہترین صلاحیتوں سے نو از ا تھا۔زمانہ شناسی کی لیاقت عطاکی تھی۔یہ لوگ چاہتے تو قوم کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگرانھوں نے کچھ نہ کیا۔ زندگی بھراپنی خدادادصلاحیتیں غیرضروری سمتوں میں صرف کرتے رہے۔وہ ایسے محاذ وں پراپنی ذہانت کامظاہرہ کرتے رہے جہاں سے اُن کی زوال پزیرقوم کو کو ئی بھی فائدہ پہنچنے والانہ تھا۔ 
اسی طرح منصورحلّاج کی زندہ کھال کھینچی گئی ۔کیونکہ انھوں نے اپنے اندرخداکوپایاتھا۔باب کو1850ء میں ایران میں اس لیے گولی ماردی گئی کہ وہ اپنے آپ کوامام موعودسمجھتے تھے۔مرزاغلام احمدقادیانی نے انکشاف کیا کہ مسیح وکرشن کی روح اُن کے اندرحلول کرگئی ہے۔مگریہ لوگ جومابعدالطبیعاتی دنیامیں اتنی بلندپروازیاں دکھارہے تھے،اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں پیداہواجوانسانیت کوسائنٹک علوم میں کوئی نیاطریقہ یانئی دریافت دے جاتا۔ 
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیرمیں مسلم قوم کے زوال کی رفتاربڑھتی ہی گئی۔ایسالگتاہے کہ اس قوم کے زوال کی کوئی حدہی نہیں کہ جس پر نشاۃ ثانیہ کی بنیادقائم ہو۔یہ قوم ابھی زوال پزیرہے اورزوال یا فتگی کے آثارتک نظرنہیں آرہے ہیں۔اس قوم نے ایسے علماء اوردانشورنہیں پیداکیے جواس کارخ اس کے اصلی مرکزومحوراورمرجع کی طرف موڑدیتے۔اس کامقدربدل دیتے۔قوم فرقوں،طبقوں اوربرادریوں میں بٹ گئی۔منتشرہوگئی۔اس کی ساری قوت بکھرگئی۔زندگی کے ہرمحاذپرنا کام ونامرادہوگئی۔قانونِ قدرت ہے کہ اس کائنات میں جوچیز اپنی نفع بخشی کھودے،اسے پرے کردیاجائے،ہٹادیاجائے۔مٹادیاجائے۔اس کائنات کوغیرضروری اورغیرمنفعت بخش چیزوں کی ضرورت نہیں۔دوسروں کے لیے نفع بخشی ہمیشہ ایثاروقربانی،بھلائی وخیرخواہی،بھائی چارگی اوراحساسِ ذمّہ داری کی بنیادپرممکن ہے لیکن اس قوم نے اس جذبہ واحساس کوبھی کھودیا اوربھول گئی کہ وہ جن کی محبت کادم بھرتی ہے۔جن کادامن نہ چھوڑنے کی باربار قسمیں کھاتی ہے ،اللہ کے اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے باربارفرمایاہے کہ مسلمان،مسلمان کابھائی ہے،اس کے لیے وہی کچھ پسندکرے جووہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔’’ اس قوم نے اجتماعیت اوروحدت کے اس بنیادی سبق کو فراموش کردیا۔ یہ بھی بھول گئی کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ نافرمان قوموں کو مٹادیتاہے اورایسی قوم کواسلام کی توفیق عطافرماتاہے جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔اپنی انفرادیت کوکھوکرمسلم قوم نے غیرقوموں کے شعارکواپنالیا۔ان کی مماثلت ومتابعت اختیارکی۔ عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن اتوارکومقررکررکھاہے توعام مسلمانانِ برصغیرنے خداکی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن ‘‘جمعہ’’ کومخصوص کرلیاہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی ایک دن خداکی عبادت کرتی ہے۔اس قوم نے یہودیوں سے ‘‘سودخوری ،عیسائیوں سے ‘‘لباس’’اوراہلِ ہنودسے ذات اورشخصیت پرستی کے علاوہ ان کی سماجی برائیوں کوبھی رضاورغبت کے ساتھ قبول کرلیاہے۔اب اس قوم کے پاس اس کااپناکیابچا۔؟یہ سوال خود ہی اپناجواب ہے۔ 
زندگی کی ہرسطح پر قوم کے علماء اوردنشور اس کے نگراں ومحاظ ہوتے ہیں۔ان کی حیثیت رہنمایانہ ہوتی ہے۔وہی قوم کوصحیح راستوں کی طرف لے جاتے ہیں۔صحیح خطوط پرچلاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمّہ داری ہے۔لیکن کیاخیرِ اُمّت کی صورت میں یہ ذ مّہ داری پوری کی جاری ہے۔؟یہ ایک بڑااور اہم سوال ہے۔ 
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ فرقوں،طبقوں،برادریوں اورمزید گروہوں میں بٹی ہوئی منتشر قوم نے اپنے تہذیبی وتمدّنی اورمعاشرتی نظام کے تاروپودبکھیرلیے ہیں۔اپنی ساری اچھائیاں دوسری قوموں کوبخش کراُن کی ساری برائیاں ،خرافات اورمذموم رسوم ورواجات کواپنے معاشرہ میں رائج کر لیا ۔ نصرانیوں،یہودیوں اورہندؤں کے بہت سے طریقے اپنالیے۔اس قوم کااپناکیابچا۔؟ 
قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے
اس کی ایک مثال ‘‘جہیز’’جیسی جابرانہ بدعملی ہے۔اسلام سے جس کاکوئی تعلق نہیں۔یہ خالص ہنودی رسم ہے جوسناتن دھرم سے جڑی ہوئی ہے اورجوکسی بھی معاشرہ کے لیے کینسرجیسی مہلک بیماری ہے ،مسلمانوں نے بڑے فخرکے ساتھ اپنے معاشرتی نظام کالازمی حصّہ بنیالیااوراُن کے علماء ودانشورخاموش ہیں۔ دیمک کی طرح چاٹ جانے والی جہیزکی رسم نے مسلم سماج کوناخواندہ وپسماندہ بنادیا۔ جہیزکی اسی لعنت کی وجہ سے آج مسلم بچیاں غیرمسلموں کواپنی زندگی کاہم سفر بنانے پرمجبورہیں۔ ان کے والدین کے پاس ‘‘جہیز’’کی استطاعت نہیں ہوتی۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت بھی ناگزیر ہے۔یاپوری زندگی تنہائیوں کی نذر ہوجاتی ہے۔سیاہ بالوں میں چاندی کے تارآجاتے ہیں اور آنکھوں میں سارے سہانے خوب مرجاتے ہیں۔جہیزکی اسی لعنت کے سبب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بچیوں کوخداکی رحمت کہاگیاہے۔لیکن جب یہ رحمت نازل ہوتی ہے تو لوگوں کے چہرے فق ہو جاتے ہیں۔ اُترجاتے ہیں۔ ایسانہیں کہ انھیں بچیوں سے پیارنہیں۔کبھی کبھی توبچوں سے زیادہ اپنی بچیوں کوپیار کرتے ہیں۔مگر کیاکریں کہ جہیزکابوجھ ان کی کمروں کودہراکردیتاہے۔اسی بوجھ کوہلکاکرنے کے لیے وہ بچوں کو تعلیم کے بجائے کام پرلگالیتے ہیں تاکہ اپنی بچیوں کے لیے جہیز کی رقم جمع کرسکیں۔زمانۂ جاہلیت میں وحشی عرب اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیاکرتے تھے۔مگرہمارے زمانے میں انھیں پیداہی نہیں ہونے دیاجاتااورماں کے شکم ہی میں دفن کردیاجاتاہے۔کچن میں زندہ جلادیاجاتاہے۔ جہیزکی اس رسم اوردیگرخرافات نے پورے مسلم معاشرہ کی دھجیاں بکھیررکھی ہیں۔ ساراکرپشن اسی سے پھیلاہواہے۔جہیزکابوجھ نہ ہوتوہرباپ چاہے گاکہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں۔آگے بڑھیں،ترقی کریں۔ 
بھارت کی ‘‘سچرکمیٹی’’ کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے۔ وہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔مگران کے مصلحین کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔تباہیوں اوربربادیوں کاایک سیلاب ہے جس میں یہ قوم بہی چلی جارہی ہے۔جولوگ اس بہاؤ کوروک لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ بھی اسی میں بہے چلے جارہے ہیں۔ غیر ضروری محاذوں پر سرگرم ہیں۔اقبالؔنے کہاتھا۔ ‘‘توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر۔’’لیکن اس قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے زوال اورپستیوں کاسلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہاہے۔براہیمی صداقت کوجانتی ہے مگرشعلوں سے ڈرتی ہے۔عصائے موسوی ہاتھوں میں ہے اورسانپوں سے خوفزدہ ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کے لیے نمونے کاا یک مثالی معاشرہ قائم کیاتھاجو کا میابیوں اور کامرانیوں کاضامن تھا۔اس معاشرہ نے بڑے بڑے ریفارمراورہیروزپیداکیے جوپوری دنیاپر اثراندازہوئے۔جس
 میں جہیز اوربارات جیسی خرافات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔کوئی تصور نہ تھا۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالا عنہاکانکاح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایاتوانھیں جہیزنام کی کوئی چیزنہیں دی۔جوکچھ دیاوہ حضرت علی کودیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اُن کے کفیل اورسرپرست تھے۔نکاح کے سارے ا خراجات حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر اداکیے تھے۔ بعدکے زمانے میں اس فلاحی معاشرہ کومسلمانوں نے مستردکردیااوروہی کچھ کیاجویہودیوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیاتھاکہ نبی ورسول کوتومانیں گے لیکن اُن کے فرمودات پرعمل نہیں کریں گے۔اس نافرمانی پر اللہ تعالانے یہودیوں پرلعنت بھیجی۔یہودیت اس کے سواکچھ او ر نہیں کہ اپنے نبی ورسول کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جائیں اور خداکاشریک تک ٹھہرادیاجائے مگر اُن کی ہدایات پرعمل نہ کیاجائے۔کیامسلمان لعنت زدہ یہودی قوم کی راہ پرچل نکلے ہیں۔؟نافرمانی،خود غرضی،خودفریبی ،ناانصافی، بے ایمانی، لالچ،ہوس،ریاکاری،شراب نوشی،قماربازی، عشرت پسندی،سود خوری،وعدہ خلا فی، عدم مساوا ت،عدم صلہ رحمی،دھوکہ،مکر،فریب،تن آسانی،قتل وخون اورغارت گری۔!وہ کون سی برائی ہے جس کی لعنت میں مسلم قوم گرفتارنہیں۔پھربھی محبتِ رسول کادعویٰ ہے اوراس کے لیے جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔نتیجہ یہ کہ اللہ ورسول کے تمام ترواسطوں کے باوجود جب دعائیں نامقبول ہوجاتی ہیں توقوم شکایت پرآمادہ ہے کہ‘‘برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر’’۔اپنی ذات کے خول میں بندناجائزمفادپرستی میں مبتلااس قوم کونہ جانے کب اپنے محاسبے کی توفیق عطاہوگی۔ہوگی بھی یانہیں۔کیاپتا۔ 
ہیں دل محروم ضربِ لاالہ سے
صدف توہے گہر باقی نہیں ہے
نمازیں ہیں مگربے ذوق سجدے
اذاں ہے پر اثر باقی نہیں ہے

انس مسرورانصاری
 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰     
(یوپی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...