Powered By Blogger

جمعہ, جولائی 21, 2023

ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے : محمد ضیاء العظیم قاسمی ،

ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے : محمد ضیاء العظیم قاسمی ،
اردودنیانیوز۷۲ 
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے زیر اہتمام محرم الحرام کے استقبال میں پروگرام کا انعقاد ۔
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 21/جولائی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 20/جولائی 2023 بعد نماز مغرب محرم الحرام کے استقبال پر مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی کی صدارت میں ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت، اور اس ماہ سے وابستہ تاریخ پر روشنی ڈالی گئی، اس پروگرام میں طلبہ وطالبات سمیت اور بھی کئی لوگوں نے شرکت کی ۔
 پروگرام کی نظامت شہزاد عالم نے کی ۔
پروگرام کا آغاز حافظ اعجاز کے تلاوت قرآن سے ہوا ، بعدہ قاری واجد علی عرفانی استاذ جامعہ ہذا ، شہزاد عالم،سجاد عالم ،قاری ماجد نے نعت پاک پیش کیا ۔
مقرر کی حیثیت سے سرور عالم نے صحابہ، عظمت صحابہ، اور محرم الحرام کے پس منظر پر اپنی تقریر پیش کی، 
آخر میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی استاذ جامعہ ہذا نے محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت اور اس کی تاریخی پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ کا اہم باب رہا ہے، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ ہے، اس ماہ میں کئ اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جو اسلامی تاریخ کا اہم حصہ رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ محرم الحرام کا ہم سے کیا تقاضہ ہے، اور ان واقعات سے ہمیں جو پیغامات اور سبق ملتے ہیں انہیں سمجھیں اور ان پر عمل کریں ۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ جو کہ امارت شرعیہ سے تقریباً ڈیڑھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے،جس کی بنیاد محض اخلاص وللہت پر ہے، اس ادارہ نے بہت کم وقتوں میں اپنی خدمات کی بنا پر ایک انفرادی شناخت قائم کرچکا ہے، اسی سال شعبان المعظم کے ماہ میں 16/حفاظ کرام جنہوں نے اس ادارہ سے تکمیل حفظ قرآن کیا ان کے سروں پر دستارِ فضیلت باندھی گئی۔
اس وقت ادارہ میں پانچ ماہر وباہر اور محنتی اساتذۂ کرام، ایک باورچی اور تقریباً تیس طلبہ ہاسٹل میں مقیم ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے ،نیز بیس مقامی طلبہ وطالبات اپنے مقرر وقتوں میں آکر علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،یہ ادارہ محض فی سبیل اللہ اور اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی __آسان نکاح کا عملی نمونہ✍️مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی __آسان نکاح کا عملی نمونہ
Urudduinyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہؓ کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی،دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح یکے بعددیگرے حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا، ان شادیوں کے جوتذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کونکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیاگیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ نے ان صاحبزادیوں کوکچھ جہیز کے طور پردیا۔
  حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اوربات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت علیؓ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔(البدایة والنہایة 3/345)
حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکا تھے، عمرمیں کم وبیش حضرت فاطمہؓ سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کاانتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔(الاستیعاب ج 1 ص83،سیرت النبی ج 2ص367، سیرت سرورعالم 2021)
حضرت علیؓ کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کوقبول کرلیااورحضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہؓ کو دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علیؓ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جوزرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے،البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنیؓ نے خریدلیا، حضرت علیؓ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلالؓ کو دیا کہ وہ خوشبو خرید کرلائیں۔ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ 2/413) اور بقیہ رقم حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کودیاکہ وہ حضرت سیدہؓ کی رخصتی کا انتظام کریں۔(تواریخ حبیب الٰہ ص34 ) خادم خاص حضرت انسؓ کوحکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، عثمانؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور انصاری صحابہ کی ایک جماعت کوبلالاﺅ ،یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کرادیئے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمنؓ کے ہمراہ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیاگیاتھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا توحضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
  حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا ، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ ،ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتاہے۔(مسنداحمد ج1 ص104، البدایة والنہایة 3/146)
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھاجاسکتاہے،اس نکاح کو جس سادگی کے ساتھ کیا گیا اس میں امت کے لیے آسان نکاح وشادی کا عملی نمونہ ملتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
1۔حضرت علیؓ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ،ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی،اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح 
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے،مربی اور ولی تھے۔
   2۔بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کاانتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہوتو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
 3۔یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں،بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
 یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماءامت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوة العلماءحضرت مولانا برہان الدین سنبھلیؒ لکھتے ہیں:”جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپ نے بوقت رخصتی(یا اس کے بعد) دیاتھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں ،وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیاتھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے“۔ (جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ ص 92)
  حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیاہے، لکھتے ہیں:”اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دیاجاتاہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑمیں جونمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتاہے ، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہر کیف غلط ، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے“۔(جہیز کی شرعی حیثیت بحوالہ سہ ماہی منہاج لاہور)
حضر ت مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:”ہمارے زمانہ میں جہیز کوجس طرح نکاح کالازمی جزو قرار دیا گیاہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کامرادف سمجھ لیاگیا ہے،اورجس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیاجارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہولڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہےں، یہ پورا طرز عمل سنت کے قطعی خلاف ہے“۔(جہیز کی حقیقت ، البلاغ کراچی نومبر 1987ء)
  مولانا وحید الدین خاں کی بہت ساری فکر سے امت کو اختلاف ہے ، لیکن یہ بات ان کی صد فی صد صحیح اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ ”کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ جہیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیاتو ان کوا پنے پاس سے جہیز بھی عطا کیا اس قسم کی بات دراصل غلطی پرسرکشی کااضافہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیااس کو کسی طرح بھی جہیز نہیں کہا جاسکتا، اوراگر اس کوجہیز کہاجائے تو ساری دنیا میں غالباً کوئی ایک مسلمان بھی نہیں جو اپنی لڑکی کویہ پیغمبرانہ جہیز دینے کو تیار ہو“۔
   اس کے بعد ایک جگہ لکھتے ہیں:”اگرجہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کوبھی ضرور جہیز دیا ہوتا، مگر تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے کہ آپنے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی جہیز دیا ہو“۔(خاتون اسلام ص 163)
 مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوریؒ لکھتے ہیں:”حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پر آپ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیاگیااس کوجہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:”لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیاجائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے“۔(جہیز اسلامی شریعت میں، ماہنامہ’محدث‘ بنارس ، اپریل 1985ء)
حافظ محمد سعد اللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ” جہیز کی شرعی حیثیت“ میں تمام روایات کاجائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھاہے:”قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاءکی کتابوں میں مروجہ جہیزکاوجود ہی نہیں،صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اورچاروں ائمہ فقہاءکی امہات الکتب میں ”باب الجہیز“ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے ، وہاںجہیز کابیان نہ ہوتا“۔(جہیز کی شرعی حیثیت ،سہ ماہی ’منہاج‘ لاہور)
اگر آج بھی آسان نکاح وشادی کو رواج دینا ہے تو حضرت فاطمہ ؓ کی اس شادی کو عملی نمونہ بناکر کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

جمعرات, جولائی 20, 2023

عرب لیگ میں شام کی شمولیت ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عرب لیگ میں شام کی شمولیت 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عرب ممالک میں عرب لیگ اور تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)کی بڑی اہمیت ہے، عرب لیگ کا قیام ۱۹۴۵ میں ہوا تھا ، اس کا صدر دفتر مصر کی راجدھانی قاہرہ میںہے، بائیس (۲۲) عرب ممالک اس کے ممبر ہیں، شام کے صدر بشار الاسد نے روس کے صدر ولادیمیرپوتین کی حمایت او راپنے ہی شہریوں پر مہلک ترین اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار استعمال کرکے ظلم وستم کی نئی مثال قائم کی تھی جس کے نتیجے میں شام کا بڑا علاقہ قبرستان میں بدل گیا تھا اور بہت سارے شہری موت کے گھاٹ اتر گئے تھے ان حالات میں عرب لیگ نے ۱۲؍نومبر ۲۰۱۱ئ؁ کو اس کی رکنیت کو معطل اور منجمد کر دیا تھا، اس کے فوراً بعد تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)نے شام کے بارے میں عرب لیگ کی تائید کرتے ہوئے اپنی تنظیم سے بھی دور کردیا تھا، لیکن اب حالات بدل گیے ہیں ۔ ترکی ، سعودی عرب ، مصر، تیونس ،عمان،  اردن وغیرہ شام کی عرب لیگ میں شمولیت کے حق میں تھے،یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ لیبیا، شام لبنان ، عراق اور یمن سب کے احوال اس قدر خراب ہیں کہ بغیر اجتماعی آواز کے ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے پرانے گلے شکوے بھلا کر عرب لیگ نے اس کی رکنیت ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء کو بحال کر دی ہے، اس عمل سے شام کی قوت میں اضافہ ہوگا اور بہت سارے کام اس کے سہارے کئے جا سکیں گے ، آگے بڑھنے کے لیے کبھی کبھی مضی مامضی یعنی جو گذر گیا وہ گذر گیاپر عمل کرنا ہوتا ہے اور سارے گلے شکوے بھلا کر ملنا ہوتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین پہلے ہو چکا ہے۔

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

یکساں سول کوڈ (uniform civil code) مفید یا مضر ؟
اردودنیانیوز۷۲ 
🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار

ہندوستان کے قوانین (سمودھان) میں یہاں کے رہنے والے تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہبی پرسنل لا پر عمل کرنے کی کُھلی آزادی ہے، وہ اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نشر و اشاعت بھی کر سکتے ہیں۔
ایک زمانے سے برادرانِ وطن میں سے کچھ شر پسند عناصر موقع موقع سے شور مچاتے رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے ہوں یا جینی حضرات، تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے لیے صرف اور صرف ایک ہی قانون ہونا چاہیے، جسے (uniform civil code) کہتے ہیں؟ اب حکومت بھی اس سلسلے میں بہت متحرک ہوگئی ہے، لا کمیشن نے عوام و خواص سے اس سلسلے میں ایک ماہ  کے اندر 13/جولائی 2023ء تک اپنی اپنی رائے پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
محترم قارئین! میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اس سے واقف ہو، اور اس سے بچنے کے جو بھی مؤثر اسباب ہوں انہیں اختیار کیا جائے۔
سب سے پہلے تو یکساں سول کوڈ (uniform civil law) کیا ہے؟ اسے سمجھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کے لیے ایسے قوانین بنائے گی، جو تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو؛ حالاں کہ ملک کے موجودہ دستور نے تمام باشندوں کو اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
"یکساں سول کوڈ" کو ان مثالوں سے بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، جیسے کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے "لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظّ الْأُنْثَیَیْنِ" کہ مؤنث (بیٹی) کو میت کے متروکہ مال میں مذکر (لڑکے) کا نصف ملے گا، اب اگر ہندوستان میں یکساں شہری قانون کے طور پر یہ قانون بنادیا جائے کہ وراثت میں سب کو برابر ملے گا، کوئی کمی بیشی نہیں، تو یہ قرآن کے صریح حکم کے خلاف ہوگا۔ یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں بن سکتی ہیں، متبنی کا مسئلہ، طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، 18 سال سے پہلے بچے اور بچیوں کو بالغ نہ ماننا، اور ولی کو شادی کروانے کا حق نہ ہونا وغیرہ، کورٹ کے یہ سب فیصلے، جو ہمارے عائلی قوانین میں دخل اندازی ہے، یکساں سول کوڈ ہی کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
یاد رکھیے! ہر جگہ کے قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں:  (١) سول کوڈ: سول کوڈ شہری قوانین کو کہتے ہیں، اور(٢) کرمنل کوڈ: کرمنل کوڈ فوجداری قوانین کو کہتے ہیں۔ سِوِل کوڈ میں شہریوں کو اپنے اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی مکمل آزادی ہے۔ ہاں! فوجداری قوانین میں کسی بھی دین و مذہب کو دخل نہیں ہے، وہ ملک کے سیکولر نظام‌کے مطابق ہی چلے گا۔
ہندوستان کے قوانین کی ایک اور تقسیم ہے؛(۱) بنیادی اصول، اور (۲) رہنمایانہ اصول۔ رہنمایانہ اصول میں سے آرٹیکل نمبر:44 کہتا ہے کہ ملک کی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون ہو۔ اور بنیادی حقوق میں آرٹیکل نمبر: 25،جس کو (fundamental rights) کہتے ہیں، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے آئینی قوانین پر عمل کرنے کی کلیتاً اجازت ہے۔ یہ قوانین بن کر لوگوں کے سامنے جب آئے تھے، اس وقت بھی ہمارے علمائے کرام نے اس کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا کہ ان دونوں آرٹیکلس کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو رہا ہے؛ لیکن پھر بھی یہ بل پاس ہو گیا۔
ان قانونی دفعات میں ایک بات یہ بھی لکھی ہوئی ہے کہ: اگر رہنمایانہ اصول اور بنیادی حقوق کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ ہو جائے، تو اس وقت بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے گی، اور بنیادی حق یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے دینی و مذہبی عائلی قوانین پر عمل کرسکتا ہے، اسے عمل کی مکمل اجازت ہے۔
یہ بات بھی آپ کے ذہن نشیں رہے کہ "یونیفارم سول کوڈ" کا مخالف ہر شہری کو ہونا چاہیے، یہ سبہوں کی دینی روایات، سماجی پرمپرا اور ملکی سمودھان کے خلاف ہے؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" کی مخالفت سب سے زیادہ مسلمان ہی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دین اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ہے، اس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے، اور اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ دیگر ادیان و مذاھب میں اتنی پختگی نہیں ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق "ادیانِ وضعیہ" سے ہے، بعض کا تعلق "ادیانِ سماویہ" سے ہے؛ لیکن ان کے اندر اتنی تبدیلیاں آگئی ہیں کہ صحیح اور غلط کا امتیاز انتہائی مشکل ہو گیا ہے، وہ ادیان اپنی اصلی حالت پر نہیں ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ "یکساں سول کوڈ" یعنی ایک جیسے شہری قوانین کے نفاذ سے ملک میں امن و سکون کا ماحول ہو گا؛ حالاں کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ سنہ1914ء سے 1918ء تک عالمی جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم اول کہتے ہیں، اور سنہ1939ء سے سنہ 1945ء تک جنگ ہوئی، جس کو عالمی جنگ عظیم ثانی کہتے ہیں، ان دونوں جنگوں میں جو ممالک لیڈنگ کر رہے تھے، یعنی قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے، وہ سب عیسائی مذہب کے تھے، پوری دنیا تقریباً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، صرف جنگ عظیم اول میں تقریباً تین کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کا قانون ایک ہوگا تو امن وامان ہوگا، یہاں بھی تو دونوں جانب عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے، ان کے قوانین کی یکسانیت ان کی جان نہیں بچاسکی۔ ہمارے ملکِ ہندوستان میں کورو اور پانڈو نام کے بادشاہ گزرے ہیں، ایک ہی دین اور ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن ان میں ایسی شدید لڑائی ہوئی کہ دنیا اسے "مہا بھارت" کے نام سے جانتی ہے۔
قانون ایک ہونے سے ملک میں امن و سکون اور احترامِ انسانیت نہیں ہوسکتا، امن و سکون کے لیے  اللہ کا خوف، اس کی خشیت، دین و شریعت کا پاس و لحاظ انتہائی ضروری ہے۔
ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ "یونیفارم‌ سول کوڈ" کے نفاذ کی مخالفت کرے اور اپنا احتجاج درج کروائے۔ الحمد للّٰہ مسلم تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں، آپ بھی ڈٹے رہیں، ان شاءاللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ: اے الہٰ العالمین! ہم سب کو امن و سکون اور عافیت کے ساتھ دین و شریعت پر عمل کرنے والا بنا، دشمنان اسلام کے لیے اگر ہدایت مقدر  ہو، تو انہیں ہدایت نصیب فرمادے، ورنہ تو ان سے اپنی زمین کو پاک کردے، آمین ثم آمین
********** _________ **********

مسلمانو ! اپنی شکل وصورت محمدی بناؤشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

مسلمانو !  اپنی شکل وصورت محمدی بناؤ
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کر دیا 
ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہاء میں مونچھ لی ۔
ڈاڑھی کبھی عورت کے چہرے پر نہیں آتی جب بھی آتی ہے مرد کے چہرے پر آتی ہے صرف یہ بتانے کے لئے کہ تم مرد ہو اور مرد ڈاڑھی منڈواکر کہتا ہے نہیں بھائی تم غلط فہمی میں مبتلا ہو میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو ۔
فرمان رسول ﷺ  
اپنی مونچھیں کترواتے رہو اپنی ڈاڑھیاں بڑھاؤ   (طبرانی )
ہر لشکر کی ایک وردی ہوتی ہے جس سے وہ لشکر پہچانا جاتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے کچھ ظاہری احکام بھی ہوتے ہیں جن سے صاحب مذہب کی پہچان ہو جاتی ہے محمدی لشکر اور اہل اسلام کی وردی اور ظاہری پہچان جو شریعت اور بانئ شریعت نے مقرر کی ہے وہ جن لوگوں پر نظر آئے گی بظاہر وہ ہی اس میں شمار کئے جائیں گے اور مومن و مسلم ہونے کا انہیں کے سر سہرا بندھے گا دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جس کسی شخص کو کوئی زیادہ محبوب ہوتا ہے اور جس کو وہ اپنا سچا خیر خواہ سمجھتا ہے اس کی باتوں کا ماننا وہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اس کے خلاف کو اپنے حق میں سم قاتل سمجھتا ہے اور اس سے کوسوں دور رہتا ہے
یاد رکھیں نشان اسلام اور تمغۂ محمدی داڑھی کا بڑھانا مونچھوں کا پست کرنا ہے رسول اللہ ﷺ  فرماتے ہیں مشرکوں کا خلاف کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں بہت ہی پست کراؤ  (بخاری و مسلم ) 
مجھے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈاڑھیاں بڑھائیں اور مونچھیں بہت کم کرا ئیں اور کسریٰ کو ماننے والے اس کا خلاف کریں یعنی مونچھیں بڑھائیں اور داڑھیاں منڈوائیں  ہمارا طریقہ ان کے خلاف ہے ( دیلمی)
 ایک مرسل حدیث میں ہے کہ لوطیوں کی بستیاں الٹ دینے کے جو اسباب پیدا ہوئے تھے ان میں ڈاڑھیوں کا منڈوانا اور  مونچھوں کا بڑھانا بھی تھا (ابنِ عساکر )
آپ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو منڈوانے اور زیادہ کتروانے والوں کی اللہ تعالی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ ان پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور فرشتے ان کو ملعون کہتے ہیں اور وہ خدا کے نزدیک یہود و نصاریٰ کے برابر ہیں  (طحاوی) 
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ڈاڑھیوں کو کبوتروں کی دموں کی طرح کتروانے والوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اسی طرح اخروی نعمتوں سے بھی محروم ہیں ( احیاء العلوم) 
سارے انبیاء علیہم السلام کی سنت یہی ہے کہ وہ ڈاڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کم کراتے تھے یہ علامت ہے اسلام کی اور اس کا خلاف کرنے والا کل انبیاء علیہم السلام کا مخالف ہے ( مسند احمد) 
خود رسول اللہ ﷺ  کی ڈاڑھی مبارک گھنی اور بہت زیادہ بالوں والی تھی ( مسلم ، ترمذی ، نوی) 
افسوس آج کل مسلمانوں کو ان شکلوں سے کیوں نفرت ہے وہ آپ کے اور صحابہ کرام کے طریقہ کو کیوں نا پسند کرتے ہیں ایسی شکلیں صورتیں بنا لیتے ہیں کہ بعض وقت تو مسلم و غیر مسلم میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔  نوجوانوں میں یہ بیماری عام طور پر پھیل گئی ہے حدیث میں ہے جس صورت پر مرو گے اسی صورت پر قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے منڈی ہوئی داڑھی اوربڑی ہوئی مونچھوں سے خدا کے اور اس کے رسول ﷺ  کے سامنے جانے سے کیا آپ کو شرم معلوم نہیں ہوگی۔  سکھوں کو دیکھو ان کے گرو کا حکم ہے کہ جسم کے کسی حصے کے بال نہ لیں وہ کس طرح اپنے مذہب کا احترام کرتے ہیں کہ ناپاک بال بھی نہیں لیتے پھر تعجب ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں اپنے رسول اللہ ﷺ  کی تعلیم کی ذرہ بھر بھی قدر نہ ہو بلکہ وہ بڑھی ہوئی ڈاڑھی اور پست مونچھ پر پھبتیاں اڑائیں آوازے کسیں ۔  طب کی رو سے بھی ڈاڑھی منہ کی اور گلے کی بیماریوں سے بچا لیتی ہے قوت قائم رکھتی ہے وغیرہ ۔ اپنے ہاتھوں سے اسلام کے نشان کو گرانا اپنے آپ محمدی صورت سے نفرت رکھنا پیسے دے کر سنت کو مارنا یہ انسان کی کون سی شرافت ہے ۔ 
مسلمانو ! لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔  تمہارے لئے تو اچھا نمونہ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تمہیں نہیں چاہیے کہ آپ کی مخالفت اور مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی موافقت کرو آپ فرماتے ہیں جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا (ابوداؤد) 
مرد ہو کر عورتوں کی مشابہت کرنی نہایت بے شرمی کی بات ہے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ  فرماتے ہیں اللہ کی لعنت ہے اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت کرے مرد کو داڑھی کا منڈانا ایسا ہی برا ہے جیسے کہ عورت کا سر منڈوانا بلکہ اس سے بھی بد اور بدتر باوجود اس قدر وعید شدید کے پھر بھی اکثر مسلمان اپنی شکلوں صورتوں  کو شریعت کے مطابق نہیں رکھتے اکثر تو صفا چٹ کر اتے ہیں اور بہت سے برائے نام کچھ بال لگے رہنے دیتے ہیں پھر بعض کے انچ پھر بعض کے دو انچ  اور بعض فرنچ فیشن دمدار ڈاڑھی رکھوا تے ہیں یہ سب کے سب سنت کے خلاف ہیں ۔ 
جس طرح صحابہ نے جاہلیت کی رسمیں چھوڑ دیں جس طرح عہد اول کے لوگوں نے ڈاکہ زنی،  شراب خوری،  زناکاری،  چوری،  بت پرستی،  حرام خوری،  صدیوں کی عادتیں ترک کردیں۔  اگر ہم بھی مسلمان ہیں تو کیا ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ قبروں کی پوجا پاٹ ہم بھی چھوڑ دیں تجارتوں کی برائیاں ہم بھی نکال دیں ڈاڑھیاں منڈوا نے اور خلاف شرع لباس پہننے کی عادت کو ہم بھی ترک کر دیں ۔
مسلمانو ! کسی سنت کو ہلکی نہ سمجھو کسی فرمان رسول کی بے ادبی نہ کرو اپنی شکل و صورت محمدی بنا ؤ اللہ ہمیں نیک صورت خوش سیرت بنائے ہمارا ظاہر وباطن سنوار دے آمین ۔

منگل, جولائی 18, 2023

حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ. __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ. __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
مؤمن کی زندگی کا اختتام موت پر ہوتاہے جو اصلاً عالم برزخ ہوکر عالم آخرت تک پہونچنے کا دروازہ ہے، فرمان نبوی کے مطابق موت ایک پُل ہے جو محبوب کو محبوب سے ملادیتاہے، یہ ایک تحفہ ہے جسے اللہ کی جانب سے اللہ کے فرشتے بندۂ مومن کے پاس لے کر آتے ہیں، اور روح کو قفسِ عنصری سے لیکر چلتے بنتے ہیں،اس دروازے میں داخل ہونے اور پُل سے گذرنے کے بعد ایک ایسی زندگی کا آغاز ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے، اس لئے کہاگیاہے کہ انسان ازلی تو نہیں ابدی ہے،عہدِالستُ سے گذرنے کے بعد کسی نہ کسی حیثیت سے وہ ہمیشہ باقی رہتاہے، اس ہمیشگی کی زندگی کی بہتری کا مدار دنیوی اعمال پر ہے، اس لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہاگیاہے،اس کھیتی میں حسنِ عمل،پختہ ایمان ،حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کے بعد ہی اچھی فصل لہلہاتی ہے اور بالآخر انسان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں اپنا ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
لیکن دنیا کی چکاچوند اور عیش وآرام کی زندگی اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اورانسان خواہی نخواہی شیطان کے مکروفریب کا شکار ہوکر آخرت کے اعتبار سے ناکام ہوجاتاہے، اسی لئے صوفیاء نے فکرِ آخرت اور حیات بعد الممات کے مراقبہ پر زور دیاہے،کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان شیطانی مکر سے بچ جاتاہے، اورآخرت میں کامیاب ہوجاتاہے، یہ وہ دولت ہے جو ہرکسی کے حصہ میں نہیں آتی۔
حضرت مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی(آمد:7؍مارچ 1926ء رفت: 31؍ مارچ 2011ء) بن منشی شمس الدین کو اللہ رب العزت نے فکرِآخرت کی دولت سے نوزا تھا اوراس دولت نے ان کی زندگی کو تقویٰ کی دولت سے مالامال کردیا تھا، تقویٰ کے اثرات ان کی زندگی ،بودوباش،علمی مشغلے، تدریس وتصنیف اورتبلیغ دین میں کھلی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں، ان کی مثال اس پھلدار درخت کی طر ح تھی جو پھلوں کے بوجھ پر اکڑتا نہیں ،جھک جاتاہے،ان کی علمی فتوحات ،فقہی بصیرت نے ان کے اندر تواضع وانکساری پیدا کردیاتھا، اللہ کی بڑائی کے تصورنے ان کے اندر سے دوسری ساری بَڑائی کاخیال نکال دیاتھا، اس کی وجہ سے کسی بڑے کے سامنے زندگی بھروہ سجدہ ریز نہیں ہوئے۔یہی ایک مومن کی شان ہے، سجدہ صرف اس خدا ئے برتر کو زیباہے ،عہدے، جاہ ومنصب کا احترام تو وہ کرتے تھے لیکن بچھ جانے کا مزاج ان کا کسی دور میں نہیں رہا، فکرآخرت نے انہیں ظاہری بنائو سنوارسے بھی بڑی حد تک بے نیاز کردیاتھا، صفائی ستھرائی ان کے مزاج کا حصہ تھا، لیکن آج کی اصطلاح میں جسے بننا سنورنا کہتے ہیں اس سے وہ کوسوں دور تھے، یہ صفت ان کے اندر ان کے ناموراستاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی، جو عالمی شہرت یافتہ محدث اور اسماء رجال کے بڑے ماہر تھے، اورمئو کے لوگ ان کی علمی عبقریت وعظمت کے اعتبار سے انہیں ’’بڑے مولاناؒ ‘‘کہاکرتے تھے، لیکن کتابوں کے درمیان سادگی کے ساتھ ان کی زندگی گذرتی تھی، حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی نے علم وصلاح کے ساتھ یہ صفت بھی ان کی اپنے اندر جذب کرلیاتھا،ان کا خیال تھاکہ خوبصورتی ان کپڑوں سے نہیں ہے جو انسان زیب تن کرتاہے ،اصل خوبصورتی علم وادب کی خوبصورتی ہے
عربی کا مشہور شعر ہے ؎
لیس الجمال باثوب تزیننا
ان الجمال جمال العلم والادب
حضرت مفتی ظفیرالدین کے دل میں بزرگوں کی صحبت سے فکرآخرت کی آگ لگی گئی تھی، انہیں بیعت کی سعادت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اوران کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سے حاصل تھی،خلافت واجازت مولانا فضل اللہ جیلانیؒ اورحضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے بخشی تھی۔اس لئے ان کی تحریر وتقریر میں اس کا عکس صاف طورپر دکھائی دیتاتھا، ان کی تقریروں میں اصلاحِ حال اورفکرِآخرت کے حوالے سے دردمندی جھلکتی نہیں، چھلکتی تھی، ان کے کالبدخاکی میں جو تڑپتا ہوا دل تھا، اس کی تڑپ اور کسک سامعین محسوس کرتے تھے، یہ تڑپ اور بے چینی، مخلوق کو خالق سے قریب کرنے کا یہ جذبہ ان کے اورادواذکار ،باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ صف اول میں نماز کی پابندی ،تلاوت قرآن کے اہتمام اور تہجد وغیرہ کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے پائے جاتے تھے ،وہ فنا فی اللہ ہوگئے تھے اوراس مقام پر پہونچ کر وہ اللہ کے ہوگئے تھے اوراللہ ان کا ہوگیا تھا، اب ان کے اعضاء وجوارح سے جن اعمال کا صدور ہوتا وہ مرضیات الہی ،احکام خداوندی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوا کرتاتھا، یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اللہ بندے کا ہاتھ بن جاتاہے، جس سے وہ کام کرتاہے، اللہ بندے کی آنکھیں بن جاتاہے جس سے وہ دیکھتاہے، اللہ بندہ کا پائوں بن جاتاہے جس سے وہ چلتاہے، یہ مرضیات الہی پر چلنے کی تفہیم وتعبیر ہے ،اسے وحدۃ الوجود کے عقیدہ سے جوڑکر نہیں دیکھنا چاہئے، حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں لکھاہے:
’’وسعت علم، اصابت رائے، خلوص، للہییت،دینی وملی فکرمندی، جہد مسلسل اورقلم کی تیزگامی میں بے مثال تھے، سادگی اور عزلت نشینی کے عادی تھے‘‘(حیات ظفیر31۔32)
مولانا مفتی ظفیرالدین صاحبؒ اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے، انہیں لابی نہیں آتی تھی اوران کی اپنی اتنی مضبوط صلاحیت تھی کہ وہ دوسروں کو گراکر آگے بڑھنے کے قائل نہیں تھے، جیساآج کل ہمارے عہد میں رواج ہے کہ جب تک دوسرے کی برائی نہ کرو، سامنے والے کے قد کو مختلف عیوب لگا کر چھوٹا نہ دکھائو، تب تک اگلے کا قد بڑا ہوتاہی نہیں ہے، کئی لوگ توآپ کو روند کر آگے بڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ان کا مقصد صرف اپنی ناموری ہوتی ہے، چاہے اس کے لئے تمام شرعی حدود وقیود کو توڑنا ہی کیوں نہ پڑے، ایسے لوگوں میں کسی بڑی لکیر کے سامنے اس سے بڑی لکیر کھینچنے کی صلاحیت تو ہوتی نہیں، البتہ وہ سامنے کی لکیر کے بعض حصے کو مٹاکر اپنی لکیر بڑی دکھادیتے ہیں۔
حضرت مفتی ظفیرالدین صاحبؒ کو یہ طریقہ نہیں آتاتھا،آتا بھی تو وہ اس کو بَرت نہیں سکتے تھے، کیوں کہ فکر آخرت ان کودامن گیر ہوجاتی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی کو کتب خانہ کی ترتیب جدید کا کام سونپا گیا تو عام خیال یہی تھاکہ انہیں یہ کام پہلے سے کام کررہے ناظم کتب خانہ کو سائڈ کرنے کے لئے سونپا گیا ہے، کیونکہ ناظم کتب خانہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ قاری محمد طیب صاحبؒ کے خلاف جو لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں اصل دماغ مولانا موصوف کا ہی کام کرتاہے،لیکن مفتی ظفیرالدین صاحب ؒنے اپنے طرز عمل ،رویے اور مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ جلدہی لوگوں کی غلط فہمیاں دور کردیں اور ناظم کتب خانہ کا شمار بھی مفتی صاحب کے مداحوں میں ہونے گا
مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کے مزاج میں اعتدال اور توازن تھا ،خوشامدپسندی اور چاپلوسی کا مزاج انہوں نے پایا نہیں تھا، ان کی اس صفت خاص نے مفتی صاحب کو عوام وخواص میں مقبول بنارکھاتھا، وہ طلبہ کی حوصلہ افزائی میں طاق تھے، اورحق بات بے باکی اورسلیقہ سے کہنا جانتے تھے، وہ خاموش رہنا پسند کرتے تھے، لیکن بولتے تو حق بات بولتے، البتہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی تھے کہ تمام حق بات کا کہنا شرعی فریضہ نہیں ہے، ورنہ آدمی سرمد ومنصور بن کر رہ جائے گا، ان کی مضبوط اور سوچی سمجھی رائے تھی کہ جب بولاجائے تو حق بولاجائے، بقول ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر ابوبکر عباد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو دہلی یونیور سیٹی ’’ابوجان سچی اورصحیح بات کہنے میں بے باک ہی نہیں کافی حد تک بے احتیاط تھے، ممکن ہے یہ سادگی صاف گوئی اس بے خوفی کی زائیدہ ہو جوان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے(میرے ابوجان حیات ظفیر63)
مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صبر وشکر کی دولت سے بھی مالامال کیا تھا، انقلاب دارالعلوم کے موقع سے ان کی تصنیفات وتالیفات کے کئی مسودے کتابوں کی پلیٹیں ان کے کمرے سے غائب کردی گئیں، یہ ان کی زندگی کا بڑا سانحہ تھا، قاری محمد طیب ؒ سے قلبی تعلق کی وجہ سے سقوط اہتمام اور انقلاب کا معاملہ حضرت مفتی صاحب کے لئے کم جاں گسل نہیں تھا کہ اس علمی سرمایہ کے ضیاع نے انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا، میں بھی اس زمانہ میں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا، میں نے بعض مسودات مال غنیمت پر قبضہ کرنے والوں سے حاصل کرکے محاسبی میں جمع کردیا تھا، بعض کتابوں کی پلیٹیں بھی برآمد کرکے امانتاً وہاں ڈال دی تھیں کہ حضرت تک پہونچ جائے، لیکن تقدیر میں یہی لکھاتھاکہ وہ ان تک نہ پہونچے، سو نہیں پہونچا، حضرت مفتی صاحب کو اس کا غم والم پوری زندگی رہا، لیکن اللہ رب العزت نے صبروثبات کی جو دولت انہیں عطا کی تھی اس نے انہیں حوصلہ بخشنا اور مشکل حالات میں زندگی گذارنے والے بہتوں کے لئے وہ نمونۂ عمل بن گئے اور ہم جیسے چھوٹوں کو یہ درس دے گئے کہ حالات موافق ہوں تو شکر کرو اور سازگار نہ ہوں تو صبر کو نصب العین بنا لو، یہ لکھناجتنا آسان ہے عملی زندگی میں اسے برتنا اسی قدر مشکل اور دشوار ہے، مفتی صاحب کو اس علمی خزینے کی گم شدگی کا افسوس تو زندگی بھر رہا اورجب بھی اس حادثہ کی یادآتی دل خون کے آنسو روتا، لیکن مجال ہے کہ صبرو ثبات کے قدموں میں کوئی تزلزل اور راضی برضاء الہی کے ریشمی تار پر کوئی بل آیاہو۔
مفتی صاحب کو امارتِ شرعیہ اور اکابر امارتِ شرعیہ سے فطری انسیت تھی، حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے، امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒکو وہ ہمیشہ ’’پیر جی ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے ،امارت شرعیہ کو علمی وفکری انداز میں اہل علم کے درمیان مقبول کرنے میں بانیٔ امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ،نائب امیر شریعت ثانی مولانا عبدالصمد رحمانیؒ کے بعد تیسرا بڑا نام حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کا ہے،’’ امات شرعیہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ اور’’ امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب‘‘نامی کتاب کا شمار امارت شرعیہ پر کام کرنے والوں کے لئے حوالہ جاتی کتب میں ہوتاہے، آخر الذکر کو تاحال مرتب کرنے کی ذمہ داری حضرت امیر شریعت سابعؒ نے
 میرے ذمہ کی تھی، کام میں پھیلائو او روقت میں تنگی داماں کی شکایت کی وجہ سے کام ابھی مکمل نہیں ہوسکاہے، دعا کی ضرورت ہے کہ یہ کام میرے ہاتھوں انجام پاجائے یہ حضرت امیر شریعت سابع ؒکی خواہش کی تکمیل بھی ہوگئی اور حضرت مفتی صاحبؒ کی کتاب کا تکملہ بھی۔
لیکن میرے نام یہ قرعہ فال بعد میں نکلا،پہلے ہم لوگوں نے یہ کوشش کی حضرت مفتی صاحب ہی عمر کی آخری منزل میں اس کام کو کردیں، چنانچہ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی گذارش پر وہ امارت شرعیہ تشریف لائے، قیام دفتر میں واقع حضرت امیر شریعت کے حجرے میں ہوا،ہم لوگوں نے بار بار یہ گذارش کی کہ آپ املاکرادیں،ہم لوگ لکھ لیں گے، لیکن اس وقت ان کا حافظہ جواب دے رہاتھا اور فکرِ آخرت کا غلبہ اس قدر تھاکہ ذکرِ آخرت اوراپنی مغفرت کے علاوہ کوئی دوسری بات زبان پر آہی نہیں رہی تھی، شام میں بعد نماز مغرب ہم لوگوں نے تجویز رکھی کہ المعہدالعالی کے طلبہ کو فتاویٰ نویسی کے حوالے سے کچھ نصیحت کردیں ،اصرار پر تشریف لے گئے، طلبہ کے سامنے کرسی پر فروکش ہوئے، اور اپنی بات شروع کی، میر احافظہ اگر خطا نہ کررہاہوتو انہوں نے کہاکہ طلبۂ عزیز ہم آپ کے پاس کیوں آئے ہیں؟ جانتے ہیں، میں اس لئے آیاکہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کردیں ، پھر خود کلامی کے انداز میں فرمایا کہ میری مغفرت ہوجائے گی نا، گلو گیر ہوگئے اور پھر خود ہی فرمایاکہ میرے اتنے شاگرد ہیں وہ سب مغفرت کی دعا کریں گے تو یقینا اللہ معاف کردے گا، بس اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے، ہم لوگوں نے لڑکوں کو ابھاراکہ سوالات کرو، جن کا حافظہ جواب دے رہاہو ان کے تحت الشعور سے باتوں کے نکلوانے کا یہی طریقہ ان دنوں مروج ہے، چنانچہ ایک لڑکے نے سوال کردیاکہ جدوجہد آزادی میں آپ کی کیا خدمات رہی ہیں، ذرا ہمیں بھی بتائیں، کہنے لگے، اس سے ہماری یاآپ کی آخرت کا کیاتعلق ہے؟ کہہ کر خاموش ہوگئے، لہجہ میں خفگی کا عنصر شامل تھا، ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اللہ کے یہاں جانے کی فکر کا غلبہ ہے، بقیہ باتیں ذہین میں سماہی نہیں رہی ہیں،چنانچہ ہم لوگ مفتی صاحب کی مختصر دعاکے بعد امارت شرعیہ آگئے، غالباً یہاں ایک دو روز قیام کیا ، اس پیرانہ سالی کے باوجود مجھ سے جو انہیں محبت تھی، اس کے پیش نظر میری درخواست پرانہوں نے میری کتاب’’ نئے مسائل کے شرعی احکام‘‘ کا پیش لفظ لکھا اور بہت اچھا لکھا، یہ پیش لفظ شامل کتاب ہے، میری ایک اور کتاب غالباً نقد معتبر پر بھی ان کی تحریر موجود ہے؛ جو اصلاً اسی سفر کی یادگار ہے۔
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم کے مصداق یہ قصۂ پارینہ طویل ہوگیا، اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے علمی فیوض سے ہم سب کو بہرہ ور کرے اوران کے اوصاف وکمالات ،اطوار واقدار کو اپناکر ہم بھی کچھ کر پائیں ،اس دعاپر اپنی بات ختم کرتاہوں، آمین  صلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین۔

پیر, جولائی 17, 2023

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا خبر نامہ ڈاکٹر ریحان غنی

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا خبر نامہ 
اردودنیانیوز۷۲ 

ڈاکٹر ریحان غنی 

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی جب سے پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہوئے ہیں شعبہ کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے.وہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں. انہوں نے" اردو جرنل" کے ساتھ ہی "خبر نامہ" کی بھی اشاعت شروع کی ہے. تازہ ترین "خبر نامہ" (جنوری - دسمبر 2022، جلد 3)اس وقت میرے ہاتھ میں ہے. پٹنہ یونی ورسیٹی کے شعبہ اردو سے خبر نامے کی اشاعت کا سلسلہ بھی غالباً ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ہی شروع کیاہے. "نیوز لیٹر" یا "خبر نامے" کی اشاعت کسی ادارے کے سرگرم ہونے کی پہچان ہے. کیونکہ اس سے متعلقہ ادارے کی جملہ سرگرمیوں سے لوگوں کو بہت حد تک واقفیت ہو جاتی ہے.اس کی اشاعت بالکل آسان ہے. کیونکہ اسے شائع کرنے کے لئے کسی رسالے کی طرح رجسٹرار آف نیوز پیپر آف انڈیا ( آر این آئی) سے اجازت لینے یارجسٹریشن کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی. میں چونکہ اس شعبہ کا طالب علم رہا ہوں اور جب اس شعبے کے تحت اردو صحافت اور ابلاغ عامہ کا کورس شروع ہوا تھا تو مجھے بھی کچھ دنوں تک اس میں کلاس لینے کا موقع ملا تھا، اس لئے مجھے اس شعبے سے قلبی لگاؤ ہے. یہی وجہ ہے کہ جب اس شعبے میں کوئی علمی کام ہوتا ہے تو مجھے اس سے دلی خوشی ہوتی ہے. زیر نظر خبر نامہ دیکھ کر مجھے اس لئے بھی خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو اللہ تعالیٰ نے اس شعبے سے تعلق رکھنے والی عظیم المرتبت شخصیتوں کی روایت کو کس نہ کسی شکل میں پروان چڑھانے اور آگے بڑھانے کا موقع دیا. چار صفحات پر مشتمل اس خوبصورت اور دیدہ زیب خبر نامے کے سرپرست یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر گریش کمار چودھری اور چیف ایڈیٹر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ہیں.ڈاکٹر سورج دیو سنگھ اس کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر اور ڈاکٹر محمد ضمیر رضا، ڈاکٹر عشرت صبوحی اور ڈاکٹر شبنم اس کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں. یہ سب کے سب ایسے اساتذہ ہیں جن سے اردو زبان وادب نے اچھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں. خبر نامے کے اداریہ میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے کئی عزائم کا ذکر کیا ہے جن میں شاد عظیم آبادی پر اردو جرنل کا خصوصی نمبر، اگست میں ان پر قومی سمینار اور شعبہ کے ویب سائٹ کے قیام کا منصوبہ خاص طور پر شامل ہے. اس شمارے میں تصاویر اور اخبارات کے تراشے کے ساتھ شعبے کی ان تمام پروگرام کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو ماضی میں شعبے میں منعقد کئے گئے. اس شمارے میں اس شعبے سےتعلق رکھنے والے ان طلبا اور طالبات کی فہرست بھی دی گئی ہے جو یو جی سی نیٹ میں کامیاب ہوئے اور جو مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہو کر اردو ڈائریکٹوریٹ (محکمہ کابینہ سکریٹریٹ ،حکومت بہار )کے ماتحت مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے. اس کے علاوہ اس میں اس شعبے میں مختلف موضوعات پر تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے ذکر کے ساتھ ہی "سرود رفتہ" کے تحت علامہ جمیل مظاہری اور "نوائے امروز " کے تحت عالم خورشید کی غزل بھی شامل کی گئی ہے. اس طرح ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے خبر نامے کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے.میں آخر میں ایک بات کا خاص طور پر ذکرِ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کسی زمانے میں شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ کالج کی ایک بزم،" بزم ادب" ہوا کرتی تھی جو اپنے زمانے میں بہت فعال تھی. ہرسال اس کا اسٹوڈنٹس یونین کی طرح باضابطہ الیکشن ہوا کرتا تھا، انتخابی مہم چلائی جاتی تھی.اس کے صدر، شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہوا کرتے تھے. غالباً ستر کی دہائی میں میرے چھوٹے چچا رضوان غنی اصلاحی جب اس کے سکریٹری منتخب ہوئے تھے تو انہوں ایک شاندار آل انڈیا مشاعرہ کرایا تھا جس میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد جیسے کئی بڑے شاعر شریک ہوئے تھے. اس کے بعد شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایسا مشاعرہ نہیں ہو سکا. ضرورت اس بات کی ہے کہ "بزم ادب" کو زندہ کیا جائے.یہ کام ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو اپنے دور صدارت میں ضرور کرنا چاہیئے. اگر وہ "بزم ادب "کو فعال بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا بڑا ادبی کار نامہ ہو گا جسے پٹنہ یونیورسٹی کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی..

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...