Powered By Blogger

بدھ, اگست 30, 2023

عصر حاضر میں مدارس میں

عصر حاضر میں مدارس میں تدریس ___غور و فکر کے چند گوشے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)

مدارس اسلامیہ کی خدمات تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بڑی وقیع رہی ہیں ، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر اجرت نہیں ، اجر خداوندی کے حصول کی نیت سے تعلیم و تدریس میں ہمارے اساتذہ نے جو وقت لگا یا اور جو رجال کار تیار کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ان اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا، درس و تدریس کے رموز سیکھے اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام کیا، ان کے فیض یافتہ طلبہ نے علم و فن کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا، اس کی نظیر دیگر علوم و فنون کے لوگوں میں نہیں ملتی ، حالانکہ دیگر علوم و فنون کے اساتذہ نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور تربیت یافتہ اساتذہ سے انہوں نے تعلیم پائی ، مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے تدریسی ٹریننگ اور تربیت کا با قاعدہ اداراتی شکل میں کبھی کوئی نظام نہیں رہا ، ا ن کی تدریسی تربیت “تکرار” کے ذریعہ ماضی میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے ، یہاں “تکرار” جھگڑے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ، اس کو طلبہ کے سامنے اسی طرح دہرانا جیسے استاذ نے اسے پڑھایا، مدارس اسلامیہ میں تکرار کہلاتا ہے۔ طلبہ اس تکرار سے سبق کو سمجھانے کی تربیت پالیتے تھے ، بعض ایسے تکرار کرا نے والے ہوتے تھے جو ہو بہو اساتذہ کی نقل اتارا کرتے تھے۔ان کے تکرار پر استاذ کو اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ غیر حاضر طلبہ کو اس شاگرد کے تکرار میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کر تے تھے،بعد کے دنوں میں بعض مدارس میں معین المدرس کے نام سے فارغ ہونے والے با صلاحیت طلبہ کو دو سال کے لیے رکھا جا نے لگا۔ تاکہ متعلقہ مدرسہ میں اس طرح اساتذہ کی کمی پوری کی جا سکے اور اس طالب علم کو پڑھانے کی عملی مشق ہو جائے۔تھیوری کے طور پر اصول تعلیم مدارس میں پڑھانے کا نظام نہیں رہا،سارا زور عملی تعلیم پر ہوا کرتا تھااور اسے کافی سمجھا جا تا تھا۔
لیکن اب تعلیم و تربیت ایک فن ہے ، اور ہر دم تدریس کے خوب سے خوب تر طریقوں کی تلاش کی جا رہی ہے ، ایسے میں اب مدارس میں تدریس کی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ، اور قدیم طریقہ تدریس کے ساتھ جدید طریقۂ تعلیم کی شمولیت بھی مفید معلوم ہو تی ہے۔اس افادیت کے حصول کے لیے ہمیں از سر نو اپنے تدریسی نظام کا جائزہ لے کر اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنانا چاہئے ، عصری درسگاہوں کی طرح مدارس کے لیے بھی تدریسی تربیتی ادارے ہو نے چاہئے، جب مضمون نگاری ، تحقیق و تنقید ، فقہی بصیرت اور فتویٰ نویسی کی مشق کے لیے بہت سے ادارے کھلے ہوئے ہیں تو تدریس کے فن میں مہارت اور اچھا استاذ بننے کے لیے بھی ادارے کھولنےکی ضرور ت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ اب بہت کچھ ماضی کی بہ نسبت بدل چکا ہے۔
ماضی میں جو طریقہ رہا ہے ، اس میں بغیر مطالعہ کےپڑھانے کو ناجائز سمجھا جا تا تھا، کوئی استاد بغیر مطالعہ کے لڑکے کو پڑھاتا نہیں تھا، اگر اس نے رات مطالعہ نہیں کیا تو صبح میں وہ پیچھے کا آموختہ ہی
 دہرادیتا تھا، یہ بات ہمارے یہاں اب کم نہیں، ختم ہو تی جا رہی ہے۔
مطالعہ کے بعد طریقۂ تدریس میں ایک دوسری اہم چیز ہے جسے ہم لیسن پلان (Lesson Plan)یعنی منصوبۂ تدریس کہتے ہیں ، لیسن پلان کا مطلب ہے کہ آپ کلاس میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے ، آپ یہ طے کریں گے کہ آج بچے کو کتنا ڈوز (Dose) ہمیں دینا ہے، آج کے سبق میں بچے کو ہمیں کیا بتانا ہے اور کیا نہیں بتانا ہے، آپ نے شروحات دیکھ لی، حواشی دیکھ لیا ، بین السطور پڑھ لیا، اب آپ چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ بچوں میں منتقل کر دیں، بچے کا ذہن ابھی اس لائق نہیں ہے کہ وہ آپ کے سارے مطالعے کو برداشت کرے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے، کہ بعض اساتذہ اپنے مطالعہ کی قے کرتے ہیں“قے” کی تعبیر ہے تو قبیح ،لیکن عملاً ہوتا یہی ہے، آپ دیکھیں کہ بچے کو جو کچھ ہم بتا رہے ہیں وہ کتنا فولو( Follow) کر رہا ہے اور کتنا اس کو سمجھ رہا ہے تلخیص پڑھاتے وقت آپ نے مختصر المعانی پوری پڑھادی، اس سے بچے کو فائدہ نہیں پہونچے گا۔
 تدریس میں عملی مشق اور مشاہدات کی بڑی اہمیتِ ہے۔مدارس میں یہ طریقہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی قطب تارہ،صبح صادق،فیئ اصلی، مثل اول ،مثل ثانی ،شفق ابیض ،شفق احمر،صبح صادق ،صبح کاذب وغیرہ کو عملی طور پر طلبہ کو دکھانے،سمجھانے اور مشا ہدہ کرانے کی ضرورت ہے۔بڑے مدرسوں میں بھی یہ طریقہ ان دنوں مفقود ہے۔اسی طرح ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ جب طالب علم کو سامان ڈھونے کے لیے مارکیٹ لے جائیں تو صرف جھولا نہ ڈھلوائیں بلکہ خرید و فروخت کرتے وقت بیوع کی بحثیں آسانی سے عملی مشق کے ذریعہ ہم بچوں کوسمجھا سکتے ہیں۔بایٔع،مشتری،ایجاب،قبول،مبیع،ثمن، قیمت،اقالہ،خیار شرط ،خیار رویت،خیار عیب جیسے مسائل طالب علم جھولا ڈھو تے ڈھو تے سیکھ جائے گا۔ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ 
 تدریس میں پلاننگ کی بھی بڑی اہمیتِ ہے۔ ہمیں پلانگ کرنی چاہیے کہ 45 منٹ کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں ہمیں کتنا پڑھانا ہے اور کیا کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں کتنی دیر بچوں سے سوالات کرنے ہیں؟ کتنی دیر میں عبارتیں صحیح کروا دینی ہیں اور ترجمہ کر کے مطلب کتنا بیان کر دینا ہے، اگر یہ تیاری رات میں ہی آپ نے کر لی تو کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ استاد باہر کھڑا ہے ،گھنٹی لگ گئی ہے اورآپ کا سبق ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔
 بچوں کو مارنے ڈانٹنے کے مزاج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے اسے ڈانٹ کر کہا تجھےکچھ نہیں آتا ،کم بخت اتنا بڑا ہو گیا!آپ کی اس ڈانٹ نے اس کے ذہن کے سارے دروازے بند کر دیے، آپ یہ مت دیکھئے کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا، آپ یہ دیکھیے کہ اس بچے نے کیوں سبق یاد نہیں کیا ؟ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس کی وجہ سے بچہ سبق یاد نہیں کر سکا ، آپ جب اسباب پر غور کریں گے، تو ایسا ہوسکتا ہے کہ رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، ایسا ممکن ہے کہ اس کے باپ آگئے ہوں اور وہ اپنے باپ سے بات کرنے میں لگارہ گیا ہو، ایسا بھی ممکن ہے کہ سبق کو اس نے سمجھا ہی نہ ہو، یااس نے سبق کو سمجھا تو لیکن اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر پا رہا ہے، کچھ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔
 ایک آدمی نورانی قاعدہ پڑھارہا ہے، نورانی قاعدہ میں بچے نے قل لِلّٰہ صحیح نہیں پڑھا، اب استاد نے اسے دو طمانچہ مارا اور کہا کہ بھاگ یہاں سے، کمبخت تم کو کچھ نہیں آتا ، اس صورت میں یا تو کل سے وہ بچہ نہیں آئے گا ، یا آئے گا تو کسی سے رٹوا کر آئے گا ، جس کی بنا پر اس کو آئے گا کچھ نہیں، رٹّو ہو کر رہ جائے گا، بچے کی اس غلطی پر آپ کا ذہن فورا ًکام کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ آپ جب اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تشدید کے عمل کو نہیں جان رہا ہے، وہ پورے لام کو پہچا نتا ہے، آدھے لام کو نہیں پہچانتا ہے، زیر زبر میں غلطی کر رہا ہے، اب آپ نے اس کو پکڑ لیا کہ یہ بچہ فلاں جگہ غلطی کر رہا ہے، پانچ منٹ اس کمی کو دور کرنے کے لئے الگ سے کلاس کے بعد آپ نے اس بچہ کو دے دیا تو دوسرے دن سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ شریک ہو جائے گا، سبق بھی اس کو یاد ہوگا، وہ شوق سے آئے گا بھی ، پڑھے گا بھی۔اور اگر آپ نے اس کو ڈانٹ کے بھگا دیا تو رٹ کر کے آئے گا ، یا آنا چھوڑ دیگا، پڑھائی چھوڑ دیگا۔ 
 اسی طرح آپ حساب پڑھا رہے ہیں، حساب پڑھانے میں 25 سے45 کو آپ نے ضرب کرنے کو کہا ، بچے نے ضرب میں غلطی کر دی، آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ اس کو مار کے بھگا دیجئے ، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ یہ دیکھئے کہ اس بچے نے غلطی کہاں پر کی ، ایسا ممکن ہے کہ اس کا پہاڑا صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ گنتی اس کی صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ عدد لکھنے میں اس نے غلطی کر دی، ایسا ممکن ہے کہ عدد کی قیمت کا اس کو پتہ نہیں ہے۔ اس طریقے کو جب آپ اپنا لیں گے، بچہ شوق سے پڑھنے آئے گا اور خوش خوش درسگاہ میں شریک ہوگا۔ 
 خواجہ غلام السیدین نے زبر دست بات لکھی ہے کہ اچھے استاد کا کمال ہے کہ وہ اپنے شعور و آگہی میں بچے کو شریک کر لے ، آپ نے جو کچھ پڑھا ہے آپ کے پاس جو کچھ سرمایہ ہے یہ آپ کا کمال نہیں ہے، یہ آپ کے استاد کا کمال ہے کہ انہوں نے اس علم کو آپ کے اندر منتقل کر دیا
جو استاد کے پاس تھا،اب اگر ہماری صلاحیت ہمارے بچوں میں ، ہمارے طلبہ میں نہیں منتقل ہو رہی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اچھے استاد نہیں ہیں ، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شعور ، اپنی آگہی اور اپنے علم کو ٹرانسفر Transfer کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور کبھی طلبہ سےمایوس نہ ہو۔
یقینا بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں بہت پریشانی ہوتی ہے ، وہ کچھ کر کےہی نہیں دیتے، یہاں پر ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ساری دنیا کسی سے مایوس ہو جاتی ہے ،تب بھی دو ذات ایسی ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتی ، ایک اس کی ماں اور دوسرا اچھا استاد، اس لیے اگر اچھا استاذ بننا ہے تو طلبہ سے مایوس مت ہوئیے، طریقہ تدریس میں یکسانیت لائیے، اگر طریقہ تدریس میں یکسانیت آئے گی، تو نصاب میں یکسانیت کا فائدہ زیادہ مؤثر انداز میں سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ 
اساتذہ کو کبھی کبھی بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طلبہ کی شرار تیں بھی سہنی پڑتی ہیں، مدارس میں تو کم ہوتا ہے اسکول اور کالجیز میں بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن بہت منفی باتوں سے مثبت باتوں کو اخذ کر لینا یہ استاذ کا بڑا کام ہے۔ ایک استاد کو کلاس روم میں آنا تھا، پہلا دن تھا لڑکوں نے سوچا کہ آج اگر ہم ان پر حاوی ہو گئے تو پورے سال ہم ان پر حاوی رہیں گے، اور اگر آج استاد حاوی ہو گئے تو معاملہ ہمارا دب جائے گا ،لڑکوں نے سوچا کہ آج پہلے ہی دن ان کو ایسا سبق دینا ہے کہ یہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہیں، سمجھ لیں کہ یہ لڑ کے بہت شریر ہیں، طلبہ نے ایک ترکیب نکالی کہ کلاس کے گیٹ پر تیل گرادیں گے کہ آتے ہی ان کا پاؤں پھسلے اور گریں ، ہم لوگ خوب ہنسیں گے، استاذڈیمولائز ہو جائیں گے ، نروس ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا، استاد کلاس روم میں آرہے تھے، اس بیچارے کو کیا پتہ کہ کیا قیامت آنے والی ہے ، جیسے ہی داخل ہوئے جوتا پھسلا اور دھڑام سے نیچے، استاد فورا کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ پیارے بچو! آج کا پہلا سبق یہ ہے کہ زندگی میں گرنے کے بڑے مواقع آتے ہیں ،عقلمند اور ہوشیار وہ ہے، جو گر کر فوراً سنبھل جائے ،تم نے دیکھا، میں کس طرح سنبھل گیا، آپ سوچئے کتنی منفی بات ہے، ہم آپ ہوتے تو پہلے تحقیق شروع ہوتی کہ کس نے ایسا کیا اس کے بعد چھڑی آتی اور پتہ نہیں کتنی کر چیاں بدن پر توڑ دی جاتیں، لیکن اس استاد نے انتہائی خراب بات کو ایسا مثبت رنگ دیا کہ لڑکوں کو ایک سبق مل گیا۔ آپ کلاس روم میں جا رہے ہیں لڑ کا شور کر رہا ہے ، آپ کی طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ سبق ہی نہیں چل رہا ہے، آپ اس کو اس طرح خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیں کہ بچہ محسوس کرنے لگے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیئے عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کے اساتذہ میں فرق ہے ، مدارس کے اساتذہ دراصل کا رنبوت میں لگے ہوئے ہیں اور وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں دوسرے اساتذہ سے کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، تدریسی زندگی میں یہ احساس ہمارے اندر وہ سب کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی اخلاق حمیدہ سے مزین اور ہمارے طلبہ تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل سے گذر کر علوم وفنون میں مہارت اور نفس کو رذائل سے پاک کر کے اچھا مؤمن اور اچھا انسان بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مدارس دینیہ کو انسانیت سازی کا کارخانہ قرار دیا ہے، جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں اور جس سے پوری دنیا میں اخلاق و کردار کی پاکیزگی، قول وعمل میں تازگی اور ظلم وستم کے بازار میں محبت واخوت ، مروت و ہمدردی کی نورانی چادر تنی ہوتی ہے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، اس کام کے لئے اپنے کو تپانا اور کئی دفعہ مٹانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے اندر مختلف ذہنی سطح کے طلبہ کے مابین اپنے علم کوٹرانسفر کرنے کی اچھی صلاحیت ہر حال میں موجود ہو۔ 
یہ صلاحیت کبھی تو وہبی ہوتی ہے اور کبھی کسبی ، وہبی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ خدا داد بلاکسب ہوتی ہیں، لیکن بیشتر حالات میں ہمارے اندر صلاحیت خدا کے فضل اور محنت سے پیدا ہوتی ہے، اسلئے ”من جد وجد“ کہا گیا ہے۔یہ محنت اور جد جہد کتابوں کے عمیق مطالعے اور اساتذہ کے تجربات سے بڑی حد تک فائد ہ اٹھانے میں مضمر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت، تجربات سے استفادہ اور تدریس کے طریقے کار پر اکابر کی مفید تحریروں کا مطالعہ بھی اساتذہ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کاغذ پر مختلف نقوش بنانے اور سب کچھ سکھانے کی ذمہ داری گھر ، ماحول اور خاندان کی ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو گھر ماحول، اور خاندان، بچہ کا پہلا اسکول ہوتا ہے ، اور اس میں کارفرما عوامل اس کے پہلے استاد، پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے فطری طور پر بہت کچھ جاننے کی خواہش ہوتی ہے، اور بہت کچھ سکھانا گھر ، ماحول اور خاندان کے بس کا نہیں ہوتا، اس لئے اسے کسی ادارہ کا سہارا لینا ہوتا ہے ادارہ میں جن کے ذریعہ وہ علم حاصل کرتا اور سیکھتا ہے اسے اصطلاح میں استاد کہتے ہیں۔استاد کے کام کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے، اس اعتبار سے اس کا کام آسان ہوتا ہے کہ اس کے اوقات عام طور پر مختصر ہوتے ہیں ، دوسرے کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح اسے سال کے اڑتالیس یا پچاس ہفتے صبح سے شام تک کام میں جٹار ہنا نہیں پڑتا، لیکن دوسری طرف اس کا کام دشوار اس طرح ہوتا ہے کہ اسے ہر معیار کے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کے لئے اسے بڑے دشور ار مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ استاذ کو اس جان گسل مراحل سے گزرنے میں جو چیز اس کی مدد کرتی ہے وہ ہےدوسروں کو کچھ سکھانے کا احساس، طلبہ جب اساتذہ کے پاس آتے ہیں تو انکی دماغی نشونما ادھوری ، عام معلومات ناقص ، اور فکری صلاحیتیں نیم بیدار ہوتی ہیں ؛استاد اپنی معقول تدریس کے ذریعہ ان طلبہ کو نہ صرف نئے نئے حقائق سے روشناش کراتا ہے ، بلکہ ان کی سادہ لوحی کو شعور کی پختگی میں بدلتا ہے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، استاد کو یہ سب کر کے کچھ ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے ، جیسا کسی مصور کو رنگوں کی مدد سے سادہ کینوس پر ایک اچھوتی تصویر بنا کر ہوتا ہے یا ایک طبیب کو اپنی بہترین تشخیص کی بدولت یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیر علاج مریض کی ڈوبتی ہوئی نبض میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ظاہر ہے یہ مسرت ہر ایک استاد کے حصہ میں نہیں آسکتی ، اس مسرت کے حصول کے خاطر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح جانتا ہو، اس لئے یہ کہنا بجا ہی ہے کہ سیکھنا اور سکھانا لازم و ملزوم ہیں، ہر اچھا استاد ہر سال ہر مہینے ؛ بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور سیکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہر وقت ندرت اور جدت کا سرچشمہ نہیں بن سکتے لیکن ایک استاد کو اپنے مضامین میں اتنا باذوق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ ان پر طلبہ سے دلچسپی کے ساتھ گفتگو کر سکے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو طلبہ ذوق وشوق کے باوجود اس مضمون میں ترقی نہیں کر سکیں گے اس لئے ایک استاذ کو اپنے مضمون کی دلچسپی اور قدر و قیمت میں وہی یقین رکھنا چاہئے جو ایک ڈاکٹر تندرستی میں رکھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ استاذ مضامین کا انتخاب بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کرے، اور تعلیمی پیشہ اختیار کرنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے مضمون منتخب کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسے طلبہ سے ایک قسم کی رغبت ہو وہ طلبہ کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھے ، اس کے سوالوں سے نہ گھبرائے ، بلکہ ان سے محبت کرے، خود کو انکا مد مقابل نہ سمجھے، کوئی بات اس انداز میں نہ کہے جو کسی کو بری لگے ، اس طرح استاذ بڑی حد تک اداروں میں جاری طلبہ کی سرکشانہ روش سے محفوظ رہ سکے گا۔اچھے استاد کو ایک دلچسپ انسان اور بذلہ سنج ہونا چاہئے تعلیم اس طرح دینی چاہئےکہ رٹی رٹائی باتوں کے دہرانے کے بجائے اپنی بصیرت افروز باتوں کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ،وہ اگر سوالات کریں تو انکو معقول جواب دیا جائے تا کہ ان کے ذہنوں میں کوئی نئی بات سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ استاد کا حافظہ قوی ہونا چاہئے ، کمزور حافظہ کا استاد مضحکہ خیز بھی ہوتا ہے، اور خطرناک بھی، دوسری چیز قوت ارادی ہے، اچھے استاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ارادے بالکل اٹل ہوں۔تعلیم کے لئے استاذ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اول یہ کہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح تیار کرے، دوم یہ کہ طلبہ کے سامنے اچھی طرح بیان کر سکے اور انہیں ذہن نشیں کرا سکے سوم یہ کہ یہ اطمینان کرلے کہ جو اس نے پڑھایا ہے اسے طلبہ نے اچھی طرح یاد کر لیا ہے۔ استاد کو اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایک ہمدرد دوست اور مشکلات کودور کرنے والا ساتھی ہے اور مدرسہ کی زندگی طلبہ اور استاد کے مابین مہرومحبت اور شرکت عمل کی زندگی ہے۔یہ سب چیزیں ایک استاذ کے اندر موجود ہونی چاہئیں ، لیکن صرف نصاب کی کتابوں سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق عملی تربیت سے ہے ، اس لیے ایک ایسے مستقل نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ، جو مدارس میں تدریس کے لیے تیار کی جارہی اساتذہ کی اگلی کھیپ کو ان بنیادوں پر تیار کر سکے۔

پیر, اگست 28, 2023

ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

عربوں کی قیمت اسرائیل کی نظر میں!
Urduduniyanews72 
 اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کا کہنا ہےکہ ؛ "عربوں کی زندگی سے زیادہ اہم یہودیوں کا حق ہے،میرا جینے کا حق فلسطینیوں کی زندگی سے پہلے آتا ہے، یہ میرا حق ہے،میری بیوی کا حق ہے،میرے بچوں کا یہ حق ہے"
مذکورہ بیان سے عربوں اور مسلمانوں کےخون کی اسرائیلی حکومت کی نظر میں کیا قیمت ہے ؟یہ بات واضح ہوجاتی ہے،اورساتھ ہی عربوں کےقتل عام کا ایک جواز بھی پیش کیا گیا ہے، یہ محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ ایک پروگرام ہےجس پر کام شروع ہے۔آج اسی لئے اسرائیلی حکومت اپنے عام شہریوں کو بھی مسلح کررہی ہے، اب صرف اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ غیر قانونی یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں بھی  مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیاہے،ابھی تازہ خبر کے مطابق فلسطینی کسانوں پرحملے یہودی آبادکاروں کے ذریعہ ہی کئے گئے ہیں، ماہی گیروں پر بلاجواز گولیاں برسائی گئی ہیں،اس وقت قابض اسرائیلی فوجی اور عام صہیونی شہری شانہ بشانہ عرب مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، یہ نہایت تشویشناک بات ہے، ابھی چند مہینوں میں ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،گزشتہ جمعہ کو نماز کے لئے آنے والے نہتے نمازیوں پر بھی بیت المقدس میں حملہ ہوا ہے،  یہ آئےدن اسرائیلی حکومت اور قوم یہود کا شیوہ بن گیا ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر بھی حملہ سے دریغ نہیں کیا جاتا ہے،یہ بہت ہی شرمناک ہے۔
کچھ قانونی ماہرین آواز اٹھارہے ہیں، اور یہ کہ رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا یہ رویہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔مگران کی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے،صحیح بات یہ ہے کہ کسی قانون کی یہودیوں کے نزدیک ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔
 ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے دریافت فرمایا کہ تمہاری شریعت میں زنا کی سزا صرف درہ مارنا ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ سنگسار کرنا ہے لیکن ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی اور جب کوئی شریف اس جرم میں پکڑا جاتا تو ہم اس کو چھوڑ دیتے تھے۔البتہ عام آدمیوں کو یہ سزا دیتے تھے، بالآخر یہ قرار پایا کہ سنگسار کرنے کی سزا درہ سے بدل دی جائے،(مسلم) اس طرح انہوں نے قانون شریعت  کا بھی مذاق بنایاہے۔
نبی وقت حضرت موسی علیہ السلام نے ایک موقع پرجب  بنی اسرائیل سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم فرمایا،،تو وہ کہنے لگے؛تم مع اپنے خدا کے جاؤ اور لڑو،ہم یہاں بیٹھے رہیں گے، (مائدہ ) یہ کہ کر یہودیوں نےاپنے نبی اور خدا کے حکم کو جھٹلایا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا ہے،
اس شتر بے مہار قوم کے نزدیک بین الاقوامی قانون کی کیا حیثیت ہے؟ مذکورہ واقعات سے  خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔نافرمانی اور اس قوم کی سرشت میں داخل ہے، قانون شکنی ان کی فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے،  انہی وجوہات کی بنا پر خدا کے غضب اور لعنت کےیہ سزاوار ہوئے ہیں، جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں، اور جو فضیلتیں ان کو حاصل تھیں وہ چھین لی گئی ہیں۔ نبیوں کا سلسلہ جو قوم بنی اسرائیل میں تھا، وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوگیا اور خدا کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں، اہل عرب یہ دراصل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد واحفاد ہیں، یہی چیز یہود کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا سامان ہے،اور عرب دشمنی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو بجائے" السلام علیك" کے "السام علیك" کہتے تھے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کو موت آئے،ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی موجود تھیں، انہوں نے سنا تو ان کو سخت غصہ آیااور بے اختیار بول اٹھیں کہ کم بختو! تم کو موت آئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نرمی سے کام لو،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا، آپ نے کچھ سنا بھی کہ لوگوں نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ ہاں، لیکن اتنا کافی ہے کہ میں علیك کردیاہے (بخاری )
آج عرب ممالک ان صہیونیوں سے اور قابض اسرائیلی حکومت سے دوستی گانٹھنے میں لگے ہیں، ٹرمپ حکومت کے خاتمے کے بعد اس عنوان پر خاموشی ضرور ہے،مگر اپنے وقتی اور معاشی مفاد کو دیکھتے ہوئے اسرائیل سےاب بھی کچھ ہاتھ ملنے کو بے قرارہیں،آج یہ بات مذکورہ اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کے بیان واضح ہوگیا ہے کہ ان کی نظر میں اپنے مفاد کے لئے عربوں کا خون حلال ہے،عرب ممالک کے لئے ہوش کے ناخن لینے کا موجودہ وقت تقاضہ کرتاہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اتوار, اگست 27, 2023

شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی


شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال
اردودنیانیوز۷۲ 
 مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی
   آج ۲۵ اگست ممبئی، شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بلا شبہ ایک پر آشوب دور اور زوال پذیر عہد کی پیداوار ہیں لیکن ان کے لو ح و قلم و سوچ و فکر پر زوال و انحطاط کے اثرات محسوس نہیں ہو تے ہیں انہوں نے عدل اجتماعی کے قیام اور تکثیری معاشرہ میں مذہبی رواداری کے فروغ و ترویج،مسلکی وسماجی اختلافات ونزاعات اور ملی فرقہ بندیوںکو ختم کرانے پر بڑا زور دیاہے اور وہ اتحاد امت کے استعارہ وعلامت تھے اور ہر مکتبہ فکر میں یکساں طور پر مقبول تھے انہوں نے اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے امت کے سامنے پیش کیا ہے ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں منعقد فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ میں کیا ہے جس کی صدارت مشہور ماہر تعلیم اور متعدد قومی وملی اداروں کے سربراہ وروح رواں ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نے کی ہے ،جبکہ نظامت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئےمعیشت اکیڈمی کے ڈائرکٹر دانش ریا ض نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی وتحقیقی کاموں کا بھر پور تعارف کرایا اور اسے ایک ملی تحریک و دینی دعوت قرار دیا ہے۔
مر کزی جمعیت اہل حدیث ہندکے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہاکہ مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کی جانب سے ۴۲سے زیادہ قرآن و حدیث ،تاریخ و ثقا فت ،اوقاف و آثار اور مغل فرامین کے مو ضوعات پر معرکۃ الآراء کتابیں شائع کر نے اور در جنو ں قومی وبین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کرانےکے با وجود ایک عرصہ دراز تک شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ دفتر کو چھپا ئے رکھا اور جب حال میں میں نے اسے دیکھا اور مفتی صاحب نے بڑی مشکل سے مجھے دفتر دیکھ لایا تو حیرت و استعجاب کی انتہا ہوگئی کہ ایک چھو ٹی مسجد کے ایک کو نے میں واقع ایک ڈیڑھ کمرے میں اور وہ بھی تن تنہا اتنا بڑا تاریخ ساز اور عہد ساز کا م کیا جاتا رہاہے، مفتی صا حب کی کتاب ’’دہلی کی تاریخی مساجد‘‘ اور’’پنجاب وہریانہ کی تاریخی مساجد ‘‘،دہلی اور پنجاب کی مختلف سرکاری عدالتوںمیںبطور ثبوت وشہادت پیش ہوتی رہی ہیںاور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی بطور دستاویز ودلائل پیش ہوتی رہی رہیںگی، انکی کتاب ’’ہندومندر اوراورنگزیب عالم گیر کے فرامین‘‘ تو موجودہ دور تعصب وتنگ نظری میں غلط سوچ کو بدلنے والی اور تاریخ و ثقافت اور مذہبی رواداری وروایت کو صحیح روپ دینے والی نادر و نایاب کتاب ہے۔
جناب مشتاق انتولے نائب صدر انجمن اسلام نے بھی انتو لے مر حوم کی طرح والہانہ انداز میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار کے حوا لے سے فکر ولی اللٰہی پر روشنی ڈالی اور انسٹی ٹیوٹ کے کاموں کو سراہا ، ریاض یونیورسٹی سعودی عربیہ کے استا د حدیث ڈاکٹر عبدالرحمٰن الفریوائی نے حضرت شاہ صاحب کی شخصیت اور انکی وسیع خدمات کا ذکر کیا اور مولانا قاسمی کے کاموں کا بھی اعتراف کیا دارالعلوم ندوۃ العلما ءلکھنو کے فرزند ارجمند اور مرد دردمند مولانا ابو ظفر حسان ندوی نے خانوادہ ولی اللٰہی کے مجاہدانہ کار ناموں اورانکے زہدو ورع اور تقوی و طہارت کا ذکر اپنی نم آنکھوں سے کیا اور اہل محفل کو اشکبار اورنمناک کیا، علماء کونسل مہاراشٹر ا کے صدر مولانا محمود دریا آبادی نے کہا کہ مفتی عطاءالر حمٰن قاسمی اپنی ذات میں دراصل ایک انجمن اور ایک تحریک ہیں اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے ذریعہ تحریک ولی اللٰہی کو آگے بڑہارہےہیںاور سماج میں فکری وعلمی اور تعلیمی بیداری پیدا کر نے کی جد جہد کر رہے ہیں، آخر میں صدر اجلاس ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نےاپنےکلیدی خطبہء صدارت میں کہاکہ آج حضرت شاہ صاحب کی شخصیت کے تعلق سے میر ے لیے کچھ ایسے گو شے سامنے آئے ہیں جن سے میں یقینا اب تک لاعلم تھا اور انکی تعلیمات اور افکار ونظریات کی اشا عت وقت کی اہم ضرورت اور عہد کا تقاضاہے ڈاکٹر صا حب اپنی غیر معمولی مصروفیات اور انجمن بورڈ کی متعدد اہم میٹنگوں کے باوجو د اول تا آخر تقریب میں موجود رہے اور اپنے خطاب میں بڑے فکر انگیز اور حو صلہ افزا کلمات کہا اور انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے کہ اعلان کیا کہ انجمن اسلام اب تک چندہ لیتی رہی ہے کبھی کسی کو چندہ نہیں دیا ہے لیکن اس موقع پر انسٹی ٹیو ٹ کے علمی کاموں کی اہمیت کے پیش نظر دولاکھ روپئے کا اعلان کرتا ہوں اورنومبر میں بڑے پیمانے پر انجمن اسلام اور جامع مسجد میں پروگرام کئے جائیں گے اور مفتی اشفاق قاضی اور مولانا محموددریا آبادی سے مدد لی جائے گی جو بڑے با آثر
لوگ ہیں اسکےبعد عروس البلاد ممبئی کے صا حب نظر مفتی اور فقیہ مولانا مفتی عزیز الرحمٰن فتحپوری نے اپنے جامع بیان میں کہاکہ مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے مجھےاسوقت یاد کیاہے جبکہ سارے اکابر دنیا سےجاچکے ہیں اور آپ کی پرسوز دعا پر اس تقریب سعید کا اختتام ہوا اور مولانا منظر احسن سلفی نے مہمانوں کے لیے کلمات تشکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور یہ مذاکرہ انجمن اسلام کے تعاون واشتراک سے ہوا تھا اور انجمن کی جانب سے بڑا پر تکلف عصرانہ کانظم کیا گیاتھا اور عصرانہ میں مشتاق انتولے صاحب مو جود تھے، جس کے لئے انسٹی ٹیوٹ انکا بھی شکر گزار ہے، اس مذاکرہ کے قابل شرکاء میں پروفیسر محمد طاہر علیگ سابق پرنسپل انجمن اسلام کا لج، پروفیسر شکیل الرحمٰن، عظمی ناہید،سلمان غازی، مولانا مستقیم مکی ، مفتی اشفاق قاضی،حافظ اقبال چونے والا،سلمان ملا،اختر رنگوں والا، فواد،اے ایم پاٹکا، فرید شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین سعود ملک جاوید عالم شیج، محمود بن منظر سلفی،مفتی رشید اسعد ندوی اور مولانا محمود فیضی وغیرہ تھے۔

جمعرات, اگست 24, 2023

موت کے بعد کی زندگی __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

موت کے بعد کی زندگی __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)
انسانی ارواح کا پہلا وجود ”عہد الست“ میں ہوا، جب اللہ نے تمام قیامت تک آنے والی روحوں کوحضرت آدم علیہ السلام کے پشت سے وجود بخشا اور اس سے ایک سوال کیا کہ ’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ساری روحوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ہمارے رب ہیں، سورہ اعراف کی آیت نمبر 172 میں اللہ رب العزت نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ شہادت اس لیے لیا تاکہ قیامت میں یہ نہ کہنے لگوکہ ہمیں تو اس کی خبرہی نہیں تھی، ”عہد الست“ کے بعد یہ پھر لوٹا دی گئیں، چنانچہ ان روحوں کو حسب خاندان، حسب قبیلے، حسب مذہب جن میں زن وشوہر کے تعلق سے آنا تھا، وہ روحیں اسی ترتیب سے دنیا میں آتی ہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی، یہ ارواح جب دنیا میں جسم کے ساتھ وجود پذیر ہوئیں تو ہر دور میں اللہ رب العزت نے اس عہد کو یاد کرانے کے لیے کہ آپ ہمارے رب ہیں، انبیاء ورسل کو بھیجا، بعض کو کتابیں دیں اور بعض کو صحائف دیے، تاکہ انسانوں پر حجت تام ہو، سب سے آخر میں آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قیامت تک کے لیے اس سلسلہ کو ختم کردیا، کتاب ہدایت قرآن کریم کی شکل میں دیا اور اسے رہتی دنیا تک کے لئے دستور حیات بنا دیا، انبیاء ورسل کے سلسلے کے ختم ہونے کے بعد علماء کو وارث قرار دیا تاکہ وہ انسانوں کو عہد الست کی یاد تازہ کراتے رہیں اور لوگ اس ڈگر پر قائم رہیں جو اللہ ورسول کے حکم وہدایت کے مطابق ہے، کوئی اس آزمائش میں پورا اترتا ہے اور کوئی ناکام ہوجاتا ہے، ہر ایک کی مدت حیات پوری ہوجاتی ہے اور موت کا پیالہ پی کر انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، جو لوگ نیکوکار ہیں، ان کے لیے موت اللہ کا تحفہ ہے، جو فرشتے ایمان والوں کے پاس لے کر آتے ہیں اور اطمینان وسکون سے اس کی روح کو لے کر جاتے ہیں، وہ چوں کہ پوری زندگی رب کو خوش کرنے کے لیے ہی کام کرتا رہا ہے، اس لیے اپنے رب کی طرف لوٹنے پر خوشی ومسرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں کبھی مرئی اور کبھی غیرمرئی انداز میں پھیل جاتی ہیں، سامنے والا کبھی دیکھ کر اس کا ادراک کرلیتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرپاتا ہے، اسی بات کو اقبال نے نشان مرد مومن قرار دیا ہے کہ ”چوں مرگ آید تبسم برلب اوست“ جو انسان بدعملی، بے عملی میں مبتلا ہوتا ہے اور اللہ کی مرضی کے خلاف زندگی گذارتا ہے اس کے لیے یہ مرحلہ بڑا پریشان کن ہوتا ہے اور موت کے وقت ہی سے اس پر عذاب کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اپنے خالی جسم کو چھوڑنے اور اس کائنات سے دور جانے کو تیار نہیں ہوتا، بالآخر موت اپنا کام کر جاتی ہے اور اس کی روح بدبو دار کپڑے میں لپیٹ کر سجین کے لیے روانہ کردی جاتی ہے۔
پھر بے جان جسم کو قبر میں منتقل کیے جانے کے بعد جب لوگ دفن کرکے لوٹتے ہیں تو منکر نکیر سوالات کے لئے قبر میں آتے ہیں،اس وقت روح اور جسم کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کو سمجھنے سے ہماری عقل قاصر ہے، اگر انسان نیک ہے، منکر نکیر کے سوال کا جواب بآسانی دے دیا تو جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور وہ قبر میں سکون محسوس کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں سے مستفیض ہوتا ہے اور اگر گناہگار ہے تو فرشتوں کے جوابات صحیح دینے پر قادر نہیں ہوتا اور فرشتے گرز سے خبر لیتے ہیں، قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ ایک طرف کی پسلی دوسری طرف داخل ہوجاتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا، نیکوں کو فرشتے کہتے ہیں ”نم کنومۃ العروس“ اطمینان سے دلہن کی طرح سوجاؤ، تمہارا رب تم سے راضی ہے اور بدبختوں پر مختلف قسم کے عذاب ان کے گناہوں کے اعتبار سے قبر میں ہی مسلط کردیے جاتے ہیں اور جہنم کی کھڑکی سے آنے والی گرم ہوائیں جسم کوجھلستی رہتی ہیں اور روح وجسم کے نامعلوم رشتوں کے ساتھ وہ عذاب کی شدت المناکی اور کرب کو جھیلتا رہتا ہے، قبر اور قیامت کے حساب کتاب تک کے فاصلے کو برزخ کہتے ہیں، برزخی معاملات کے لیے قبر کا ہونا ضروری نہیں ہے، اصل معاملہ تو روح کا ہے اور جسم فنا ہونے کے باوجود روح فنا نہیں ہوتی، اس لیے یہ سوال بے محل ہوگا کہ جن کو قبر نہیں ملتی ان کا کیا ہوگا؟ سوال وجواب ان سے بھی ہوگا اور کیا بعید ہے کہ اللہ رب العزت قبر نہ ملنے کے باوجود مردہ کے جسم سے روح کا رشتہ قائم کرکے سوال وجواب کے مراحل سے گذاردے اور اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے، لیکن کفن اور قبر کا ملنا بھی بڑی بات ہے، اِسی لئے ان دنوں بعض بزرگوں کو یہ دعا کرتے بھی پایا کہ اے اللہ! کفن اور قبر نصیب فرما۔
عالم برزخ میں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، کیوں کہ اللہ نے اس کا علم اپنے پاس محفوظ رکھا ہے، بہرکیف اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو یہ دنیا تہس نہس ہوجائے گی، آسمان روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے، زمین پھٹ جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے سب باہر پھینک دے گی، ایک زمانہ تک یہی حالت رہے گی، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو مردے قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور سب میدان حشر میں جمع ہوں گے، سورج سوا نیزے پر ہوگا، گرمی کی شدت وحرارت انسانوں کو پسینے میں شرابور کردے گی اور ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں ڈوبا ہواہوگا، ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا،ا لعطش العطش یعنی پیاس، پیاس کی آواز گونج رہی ہوگی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر ملیں گے اور جو لوگ نیکو کار ہوں گے ان کی پیاس بجھائیں گے، اور جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی ہوگی اس کو دور بھگائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں حساب وکتاب شروع کرانے کی سفارش کریں گے، سجدے میں جائیں گے، گڑگڑائیں گے، التجا کریں گے، بالآخر میزان قائم ہوگا، اعمال تولے جائیں گے، پل صراط سے گذارا جائے گا، جن کا نتیجہ اچھا ہوگا، ان کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کا نتیجہ بُرا ہوگا انہیں نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، وہ خواہش کرے گا کہ کاش ہمیں نامہئ اعمال نہ تھمایا جاتا، یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیاوی زندگی میں مگن تھے، ان کو حساب کتاب کا یقین نہیں تھا، وہ مال ودولت، جاہ ومنصب کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے، آج کے دن انہیں کچھ کام نہیں آئے گا، اس دن بھائی بھائی سے، ماں باپ اور بیوی شوہر سب ایک دوسرے بھاگتے پھریں گے، ہر ایک پر نفسانفسی کا عالم طاری ہوگا، نامہئ اعمال کے اعتبار سے چہروں پر مسرت اور مایوسی پسری ہوگی، ان مراحل سے گذرنے کے بعد جنت اور جہنم میں دخول ہوگا، ایمان والے گناہگار کُٹائی اور گناہوں کی کثافت کی جہنم کی بھٹی میں دھلائی کے بعد بالآخر جنت میں داخل کیے جائین گے اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دیا جائے گا، پھر اللہ رب العزت ان لوگوں کا جن کے ایمان کا علم صرف ذات اقدس کو ہوگا کثیر تعداد میں اپنی قدرت کاملہ سے جنت میں داخل کر دیں گے، پھر جنتی ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں موت کو بھی موت آجائے گی۔
حیات ما بعد الموت کا یہ خلاصہ ہے، جو قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اہل علم نے ضخیم کتابیں اس پر تصنیف کی ہیں، سب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے، اور مال ودولت عز وجاہ کے چکر میں آخرت کو نہیں بھولنا چاہیے، یہ فکر آخرت ہی ہماری زندگی کو درست راستے پر ڈالتی ہے او رجزا وسزا کا تصور ہی خوف خدا کی شاہ کلید ہے، اسی لیے ایمانیات میں یوم حشر ونشر اور قیامت کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ہماری زندگی بیلنس، معتدل اور متوازن رہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ تکاثر میں اس کا ذکر کیا ہے، جس خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو لالچ اور حرص نے غافل کر رکھا ہے، یہاں تک کہ وہ قبر کو جاپہونچتا ہے، وہ جان لے گا اور یقینا جان لے گا، وہ ضرور دوزخ کو دیکھے گا اور اس ے نعمتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر انسان جس نے تھوڑی نیکی کی ہوگی، اسے بھی دیکھ لے گا اور جس نے تھوڑی بھی بُرائی کی ہوگی، اسے بھی دیکھے گا، اور حسرت سے کہے گا کہ یہ کیسا رجسٹر ہے، جس نے چھوٹے بڑے ہر اعمال کا لیکھا جوکھا رکھا ہے۔
 اللہ تعالیٰ ہم سب کی بُرے کاموں سے حفاظت فرمائے اور اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے تاکہ ہمارا حساب وکتاب آسان ہو اور ہم جنت کی ابدی آرام گاہ کے لائق ہو سکیں۔ آمین یا رب العالمین

چند ریان کےکامیاب سفر پرایک ںظم

چند ریان کےکامیاب سفر پرایک ںظم
اردودنیانیوز۷۲ 
            ایک سوال۔۔۔؟ 

  انس مسرورانصاری

 بہت ا نچے ہو تم انچے نگر کی با ت کر تے ہو
 زمیں پرہو مگر شمس و قمرکی بات کر تے ہو
 کمند یں تم نے پھینکی ہیں بہت بام ثریّا  پر
 نظر کی حدسےبھی آ گےسفر کی بات کرتےہو

فلک کوتکنےوالو،ہے زمیں کی بھی خبر تم کو
 سسکتی آ د میت کیا نہیں آ تی  نظر  تم  کو
چلے ہو ا ک  نئی د نیا بسا نےآ سما نو ں میں
مبارک ہو خلوص دل سے یہ عز م سفر تم کو

 نو ا ہےتلخ میر ی، گفت گو ہےز ہرمیں ڈ و بی
مگردانشورو!کہتاہوں تم سےآج کچھ میں بھی

 ابھی  زندان  آشوب  جہاں میں قید ہےانساں
 ابھی  مشق  عتاب آ سماں میں قید ہےانساں
 بز عم  قو ت با ز و ابھی ہیں جنگ کے نعر ے
ابھی تخریب کاری کےجھا ں میں قیدہےانساں
ر
 سنورپایا نہ اب تک تم سے حسن محفل گیتی
 جمال انجم و شمس و قمر کی بات کر تے ہو
تمھا ر ا  مد عا  تو  ا ر تقا ئے  نسل  آ د م  ہے
مگر کیا تم کبھی نوع بشر کی با ت کرتے ہو ؟ 

              * ا نس مسرورانصاری
      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا) 
               رابطہ/9453347784...

___ دہلی انتظامیہ بل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

___ دہلی انتظامیہ بل ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
 بھاجپا ایک زمانہ میں دہلی کو مستقل ریاست کا درجہ دلوانا چاہتی تھی، لال کرشن اڈوانی، مدن لال کھورانہ اور خود اٹل بہاری باجپئی1999ء میں اس کے حق میں تھے۔لیکن سیاسی داؤ پیچ میں ایسا نہیں ہو سکا، البتہ اسمبلی بن گئی، اور لفٹننٹ گورنر کو زیادہ اختیار دے دے دیا گیا جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ بے دست وپا انداز میں کام کرنے لگے، جب کوئی بات مرکزی حکومت کو بری لگتی تو لیفٹنٹ گورنر کے سہارے وہ اس کو روک دیتی، لیکن عاپ کی حکومت آئی، اروند کیجریوال نے بھاجپا کو دھول چٹا دیا اورکہنا چاہیے کہ عاب نے بھاجپا پر جھاڑو پھیر دیا، یاد رکھیے کہ عاپ کا انتخابی نشان جھاڑو ہی ہے۔
 مرکزی حکومت نے اروند کیجریوال کو پریشان کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، دہلی کے سرکاری اسکولوں کو تعلیمی پہچان دینے والے منیش سسودیا پر بدعنوانی کا الزام لگا کر آئی بی کے ذریعہ اسے جیل رسید کر دیاگیا، اور مہینوں گذرنے کے بعد اب تک ان کی ضمانت نہیں ہوسکی ہے۔
 مرکزی حکومت کے اس رویہ کے خلاف دہلی حکومت سپریم کورٹ گئی، وہاں سے اسے راحت ملی اور عدالت نے وزیر اعلیٰ کے اختیار کی وسعت کو تسلیم کیا اور لیفٹننٹ گورنر کی بے جا دخل اندازی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن مرکزی حکومت کو یہ گوارہ نہیں تھا، پارلیامنٹ چل نہیں رہی تھی، اس لیے صدر جمہوریہ سے ایک آرڈی نیشن پر دستخط کراکر پھر سے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو بے دست وپا کر دیا گیا اور دہلی نیشنل کیپٹل ٹیرٹری ایڈمنسٹریشن ترمیمی بل 2023پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا۔
 پارلیامنٹ میں یہ بل اکثریت کے بل پر پاس ہو گیا، راجیہ سبھا میں بھاجپا کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لیے یہاں گنجائش تھی کہ دہلی انتظامیہ بل پاس نہ ہو سکے، لیکن بھاجپا نے سیاسی دور اندیشی کے ساتھ چندر شیکھر کی راشٹریہ سمیتی، آندھرا کی ٹی آر ایس اس کانگریس اور اڈیشہ کے بیجو جنتا دل کو اپنے ساتھ کر لیا، اس طرح اس بل کے پاس ہونے میں رکاوٹ یہاں بھی باقی نہیں رہی، البتہ این ڈی اے کے ایک سو اکیس (121)اور انڈیا اتحاد کے ایک سو انیس(119) ارکان تھے، راجیہ سبھا میں بحث ہوئی پھرووٹنگ ہوئی تو یہ بل 102کے مقابلہ ایک سو اکتیس (131)سے پاس ہو گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں بھی بھاجپا سیندھ مارنے میں کامیاب ہو گئی اور کم از کم دوسری پارٹی کے بارہ ممبران نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا، اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بن گیا، لیکن تاریخ میں یہ بات درج ہوگئی کہ بھاجپا وفاقی ڈھانچے اور ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے کسی حدتک جاسکتی ہے، اس کا نقصان ہندوستان کی سالمیت کو پہونچے گا۔
عین ممکن ہے کہ جب بھی دہلی اسمبلی میں بھاجپا کی اکثریت ہوگی اور اس کی حکومت تشکیل پائے گی تو یہ راگ پھر الاپاجائے گا کہ دہلی کو خود مختار اور مکمل ریاست کا درجہ ملنا چاہیے۔کیوں کہ اس کے بغیر دہلی کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

منگل, اگست 22, 2023

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی ؒ __
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مدرسہ مصباح العلوم مکیا، مدھوبنی کے بانی مہتمم، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی کے سابق صدر المدرسین، الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے نامور فیض یافتہ، مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور کے مشہور فاضل، مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کوٹ کے سابق مدرس، بڑے عالم دین البیلے خطیب، متواضع اور منکسرا المزاج حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی بن محمد صادق (م 1991) بن امام علی بن شر ف الدین بن احمد بن عبد اللہ کا 15محرم الحرام 1445ھ مطابق 3اگست 2023بروز جمعرات کوئی تین بجے سہ پہر آئی جی ایم ایس پٹنہ میں انتقال ہو گیا، وہ پیٹ کے درد آنتوں کے الجھنے کے مرض میں مبتلا تھے، علاج آپریشن تھا، لیکن پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا اور مولانانے رخت سفر باندھ لیا۔ جنازہ 4اگست کو سوا تین بجے سہ پہر ان کے صاحب زادہ مولانا محمد عمران ندوی نے پڑھائی، جنازہ سے قبل مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے مختصر خطاب کیا، مولانا محمد اظہار الحق مظاہری ناظم الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں، مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی بانی ادارہ سبیل الشرعیہ آوا پور، شاہ پور سیتامڑھی، حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی جیسے اکابر علماء، عوام جم غفیر کے ساتھ جنازہ میں شریک تھے اس کے قبل پٹنہ سے بذریعہ امبولینس ان کا جنازہ مکیا منتقل کیا گیا، بعد نماز جمعہ عام دیدار کے لیے غسل وکفن کے بعد مدرسہ مصباح العلوم کے صحن مین جنازہ رکھا گیا، جس کی ترقی کے لیے وہ پوری زندگی کوشاں رہے، تدفین مدرسہ سے متصل جانب جنوب آبائی قبرستان میں ہوئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے انور، حافظ انظر، مولانا سلمان، مولانا محمد عمران ندوی اور شاعر حافظ بلال حسامی اور تین لڑکیاں ہیں۔
مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کی و لادت 5مارچ1950کو موضع مکیا، ڈاکخانہ بشن پور موجودہ ضلع مدھوبنی میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال گاؤں میں ہی تھی اور ان کے نانا کا نام محمد علیم تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد 1964میں الجامعۃ العربیہ اشر ف العلوم کنہواں میں داخل ہوئے، ابتدائی درجات سے عربی چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،1970 تک کازمانہ یہیں گذرا، مولانا نے اس وقت کے نامور اساتذہ حضرت مولانا محمدطیب صاحب ناظم مدرسہ مولانا محمد طیب صاحب کماوری، مولانا زبیر احمد رحہم اللہ سے کسب فیض کیا اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہے،1971میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، حضرت مولانا محمد زکریا ؒ شیخ الحدیث اور مولانا محمد یونس صاحب ؒ سے زیادہ تعلق رہا اور بقدر ظرف ان اکابر کے علوم، صلاح وتقویٰ سے حصہ پایا اور سند فراغ 1974میں وہیں سے حاصل کیا۔ فراغت کے بعد 1975میں محمد صدیق بن نوازش کریم کی دختر نیک اختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، جناب محمد صدیق صاحب حسن پور بر ہروا کے رہنے والے تھے،ا س لیے مولانا کی سسرال حسن پور برہر وا قرار پائی۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شہر فتح پور کورٹ یوپی سے کیا، چودہ سال تک یہاں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، جب حضرت مولانا عبد الحنان صاحب ؒ نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ قائم کیا تو آپ کو فتح پور سے تدریس کے لیے بالاساتھ بلا لیا، چنانچہ تین سال تک آپ یہاں خدمت انجام دینے کے بعد کویت میں ملازمت اختیار کرلی، پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے ولا آدمی زیادہ دن دوسرے کاموں میں چل نہیں پاتا، چنانچہ دو سال کے بعد آپ فرصت پر آئے تو دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کیا، حضرت مولانا عبد الحنان صاحب کا تقاضہ ہوا تو اب وہاں کے صدر مدرس بن کر آئے اور کئی سال یہاں گذارے، اس زمانہ میں مولاناکی ٹوپی مولانا عبد الحنان صاحب ؒ کی طرح ہی کھڑی ہوا کرتی تھی، اور جب دونوں پہلی صف میں جماعت کے لیے آزو بازو بیٹھے ہوتے تو لگتا کہ دو خوبصورت میناران عالی قدر لوگوں کے سروں پر رکھا ہوا ہے، کچھ دن بعد مولانا نے محسوس کیا کہ ان کے پرواز میں کمی آرہی ہے تو انہوں نے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کو پھر سے خیر باد کہہ دیا،  آبائی وطن مکیا میں پہلے سے جاری مکتب کو مدرسہ کی شکل دیدی اور اس کو پروان چڑھانے میں پوری زندگی لگا دی، مولانا محمد عمران ندوی کی اس لائن سے تربیت کرتے رہے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔
مدرسہ کے ساتھ آپ کا دوسرا بڑا میدان عمل اصلاح معاشرہ کی غرض سے میدان تقریر وخطابت تھا، اس کام میں وہ محبوب، مقبول اور”مطلوب“ تھے، عوامی زبان، عوامی اصطلاحات، عوامی الفاظ، عوامی لب ولہجہ، عوامی محاورے، عوامی ضرب الامثال، لطائف اور لوگ گیتوں پر انہیں عبور تھا،انہیں کمالات کے وجہ سے میں انہیں البیلا خطیب کہا کرتا تھا، درمیان میں نعتیہ اشعار اور حمد وغیرہ بھی اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پڑھ کر سناتے، ہر دو چار جملے کو دھیرے اور پھر زور سے بیان کرتے تو مجمع پھر سے ہوشیار اور بیدار ہوجاتا، وہ کسی بھی جلسے میں اپنی تقریر پہلے کروانے کی تجویز نہیں رکھتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا نمبر نواں وکٹ گرنے کے بعد ہی آئے گا اورمجھے فجر تک ناٹ آؤٹ ہی رہنا ہے، ظاہر ہے آخر رات میں مجمع کم ہوجاتا تھا لیکن ان کے لب ولہجے اور تقریر پر اس کا اثر نہیں پڑتا تھا۔جو سامعین بچ جاتے وہی ان کے لیے حتمی ہوتے اور آخر وقت تک بچے کُھچے سامعین ان کا ساتھ دیتے رہتے،بعض لوگ ان کی تقریر شروع ہوگئی اسی وقت جلسہ میں حاضرہوتے۔ خطابت کی مشغولیت نے ان کے علمی رسوخ کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیا۔
 ان کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار ایک جلسہ میں ہم دونوں مدعو تھے، مولانا اتفاق سے تشریف نہیں لا سکے، اب بھی میرے پاس آکر بیٹھتاکہتا کہ مولانا مطلوب صاحب نہیں آئے، میں نے کہا کہ جو آگیا اس کی قدر کرنا سیکھو، کہنے لگے کہ مولانا کی بات ہی کچھ اور ہے، جب ان کی پریشانی بڑھی تو میں نے کہا کہ چلو میں آج ”مطلوب الرحمن“ بننے کی کوشش کرتا ہوں، پھر میں نے ان کے لب ولہجہ میں تین گھنٹے تقریر کی تو مجمع کو کچھ اطمینان ہوا، میں نے اپنی تقریر مولانا احمد رضا خان صاحب کی مشہور نعت کے آخری شعرختم کیا۔
 بس خانہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز  مِری نہ یہ رنگ مِرا
ارشاد احباء ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
میں شروع سے رت جگے جلسوں کا مخالف رہا ہوں، ایک جلسہ میں میں نے اُس کے خلاف تقریر کر دی، میرے بعد مولانا کا نمبر تھا، میری تقریر کے اثر کو باقی رکھنے کے لیے انہوں نے اس جلسہ میں تقریر نہیں فرمائی، دعا کرکے جلسہ ختم کر دیا، وہ چاہتے تو مختلف دلائل سے میری تقریر کا رد کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مولانا سے آخری ملاقات میری 15مارچ 2023کو مدرسہ عزیزیہ برار سیتامڑھی کے جلسہ میں ہوئی تھی، حسب سابق شفقت ومحبت سے پیش آئے،  مجھے عجلت تھی، بارہ بجے سے پہلے ہی تقریر کرکے میں چلتا بنا، اس سفر میں میرے ساتھ عزیزم محمد ظفر الہدیٰ قاسمی اور ماسٹر عبد الرحیم صاحب بھی تھے۔ اب ایسی شفقت ومحبت اور خورد نوازی کرنے والے کم رہ گیے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور خطابت کے میدان میں ان کا نعم البدل دے۔ آمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...