Powered By Blogger

منگل, ستمبر 05, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اساتذہ منایا گیا
Urduduniyanews72 
 ہندوستان میں ہر سال ۵ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے یہ ملک کے پہلے نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس مو موقع پر تسمیہ جو نئیر ہائی اسکول میں بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش دھوم دھام سے منایا گیا سبھی طالب علموں نے رنگا رنگ پروگرام پیش کیئے ۔ پروگرام کی شروعات سورہ فاتحہ کی تلاوت سے کی گئی۔ درجہ کی سائرہ اور حمیرہ نے ڈاکٹر رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی، درجہ کی نویا اور شفاہ نے ڈاکٹر سرد پلی رادھا کرشنن کی زندگی پر روشنی ڈالی اور انکے کاموں کو سراہا، درجہ ۵ کی عالیہ اور عائشہ نے بھی ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بارے میں سبھی طالب علموں کو آگاہ کرایا اسکے بعد درجہ کی نبیہ ذکر امنتشا، اقراہ عافیہ نے ایک گانا پیش کیا اور کبھی ٹیچرس کو مبارک بادی آخر میں پرنسپل صاحب نے سبھی کا شکریہ داد کیا اور بھی ٹیچرس کو یوم اساتذہ کی مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر اسکول کی جانب سے بھی ٹیچرس کو تحائف سے نوازا گیا۔

ہفتہ, ستمبر 02, 2023

چندریان-۳
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بالآخر 23؍اگست 2023ء کو چھ بج کر چار منٹ پر ہندوستان کے چاند پر پہونچ جانے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ہمارے سائنس دانوں نے ایک طویل خواب کو سچ کر دکھایا ، امریکہ، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر سافٹ لینڈنگ حاصل کرنے والا ہندوستان چوتھا اور چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا ہندوستان پہلا ملک بن گیاہے’’چندریان-۲ ‘‘اور روس کے ’’لونا ۲۵‘‘کے ناکام ہونے کے بعد چندریان-۳ پوری دنیا کی امیدوں کا مرکز بن گیا تھا، جب تک سلامتی کے ساتھ لینڈ نہیں کیا، ہندوستان کے ہر شہری کی سانسیں رک سی گئی تھیں، لکھنؤ میں خبر ہے کہ گذشتہ روز سلامتی سے لینڈ کرنے کے لئے نماز پڑھ کر دعا بھی مانگی گئی اور اس پر سوشل میڈیا میں اچھی خاصی لے دے مچی اور کئی نے اسے’’ سیاسی نماز‘‘ سے تعبیر کیا، بات اس قدر بڑھی کہ جن صاحب نے اس نماز کا چرچا میڈیا پر کیا تھا، انہوں نے گیارہ بجے شب اس کی تاویل بلکہ تردید کرنی شروع کردی، صورت حال جو بھی ہو واقعہ یہی ہے کہ اس مشن کی کامیابی کے لئے سارے ہندوستان کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق دعائیں مانگ رہے تھے کہ ہمارے ہندوستانی سائنس دانوں کی محنت بار آور ہو۔
14جولائی 2023ء کو آندھرا پردیش واقع شری ہری کوٹہ کے دھون ایپس سنٹر سے چندریان -۳ کو اسرو(ہندوستانی خلائی تحقیقی مرکز) نے خلا میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی تھی، 15جولائی کو زمین سے اوپر لے جانے والے عمل کو پورا کیا گیا اور اس نے 37080کلومیٹر فی سکنڈ کے حساب سے زمین کے مدار میں گھومنا شروع کردیا، یکم اگست کو زمین کے مدار سے نکال کر اسے چاند کے مدار میں پہونچانے میں سائنس دانوں نے کامیابی حاصل کی، 9؍اگست کو وہ تیسرے مرحلہ کو مکمل کرکے پانچ ہزارکلو میٹر والے مرحلہ میں داخل ہوگیا، 16؍اگست کو یہ چاند کے قریب پہونچ گیا اور اس کی دوری صرف سو کلو میٹر رہ گئی، 23؍اگست کو شام کے پونے چھ بجے سے فیصلہ کن مرحلہ شروع ہواجس میں چندریان کی رفتار کو 1680 میٹر فی سکنڈ سے گھٹاکر دو میٹر فی سکنڈ کیا گیا، پھر وہ چاند سے صرف سو میٹر اوپر رہ گیا اور لینڈ روکرم نے اترنے کی مخصوص جگہ کی تلاشی میں کامیابی حاصل کی اور لینڈ میوڈل کے چاروں پاؤں چاند کی سطح پر جم گئے، سافٹ لینڈگ کے بعد لینڈروکرم نے پہلاپیغام ارسال کیاکہ ’’ہم منزل پر پہونچ گئیاور ہندوستانی بھی‘‘ اور کچھ ہی گھنٹے بعد جب چاندپر گردو غبار چھٹاتو ’’روبر پرگان ‘‘نے کام شروع کردیا،چودہ دنوں تک اِسرو کے سائنس دانوںکے ذریعہ بھیجے گئے احکام کے مطابق کام کرے گاروبر میں لگے لیزر کے ذریعہ چاند کی سطح کا مطالعہ کرے گا،وہاں موجود معدنیات اور گہرے گڈھے میں چھپے برف کی تلاش کرے گا،روبر سے نکلنے والی ایک چیز رمھیاہے،یہ چاند کی سطح پر ماحولیات اور زلزلہ سے متعلق تفصیلات جٹائے گاچندریا ن۔۳ کا وزن ۳۹۰۰ کلو گرام ہے،اس کی تیاری میں چھ ارب روپے صرف ہوئے ہیں،اس میں موجود چاند گاڑی کانام اسرو کے بانی وکرم سے منسوب کیا گیا ہے،اس گاڑی کا وزن ۱۵۰۰؍کلو گرام ہے۔
اس پورے پروگرام میں سافٹ لینڈنگ کی بڑی اہمیت تھی، سافٹ لینڈنگ کا مطلب 6000کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار کو کنٹرول کرکے رفتار کو صفر پر لانا ہے، اس دوران لینڈر وکرم خود کو نوے ڈگری پر لاکر چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا، وہ منظر بڑا دلکش تھا جب سائنس دانوں نے چندریان-۳ کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے بعدلینڈنگ کے لئے سیدھا کردیا، یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خلا میں سب سے پہلی اڑان چاند پر پہونچنے کے لئے امریکہ کے اپولو-۱۱ نے بھری تھی، چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے لوگوں میں نیل آرم اسٹرانگ اور ایڈون بج ایلڈرین جونیر تھا، جس نے اپولو-۱۱ کی کامیاب اڑان کے نتیجے میں 21؍جولائی 1969ء کو چاند تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کی تھی، یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جس نے تاریخ رچائی تھی، پھر دوسرے ملکوں کے لئے چاند کے سفر کی راہ ہموار ہوئی۔
ہندوستان کے ذریعہ خلا میں بغیر کسی انسان کے چاند پر پہونچنے والے چندریان نے 22؍اکتوبر 2008ء کو شری ہری کوٹہ کے ستیش دھون سکنڈ پیڈ سے 6.22اڑان بھری تھی، اسے چاند کے مدار میں پہونچنے میں پندرہ دن لگے تھے، 14؍نومبر 2008ء کو صبح آٹھ بجکر آٹھ منٹ پر قطب جنوبی کے قریب شیکلٹن گرسٹر کے قریب وہ ٹکرا گیا، 25منٹ کے اس سفر میں چندریان-اے نے چاند کی متعدد تصویریں لیں اور انہیں خلائی جہاز میں بھیجنے کا کام کیا، اس کا وزن لانچ کے وقت 1130کلو گرام تھا، اس مہم پر کل 386کڑور روپے خرچ ہواتھا،چندریان ۔۱ نے مختصر وقت میں سائنس دانوں کو بتایا کہ چاند کی سطح پر پانی کا مالیکولز موجود ہے،اور وہاں دن کے وقت ایک خاص ماحول رہتا ہے،اس اطلاع نے سائنس دانوں کے اندر وہاں انسانوں کے رہنے اور بسنے کے امکانات و روشن کیا ۔
اس کے بعد بھارت نے چندریان-۲، 22؍جولائی 2019ء کو چاند پر بھیجا، اس مصنوعی خلائی سیارہ کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کاٹونار آبریٹری، لینڈر اور گاڑی سب ہندوستان ہی میں تیار کیا گیا تھا، اس خلائی سفر کا مقصد چاند پر پانی کی تلاش تھا، یہ چندریان لیڈنگ کے دوران اسرو سے رابطہ منقطع ہونے کے سبب ناکام ہوگیاتھا،گو اس کا آر میٹر آج بھی چاند کے مدار میں موجود ہے اور چندریان۔۳ کے آبر میٹر سے اس کا رابطہ قائم ہو گیا ہے،،چندریان ۔۲ کے ناکام ہونے کے بعد ہمارے سائنس دانوں نے چندریان-۳ میں کافی احتیاط برتی اور اس کے نتیجہ میں آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہندوستان چاند کی قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ رب العزت نے آسمان اور زمین جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے انسانوںکی خدمت پر مامور کر رکھا ہے، ہم اس سے کس قدر نفع حاصل کرسکتے ہیں، اپنے علم کے محدود ہونے کی وجہ سے دھیرے دھیرے ہم وہاں تک پہونچ پا رہے، سورۃ الجاثیہ آیت ۱۳ میں اللہ رب العزت نے واضح کردیاہے کہ اس نے آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے تابع کردیا ہے، جو لوگ غور کریںگے وہ اس میں بہت ساری نشانیاں پالیں گے، اس لئے چندریان-۳ کی کامیابی کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، چاند تو پھر بھی برودت لیے ہوئے ہے، اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں تو انسان کا نظام شمسی تک پہونچنا بھی ناممکنات میں سے نہیں ہے، صرف اس کی حرارت کو کنٹرول کرنے والا آلہ خلائی سیارہ میں لگانا ہوگا، انسان نے سورج کی حرارت کو جذب کرنے کا فارمولہ ایجاد کرلیا ہے، سولر لائٹ کا سارا نظام اسی کے تحت ہے تو ایسا کوئی آلہ ایجاد کرنا دشوار نہیں ہے جو سورج کی شعاعوں سے روبوٹ کو متاثر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ اب خلائی سیارہ کاکنٹرول زمین سے ہوتا ہے اور کام سارا روبوٹ ہی کررہے ہیں،باخبر ذرائع کے مطابق اسرو اس پر تیزی سے کام کر رہاہے۔
اس بڑی حصول یابی پر یقینا ہندوستانی خلائی مشن اسرو کے سائنس داں مبارک باد کے مستحق ہیں، چندریان ۔۲ کی ناکامی کے بعد اسرو کے صدر ایس سومناتھ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے،چندریان ۔۳ کی سافٹ لینڈنگ سے انہیںایسی کامیابی ملی ہے کہ پورا ملک ان کی کار کردگی کا معترف اور دنیا ان کو مبارکباد ی دیتے نہیں تھک رہی ہے،شکریہ ایس سومناتھ ،شکریہ اِسرو جنہوں نے ناکامی سے مایوسی کے بجائے حوصلہ مندی کا سبق لیا اور ہندوستان کے لئے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

بدھ, اگست 30, 2023

عصر حاضر میں مدارس میں

عصر حاضر میں مدارس میں تدریس ___غور و فکر کے چند گوشے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)

مدارس اسلامیہ کی خدمات تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بڑی وقیع رہی ہیں ، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر اجرت نہیں ، اجر خداوندی کے حصول کی نیت سے تعلیم و تدریس میں ہمارے اساتذہ نے جو وقت لگا یا اور جو رجال کار تیار کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ان اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا، درس و تدریس کے رموز سیکھے اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام کیا، ان کے فیض یافتہ طلبہ نے علم و فن کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا، اس کی نظیر دیگر علوم و فنون کے لوگوں میں نہیں ملتی ، حالانکہ دیگر علوم و فنون کے اساتذہ نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور تربیت یافتہ اساتذہ سے انہوں نے تعلیم پائی ، مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے تدریسی ٹریننگ اور تربیت کا با قاعدہ اداراتی شکل میں کبھی کوئی نظام نہیں رہا ، ا ن کی تدریسی تربیت “تکرار” کے ذریعہ ماضی میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے ، یہاں “تکرار” جھگڑے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ، اس کو طلبہ کے سامنے اسی طرح دہرانا جیسے استاذ نے اسے پڑھایا، مدارس اسلامیہ میں تکرار کہلاتا ہے۔ طلبہ اس تکرار سے سبق کو سمجھانے کی تربیت پالیتے تھے ، بعض ایسے تکرار کرا نے والے ہوتے تھے جو ہو بہو اساتذہ کی نقل اتارا کرتے تھے۔ان کے تکرار پر استاذ کو اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ غیر حاضر طلبہ کو اس شاگرد کے تکرار میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کر تے تھے،بعد کے دنوں میں بعض مدارس میں معین المدرس کے نام سے فارغ ہونے والے با صلاحیت طلبہ کو دو سال کے لیے رکھا جا نے لگا۔ تاکہ متعلقہ مدرسہ میں اس طرح اساتذہ کی کمی پوری کی جا سکے اور اس طالب علم کو پڑھانے کی عملی مشق ہو جائے۔تھیوری کے طور پر اصول تعلیم مدارس میں پڑھانے کا نظام نہیں رہا،سارا زور عملی تعلیم پر ہوا کرتا تھااور اسے کافی سمجھا جا تا تھا۔
لیکن اب تعلیم و تربیت ایک فن ہے ، اور ہر دم تدریس کے خوب سے خوب تر طریقوں کی تلاش کی جا رہی ہے ، ایسے میں اب مدارس میں تدریس کی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ، اور قدیم طریقہ تدریس کے ساتھ جدید طریقۂ تعلیم کی شمولیت بھی مفید معلوم ہو تی ہے۔اس افادیت کے حصول کے لیے ہمیں از سر نو اپنے تدریسی نظام کا جائزہ لے کر اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنانا چاہئے ، عصری درسگاہوں کی طرح مدارس کے لیے بھی تدریسی تربیتی ادارے ہو نے چاہئے، جب مضمون نگاری ، تحقیق و تنقید ، فقہی بصیرت اور فتویٰ نویسی کی مشق کے لیے بہت سے ادارے کھلے ہوئے ہیں تو تدریس کے فن میں مہارت اور اچھا استاذ بننے کے لیے بھی ادارے کھولنےکی ضرور ت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ اب بہت کچھ ماضی کی بہ نسبت بدل چکا ہے۔
ماضی میں جو طریقہ رہا ہے ، اس میں بغیر مطالعہ کےپڑھانے کو ناجائز سمجھا جا تا تھا، کوئی استاد بغیر مطالعہ کے لڑکے کو پڑھاتا نہیں تھا، اگر اس نے رات مطالعہ نہیں کیا تو صبح میں وہ پیچھے کا آموختہ ہی
 دہرادیتا تھا، یہ بات ہمارے یہاں اب کم نہیں، ختم ہو تی جا رہی ہے۔
مطالعہ کے بعد طریقۂ تدریس میں ایک دوسری اہم چیز ہے جسے ہم لیسن پلان (Lesson Plan)یعنی منصوبۂ تدریس کہتے ہیں ، لیسن پلان کا مطلب ہے کہ آپ کلاس میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے ، آپ یہ طے کریں گے کہ آج بچے کو کتنا ڈوز (Dose) ہمیں دینا ہے، آج کے سبق میں بچے کو ہمیں کیا بتانا ہے اور کیا نہیں بتانا ہے، آپ نے شروحات دیکھ لی، حواشی دیکھ لیا ، بین السطور پڑھ لیا، اب آپ چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ بچوں میں منتقل کر دیں، بچے کا ذہن ابھی اس لائق نہیں ہے کہ وہ آپ کے سارے مطالعے کو برداشت کرے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے، کہ بعض اساتذہ اپنے مطالعہ کی قے کرتے ہیں“قے” کی تعبیر ہے تو قبیح ،لیکن عملاً ہوتا یہی ہے، آپ دیکھیں کہ بچے کو جو کچھ ہم بتا رہے ہیں وہ کتنا فولو( Follow) کر رہا ہے اور کتنا اس کو سمجھ رہا ہے تلخیص پڑھاتے وقت آپ نے مختصر المعانی پوری پڑھادی، اس سے بچے کو فائدہ نہیں پہونچے گا۔
 تدریس میں عملی مشق اور مشاہدات کی بڑی اہمیتِ ہے۔مدارس میں یہ طریقہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی قطب تارہ،صبح صادق،فیئ اصلی، مثل اول ،مثل ثانی ،شفق ابیض ،شفق احمر،صبح صادق ،صبح کاذب وغیرہ کو عملی طور پر طلبہ کو دکھانے،سمجھانے اور مشا ہدہ کرانے کی ضرورت ہے۔بڑے مدرسوں میں بھی یہ طریقہ ان دنوں مفقود ہے۔اسی طرح ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ جب طالب علم کو سامان ڈھونے کے لیے مارکیٹ لے جائیں تو صرف جھولا نہ ڈھلوائیں بلکہ خرید و فروخت کرتے وقت بیوع کی بحثیں آسانی سے عملی مشق کے ذریعہ ہم بچوں کوسمجھا سکتے ہیں۔بایٔع،مشتری،ایجاب،قبول،مبیع،ثمن، قیمت،اقالہ،خیار شرط ،خیار رویت،خیار عیب جیسے مسائل طالب علم جھولا ڈھو تے ڈھو تے سیکھ جائے گا۔ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ 
 تدریس میں پلاننگ کی بھی بڑی اہمیتِ ہے۔ ہمیں پلانگ کرنی چاہیے کہ 45 منٹ کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں ہمیں کتنا پڑھانا ہے اور کیا کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں کتنی دیر بچوں سے سوالات کرنے ہیں؟ کتنی دیر میں عبارتیں صحیح کروا دینی ہیں اور ترجمہ کر کے مطلب کتنا بیان کر دینا ہے، اگر یہ تیاری رات میں ہی آپ نے کر لی تو کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ استاد باہر کھڑا ہے ،گھنٹی لگ گئی ہے اورآپ کا سبق ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔
 بچوں کو مارنے ڈانٹنے کے مزاج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے اسے ڈانٹ کر کہا تجھےکچھ نہیں آتا ،کم بخت اتنا بڑا ہو گیا!آپ کی اس ڈانٹ نے اس کے ذہن کے سارے دروازے بند کر دیے، آپ یہ مت دیکھئے کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا، آپ یہ دیکھیے کہ اس بچے نے کیوں سبق یاد نہیں کیا ؟ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس کی وجہ سے بچہ سبق یاد نہیں کر سکا ، آپ جب اسباب پر غور کریں گے، تو ایسا ہوسکتا ہے کہ رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، ایسا ممکن ہے کہ اس کے باپ آگئے ہوں اور وہ اپنے باپ سے بات کرنے میں لگارہ گیا ہو، ایسا بھی ممکن ہے کہ سبق کو اس نے سمجھا ہی نہ ہو، یااس نے سبق کو سمجھا تو لیکن اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر پا رہا ہے، کچھ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔
 ایک آدمی نورانی قاعدہ پڑھارہا ہے، نورانی قاعدہ میں بچے نے قل لِلّٰہ صحیح نہیں پڑھا، اب استاد نے اسے دو طمانچہ مارا اور کہا کہ بھاگ یہاں سے، کمبخت تم کو کچھ نہیں آتا ، اس صورت میں یا تو کل سے وہ بچہ نہیں آئے گا ، یا آئے گا تو کسی سے رٹوا کر آئے گا ، جس کی بنا پر اس کو آئے گا کچھ نہیں، رٹّو ہو کر رہ جائے گا، بچے کی اس غلطی پر آپ کا ذہن فورا ًکام کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ آپ جب اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تشدید کے عمل کو نہیں جان رہا ہے، وہ پورے لام کو پہچا نتا ہے، آدھے لام کو نہیں پہچانتا ہے، زیر زبر میں غلطی کر رہا ہے، اب آپ نے اس کو پکڑ لیا کہ یہ بچہ فلاں جگہ غلطی کر رہا ہے، پانچ منٹ اس کمی کو دور کرنے کے لئے الگ سے کلاس کے بعد آپ نے اس بچہ کو دے دیا تو دوسرے دن سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ شریک ہو جائے گا، سبق بھی اس کو یاد ہوگا، وہ شوق سے آئے گا بھی ، پڑھے گا بھی۔اور اگر آپ نے اس کو ڈانٹ کے بھگا دیا تو رٹ کر کے آئے گا ، یا آنا چھوڑ دیگا، پڑھائی چھوڑ دیگا۔ 
 اسی طرح آپ حساب پڑھا رہے ہیں، حساب پڑھانے میں 25 سے45 کو آپ نے ضرب کرنے کو کہا ، بچے نے ضرب میں غلطی کر دی، آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ اس کو مار کے بھگا دیجئے ، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ یہ دیکھئے کہ اس بچے نے غلطی کہاں پر کی ، ایسا ممکن ہے کہ اس کا پہاڑا صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ گنتی اس کی صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ عدد لکھنے میں اس نے غلطی کر دی، ایسا ممکن ہے کہ عدد کی قیمت کا اس کو پتہ نہیں ہے۔ اس طریقے کو جب آپ اپنا لیں گے، بچہ شوق سے پڑھنے آئے گا اور خوش خوش درسگاہ میں شریک ہوگا۔ 
 خواجہ غلام السیدین نے زبر دست بات لکھی ہے کہ اچھے استاد کا کمال ہے کہ وہ اپنے شعور و آگہی میں بچے کو شریک کر لے ، آپ نے جو کچھ پڑھا ہے آپ کے پاس جو کچھ سرمایہ ہے یہ آپ کا کمال نہیں ہے، یہ آپ کے استاد کا کمال ہے کہ انہوں نے اس علم کو آپ کے اندر منتقل کر دیا
جو استاد کے پاس تھا،اب اگر ہماری صلاحیت ہمارے بچوں میں ، ہمارے طلبہ میں نہیں منتقل ہو رہی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اچھے استاد نہیں ہیں ، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شعور ، اپنی آگہی اور اپنے علم کو ٹرانسفر Transfer کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور کبھی طلبہ سےمایوس نہ ہو۔
یقینا بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں بہت پریشانی ہوتی ہے ، وہ کچھ کر کےہی نہیں دیتے، یہاں پر ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ساری دنیا کسی سے مایوس ہو جاتی ہے ،تب بھی دو ذات ایسی ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتی ، ایک اس کی ماں اور دوسرا اچھا استاد، اس لیے اگر اچھا استاذ بننا ہے تو طلبہ سے مایوس مت ہوئیے، طریقہ تدریس میں یکسانیت لائیے، اگر طریقہ تدریس میں یکسانیت آئے گی، تو نصاب میں یکسانیت کا فائدہ زیادہ مؤثر انداز میں سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ 
اساتذہ کو کبھی کبھی بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طلبہ کی شرار تیں بھی سہنی پڑتی ہیں، مدارس میں تو کم ہوتا ہے اسکول اور کالجیز میں بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن بہت منفی باتوں سے مثبت باتوں کو اخذ کر لینا یہ استاذ کا بڑا کام ہے۔ ایک استاد کو کلاس روم میں آنا تھا، پہلا دن تھا لڑکوں نے سوچا کہ آج اگر ہم ان پر حاوی ہو گئے تو پورے سال ہم ان پر حاوی رہیں گے، اور اگر آج استاد حاوی ہو گئے تو معاملہ ہمارا دب جائے گا ،لڑکوں نے سوچا کہ آج پہلے ہی دن ان کو ایسا سبق دینا ہے کہ یہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہیں، سمجھ لیں کہ یہ لڑ کے بہت شریر ہیں، طلبہ نے ایک ترکیب نکالی کہ کلاس کے گیٹ پر تیل گرادیں گے کہ آتے ہی ان کا پاؤں پھسلے اور گریں ، ہم لوگ خوب ہنسیں گے، استاذڈیمولائز ہو جائیں گے ، نروس ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا، استاد کلاس روم میں آرہے تھے، اس بیچارے کو کیا پتہ کہ کیا قیامت آنے والی ہے ، جیسے ہی داخل ہوئے جوتا پھسلا اور دھڑام سے نیچے، استاد فورا کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ پیارے بچو! آج کا پہلا سبق یہ ہے کہ زندگی میں گرنے کے بڑے مواقع آتے ہیں ،عقلمند اور ہوشیار وہ ہے، جو گر کر فوراً سنبھل جائے ،تم نے دیکھا، میں کس طرح سنبھل گیا، آپ سوچئے کتنی منفی بات ہے، ہم آپ ہوتے تو پہلے تحقیق شروع ہوتی کہ کس نے ایسا کیا اس کے بعد چھڑی آتی اور پتہ نہیں کتنی کر چیاں بدن پر توڑ دی جاتیں، لیکن اس استاد نے انتہائی خراب بات کو ایسا مثبت رنگ دیا کہ لڑکوں کو ایک سبق مل گیا۔ آپ کلاس روم میں جا رہے ہیں لڑ کا شور کر رہا ہے ، آپ کی طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ سبق ہی نہیں چل رہا ہے، آپ اس کو اس طرح خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیں کہ بچہ محسوس کرنے لگے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیئے عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کے اساتذہ میں فرق ہے ، مدارس کے اساتذہ دراصل کا رنبوت میں لگے ہوئے ہیں اور وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں دوسرے اساتذہ سے کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، تدریسی زندگی میں یہ احساس ہمارے اندر وہ سب کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی اخلاق حمیدہ سے مزین اور ہمارے طلبہ تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل سے گذر کر علوم وفنون میں مہارت اور نفس کو رذائل سے پاک کر کے اچھا مؤمن اور اچھا انسان بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مدارس دینیہ کو انسانیت سازی کا کارخانہ قرار دیا ہے، جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں اور جس سے پوری دنیا میں اخلاق و کردار کی پاکیزگی، قول وعمل میں تازگی اور ظلم وستم کے بازار میں محبت واخوت ، مروت و ہمدردی کی نورانی چادر تنی ہوتی ہے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، اس کام کے لئے اپنے کو تپانا اور کئی دفعہ مٹانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے اندر مختلف ذہنی سطح کے طلبہ کے مابین اپنے علم کوٹرانسفر کرنے کی اچھی صلاحیت ہر حال میں موجود ہو۔ 
یہ صلاحیت کبھی تو وہبی ہوتی ہے اور کبھی کسبی ، وہبی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ خدا داد بلاکسب ہوتی ہیں، لیکن بیشتر حالات میں ہمارے اندر صلاحیت خدا کے فضل اور محنت سے پیدا ہوتی ہے، اسلئے ”من جد وجد“ کہا گیا ہے۔یہ محنت اور جد جہد کتابوں کے عمیق مطالعے اور اساتذہ کے تجربات سے بڑی حد تک فائد ہ اٹھانے میں مضمر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت، تجربات سے استفادہ اور تدریس کے طریقے کار پر اکابر کی مفید تحریروں کا مطالعہ بھی اساتذہ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کاغذ پر مختلف نقوش بنانے اور سب کچھ سکھانے کی ذمہ داری گھر ، ماحول اور خاندان کی ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو گھر ماحول، اور خاندان، بچہ کا پہلا اسکول ہوتا ہے ، اور اس میں کارفرما عوامل اس کے پہلے استاد، پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے فطری طور پر بہت کچھ جاننے کی خواہش ہوتی ہے، اور بہت کچھ سکھانا گھر ، ماحول اور خاندان کے بس کا نہیں ہوتا، اس لئے اسے کسی ادارہ کا سہارا لینا ہوتا ہے ادارہ میں جن کے ذریعہ وہ علم حاصل کرتا اور سیکھتا ہے اسے اصطلاح میں استاد کہتے ہیں۔استاد کے کام کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے، اس اعتبار سے اس کا کام آسان ہوتا ہے کہ اس کے اوقات عام طور پر مختصر ہوتے ہیں ، دوسرے کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح اسے سال کے اڑتالیس یا پچاس ہفتے صبح سے شام تک کام میں جٹار ہنا نہیں پڑتا، لیکن دوسری طرف اس کا کام دشوار اس طرح ہوتا ہے کہ اسے ہر معیار کے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کے لئے اسے بڑے دشور ار مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ استاذ کو اس جان گسل مراحل سے گزرنے میں جو چیز اس کی مدد کرتی ہے وہ ہےدوسروں کو کچھ سکھانے کا احساس، طلبہ جب اساتذہ کے پاس آتے ہیں تو انکی دماغی نشونما ادھوری ، عام معلومات ناقص ، اور فکری صلاحیتیں نیم بیدار ہوتی ہیں ؛استاد اپنی معقول تدریس کے ذریعہ ان طلبہ کو نہ صرف نئے نئے حقائق سے روشناش کراتا ہے ، بلکہ ان کی سادہ لوحی کو شعور کی پختگی میں بدلتا ہے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، استاد کو یہ سب کر کے کچھ ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے ، جیسا کسی مصور کو رنگوں کی مدد سے سادہ کینوس پر ایک اچھوتی تصویر بنا کر ہوتا ہے یا ایک طبیب کو اپنی بہترین تشخیص کی بدولت یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیر علاج مریض کی ڈوبتی ہوئی نبض میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ظاہر ہے یہ مسرت ہر ایک استاد کے حصہ میں نہیں آسکتی ، اس مسرت کے حصول کے خاطر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح جانتا ہو، اس لئے یہ کہنا بجا ہی ہے کہ سیکھنا اور سکھانا لازم و ملزوم ہیں، ہر اچھا استاد ہر سال ہر مہینے ؛ بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور سیکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہر وقت ندرت اور جدت کا سرچشمہ نہیں بن سکتے لیکن ایک استاد کو اپنے مضامین میں اتنا باذوق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ ان پر طلبہ سے دلچسپی کے ساتھ گفتگو کر سکے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو طلبہ ذوق وشوق کے باوجود اس مضمون میں ترقی نہیں کر سکیں گے اس لئے ایک استاذ کو اپنے مضمون کی دلچسپی اور قدر و قیمت میں وہی یقین رکھنا چاہئے جو ایک ڈاکٹر تندرستی میں رکھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ استاذ مضامین کا انتخاب بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کرے، اور تعلیمی پیشہ اختیار کرنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے مضمون منتخب کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسے طلبہ سے ایک قسم کی رغبت ہو وہ طلبہ کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھے ، اس کے سوالوں سے نہ گھبرائے ، بلکہ ان سے محبت کرے، خود کو انکا مد مقابل نہ سمجھے، کوئی بات اس انداز میں نہ کہے جو کسی کو بری لگے ، اس طرح استاذ بڑی حد تک اداروں میں جاری طلبہ کی سرکشانہ روش سے محفوظ رہ سکے گا۔اچھے استاد کو ایک دلچسپ انسان اور بذلہ سنج ہونا چاہئے تعلیم اس طرح دینی چاہئےکہ رٹی رٹائی باتوں کے دہرانے کے بجائے اپنی بصیرت افروز باتوں کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ،وہ اگر سوالات کریں تو انکو معقول جواب دیا جائے تا کہ ان کے ذہنوں میں کوئی نئی بات سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ استاد کا حافظہ قوی ہونا چاہئے ، کمزور حافظہ کا استاد مضحکہ خیز بھی ہوتا ہے، اور خطرناک بھی، دوسری چیز قوت ارادی ہے، اچھے استاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ارادے بالکل اٹل ہوں۔تعلیم کے لئے استاذ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اول یہ کہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح تیار کرے، دوم یہ کہ طلبہ کے سامنے اچھی طرح بیان کر سکے اور انہیں ذہن نشیں کرا سکے سوم یہ کہ یہ اطمینان کرلے کہ جو اس نے پڑھایا ہے اسے طلبہ نے اچھی طرح یاد کر لیا ہے۔ استاد کو اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایک ہمدرد دوست اور مشکلات کودور کرنے والا ساتھی ہے اور مدرسہ کی زندگی طلبہ اور استاد کے مابین مہرومحبت اور شرکت عمل کی زندگی ہے۔یہ سب چیزیں ایک استاذ کے اندر موجود ہونی چاہئیں ، لیکن صرف نصاب کی کتابوں سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق عملی تربیت سے ہے ، اس لیے ایک ایسے مستقل نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ، جو مدارس میں تدریس کے لیے تیار کی جارہی اساتذہ کی اگلی کھیپ کو ان بنیادوں پر تیار کر سکے۔

پیر, اگست 28, 2023

ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

عربوں کی قیمت اسرائیل کی نظر میں!
Urduduniyanews72 
 اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کا کہنا ہےکہ ؛ "عربوں کی زندگی سے زیادہ اہم یہودیوں کا حق ہے،میرا جینے کا حق فلسطینیوں کی زندگی سے پہلے آتا ہے، یہ میرا حق ہے،میری بیوی کا حق ہے،میرے بچوں کا یہ حق ہے"
مذکورہ بیان سے عربوں اور مسلمانوں کےخون کی اسرائیلی حکومت کی نظر میں کیا قیمت ہے ؟یہ بات واضح ہوجاتی ہے،اورساتھ ہی عربوں کےقتل عام کا ایک جواز بھی پیش کیا گیا ہے، یہ محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ ایک پروگرام ہےجس پر کام شروع ہے۔آج اسی لئے اسرائیلی حکومت اپنے عام شہریوں کو بھی مسلح کررہی ہے، اب صرف اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ غیر قانونی یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں بھی  مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیاہے،ابھی تازہ خبر کے مطابق فلسطینی کسانوں پرحملے یہودی آبادکاروں کے ذریعہ ہی کئے گئے ہیں، ماہی گیروں پر بلاجواز گولیاں برسائی گئی ہیں،اس وقت قابض اسرائیلی فوجی اور عام صہیونی شہری شانہ بشانہ عرب مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، یہ نہایت تشویشناک بات ہے، ابھی چند مہینوں میں ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،گزشتہ جمعہ کو نماز کے لئے آنے والے نہتے نمازیوں پر بھی بیت المقدس میں حملہ ہوا ہے،  یہ آئےدن اسرائیلی حکومت اور قوم یہود کا شیوہ بن گیا ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر بھی حملہ سے دریغ نہیں کیا جاتا ہے،یہ بہت ہی شرمناک ہے۔
کچھ قانونی ماہرین آواز اٹھارہے ہیں، اور یہ کہ رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا یہ رویہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔مگران کی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے،صحیح بات یہ ہے کہ کسی قانون کی یہودیوں کے نزدیک ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔
 ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے دریافت فرمایا کہ تمہاری شریعت میں زنا کی سزا صرف درہ مارنا ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ سنگسار کرنا ہے لیکن ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی اور جب کوئی شریف اس جرم میں پکڑا جاتا تو ہم اس کو چھوڑ دیتے تھے۔البتہ عام آدمیوں کو یہ سزا دیتے تھے، بالآخر یہ قرار پایا کہ سنگسار کرنے کی سزا درہ سے بدل دی جائے،(مسلم) اس طرح انہوں نے قانون شریعت  کا بھی مذاق بنایاہے۔
نبی وقت حضرت موسی علیہ السلام نے ایک موقع پرجب  بنی اسرائیل سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم فرمایا،،تو وہ کہنے لگے؛تم مع اپنے خدا کے جاؤ اور لڑو،ہم یہاں بیٹھے رہیں گے، (مائدہ ) یہ کہ کر یہودیوں نےاپنے نبی اور خدا کے حکم کو جھٹلایا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا ہے،
اس شتر بے مہار قوم کے نزدیک بین الاقوامی قانون کی کیا حیثیت ہے؟ مذکورہ واقعات سے  خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔نافرمانی اور اس قوم کی سرشت میں داخل ہے، قانون شکنی ان کی فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے،  انہی وجوہات کی بنا پر خدا کے غضب اور لعنت کےیہ سزاوار ہوئے ہیں، جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں، اور جو فضیلتیں ان کو حاصل تھیں وہ چھین لی گئی ہیں۔ نبیوں کا سلسلہ جو قوم بنی اسرائیل میں تھا، وہ بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوگیا اور خدا کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں، اہل عرب یہ دراصل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد واحفاد ہیں، یہی چیز یہود کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا سامان ہے،اور عرب دشمنی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودیوں کا یہ معمول تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو بجائے" السلام علیك" کے "السام علیك" کہتے تھے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم کو موت آئے،ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی موجود تھیں، انہوں نے سنا تو ان کو سخت غصہ آیااور بے اختیار بول اٹھیں کہ کم بختو! تم کو موت آئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نرمی سے کام لو،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا، آپ نے کچھ سنا بھی کہ لوگوں نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ ہاں، لیکن اتنا کافی ہے کہ میں علیك کردیاہے (بخاری )
آج عرب ممالک ان صہیونیوں سے اور قابض اسرائیلی حکومت سے دوستی گانٹھنے میں لگے ہیں، ٹرمپ حکومت کے خاتمے کے بعد اس عنوان پر خاموشی ضرور ہے،مگر اپنے وقتی اور معاشی مفاد کو دیکھتے ہوئے اسرائیل سےاب بھی کچھ ہاتھ ملنے کو بے قرارہیں،آج یہ بات مذکورہ اسرائیلی وزیراتمار بن گویر کے بیان واضح ہوگیا ہے کہ ان کی نظر میں اپنے مفاد کے لئے عربوں کا خون حلال ہے،عرب ممالک کے لئے ہوش کے ناخن لینے کا موجودہ وقت تقاضہ کرتاہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

اتوار, اگست 27, 2023

شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی


شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ اور مشاہیرعلماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال
اردودنیانیوز۷۲ 
 مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی
   آج ۲۵ اگست ممبئی، شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بلا شبہ ایک پر آشوب دور اور زوال پذیر عہد کی پیداوار ہیں لیکن ان کے لو ح و قلم و سوچ و فکر پر زوال و انحطاط کے اثرات محسوس نہیں ہو تے ہیں انہوں نے عدل اجتماعی کے قیام اور تکثیری معاشرہ میں مذہبی رواداری کے فروغ و ترویج،مسلکی وسماجی اختلافات ونزاعات اور ملی فرقہ بندیوںکو ختم کرانے پر بڑا زور دیاہے اور وہ اتحاد امت کے استعارہ وعلامت تھے اور ہر مکتبہ فکر میں یکساں طور پر مقبول تھے انہوں نے اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے امت کے سامنے پیش کیا ہے ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام انجمن اسلام ممبئی میں منعقد فکر ولی اللٰہی پر ایک باوقار مذاکرہ میں کیا ہے جس کی صدارت مشہور ماہر تعلیم اور متعدد قومی وملی اداروں کے سربراہ وروح رواں ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نے کی ہے ،جبکہ نظامت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئےمعیشت اکیڈمی کے ڈائرکٹر دانش ریا ض نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی وتحقیقی کاموں کا بھر پور تعارف کرایا اور اسے ایک ملی تحریک و دینی دعوت قرار دیا ہے۔
مر کزی جمعیت اہل حدیث ہندکے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہاکہ مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کی جانب سے ۴۲سے زیادہ قرآن و حدیث ،تاریخ و ثقا فت ،اوقاف و آثار اور مغل فرامین کے مو ضوعات پر معرکۃ الآراء کتابیں شائع کر نے اور در جنو ں قومی وبین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کرانےکے با وجود ایک عرصہ دراز تک شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے موجودہ دفتر کو چھپا ئے رکھا اور جب حال میں میں نے اسے دیکھا اور مفتی صاحب نے بڑی مشکل سے مجھے دفتر دیکھ لایا تو حیرت و استعجاب کی انتہا ہوگئی کہ ایک چھو ٹی مسجد کے ایک کو نے میں واقع ایک ڈیڑھ کمرے میں اور وہ بھی تن تنہا اتنا بڑا تاریخ ساز اور عہد ساز کا م کیا جاتا رہاہے، مفتی صا حب کی کتاب ’’دہلی کی تاریخی مساجد‘‘ اور’’پنجاب وہریانہ کی تاریخی مساجد ‘‘،دہلی اور پنجاب کی مختلف سرکاری عدالتوںمیںبطور ثبوت وشہادت پیش ہوتی رہی ہیںاور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی بطور دستاویز ودلائل پیش ہوتی رہی رہیںگی، انکی کتاب ’’ہندومندر اوراورنگزیب عالم گیر کے فرامین‘‘ تو موجودہ دور تعصب وتنگ نظری میں غلط سوچ کو بدلنے والی اور تاریخ و ثقافت اور مذہبی رواداری وروایت کو صحیح روپ دینے والی نادر و نایاب کتاب ہے۔
جناب مشتاق انتولے نائب صدر انجمن اسلام نے بھی انتو لے مر حوم کی طرح والہانہ انداز میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار کے حوا لے سے فکر ولی اللٰہی پر روشنی ڈالی اور انسٹی ٹیوٹ کے کاموں کو سراہا ، ریاض یونیورسٹی سعودی عربیہ کے استا د حدیث ڈاکٹر عبدالرحمٰن الفریوائی نے حضرت شاہ صاحب کی شخصیت اور انکی وسیع خدمات کا ذکر کیا اور مولانا قاسمی کے کاموں کا بھی اعتراف کیا دارالعلوم ندوۃ العلما ءلکھنو کے فرزند ارجمند اور مرد دردمند مولانا ابو ظفر حسان ندوی نے خانوادہ ولی اللٰہی کے مجاہدانہ کار ناموں اورانکے زہدو ورع اور تقوی و طہارت کا ذکر اپنی نم آنکھوں سے کیا اور اہل محفل کو اشکبار اورنمناک کیا، علماء کونسل مہاراشٹر ا کے صدر مولانا محمود دریا آبادی نے کہا کہ مفتی عطاءالر حمٰن قاسمی اپنی ذات میں دراصل ایک انجمن اور ایک تحریک ہیں اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے ذریعہ تحریک ولی اللٰہی کو آگے بڑہارہےہیںاور سماج میں فکری وعلمی اور تعلیمی بیداری پیدا کر نے کی جد جہد کر رہے ہیں، آخر میں صدر اجلاس ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام ممبئی نےاپنےکلیدی خطبہء صدارت میں کہاکہ آج حضرت شاہ صاحب کی شخصیت کے تعلق سے میر ے لیے کچھ ایسے گو شے سامنے آئے ہیں جن سے میں یقینا اب تک لاعلم تھا اور انکی تعلیمات اور افکار ونظریات کی اشا عت وقت کی اہم ضرورت اور عہد کا تقاضاہے ڈاکٹر صا حب اپنی غیر معمولی مصروفیات اور انجمن بورڈ کی متعدد اہم میٹنگوں کے باوجو د اول تا آخر تقریب میں موجود رہے اور اپنے خطاب میں بڑے فکر انگیز اور حو صلہ افزا کلمات کہا اور انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے کہ اعلان کیا کہ انجمن اسلام اب تک چندہ لیتی رہی ہے کبھی کسی کو چندہ نہیں دیا ہے لیکن اس موقع پر انسٹی ٹیو ٹ کے علمی کاموں کی اہمیت کے پیش نظر دولاکھ روپئے کا اعلان کرتا ہوں اورنومبر میں بڑے پیمانے پر انجمن اسلام اور جامع مسجد میں پروگرام کئے جائیں گے اور مفتی اشفاق قاضی اور مولانا محموددریا آبادی سے مدد لی جائے گی جو بڑے با آثر
لوگ ہیں اسکےبعد عروس البلاد ممبئی کے صا حب نظر مفتی اور فقیہ مولانا مفتی عزیز الرحمٰن فتحپوری نے اپنے جامع بیان میں کہاکہ مولانا مفتی عطاءالرحمٰن قاسمی نے مجھےاسوقت یاد کیاہے جبکہ سارے اکابر دنیا سےجاچکے ہیں اور آپ کی پرسوز دعا پر اس تقریب سعید کا اختتام ہوا اور مولانا منظر احسن سلفی نے مہمانوں کے لیے کلمات تشکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور یہ مذاکرہ انجمن اسلام کے تعاون واشتراک سے ہوا تھا اور انجمن کی جانب سے بڑا پر تکلف عصرانہ کانظم کیا گیاتھا اور عصرانہ میں مشتاق انتولے صاحب مو جود تھے، جس کے لئے انسٹی ٹیوٹ انکا بھی شکر گزار ہے، اس مذاکرہ کے قابل شرکاء میں پروفیسر محمد طاہر علیگ سابق پرنسپل انجمن اسلام کا لج، پروفیسر شکیل الرحمٰن، عظمی ناہید،سلمان غازی، مولانا مستقیم مکی ، مفتی اشفاق قاضی،حافظ اقبال چونے والا،سلمان ملا،اختر رنگوں والا، فواد،اے ایم پاٹکا، فرید شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین سعود ملک جاوید عالم شیج، محمود بن منظر سلفی،مفتی رشید اسعد ندوی اور مولانا محمود فیضی وغیرہ تھے۔

جمعرات, اگست 24, 2023

موت کے بعد کی زندگی __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

موت کے بعد کی زندگی __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)
انسانی ارواح کا پہلا وجود ”عہد الست“ میں ہوا، جب اللہ نے تمام قیامت تک آنے والی روحوں کوحضرت آدم علیہ السلام کے پشت سے وجود بخشا اور اس سے ایک سوال کیا کہ ’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ساری روحوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ہمارے رب ہیں، سورہ اعراف کی آیت نمبر 172 میں اللہ رب العزت نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ شہادت اس لیے لیا تاکہ قیامت میں یہ نہ کہنے لگوکہ ہمیں تو اس کی خبرہی نہیں تھی، ”عہد الست“ کے بعد یہ پھر لوٹا دی گئیں، چنانچہ ان روحوں کو حسب خاندان، حسب قبیلے، حسب مذہب جن میں زن وشوہر کے تعلق سے آنا تھا، وہ روحیں اسی ترتیب سے دنیا میں آتی ہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی، یہ ارواح جب دنیا میں جسم کے ساتھ وجود پذیر ہوئیں تو ہر دور میں اللہ رب العزت نے اس عہد کو یاد کرانے کے لیے کہ آپ ہمارے رب ہیں، انبیاء ورسل کو بھیجا، بعض کو کتابیں دیں اور بعض کو صحائف دیے، تاکہ انسانوں پر حجت تام ہو، سب سے آخر میں آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قیامت تک کے لیے اس سلسلہ کو ختم کردیا، کتاب ہدایت قرآن کریم کی شکل میں دیا اور اسے رہتی دنیا تک کے لئے دستور حیات بنا دیا، انبیاء ورسل کے سلسلے کے ختم ہونے کے بعد علماء کو وارث قرار دیا تاکہ وہ انسانوں کو عہد الست کی یاد تازہ کراتے رہیں اور لوگ اس ڈگر پر قائم رہیں جو اللہ ورسول کے حکم وہدایت کے مطابق ہے، کوئی اس آزمائش میں پورا اترتا ہے اور کوئی ناکام ہوجاتا ہے، ہر ایک کی مدت حیات پوری ہوجاتی ہے اور موت کا پیالہ پی کر انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، جو لوگ نیکوکار ہیں، ان کے لیے موت اللہ کا تحفہ ہے، جو فرشتے ایمان والوں کے پاس لے کر آتے ہیں اور اطمینان وسکون سے اس کی روح کو لے کر جاتے ہیں، وہ چوں کہ پوری زندگی رب کو خوش کرنے کے لیے ہی کام کرتا رہا ہے، اس لیے اپنے رب کی طرف لوٹنے پر خوشی ومسرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں کبھی مرئی اور کبھی غیرمرئی انداز میں پھیل جاتی ہیں، سامنے والا کبھی دیکھ کر اس کا ادراک کرلیتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرپاتا ہے، اسی بات کو اقبال نے نشان مرد مومن قرار دیا ہے کہ ”چوں مرگ آید تبسم برلب اوست“ جو انسان بدعملی، بے عملی میں مبتلا ہوتا ہے اور اللہ کی مرضی کے خلاف زندگی گذارتا ہے اس کے لیے یہ مرحلہ بڑا پریشان کن ہوتا ہے اور موت کے وقت ہی سے اس پر عذاب کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اپنے خالی جسم کو چھوڑنے اور اس کائنات سے دور جانے کو تیار نہیں ہوتا، بالآخر موت اپنا کام کر جاتی ہے اور اس کی روح بدبو دار کپڑے میں لپیٹ کر سجین کے لیے روانہ کردی جاتی ہے۔
پھر بے جان جسم کو قبر میں منتقل کیے جانے کے بعد جب لوگ دفن کرکے لوٹتے ہیں تو منکر نکیر سوالات کے لئے قبر میں آتے ہیں،اس وقت روح اور جسم کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کو سمجھنے سے ہماری عقل قاصر ہے، اگر انسان نیک ہے، منکر نکیر کے سوال کا جواب بآسانی دے دیا تو جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور وہ قبر میں سکون محسوس کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں سے مستفیض ہوتا ہے اور اگر گناہگار ہے تو فرشتوں کے جوابات صحیح دینے پر قادر نہیں ہوتا اور فرشتے گرز سے خبر لیتے ہیں، قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ ایک طرف کی پسلی دوسری طرف داخل ہوجاتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا، نیکوں کو فرشتے کہتے ہیں ”نم کنومۃ العروس“ اطمینان سے دلہن کی طرح سوجاؤ، تمہارا رب تم سے راضی ہے اور بدبختوں پر مختلف قسم کے عذاب ان کے گناہوں کے اعتبار سے قبر میں ہی مسلط کردیے جاتے ہیں اور جہنم کی کھڑکی سے آنے والی گرم ہوائیں جسم کوجھلستی رہتی ہیں اور روح وجسم کے نامعلوم رشتوں کے ساتھ وہ عذاب کی شدت المناکی اور کرب کو جھیلتا رہتا ہے، قبر اور قیامت کے حساب کتاب تک کے فاصلے کو برزخ کہتے ہیں، برزخی معاملات کے لیے قبر کا ہونا ضروری نہیں ہے، اصل معاملہ تو روح کا ہے اور جسم فنا ہونے کے باوجود روح فنا نہیں ہوتی، اس لیے یہ سوال بے محل ہوگا کہ جن کو قبر نہیں ملتی ان کا کیا ہوگا؟ سوال وجواب ان سے بھی ہوگا اور کیا بعید ہے کہ اللہ رب العزت قبر نہ ملنے کے باوجود مردہ کے جسم سے روح کا رشتہ قائم کرکے سوال وجواب کے مراحل سے گذاردے اور اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے، لیکن کفن اور قبر کا ملنا بھی بڑی بات ہے، اِسی لئے ان دنوں بعض بزرگوں کو یہ دعا کرتے بھی پایا کہ اے اللہ! کفن اور قبر نصیب فرما۔
عالم برزخ میں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، کیوں کہ اللہ نے اس کا علم اپنے پاس محفوظ رکھا ہے، بہرکیف اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو یہ دنیا تہس نہس ہوجائے گی، آسمان روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے، زمین پھٹ جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے سب باہر پھینک دے گی، ایک زمانہ تک یہی حالت رہے گی، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو مردے قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور سب میدان حشر میں جمع ہوں گے، سورج سوا نیزے پر ہوگا، گرمی کی شدت وحرارت انسانوں کو پسینے میں شرابور کردے گی اور ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں ڈوبا ہواہوگا، ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا،ا لعطش العطش یعنی پیاس، پیاس کی آواز گونج رہی ہوگی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر ملیں گے اور جو لوگ نیکو کار ہوں گے ان کی پیاس بجھائیں گے، اور جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی ہوگی اس کو دور بھگائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں حساب وکتاب شروع کرانے کی سفارش کریں گے، سجدے میں جائیں گے، گڑگڑائیں گے، التجا کریں گے، بالآخر میزان قائم ہوگا، اعمال تولے جائیں گے، پل صراط سے گذارا جائے گا، جن کا نتیجہ اچھا ہوگا، ان کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کا نتیجہ بُرا ہوگا انہیں نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، وہ خواہش کرے گا کہ کاش ہمیں نامہئ اعمال نہ تھمایا جاتا، یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیاوی زندگی میں مگن تھے، ان کو حساب کتاب کا یقین نہیں تھا، وہ مال ودولت، جاہ ومنصب کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے، آج کے دن انہیں کچھ کام نہیں آئے گا، اس دن بھائی بھائی سے، ماں باپ اور بیوی شوہر سب ایک دوسرے بھاگتے پھریں گے، ہر ایک پر نفسانفسی کا عالم طاری ہوگا، نامہئ اعمال کے اعتبار سے چہروں پر مسرت اور مایوسی پسری ہوگی، ان مراحل سے گذرنے کے بعد جنت اور جہنم میں دخول ہوگا، ایمان والے گناہگار کُٹائی اور گناہوں کی کثافت کی جہنم کی بھٹی میں دھلائی کے بعد بالآخر جنت میں داخل کیے جائین گے اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دیا جائے گا، پھر اللہ رب العزت ان لوگوں کا جن کے ایمان کا علم صرف ذات اقدس کو ہوگا کثیر تعداد میں اپنی قدرت کاملہ سے جنت میں داخل کر دیں گے، پھر جنتی ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں موت کو بھی موت آجائے گی۔
حیات ما بعد الموت کا یہ خلاصہ ہے، جو قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اہل علم نے ضخیم کتابیں اس پر تصنیف کی ہیں، سب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے، اور مال ودولت عز وجاہ کے چکر میں آخرت کو نہیں بھولنا چاہیے، یہ فکر آخرت ہی ہماری زندگی کو درست راستے پر ڈالتی ہے او رجزا وسزا کا تصور ہی خوف خدا کی شاہ کلید ہے، اسی لیے ایمانیات میں یوم حشر ونشر اور قیامت کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ہماری زندگی بیلنس، معتدل اور متوازن رہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ تکاثر میں اس کا ذکر کیا ہے، جس خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو لالچ اور حرص نے غافل کر رکھا ہے، یہاں تک کہ وہ قبر کو جاپہونچتا ہے، وہ جان لے گا اور یقینا جان لے گا، وہ ضرور دوزخ کو دیکھے گا اور اس ے نعمتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر انسان جس نے تھوڑی نیکی کی ہوگی، اسے بھی دیکھ لے گا اور جس نے تھوڑی بھی بُرائی کی ہوگی، اسے بھی دیکھے گا، اور حسرت سے کہے گا کہ یہ کیسا رجسٹر ہے، جس نے چھوٹے بڑے ہر اعمال کا لیکھا جوکھا رکھا ہے۔
 اللہ تعالیٰ ہم سب کی بُرے کاموں سے حفاظت فرمائے اور اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے تاکہ ہمارا حساب وکتاب آسان ہو اور ہم جنت کی ابدی آرام گاہ کے لائق ہو سکیں۔ آمین یا رب العالمین

چند ریان کےکامیاب سفر پرایک ںظم

چند ریان کےکامیاب سفر پرایک ںظم
اردودنیانیوز۷۲ 
            ایک سوال۔۔۔؟ 

  انس مسرورانصاری

 بہت ا نچے ہو تم انچے نگر کی با ت کر تے ہو
 زمیں پرہو مگر شمس و قمرکی بات کر تے ہو
 کمند یں تم نے پھینکی ہیں بہت بام ثریّا  پر
 نظر کی حدسےبھی آ گےسفر کی بات کرتےہو

فلک کوتکنےوالو،ہے زمیں کی بھی خبر تم کو
 سسکتی آ د میت کیا نہیں آ تی  نظر  تم  کو
چلے ہو ا ک  نئی د نیا بسا نےآ سما نو ں میں
مبارک ہو خلوص دل سے یہ عز م سفر تم کو

 نو ا ہےتلخ میر ی، گفت گو ہےز ہرمیں ڈ و بی
مگردانشورو!کہتاہوں تم سےآج کچھ میں بھی

 ابھی  زندان  آشوب  جہاں میں قید ہےانساں
 ابھی  مشق  عتاب آ سماں میں قید ہےانساں
 بز عم  قو ت با ز و ابھی ہیں جنگ کے نعر ے
ابھی تخریب کاری کےجھا ں میں قیدہےانساں
ر
 سنورپایا نہ اب تک تم سے حسن محفل گیتی
 جمال انجم و شمس و قمر کی بات کر تے ہو
تمھا ر ا  مد عا  تو  ا ر تقا ئے  نسل  آ د م  ہے
مگر کیا تم کبھی نوع بشر کی با ت کرتے ہو ؟ 

              * ا نس مسرورانصاری
      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا) 
               رابطہ/9453347784...

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...