Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 20, 2023

حضیر احمد رح

حضیر احمد خان ؒ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
-----------------------------------
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ویشالی کی کمیٹی کے رکن ،جماعت اسلامی اور اوقاف کمیٹی ضلیع ویشالی کے سابق ذمہ دار، جمعیت شباب اسلام بہار کے سابق رکن اور اس کے سہ ماہی ترجمان طلوع فکر کی مجلس مشاورت کے سابق رکن اور مختلف ملی وسماجی کاموں میں مضبوط حصہ داری نبھانے والے جناب حضیر احمد خان بن شفیع عام خان (م۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۵) بن محمد حسن خان بن مولوی منعم خان آبائی وطن اسعد پور مجھولی ، حال مقیم باغ ملی حاجی پور نزد قدیم جامع مسجد کا ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء مطابق ۸؍ رمضان ۱۴۴۳ھ جمعہ کی نماز کے لیے وضوء کرتے ہوئے دن کے کوئی ۱۲؍ بجے انتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز یکم اپریل کو بعد نماز ظہر اردو مڈل اسکول باغ ملی میں ادا کی گئی،  نماز کی امامت مدرسہ محمدیہ مروت پو، مہنار ضلع ویشالی کے مہتمم مولانا سیف الاسلام نے کی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، حاجی پور اور اس کے نواح کے مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور انہیںآخری سفر پر روانہ کرنے کے لیے قبرستان تک گیے، اس کے آگے کوئی جا بھی تو نہیں سکتا۔ پس ماندگان میں اہلیہ، عصمت خانم ، پانچ لڑکے ، فیصل شفیع خان ، فہد خان ، اسد خان، انس خان اور اویس خان اور تین لڑکیوں بشریٰ خانم، لبنیٰ خانم اور شاہدہ خانم کو چھوڑا۔
حضیر احمد خان مرحوم کی ولادت ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۰ء کو مروت پور مہنار ضلع ویشالی   نانی ہال میں ہوئی، ان کی والدہ کا نام ثریا خانم اور نانا کا نام عبد السلام خان تھا، ان کے والد حاجی شفیع عالم خان کا آبائی وطن اسعد پور مجھولی تھا، لیکن وہ بسلسلۂ کاروبا ر زیادہ تر کلکتہ ہی میں رہتے تھے، اس لیے حضیر احمد خان کا بچپن اپنی نانی ہال مروت پور میں ہی نانا کے گھر گذرا، ابتدائی تعلیم وتربیت بھی وہیں ہوئی، 1976میں ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد وہ والدکے پاس کلکتہ چلے گئے اور چمڑے کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے 1982تک انہوں نے کاروبار میں اپنے کو مشغول رکھا ، لیکن طبیعت ان کی اس کام میں نہیں لگی، اس لیے وہ دہلی منتقل ہو گیے، وہاں انہوں نے کچھ تجارت شروع کی، لیکن دو سال کی جد وجہد کے بعد ان کو احساس ہوا کہ میں اس تجارت میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا، چنانچہ انہوں نے پھر سے کلکتہ کا رخ کیا اور والد کے ساتھ چمڑے کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے، والد کی جمی جمائی تجارت تھی ، اس لیے یہاں جمنے میں ان کو دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اسی درمیان ان کی شادی مروت پور مہنار رضوان خان صاحب کی دختر نیک اختر عصمت خانم سے ہو گئی اور وہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے برادر نسبتی (بہنوئی) بن گیے۔ 1984سے انہوں نے حاجی پور کو اپنا مستقر بنا لیا اور کنگ شو ہاؤس کے نام سے سنیما روڈ حاجی پور میں ایک دوکان شروع کی جو بہت چلا نہیں کرتی تھی، بہت غور وفکر کے بعد انہوں نے اسی جگہ پر الکٹرونک سامانوں کی بکری کا کام شروع کیا، مزاج مذہبی تھا، ڈی جے اور گانے بجانے کی سی ڈی اور ویڈیو سے ان کو وحشت ہوا کرتی تھی، اس لیے انہوں نے دوکان اپنے لڑکا کے حوالہ کر دیا، اور ملی کاموں میں اپنا وقت دینے لگے، وہ ویشالی ضلع جماعت اسلامی کے 2004سے تاحال ذمہ دار رہے ، اوقاف کمیٹی کے بھی وہ 2017سے 2023تک صدر رہے، جہاں رہے اپنی شناخت کی حفاظت کی، چہرے پر گھنی داڑھی تھی، آخر عمر میں سرخ خضاب لگایا کرتے تھے۔
 مہمان نوازی ان کی بہت مشہور تھی، جب بھی ان کے گھر گیا، بغیر کھانا کھلائے آنے نہیں دیا، ان کا دل احوال زمانہ پر کڑھتا تھا، وہ کبھی قیادت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ، کہتے کہ ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں اور ظاہر ہے ان کے بس کا کچھ تھا بھی نہیں ۔
 ان کے گھر کے قریب ہی مسجد تھی، با جماعت نمازوں کا اہتمام کرتے، جو شریعت پر عامل تھے، دوسروں سے بھی یہی چاہتے تھے، بھائیوں کے درمیان گھریلو تنازعہ کی وجہ سے پریشان رہتے تھے، لیکن بات ہمیشہ عدل وانصاف کی ہی کیا کرتے تھے، نزاعات کے باوجود انہوں نے برادر انہ تعلق کو نبھادیا، بچے سب الحمد للہ کامیاب ہیں، بر سر روزگار ہیں، ایک لڑکا بیرون ملک کا م سے لگا ہو اہے، ضرورت کی ساری چیزیں اللہ نے مہیا کر رکھی ہیں،۔
حضیر احمد خان صاحب سے میرے تعلقات قدیم تھے، وہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب حاجی پور کے برادر نسبتی تھے، اس حیثیت سے ا ن کے یہاں میر آنا جانا ہوا کرتا تھا، علماء کے قدر داں تھے، معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی کے ناظم قاری بدر عالم مرحوم سے ان کا یارانہ تھا، وہ ان کی ہر خوشی وغمی میں برابر کے شریک رہا کرتے تھے، قاری صاحب بیمار ہوجاتے تو اپنے گھر رکھ کر ان کا علاج کرواتے اور تیمار داری کا پورا حق ادا کرتے، وہ قاری صاحب کے گھر ان کے جنازہ اور ایک بار ان کی بچی کی شادی میں بھی پرسا نیپال گیے تھے، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔
اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول کرکے جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین یا رب العالمین

منگل, ستمبر 19, 2023

اسقاط حمل کی عالمی صورت حال ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اسقاط حمل کی عالمی صورت حال  ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مرکزی وزارت صحت اور خاندانی فلاح کی رپورٹ کے مطابق 1972سے2022تک ہندوستان میں اسقاط حمل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے1972میں صرف 24300خواتین نے اسقاط کرایا تھا، جب کہ 1980میں 384405، 1985میں 538704، 1990میں 581215،1995میں 618373، 2000میں725149،2005میں 721859، 2010میں 657191، 2015میں 721055اور 2022میں 1144634اسقاط حمل کے معاملات سامنے آئے، جو معاملات روپے دے کراسپتالوں میں دبا دیے گیے، اس کے اعداد وشمار تک اس رپورٹ میں رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
 عالمی صحت تنظیم نے سب سے زیادہ اسقاط حمل کرانے والے دس ممالک میں روس(53.7) قزاقستان(35.0) ایسٹونیا(33.3) بیلا روس (31.7)رومانیہ(27.8)یوکرین(27.5)لاتویا(27.3)کیوبا(24.8) چین(24.0)کا ذکر کیا ہے، اس سروے میں ہر سال ایک ہزار عورتوں سے پوچھ تاچھ کیا گیا تھا، دنیا میں ہر سال7.33کروڑ اسقاط حمل کے واقعات ہوتے ہیں۔ ساٹھ فی صد ملکوں میں قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے، اٹھائیس فی صد ملکوں میں اسقاط قانونی عمل ہے۔ 36فی صدی ممالک میں اسقاط کے لیے عدالت جا کر قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ہندوستان ان میں سے ایک ہے، یہاں ایم ٹی پی قانون کے تحت اسقاط کرایا جا سکتاہے۔2017میں نو ججوں کی ایک بینچ نے حمل اور اسقاط حمل کے حق کو دستور کی دفعہ 21اور 19کے تحت زندگی کی آزادی سے جوڑا تھا، لیکن آئی پی سی (IPC)کی دفعہ 312اور313میں اسقاط حمل اور جنین کے قتل کو جرم قرار دیا گیا ہے، اس لیے میڈیکل ٹرینیشن آف پرگنیسی ایکٹ(MTP)کے تحت ہی اسقاط کرانا ممکن ہے، اس قانون کا بے جا استعمال حمل میں لڑکیوں کا پتہ لگا کر نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی لیے الٹراساؤنڈ وغیرہ کے ذریعہ حمل میں جنین کی جانچ بھی غیر قانونی ہے، یہ الگ بات ہے کہ جانچ کرانے والا مٹھی گرم کرنے پر یہ غیر قانونی کام بھی کر گزر تا ہے، شانتی لال شاہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد 1971میں ایم ٹی پی قانون بنایااور 2003میں اس کے ضابطے کو آخری شکل دی گئی تھی2021میں اس میں ترمیم کی گئی اور نئے ضابطے نافذ کیے گیے۔
 اس نئے ضابطہ اور قانون کے مطابق عصمت دری کی متاثرہ اور بیوہ یا نا بالغ لڑکیاں جو حاملہ ہو گئی ہوں دو ڈاکٹروں کی صلاح کے بعد 20سے 24ہفتے تک اسقاط کراسکتی ہیں، 24ہفتہ کے بعد اگر کوئی خاتون اسقاط کرانا چاہتی ہے تو اسے دفعہ 226کے تحت ہائی کورٹ اور دفعہ 32کے تحت سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنی ہوگی اور میڈیکل بورڈ کی صلاح کے بعد اسقاط کی اجازت عدالت دے سکتی ہے، جیسا کہ ابھی حال میں 27ہفتہ کے حاملہ کو آبروریزی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اسقاط کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ آبرو ریزی ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس تکلیف دہ عمل کے نتیجہ میں حاملہ ہونا پرانے زخموں کی یاد دلاتا رہتا ہے، اس لیے متاثرہ کو اس کرب سے نکالنا ضروری ہے۔
جن پانچ ممالک میں اسقاط حمل کاتناسب کم ہے، ان میں پر تگال(0.2)میکسیکو(0.3)قطر(1.2)آسٹریا(1.3) اور ہندوستان (3.1)شامل ہے اور ہندوستان ان ممالک میں سر فہرست  ہے۔
ہندوستان کی جن ریاستوں میں زیادہ اسقاط حمل کیا جاتا ہے، ان کے 2021اور 2022کے اعداد وشمار کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاکھ خواتین میں ہر سال 11لاکھ44ہزار اسقاط کرائے گیے ان کاتناسب مغربی بنگال میں 1.08، مہاراشٹر میں 1.8اور تامل ناڈو1.14واقعات پیش آئے، اسقاط کا 67%طریقہ غیر محفوظ رہا اور روزانہ اس کام کی وجہ سے کم از کم آٹھ عورتوں کی جان جاتی رہی ہے۔ ہندوستان میں ماؤں کے مرنے کی یہ تیسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ یونائیٹڈنیشن پوپلسن فنڈ کی مانیں تو اس غیر محفوظ عمل کی وجہ سے ہر سال تین ہزار عورتوں کی جان چلی جاتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں اسقاط حمل کو روکنے کے لیے مناسب تدبریں کی جائیں تاکہ ماؤں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

دسواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ ٹیم لنک پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

دسواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ ٹیم لنک پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (18/09/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا دسواں نعتیہ مشاعرہ و اصلاح معاشرہ آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر سرپرستی حضرت مولانا فیاض احمد راہی صاحب نعمانی معلم امام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ ارریہ ہیں

زیر صدارت مولانا عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ 
زیر قیادت حضرت الحاج مولانا محمد عارف صاحب قاسمی شیخ الحدیث پانولی گجرات و بانی و مہتمم جامعہ دعوت القرآن فیٹکی جوکی ہاٹ ارریہ ، 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی مقیم حیدرآباد  بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری محمد شہزاد صاحب رحمانی 
نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام ح
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب کو دعوت دی جائے ،  
نعت پاک کے لئے 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 اب تحفظ شریعت کے تعارفی بات کے لئے مولانا محمد واصف صاحب قاسمی مدرس امام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ
 
دوبارہ نعت رسول کے لئے 
قاری محمد دانش خوشحال صاحب مظاہری گڈاوی کو دعوت دی جائے ، 
نعت شریف کے لئے 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ کو دعوت دی جائے  
نعت رسول کے لئے 
جناب سرفراز غزالی صاحب کو دعوت دی جائے 
نعت پاک کے لئے 
جناب فہیم صاحب دھنبادی کو دعوت دی جائے  
تقریر کے لئے مولانا عبدالسلام عادل ندوی ڈاریکٹر سر سید اکیڈمی جوکی ہاٹ ارریہ کو دعوت دیں
نعت پاک کے لئے
مولانا فیاض احمد راہی صاحب نعمانی معلم أمام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ کو دعوت دی جائے  
نعت رسول کے لئے
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر کو دعوت دی جائے 
نعت شریف کے لئے
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی کو دعوت دی جائے 
نعت رسول کے لئے 
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب مولانا شاہد صاحب 
نعت پاک کے لئے 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ و ڈاکٹر محمد کمال الدین صاحب
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 12 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

ہفتہ, ستمبر 16, 2023

انسانی زندگی پر مثبت خبروں کے اثرات 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 اخبار جیسے کھولیے، منفی خبروں کی آپ کو بھر مار ملے گی، یہ خبریں عموماً صحیح بھی ہوا کرتی ہیں، لیکن ان منفی خبروں سے ذہن ودماغ میں تناؤ بڑھتا ہے ا ور آدمی نفسیاتی طور پر اپنے کو کمزور محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے بر عکس مثبت خبریں آپ کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیتی ہیں، ذہنی طور پر آپ منفی خبروں سے پیدا شدہ حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور آپ کی دفاعی قوت مضبوط ہوتی ہے۔یہ خلاصہ ہے مغربی ممالک کی چار بڑی یونیورسیٹی کی تحقیق کا جس کے بارے میں مختلف سالوں میں الگ الگ یونیورسیٹیوں نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے، ساؤتھ مپٹن یونیورسٹی کی 2016میں جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، مثبت خبریں اور اچھی معلومات ہماری ذہنیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں، جب مثبت خبریں ہمارے مطالعہ میں آتی ہیں، تو یہ ہماری ذہنی اور جسمانی تناؤ کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، انگیجڈ نیوز پروجکٹ کے نام سے 2014میں ایک تحقیق کی گئی تھی، اس رپورٹ کے مطابق محققتین اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ جب اخباروں میں ہماری نظر مثبت خبروں پر پڑتی ہے تو ہماری دلچسپی اخبار کے اس صفحہ سے بڑھ جاتی ہے اور ہم دیر تک اس صفحے پر بنے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے قاری کی توجہ اخبار کو حاصل ہوتی ہے اور وہ ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہارڈورڈ یونیورسیٹی کی 2018میں ایک تحقیق کے مطابق مثبت خبریں پڑھنے سے قلب صحت مند رہتا ہے، بلڈ پریشر میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہے، یہ اعضاء کے رعشہ اور تناؤ کو بھی کم کرتا ہے، اسی طرح برمنگھم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر منتھا نی ایل لمبرٹ نے 2012کی اپنی تحقیق کا جو نتیجہ پیش کیا اس کے مطابق جو لوگ مثبت خبریں کہانیاں اور مضامین دوسروں کو بھیجتے اور شیئر کرتے ہیں، وہ زیادہ خوش رہتے ہیں، ان کا نظریہ ترقی پذیر ہوتا ہے اور وہ آخری درجے تک اطمینان قلب کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں، خاص کر اس زمانہ میں جب آپ زمینی یا آسمانی آفات کا سامنا کر رہے ہوں، ایسے میں مثبت خبریں آپ کو جینے کا حوصلہ بخشتی ہیں، اور آپ ان خبروں کو پڑھ کر امید کی نئی روشنی پاتے ہیں۔
ہندوستان کے اخبارات ، ذرائع ابلاغ کو منفی خبروں کے شائع کرنے اور اسے چٹخارے لے لے کر بیان کرنے اور مباحثہ کرنے میں مزا آتا ہے، یہ خبریں ہماری ذہنی سکون کو غارت کرتی ہیں اور ہماری نفسیات کو غلط کاموں کی طرف لے جاتی ہیں، اس لیے ہمیں منفی خبروں سے مثبت پہلو نکال کر اجاگر کرنا چاہیے تاکہ ہم اچھا سماج بنانے میں معاون بن سکیں۔

جمعرات, ستمبر 14, 2023

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہر انسان کامیابی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ خواہش اس کے اندر فطری ہے، اس کی تکمیل کے دنیا بھر کے اہل خرد نئے نئے فامولے پیش کرتے ہیں، بازار میں اس عنوان پر ہندو بیرون ہند کے مصنفین کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں او ردعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر ان فارمولوں پر عمل کیا جائے تو کامیابی آپ کا مقدر ہے، جیت آپ کی ہے۔
 قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کے اوصاف کا ذکر کیاہے۔ اور اسے فلاح سے تعبیر کیا ہے، فلاح کے معنی ہر مراد کا پورا ہونا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنے کے آتے ہیں، نماز کے لیے اذان کا معاملہ ہو یا اقامت کا مؤذن فلاح کی طرف ہی لوگوں کو بلاتاہے، لیکن آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فلاح کے جو حقیقی معنی ہیں اس کا حصول انسانوں کے لیے اس دنیا میں پورے طور پر ممکن نہیں ہے، دنیاوی زندگی میں نہ تو ہر مراد پوری ہوتی ہے اور نہ ہر تکلیف سے بچناممکن ہوتاہے، اسی طرح زوال نعمت کے امکان سے بھی انسانی قلوب پریشان رہا کرتا ہے، اسی لیے دنیا کو دار المحنت سے تعبیر کیا گیا ہے، اطمینان اور سکون کی جگہ تو صرف جنت ہے، اگر اللہ اپنے فضل سے عطا فرمادیں۔
کامیابی کے لیے سب سے پہلی چیز تزکیۂ نفس ہے، اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ(سورۃ الاعلیٰ: 19) جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہے، مفسرین نے تزکیہ کی تفسیر میں کفر وشرک اور گناہوں سے پاک ہونا لکھا ہے، یہی اصل تزکیہ ہے، کیوں کہ جب نفس کفر وشرک سے پاک ہوگا تو دل اللہ رب العزت کے ذکر کی طرف مائل ہوگا اور وہ اللہ کی یاد کے لیے نماز پڑھا کرے گا، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلیّٰ (سورۃ الاعلیٰ :20)میں یہی بات کہی گئی ہے، جب قلب کفر وشرک سے پاک ہوگا تو آدمی کی رغبت ایمان واسلام ، ارکان اور تزکیہ کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے اس کی طرف ہوگی، پھر کامیابی اس کا مقدر ہوگی، اللہ رب العزت نے اٹھارہویں پارہ کے آغاز اور انتیسویں پارہ کے سورۃ معارج میں کامیاب انسانوں کے اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، ان میں سے پہلی چیزنماز ہے، جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، نمازی کے دل میں اللہ کی محبت جاگزیں ہوتی ہے، اللہ کی بڑائی اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا خیال اسے بُرے کاموں سے روکتا ہے، وہ اپنے پاس اللہ کو محسوس کرتا ہے، لیکن یہ اوصاف ایمان والوں میں اسی وقت پیدا ہوں گے جب اس کی نماز خشوع کے ساتھ یعنی سکون کے ساتھ ہو، خشوع میں سکونِ قلبی اور سکونِ جسمانی دونوں شامل ہے، سکون قلبی تو یہ ہے کہ دل اللہ کی طرف ہی پورے طور پر متوجہ ہو اور سکون جسمانی کا مطلب ہے کہ نماز میں فضول حرکتیں نہ کریں، خصوصا ایسی حرکتیں جو نماز میں خلل ڈالنے والی ہوں۔ اس لیے کہ اللہ بڑا بے نیاز ہے، اگر بندہ اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا ہے تو اللہ بھی اس سے اپنا رخ پھیر لیتا ہے، اسی لیے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے ، بدن کے کسی حصے سے کھیلنے، دامن مڑوڑنے، ڈاڑھی میں بار بار ہاتھ لے جانے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ سب خشوع کے خلاف ہیں، مجمع الزوائد کی ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے امت سے خشوع اٹھ جائے گا او رقوم میں خاشعین کی کمی ہوجائے گی یا وہ نظر نہیں آئیں گے۔ نماز خشوع سے پڑھی جائے تو اس کا اثر زندگی پر وہ پڑتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کیا ہے کہ نماز برے اور فحش کاموں سے روکتی ہے، نماز کو خشوع سے پڑھنے کی وجہ سے یہ صفت خود بخود بندے کے اندر پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ فضول اور لا یعنی بحثوں اور غیر نفع بخش کاموں سے دور بھاگتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو چھوڑدے یہ کامیاب ایمان والوں کی دوسری صفت ہے۔
تیسرا وصف جو ایمان والوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ، اس کی دو شکلیں ہیں ایک تو سال گذرنے کے بعد اپنے مال سے ڈھائی فی صد نکالنا یہ تو فرض ہے، دوسرا ہے صدقات نافلہ یعنی فقراء، یتامیٰ، مساکین پر خرچ کرنا، اس بات کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ تم اس وقت تک خیر کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرو، اس کو قرآن کریم میں قرض حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جسے امام بخاریؒ نے حفص بن غیاث سے روایت کیاہے کہ تمہارا مال تو وہی ہے جو تم نے اللہ کے راستے میں اپنے ہاتھ سے خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا نہیں تمہارے وارث کا مال ہے، ایمان والے کے اندر جب یہ صفت پیدا ہوتی ہے تو وہ بہت سارے گناہ اور رذائل سے بچ جاتا ہے، دینے کا یہ مزاج جب بڑھتا ہے تو آدمی سخی کہلاتا ہے اور جنت میں جانے کے من جملہ اوصاف میں سے ایک سخاوت بھی ہے۔ للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر بتاتی ہے کہ کہ اس وصف میں زکوٰۃ واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں شامل ہیں، کیوں کہ فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قرآن کریم کی تعبیر آتو الزکوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کی رہی ہے۔ بعض نے یہاں زکوٰۃ سے مراد تزکیہ لیا ہے، یعنی روحانی امراض بعض حسد ، کینہ، ربا، تکبر ، حرص اور بخل وغیرہ سے خود کو محفوظ کر لینا اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ۔ 
چوتھی صفت مؤمن کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ وہ محرمات سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے اور شہوانی خواہشات کا غلبہ اس کے اندر نہ ہو، جو لوگ شہوت پوری کرنے کے لیے اپنی بیویوں تک محدود رہتے ہیں، وہ قابل ملامت نہیں ہیں، جنسی خواہشات کی تکمیل ایک فطری تقاضہ ہے، اس کے لیے بیوی اور باندیوں کا ذکر کیا گیا ہے، باندیاں اب ہوتی نہیں،ا س لیے اب اس کام کا جائزطریقہ بیوی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور وہ بھی شرعی حدود وقیود کے ساتھ۔
پانچویں صفت امانتوں میں خیانت نہ کرنا اور ان کی رعایت کرنا ، یعنی حفاظت کرنا ہے، امانات کہہ کر کے اللہ رب العزت نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کی امانت شامل ہے، بغیر اجازت کے کسی کا راز دوسروں پر کھولنا ، ملازمت کے جو اوقات ہیں اس کے مطابق وقت نہیں لگانا، یہ سب امانت میں خیانت ہے اور ایمان والوں کو امانت کی پوری رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، اسی کے ساتھ اللہ نے معاہدے اور وعدوں کی پاسداری بھی کامل ایمان والوں کی چھٹی صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگر کوئی مومن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو دھوکہ دے رہا ہے، حالاں کہ معاہدہ کی پابندی فرض کے درجہ کی چیز ہے، اسی طرح وعدہ خلافی بھی مذموم ہے، کسی سے وعدہ کرلیا جائے تو اسے پورا کیا جائے، یہ بھی ضروری ہے، معاہدہ کی خلاف ورزی پر تو عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے، البتہ وعدہ کی خلاف ورزی پرداروگیر اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو پہچان بتائی ہے اس میں امانت میں خیانت اور وعدوں کی خلاف ورزی شامل ہے، اور منافق کامل مومن تو دو ر کی بات ہے، اس کا ایمان بھی محض دکھا وا ہوتا ہے۔
اور ساتویں صفت نماز کی حفاظت ہے، یہاں صلوٰۃ جمع لایا گیاہے تاکہ پنج وقتہ نماز یں اس میں شامل ہوجائیں، جنہیں اپنے وقت پر ادا کرنا ہے، پہلی صفت میں نماز کا ذکر خشوع کے حوالہ سے تھا۔ یہاں فرض نماز کی حفاظت کی بات کہی گئی ہے۔ سورۃ معارج میں ’’الذِیْنَ ھُمْ عَلی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْن‘‘ کہہ کر نماز پر مداومت ، پابندی اور ہمیشگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس سورۃ میں ان تمام اوصاف کے ساتھ اللہ رب العزت کے عذاب سے ڈرنے اور شہادتوں پر قائم رہنے کا بھی ذکر موجود ہے، اللہ کا ڈر ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا خوف شاہ کلید ہے، جس سے ہمارے اعمال میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہے اور نیک عمل کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے، سورۃ العصر میں جہاں زمانہ کی قسم کھا کر اللہ رب العزت ارشاد فرمایاہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، مگر وہ انسان جو ایمان والے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں، حق کی تلقین ان کا شیوہ اور صبر تحمل، برداشت ان کی عادت ہے، ایسے لوگ کامیاب ہیں۔
 ان اوصاف کے حاملین کی زندگی میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے، ایسے لوگ قرآن کی اصطلاح میں ’’عباد الرحمن‘‘ ہوجاتے ہیں جو زمین پردبے پاؤں عاجزی اور نرمی سے چلتے ہیں، جب نا سمجھ اور نادان لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ سلامتی طلب کرکے اپنی راہ لیتے ہیں، ان کی راتیں رب کے سامنے سجدے اور قیام میں گذرتی ہیں، او روہ اللہ سے دوزخ کے عذات سے محفوظ رکھنے کی دعائیں مانگتے رہے ہیں، وہ خرچ میں اسراف اور بخالت سے بچتے ہیں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں،وہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے، وہ ناحق قتل نہیں کرتے، زنا سے پرہیز کرتے ہیں، وہ جھوٹے کاموں میں شریک وسہیم نہیں ہوتے اور لغویات سے با عزت نکل جاتے ہیں، وہ اپنی بیوی اور بچوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے اور انہیں پر ہیز گاروں کا مقتدیٰ بنانے کی دعا مانگتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
 ان اوصاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پرمزید گفتگو کی جا سکتی ہے، اہل علم نے پوری پوری کتابیں اور مفسرین نے صفحات کے صفحات اس موضوع پرلکھ ڈالے ہیں، لیکن یہاں ایجاز سے کام لیا گیا ہے، امید ہے کہ ان اوصاف کو اپنا کر ہم مومن کامل بنیں گے اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ وماتوفیقی الا باللہ

ایک ملک ایک انتخاب

ایک ملک ایک انتخاب 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہندوستان میں ایک ملک ایک کرنسی ، ایک دفاعی فوج، ایک قانون، ایک جھنڈا، ایک عدالتی نظام اور ایک نظام مواصلات کا پہلے ہی سے رائج ہے، اسی بنیاد پر رومنگ سسٹم کو ختم کر دیا گیا، اب ایک ملک ایک انتخاب کی بات چل رہی ہے اور اسی کے لیے غالباپارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس ۱۸؍ستمبر سے خلاف معمول بلا یا گیا ہے، اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کے جائزہ لینے کے لیے ایک آٹھ نفری کمیٹی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سر براہی میں بنائی گئی ہے، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے اُس کمیٹی سے خود کو الگ کر لیا ہے اس لیے اب ارکان کی تعداد سات رہ گئی ہے۔
 آزادی کے بعد 1967تک ملک میں سیاسی استحکام تھا، ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں خود رو پودے کی طرح سامنے نہیں آئی تھیں، مرکز اور ریاست کے بارے میں انتخابی نظریہ الگ الگ نہیں ہوا کرتا تھا، سیاسی استحکام کی وجہ سے دونوں کی مدت کا ر ایک ساتھ مکمل ہوتی تھی اور انتخاب بھی ایک ساتھ ہوجاتا تھا، یہ ایک اتفاق تھا، قانونی اور دستوری طور پر ایساکرانا ضروری نہیں تھا۔1967میں آٹھ ریاستوں میں کانگریس بر سر اقتدار نہیں آسکی اور آپسی رسہ کشی میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیامنٹ کو 1970میں وقت سے پہلے تحلیل کر دیا، 1975میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے نافذ ہوئے کے بعد پارلیامنٹ کی مدت کار چھ سال ہو گئی، 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے کئی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کو ہٹا کر صدر راج لگا دیا، جنتا پارٹی کی حکومت ڈھائی سال میں ہی گر گئی ، اس طرح ریاست اور مرکز میں ایک ساتھ انتخاب کرانا ممکن نہیں ہوسکا اور دونوں کے انتخابات الگ الگ ہونے لگے، کیونکہ ہندوستان کی تمام ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار ایک ساتھ ختم نہیں ہورہی تھی اور پارلیامنٹ کی مدت کار سے اسمبلیوں کی مدت کار کا جوڑ نہیں بیٹھ رہا تھا،لیکن یہ چرچا کا موضوع رہا کہ ایک ملک ، ایک انتخاب مفید ہے یا مضر ۔
 سب سے پہلے 1999میں لا کمیشن نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تجویز رکھی 2015میں عوامی شکایات ، قانون وانصاف کی پارلیمانی کمیٹی نے دونوں انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ، 2017میں نیتی آیوگ نے ایک دستاویز جاری کیا، جس کے مطابق دو مرحلوں میں انتخاب کی تجویز رکھی گئی تھی۔اگست2018میں لا کمیشن نے نیتی آیوگ کی دومراحل میں انتخابات کرانے کی تجویز کو تسلیم دسمبر 2022میں لا کمیشن نے ایک ساتھ انتخاب کرانے کی تجویز پر سیاسی پارٹیوں ، انتخابی کمیشن، بیورو کریٹ، ماہرین تعلیم وسیاست سے رائے طلب کی ، رائے کیا آئی، لا ء کمیشن نے اس رپورٹ کو اب تک عام نہیں کیا ہے۔
 پھر ایسا کیا ہوا کہ مودی جی اور بھاجپا کو بیک وقت اس کی یاد آگئی، اسکی وجہ حزب مخالف کا اتحاد ہے اور حکومت ایک نیا موضوع چھیڑ کربے روزگاری، مہنگائی، سرحد پر چینی تناؤ سے لوگوں کی توجہ بٹانا چاہتی ہے، چندریان -۳کی کامیابی میں  گو حکمراں طبقے کا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سارا کمال اسرو کا ہے،لیکن اس کی کامیابی کا سہرا بھی مودی جی نے اپنے سر لے لیا اور لوگوں کی توجہ اس کامیابی کی طرف مبذول کرنے کے لیے ایک لمبی تقریر کر ڈالی اور جن کی یہ اصل کامیابی تھی ان کو تقریر کرنے اور اپنی بات رکھنے کے لیے بہت کم وقت مل سکا۔
 اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ 18ستمبر سے 22ستمبر تک پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کا خصوصی اجلاس بلالیا گیا ہے، جس کا کوئی ایجنڈہ بھاجپا کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے اندازے کے مطابق اس خصوصی اجلاس کی پانچ نشستوں میں خواتین رزرویشن،یکساں شہری قانون، ایک ملک ایک انتخاب ، آئی پی سی ، سی آر پی سی قوانین میں ترامیم کے لیے بل پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بڑی جلدی میں ہے خود آر ایس ایس، اور بھاجپا کے اندر بڑا طبقہ مودی جی کے خلاف ہے اور وہ اگلے انتخاب میں نتن گڈگری کو وزیر اعظم کا چہرہ بناکر پیش کرنا چاہتا ہے، آر ایس ایس اور بھاجپا کو شکایت یہ ہے کہ مودی کی طاقت کے آگے ان دونوں تنظیموں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے اور کہنے والے یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی ہے تو ممکن ہے، مختلف پروگراموں میں مودی، مودی کا ورد کیا جاتا ہے اور پوری ٹیم میں کسی اور کا نام آتا ہی نہیں ہے، بہت ہوا تو کبھی امیت شاہ کا نام لے لیا گیا، اس لیے مودی جی عجلت میں ہیں جو کچھ کرنا ممکن ہو کرگذرنا چاہتے ہیں، اسی لئے مودی نے فوری طورپر ایک ملک، ایک انتخاب کے موضوع پر غورکرنے کے لئے کمیٹی بنائی اور اس کا چیرمین سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو بنادیا، سابق صدر جمہوریہ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی کہ انہیں ’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کمیٹی کا چیرمین بنا دیا گیا ہے، اور پتہ نہیں کس لالچ یا کس خوف سے ا نہوں نے اس کو قبول بھی کر لیا ہے، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ نے ایک چھوٹی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی ہو۔
 ظاہر ہے بھاجپا اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک نے اس کا خاکہ پہلے سے بنا رکھا ہوگا، کمیٹی اس خاکے پر مہر لگادے گی اور حکومت اسے خصوصی اجلاس میں پیش کرکے اس کی منظوری پارلیامنٹ سے لینا چاہے گی، لیکن یہ دوسرے بل کی منظوری کی طرح آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک ملک ایک انتخاب کے لیے دستور میں پانچ ترمیمات کرنی ہوں گی، اور چونکہ انتخاب مرکز اور ریاست دونوں کا معاملہ ہے، اس لیے ریاستی اسمبلیوں سے بھی اس کی منظوری لینی ہوگی۔ 2018میں لاء کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں، اس کے مطابق دستور کی دفعہ 83,85,172,174اور 356میں اس کام کے لیے ترمیم ضروری ہوگی، تبھی اسمبلیوں کی مدت کار کوکم اور زیادہ کرکے پارلیامنٹ کے ساتھ انتخاب کرانا ممکن ہو سکے گا۔
 اگر اسمبلی اور پارلیامنٹ کے انتخاب ایک ساتھ ہونے کی منظوری مل جاتی ہے اور قانون بن جاتا ہے تو انتخاب کے اخراجات یقینا بہت کم ہو جائیں گے اور دوسرے کاموں کے لیے وقت بھی اچھا خاصہ بچے گا اور انتخابی کام کاج جلد نمٹ جائے گا، ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں استحکام ہو، اس کے ذریعہ سازش کرکے حکومت گرانے اور بدلنے کی مہم پر بھی لگام لگ سکتی ہے، لیکن صدر راج کے امکانات بڑھ جائیں گے، بعض حالات میں طویل مدت تک ریاستوں کو مرکز کے زیرنگیں رہنا پڑسکتا ہے اور اگر اسمبلی تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرائے گیے تو پھر انتخابات الگ الگ شروع ہوجائیں گے، اور ایک ملک ایک انتخاب کا فارمولہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ریاست کے مفادات پس پشت چلے جائیں گے او رلوگوں کی ساری توجہ مرکزی انتخاب پر مبذول رہے گی، بھاجپا کی سوچ یہ ہے کہ عظیم اتحاد انڈیا میں جو چھوٹی ریاستی پارٹیاں شامل ہیں وہ اپنے وجود کے لیے اسمبلی انتخاب پر توجہ مرکوز رکھیں گی اور بھاجپا کے لیے مرکز تک پہونچنے کا راستہ ایک انتخاب کی وجہ سے صاف ہو جائے گا۔

اتوار, ستمبر 10, 2023

نفرت کی کاشت- ملک کے لئے خطرناک 
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آپ نے مختلف قسم کے فصلوں کی کاشت کے بارے میں پڑھا اور سنا ہوگا، اس کے لہلہانے کی تدبیر یں بھی آپ کو بتائی گئی ہوں گی، کتنا پانی، کتنا کھاد، کتنی نکیونی اور کیسی آب وہوا کس فصل کے لیے چاہیے، اس کی واقفیت آپ کو مجھ سے زیادہ ہے، اہل فن نے اس پر کتابیں لکھی ہیں اور مختصر مدت میں زمین سے کس قد رزائد پیدا وار حاصل کر سکتے ہیں، اس کا علم ہمارے کسان کما حقہ رکھتے ہیں، تبھی تو ہندوستان غذائی اجناس میں خود کفیل ہوگیا ہے۔
 ہندوستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے ہمارے حکمراں اور سیاست دانوں نے ایک اور کاشت شروع کی ہے، یہ کاشت ہماری زمین پر نہیں، دل ودماغ پر کی جا رہی ہے، یعنی اس کاشت کے لیے جس زمین کا استعمال کیا جا تا ہے، وہ دل اور دماغ کی زمین ہے، یہ نفرت کی کاشت ہے، ہندوستان کے اکثریتی طبقات کے دل ودماغ میں پہلے یہ بیج ہندتوا کے نام پر ڈالا جاتا ہے، فرقہ پرست افراد اور تنظیمیں گرم گرم تقریروں اور اسلام دشمن بیانات کے ذریعہ اس کو کھاد پانی فراہم کرتی ہیں، سپریم کورٹ آڑے آتا ہے تو ان کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی اجازت کے پابند نہیں ہیں، بابری مسجد انہدام سے لے کر نوح میوات کے فسادات تک سر کشی اور قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی گئی ہے کہ اگر اقلیتیں کرتیں تو آج کی پوری قیادت جیلوں میں سڑ رہی ہوتی، لیکن اکثریتی طبقہ اور شر پسندوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، احمد آباد کے فسادی قانون کی گرفت سے عموما باہر رہے، بابری مسجد کے انہدام کے مجرمین کو سزا نہیں دی جا سکی، بلقیس بانو کے خاندان کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی اجتماعی آبروریزی کے مجرمین عمر قید کی سزا کے باوجود جیل سے باہر آکر دندناتے پھر تے ہیں۔
نفرت کی اس کاشت کو پروان چڑھانے اور اسے بار آور کرنے کے لیے فرقہ پرستوں نے الگ الگ طریقے ایجاد کر رکھے ہیں، کہیں مسلمانوں کو دیکھ کر جے شری رام کا نعرہ لگائیں گے ، کہیں مسلم آبادی سے گذرتے ہوئے دل آزار جملے پھینکیں گے، بے وجہ کسی مسلمان پر الزام لگا کر ماب لنچنگ کر دیں گے، کہیں مسلمانوں کو دوکان ومکان اور علاقہ خالی کرنے کی نوٹس دیںگے، کہیں پنچایت میں مسلمانوں کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالیں گے اور کبھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ سنائیںگے کہ ان سے کاروباری معاملات نہ کرو، ان سے سودا سلف نہ لو تاکہ وہ خود ہی علاقہ خالی کرکے چلتے بنیں اور نفرت کی یہ کاشت پروان چڑھتی رہے، مسلمانوں کو اس قدر خوف کی نفسیات میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ چوں نہ بولیں اور ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہیں یا کم از کم اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے دست بردار ہو جائیں۔ 
ادھر نفرت کی کھیتی کے لیے ایک او رزمین فرقہ پرستوں نے منتخب کر لی ہے اور وہ ہے ابتدائی درجات کے اسکولوں میںنفرت کا ماحول پیداکرنا، پہلے یہ اونچے درجات کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب نفرت کی کھیتی کے لیے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو اسکول میں تیار کیا جا رہا ہے، انہیں مسلمانوں کے خلاف تقریریں رٹائی جارہی ہیں اور پھر انہیں اسکول کے کلچر پروگرام اور طلبہ کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے نام پر عوام کے سامنے پیش کرایا جاتا ہے اور تالیوں کی گرگراہٹ آئندہ اس مہم کو جاری رکھنے کا حوصلہ بچوں میں پیدا کرتا ہے، مسلم بچے جن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کو نفسیاتی طورپر بے عزت کیا جاتا ہے، تازہ واقعہ ۲۴؍ اگست کو مظفر نگر ضلع کے نہا پبلک اسکول خبر پور کا ہے ، یہ گاؤں منصور پور سے قریب واقع ہے، اس اسکول کی پرنسپل تریپتا تیاگی نے ون کے جی کے ایک مسلم طالب علم التمش ولد محمد ارشاد کو پورے کلاس کے ہندو طلبہ سے تھپڑ لگوایا اور تلقین کرتی رہی کہ اور زور سے مارو، قصور یہ تھا کہ وہ ہوم ورک کرکے نہیں لایا تھا، اسکولی طلبہ میں یہ جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس کی سزا کے طورپر غیر مسلم بچوں سے پٹائی کرائی جائے، سزا وہ استانی خود بھی دے سکتی تھی ، کہتی ہے کہ میں معذور ہوں، اس لیے اٹھ نہیں سکتی تھی، یہ ایسا عذر لنگ ہے، جس کو کوئی بھی عقل مند تسلیم نہیں کرے گا، اگر وہ معذور ہے تو اسکول کیسے آتی ہے اور پرنسپل کی ذمہ داری کس طرح سنبھالتی ہے، چلیے تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ اٹھ نہیں سکتی تھی، لیکن کیا وہ بچے کو اپنے پاس بلا کر بیٹھے بیٹھے تنبیہ نہیں کر سکتی تھی ، اس کے علاوہ اسکول میں تو مار پٹائی قانونا جرم ہے، وہ تو ایسے ہی قانون کے خلاف ورزی کر رہی تھی اور مسلم لڑکے کو صرف ذلیل کرنا چاہتی تھی، اس کے رونے گڑ گڑانے معافی مانگنے تک کا اس پر کوئی اثر نہیںہوا، بچے کا چہرہ سوج گیا۔
 مسلم بچے کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک کی ویڈیو اسکول کے ہی کسی نے بنایا اورسوشل میڈیا پر وائرل ہوا، ویڈیو بنانے والا بھی فرقہ پرست ہی ہوگا، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو نفسیاتی طورپر اپنی ہتک محسوس کرانے کی غرض سے اسے عام کر دیا ، بات جب گلے پڑنے لگی تو اس کی مختلف تاویلیں کی جانے لگیں، حد یہ ہے کہ اتر پردیش کے وزیر تعلیم اس کی حمایت میں آگیے اور کہا کہ تریتبا نے معافی مانگ لی تو بات ختم ہو گئی، بھلا کوئی کسی کی عزت سے کھلواڑ کرے، معصوم ذہنوں میں نفرت کی بار آوری کرے اور اسے معاف کر دیا جائے، چاہیے تو یہ تھا کہ اس استانی کو فوری طور سے گرفتار کیا جاتا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ، لیکن جب وزیر تعلیم ہی کلین چٹ دے رہے ہیں تو کون اس معاملہ کو اٹھا پائے گا، البتہ خبر یہ آ رہی ہے کہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے اسکول کو بند کر دیا گیا ہے، التمش کے والد نے اس بچے کا نام اسکول سے کٹوا دیا ہے، لیکن وہ نا مزد ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں ہوئے، وہ بھی خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے اور انہیں لگا کہ یوگی کے راج میں انصاف کا ملنا دشوار ہے، اس لیے انہوں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، جب اصل متاثر سامنے نہ آئے تو مقدمہ ایسے ہی کمزور ہوجاتا ہے۔ 
دھیرے دھیرے یہ معاملہ سرد پڑجائے گا، لیکن اس عورت کی اس ذلیل حرکت کی وجہ سے یہ بچہ تا زندگی ایک خاص نفسیات میں مبتلا رہے گا، وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگی گذارے گا، اور جن بچوں سے اس عورت نے اسے پٹوایا وہ پوری زندگی مسلمانوں کو لقمۂ تر سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتے رہیں گے اور پھر نفرت کی یہ کاشت امربیل کی طرح پھیلتی چلی جائے گی ، جس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جو اب نام کی حد تک ہی باقی ہے؛ بالکلیہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔
اس واقعہ سے ہندوستان کی جو شبیہ خراب ہوئی تھی اسے کم کرنے اور مسلم سماج کے غصے کو کم کرنے کے لیے کٹھوا جموں کشمیر میں مبینہ طورپر ایک مسلم استاذ کے خلاف افواہ پھیلائی گئی کہ اس نے بلیک بورڈ پر جے شری رام لکھنے والے بچے کی پٹائی کی اور آئندہ ایسا کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی اور اس میں وزن پیدا کرنے کے لیے ایک خاص مذہب کے لوگوں کے ذریعہ سڑک پر احتجاج کرایا گیا اورپوری کوشش کی گئی کہ اس کو بنیاد بنا کر مظفر نگر کے واقعہ کو ہلکا کیا جائے، لیکن ایسانہیں ہو سکا، البتہ کٹھوا کے واقعہ پر باضابطہ ایف آئی آردرج ہوا، اور جانچ شروع ہو گئی، مظفر نگر کے واقعہ پر مسلمانوں نے احتجاج نہیں درج کرایا اور نہ متاثر طالب علم کے والد نے کوئی ایف آئی آر درج کرائی، واقعتا ہم لوگ اس قدر پُر امن ہیں کہ ہر حال میں شانت رہتے ہیں، ایسا قانون کے احترام اور خوف کی نفسیات کی وجہ سے ہوتا رہا ہے، اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...