Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 27, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں سیرت نبی پر نعتیہ مقابلہ منعقد کیا گیا
Urduduniyanews72 
 اسلامی کیلنڈر میں ربیع الاول کا مہینہ مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں ہمارے پیارے پیارنبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہِ وسلّم  اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۱۲ ربیع الاول ہمارے پیارےنبی کی پیدائش کا دن ہے اور حضور پر
درودوسلام کا نظرانہ پیش کیا جاتا ہے۔
 ہمارے اسکول تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں بھی ۱۲ ربیع الاول کو ایک نعتیہ مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں اسکول کے بچوں نے بہت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا پروگرام میں حصہ لینے والے بچوں کے نام درج ذیل ہیں۔ درجہ۴ سے زویا، جو بیر یاء زین زویا عباسی، علمان عظیم سمارا، عبد الصمد، زویا قریشی، شفاء درجہ ۵ کے شفاء ، آمنہ، عائشہ، عالیہ شہزیل نبیہ، ضیاء درجہ۶ جی سے اقرا ،منتشا ، نبیہ، ارم ، حفصہ، ضیاء، نمراء علماء ، درجہ ۷جی  سے رافعہ، زویا زنیرا ،عمرہ ،سدرہ، ، گل افشان، درجہ ۸ جی سے سارا ، سعدیه، زویا، اقراء، زنیرا، وجیبه،سنا،شبینہ، درجہ۷ کے بی سے ریان، عمار، وارث کلیم، درجہ ۳ سے فاطمہ نے اپنے پیاری پیاری آوازوں میں نعتیہ کلام پیش کیا۔ پروگرام کی صدارت اسکول مینجرسید اعجاز صاحب نے کی ہمارے اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر کی زیرنگرانی اسپورٹ کلب کی سر براہ لائقہ عثمانی سیدہ عباس، امرین اور محمد شوکت سر کی کاوشوں سے پروگرام کامیاب رہا دیگر تسمیہ اسٹاف نے بھی بھر پور تعاون کیا۔
 پروگرام کے اختتام پر جاوید مظہر پرنسپل تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے بچوں کو پیارے نبی کی سیرت کے بارے میں بتایا انھوں نے کہا ہمیں پیارے نبی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہیے انکے اخلاق کو اپنی زندگی میں اپنانا چاہیے اگر ہم ان کی سنتوں پر چل کر زندگی گزاریں گے تو ہمیشہ کامیابی ہمارا مقدر ہو گی سید اعجاز احمد نے بھی پیارے نبی کے بارے میں بچوں کو بتایا اور پیارے نبی کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ اول ، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کو انعامات سے نوازا گیا۔اوّل رہی درجہ ۸ کی شبینہ،دوم رہی درجہ۶سے یوسرا،سوم رہی درجہ ۸ سے سنا کو انعامات سے نوازا گیا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

درس رحمت دینے والے نبی رحمت 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ
ربیع الاول کا مہینہ اس عظیم رسول ونبی کی ولادت با سعادت کے حوالہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے جس سے بہتر انسان اس روئے زمین پر نہیں آیا ،ہمارا ایمان تمام انبیاءورسل پر ہے اور ہم سب کی عظمت وفضیلت کے قائل ہیں ،یہ ہمارے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کا حصہ ہے ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ہمارے آقا ومولیٰ فخر موجودات،سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاءکا سرداراورسیدالمرسلین والاولین والآخرین بنایا ،آپ کے اوپر سلسلہ ¿ نبوت کا خاتمہ فرمایا،معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں انبیاءکی امامت کرائی؛ تاکہ سب انبیاءپر آپ کی فضیلت پورے طور پر کھل کر سامنے آجائے ،ایسی فضیلت کہ انبیاءبھی اس امت میں آنے کی تمنا کرنے لگیں ،آپ کو یہ فضیلت بھی عطا ہو ئی کہ سارے جہاں کا رسول بنا کر آپ کو بھیجا گیا ،قرآن کریم جیسی رحمت وہدایت والی کتاب آپ کو دی گئی،آپ ﷺ سے پہلے جتنے انبیاءورسل آئے سب مخصوص علاقے مخصوص زمانے اور بعض مخصوص قبائل کے لئے تھے ،اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو اعلان کرنے کے لئے فرمایا: کہہ دیجئے اے لوگو! میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ،آپ کی شان میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ آپ سارے جہاں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ،سارے جہاں میں انسان وجن ہی نہیں، شجرو حجر، نباتات وجمادات،حیوانات اور تمام بری وبحری مخلوقات بھی شامل ہیں ،اس کامطلب یہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب کیلئے رحمت ہیں ،اور آپ کی رحمت سب کو محیط ہے۔
رحمت کی اس عمومیت کااندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہر طرف ظلم وجور کا بازار گرم تھا، انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا ،قبیلے آپس میں دست وگریباں تھے،عربی عجمی اور کالے گورے کے نام پرخود ساختہ برتری کے پیمانے وضع کر لئے گئے تھے ،اس کی وجہ سے انسانوں میں طبقاتی جنگ نے عروج پکڑ لیا تھا،حق وہ سمجھا جاتا تھا جواس قبیلے کے کسی فرد کے ذریعہ صادرہوا ہو،خواہ وہ ظلم وستم کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو،برائیاں عام تھیں اور اخلاق حسنہ کا وجود کم ترہوگیا تھا،عورتوں کے اوپر ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا ،بلکہ بہت سارے قبائل میںلڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا،ہنستی کھیلتی زندگی کو زندہ مٹی میں دفن کر دینا انسانی شقاوت وبدبختی کی انتہا تھی،لڑائیاں ہوتیں توانسانوں کے ساتھ پورے علاقہ کو تاراج کردیا جاتا ،شریف انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے،اور بالکل وہ منظر ہوتا جس کا نقشہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کھینچاہے کہ جب شاہان وقت کسی آبادی پر غلبہ حاصل کرتے ہیں تو آبادی میں فسادو بگاڑ پیدا کرتے ہیںاوروہاں کے شرفاءکو ذلیل ورسواکر کے چھوڑتے ہیں، ان لڑائیوں میں جانور،درخت ،کھیت کھلیان اور فصلوں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ان حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے،چالیس سال تک اپنی پاکبازی، کردار کی بلندی، امانت ودیانت کی رفعت کانمونہ اس طرح پیش کیا کہ مخالفین بھی آپ کو صادق اور امین کہا کرتے، آپ کی بے داغ جوانی اور اعلی اخلاقی کردارکی شہادت دیتے،وہ ایمان اور کلمہ کے مسئلہ پر مذبذب رہے،کیونکہ اس کلمہ کے اقرار سے ان کی ریاست اور چودھراہٹ کو خطرہ محسوس ہوتا تھا؛ لیکن کبھی کسی نے ان کے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھائیں۔چالیس سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا ،مخالفین کے سب وشتم اور نازیبا حرکات کو سنااور سہا، یہ رحمت ہی کی ایک قسم ہے کہ آپ نے قدرت کے باوجود اور بارگاہ الٰہی سے مقبولیت کے یقین کے باوجود ان کے لئے کبھی بد دعانہیں کی ،حد یہ ہے کہ طائف کی گلیوں میں جب پائے مبارک لہو لہان ہوئے ،موزے خون سے بھر گئے ،اوباشوں نے آپ کو پتھر مارا ،اس وقت بھی آپ نے ان کے لئے دعائیں کیں ،اے اللہ اس قوم کو ہدایت دے، وہ مجھے نہیں جانتی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ شاید اس قوم سے کوئی فرد دین رحمت میں داخل ہو جائے ،جنگ کے بعد قیدی مسجد کے ستون سے بندھے ہوئے ہیں،بندش کی سختی کی وجہ سے قیدی کراہ رہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے نیند غائب ہے،جب تک بندش ڈھیلی نہیں کی گئی آپ کو سکون نہیں ملا۔
فتح مکہ کے موقع سے سارے دشمن سامنے تھے ،عرب روایات کے مطابق انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا اور غلام بھی بنایا جا سکتا تھا ،لیکن رحمت للعالمین نے اپنی شان رحمت کا مظاہرہ کیا اوراعلان کردیا کہ آج تم لوگوں سے کوئی داروگیر اور مو ¿اخذہ نہیں، تم سب لوگ آزادہو، اتناہی نہیں حضرت ابو سفیانؓ جو اسوقت تک ایمان نہیں لائے تھے، ان کے گھر میں داخل ہونے والے کو بھی امان دے دیا، ہندہ؛ جس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کروایاتھا ان کے کان ناک کٹوائے تھے، کلیجی گردہ کو کچا چبا کر اپنی قسم پوری کی تھی، آپ کی شان رحمت نے اس کو اپنے جلو میں لے لیا، کیا شان رحمت تھی آپ کی،کوئی دوسرا ہوتا تو چن چن کر بدلہ لیتا کہ یہی زمانے کی روش رہی ہے ،آپ نے سب کو معاف کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام دین رحمت ہے ،یہاں امن ہے شانتی ہے،سکھ ہے، چین ہے اور دشمنوں کو بھی معاف کرنے کا وہ جذبہ ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا ۔
انسانوں میں غلاموں اور باندیوں کی زندگی اجیرن تھی، وہ جسم وجثہ کے اعتبار سے انسان تھے ،لیکن ان کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی، ان کی اپنی کو ئی زندگی نہیں تھی وہ آقاہی کے لئے جیتے اور مرتے تھے ،پوری وفا داری اور خدمت کے باوجود انہیں ظلم وستم کاسامنا تھا ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے بھی رحمت ثابت ہوئے،آپ نے مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کا کام کیا ،کبھی فدیہ کے طور پر لکھانے پڑھانے کاکام لے کر، کبھی قسم ،ظہار وغیرہ کے کفارہ میں آزاد کرنے کا حکم دے کر ،عمومی حکم یہ دیا کہ غلاموں کا خیال رکھو ،جو خود کھاﺅ اسے کھلاﺅ،اوراسے ایسا ہی پہناﺅ جیسا تم پہنتے ہو،اس سے طاقت سے زیادہ کام نہ لو ،آپ نے حضرت زیدؓ کے ساتھ حسن سلوک کرکے دکھلایا ،جس کے نتیجہ میں حضرت زید ؓ نے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی بہ نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا پسند کیا۔
عورتوں پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سایہ فگن ہوئی تو حکم دیا کہ عورتوں سے بہتر سلوک کرو،وہ تمہارے ماتحت اور تمہارے حکم کی پابند ہیں ،تم دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں، کسی کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے،اور حسن سلوک کے ساتھ ان سے پیش آﺅ،اگر تم امساک بالمعروف نہ کر سکو تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرکے چھوڑ دو،تاکہ وہ اپنی زندگی اپنے انداز میں جی سکیں یا دوسری شادی کر کے نئے سفر کا آغاز کر سکیں ،زمانہ ¿ جاہلیت میں بیوہ عورت منحوس سمجھی جاتی تھی ،آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر امت کو پیغام دیا کہ بیوہ اور مطلقہ عورتیں منحوس نہیں ہیں ،شوہر کے مر جانے اور بعض دفعہ نباہ نہ ہونے سے طلاق پڑ جائے تو ان کی دلجوئی ،خبر گیری کی جتنی شکلیں ممکن ہیں، اختیار کی جائیں اور انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔
آپ نے بچوں پر رحم کرنے کا بھی حکم دیا ،ان کی اچھی تعلیم وتربیت پرجنت کی بشارت دی ،ان کا نفقہ باپ کے سر رکھا، تاکہ انہیںبال مزدوری سے بچایا جائے،اور ان کے بچپن کی حفاظت کی جاسکے ،ان کے اچھے نام رکھنے کی تلقین کی اور بچوں کو بے سہارا چھوڑنے کو پسند نہیں فرمایا ۔انہیں جینے کا حق دیا اور ان کو روزی میں تنگی کے خوف سے ہلاک کرنے سے منع فرمایا۔
یتیموں کی کفالت کو کار ثواب قرار دیا اور فرمایا کہ میں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا ہاتھ کی دو متصل انگلیوں کی طرح قیامت میںساتھ ہوں گے،خود آپ نے یتامیٰ کی سر پرستی کی اور عید کے دن ایک روتے بچے کو گلے لگا کر ہمیں سبق دیا کہ ان کی کفالت کی فکر کرو ،ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو ،یہ ہاتھ رکھنا قیامت میں تمہیں کام آئے گا ۔
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت جب جانوروں کی طرف متوجہ ہوئی تو بلا وجہ انہیں ہلاک کرنے سے منع کیا، اگرگوشت کھانے کے لئے انہیں ذبح کرنا ہے توایسا طریقہ اپناﺅ کہ اسے کم از کم تکلیف ہو،اگر جانور نقل وحمل کے لئے رکھے گئے ہوںتو اس پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو،ایک اونٹ کی بلبلاہٹ سن کر آپ سمجھ گئے کہ اس کامالک اس پر زیادتی کرتا ہے ،اونٹ کے مالک انصاری صحابی کو بلا کر فرمایا کہ اللہ رب العزت نے ان جانوروں کو تمہارا محکوم بنایا ہے؛اس لئے ان جانوروں پر رحم کرو،نہ توا نہیں بھوکا رکھو ،اور نہ ہی ان کی طاقت سے زیادہ کام لو،ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑ لیا ،چڑیا چِلّانے لگی ،آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کو ان کی جگہ پر رکھ آو ¿،آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک فاحشہ نے اپنے موزہ میں بھر کر کتے کو پانی پلایا تواس کی بخشش ہو گئی،اور ایک عورت نے بلِّی کو باندھ کر رکھا ، کھاناپینا نہیں دیا ،بالآخر وہ مر گئی تواس عورت کو اسکی وجہ سے اسے جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ،یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جانوروں پرآپ کی شفقت و رحمت کس قدر تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ،تم زمین والوں پر رحم کروآسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو” فساد فی الارض “کے قبیل سے ہے۔ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں،رحمة للعالمین ہونے کا سب سے بڑا مظاہرہ قیامت کے دن ہوگا، جب سارے انبیاءکرام بخشش کے لیے سفارش اور شفاعت سے انکار کردیں گے ، سارے انسان پریشان ہوں گے، ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پیسنے میں ڈوبا ہوگا، نفسی نفسی کا عالم ہوگا، نہ بیٹا باپ کا ہوگا، نہ بیوی شوہر کی ہوگی، ہر آدمی سراسیمہ اور حواس باختہ ہوگا، ایسے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم امت کی شفاعت کے لیے بار گاہ الٰہی میں سر بسجود ہوں گے اور وہ سب کچھ مانگیں گے جو اللہ رب العزت ذہن ودل میں ڈالیں گے اور پھر خوش خبری سنائی جائے گی کہ گناہگاروں کو بخش دیا گیا اور جس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ اس شفاعت سے سوئے جنت روانہ ہو سکے گا، اس طرح آپ کی رحمت سے اللہ کی مخلوق دنیا میں بھی مستفیض ہو رہی ہے اور آخرت میں بھی شفاعت کام آئے گی۔

پیر, ستمبر 25, 2023

پروفیسر نجم الہدیٰ __ہم تجھے بھلا نہ پائیں گے
  مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
Urduduniyanews72 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
علم وعمل ، صلاحیت وصالحیت ، تواضع وانکساری، خوش خلقی وسادگی ، ذہانت وطباعی، حاضر دماغی وحاضرجوابی، خود داری ومتانت، محبت رسول، خشیت خدا وندی اور حضرت ابو ہریرہؓ کی کنیت کی وجہ ظاہری کے ساتھ گداز جسم ، کشادہ پیشانی ، آنکھیں بڑی ، چشمے سے سجی، ناک کھڑی ، گیسو کا نوں کا بوسہ لیتے ہوئے ، متبسّم چہرے پر خوبصورت شرعی ڈاڑھی، رنگ گندمی مائل بہ سر خی ، پاؤں میں موزے پر خوبصورت جوتے، پینٹ شرٹ یا شروانی ، کرتا ، پائجامہ ، ٹوپی یہ حلیۂ ظاہری اوراوصاف باطنی کسی آرٹسٹ، مصور اور مجسمہ ساز کو دیدیجئے جو تصویر ابھرے ، جو مرقع بنے اورجو پیکر ڈھل کر آئے اس کو سامنے رکھیے تو آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ یہ تو ہم سب کی محبوب شخصیت ، استاذ ، شاعر، ادیب اور نقاد پروفیسر نجم الہدیٰ کی تصویر، مرقع اور مجسمہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں جب اعلیٰ اخلاقی اقدار کو شکست وریخت کا سامنا ہے ، آدمی کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انسانیت خطرے میں ہے، پروفیسر نجم الہدیٰ کی شخصیت اس پرانی وضع کی یاد دلاتی تھی ، جس میں خلوص ومحبت کی فراوانی تھی اور جن کو دیکھ کر انسانیت پر اعتماد قائم ہوتا تھا اور احساس ہوتا تھا کہ   ؎
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں 
پروفیسر نجم الہدیٰ (ولادت۲؍ اگست ۱۹۳۷ء) بن نور الہدیٰ ضبطؔ بن صاحب رضا بن محمد حسین نے اپنے نانا خان بہادر محمد جان صاحب ایڈوکیٹ کے گھر موتی ہاری میں آکھیں کھولیں ، ان کی ولادت سے قبل کئی بھائی صغرسنی میں دنیا سے جا چکے تھے ، اس لیے فطری طور پر نجم الہدیٰ کی پرورش انتہائی ناز ونعم میں ہوئی ، رسم بسم اللہ والدہ نے ادا کرائی اور قاعدہ بغدادی انہیں سے پڑھا ، ابتدائی تعلیم کے لیے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان میں محمد ہاشم اور حافظ امین الدین کے نام قابل ذکر ہیں ، انگریزی کی تعلیم کا آغاز والد محترم نور الہدیٰ ضبطؔسے کیا ، اور زبان کا درک وشعور ماسٹر عبد الباری اور ماسٹر اسرار الحق صاحب کی توجہ سے حاصل ہوا ، ہائی اسکول کی تعلیم شروع تو عابدہ ہائی اسکول مظفر پور میں ہوئی، لیکن والد کے بسلسلۂ ملازمت تبادلہ کی وجہ سے میٹرک کا امتحان ضلع اسکول بھا گل پور سے پاس کیا ، ۱۹۵۴ء میں انٹر ٹی،ان بی کالج بھاگلپور اور ۱۹۵۶ء میں ال، اس کالج مظفر پور سے بی ۔ اے آنرس اردو میں کیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی ، میرے والد محترم ماسٹرمحمد نور الہدیٰ یہیں ان کے رفیق درس رہے ،جس کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ’’مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ۔بڑے عالم ، بڑے ادیب ‘‘ میں کیا ہے ، رفاقت کی یہ یادیں آج بھی پروفیسر صاحب کے ذہن میں تازہ تھیں اور اس حیثیت سے مجھے عزیز رکھتے ہی نہیں، لکھتے بھی تھے۔ 
ایم اے کی تعلیم کے لیے وہ پٹنہ منتقل ہو گیے، ۱۹۵۸ء میںا نہوںنے پٹنہ یونیورسٹی سے ام ، اے کیا اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، کلیم عاجز اور مظفر اقبال یہاں ان کے ہم درس تھے دونوں نے علی الترتیب پہلی دوسری پوزیشن پر قبضہ کر لیا ، بعد میں انہوںنے بہار یونیورسٹی سے ام اے فارسی ۱۹۴۱ء میں کیا اور گولڈ مڈلسٹ قرار پائے، ۱۹۷۱ء میں اسی یونیوسٹی سے ال، ال، بی کیا اور ۱۹۷۳ء میں پروفیسر اختر قادری کی زیر نگرانی ’’اردو مثنویوں میں کردار نگاری‘‘کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
تلاش معاش میں وہ مختلف جگہ کے چکر کاٹتے رہے ، بالآخر قرعۂ فال ۱۹۶۱ء میں ملت کالج دربھنگہ کے نام نکلااور وجہ ظاہر پروفیسر اجتبیٰ رضوی کے اس شرط کی تکمیل ٹھہری کہ’’ تم فارسی میں فرسٹ کلاس فرسٹ لے کر آؤ اور اردو فارسی کے لکچرر بن جاؤ‘‘، نجم الہدیٰ صاحب نے یہ کر دکھایا اور ان کی ملازمت پکی ہو گئی ، کالج میں تدریس کے علاوہ یہاں وہ صحافت سے بھی وابستہ ہوئے اور قومی تنظیم دربھنگہ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ، ۱۹۶۲ء میںبہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ال، اس کالج مظفر پور میں لکچررکی حیثیت سے تشریف لائے، ۱۹۷۲ء میں لکچرر سے ریڈر کے عہدہ پر ترقی ہوئی، ۱۹۷۷ء میں انہوں نے کالج سے طویل فرصت لے لی اور مدراس یونیورسٹی کا رخ کیا، یہاں شعبہ عربی ، فارسی اردو میں ریڈر کی حیثیت سے کام سنبھالا، بعد میں صدر شعبہ ہو گیے اور اس شعبہ کو علمی دنیا میں اعتبار واعتماد بخشا ، بارہ سال تک مستقل یہاں مقیم رہے ، یہ دور پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کی شخصیت کی تشکیل میں بڑا اہم ہے ، توانائی ، فرصت وفراغت کا صحیح اور بھرپور مصرف لے کر انہوںنے علمی اکتسابات ، تنقیدی مقالات اور انجمن ترقی اردو کی خدمات کے ذریعہ علمی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا ، یہی وجہ ہے کہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو جب اپنی فرصت کی تکمیل کے بعد وہ مدراس سے روانہ ہوئے تو ان کی جدائی پر سارا شہرہی نہیں ؛پورا تامل ناڈوسوگوار تھا 
یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کو پروفیسر صاحب نے بہار یونیورسٹی میں شعبۂ اردو جوائن کر لیا ، بعد میں وہ اس شعبہ کے صدر قرار پائے، ۳۱؍ اگست ۱۹۹۸ء کو وہ ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز کی حیثیت سے سبکدوش ہوگیے ، اس دوران انہوں نے بہت نشیب وفراز دیکھے ، بعض معاملات میں عدالتوں کے چکر بھی لگانے پڑے ، ان کی تقویم حیات میں ۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ اور ۲۱؍ فروری۱۹۷۲ء کا دن انتہائی غم ناک ہے جب ان کی والدہ اور والد نے اس دنیا سے رخت سفر باندھا ، خوشی کے ایام بھی بہت آئے ، لیکن ۱۹۷۱ء کا سال اس اعتبار سے مسرت آگیں کہ اسی سال جناب عبد المغنی صدیقی (م۲۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء) ساکن ابا بکر پور کواہی ویشالی کی صاحب زادی ماجدہ صدیقی سے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہوئے ، یہ شادی اصطلاحی طور پر ثمر آور تو نہیں ہو سکی لیکن اس رشتہ سے ان کی زندگی میں محبت والفت کے نئے باب کھلے ، سکون وطمانینت نے خیمے ڈالے ،جس کی وجہ سے علمی کاموں کے کرنے کی فضا برابر ہموار رہی۔
ضابطہ میں پروفیسر صاحب سبکدوش ہوگیے تھے ، لیکن ایمان والا کبھی سبکدوش نہیں ہوتا ، وہ صاحب عشق ہوتا ہے ، اور مکتب عشق میں کبھی چھٹی نہیں ہوتی؛ بلکہ جو سبق یاد کرتا ہے اس کی مشغولیت اور بڑھ جاتی ہے ، پروفیسر صاحب بھی مشغول تھے، ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے ؛بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے رواں تھے ، ادب اور تنقید نگاری کے ساتھ ذکر وفکر کا اضافہ ہو گیا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے ہر دور میں ان سے لگا رہا تھا۔ ذکر کے ساتھ تصوف کے مراحل طے ہو رہے تھے اور اب صورت حال یہ تھی کہ ؎
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا 
اور پروفیسر صاحب ، بزبان حال یہ کہتے رہتے تھے کہ ؎ 
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی 
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
ادب شاعری اور تنقید کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور عمیق بھی ، شاعری انہوںنے دور طالب علمی سے شروع کیا تھا، خاموشی سے لکھتے رہتے تھے، اصلاح لینے کا شوق نہیں تھا ، تلمیذ الرحمن بن کر ہی رہنا چاہتے تھے ، لیکن والد گرامی قدر جو خود بھی شاعر تھے ، انہیں بھنک لگ گئی ، خود اصلاح کرنے لگے اور چھپوا نے کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا ، اس طرح پروفیسر صاحب کی تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں ، حمد ، نعت، غزلیں ، نظمیں سبھی صنف میں انہوں نے طبع آزمائی کی ، لیکن ان کا کوئی مجموعۂ کلام اب تک سامنے نہیں آسکا ہے ، رسائل میں بکھرے ان قیمتی سرمایوں پر نقادوں کی نظریں بھی کم پڑیں ، اس لیے ان کی شاعری کے قدروں کی تعیین ہنوز نہیں ہو سکی ہے ، ڈاکٹر ثریا جہاں نے اپنے پی اچ ڈی کے مقالے میں ان اشعار کو جمع کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل قدر ہے، ظاہر ہے یہ کل سرمایہ نہیں ہے ، لیکن جتنا کچھ جمع ہو گیا ہے ؛ اس پر نظر ثانی اور ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ شائع کر دیا جائے تو یہ بھی بڑا کام ہوگا اور ادبی سرمایہ میں قیمتی اضافہ بھی۔
جو شعری سرمایہ سامنے آیا ہے ،اس کے بارے میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ پروفیسر صاحب کی شاعری میں فرد کی ذاتی زندگی غالب ہے، غم والم کی وہ کیفیت جس سے انسانوں کو ذاتی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے ، چاہے وہ محبوب شخصیتوں کی جدائی کا غم ہو ، یا عشق ومحبت میں ناکامی کا ، زندگی کی شاہ راہ پر بے وفائی کے صدمے ہوں ، یا ملازمت ومنصب کی کش مکش ، سبھی کی نمایاں جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے ، لیکن یہ داستان رقم کرتے وقت انہیں اپنی عزت نفس کا بھی خیال رہتا ہے اور محبوب کی عزت وناموس کا بھی ، اس لیے ان کے یہاں چاک گریباں اور دامن تار تار کرنے کی نوبت کبھی نہیں آتی ، الفاظ اتنے جنچے تُلے ہوتے ہیں کہ واردات قلبی اور کیفیات باطنی کے اظہار میں کمی نہیں رہ جاتی ؛ لیکن ہر حال میں ان کا محبوب مستور رہتا ہے ، کھل کر سامنے نہیں آتا ، اس کے سراپا پر ایک چلمن ہوتا ہے اور قاری کو لگتا ہے کہ پروفیسر صاحب کا محبوب چلمن سے لگا بیٹھا ہے ، تصورات کی دنیا میں ہم اپنے اپنے طور پر اس کا سراپا کھینچ سکتے ہیں ، لیکن پروفیسر صاحب اس کا سراپا کھینچ کر اسے سر عام بر ہنہ اور رسوا نہیں کرنا چاہتے ، یہ ان کی خرابی نہیں ، فن کی تکنیک ہے ، ان کی پر اثر خاموشی بھی افشاء راز کا کام کرتی ہے اور یہ خاموشی’’گفتنی‘‘ اور بے زبانی ’’زبان‘‘ بن جاتی ہے پروفیسر نجم الہدیٰ کی شاعری میں فن کاری ، جمالیاتی شعور اور تجربے کی پختگی کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کی حمد میںجو خیالات ہیں اور نعتوں میں جو فکر ہے ، وہ ان کی اسلامی بصیرت ،رموز کائنات میں غیر معمولی غور وفکر کا نتیجہ ہے ، قرآن نے آفاق وانفس میں غور وفکر کی جو دعوت دی ہے ، اس کو پروفیسر صاحب نے برتا ہے اور اس برتنے کے نتیجے میں جہاں تک پہونچے وہ اشعار میںڈھل گیے ہیں ۔ اظہار عبدیت اور بندگی کا ایسا حسین انداز کم شاعروں کے یہاں ملتا ہے ۔ وہ جب نعت رسول لکھتے ہیں تو انہیں نبوت کے مقام عالی کا پورا پورا خیال رہتا ہے ، وہ نبوت کے سرے الوہیت سے نہیں ملاتے ، بلکہ دونوں کے مدارج کا خیال رکھتے ہیں ، نعت نگاری میں یہ پل صراط سے گذر نے جیسا عمل ہے ، بعض اشعار کو نظر انداز کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پروفیسر نجم الہدیٰ نے یہ مشکل کام آسان کر دکھایا ہے ۔ 
پروفیسر نجم الہدیٰ کی شہرت ومقبولیت کا آفتاب شاعری سے نہیں ، تنقید نگاری سے چمکا ، فن تنقید اور تنقیدی مضامین (مطبوعہ۱۹۶۶) مسائل ومباحث ، کردار اور کردار نگاری اور بہت سارے دوسرے مقالے مثلا غالب کا فن ، فکر اقبال کا محور ۔ آفاقیت وعصریت کے تناظر میں ، انیسؔ کا اسلوب وآہنگ ، اقبال۔ بانگ درا کے آئینے میں ، ان کی تنقیدی بصیرت اور عملی تنقید کی آئینہ دار ہیں ، وہ اپنی بات عالمانہ سنجیدگی سے اٹھاتے تھے اور علمی وقار کے ساتھ اختتام کو پہونچاتے تھے ، پوری زندگی کسی خاص نظر یے صفت تحریک اور گروہ بندی سے دور رہنے او ر عدم وابستگی کی وجہ سے قاری پر ان کے خلوص کا گہرا اثر پڑتا تھا ، ان کی تخلیقات پروپیگنڈے کی صفت سے خالی ہے ، جو وہ محسوس کرتے تھے اپنے مخصوص انداز میں قلم بند کر تے تھے ، نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
ایسے با فیض، با وقار اور محبوب شخص کا دنیا سے چلا جانا علمی اور ادبی میدان کا بڑا خلا ہے اور یہ ہم سب کے لئے محرومی کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور۲۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار بوقت ساڑھے نو بجے شب اپنے مکان واقع چندوارہ مظفر پور میں ان کے رشتہ داروں، شاگردوں اور متوسلین کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

جمعرات, ستمبر 21, 2023

تشریف محمد لےآئے

*تشریف محمد لےآئے*
اردودنیانیوز۷۲ 

  عمرو بن لحی نام کا ایک آدمی جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھاوہ منصب وعہدہ کا بڑاحریص تھا،اس نے خانہ کعبہ کے عہدہ" متولی" کو حاصل کرنے کے لیےجنگ کا سہارا لیا ، قبیلہ جرہم کے لوگ جو صدیوں سے خانہ کعبہ کی خدمت پر مامور تھے انہیں شکست دے کر خود کعبہ کا متولی بن گیا، اس کے بعد بلقاء گیااور وہاں سے ایک بت لاکر خانہ کعبہ میں داخل کردیا، روئے زمین پر خدا کا پہلا گھر اور توحید کے اس مرکز کو اس شخص نےبت خانہ اور مندر میں تبدیل کردیا،خدا کے اس گھر میں بت دیکھ کراہل عرب نے بتوں کو ہی خدا بنالیا، رفتہ رفتہ بت پرستی عرب کے ہر قبیلے اور ہر خاندان  تک پہونچ گئی،بقول شاعر؛ 
           قبیلہ قبیلہ کا بت ایک جدا تھا، 
          کسی کا ہبل تھا، کسی کا صفا تھا۔
 اس کےبعد وہ وقت بھی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سرزمین عرب میں کفر وشرک کا بازار لگ گیا ہے،توحید کے مرکز خانہ کعبہ سے کفر وشرک کی اشاعت ہورہی ہے ،پورا عرب کفرستان بن گیا ہے، ایک خدا کی جگہ سینکڑوں خداؤں کے لوگ قائل ہوگئے ہیں، کفر وشرک کے وائرس نے عرب میں ہر طرح کی گندگی پھیلا دی ہے،
تاریخ وسیرت کی کتابوں میں یہ باتیں محفوظ ہیں؛بےشمار بتوں کی پوجا کی بدولت اہل عرب نےخدا کےبھی  خاندان بنادیے،فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنےلگے،جنوں کی خدا سے رشتہ داریاں جوڑ دیں، ہر چمکنے والی چیز کو دیوتا سمجھتے لگے،ستاروں کی پوجا شروع ہوگئی، سورج اور چاند کی عبادت ہونےلگی، بھوت وشیاطین اور جنوں کی طاقت کے سامنےسبھی سجدہ ریز ہوگئے، عرب قوم جو کبھی کسی حکومت کے زیر اثر نہیں رہی تھی،اب آسانی سے شیطانین کی غلامی اور بندگی میں چلی گئی، عرب کے چپہ چپہ پرکاہنوں کی دکانیں کھل گئیں ، ان کی توہم پرستی کایہ حال تھاکہ زہریلے سانپ کونہیں مارتے،اور درندگی کا حال یہ تھا کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی گردن کاٹ لیتے، نشہ اور شراب میں ڈوب گئے اور ہر گھر میخانہ بن گیا ، قمار بازی فخر کی بات سمجھی جانےلگی، جوئے میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہارجاناان کے نزدیک کوئی عار کی بات نہیں تھی،سود خوری کا عام رواج ہوگیا، رہزنی اور ڈکیتی کو پیشہ سمجھا جانے لگا، رات دن کے اس شغل نے عرب کو درندہ بنادیا ، زندہ جانور کے کوہان کو کاٹ لیتے، پیٹ چاک کرکلیجہ نکال لیتےاور اس کا کباب بناکر خوب مزے سے کھاتے، زنااور فسق وفجور عام ہوگیا، عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ کون سا ظلم ہے جو کیا نہیں جاتا، لڑکی پیدا ہوتی تو گڑھا کھود کر اسمیں وہ زندہ گاڑ دی جاتی، یہ معاملہ بت پرستی سے شروع ہوااور اپنی انتہا کو پہونچ چکا،اب ایسا خیال کیا جارہا تھا کہ ہلاکت  سے اس قوم  کو کوئی نہیں  بچا سکتا ہے، ایسے  میں آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری  ہوئی،۹/ربیع الاول روز دوشنبہ مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء میں آپ کی ولادت ہوئی، (سیرت النبی ۱۰۹/۱)                                                        ماہر القادری نے کتنی مہارت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور اورآمد کےبرکات وانوار کو اپنے اشعار میں نظم کیا ہےملاحظہ کیجئے؛
کچھ کفرنےفتنے پھیلانےکچھ ظلم نےشعلے بھڑکائے
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی انسان سےانساں ٹکرائے
  پامال کیا، برباد کیا، کمزوروں کو طاقت  والوں نے
 ظلم وستم جب حدسےگزرے تشریف محمد لےآئے

اللہ سے رشتہ کو جوڑا،باطل کے طلسموں کو توڑا
وقت کےدھارےکوموڑا،طوفاں میں سفینے تیرائے

مظلوموں کی فریادسنی، مجبوروں کی غمخواری
 کی
زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا
شیشوں میں نزاکت پیدا کی ،کردار کے جوہر چمکائے،
توحید کا دھارا رک نہ سکا، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا
کفار بہت کچھ جھنجھلائے، شیطاں نے ہزاروں بل کھائے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو پہلے کفار ومشرکین نے ہلکے میں لیا، آپ پر نازل شدہ کتاب الہی قرآن کو جادوکہا ، آپ جادوگر کے لقب سے پکارے گئے، مگر جب تمام اہل عرب  اس خدائی طاقت اور آخری رسول کی دعوت کی طرف بڑھنے لگےاور قبول بھی کرنے لگے تو کفار کو خوف پیدا ہوا کہ اب بتوں کی خیر نہیں ہے، عمرو بن لحی کی کوشش بیکار چلی جارہی ہے، باہم مشورہ کے بعد ایک ڈیلیگیشن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے سمجھوتہ کی پیشکش کی، کہ اے محمد آپ اور ہم میں کوئی دشمنی نہیں ہے،بس معاملہ آکر بتوں پراٹک جاتا ہے کہ آپ انہیں برا بھلا کہتے ہیں ،ان کی عبادت سے لوگوں کو روکتے ہیں، کچھ آپ اپنے موقف سے نیچے آئیں، کچھ نیچے ہم لوگ بھی اترتے ہیں، آپ ہمارے معبودوں کی عبادت نہیں کرسکتے ہیں مگر احترام تو کر ہی سکتے ہیں ، ہم آپ کے اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہیں، مگر آپ ہمارے بتوں کا خیال رکھیں اور احترام کریں، اس طرح ہم دونوں کمپرمائز کرلیتے ہیں، کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
یہ پیشکش خدا کو اتنا ناگوار ہوا کہ سخت لہجے میں قرآن کے اندر ایک مکمل سورت" الکافرون " کے نام سے نازل فرمادی، اور اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ، اے محمد آپ یہ دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیجئے ؛
"اے منکرو! میں عبادت نہیں کرتا ان کی جنکی تم عبادت کرتے ہو۔اور تم عبادت کرنے والے نہیں ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور میں کبھی عبادت کرنے والا نہیں تمہارے معبودوں کی، اور تم بھی قطعا عبادت کرنے والے نہیں میرے وحدہ لاشریک لہ معبود کی، تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ،(سورہ الکافرون)

قرآن کریم نے کفار ومشرکین کےاس سمجھوتہ کو مسترد کردیا،کہ ایسا معاہدہ کبھی انجام نہیں پاسکتاہے ،مذہب اسلام میں ایک خدا کی عبادت کی جاتی ہے، اسی ایک اللہ کی دعوت دی جارہی ہے،اور دوسری طرف ہزاروں دیوی دیوتا ہیں، جنکا کوئی شمار نہیں ہے،دراصل ہر طرح کی برائیاں تو کفر وشرک سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اہل عرب کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے، ہمارا اور تمہارا راستہ بالکل جداجدا ہے، ایسے میں بتوں کے معاملے میں مذہب اسلام کا کوئی کمپرمائز نہیں ہوسکتا ہے،ایسے سمجھوتہ کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔اس قرانی موقف کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں سامنے آگیا،اور دنیا نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ مکہ فتح ہوگیا ہے،خانہ کعبہ  بتوں سے صاف ہوگیا ہے،ساتھ ہی پورے عرب سےبھی بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر پہلے کعبہ شریف میں تشریف لے گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی،اس سے اشارہ کرتے اور بت منھ کے بل گر پڑتا تھا، زبان مبارک پر قرآن کی آیت جاری تھی؛حق آیا اور باطل مٹ گیا، باطل مٹنے کے لئے ہی آیا تھا، (سورہ بنی اسرائیل ۹)

یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے،اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، صحیح روایت کے مطابق اس مہینہ کی نویں تاریخ بروز سوموار آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے ہیں، یہ حسن اتفاق ہے کہ اس مہینہ کی نویں تاریخ کو دن سوموار ہی کا ہے،ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے اور تبلیغ دین کا جو فرض ہمارے کندھے پر ہے،اس کا احساس کرتے ہوئے یہ عزم کرنا ہے کہ دین اور توحید کے معاملے میں ہم کسی طرح کا کوئی کمپرمائز نہیں کریں گے۔یہ ماہ ربیع الاول کا سب سے بڑا پیغام ہے، موجودہ وقت کی یہ شدید ضرورت بھی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے ایک مسلم وزیر کی تصویر سوشل میڈیا میں نظر سےگزری ،انہوں نےاپنی شکل وصورت ایک مہنت جیسی بنارکھی ہے،اور شیو لنگ پرموصوف جل ابھیشک کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،یہ کمپرمائز نہیں تو اور کیا ہے؟اس طرح کام  بالخصوص مسلم  سیاسی لیڈران ووٹ کی خاطر کرتے رہتے ہیں جبکہ مذہب اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ ایمان وعقیدہ کے منافی عمل ہے۔
 آج پھر عمرو بن لحی نئے روپ میں ہمارے سامنے آگیا ہے،اب خانہ کعبہ نہیں بلکہ ہر خانہ خدا اس کے نشانہ پر ہے،بالخصوص ان تاریخی اور مرکزی مساجد میں بت رکھنے کی پھر آج منظم کوشش ہورہی ہے،جہاں سے بت پرستی کو پورے ملک میں فروغ دیا جاسکے،وطن عزیز میں اس وقت ہر مرکزی مسجد کو مندر میں بدلنے کی سعی ہورہی ہے، اس کا واحد مقصد توحید کےان ذیلی مراکز کو ختم کرنا اوربت پرستی کو فروغ دینا ہے۔
اس وقت ہمیں یہ عزم لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیں گے اور شیاطین کی عبادت کسی حال میں نہیں کریں گے، اس کے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے دعوتی فرائض انجام دینے ہوں گے، ارشاد ربانی ہے؛
وہ رسول ان (ان پڑھوں)کو خدا کی آیتیں سناتا اور ان کو سنوارتااور ان ان کو کتاب وحکمت سکھاتا ہے(سورہ جمعہ )
مذکورہ قرآنی آیت میں اللہ رب العزت نے نبی کے تین کام بتلائے ہیں، خدا کی کتاب کو پڑھنا اور سنانا، شرک کی نجاست سے پاک کرنا،اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا، یہی وہ تین چیزیں ہیں جن کی بدولت عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوا ہے، موجودہ وقت ہمیں قرآن کے پیغام کو عام کرنے، شرک وبت سے بچنے اور بچانے،کتاب وسنت کی اشاعت کے لئے جانی ومالی قربانی پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے، 
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں،آپ کا ظاہری وجود ہم سے چھپ گیاہے مگرآپ  کی تعلیم زندہ ہے،اور آپ کی دعوت سراسر زندگی کا نام ہے، اپنی وفات سےپہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجودگی درج کراتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے؛میں دواہم چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کرجارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے۔

 ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
و جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

بدھ, ستمبر 20, 2023

حضیر احمد رح

حضیر احمد خان ؒ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
-----------------------------------
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ویشالی کی کمیٹی کے رکن ،جماعت اسلامی اور اوقاف کمیٹی ضلیع ویشالی کے سابق ذمہ دار، جمعیت شباب اسلام بہار کے سابق رکن اور اس کے سہ ماہی ترجمان طلوع فکر کی مجلس مشاورت کے سابق رکن اور مختلف ملی وسماجی کاموں میں مضبوط حصہ داری نبھانے والے جناب حضیر احمد خان بن شفیع عام خان (م۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۵) بن محمد حسن خان بن مولوی منعم خان آبائی وطن اسعد پور مجھولی ، حال مقیم باغ ملی حاجی پور نزد قدیم جامع مسجد کا ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء مطابق ۸؍ رمضان ۱۴۴۳ھ جمعہ کی نماز کے لیے وضوء کرتے ہوئے دن کے کوئی ۱۲؍ بجے انتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز یکم اپریل کو بعد نماز ظہر اردو مڈل اسکول باغ ملی میں ادا کی گئی،  نماز کی امامت مدرسہ محمدیہ مروت پو، مہنار ضلع ویشالی کے مہتمم مولانا سیف الاسلام نے کی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، حاجی پور اور اس کے نواح کے مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور انہیںآخری سفر پر روانہ کرنے کے لیے قبرستان تک گیے، اس کے آگے کوئی جا بھی تو نہیں سکتا۔ پس ماندگان میں اہلیہ، عصمت خانم ، پانچ لڑکے ، فیصل شفیع خان ، فہد خان ، اسد خان، انس خان اور اویس خان اور تین لڑکیوں بشریٰ خانم، لبنیٰ خانم اور شاہدہ خانم کو چھوڑا۔
حضیر احمد خان مرحوم کی ولادت ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۰ء کو مروت پور مہنار ضلع ویشالی   نانی ہال میں ہوئی، ان کی والدہ کا نام ثریا خانم اور نانا کا نام عبد السلام خان تھا، ان کے والد حاجی شفیع عالم خان کا آبائی وطن اسعد پور مجھولی تھا، لیکن وہ بسلسلۂ کاروبا ر زیادہ تر کلکتہ ہی میں رہتے تھے، اس لیے حضیر احمد خان کا بچپن اپنی نانی ہال مروت پور میں ہی نانا کے گھر گذرا، ابتدائی تعلیم وتربیت بھی وہیں ہوئی، 1976میں ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد وہ والدکے پاس کلکتہ چلے گئے اور چمڑے کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے 1982تک انہوں نے کاروبار میں اپنے کو مشغول رکھا ، لیکن طبیعت ان کی اس کام میں نہیں لگی، اس لیے وہ دہلی منتقل ہو گیے، وہاں انہوں نے کچھ تجارت شروع کی، لیکن دو سال کی جد وجہد کے بعد ان کو احساس ہوا کہ میں اس تجارت میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا، چنانچہ انہوں نے پھر سے کلکتہ کا رخ کیا اور والد کے ساتھ چمڑے کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے، والد کی جمی جمائی تجارت تھی ، اس لیے یہاں جمنے میں ان کو دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اسی درمیان ان کی شادی مروت پور مہنار رضوان خان صاحب کی دختر نیک اختر عصمت خانم سے ہو گئی اور وہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے برادر نسبتی (بہنوئی) بن گیے۔ 1984سے انہوں نے حاجی پور کو اپنا مستقر بنا لیا اور کنگ شو ہاؤس کے نام سے سنیما روڈ حاجی پور میں ایک دوکان شروع کی جو بہت چلا نہیں کرتی تھی، بہت غور وفکر کے بعد انہوں نے اسی جگہ پر الکٹرونک سامانوں کی بکری کا کام شروع کیا، مزاج مذہبی تھا، ڈی جے اور گانے بجانے کی سی ڈی اور ویڈیو سے ان کو وحشت ہوا کرتی تھی، اس لیے انہوں نے دوکان اپنے لڑکا کے حوالہ کر دیا، اور ملی کاموں میں اپنا وقت دینے لگے، وہ ویشالی ضلع جماعت اسلامی کے 2004سے تاحال ذمہ دار رہے ، اوقاف کمیٹی کے بھی وہ 2017سے 2023تک صدر رہے، جہاں رہے اپنی شناخت کی حفاظت کی، چہرے پر گھنی داڑھی تھی، آخر عمر میں سرخ خضاب لگایا کرتے تھے۔
 مہمان نوازی ان کی بہت مشہور تھی، جب بھی ان کے گھر گیا، بغیر کھانا کھلائے آنے نہیں دیا، ان کا دل احوال زمانہ پر کڑھتا تھا، وہ کبھی قیادت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ، کہتے کہ ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں اور ظاہر ہے ان کے بس کا کچھ تھا بھی نہیں ۔
 ان کے گھر کے قریب ہی مسجد تھی، با جماعت نمازوں کا اہتمام کرتے، جو شریعت پر عامل تھے، دوسروں سے بھی یہی چاہتے تھے، بھائیوں کے درمیان گھریلو تنازعہ کی وجہ سے پریشان رہتے تھے، لیکن بات ہمیشہ عدل وانصاف کی ہی کیا کرتے تھے، نزاعات کے باوجود انہوں نے برادر انہ تعلق کو نبھادیا، بچے سب الحمد للہ کامیاب ہیں، بر سر روزگار ہیں، ایک لڑکا بیرون ملک کا م سے لگا ہو اہے، ضرورت کی ساری چیزیں اللہ نے مہیا کر رکھی ہیں،۔
حضیر احمد خان صاحب سے میرے تعلقات قدیم تھے، وہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب حاجی پور کے برادر نسبتی تھے، اس حیثیت سے ا ن کے یہاں میر آنا جانا ہوا کرتا تھا، علماء کے قدر داں تھے، معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی کے ناظم قاری بدر عالم مرحوم سے ان کا یارانہ تھا، وہ ان کی ہر خوشی وغمی میں برابر کے شریک رہا کرتے تھے، قاری صاحب بیمار ہوجاتے تو اپنے گھر رکھ کر ان کا علاج کرواتے اور تیمار داری کا پورا حق ادا کرتے، وہ قاری صاحب کے گھر ان کے جنازہ اور ایک بار ان کی بچی کی شادی میں بھی پرسا نیپال گیے تھے، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔
اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول کرکے جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین یا رب العالمین

منگل, ستمبر 19, 2023

اسقاط حمل کی عالمی صورت حال ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اسقاط حمل کی عالمی صورت حال  ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مرکزی وزارت صحت اور خاندانی فلاح کی رپورٹ کے مطابق 1972سے2022تک ہندوستان میں اسقاط حمل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے1972میں صرف 24300خواتین نے اسقاط کرایا تھا، جب کہ 1980میں 384405، 1985میں 538704، 1990میں 581215،1995میں 618373، 2000میں725149،2005میں 721859، 2010میں 657191، 2015میں 721055اور 2022میں 1144634اسقاط حمل کے معاملات سامنے آئے، جو معاملات روپے دے کراسپتالوں میں دبا دیے گیے، اس کے اعداد وشمار تک اس رپورٹ میں رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
 عالمی صحت تنظیم نے سب سے زیادہ اسقاط حمل کرانے والے دس ممالک میں روس(53.7) قزاقستان(35.0) ایسٹونیا(33.3) بیلا روس (31.7)رومانیہ(27.8)یوکرین(27.5)لاتویا(27.3)کیوبا(24.8) چین(24.0)کا ذکر کیا ہے، اس سروے میں ہر سال ایک ہزار عورتوں سے پوچھ تاچھ کیا گیا تھا، دنیا میں ہر سال7.33کروڑ اسقاط حمل کے واقعات ہوتے ہیں۔ ساٹھ فی صد ملکوں میں قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے، اٹھائیس فی صد ملکوں میں اسقاط قانونی عمل ہے۔ 36فی صدی ممالک میں اسقاط کے لیے عدالت جا کر قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ہندوستان ان میں سے ایک ہے، یہاں ایم ٹی پی قانون کے تحت اسقاط کرایا جا سکتاہے۔2017میں نو ججوں کی ایک بینچ نے حمل اور اسقاط حمل کے حق کو دستور کی دفعہ 21اور 19کے تحت زندگی کی آزادی سے جوڑا تھا، لیکن آئی پی سی (IPC)کی دفعہ 312اور313میں اسقاط حمل اور جنین کے قتل کو جرم قرار دیا گیا ہے، اس لیے میڈیکل ٹرینیشن آف پرگنیسی ایکٹ(MTP)کے تحت ہی اسقاط کرانا ممکن ہے، اس قانون کا بے جا استعمال حمل میں لڑکیوں کا پتہ لگا کر نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی لیے الٹراساؤنڈ وغیرہ کے ذریعہ حمل میں جنین کی جانچ بھی غیر قانونی ہے، یہ الگ بات ہے کہ جانچ کرانے والا مٹھی گرم کرنے پر یہ غیر قانونی کام بھی کر گزر تا ہے، شانتی لال شاہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد 1971میں ایم ٹی پی قانون بنایااور 2003میں اس کے ضابطے کو آخری شکل دی گئی تھی2021میں اس میں ترمیم کی گئی اور نئے ضابطے نافذ کیے گیے۔
 اس نئے ضابطہ اور قانون کے مطابق عصمت دری کی متاثرہ اور بیوہ یا نا بالغ لڑکیاں جو حاملہ ہو گئی ہوں دو ڈاکٹروں کی صلاح کے بعد 20سے 24ہفتے تک اسقاط کراسکتی ہیں، 24ہفتہ کے بعد اگر کوئی خاتون اسقاط کرانا چاہتی ہے تو اسے دفعہ 226کے تحت ہائی کورٹ اور دفعہ 32کے تحت سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنی ہوگی اور میڈیکل بورڈ کی صلاح کے بعد اسقاط کی اجازت عدالت دے سکتی ہے، جیسا کہ ابھی حال میں 27ہفتہ کے حاملہ کو آبروریزی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اسقاط کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ آبرو ریزی ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس تکلیف دہ عمل کے نتیجہ میں حاملہ ہونا پرانے زخموں کی یاد دلاتا رہتا ہے، اس لیے متاثرہ کو اس کرب سے نکالنا ضروری ہے۔
جن پانچ ممالک میں اسقاط حمل کاتناسب کم ہے، ان میں پر تگال(0.2)میکسیکو(0.3)قطر(1.2)آسٹریا(1.3) اور ہندوستان (3.1)شامل ہے اور ہندوستان ان ممالک میں سر فہرست  ہے۔
ہندوستان کی جن ریاستوں میں زیادہ اسقاط حمل کیا جاتا ہے، ان کے 2021اور 2022کے اعداد وشمار کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاکھ خواتین میں ہر سال 11لاکھ44ہزار اسقاط کرائے گیے ان کاتناسب مغربی بنگال میں 1.08، مہاراشٹر میں 1.8اور تامل ناڈو1.14واقعات پیش آئے، اسقاط کا 67%طریقہ غیر محفوظ رہا اور روزانہ اس کام کی وجہ سے کم از کم آٹھ عورتوں کی جان جاتی رہی ہے۔ ہندوستان میں ماؤں کے مرنے کی یہ تیسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ یونائیٹڈنیشن پوپلسن فنڈ کی مانیں تو اس غیر محفوظ عمل کی وجہ سے ہر سال تین ہزار عورتوں کی جان چلی جاتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں اسقاط حمل کو روکنے کے لیے مناسب تدبریں کی جائیں تاکہ ماؤں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

دسواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ ٹیم لنک پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

دسواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ ٹیم لنک پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (18/09/2023) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا دسواں نعتیہ مشاعرہ و اصلاح معاشرہ آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر سرپرستی حضرت مولانا فیاض احمد راہی صاحب نعمانی معلم امام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ ارریہ ہیں

زیر صدارت مولانا عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ 
زیر قیادت حضرت الحاج مولانا محمد عارف صاحب قاسمی شیخ الحدیث پانولی گجرات و بانی و مہتمم جامعہ دعوت القرآن فیٹکی جوکی ہاٹ ارریہ ، 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی مقیم حیدرآباد  بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری محمد شہزاد صاحب رحمانی 
نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام ح
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب کو دعوت دی جائے ،  
نعت پاک کے لئے 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 اب تحفظ شریعت کے تعارفی بات کے لئے مولانا محمد واصف صاحب قاسمی مدرس امام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ
 
دوبارہ نعت رسول کے لئے 
قاری محمد دانش خوشحال صاحب مظاہری گڈاوی کو دعوت دی جائے ، 
نعت شریف کے لئے 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ کو دعوت دی جائے  
نعت رسول کے لئے 
جناب سرفراز غزالی صاحب کو دعوت دی جائے 
نعت پاک کے لئے 
جناب فہیم صاحب دھنبادی کو دعوت دی جائے  
تقریر کے لئے مولانا عبدالسلام عادل ندوی ڈاریکٹر سر سید اکیڈمی جوکی ہاٹ ارریہ کو دعوت دیں
نعت پاک کے لئے
مولانا فیاض احمد راہی صاحب نعمانی معلم أمام الہند اکیڈمی جوکی ہاٹ کو دعوت دی جائے  
نعت رسول کے لئے
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر کو دعوت دی جائے 
نعت شریف کے لئے
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی کو دعوت دی جائے 
نعت رسول کے لئے 
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب مولانا شاہد صاحب 
نعت پاک کے لئے 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ و ڈاکٹر محمد کمال الدین صاحب
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 12 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...