Powered By Blogger

پیر, نومبر 13, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
بچوں کی شروعاتی سال ان کی کامیابی کے سب سے مشکل سال ہوتے ہیں زندگی میں سب کچھ سکھینے کی ہمت نھیں سالوں پر منحصر کرتی ہے اس کو ٹھیک سے تیار کرنے کی کئی فائدے ہیں اسکول میں بہتر تعلیم حاصل کرنا اسی مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے تسمیہ جو غیر ہائی اسکول میں اسپورٹس ڈے اور یوم اطفال منایا گیا ۱۳ نومبر کو اسکول میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ذریعہ سجاوٹ کی گئی تھی پروگرام کا آغاز گارڈ آف آنر سے ہوا اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر اور مینیجر سید اعجاز احمد نے ہری جھنڈی دکھا کر پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر درجہ ایل کے جی نے ریپین ڈرل، درجہ یو کے جی نے " بیلون ڈرل ، درجہ اول نے بال ڈرل درجہ دوم نے ” فلاور ڈرل، درجہ سوم نے پام ۔ پام ڈرل ، درجہ چہارم نے فین ڈرل، درجہ پنجم نے فلیگ ڈرل‘، درجہ چھ جی نے بوتل

ڈرل، درجہ چھ بی نے یوگا ڈرل، درجہ سات جی نے "امبریلا ڈرل، درجہ آٹھ جی نے " پینگس ڈرل پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد فائنل ریس میں درجہ ایل کے جی سیمپل ریس درجہ یو کے جی نے بیک ریس، درجہ اول نے " جم پینگ رئیس " درجہ دوم نے " پک دا بینکی درجہ تین نے ” بک ہولڈنگ ریس درجہ چار نے رائٹنگ وانمبر رئیس درجہ ۵ نے ایٹنگ وا بنا ناریس، درجہ چھ جی نے ایٹنگ اسپیڈریس ، درجہ چھ جی نے گلاس ہولڈنگ ریس، درجہ سات جی نے اسپون لیمن رئیسی درجہ سات بی نے کینڈل ریس، درجہ آٹھ جی نے بینگلش گیم اور درجہ آٹھ بی نے

سلو سائیکل ریس میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میوزیکل چیئر، ڈسک تھرو کو کھو، باسکٹ بال، بیڈ منٹن کے فائنل میچ کرائے۔

جمعہ, نومبر 10, 2023

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مدرسہ اسلامیہ نظامیہ گنج گوریہار کی از سرنو تعمیر کی بنیاد علماء کے ہاتھوں ڈالی گئ

مظفر پور١٠/نومبر (نمائندہ)  بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی واسلامی ضرورت ہے ،اسی لیے تمام مسلمانوں پر علم کا حصول فرض ہے۔ہمارے بچے علم نافع کے حصول کے لیے محنت کریں  اور عصری علوم کےذریعہ دنیاوی ضرورت کی تکمیل کریں یہ بھی ایک اہم کام ہے لیکن اس بات کو زندگی کے کسی مرحلہ میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن و احادیث کی تفہیم کا کام بلا واسطہ اللہ رسول سے جڑنے کا کام ہے۔ اور مدارس اسلامیہ کی تعلیم کا یہی مر کز و محور ہے۔ان خیالات کا اظہارملک کے مشہور و معروف اہل قلم، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  و  آل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ،کاروان ادب واردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے  کیا
وہ مظفر پور ضلع کے شکرا بلاک کی مشہور بستی گنج گوریہار میں مدرسہ اسلامیہ نظامیہ کی نئ عمارت کی سنگ بنیاد کے موقع سے مسلمانوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے انہوں نے فرمایاکہ کہ اس مدرسہ کی قدیم عمارت کی بنیاد امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے ہاتھوں ڈالی گئ تھی اور اسی وجہ سے اس مدرسہ کا نام مدرسہ اسلامیہ نظامیہ قرار پایا تھا ،میں اس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں استاد تھا اور حضرت کے ساتھ میری شرکت بھی اس موقع سے ہوئ تھی۔ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ از سرنو سنگ بنیاد کے موقع سے مجھے آپ حضرات نے یاد کیا ہے، مفتی صاحب نے فرمایاکہ مدارس اسلامیہ کا سلسلہ نسب مسجد نبوی کے اس صفہ تک پہونتا ہے جس کے معلم آقا صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور علم حاصل کرنے والے صحابہ کرام کی مقدس جماعت تھی۔ مسجد نبوی میں آج بھی وہ صفہ موجودھے اور مسجد نبوی کے فرش سے اس کی اونچائی یہ بتاتی ہے کہ علم کا مقام ارفع و اعلیٰ ہے ، مفتی صاحب نے اس موقع سے گاؤں میں اتحاد واتفاق کی ضرورت ، کبر و انانیت سے پرہیز اور تواضع و انکساری کو شعار قرار دینے پر زور دیا۔
اس موقع سے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ ہر انسان کے حصہ کا کام اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے اتحاد واتفاق اور حسن اسلوب کے ساتھ اگر سب لوگ کام کریں اور مسجد و مدرسہ کے کام میں بے جا مداخلت نہ کریں تو ان شاءاللہ بڑا سے بڑا کام بآسانی  ہوجائے گا اس موقع پر حافظ حارث رحمانی نے نعت نبی  پیش کیا ،مولانا محمد قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور، مولانا عبد الرحیم بانی و ناظم مدرسہ مجیدیہ رحمانیہ شکری سریا ، مولانا امیر ریاض استاد مدرسہ محبوبیہ چین پور بنگرا ، مولانا غفران و مولانا قمر الدین جامع مسجد گنج گوریہار ،حافظ و قاری تعلیم الدین ، حافظ محمد ذیشان، محمد عطاء الرحمان ، محمد مجیب الرحٰمن ، عبد الحکیم ،محمد انور، ماسٹر آفتاب عالم ، فضل حق ، حاجی معیز الحق،ماسٹر خورشید ،محمد انظار،محمد سرفراز،عبدالسلام،محمد قیصر،ماسٹر شمیم،مصباح الحق
،محمد رمضانی،غلام نبی حافظ،عبدالرافع ،بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی
 ایشن کے صوبائی سکریٹری محمد امیر اللہ نے شرکت کی،اخیر میں مفتی صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

جمعرات, نومبر 09, 2023

بھارتی بنام ہنود

بھارتی یہود بنام ہنود
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️غالب شمس قاسمی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
mohdghalibshams@gmail.com

اسرائیلی صہیونی دہشت گرد دن رات گھروں، ہاسٹلس، ہاسپٹلس، یونیورسٹی اور عوامی مقامات پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کررہی ہے،اب تک 10000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 4800 سو بچے اور 2550 خواتین شامل ہیں،  سی پی جے کی تحقیقات کے مطابق 2 نومبر تک 36 جنرلسٹ اور صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں، اور ہندوستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، 
 مرد و عورت اور بچوں کی ہولناک تصویریں دیکھ کر کسی بھی دل گردے والے کا دل دہل جائے، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، بلکہ اکثر و بیشتر ذرا سا حس اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے، فلسطینی بھائیوں اور بچوں کی لاشیں، چیختی چلاتی خون سے لت پت بے بس تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر بے ساختہ آنکھیں اشکبار ہو جائیں،  آج ہی یہودی دہشت گرد اسرائیل نے المغازی کیمپ پر بمباری کی، جس کی تباہی کے مناظر ناقابل بیان ہیں، پوری دنیا کے مسلمان  اور انسانیت پسند عوام میں بے چینی، اور اضطرارو اضطراب کی کیفیت طاری ہے، لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں یہودی ذہنیت رکھنے والے، اسرائیل نواز، انتہا پسند، تشدد و جارحیت پسند ، فرقہ وارانہ عناصر بڑی بے شرمی سے اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آرہےہیں، جیسے ہی غزہ کی دردناک و ہول ناک تصویریں ٹویٹ( ایکس) پر اپلوڈ ہوتی ہیں، یہ دوکوڑی کے مفکر، نئے ہندوستان کی پرانی سڑی ہوئی کھاد، سنگھی لابی وہاں اسرائیل کے ترجمان بن جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب حماس نے حملہ نے کیا تھا، تو کیوں چپ تھے؟ یہ آنکھ سے اندھے، سمجھ سے پاگل، حقیقی تاریخ سے ناواقف، اور غزہ پٹی کی تباہیوں سے انکھ موندے بس نفرت کی بولی بولتے ہیں، ہندوستانی میڈیا بشمول حقیقت پسند، سیکولر میڈیا بھی اسرائیلی حملوں کو دہشت گردانہ کہنے کے بجائے فقط اسرائیلی حملے کہ رہی ہے، وہیں  فلسطین کی حریت پسند تحریک حماس کا نام لیتے ہوئے دہشت گرد, چرم پنتھی وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں،قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ( فی الحقیقت ان کی دشمنی ان کے منہ سے ٹپک پڑتی ہے، اور جو عداوت ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے)،
ملبے سے ایک بچے کی جان بچنے کے بعد دھول  و خون میں لپٹی تصویر کو یہ نا ہنجار کہتے ہیں کہ اچھا میک اپ ہے، دراصل ان کی ذہن سازی نفرت و عداوت سے کی گئی ہے، مسلم مخالف مواد اور انسانیت دشمن مٹی سے  ان کے وجود کا خمیر تیار ہوا ہے، آر ایس ایس کی سالوں کی محنت کا ناجائز پھل یہ بے ہودہ ہنود سنگھی لابی ہیں، جنہیں مسلمانوں کی مخالفت اور گندی مذہبی سیاست نے اتنا اندھا کردیا ہے کہ اس کے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا، بقول کلیم عاجز 
 اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو 
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے ۔
وہیں دوسری طرف برلن ہو یا واشنگٹن، برطانیہ ہو کہ لندن، اندلس ہو یا سویڈن، بلکہ پوری دنیا اس نسل کشی کے خلاف، یہودی صہیونی ظلم و نسل کشی اور قتل و غارت گری کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، اپنی اپنی حکومتوں سے فلسطینی نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن سب نے اپنی آنکھوں پر اسلام مخالف پٹیاں باندھ رکھی ہے، الجزیرہ چینل کے مطابق کل رات سے بمباری اور میزائل کے حملوں میں اور تیزی آگئی ہے، آسمان میں بم دھماکہ اور میزائل ایسے پھٹ رہے ہیں جیسے خونی دیوالی ہو، 
ناامیدی کی سی ناامیدی ہے، کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن  ہم مسلمان ہیں، ہمارے یہاں ناامیدی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ( رحمت خداوندی سے بس کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں) اور پھر تاریخ کے عروج و زوال ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے، روم کا بادشاہ نیرو کی سفاکی بھی تاریخ نے یاد رکھی ہے، اور پھر اس کا انجام بد بھی، انگلستان کی تاریخ کا ظالم و جابر بادشاہ کنگ جان (King John)،  پول پاٹ (Pol Pot) اور اٹیلا دی ہن (Attila The Hun) بھی تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں، نمرود و فرعون کی جھوٹی خدائی اور بے بسی اللّٰہ نے قرآن کریم میں بیان کردی، اپنے وقت کے سپر پاور قیصر و کسریٰ  کی بربادی بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے، تو پھر یہ صہیونی دہشت گرد اسرائیل ہو ، یا اسرائیل نواز امریکہ، برطانیہ اور جرمنی، انہیں چاہے اپنی طاقت پر جتنا غرور ہو، یا ظلم و جور کا نشہ ہو، سب ان شاءاللہ ایک دن اپنے برے انجام سے تھرا اٹھیں گے بلکہ نیست و نابود ہو جائیں گے، قرآن کریم میں ظالموں کے خلاف اللّٰہ کا کھلم کھلا اعلان اور سچا وعدہ ہے،وعد اللہ حقا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے، واللہ لا یحب الظالمین، ( اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا) وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ( یہ زمانہ کے حوادثات ہیں، جنہیں ہم باری باری قوموں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں) وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ (  یہ نہ سمجھیو کہ اللّٰہ بے خبر ہے ظالموں کے ان اعمال سے جو وہ کررہے ہیں) وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ( ظالموں کو بڑی حد تک مہلت دی جاتی ہے۔ جب کسی طرح باز نہیں آتے تو پکڑ کر گلا دبا دیا جاتا ہے۔ مجرم چاہے کہ تکلیف کم ہو، یا اس کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگ نکلے، ایں خیال است و محال است و جنوں) ۔

منگل, نومبر 07, 2023

اسرائیلی درندگی

اسرائیلی درندگی
اردودنیانیوز۷۲ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

 پوری دنیا میں اسرائیل تنہا ایسا ملک ہے، جو کسی کی نہیں سنتا، اقوام متحدہ کی قرار دادیں، حلیف ممالک کی نصیحتیں ا ور مشورے اس پر اثر انداز نہیں ہوتے، وہ من مانی کرتا ہے اور اس من مانی میں سارے جنگی اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کر درندگی پر اتر آتا ہے، غزہ پٹی میں اسرائیل ان دنوں یہی کر رہا ہے، شہری علاقوں پر حملے اور اسپتالوں کو زمین دوز کرکے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا درندگی کی انتہا ہے، خبر یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ایک اسپتال پر حملہ کرکے اس نے پانچ سو مریضوں کو جن میں بچے، بوڑھے اور عورتوں کی بڑی تعداد تھی، موت کی نیند سلا دیا اور عالمی برادری نے صرف افسوس کرکے کام چلا لیا، اس قسم کے حملوں کو روکنے کے لیے نہ تو کوئی تدبیر کیا اور نہ ہی اسرائیل کو ایسے حملوں سے باز آنے کی تلقین کی، اس کے بر عکس جرمنی اور امریکہ کے حکمراں اسرائیل پہونچ کر اپنی یک جہتی کا اظہار کر چکے ہیں، امریکہ اسرائیل کو ان جنگی جرائم کے لیے ہتھیار بھی فراہم کر رہا ہے،کہنا چاہیے کہ امریکہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی ہی نہیں کر رہا ہے بلکہ عملا جنگً میں شریک ہو گیا ہے، اسرائیل کے لیے اس قسم کی حوصلہ افزائی بہت معنی خیز ہے  اب وہ غزہ میں زمینی حملہ کی تیاری کر رہا ہے، تاکہ وہ حماس کی پناہ گاہوں کو بلڈوزر سے تباہ وبرباد کر سکے، خبر یہ بھی آ رہی ہے کہ حماس کے سر براہ اسماعیل ہانیہ کے خاندان کے چودہ افراد کو اب تک اسرائیل نے شہید کر دیا ہے اور اب حماس کے کمانڈر یحیی سنوار، محمد وہاب ابراہیم المصری عرف الدیف ان کے نشانے پر ہیں، یحیی سنوار دو دہائی سے زیادہ عرصہ تک اسرائیلی جیلوں میں وقت گذار چکے ہیں اور ان کی رہائی اسرائیل کے ساتھ2011ء میں ہونے والے ایک سمجھوتے کے تحت ہوئی تھی، جس میں قیدیوں کو تبادلے کے طور رہا کیا گیا تھا، الدیف حماس کے عسکری ونگ القاسم بریگیڈ یر کے انچارج ہیں اور کہنا چاہیے کہ حماس کی جان ہیں، اس نے 1996میں چار خود کش حملوں کے ذریعہ یروشلم اور تل ابیب کو ہلا کر دکھ دیا تھا۔
حماس کی طاقت اسرائیل کی درندگی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت کم ہے، اور اب اس کی ساری قوت غزہ کے دفاع میں لگ رہی ہے، اس نے پہلے مضبوط حملے میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیے تھے، اس کی خفیہ ایجنسی موساد اور فوجیوں کو منہہ کی کھانی پڑی تھی، کم از کم دو سو یہودی اب بھی حماس کی قید میں ہیں، جس سے وہ قیدیوں کے تبادلے کا کام لے سکتی ہے، حماس کے رہنما خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل کو زمینی جنگ میں بھی شکست دیں گے،حماس کے ساتھ جو ممالک ہیں وہ زبانی جمع خرچ اورا ظہار یک جہتی کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں، ایران کی طرف سے اسرائیل کو تنبیہہ کی جارہی ہے، لیکن وہ میدان میں کود نہیں رہا ہے، ترکی حماس کے ساتھ ہے، لیکن وہ اپنے کو ثالثی کی پوزیشن میں رکھنا چاہتا ہے، اس لیے عملی اقدام سے گریز کر رہا ہے۔مصر پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ ہے، اس نے اپنی سرحد یں غزہ کے شہریوں کے لیے بند کر رکھی ہیں، اسرائیل کے زمینی حملہ کے اعلان پر لاکھوں شہری فلسطین کے جنوبی علاقے میں منتقل ہو رہے ہیں، دوسرے تو دوسرے ہیں، فلسطین کے ایک حصے پر قابض الفتح کے حکمراں محمود عباس کی تو زبان بھی نہیں کھل رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کو اس لڑائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ غزہ کے بعد فلسطین کا ویسٹ بینک ہی اسرائیل کا ہدف ہے، محمود عباس خاموش رہ کر سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں، حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ چراغ سب کے بجھینگے، ہوا کسی کی نہیں، یا پھر بقول شاعر۔
 اس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
 میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
س پورے قضیہ خصوصاََ اسپتال پر حملوں کے بعد جب ویسٹ بینک کی عوام سڑکوں پر آگئی تب محمود عباس کے زبا نمذمت کیلیے کھلی اور انہوں نے ایک اچھی بات یہ کی کہ امریکہ کے صدر سے ملنے سے انکار کردیا۔پھر بھی جو اقدام انہیں کرنے چاہیے تھے اس سے وہ اب بھی اجتناب ہی کر رہے ہیں، اسرائیل کی درندگی کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف عرب ممالک مل کر ایسا وار کریں کہ اس کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے، اس اتحاد کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے، لیکن ''تنگ آمد بجنگ آمد ''پرانی مثل ہے، یہ بھی کہا جا تا رہا ہے کہ'' بلی جب عاجز آتی ہے تو کتے پر جھپٹ پڑتی ہے، ''پتہ نہیں کب تک عرب ممالک'' بھیگی بلی'' بنے رہیں گے اور جھپٹنے کا شعور ان کا کب جاگے گا، یہ بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے، لیکن جب آگ پھیلنے لگے گی تو شاید کچھ ملک اپنا گھر جلتا دیکھ کر صلح، صفائی اور تصفیہ کے لیے آگے بڑھنے کا کام کر سکیں۔
حماس کے ذریعہ رد عمل کے اس حملے میں غزہ کا زیادہ نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے، اسرائیل کی زمینی فوج کے غزہ میں گھسنے کے بعد اس تباہی میں مزید اضافہ ہوگا، لیکن اس حملے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا جو یہ سمجھنے لگی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا یا سرد بستے میں چلا گیا وہ پھر سے منظر عام پر آگیا اور دنیا نے جان لیا کہ فلسطینی اسرائیل کے رحم وکرم پر رہنے کو تیار نہیں ہیں، انہیں بے دست وپا ہو کر زندگی گذارنا قبول نہیں ہے، ایک خود مختار فلسطینی ریاست ان کا خواب ہے، جس کا سب کچھ اپنا ہو اور ان کی یہ حیثیت ختم ہوجائے کہ اسرائیل انہیں اس طرح محصور کرلے کہ دانہ، پانی بجلی تک بند ہوجائے، وہ اس ہدف کو پانے کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں، وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پیر, نومبر 06, 2023

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی
اردودنیانیوز۷۲ 
 پٹنہ/چکیامشرقی چمپارن(پریس ریلیز 6نومبذ ) اصلاح معاشرہ کمیٹی میگھوا مشرقی چمپارن کے زیر اہتمام ایک روزہ عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلعم واصلاح معاشرہ کانفرنس  سے ملک کے معروف اکابر علماء کرام وچترویدی نے خطاب کیا،پروگرام کا آغاز قاری انظار صاحب ثاقبی مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن راجا بازار پٹنہ کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور نعت نبی کا نذرانہ سب سے پہلے ننھا شاعر شاہ عمر سہرساوی نے پڑھا۔ پروگرام کی صدارت حضرت مفتی جنید عالم صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار کررہے تھے اور سرپرستی حضرت مولانا فیاض الدین صاحب قاسمی وحضرت مولانا جمال الدین صاحب قاسمی فرمارہے تھے جبکہ نظامت کے فرائض حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب قاسمی صمدانی علیگ سہرسہ و حضرت مولانا فیاض صاحب اظہری ڈھاکہ مشرقی چمپارن کررہے تھے 
جس میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر،کاروان ادب اور اردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم کی پہلی آیت علم پر نازل فرمائ اس کا مطلب ہے کہ سماج میں جتنی برائیاں ہیں انہیں دور کر نے میں کلیدی کردار تعلیم کا ہےوہ یہاں میگھوا ضلع مشرقی چمپارن میں سیرت النبی واصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھےمفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالہ سے  یہ بات بتائی کہ اس دور میں اگر ہمارے بچے نہیں پڑھ پارہے ہیں تو یہ بے کسی و بے بسی کا معاملہ نہیں ، بلکہ بے حسی کا ہے ،  انہوں نے کہا:تعلیم حاصل کرنے کے لئے غربت و افلاس آج  مانع نہیں ہےدل میں سچی لگن ہوتو راستےخود بخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں انہوں نے میزائل مین اے پی جی عبدالکلام کے تعلیمی دور کا واقعہ نقل کرتے ہوۓ فرمایا کہ انہوں نے کس کس طرح  دشوار گذار گھاٹی سے گذر کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا انہوں نے یہ بھی فرمایاتوجہ کوالٹی اور معیار پر دیجیےاسلیےکہ اگر اندر میں صلاحیت اور کوالیٹی بھری پڑی ہوگی تو دنیا ماننے پر مجبور ہوگی آج ہم صرف رونا روتے ہیں کہ ہمیں تعلیمی میدان اور سرکاری ملازمتوں میں  حق نہیں ملتا ۔کہاں سے ملے؟ جب ہماری کامیابی کا تناسب آئ  ایس آئ  پی اس میں ساڑھے چھ فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا بے،بی پی ایس سی کا اساتذہ بحالی امتحان ہوا اس میں ہماری اردو ، فارسی اور عربی کی بہت ساری سیٹیں خالی رہ گئیں بلکہ المیہ یہ رہا کہ عربی اور فارسی میں صرف انگلیوں پر گننے لائق  امیدوار ہی کامیاب ہو پاۓ  ،مفتی صاحب نے میگھوا کے لوگوں کو تعلیمی میدان میں کام کرنے  پر توجہ دینے کے لئے  درخواست کی۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوۓ مفسر قرآن حضرت مولانا راشد وحید صاحب قاسمی ناظم مدرسہ رفاہ المسلمین سیتاپور لکھنؤ نے سامعین کو بتایا کہ حضرت آدم علی الصلوٰۃ والسلام سے لیکر حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ایک مشن تھی کہ تم خدا کو ایک تسلیم کرلو تم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجاؤگے مرنے کے بعد کی کامیابی یہ ہے کہ تم کو جنت ملے گی اور دنیاوی کامیابی یہ ہے کہ رزق کی تنگی کو اللہ تعالٰی دور کردیں گے اور سکون والی زندگی نصیب فرمائیں گے ۔حضرت مولانا و مفتی جنید صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار وصدر جلسہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اصلاح مستورات کے حوالے سے کہ اگر عورتیں چار کام کرلے تو جنت میں داخل ہو گی ۔نماز کی پابندی ،روزہ کی پابندی ،شوہر کی اطاعت ،اپنی عزت کی حفاظت ‌۔حضرت مولانا محمد نظر الہدیٰ صاحب قاسمی ویشالی نے فرمایاکہ بیٹیوں کی پیدائش پر والدین اور دیگر رشتہ داروں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور ان کی پیشانی سکڑ جاتی ہے، اس کے پس منظر پر ہمیں غور کرنا چاہیے ایسا آخر کیوں ہوتا ہے اگر لوگ بیٹی والے سے شادی کے موقع پر خطیر رقم نہ لے کر شادی کو سادگی سے منانے کا اہتمام کریں اور لڑکا بھیک نہ لے کر اپنی بازو کی طاقت سے  ضروریات کی سامان کوسجانے کے بعد آنے والی مہمان بچی کا استقبال کرنے کی عام فضا قائم ہوجائے تو ان شاءاللہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی والدین اور دیگر رشتہ داروں کو وہی خوشی محسوس ہوگی جو بیٹوں کی پیدائش پر ہوتی ہے اور انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق میں مقصد تخلیق "عبدیت" رکھا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پوری زندگی ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،سونا، کھانا پینا سب عبادت میں شمار ہوتو اس کے لیے سنت نبوی کو مضبوطی سے پکڑکر زندگی گذارنا ہوگا اور یہ کوئ مشکل امر نہیں ہے تھوڑی سی غور وفکر اور توجہ سے ہم اپنی زندگی کے نشیب وفراز کو سنت نبوی کا خوگر بنا سکتے ہیں ۔حضرت مولانا صدرے عالم صاحب قاسمی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تعلیم ہی کے ذریعہ ہمارے سماج کی اصلاح ممکن ہے تعلیم ہی غربت و افلاس مٹے گا ۔مولاناکے خطاب کے دوران پروفیسر ریاض احمد صاحب میگھوا نے میگھوا کے مسلمانوں کی دینی و عصری تعلیم کیلئے چار کٹھ زمین وقف کرنے کا اعلان کیا جس کی تعمیر کیلئے انکے بہائی ڈاکٹر تنویر احمد صاحب میگھوا نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ۔حضرت مولانا سالم عبد اللہ صاحب چتر ویدی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی قدرکرنا سیکھیں اسی میں امت کی بھلائی ہے کیونکہ یہ امت خیر امت ہے اور جانوروں جیسے صفات سے اپنے آپ کو بچائیں حضرت مفتی محفوظ الرحمن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ سراج الحق سیوان نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آپ ﷺ سے محبت یہ انسان کے لیے سعادت کی بات ہے لیکن یہ محبت ، اور محبت کا دعویٰ صحیح معنوں میں اس وقت مفید اور کارآمد ہوگا جب اس محبت کے بعد نبی کی اطاعت پورے طور پر قبول کرلے اگر ہم نبی کی سنتوں کو عملی زندگی میں داخل نہیں کریں گے تو صرف نبی سے محبت و عقیدت رکھنا ہی کافی نہیں ہوگا انسان کی نجات کیلئے، دوسری بات اصلاح معاشرہ کے تعلق سے یہ فرمایا کہ اگر‌ہم واقعتا چاہتے ہیں کے ہمارے معاشرے کا اصلاح ہوجائے تو اپنی ذات سے اور اپنے گھر سے شروع کرنی پڑیں گی گھر کے ماحول کو دینی بنانا یہ ہر انسان کا ذمہ داری ہے ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھنا روضہ رکھنا نہیں ہے بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی دین دار بنانا انکے اندر اچھی صفات کو منتقل کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے آج ہم لوگ اپنی اولاد کی طرف سے گھر والوں کے دین کی طرف سے بالکل لاپرواہ ہوچکے ہیں بچے کنوینٹ اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ انکو کیا پڑھایا جارہا ہے کیا سکھایا جارہا ہے انکی کیسی تربیت کی جارہی ہے والدین کو اس کی کوئی فکر نہیں ٹھیک ہے اپنے بچوں کو جو پڑھاناہے پڑھائے ڈاکٹر بنائے انجنیئر بنائے لیکن اس کے بارے میں فکر مند رہےکہ انکا دین بھی باقی رہے انکے اندر دینی مزاج پیدا کیاجائے دینی شعور انکے اندر پیدا کیاجائے اسلامی عقائد کے پہچان ہو اور یہ ساری چیزیں ہوں گی اس وقت جب انکو دینی تعلیم سے آراستہ کیاجائے تو ہربچےکےلیے جو اسکول کالج جارہا ہے اس کے لیے دینی تعلیم کا اور دینی ماحول کا نظم کرنا ہر والدین کی ذمہ داری ہے اگر ہم نے کرلیا تو انشاءاللہ ایک گھر سے دوسرے گھر ایک محلے سے دوسرے محلے تک اصلاح ہوتی چلی جائے گی اس طرح ہمارا پورا معاشرہ درست ہوجائے گا،حضرت مولانا جاوید عالم صاحب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء مشرقی چمپارن نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہر محلہ ہر گاؤں میں مضبوط مکتب کا نظام ضروری ہے بھلے آدھی پیٹ کھائے لیکن اپنے بچوں کو ضرور تعلیم سے آراستہ کریں اور اپنے علمائے کرام وحفاظ عظام کی تنخواہوں کا معیار اعلی کریں کم از کم سکچھامتر ٹیچر کے مساوی تنخواہ دے ۔حضرت ہی کی دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔جس میں دور دراز اور قرب وجوار کے علماء کرام کچھ علماء کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ (مولانا عبد القدیر صاحب مظاہری میگھوا ۔مولانا نذر المبین صاحب ڈھاکہ ۔مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی ناظم مدرسہ خیر العلوم کنڈواں کسریا۔مولانا افروز صاحب ندوی ۔مولانا طفیل صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ اسلامیہ پہنہرہ۔قاری توفیق صاحب مدرس مدرسہ بستان رحمت محی الدین پور سیوان۔مفتی عبد الرحمٰن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ جامعہ عربیہ دار السلام چرگاہاں مشرقی چمپارن۔مولانا عرفان صاحب۔مولانا تبریز صاحب۔مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی۔مولانا نور الضحی صاحب مظاہری۔مولا‌نا اشفاق صاحب مظاہری۔مفتی عظمت اللہ صاحب قاسمی۔مولانا جمال الدین صاحب۔مظاہری )عوام و خواص۔سیاسی لیڈران :(جناب اسداللہ صاحب عرف بابو صاحب یووا جدیو نیتا صوبائی سکریٹری ۔جناب بدیع الزمان صاحب عرف چاند بابو 16کلیان پور ویدھا سبھا چھتر کے سابق ایم ۔ایل ۔اے امیدوار ۔جناب منوج یادو 16کلیان پور مشرقی چمپارن کے ویدھایک ۔جناب سچندر سینگ سابق ویدھایک 16کلیان پور مشرقی ۔جناب راشد جمال صاحب چکیا ۔جناب حفیظ اللہ صاحب الگھبنی ) مسلمان اور برادران وطن ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے تمام مہمانوں کی ضیافت میگھوا، مٹھیا ،بہلول پور سسواسوب ،الگھبنی ۔اور مدرسہ فیض اقبال سسواسوب مشرقی چمپارن کے اساتذہ کرام مفتی صابر صاحب ناظم مدرسہ ۔مفتی شرف عالم صاحب ندوی ۔مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی ۔حافظ نوشاد صاحب جامعی وطلبہ عزیز نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ منتظمین جلسہ: مولانا کلام الدین صاحب کنوینر جلسہ ،مولانا شاہد ظفر صاحب قاسمی پیش امام وخطیب جامع مسجد میگھوا ۔مولانا سجاد صاحب قاسمی ۔مولانا ظہیر الدین صاحب مظاہری مدرس مدرسہ فیض اقبال سسواسوب ۔مولانا عبد الحکیم صاحب ندوی ۔مولانا عرفان صاحب ۔مولانا اخلاق صاحب ۔پرو فیسر ریاض احمد صاحب ۔ظفیر صاحب ۔رمضانی صاحب ۔الیاس صاحب ان سبھی حضرات کا انتہائی ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے اس پروگرام کو شروع سے آخر تک کامیاب بنانے میں ساتھ دیا اللہ ان کو اس کا بہتر سے بہتر بدلہ دونوں جہاں میں عطاء فرمائے

کچھ تبسم زیر لب

*    کچھ تبسم زیرِ لب (16)   
اردودنیانیوز۷۲ 
                        * انس مسرورانصاری

                    *****جنگ آخر جنگ ہے***** 
          ہمارےمیردانشمند بہت اداس بیٹھےتھے۔فلسطین اوراسرائیل کےمابین جنگ زوروں پرتھی۔ایک دوسرے کوجی جان سےشکست دینےکی کوشش کررہےتھے۔میر صاحب نےپوچھا۔۔آخر جنگ ہوتی کیوں ہے۔۔،،؟ 
         ہم نے انھیں سمجھایاکہ یہ ہماری آ بائی رسم ہے جسےہم گاہےگاہےاداکرتےرہتےہیں۔جنگ کی تاریخ قدیم سے قدیم ترہے۔لیکن جنگ چاہے میدان میں ہویاگھرمیں، تباہیاں دونوں جگہ آتی ہیں۔گھریلوجنگ میں شوہِرنام دارہمیشہ ہارمان لیتےہیں اوربیویاں ہمیشہ جیت جاتی ہیں۔جنگ کی بہت ساری اقسام ہیں۔دوملکوں کےدرمیان  جنگ کو۔۔جنگِ صغیراوربہت سارےملک جب آپس میں لڑنےلگیں تو اسےجنگِ عظیم کہتےہیں۔بعض مرتبہ گھروں میں بھی جنگِ عظیم برپاہوتی ہے۔میدانی جنگوں میں بین الاقوامی اصولوں کی ہمشہ خلاف ورزی کی جاتی ہے۔عورتیں،بچےاورضعیف مردوں کاقتلِ عام کیاجاتاہے۔آبادیاں اجاڑ دی جاتی ہیں۔اوربہت کچھ ہوتاہے۔
       ایک جنگ میں فتح حاصل کرنےوالی فوج کےدو سپاہی مفتوحہ علاقہ کےایک مکان میں داخل ہوئے جہاں ایک خوبصورت جوان لڑکی اپنی استانی کے ساتھ خوفزدہ بیٹھی تھی۔انھیں دیکھتےہی ایک سپاہی مسرت کےساتھ چیخا۔۔ہمارے ساتھ رنگ رلیاں منانےکے لیےتیارہوجاؤ۔۔۔! 
        لڑکی گڑگڑانےلگی۔۔۔ دیکھو۔! میرےساتھ جوچاہو سلوک کرومگرمیری استانی کوہاتھ مت لگاؤ۔وہ مردکے سائےسےبھی دورہے۔اس نےشادی بھی نھیں کی ہے۔۔،،      استانی نےلڑکی کی بات کاٹتےہوئےکہا۔۔۔ان کو مت روکومیری بچی۔! جنگ آخر جنگ ہے۔
                            **********

                           * امر یکن گا  ئے*
          ہمارےسابق پردھان منتر ی آنجہانی اٹل بہاری واجپئی ہرچندکہ آرایس ایس سےوابستہ تھےمگر بڑے سلجھےہوئےمزاج کےبھولےبھالےآدمی تھے۔شدت پسندی ان میں بالکل نہ تھی۔انھوں نےہمیشہ فلسطین کی  حمایت کی اوراسرائیل کوغاصب قراردیا۔۔ایک باروہ امریکہ کےدّورےپرگئے۔وہاں ڈنرلیتےہوئےاپنےپہلو میں بیٹھےشخص سےکھانےکی تعریف کی۔۔۔بڑاسوادشٹ بھوجن ہے۔۔۔! اس نےمسکراتےہوئےکہا۔۔۔ سر!آپ جس کھانےکی تعریف کررہےہیں وہ گائےکابیف ہے۔۔،،واجپئی جی نےبرجستہ جواب دیا۔۔۔کوئی بات نھیں،کوئی بات نھیں۔یہ انڈین گائےکا بیف توہےنہیں،یہ توامریکن گائےکا بیف ہے۔۔
                                 **********       

                             * وضا حت *
          دنیا کےتین بڑےنفسیات دانوں میں ڈاکٹرالفریڈ ایڈلرکانام لیاجاتاہے۔ایک باراحساسِ کمتری کےموضوع پرایک یونیورسٹی میں وہ لکچردےرہےتھے۔
     ۔۔ جسمانی طورپرمعذوراورکمزورافراداکثرایسےکا موں کواختیارکرتےہیں جوان کی معذوری اورکمزوری کےبرعکس ہوتےہیں۔یعنی اگر وہ ضعفِ تنفس کامریض ہوتاہےتولمبی دّوڑ کےجیتنےمیں لگ جاتاہے۔لکنت کا مریض ہےتوخطیب بنناچاہتاہے۔کمزورآنکھیں رکھتا ہے تومصوری کی طرف نکل جاتاہے۔،،انھوں نےاوربہت سی مثالیں بیان کیں۔اچانک درمان میں ایک طالب علم نے اٹھکرمداخلت کرتےہوئےپوچھا۔۔۔۔ سر!اجازت ہوتو کچھ پوچھوں۔؟ڈاکٹرایڈلرنےکہا۔۔۔ہاں ہاں،ضرورپوچھو۔مجھے خوشی ہوگی۔،، 
        ۔۔ ڈاکٹرصاحب! آپ کی باتوں کایہ مطلب تونہیں کہ ضعفِ دماغ میں مبتلالوگ ماہرِنفسیات ہوجاتےہیں۔؟ 
                         *************
                    
                           * مفت کی دعا ئیں *
        اودھ کےنواب واجدعلی شاہ اخترعیش وعشرت میں پڑکرواجدعلی کےبجائےسائل علی ہوگئے تھے۔مجبوری کی حالت میں انگریزبہادرسےوظیفہ کی درخواست کی۔
      انگریزافسران کےپاس آیااورپوچھا۔۔۔ تم اپنی حیات تک وظیفہ چاہتےہویامرنےکےبعداپنےپسماندگان کےلیے بھی چاہتےہو۔۔۔؟ 
       ۔۔۔صرف اپنی حیات تک وظیفہ چاہتا ہوں۔۔۔ اس جوب پران کےوارثوں نےاحتجاج کیااور کہا۔۔۔ یہ آپ کیا کرنےجارہےہیں۔۔؟پھرہماراکیاہوگا۔؟؟
          واجدعلی شاہ نےجواب دیا۔۔۔ایسا اس لیےکررہا ہوں کہ میرےورثاءمیرامرنانہ تکنےلگیں۔اب سب لوگ میری لمبی عمرکی دعائیں کیا کریں گے۔میں زیادہ سے زیادہ جیناچاہوں۔۔اس طرح وظیفےکےساتھ میں نے دعائیں مفت میں حاصل کرلیں۔
                             **********
 
                      *عا د ت سے  مجبو ر*
      نیتاجی کےاعزادمیں ایک تقریب تھی،جس میں انھیں ایک شانداربھاشن دیناتھا۔یہ بھوشن وہ ایک رائٹرسےپانچ سوروپئےمیں لکھواکرلائےتھے۔بھاشن بہت اچھااورکامیاب رہا۔پبلک نےخوب تالیاں بجائیں۔ اتنی تالیاں کہ ان کاسینہ چھپن انچ کاہوگیا۔پروگرام ختم ہواتونیتاجی اپنےچاہنےوالےچاپلوسوں کےجِلومیں منچ سےنیچےآئے۔تبھی میڈیاوالوں نےانھیں گھیرلیا۔ایک چینل والےنےسوال کیا۔۔۔۔شری مان جی۔!ابھی تک آپ نے شادی نھیں کی۔کیا اس کی وجہ بتاسکتےہیں۔؟،، 
          ۔۔۔ کیوں نھیں بھائی۔! نیتاجی دونوں ہاتھ جوڑ کرمسکراتےہوئےبولے۔۔۔بہت سارےلڑکےاورلڑکیاں جواب سننےکےلیےہمہ تن گوش ہوگئے۔موصوف کافی شرمیلے تھے۔اس لیےمسکراتےاورلجاتےہوئےفرمایا۔
         ۔۔۔ تین چاربہنوں کےرشتےآئےہوئےہیں۔اورایک بہن جی سےتوباتیں بھی چل رہی ہیں۔ ،، 
                             **********

                            * نہلے پر د ہلا *

        رگھومل جی بہت مالدارآدمی تھے۔لیکن تھے بڑے کنجوس۔انھیں چنتابس ایک ہی بات کی تھی۔ان کا اکلوتابیٹاراجن نہاتانھیں تھا۔وہ صرف کپڑےبدلتارہتا۔ہفتہ ہفتہ بھرنہانےکانام نھیں لیتاتھا۔رگھومل جی کو بیٹے کی اس عادت سےبڑی الرجی تھی۔انھوں نے ایک ترکیب نکالی اوراپنےبیٹےراجن سےکہا۔ 
     ۔۔۔ بیٹا! اگرتم روز بلا ناغہ نہاؤگےتوایک ماہ بعد میں تمھیں ا نعام میں دوسوروپئےدوں گا۔،، 
      ۔۔ بیٹاراجن باپ کی بات سن کربہت خوش ہوا۔دوسوروپیوں کےلالچ میں وہ روزبلاناغہ نہانےلگا۔آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نےباپ کواس کاوعدہ یاددلایا۔کنجوس باپ نےمسکراتےہوئےاس کےہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں دوسوپچیس روپئےصابن کے درج تھے۔باپ نے بیٹے سے کہا۔۔ 
          ۔۔ تمھارےدوسوروپئےانعام کےاورپچاس روپئے جیب خرچ کے،کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائےگا۔،، 
         بیٹےنےمسکراتےہوئےجواب دیا۔۔پتاجی۔! آپ دوسوروپئےمجھےدیں۔میں ایک ماہ سےبغیرصابن کے نہاتارہاہوں۔*****

             قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                     رابطہ/9453347784 =

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت

اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

ہندوستان میں نئی نسل کی بے راہ روی، دین سے دوری، لایعنی کاموں میں مشغولیت، فرائض وواجبات میں کوتاہی، حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی عام سی بات ہے، اس کے اسباب ووجوہات بہت سارے ہیں، ان میں سے ایک بڑا سبب اسکول وکالج میں اخلاق واقدار سے بے پرواہی، تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان اور نصاب تعلیم میں خدا بیزار مواد وموضوعات کی شمولیت ہے، ان اداروں سے پڑھ کر جو طلبہ نکل رہے ہیں، وہ عموماً ذہنی طور پر مذہب بیزار اور دین سے دور ہوجاتے ہیں۔
صورت حال کی اس سنگینی کے بارے میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اسکول وکالج میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیہاتوں سے آکر حصول علم کے لئے شہروں میں فروکش ہوتی ہے، یہاں انہیں اسکولی تعلیم کے ساتھ کوچنگ کی بھی سہولت ہوتی ہے، ظاہر ہے وہ ہر دن گھر سے آجا نہیں سکتے، اس لئے کسی ہوسٹل می4545ں قیام پذیر ہوتے ہیں، کسی لاج کو اپنا مسکن بناتے ہیں، جہاں کا ماحول اور بھی خراب ہوتا ہے، یہاں عموماً مالک مکان کو کرایہ سے مطلب ہوتا ہے، بچے کدھر جارہے ہیں؟ خارج وقت میں کیا کررہے ہیں؟ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اس کی نگرانی نہیں کی جاتی اور اگر کوئی نگرانی کرتا ہے تو ایسے ہوسٹل کو طلبہ پسند نہیں کرتے اور اسے اپنی آزادی پر پہرہ قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے لیے یہ ناممکن سا ہے کہ اسکول وکالج کے ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں، اس طرح جو ہوسٹلس قائم ہیں، ان کے اندر کہہ سن کر جزوی تبدیلی تو لائی جاسکتی ہے؛ لیکن بالکلیہ اسے اسلامی اخلاق واقدار سے ہم آہنگ کرنا کوہ کنی سے زیادہ مشکل کام ہے، ایسے میں ایک شکل تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور نسلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے اپنی حد تک جد وجہد کریں، تاکہ نئی نسل کو گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں اسکول وکالج کا ایسا حال نہیں تھا، طلبہ کی تربیت گھر سے باہر تک کی جاتی تھی، اساتذہ کے ادب واحترام کا ماحول تھا، ایسے میں لڑکے لڑکیاں کم گمراہ ہوتے تھے اور بہر کیف ان اخلاق واقدار کو چھوڑنا معیوب سمجھا جاتا تھا، آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تربیت کی کمی کے ساتھ اخلاق رذیلہ پیدا کرنے کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس بھی بے راہ روی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں اور لڑکے لڑکیوں پر اس حوالہ سے کوئی قدغن نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عام ہے، اور اس کے مضر اثرات سے کوئی گاؤں، محلہ اور علاقہ محفوظ نہیں ہے، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے ساتھ چلے جانا، کورٹ میریج کر لینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، یہ معاملہ صرف شادی کا نہیں، ارتداد کا ہے، جس کا سامنا ہر جگہ مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کو اس کا احساس کوئی ستر سال پہلے ہوگیا تھا، ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، مولانا گیلانی کی تحریر وتقریر کا مرکز اصلاً انسان سازی ہی تھا، وہ بے راہ رواور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا جذبہ رکھتے تھے، نام نہاد روشن خیال لوگوں کو عمل کی حد تک نہ سہی، کم از کم ایمان ویقین کی حد تک انہیں مسلمان رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے پاس ایک اسکیم تھی جو جدید نسل کی بے راہ روی کے لیے تریاق کا درجہ رکھتی ہے، جس کا ذکر مکاتیب گیلانی: مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒکے مقدمہ میں مولانا عبد الباری ندویؒ نے تفصیل سے کیا ہے، اس کے مطابق طلبہ وطالبات کو دین وایمان پر قائم رکھنے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر جگہ اور ہر علاقہ میں اسلامی نہج کے اسکول کھولے جائیں، جہاں دینی تعلیم اور اسلامی ماحول میں مسلم طلبہ وطالبات کو تعلیم دی جائے، اس کے لیے سرمایہ کثیر چاہیے، جس کے خرچ کے مسلمان متحمل نہیں ہیں اور جو لوگ متمول ہیں ان کو اس کا خیال ہی نہیں ہے، وہ سرکاری اسکول وکالجز میں پڑھنے پڑھانے کو کافی سمجھتے ہیں، پھر جو مسلمانوں ہی کے قائم کردہ ادارے ہیں، ان میں بھی کتنے ہیں جو اسلامی تہذیب وثقافت اور معتقدات کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں، ضرورت کے مطابق اسکول وکالجز کھولنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تیار ہے، اس لیے اس کا قابل عمل حل مولانا گیلانی نے اسلامی اقامت خانے (ہوسٹل) کے طور پر ڈھونڈ نکالا تھا، ان کا خیال تھا کہ اسے سستا ہونا چاہیے اور تجارتی نقطہئ نظر کے بجائے اس میں اصلاحی فکر کے ساتھ لگنا چاہیے، وہ دیکھ رہے تھے کہ عصری تعلیم کا شیوع اس تیزی سے ہورہا ہے کہ امراء کے بچوں کے ساتھ غرباء کے بچے بھی اس ریس میں شامل رہے ہیں، اعلی تعلیم کے لیے شہروں میں وہ بود وباش کریں گے اور غیر اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر کا سیلاب انہیں خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا، ایسے وقت میں یہ اسلامی اقامت خانے ان کو دین وایمان پر قائم اور ثابت قدم رکھنے میں مفید ہوں گے۔
 مولانا گیلانی نے ان اقامت گاہوں کا ایک خاکہ بھی بنایا تھا، جس کے مطابق بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اقامت گاہوں کا ماحول دینی رکھنا ضروری تھا، نگراں اور وارڈن تو متشرع ہوں ہی، ان کی نشست وبرخواست بھی کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ کرائی جاتی رہے، جن کو دیکھ کر طلبہ کے اندر دینی شوق اور جذبہ پیدا ہو، روزہ اور نماز با جماعت کی پابندی تو ضرور کرائی جائے، البتہ زیادہ زور معاملات اور اخلاق کی درستگی پر دیا جائے، کتابی تعلیم کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے، بعد نماز فجر آدھے گھنٹے قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر، منتخب احادیث جو ایمان ویقین کے ساتھ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ پر ابھار سکتے ہوں، روزمرہ کے ضروری دینی مسائل کی واقفیت کے لئے فقہ کی کوئی ہلکی پھلکی کتاب، ان سب کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگایا جائے؛ تاکہ طلبہ کو بار خاطر نہ ہو، تھوڑا تھوڑا کر کے سیرت کا مطالعہ اور بس۔
مولانا گیلانی کے یار غار مولانا عبد الباری ندوی نے مولانا کے اس خاکے کی جزئیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، انہوں نے اقامت گاہوں میں دار المطالعہ کے قیام اور ان میں رسائل وجرائد اور جدید ذہنوں کے لیے مناسب کتابوں کی فراہمی پر زور دیا ہے، انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایسے اقامت گاہوں میں ابتدا میں ایسے طلبہ رکھے جائیں جو دین وایمان کے اعتبار سے زیادہ لا پرواہ نہ ہوں، تاکہ دوسرے طلبہ انتہائی سرکش لڑکوں کے اخلاق وعادات سے محفوظ رہ سکیں۔ ابتدا میں اقامت گاہ میں عارضی داخلہ دیا جائے اور اگر ان کے عادات واطوار ایسے نظرآئیں جن پر محنت کرنے سے صحیح رخ پاجانے کا امکان ہو تو اس کو مستقل کردیا جائے۔مولانا عبد الباری ندویؒ گیلانی اقامت خانوں کے قیام کو اس ارتدادی فتنہ کے نئے طوفان کے مقابلہ کے لیے ضروری سمجھتے تھے، ان کے خیال میں جس طرح گاؤں گاؤں میں سیکولر نظام تعلیم کے مقابلے اسلامی مکتب کھولنے کی مہم چل رہی ہے، گیلانی اقامت خانے قائم کرنے کی بھی مہم چلنی چاہیے۔حضرت گیلانی کے معتقدین اور ان کی فکر رسا کے مادحین اور ان کے شاگرد کسی کو بھی اس تجویز کو عملی شکل دینے میں دلچسپی نہیں ہوئی، حالانکہ اس تجویز کی اہمیت وافادیت کے قائل مولانا عبد الماجد دریابادی، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ڈاکٹر مولانا سید عبد العلی رحمہم اللہ سبھی تھے۔
مولانا عبد الباری ندویؒ عثمانیہ یونیورسیٹی سے سبکدوشی کے بعد اس تجویز کو عملی رنگ وروپ دینا چاہتے تھے، انہوں نے ہارڈنگ روڈ لکھنؤ میں خود اپنے وسیع وعریض اور لق ودق مکان ”شبستان قدم رسول“ کو اس کام کے لیے دینے کا ارادہ کر لیا تھا، ایک صاحب عزیمت جواں سال
نگرانی کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے، لیکن پھر وہ اس پتہ ماری کے کام کے لیے خود کو تیار نہ رکھ سکے اور اقامت گاہوں کا قیام موزوں نگراں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دھرا کا دھرا رہ گیا، حالانکہ اس کام کے لیے کسی بڑے عالم وفاضل کی ضرورت بھی نہیں، صرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنی رجحانات وکوائف سے مانوس اور خود دینی احکام وہدایات پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا، اس کام کے لیے عصری تعلیم یافتہ کو بھی رکھا جاسکتا تھا، لیکن اسلامی اقامت خانوں کی گیلانی تجویز کو سب سے زیادہ کارگر، آسان اور عملی تسلیم کرنے کے باوجود اس معاملہ میں ہنوز روز اول ہے، وجہ صرف ایک سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مادی منفعت سے دو ریہ کام خالص پِتّہ ماری اور عملی ہے، اور ہم لوگ جو حصول شہرت کے لیے اپنی بہت ساری توانائی لگادیتے ہیں، اس بے نام کے کام کی عملی صلاحیت سے کوسوں دور ہیں۔
 حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ؒلکھتے ہیں:”حالات وہی ہیں جو انگریزوں کے دور حکومت میں تھے؛ بلکہ بعض اعتبار سے حالات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو مختلف راستوں سے گمراہ کرنے کی تدبیریں جاری ہیں؛ بالخصوص مذہب بیزاری یا خدا بیزاری پر بڑی طاقتیں جو کچھ کررہی ہیں وہ کسی با خبر سے مخفی نہیں ہے، الحاد کا ایک طوفان ہے، جو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک انسانی ذہنوں کو متاثر کرنے میں کام کررہا ہے۔“ (حیات گیلانی:۶۹۱)
اس تناظر میں دیکھیں تو اسلامی اقامت گاہوں کے قیام کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...