Powered By Blogger

پیر, نومبر 20, 2023

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عبد المغنی صدیقی ایڈووکیٹ مرحوم ____
اردودنیانیوز۷۲ 
  ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
۲۷/جولائی ۲۰۰۱ء؁ بروز جمعہ دن بھر کے تھکا دینے والے سفر کے بعد جناب محمد سلیم رضوی کے ساتھ انوار الحسن وسطوی کے دولت کدہ پر بیٹھا ہی تھا کہ انہوں نے یہ المناک خبر سنائی کہ کل عبدالمغنی صدیقی کا انتقال ہوگیا، خبر کیا تھی؟ ایک بجلی تھی، جوگری اور خرمن سکون وچین کو خاکستر کرتی چلی گئی، عمر کی جس منزل میں وہ تھے اس میں ایسی خبریں غیرمتوقع نہیں ہوتیں، لیکن جب کوئی ستون گرتا ہے تو زمین دہلتی ہے اور آواز دور تک سنی جاتی ہے، عبدالمغنی صدیقی بھی حاجی پور میں ملی، سماجی اور ادبی کاموں کے لئے ایک ستون تھے، مستحکم اور مضبوط ستون، اس لئے ان کی موت کی خبر نے دل ودماغ کی چولیں ہلادیں، عالم تصور میں ان کا سراپا دیر تک گھومتا رہا، پوری زندگی جہد مسلسل اور متواتر خدمات کے بعد عالم ضعیفی میں ان کا جو ہیولی بنا تھا، اس میں پاکیزگی، نفاست، روحانیت، تواضع، خاکساری اور علماء کی قدردانی تھی، یہ وہ اوصاف تھے، جن سے ملاقاتی کی طرف کھنچتے تھے اور مرحوم سے برابر ملنے کو جی چاہتا تھا۔
میری پہلی ملاقات تحفظ شریعت کمیٹی کے زیر اہتمام نکلنے والے اس تاریخی جلوس میں ہوئی تھی، جو شاہ بانو کیس میں نفقۂ مطلقہ کو کالعدم قرار دینے کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک پر ہرضلع میں نکل رہا تھا اور کلکٹر کو میمورنڈم دے کر اس سے ناگواری کا اظہار کیا جاتا تھا، مرحوم تحفظ شریعت کمیٹی ضلع ویشالی کے صدر تھے اور محمد یوسف انجینئر مرحوم کے ساتھ تگ ودو میں لگے ہوئے تھے، مرحوم کی قیادت میں یہ جلوس اس شان، بان سے نکلا تھا کہ حاجی پور کی سرزمین نے اس سے پہلے ایسا جلوس نہیں دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جمعہ کا دن تھا، انورپور چوک سے کچہری میدان تک؛بلکہ کہنا چاہئے کہ حاجی پور کی ہر مسجد اور ہرگلی اور محلہ سے لوگوں کا ایک سیل رواں تھا جو کچہری میدان کی طرف بڑھ رہا تھا، جلوس کا ایک سرا کچہری میدان سے نکل کر انورپور پہنچ گیا تھا جبکہ دوسرا سرا ابھی کچہری مہدان سے نکل بھی نہیں سکا تھا، عقل حیران تھی کہ اس ضعیف اور کمزور انسان کے مضمحل قوی میں کتنا کَس بل تھا کہ یہ بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔
اس ملاقات کے بعد باربار ملاقات ہوتی رہی، کبھی کسی جلسہ میں اور کبھی کسی سیمینار میں، جس میں وہ اپنے پاؤں اور گھٹنوں کی سخت تکلیف کے باوجود جانا ضروری سمجھتے، آخری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب مجھے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں قومی ایوارڈ ملا تھا اور حاجی پور میں ایک استقبالیہ جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا، وہ اس جلسہ کے صدر تھے، صدارتی تقریر ان کی مختصر مگر بہت جامع ہوئی تھی، اس میں حوصلہ افزائی بھی تھی، زمانہ کے تلخ وتند تجربات کا نچوڑ بھی تھا اور مستقبل کے لئے نصیحتیں بھی۔
الحاج عبدالمغنی صدیقی ابن عبد الغنی بن نیاز علی بن شیخ شمشیر علی بن شیخ فتح علی (حدیقۃ الانساب:۱/۰۱۲) نے ابابکرپور کواہی، پاتے پور، ضلع ویشالی میں یکم مئی ۱۹۱۴ء؁ کو آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء؁ میں کلکتہ چلے گئے، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
مولانا ابولکلام آزاد اور علامہ جمیل مظہری کے یہاں آمد ورفت اور مسلسل ملاقات نے آپ میں ملی اور ادبی ذوق کو پروان چڑھایا، ۱۹۳۷ء؁ میں کلکتہ چھوڑ کر مظفرپور آگئے اور وکالت شروع کیا، ساتھ ہی سیاسی وسماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، جلد ہی ممتاز کارکنوں میں آپ کا شمار ہونے لگا اور آپ کی خدمات نے قبول عام حاصل کیا، یہ قبولیت ہی کی بات تھی کہ ۱۹۴۸ء؁ میں ڈاکٹر راجندر پرشاد صدر جمہوریہ ہند نے تمغہ اور توصیفی سند سے نوازا، آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں کشیدگی اور فسادات کی جو لہر پورے ملک میں چلی، تو عبد المغنی صدیقی نے جان ہتھیلی پر رکھ کر قومی یکجہتی کے لئے کام شروع کیا اور پھر پوری جدوجہد کی، تاکہ ملک کے سیکولر کردار کو بچایا جاسکے، اس مسلسل تگ ودو کے جو مثبت اثرات سماج پر پڑے اس کے لئے کئی کمشنروں نے انہیں Letter of thanks سے نوازا، وہ بارہ سال تک مسلم کلب مظفرپور کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔
۱۹۵۵ء؁ میں وہ مظفرپور سے حاجی پور منتقل ہوگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، مختاری شروع کیا اور اس شان سے کیا کہ مختار ان کے نام کا لازمہ بن گیا اور وہ ”مغنی مختار“ کے نام سے پہچانے جانے لگے، دس بارہ سال تک انجمن فلاح المسلمین حاجی پورکے سکریٹری رہے، انجمن ترقی اردو حاجی پور، ضلع اوقاف کمیٹی ویشالی اور کانگریس اقلیتی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی مختلف اوقات میں کام کیا، ۱۹۶۲ء؁ میں ایڈوکیٹ کی حیثیت سے سرکاری منظوری ملی اور A.P.P پھر A.G.P بھی بنائے گئے، انہوں نے ایڈوکیٹ ایسوی ایشن کے صدر اور آل بہار لایر (Lowyer) ایسوی ایشن کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ کی سعادت بخشی، ۲۶/جولائی۲۰۰۱ء؁ بروز جمعرات بوقت ساڑھے نو بجے صبح قوم کا یہ سچا خادم اور ملی کاموں میں پیش پیش رہنے والی اس عظیم شخصیت نے حشمت حیات کے مکان باغ ملی، حاجی پور میں جہاں وہ کرایہ دار کی حیثیت سے مقیم تھے، آخری سانسیں لیں اور اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔
نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق ان کے داماد پروفیسر محمد نجم الہدیٰ سابق صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی نے پڑھائی اور بعد نماز عصر وصیت کے مطابق ہی اسلامی عہد کی عظیم یادگار سنگی مسجد حاجی پور کے سامنے تدفین عمل میں آئی۔
یہ اچھا ہواکہ ان کے صاحب زادہ نسیم احمد ایڈووکیٹ نے ان پر ایک کتاب شائع کرنے کا راداہ کیا، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم حیات سے تھے، انہوں نے اس کی ترتیب کی ذمہ داری اپنے سر لی، ان کی زندگی میں یہ کتاب مکمل تیار نہیں ہوسکی، بعد میں انوار الحسن وسطوی صاحب نے دلچسپی دکھائی، کتاب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے اور  اس کا اجراء بھی بڑے تزک واحتشام کے ساتھ حاجی پور کے مختار خانے میں ہوا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، تاریخ۲۳/جولائی ۲۰۲۳ء؁ کی تھی، عبد المغنی صاحب سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر جمع تھا، موقع یوسی سی کی مخالفت کا تھا، اس لیے مقررین نے تحفظ شریعت کے حوالہ سے ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور تحفظ شریعت کے لیے ان کا کوئی متبادل ملت کردے

منگل, نومبر 14, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
۱۳ نومبر کو کھیلوں میں حصہ لینے والے طلبہ وطالبات کو ۱۴ نومبر ۲۰۲۳ کو ایک ثقافتی پروگرام اور انعامات سے نوازہ گیا۔ جس میں اسکول کے مینیجر جناب سید اعجاز احمد نے خصوصی مہمان آبھا آترے چیف میڈیکل سپرینڈنڈیٹ ، ہیلتھ چکتسا لیں مظفر نگر ) کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور یادگار نشان پیش کر کے کیا ، پروگرام کا آغاز محمد ایان درجہ سات بی کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی جس کا اردو اور انگلش ترجمہ اقرا اور عافیہ درجہ چھ جی نے کیا درجہ آٹھ جی زویا اور سارہ نے اپنی خوبصورت آواز میں نعت پاک پیش کی ، درجہ ایل کے جی اور یو کے جی کے بچوں نے ننھے منے تماشے، درجہ اول نے کندھے سے کندھے ملتے ہیں، درجہ دوم نے "میرے پیاری امی جو ہے درجہ سوم نے ننھے ہاتھوں میں قلم درجہ چہارم نے " تیری ہے زمیں تیرا آسماں، درجہ پنجم نے ” ملے اس بادل پر درجہ چھ جی اے ڈرامہ ڈیڈی کیٹڈ ٹو پیرنٹس درجہ سات جی نے آشائیں۔ آشائیں پیش کر کے سب کا دل جیت لیا۔ اپنے خصوصی مہمان ڈاکٹر آبھا آترے نے اپنی تقریر میں بچوں اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی دماغی اور جسمانی طاقت کے لئے ان کے کھانے پینے کا زیادہ سے زیادہ

خیال رکھنا چاہئے ان کی صفائی کا خیال رکھیں بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ، ٹی۔ وی موبائل سے دور رکھیں ، ڈاکٹر ابھا آترے (چیف

میڈیکل سپریٹینڈنٹ ضلع مہیلا چکتسا لیں مظفر نگر ) اور خصوصی مہمان صبارانی ( ہیلتھ ڈسک مینیجر مہیلا چکتسا لیں ضلع مظفر نگر ) نے محترمہ صبا مہمان خصوصی نے بھی عالمی یوم ڈئبیڈ کے موقع پر سماج کو بیدار کیا اور صفائی بیداری پروگرام کے بارے میں جانکاری دی اسکول کے مینیجر جناب سید اعجاز احمد صاحب نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بچے دیش کا مستقبل ہوتے ہیں نہرو جی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے سب ہی بچے ان کو پیار سے چاچانہرو کہتے تھے ۔ پرنسپل صاحب نے نہرو جی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ کھیل میں حصہ لینے والے بچوں کو درجہ ایل۔ کے ۔ جی کے شایان، ابوذر عمرہ ، درجہ یو۔ کے ۔ جی سے عالیہ، عبدل عہد، حریہ درجہ اول سے فیضان، ابوبکر، صار، اصفیہ، درجہ دوم سے التمش، اسعد، معاز، درجہ سوم سے ریحان حمیرا، مصباح ، درجہ چہارم سے، صعاد، صفیہ، زویا، درجہ پنجم سے ایشان، عظیم، شاہ زیب ، درجہ چھ جی سے علما، چھ بی کے شعیب ، جنید ، روش، فائز ، درجہ سات جی سے فبی ، درجہ سات بی سے
عمار، وارث، اسعد اللہ، درجہ آٹھ بی سے امیر اعظم سیفی ، بلال، زکی ، کو انعامات سے نوازا گیا اور بچوں کے بہتر مستقبل بنانے کی آرزو کرتے ہوئے
پراگرام کا اختتام کیا۔

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائجمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائج
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اردودنیانیوز۷۲ 
گذشتہ مہینہ میں بہار پلک سروس کمیشن نے اساتذہ اسکول کے ساتھ سرسٹھویں (67)مشترکہ مقابلہ جاتی امتحان کے فائنل نتائج کا اعلان بھی کردیا، جس میں سات سو ننانوے (799)امیدوار کامیاب قرار پائے، اس بار مسلم کامیاب امید واروں کی تعداد اکاون(51) ہے، جس میں تینتالیس(43) وہ طلبہ ہیں جنہوں نے حج بھون میں تربیت حاصل کی تھی، جملہ کامیاب امید واروں کے مقابل مسلم امید وار کی تعداد صرف ساڑھے چھ فی صد ہے، ایک مسلم امید وار نے سر فہرست دس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، کامیاب امیدوار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی کامیابی سے مسلم سماج کا وقار بلند کیا، اس موقع سے مختلف کوچنگ مراکز خاص کر بہار حج کمیٹی اور حج بھون کے ذمہ داروں کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا اس لیے کہ کامیاب امیدواروں میں بڑی تعداد نے انہیں کے مرکز سے تربیت پائی ہے،حوصلہ افزائی اور مبارک، سلامت کے بعد ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا یہ تناسب کافی نہیں ہے، کیوں کہ سترہ فی صد سے زیادہ مسلم آبادی میں ہماری کامیابی کا تناسب دس فی صد بھی نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب وعوامل پر غور کیا جائے، جن کی وجہ سے کامیابی کا تناسب آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے کوچنگ کے اثرات بھی بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آپا رہے، اب تو مدرسہ کے بچوں کو چٹائی سے اٹھا کر حفظ+ کے نام سے کوچنگ کرایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے بھی خاطر خواہ ثمرات سامنے نہیں آ رہے ہیں، ہر ادارہ اپنی پیٹھ ٹھونکتا ہے، ہمارے یہاں کے اس قدر بچے کامیاب ہوئے، کوئی یہ بتانے کی ز حمت نہیں کر تا کہ کتنے بچوں پر آپ نے محنت کی اور کس تناسب سے آپ کے بچے کامیاب ہوئے، یہ اعداد وشمار بھی ہمارے سامنے ہوتے تو ہم تجزیہ کر پاتے کہ تربیت دینے والے اداروں میں کہاں کمی ہے کہ نتائج خاطر خواہ بر آمد نہیں ہو پارہے ہیں، اپنی کمی کو تاہیوں کا ادراک کرکے اس کے ازالہ کی سبیل نہیں پید ا کی گئی تو ہماری کامیابی ایسی ہی مختصر رہے گی اور ہم دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے کہ جانبداری کی وجہ سے ہم بچھڑ جاتے ہیں،اور لوگ مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، یقینا ا ن کی منشا یا نیت یہ ہو سکتی ہے، لیکن ہماری اولو العزمی، غیر معمولی محنت اور حریف کے مقابل اپنی صلاحیت کی بر تری اس منصوبے کو بڑی حد تک نا کام کر سکتی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہو سکتا ہے، ضرورت صحیح تجزیے اور کمیوں کے دور کرنے کی ہے۔
بی پی اس سی نے اساتذہ بحالی کے لیے جو امتحانات لیے تھے، اس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ان کی بحالی کی کاروائی مکمل ہو چکی ، نتیش کمار کے ہاتھوں تقرری کا پروانہ تقسیم ہو چکا ہے، مختلف اضلاع میں کامیاب امیدواروں کو اسکول بھی الاٹ کیا جاچکاہے ، اس نتیجے کے کئی قابل ذکر پہلو ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نتیش حکومت نے بہار اسکول سروس کے دروازے دوسری ریاستوں کے لیے کھول دیے اوربڑی تعداد میں دوسری ریاستوں کے امید وار شریک امتحان ہوئے اور کامیاب ہوئے، با خبر ذرائع کے مطابق بہار کے علاوہ چودہ ریاست کے کامیاب امیدواروں کا تناسب ستر فی صد ہے، ان ستر فی صد بیرونی امید واروں کو خوش آمدید، لیکن اگر یہ حسب سابق ہوتا تو بہار کی بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوتی، اور عظیم اتحاد کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوتا، یہاں پر رک کر سوچنے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے امیدواروں کی صلاحیت کمزور تھی کہ دوسری ریاست کے تعلیم یافتہ امیدوار ان پر غالب آگیے، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تعلیم کی گرم بازاری اور دوسری ریاستوں کے دروازے کھولنے کے باوجود بڑی تعداد میں سیٹیں اب بھی خالی رہ گئیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی سبجیکٹ میں" طلب" کے اعتبار سے کامیاب" رسد "نہیں ہو سکی، اور سیٹیں خالی رہ گئیں، اس کے لیے بی پی اس سی کو پھر سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
 اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بتیس ہزار نو سو سولہ (32916)اساتذہ کی خالی جگہوں کے لیے کل چھبیس ہزار نوسو اسی(26980) امیدوار ہی کامیاب قرار پائے، سب سے زیادہ امید وار سوشل سائنس میں کامیاب ہوئے، اس سبجیکٹ میں 5425اساتذہ کی ضرورت تھی، 5397کامیاب قرار پائے، معاملہ قریب قریب کا رہا، لیکن دوسرے موضوعات میں سینکڑوں جگہیں خالی رہ گئیں، جاری اعداد وشمار کے مطابق ہندی کی 5486میں 4242،انگریزی کے 5425میں 4001، سائنس کے 5425میں 4588، حساب کے 5425میں 4480، سنسکرت کے 2839میں 1750، اردو کے 2300میں 1612، عربی کے 200میں 04، فارسی کے 300میں 12اور بنگلہ کے 91میں 03امیدوار ہی اہل قرار پائے، آپ دیکھیں گے کہ سب سے بُری حالت بنگلہ کے بعدفارسی، عربی اور اردو کے امیدواروں کی رہی، جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اردو کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، اسکول ومدارس کے اساتذہ کو اس پر پوری مستعدی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اردو کے فروغ کے لیے جاری رقم کو سمینار، سمپوزیم پر خرچ کرکے مطمئن ہو گیے اور زمینی سطح پر اردو کے کام میں ہماری دلچسپی باقی نہیں رہی، ہم بھاگ دوڑ اردو کے نام پر کرتے رہے، لیکن اسکول میں آنے والے طلبہ کو اردو کے لیے اس طرح تیار نہیں کرسکے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوپاتے، سوچنے کا یہی محور مدارس کے لیے بھی ہے، عربی فارسی میں ہمارے طلبہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے۔یاتو وہ امیدواری کے اہل ہی نہیں تھے کہ فارم بھر سکتے۔
 تمام کامیاب امیدواروں نے اگر ڈیوٹی جوائن کر لی تو بھی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی رہ جائیں گی، اور ظاہر ہے سارے کامیاب امیدوار کا جوائن کرنا نا ممکنات میں سے ہے، کیوں کہ کئی تو بی پی اس سی کے ذریعہ انتظامی سروس کے لیے منتخب ہو چکے ہیں، کئی اپنی پرانی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے، اس وجہ سے محکمہ تعلیم   نےبی پی اس سی کو خالی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کر دی ہیں ، تاکہ نئی بحالی کے لیے کارروائی شروع کی جا سکے، حالاں کہ یہ فی الفور ممکن نہیں، جب تک جوائننگ کے مراحل مکمل نہیں ہوجاتے، خالی آسامیوں کی فہرست بنانی ممکن نہیں ہے، تاخیر ہونے پر عام انتخاب کے لیے ضابطۂ اخلاق نافذ ہو جائے گا اور یہ معاملہ التوا میں بھی جا سکتا ہے ۔
اس موقع سے ہمیں اساتذہ بحالی میں ان کامیاب امیدواروں کو جن کی صلاحیتیں آگے بڑھنے کی ہیں، یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے اور آئی ایس، آئی پی اس کے لیے امتحانات میں بیٹھنا چاہیے، اور آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، ہمیں بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھی صلاحیتوں کے منتخب امیدواروں کو اس طرح مبارکباد دی جاتی ہے جیسے انہوں نے بڑا کارنامہ کر دکھایا ہو، حالاں کہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے

ٹائم آوٹ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

ٹائم آوٹ ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
”ٹائم آوٹ“ کا مطلب عام طورپر وقت ختم سمجھا جاتا ہے، لیکن کرکٹ کی اصطلاح میں کسی کھلاڑی کا ٹسٹ پیچ میں وکٹ گرنے کے تین منٹ، یک روزہ میچ میں دو منٹ اور ٹی-20 میں نوے سکنڈ تک پچ پر نہ پہونچنے کو ”ٹائم آؤٹ“ کہتے ہیں، اگر مقررہ وقت کے اندر کھلاڑی پچ پر نہ پہونچے تو مخالف ٹیم کی اپیل پر اسے آؤٹ مان لیا جاتا ہے، عالمی کرکٹ میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ سری لنکا کے بلے باز اینجے لو میتھ یوز کو بنگلہ دیش کے کپتان ثاقب الحسن کی اپیل پر امپائر نے ”ٹائم آؤٹ“ قرار دیا، گویا وہ بنا کھیلے ہی آؤٹ ہوگئے، واقعہ یہ ہوا کہ پچیسویں اوور میں سمرو کرما کے آؤٹ ہونے کے بعد اینجے لو میتھ یوز کو کھیلنے کے لئے آنا تھا، وہ تیار بھی ہوچکے تھے؛ لیکن عین وقت پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہیلمیٹ کا اسٹریپ ٹوٹ گیا ہے، جب تک دوسرا ہیلمٹ ان کو فراہم کیا جاتا، دو منٹ گذر چکے تھے، اس لئے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان دہلی میں کھیلا جانے والا میچ اس اعتبار سے تاریخی ہوگیا کہ بین الاقوامی میچ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی کھلاڑی کو تاخیر سے پچ پر پہونچنے کی وجہ سے بغیر کھیلے آؤٹ مان لیا گیا، گھریلو میچوں میں ایسا پہلے پانچ بار ہوچکا ہے۔
1987-88 میں اینڈیو وارڈن کو ایسٹرن پروونس بنام ٹرانسوال کے میچ سے پورٹ الزبتھ میں، 1997 میں ہیمولال یادو، تری پورہ مقابل اڈیشہ کے میچ سے کٹک میں، 2002 میں وی سی ڈریکس کو بارڈر مقابل فری اسٹیٹ ایسٹ لندن میں، 2003 میں اے جے ہیرس کو نوٹنگھم شائر مقابل ڈرہم نوٹنگھم میں، 2013-14 میں ریان آسٹن کو ونڈورڈ آئی لینڈ مقابل کمبائنڈ کیمپس اینڈ کالج، سنٹ ویسنٹ میں اور2017 میں چارلس کنجے کو ماٹابیلے لینڈ ٹسکرس مقابل ماؤنٹ ٹینیرس، بلاوایا میں ٹائم آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔
یہ کھیل میں ٹائم آؤٹ ہونے کی بات تھی، اللہ رب العزت نے ہمیں بھی کام کرنے اور میدان عمل میں رہنے کے لئے ایک وقت مقرر دیا ہے، اس وقت مقرر میں ہی ہمیں بھی تیاری کرلینی ہے، ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل ہی تیاری مکمل ہوجانی چاہئے، ورنہ وقت گذر جائے گا اور ہم ”ٹائم آؤٹ“ ہوجائیں گے، اس وقت ہیلمٹ کا اسٹریپ ٹوٹا ہے یادرست، دیکھنے کا وقت نہیں رہے گا، ٹائم آؤٹ ہوتے ہی ہم میدان عمل آخرت کی اس کھیتی سے محروم کر دیئے جائیں گے، اس وقت ہماری خفگی، شرمندگی کچھ کام نہیں آئے گی، اس کے بعد ہم ایک دوسری دنیا میں ہوں گے، جہاں کے قواعد وضوابط اس دنیا سے بالکل الگ ہوں گے، عقل مند وہ ہے جو ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل اپنی ساری تیاری مکمل کرلے

پیر, نومبر 13, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
بچوں کی شروعاتی سال ان کی کامیابی کے سب سے مشکل سال ہوتے ہیں زندگی میں سب کچھ سکھینے کی ہمت نھیں سالوں پر منحصر کرتی ہے اس کو ٹھیک سے تیار کرنے کی کئی فائدے ہیں اسکول میں بہتر تعلیم حاصل کرنا اسی مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے تسمیہ جو غیر ہائی اسکول میں اسپورٹس ڈے اور یوم اطفال منایا گیا ۱۳ نومبر کو اسکول میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ذریعہ سجاوٹ کی گئی تھی پروگرام کا آغاز گارڈ آف آنر سے ہوا اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر اور مینیجر سید اعجاز احمد نے ہری جھنڈی دکھا کر پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر درجہ ایل کے جی نے ریپین ڈرل، درجہ یو کے جی نے " بیلون ڈرل ، درجہ اول نے بال ڈرل درجہ دوم نے ” فلاور ڈرل، درجہ سوم نے پام ۔ پام ڈرل ، درجہ چہارم نے فین ڈرل، درجہ پنجم نے فلیگ ڈرل‘، درجہ چھ جی نے بوتل

ڈرل، درجہ چھ بی نے یوگا ڈرل، درجہ سات جی نے "امبریلا ڈرل، درجہ آٹھ جی نے " پینگس ڈرل پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد فائنل ریس میں درجہ ایل کے جی سیمپل ریس درجہ یو کے جی نے بیک ریس، درجہ اول نے " جم پینگ رئیس " درجہ دوم نے " پک دا بینکی درجہ تین نے ” بک ہولڈنگ ریس درجہ چار نے رائٹنگ وانمبر رئیس درجہ ۵ نے ایٹنگ وا بنا ناریس، درجہ چھ جی نے ایٹنگ اسپیڈریس ، درجہ چھ جی نے گلاس ہولڈنگ ریس، درجہ سات جی نے اسپون لیمن رئیسی درجہ سات بی نے کینڈل ریس، درجہ آٹھ جی نے بینگلش گیم اور درجہ آٹھ بی نے

سلو سائیکل ریس میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میوزیکل چیئر، ڈسک تھرو کو کھو، باسکٹ بال، بیڈ منٹن کے فائنل میچ کرائے۔

جمعہ, نومبر 10, 2023

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مدرسہ اسلامیہ نظامیہ گنج گوریہار کی از سرنو تعمیر کی بنیاد علماء کے ہاتھوں ڈالی گئ

مظفر پور١٠/نومبر (نمائندہ)  بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی واسلامی ضرورت ہے ،اسی لیے تمام مسلمانوں پر علم کا حصول فرض ہے۔ہمارے بچے علم نافع کے حصول کے لیے محنت کریں  اور عصری علوم کےذریعہ دنیاوی ضرورت کی تکمیل کریں یہ بھی ایک اہم کام ہے لیکن اس بات کو زندگی کے کسی مرحلہ میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن و احادیث کی تفہیم کا کام بلا واسطہ اللہ رسول سے جڑنے کا کام ہے۔ اور مدارس اسلامیہ کی تعلیم کا یہی مر کز و محور ہے۔ان خیالات کا اظہارملک کے مشہور و معروف اہل قلم، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  و  آل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ،کاروان ادب واردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے  کیا
وہ مظفر پور ضلع کے شکرا بلاک کی مشہور بستی گنج گوریہار میں مدرسہ اسلامیہ نظامیہ کی نئ عمارت کی سنگ بنیاد کے موقع سے مسلمانوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے انہوں نے فرمایاکہ کہ اس مدرسہ کی قدیم عمارت کی بنیاد امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے ہاتھوں ڈالی گئ تھی اور اسی وجہ سے اس مدرسہ کا نام مدرسہ اسلامیہ نظامیہ قرار پایا تھا ،میں اس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں استاد تھا اور حضرت کے ساتھ میری شرکت بھی اس موقع سے ہوئ تھی۔ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ از سرنو سنگ بنیاد کے موقع سے مجھے آپ حضرات نے یاد کیا ہے، مفتی صاحب نے فرمایاکہ مدارس اسلامیہ کا سلسلہ نسب مسجد نبوی کے اس صفہ تک پہونتا ہے جس کے معلم آقا صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور علم حاصل کرنے والے صحابہ کرام کی مقدس جماعت تھی۔ مسجد نبوی میں آج بھی وہ صفہ موجودھے اور مسجد نبوی کے فرش سے اس کی اونچائی یہ بتاتی ہے کہ علم کا مقام ارفع و اعلیٰ ہے ، مفتی صاحب نے اس موقع سے گاؤں میں اتحاد واتفاق کی ضرورت ، کبر و انانیت سے پرہیز اور تواضع و انکساری کو شعار قرار دینے پر زور دیا۔
اس موقع سے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ ہر انسان کے حصہ کا کام اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے اتحاد واتفاق اور حسن اسلوب کے ساتھ اگر سب لوگ کام کریں اور مسجد و مدرسہ کے کام میں بے جا مداخلت نہ کریں تو ان شاءاللہ بڑا سے بڑا کام بآسانی  ہوجائے گا اس موقع پر حافظ حارث رحمانی نے نعت نبی  پیش کیا ،مولانا محمد قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور، مولانا عبد الرحیم بانی و ناظم مدرسہ مجیدیہ رحمانیہ شکری سریا ، مولانا امیر ریاض استاد مدرسہ محبوبیہ چین پور بنگرا ، مولانا غفران و مولانا قمر الدین جامع مسجد گنج گوریہار ،حافظ و قاری تعلیم الدین ، حافظ محمد ذیشان، محمد عطاء الرحمان ، محمد مجیب الرحٰمن ، عبد الحکیم ،محمد انور، ماسٹر آفتاب عالم ، فضل حق ، حاجی معیز الحق،ماسٹر خورشید ،محمد انظار،محمد سرفراز،عبدالسلام،محمد قیصر،ماسٹر شمیم،مصباح الحق
،محمد رمضانی،غلام نبی حافظ،عبدالرافع ،بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی
 ایشن کے صوبائی سکریٹری محمد امیر اللہ نے شرکت کی،اخیر میں مفتی صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

جمعرات, نومبر 09, 2023

بھارتی بنام ہنود

بھارتی یہود بنام ہنود
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️غالب شمس قاسمی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
mohdghalibshams@gmail.com

اسرائیلی صہیونی دہشت گرد دن رات گھروں، ہاسٹلس، ہاسپٹلس، یونیورسٹی اور عوامی مقامات پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کررہی ہے،اب تک 10000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 4800 سو بچے اور 2550 خواتین شامل ہیں،  سی پی جے کی تحقیقات کے مطابق 2 نومبر تک 36 جنرلسٹ اور صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں، اور ہندوستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، 
 مرد و عورت اور بچوں کی ہولناک تصویریں دیکھ کر کسی بھی دل گردے والے کا دل دہل جائے، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، بلکہ اکثر و بیشتر ذرا سا حس اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے، فلسطینی بھائیوں اور بچوں کی لاشیں، چیختی چلاتی خون سے لت پت بے بس تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر بے ساختہ آنکھیں اشکبار ہو جائیں،  آج ہی یہودی دہشت گرد اسرائیل نے المغازی کیمپ پر بمباری کی، جس کی تباہی کے مناظر ناقابل بیان ہیں، پوری دنیا کے مسلمان  اور انسانیت پسند عوام میں بے چینی، اور اضطرارو اضطراب کی کیفیت طاری ہے، لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں یہودی ذہنیت رکھنے والے، اسرائیل نواز، انتہا پسند، تشدد و جارحیت پسند ، فرقہ وارانہ عناصر بڑی بے شرمی سے اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آرہےہیں، جیسے ہی غزہ کی دردناک و ہول ناک تصویریں ٹویٹ( ایکس) پر اپلوڈ ہوتی ہیں، یہ دوکوڑی کے مفکر، نئے ہندوستان کی پرانی سڑی ہوئی کھاد، سنگھی لابی وہاں اسرائیل کے ترجمان بن جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب حماس نے حملہ نے کیا تھا، تو کیوں چپ تھے؟ یہ آنکھ سے اندھے، سمجھ سے پاگل، حقیقی تاریخ سے ناواقف، اور غزہ پٹی کی تباہیوں سے انکھ موندے بس نفرت کی بولی بولتے ہیں، ہندوستانی میڈیا بشمول حقیقت پسند، سیکولر میڈیا بھی اسرائیلی حملوں کو دہشت گردانہ کہنے کے بجائے فقط اسرائیلی حملے کہ رہی ہے، وہیں  فلسطین کی حریت پسند تحریک حماس کا نام لیتے ہوئے دہشت گرد, چرم پنتھی وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں،قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ( فی الحقیقت ان کی دشمنی ان کے منہ سے ٹپک پڑتی ہے، اور جو عداوت ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے)،
ملبے سے ایک بچے کی جان بچنے کے بعد دھول  و خون میں لپٹی تصویر کو یہ نا ہنجار کہتے ہیں کہ اچھا میک اپ ہے، دراصل ان کی ذہن سازی نفرت و عداوت سے کی گئی ہے، مسلم مخالف مواد اور انسانیت دشمن مٹی سے  ان کے وجود کا خمیر تیار ہوا ہے، آر ایس ایس کی سالوں کی محنت کا ناجائز پھل یہ بے ہودہ ہنود سنگھی لابی ہیں، جنہیں مسلمانوں کی مخالفت اور گندی مذہبی سیاست نے اتنا اندھا کردیا ہے کہ اس کے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا، بقول کلیم عاجز 
 اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو 
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے ۔
وہیں دوسری طرف برلن ہو یا واشنگٹن، برطانیہ ہو کہ لندن، اندلس ہو یا سویڈن، بلکہ پوری دنیا اس نسل کشی کے خلاف، یہودی صہیونی ظلم و نسل کشی اور قتل و غارت گری کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، اپنی اپنی حکومتوں سے فلسطینی نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن سب نے اپنی آنکھوں پر اسلام مخالف پٹیاں باندھ رکھی ہے، الجزیرہ چینل کے مطابق کل رات سے بمباری اور میزائل کے حملوں میں اور تیزی آگئی ہے، آسمان میں بم دھماکہ اور میزائل ایسے پھٹ رہے ہیں جیسے خونی دیوالی ہو، 
ناامیدی کی سی ناامیدی ہے، کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن  ہم مسلمان ہیں، ہمارے یہاں ناامیدی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ( رحمت خداوندی سے بس کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں) اور پھر تاریخ کے عروج و زوال ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے، روم کا بادشاہ نیرو کی سفاکی بھی تاریخ نے یاد رکھی ہے، اور پھر اس کا انجام بد بھی، انگلستان کی تاریخ کا ظالم و جابر بادشاہ کنگ جان (King John)،  پول پاٹ (Pol Pot) اور اٹیلا دی ہن (Attila The Hun) بھی تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں، نمرود و فرعون کی جھوٹی خدائی اور بے بسی اللّٰہ نے قرآن کریم میں بیان کردی، اپنے وقت کے سپر پاور قیصر و کسریٰ  کی بربادی بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے، تو پھر یہ صہیونی دہشت گرد اسرائیل ہو ، یا اسرائیل نواز امریکہ، برطانیہ اور جرمنی، انہیں چاہے اپنی طاقت پر جتنا غرور ہو، یا ظلم و جور کا نشہ ہو، سب ان شاءاللہ ایک دن اپنے برے انجام سے تھرا اٹھیں گے بلکہ نیست و نابود ہو جائیں گے، قرآن کریم میں ظالموں کے خلاف اللّٰہ کا کھلم کھلا اعلان اور سچا وعدہ ہے،وعد اللہ حقا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے، واللہ لا یحب الظالمین، ( اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا) وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ( یہ زمانہ کے حوادثات ہیں، جنہیں ہم باری باری قوموں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں) وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ (  یہ نہ سمجھیو کہ اللّٰہ بے خبر ہے ظالموں کے ان اعمال سے جو وہ کررہے ہیں) وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ( ظالموں کو بڑی حد تک مہلت دی جاتی ہے۔ جب کسی طرح باز نہیں آتے تو پکڑ کر گلا دبا دیا جاتا ہے۔ مجرم چاہے کہ تکلیف کم ہو، یا اس کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگ نکلے، ایں خیال است و محال است و جنوں) ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...