Powered By Blogger

منگل, نومبر 21, 2023

مفتی ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

زعفرانی فکر زیادہ خطرناک ہے
Urduduniyanews72 
"پورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے"یہ بیان وزیر اعلی بنگال کی طرف سے آیا ہے،ان کی شکایت یہ ہےکہ "اب کرکٹ کھلاڑی زعفرانی رنگ کی جرسیوں میں پریکٹس کرتے ہیں، میٹرو اسٹیشنوں کو زعفرانی رنگ دیا گیا ہے یہ ناقابل قبول ہے"۔خیر یہ تو زعفرانی رنگ کی بات ہے،آگے بڑھئیے اور دوسری خبربھی پڑھئیے جواتر پردیش کی راجدھانی لکھنو سے مل رہی ہے کہ حلال سرٹیفکیٹ دینے والی تنظیموں کےخلاف مقدمہ درج کرکے کاروائی بھی شروع کردی گئی ہے، یہ زعفرانی فکر ہےجو زعفرانی رنگ سے زیادہ ہمارے لئےخطرناک ہے۔
  ملک میں جب سے ایک خاص نظریہ کی حکومت قائم ہوئی ہےمسلسل اس کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں سے اس کا دین ومذہب چھین لیاجائے۔اس کے لیے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے،جن چیزوں کو اسلام نے ختم کیا تھا،اب وہ چیزیں اسلام کو نقصان پہونچانے کے لئے ملک میں منظم طور پرپھیلائی جارہی ہیں۔ توہم پرستی، جادو ٹوٹکے، تعویذ گنڈہے، جھاڑپھونک اور منتر کواسی لئےخوب فروغ دیا جارہا ہے۔ دراصل ان کے ذریعہ ایک صاحب ایمان کو کفر وشرک میں مبتلا کرنے کی خطرناک سازش ہے۔
آج باباوں کواس مشن  کی تکمیل کے لئے ملک بھر میں پھیلادیا گیا ہے،ملک  میں ایک معروف ومشہور سادھو ہےجسے آج کل خوب پرموٹ کیاجارہاہے،تخت وتاج اوران کے دربار کو دیکھ کر  بادشاہ ہونے کا احساس ہوتاہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی اس کے دربار میں غلامانہ حاضری ہوتی ہے، آن کیمرہ وہ دعوٰی کرتاہےکہ وہ غیب کی باتوں  کو جانتا ہے،پورے ملک میں اسے خوب نشر کیا جارہا ہے۔کچھ بھولے بھالے مسلمانوں کو بھی وہاں تک پہونچاکر اور دربار میں حاضر کروا کر اس کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، اس کا مقصد ایمان وعقیدہ کو ضائع کرنا ہے، یہ اسلام ومسلمان پر ایک بڑا فکری حملہ ہے۔
افسوس صد افسوس کی بات تو یہ بھی ہے یہ چیزیں کسی نہ کسی درجہ میں مسلم سماج میں بھی گھس آئی ہیں، حالیہ کچھ سالوں سے اس کا خوب رواج ہوگیا ہے۔سوشل میڈیا پر باضابطہ اشتہار دیکر اس کی گارنٹی لی جاتی ہے کہ کام نہیں ہوا تو پیسے واپس، ابھی اس تعلق سے ایک قتل کا منحوس واقعہ بھی رونما ہوا ہے، مقتول نے تعویذ کے بدلے کچھ رقم حاصل کی تھی اور متعینہ وقت میں کام ہوجانےکی گارنٹی بھی لی تھی، بروقت کام نہیں ہوا تو تیز دھار دار ہتھیار سے موصوف کا ہی کام تمام کردیا گیا، قاتل ومقتول دونوں صاحب ایمان ہیں اور کلمہ گو مسلمان ہیں، زعفرانی فکر اس درجہ میں فی الوقت کام کرنے لگی ہے کہ انسان کی جان وایمان دونوں خطرے میں ہے،بروقت علماء کرام اور دانشوران قوم وملت نے اس پر قذغن نہیں لگایا تو اس کے نتائج بھیانک رونما ہوسکتے ہیں۔اس وقت اس عنوان پر مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
عام طور پر لوگ جھاڑ پھونک کا سہارا لینے لگے ہیں،کسی کا کوئی سامان چوری ہوگیا تو تلاش سامان کی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس شخص کو ڈھونڈا جاتا ہے جو چور کا نام و پتہ بتادے،انہیں" ٹھکوا "کہا جاتا یے،اس کے چکر میں بھاری رقم خرچ ہوجاتی ہےمگرحاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ پہلے عرب میں اس قسم کے لوگ ہوتےجو سامان کا پتہ بتاتے،اہل عرب انہیں عراف کہتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سےمنع فرمایا ہے، کاہن وعراف کے پاس جانے والے سے اپنی برات کا اعلان بھی آپ صلی علیہ وسلم نے کردیا ہے۔فرمایا
؛ کہ جو کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی باتوں کو سچ سمجھے وہ محمد پر جو اترا ہے اس سے انکار کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے؛جو کوئی کسی مال کا پتہ پوچھنے کے لیے کسی عراف کے پاس جائے گا اس کی اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی( مشکوة)
آج کوئی آدمی سنگین قسم کی بیماری مبتلا ہےاور وہ جلد رو بہ صحت نہیں ہوتا ہے تو کسی عامل کے تلاش شروع ہوجاتی ہےاور بآسانی وہ دستیاب بھی ہوجاتے ہیں، ہر آنے والے سے وہ یہی کہتا ہے  کہ اس پرخطرناک قسم کا جادو ہے۔جھاڑ پھونک شروع ہوجاتی ہے،اور عجیب وغریب چیزوں کی خواہش وفرمائش کی جاتی ہے، یہاں صریح طور پر غیر خدا کا نام لیا جاتا ہے اور شرکیہ کلمات تک ادا کئے جاتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مسلم سماج کو گمرہی کے دہانے میں جھونک دیتے ہیں۔حدیث شریف میں ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے انہوں نے ایک بیمار پاگل پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، اور وہ ٹھیک ہوگیا، انہوں نے اکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا، فرمایا کہ، میری عمر کی قسم ہر جھاڑ پھونک باطل ہےلیکن تم نےسچی جھاڑ پھونک سے روزی کھانی، حدیث شریف میں واضح انداز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ؛بے شک جھاڑ پھونک، گنڈے اور میاں بیوی کے چھڑانے کے تعویذ شرک ہیں، (ابوداؤد )



مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

*امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی ملی،دینی،فکری تاریخ کا ایک اہم باب.**عبدالواحد ندوی*

*امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدینؒ کی حیات وخدمات پر سیمینارکے سلسلہ میں اہم نشست .*
Urduduniyanews72 
*امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی ملی،دینی،فکری تاریخ کا ایک اہم باب.*
*عبدالواحد ندوی*
پٹنہ20/نومبر(نمائندہ)
 امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے چھٹے امیرشریعت،سینکڑوں دینی وملی اداروں کے سرپرست،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، دارالعلوم دیوبند ودارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن شوریٰ ورکن مجلس انتظامی،نسلوں کے مربی،علماء ودانشوروں کے رہنما،رمزگاہ سیاست کے شناورحضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃاللہ علیہ کی علمی،دینی روحانی، فکری، ملی وسیاسی زندگی ہندوستان کی ملی تاریخ کا ایک اہم باب ہے،اُن کی زندگی ایک عہد کی داستان ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس تاریخی امانت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیں؛تاکہ آنے والی نسلیں اس سے روشنی کشید کر اپنی زندگی کی شمع روشن کرسکیں۔ان خیالات کا اظہار مولانا سید نظام الدین فاؤنڈیشن پٹنہ کے چیئرمین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن،جامعۃ المومنات پٹنہ وجامعہ اسلامیہ گھوری گھاٹ کے ناظم معروف عالم دین حضرت مولانا عبدالواحد ندوی نے جامعۃ المومنات پھلواری شریف پٹنہ کے کانفرس ہال میں منعقد ایک خصوصی نشست میں کیا۔موصوف حضرت امیرشریعت سادس ؒپر ہونے والے سیمینار کے سلسلہ میں منعقدایک اہم نشست میں گفتگو کررہے تھے۔مولانا نے سیمینار کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ حضرت کی زندگی پر سیمینار نہ صرف حضرت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو آشکار کرے گا؛بلکہ یہ سیمینار ہندوستان اوربطور خاص بہار کی ملی تاریخ کی ترتیب کی طرف پہلا قدم ہوگا۔انہوں نے مزید فرمایاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے سابق صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ،مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری ؒ سمیت ملک کے متعدد اکابر علماباربار حضرت کی زندگی پر سیمینار کرانے کا مشورہ دیتے رہے؛تاہم اس سلسلہ میں پیش رفت نہ ہوسکی؛لیکن جب اکابر کا اصرار بڑھتا رہا تو اب سیمینار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اورآج اسی سلسلہ میں غور وفکر اورلائحہ عمل تیار کرنے کے لیے آپ حضرات کو زحمت دی گئی ہے۔میٹنگ میں شریک امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی نے کہا کہ امارت شرعیہ کی ہراینٹ حضرت کی خدمات کی گواہ ہے، امارت شرعیہ کی تاریخ حضرت کے بغیر اَدھوری ہے،حضرت پر سیمینار وقت کی ضرورت تھی اورحضرت مولانا عبدالواحد صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے قدم اٹھایا،امارت شرعیہ کا پورا تعاون سیمینار کو حاصل رہے گا۔امارت شرعیہ کے چیف قاضی شریعت مولانا محمد انظارعالم قاسمی نے کہاکہ حضرت کے وسیع تجربہ کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنا اس لیے بھی ضروری ہے؛تاکہ ہماری نسل اس چراغ سے اپنا دِیا جلاسکے،امارت شرعیہ آپ کے ساتھ ہے۔المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء کے سکریٹری مولانا عبدالباسط ندوی نے کہاکہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ نے  اپنی پوری زندگی امارت شرعیہ اورفکر امارت شرعیہ کے لیے وقف کردی تھی،انہوں نے حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی کے ساتھ مل کر امارت شرعیہ کو عالمی شہرت اوروقار بخشا۔ان کی زندگی کی تگ ودو کا ماحصل امارت شرعیہ اورفکر امارت شرعیہ تھا اورمختلف تنظیمیں اسی امارت کے بطن سے پیدا ہوئیں،وہ ملی کاموں کے لیے وقت کے پابند نہیں تھے، وہ ہرگھڑی ملت کے لیے فکر مند رہتے اوران کا دل ہرپل امت کے لیے تڑپتا رہتا تھا،یہ سیمینار یقینا ہونا چاہیے،اس سیمینار سے نئی فکر جنم لے گی اورامت کے کام کے لیے بہت سے نوجوان علما کھڑے ہوں گے۔آل انڈیا ملی کونسل بہار کے جوائنٹ جنرل سکریٹری مولانا ابوالکلام شمسی نے سیمینار کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ حضرت رحمۃاللہ علیہ کی ذات ایک انجمن تھی،وہ مردم شناس تھے،عزم کے پختہ اورہمت کے پہاڑ تھے،ان کی شخصیت پورے ملک کے لیے نقطۂ  اتحاد تھی،اس لیے سیمینار میں ملک کی تمام تنظیموں اورتمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہونی چاہیے،ان شاء اللہ ہم سب اس سیمینار کے لیے جو بن پڑے گا کریں گے۔جب کہ مولانا محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے کہاکہ حضرت امیر شریعت سادس کی زندگی ہندوستان کی دینی وملی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے، اس کا ہرورق روشن اورہرسطر درخشاں ہے،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس داستان علم وفضل اوران کی ملی خدمات کی تاریخ کوآنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیں،ان شاء اللہ آل انڈیا ملی کونسل اس سیمینار کے لیے ہرطرح کا تعاون کرے گی۔ نظامیہ طبیہ کالج گیا کے صدر ڈاکٹر حامد حسین نے سیمینار کے انعقاد کے فیصلے پر دلی خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس کی وقت کی اہم ضرورت بتاتے ہوئے اس کے کامیاب انعقاد میں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔اس اہم نشست میں جناب انجینئر اعجاز حال مقیم سعودی عرب،مولانا ضیاء عظیم،جناب نیاز نذر فاطمی،مولانا صادق قاسمی،مفتی شاہ نوازعالم صاحب،مولانا ساجد رحمانی، انجینئر محمدعمیروغیرہ نے بھی قیمتی مشورے دیے۔
 جن دانشوران اور علماء نے بذریعہ فون یا میسج اپنی تائید و تعاون اور سیمینار کے انعقاد کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا ان میں سر فہرست حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل، مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، مولانا بدراحمد مجیبی صدر جمعیۃ علماء بہار،مولانا سید مشہوداحمد قادری پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ،مولانامفتی سعیدالرحمن  قاسمی صدرمفتی امارت شرعیہ،مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، مولانا مفتی سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ،مولانا رضوان احمد ندوی معاون مدیر ہفتہ وار نقیب، مولانا مفتی نذرتوحید مظاہری مہتمم جامعہ رشید العلوم چتراو صدر آل انڈیا ملی کونسل جھارکھنڈ، مولانا شاہد ناصری الحنفی صدر ادارہ دعوۃ السنۃ مہاراشٹر،حضرت مولانا مفتی جنید عالم ندوی صدر معہد الدراسات العلیا،مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صدر الحمد خدمت خلق، مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی المہعد العالی حیدرآباد، مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی ، مولانا رضوان احمد اصلاحی امیر جماعت اسلامی بہار،مولانا شہزاد اکرام ندوی،ناءب ناظم جامعۃ البنات رشیدیہ گیا، ایڈوکیٹ جاویداقبال،مولانا خالد حسین نیموی بیگو سرائے،جناب عارف اقبال،مولانا گوہر قاسمی، مولانا مفتی نوشاد قاسمی چمپارن،جناب فیروز صدیقی دہلی، جناب نجم الحسن نجمی چیئرمین نجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف، مولانا مسرورعالم قاسمی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ،مولانا رحمت اللہ ندوی سمستی پور،مولانا سید محمد عادل فریدی سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن پٹنہ، مولانا سجاد ندوی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔سیمینار کی حتمی تاریخ کا اعلان اگلی نشست کے بعد کیا جائے گا۔جب کہ تیاریوں کے سلسلہ میں خبریں وقتافوقتا دی جاتی رہیں گی ۔

*سمینار کے سلسلہ میں رابطہ کا نمر یہ ہے۔*
6201652058 E-mail nizamuddinfoundation2018@gmail.com

پیر, نومبر 20, 2023

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عبد المغنی صدیقی ایڈووکیٹ مرحوم ____
اردودنیانیوز۷۲ 
  ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
۲۷/جولائی ۲۰۰۱ء؁ بروز جمعہ دن بھر کے تھکا دینے والے سفر کے بعد جناب محمد سلیم رضوی کے ساتھ انوار الحسن وسطوی کے دولت کدہ پر بیٹھا ہی تھا کہ انہوں نے یہ المناک خبر سنائی کہ کل عبدالمغنی صدیقی کا انتقال ہوگیا، خبر کیا تھی؟ ایک بجلی تھی، جوگری اور خرمن سکون وچین کو خاکستر کرتی چلی گئی، عمر کی جس منزل میں وہ تھے اس میں ایسی خبریں غیرمتوقع نہیں ہوتیں، لیکن جب کوئی ستون گرتا ہے تو زمین دہلتی ہے اور آواز دور تک سنی جاتی ہے، عبدالمغنی صدیقی بھی حاجی پور میں ملی، سماجی اور ادبی کاموں کے لئے ایک ستون تھے، مستحکم اور مضبوط ستون، اس لئے ان کی موت کی خبر نے دل ودماغ کی چولیں ہلادیں، عالم تصور میں ان کا سراپا دیر تک گھومتا رہا، پوری زندگی جہد مسلسل اور متواتر خدمات کے بعد عالم ضعیفی میں ان کا جو ہیولی بنا تھا، اس میں پاکیزگی، نفاست، روحانیت، تواضع، خاکساری اور علماء کی قدردانی تھی، یہ وہ اوصاف تھے، جن سے ملاقاتی کی طرف کھنچتے تھے اور مرحوم سے برابر ملنے کو جی چاہتا تھا۔
میری پہلی ملاقات تحفظ شریعت کمیٹی کے زیر اہتمام نکلنے والے اس تاریخی جلوس میں ہوئی تھی، جو شاہ بانو کیس میں نفقۂ مطلقہ کو کالعدم قرار دینے کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک پر ہرضلع میں نکل رہا تھا اور کلکٹر کو میمورنڈم دے کر اس سے ناگواری کا اظہار کیا جاتا تھا، مرحوم تحفظ شریعت کمیٹی ضلع ویشالی کے صدر تھے اور محمد یوسف انجینئر مرحوم کے ساتھ تگ ودو میں لگے ہوئے تھے، مرحوم کی قیادت میں یہ جلوس اس شان، بان سے نکلا تھا کہ حاجی پور کی سرزمین نے اس سے پہلے ایسا جلوس نہیں دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جمعہ کا دن تھا، انورپور چوک سے کچہری میدان تک؛بلکہ کہنا چاہئے کہ حاجی پور کی ہر مسجد اور ہرگلی اور محلہ سے لوگوں کا ایک سیل رواں تھا جو کچہری میدان کی طرف بڑھ رہا تھا، جلوس کا ایک سرا کچہری میدان سے نکل کر انورپور پہنچ گیا تھا جبکہ دوسرا سرا ابھی کچہری مہدان سے نکل بھی نہیں سکا تھا، عقل حیران تھی کہ اس ضعیف اور کمزور انسان کے مضمحل قوی میں کتنا کَس بل تھا کہ یہ بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔
اس ملاقات کے بعد باربار ملاقات ہوتی رہی، کبھی کسی جلسہ میں اور کبھی کسی سیمینار میں، جس میں وہ اپنے پاؤں اور گھٹنوں کی سخت تکلیف کے باوجود جانا ضروری سمجھتے، آخری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب مجھے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں قومی ایوارڈ ملا تھا اور حاجی پور میں ایک استقبالیہ جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا، وہ اس جلسہ کے صدر تھے، صدارتی تقریر ان کی مختصر مگر بہت جامع ہوئی تھی، اس میں حوصلہ افزائی بھی تھی، زمانہ کے تلخ وتند تجربات کا نچوڑ بھی تھا اور مستقبل کے لئے نصیحتیں بھی۔
الحاج عبدالمغنی صدیقی ابن عبد الغنی بن نیاز علی بن شیخ شمشیر علی بن شیخ فتح علی (حدیقۃ الانساب:۱/۰۱۲) نے ابابکرپور کواہی، پاتے پور، ضلع ویشالی میں یکم مئی ۱۹۱۴ء؁ کو آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء؁ میں کلکتہ چلے گئے، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
مولانا ابولکلام آزاد اور علامہ جمیل مظہری کے یہاں آمد ورفت اور مسلسل ملاقات نے آپ میں ملی اور ادبی ذوق کو پروان چڑھایا، ۱۹۳۷ء؁ میں کلکتہ چھوڑ کر مظفرپور آگئے اور وکالت شروع کیا، ساتھ ہی سیاسی وسماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، جلد ہی ممتاز کارکنوں میں آپ کا شمار ہونے لگا اور آپ کی خدمات نے قبول عام حاصل کیا، یہ قبولیت ہی کی بات تھی کہ ۱۹۴۸ء؁ میں ڈاکٹر راجندر پرشاد صدر جمہوریہ ہند نے تمغہ اور توصیفی سند سے نوازا، آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں کشیدگی اور فسادات کی جو لہر پورے ملک میں چلی، تو عبد المغنی صدیقی نے جان ہتھیلی پر رکھ کر قومی یکجہتی کے لئے کام شروع کیا اور پھر پوری جدوجہد کی، تاکہ ملک کے سیکولر کردار کو بچایا جاسکے، اس مسلسل تگ ودو کے جو مثبت اثرات سماج پر پڑے اس کے لئے کئی کمشنروں نے انہیں Letter of thanks سے نوازا، وہ بارہ سال تک مسلم کلب مظفرپور کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔
۱۹۵۵ء؁ میں وہ مظفرپور سے حاجی پور منتقل ہوگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، مختاری شروع کیا اور اس شان سے کیا کہ مختار ان کے نام کا لازمہ بن گیا اور وہ ”مغنی مختار“ کے نام سے پہچانے جانے لگے، دس بارہ سال تک انجمن فلاح المسلمین حاجی پورکے سکریٹری رہے، انجمن ترقی اردو حاجی پور، ضلع اوقاف کمیٹی ویشالی اور کانگریس اقلیتی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی مختلف اوقات میں کام کیا، ۱۹۶۲ء؁ میں ایڈوکیٹ کی حیثیت سے سرکاری منظوری ملی اور A.P.P پھر A.G.P بھی بنائے گئے، انہوں نے ایڈوکیٹ ایسوی ایشن کے صدر اور آل بہار لایر (Lowyer) ایسوی ایشن کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ کی سعادت بخشی، ۲۶/جولائی۲۰۰۱ء؁ بروز جمعرات بوقت ساڑھے نو بجے صبح قوم کا یہ سچا خادم اور ملی کاموں میں پیش پیش رہنے والی اس عظیم شخصیت نے حشمت حیات کے مکان باغ ملی، حاجی پور میں جہاں وہ کرایہ دار کی حیثیت سے مقیم تھے، آخری سانسیں لیں اور اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔
نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق ان کے داماد پروفیسر محمد نجم الہدیٰ سابق صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی نے پڑھائی اور بعد نماز عصر وصیت کے مطابق ہی اسلامی عہد کی عظیم یادگار سنگی مسجد حاجی پور کے سامنے تدفین عمل میں آئی۔
یہ اچھا ہواکہ ان کے صاحب زادہ نسیم احمد ایڈووکیٹ نے ان پر ایک کتاب شائع کرنے کا راداہ کیا، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم حیات سے تھے، انہوں نے اس کی ترتیب کی ذمہ داری اپنے سر لی، ان کی زندگی میں یہ کتاب مکمل تیار نہیں ہوسکی، بعد میں انوار الحسن وسطوی صاحب نے دلچسپی دکھائی، کتاب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے اور  اس کا اجراء بھی بڑے تزک واحتشام کے ساتھ حاجی پور کے مختار خانے میں ہوا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، تاریخ۲۳/جولائی ۲۰۲۳ء؁ کی تھی، عبد المغنی صاحب سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر جمع تھا، موقع یوسی سی کی مخالفت کا تھا، اس لیے مقررین نے تحفظ شریعت کے حوالہ سے ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور تحفظ شریعت کے لیے ان کا کوئی متبادل ملت کردے

منگل, نومبر 14, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
۱۳ نومبر کو کھیلوں میں حصہ لینے والے طلبہ وطالبات کو ۱۴ نومبر ۲۰۲۳ کو ایک ثقافتی پروگرام اور انعامات سے نوازہ گیا۔ جس میں اسکول کے مینیجر جناب سید اعجاز احمد نے خصوصی مہمان آبھا آترے چیف میڈیکل سپرینڈنڈیٹ ، ہیلتھ چکتسا لیں مظفر نگر ) کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور یادگار نشان پیش کر کے کیا ، پروگرام کا آغاز محمد ایان درجہ سات بی کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی جس کا اردو اور انگلش ترجمہ اقرا اور عافیہ درجہ چھ جی نے کیا درجہ آٹھ جی زویا اور سارہ نے اپنی خوبصورت آواز میں نعت پاک پیش کی ، درجہ ایل کے جی اور یو کے جی کے بچوں نے ننھے منے تماشے، درجہ اول نے کندھے سے کندھے ملتے ہیں، درجہ دوم نے "میرے پیاری امی جو ہے درجہ سوم نے ننھے ہاتھوں میں قلم درجہ چہارم نے " تیری ہے زمیں تیرا آسماں، درجہ پنجم نے ” ملے اس بادل پر درجہ چھ جی اے ڈرامہ ڈیڈی کیٹڈ ٹو پیرنٹس درجہ سات جی نے آشائیں۔ آشائیں پیش کر کے سب کا دل جیت لیا۔ اپنے خصوصی مہمان ڈاکٹر آبھا آترے نے اپنی تقریر میں بچوں اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی دماغی اور جسمانی طاقت کے لئے ان کے کھانے پینے کا زیادہ سے زیادہ

خیال رکھنا چاہئے ان کی صفائی کا خیال رکھیں بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ، ٹی۔ وی موبائل سے دور رکھیں ، ڈاکٹر ابھا آترے (چیف

میڈیکل سپریٹینڈنٹ ضلع مہیلا چکتسا لیں مظفر نگر ) اور خصوصی مہمان صبارانی ( ہیلتھ ڈسک مینیجر مہیلا چکتسا لیں ضلع مظفر نگر ) نے محترمہ صبا مہمان خصوصی نے بھی عالمی یوم ڈئبیڈ کے موقع پر سماج کو بیدار کیا اور صفائی بیداری پروگرام کے بارے میں جانکاری دی اسکول کے مینیجر جناب سید اعجاز احمد صاحب نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بچے دیش کا مستقبل ہوتے ہیں نہرو جی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے سب ہی بچے ان کو پیار سے چاچانہرو کہتے تھے ۔ پرنسپل صاحب نے نہرو جی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ کھیل میں حصہ لینے والے بچوں کو درجہ ایل۔ کے ۔ جی کے شایان، ابوذر عمرہ ، درجہ یو۔ کے ۔ جی سے عالیہ، عبدل عہد، حریہ درجہ اول سے فیضان، ابوبکر، صار، اصفیہ، درجہ دوم سے التمش، اسعد، معاز، درجہ سوم سے ریحان حمیرا، مصباح ، درجہ چہارم سے، صعاد، صفیہ، زویا، درجہ پنجم سے ایشان، عظیم، شاہ زیب ، درجہ چھ جی سے علما، چھ بی کے شعیب ، جنید ، روش، فائز ، درجہ سات جی سے فبی ، درجہ سات بی سے
عمار، وارث، اسعد اللہ، درجہ آٹھ بی سے امیر اعظم سیفی ، بلال، زکی ، کو انعامات سے نوازا گیا اور بچوں کے بہتر مستقبل بنانے کی آرزو کرتے ہوئے
پراگرام کا اختتام کیا۔

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائجمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائج
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اردودنیانیوز۷۲ 
گذشتہ مہینہ میں بہار پلک سروس کمیشن نے اساتذہ اسکول کے ساتھ سرسٹھویں (67)مشترکہ مقابلہ جاتی امتحان کے فائنل نتائج کا اعلان بھی کردیا، جس میں سات سو ننانوے (799)امیدوار کامیاب قرار پائے، اس بار مسلم کامیاب امید واروں کی تعداد اکاون(51) ہے، جس میں تینتالیس(43) وہ طلبہ ہیں جنہوں نے حج بھون میں تربیت حاصل کی تھی، جملہ کامیاب امید واروں کے مقابل مسلم امید وار کی تعداد صرف ساڑھے چھ فی صد ہے، ایک مسلم امید وار نے سر فہرست دس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، کامیاب امیدوار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی کامیابی سے مسلم سماج کا وقار بلند کیا، اس موقع سے مختلف کوچنگ مراکز خاص کر بہار حج کمیٹی اور حج بھون کے ذمہ داروں کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا اس لیے کہ کامیاب امیدواروں میں بڑی تعداد نے انہیں کے مرکز سے تربیت پائی ہے،حوصلہ افزائی اور مبارک، سلامت کے بعد ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا یہ تناسب کافی نہیں ہے، کیوں کہ سترہ فی صد سے زیادہ مسلم آبادی میں ہماری کامیابی کا تناسب دس فی صد بھی نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب وعوامل پر غور کیا جائے، جن کی وجہ سے کامیابی کا تناسب آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے کوچنگ کے اثرات بھی بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آپا رہے، اب تو مدرسہ کے بچوں کو چٹائی سے اٹھا کر حفظ+ کے نام سے کوچنگ کرایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے بھی خاطر خواہ ثمرات سامنے نہیں آ رہے ہیں، ہر ادارہ اپنی پیٹھ ٹھونکتا ہے، ہمارے یہاں کے اس قدر بچے کامیاب ہوئے، کوئی یہ بتانے کی ز حمت نہیں کر تا کہ کتنے بچوں پر آپ نے محنت کی اور کس تناسب سے آپ کے بچے کامیاب ہوئے، یہ اعداد وشمار بھی ہمارے سامنے ہوتے تو ہم تجزیہ کر پاتے کہ تربیت دینے والے اداروں میں کہاں کمی ہے کہ نتائج خاطر خواہ بر آمد نہیں ہو پارہے ہیں، اپنی کمی کو تاہیوں کا ادراک کرکے اس کے ازالہ کی سبیل نہیں پید ا کی گئی تو ہماری کامیابی ایسی ہی مختصر رہے گی اور ہم دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے کہ جانبداری کی وجہ سے ہم بچھڑ جاتے ہیں،اور لوگ مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، یقینا ا ن کی منشا یا نیت یہ ہو سکتی ہے، لیکن ہماری اولو العزمی، غیر معمولی محنت اور حریف کے مقابل اپنی صلاحیت کی بر تری اس منصوبے کو بڑی حد تک نا کام کر سکتی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہو سکتا ہے، ضرورت صحیح تجزیے اور کمیوں کے دور کرنے کی ہے۔
بی پی اس سی نے اساتذہ بحالی کے لیے جو امتحانات لیے تھے، اس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ان کی بحالی کی کاروائی مکمل ہو چکی ، نتیش کمار کے ہاتھوں تقرری کا پروانہ تقسیم ہو چکا ہے، مختلف اضلاع میں کامیاب امیدواروں کو اسکول بھی الاٹ کیا جاچکاہے ، اس نتیجے کے کئی قابل ذکر پہلو ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نتیش حکومت نے بہار اسکول سروس کے دروازے دوسری ریاستوں کے لیے کھول دیے اوربڑی تعداد میں دوسری ریاستوں کے امید وار شریک امتحان ہوئے اور کامیاب ہوئے، با خبر ذرائع کے مطابق بہار کے علاوہ چودہ ریاست کے کامیاب امیدواروں کا تناسب ستر فی صد ہے، ان ستر فی صد بیرونی امید واروں کو خوش آمدید، لیکن اگر یہ حسب سابق ہوتا تو بہار کی بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوتی، اور عظیم اتحاد کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوتا، یہاں پر رک کر سوچنے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے امیدواروں کی صلاحیت کمزور تھی کہ دوسری ریاست کے تعلیم یافتہ امیدوار ان پر غالب آگیے، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تعلیم کی گرم بازاری اور دوسری ریاستوں کے دروازے کھولنے کے باوجود بڑی تعداد میں سیٹیں اب بھی خالی رہ گئیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی سبجیکٹ میں" طلب" کے اعتبار سے کامیاب" رسد "نہیں ہو سکی، اور سیٹیں خالی رہ گئیں، اس کے لیے بی پی اس سی کو پھر سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
 اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بتیس ہزار نو سو سولہ (32916)اساتذہ کی خالی جگہوں کے لیے کل چھبیس ہزار نوسو اسی(26980) امیدوار ہی کامیاب قرار پائے، سب سے زیادہ امید وار سوشل سائنس میں کامیاب ہوئے، اس سبجیکٹ میں 5425اساتذہ کی ضرورت تھی، 5397کامیاب قرار پائے، معاملہ قریب قریب کا رہا، لیکن دوسرے موضوعات میں سینکڑوں جگہیں خالی رہ گئیں، جاری اعداد وشمار کے مطابق ہندی کی 5486میں 4242،انگریزی کے 5425میں 4001، سائنس کے 5425میں 4588، حساب کے 5425میں 4480، سنسکرت کے 2839میں 1750، اردو کے 2300میں 1612، عربی کے 200میں 04، فارسی کے 300میں 12اور بنگلہ کے 91میں 03امیدوار ہی اہل قرار پائے، آپ دیکھیں گے کہ سب سے بُری حالت بنگلہ کے بعدفارسی، عربی اور اردو کے امیدواروں کی رہی، جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اردو کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، اسکول ومدارس کے اساتذہ کو اس پر پوری مستعدی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اردو کے فروغ کے لیے جاری رقم کو سمینار، سمپوزیم پر خرچ کرکے مطمئن ہو گیے اور زمینی سطح پر اردو کے کام میں ہماری دلچسپی باقی نہیں رہی، ہم بھاگ دوڑ اردو کے نام پر کرتے رہے، لیکن اسکول میں آنے والے طلبہ کو اردو کے لیے اس طرح تیار نہیں کرسکے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوپاتے، سوچنے کا یہی محور مدارس کے لیے بھی ہے، عربی فارسی میں ہمارے طلبہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے۔یاتو وہ امیدواری کے اہل ہی نہیں تھے کہ فارم بھر سکتے۔
 تمام کامیاب امیدواروں نے اگر ڈیوٹی جوائن کر لی تو بھی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی رہ جائیں گی، اور ظاہر ہے سارے کامیاب امیدوار کا جوائن کرنا نا ممکنات میں سے ہے، کیوں کہ کئی تو بی پی اس سی کے ذریعہ انتظامی سروس کے لیے منتخب ہو چکے ہیں، کئی اپنی پرانی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے، اس وجہ سے محکمہ تعلیم   نےبی پی اس سی کو خالی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کر دی ہیں ، تاکہ نئی بحالی کے لیے کارروائی شروع کی جا سکے، حالاں کہ یہ فی الفور ممکن نہیں، جب تک جوائننگ کے مراحل مکمل نہیں ہوجاتے، خالی آسامیوں کی فہرست بنانی ممکن نہیں ہے، تاخیر ہونے پر عام انتخاب کے لیے ضابطۂ اخلاق نافذ ہو جائے گا اور یہ معاملہ التوا میں بھی جا سکتا ہے ۔
اس موقع سے ہمیں اساتذہ بحالی میں ان کامیاب امیدواروں کو جن کی صلاحیتیں آگے بڑھنے کی ہیں، یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے اور آئی ایس، آئی پی اس کے لیے امتحانات میں بیٹھنا چاہیے، اور آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، ہمیں بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھی صلاحیتوں کے منتخب امیدواروں کو اس طرح مبارکباد دی جاتی ہے جیسے انہوں نے بڑا کارنامہ کر دکھایا ہو، حالاں کہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے

ٹائم آوٹ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

ٹائم آوٹ ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
”ٹائم آوٹ“ کا مطلب عام طورپر وقت ختم سمجھا جاتا ہے، لیکن کرکٹ کی اصطلاح میں کسی کھلاڑی کا ٹسٹ پیچ میں وکٹ گرنے کے تین منٹ، یک روزہ میچ میں دو منٹ اور ٹی-20 میں نوے سکنڈ تک پچ پر نہ پہونچنے کو ”ٹائم آؤٹ“ کہتے ہیں، اگر مقررہ وقت کے اندر کھلاڑی پچ پر نہ پہونچے تو مخالف ٹیم کی اپیل پر اسے آؤٹ مان لیا جاتا ہے، عالمی کرکٹ میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ سری لنکا کے بلے باز اینجے لو میتھ یوز کو بنگلہ دیش کے کپتان ثاقب الحسن کی اپیل پر امپائر نے ”ٹائم آؤٹ“ قرار دیا، گویا وہ بنا کھیلے ہی آؤٹ ہوگئے، واقعہ یہ ہوا کہ پچیسویں اوور میں سمرو کرما کے آؤٹ ہونے کے بعد اینجے لو میتھ یوز کو کھیلنے کے لئے آنا تھا، وہ تیار بھی ہوچکے تھے؛ لیکن عین وقت پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہیلمیٹ کا اسٹریپ ٹوٹ گیا ہے، جب تک دوسرا ہیلمٹ ان کو فراہم کیا جاتا، دو منٹ گذر چکے تھے، اس لئے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان دہلی میں کھیلا جانے والا میچ اس اعتبار سے تاریخی ہوگیا کہ بین الاقوامی میچ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی کھلاڑی کو تاخیر سے پچ پر پہونچنے کی وجہ سے بغیر کھیلے آؤٹ مان لیا گیا، گھریلو میچوں میں ایسا پہلے پانچ بار ہوچکا ہے۔
1987-88 میں اینڈیو وارڈن کو ایسٹرن پروونس بنام ٹرانسوال کے میچ سے پورٹ الزبتھ میں، 1997 میں ہیمولال یادو، تری پورہ مقابل اڈیشہ کے میچ سے کٹک میں، 2002 میں وی سی ڈریکس کو بارڈر مقابل فری اسٹیٹ ایسٹ لندن میں، 2003 میں اے جے ہیرس کو نوٹنگھم شائر مقابل ڈرہم نوٹنگھم میں، 2013-14 میں ریان آسٹن کو ونڈورڈ آئی لینڈ مقابل کمبائنڈ کیمپس اینڈ کالج، سنٹ ویسنٹ میں اور2017 میں چارلس کنجے کو ماٹابیلے لینڈ ٹسکرس مقابل ماؤنٹ ٹینیرس، بلاوایا میں ٹائم آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔
یہ کھیل میں ٹائم آؤٹ ہونے کی بات تھی، اللہ رب العزت نے ہمیں بھی کام کرنے اور میدان عمل میں رہنے کے لئے ایک وقت مقرر دیا ہے، اس وقت مقرر میں ہی ہمیں بھی تیاری کرلینی ہے، ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل ہی تیاری مکمل ہوجانی چاہئے، ورنہ وقت گذر جائے گا اور ہم ”ٹائم آؤٹ“ ہوجائیں گے، اس وقت ہیلمٹ کا اسٹریپ ٹوٹا ہے یادرست، دیکھنے کا وقت نہیں رہے گا، ٹائم آؤٹ ہوتے ہی ہم میدان عمل آخرت کی اس کھیتی سے محروم کر دیئے جائیں گے، اس وقت ہماری خفگی، شرمندگی کچھ کام نہیں آئے گی، اس کے بعد ہم ایک دوسری دنیا میں ہوں گے، جہاں کے قواعد وضوابط اس دنیا سے بالکل الگ ہوں گے، عقل مند وہ ہے جو ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل اپنی ساری تیاری مکمل کرلے

پیر, نومبر 13, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
بچوں کی شروعاتی سال ان کی کامیابی کے سب سے مشکل سال ہوتے ہیں زندگی میں سب کچھ سکھینے کی ہمت نھیں سالوں پر منحصر کرتی ہے اس کو ٹھیک سے تیار کرنے کی کئی فائدے ہیں اسکول میں بہتر تعلیم حاصل کرنا اسی مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے تسمیہ جو غیر ہائی اسکول میں اسپورٹس ڈے اور یوم اطفال منایا گیا ۱۳ نومبر کو اسکول میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ذریعہ سجاوٹ کی گئی تھی پروگرام کا آغاز گارڈ آف آنر سے ہوا اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر اور مینیجر سید اعجاز احمد نے ہری جھنڈی دکھا کر پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر درجہ ایل کے جی نے ریپین ڈرل، درجہ یو کے جی نے " بیلون ڈرل ، درجہ اول نے بال ڈرل درجہ دوم نے ” فلاور ڈرل، درجہ سوم نے پام ۔ پام ڈرل ، درجہ چہارم نے فین ڈرل، درجہ پنجم نے فلیگ ڈرل‘، درجہ چھ جی نے بوتل

ڈرل، درجہ چھ بی نے یوگا ڈرل، درجہ سات جی نے "امبریلا ڈرل، درجہ آٹھ جی نے " پینگس ڈرل پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد فائنل ریس میں درجہ ایل کے جی سیمپل ریس درجہ یو کے جی نے بیک ریس، درجہ اول نے " جم پینگ رئیس " درجہ دوم نے " پک دا بینکی درجہ تین نے ” بک ہولڈنگ ریس درجہ چار نے رائٹنگ وانمبر رئیس درجہ ۵ نے ایٹنگ وا بنا ناریس، درجہ چھ جی نے ایٹنگ اسپیڈریس ، درجہ چھ جی نے گلاس ہولڈنگ ریس، درجہ سات جی نے اسپون لیمن رئیسی درجہ سات بی نے کینڈل ریس، درجہ آٹھ جی نے بینگلش گیم اور درجہ آٹھ بی نے

سلو سائیکل ریس میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میوزیکل چیئر، ڈسک تھرو کو کھو، باسکٹ بال، بیڈ منٹن کے فائنل میچ کرائے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...