Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 28, 2023

ریاکاری-آخرت میں اجر سے محرومی

ریاکاری-آخرت میں اجر سے محرومی
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
اللہ کے نزدیک اعمال وعبادات وہی معتبر ہیں جو خالص رضاء الٰہی کے لئے انجام دیے گئے ہوں، اس کا مطلب ہے کہ اعمال پر نیتوں کے اثرات پڑتے ہیں، جو  اللہ کے لیے ہجرت کرتا ہے اس کی ہجرت مقبول اور جو کسی دوسری غرض مثلاً ’’شادی، بیاہ وغیرہ‘‘ کی وجہ سے نقل مکانی کرتا ہے تو اس کے ساتھ غرض کے اعتبار سے ہی معاملہ کیا جائے گا، مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے، ریاکاری میں عبادت اللہ کی رضاء کے لئے نہیں، بلکہ نمود ونمائش کے لئے ہوتی ہے، جو شریعت میں حرام اور شرک خفی کے قبیل سے ہے، شیخ سعدی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص کی دعوت بادشاہ کے دربار میں ہوئی، وہاں سے لوٹنے کے بعد گھر آکر اس نے کھانا طلب کیا، اہل خانہ کو تعجب ہوا کہ ابھی تو آپ بادشاہ کی دعوت اُڑا کر آئے ہیں اور ابھی کھانا مانگ رہے ہیں، بیٹے نے صورت حال دریافت کی تو بتایا کہ وہاں میں نے کھانا تھوڑا کھایا اور عبادتیں زیادہ کیں، تاکہ بادشاہ متاثر ہوجائے، بیٹے نے برمحل، صحیح اور نیک مشورہ دیا کہ ابا جان! پھر تو آپ کو کھانے کے ساتھ نمازیں بھی لوٹانی چاہئے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح وہاں کے کھانے سے دکھاوے کی وجہ سے بھوک نہیں مٹی، ویسے ہی دکھاوے کی وجہ سے نماز بھی نہیں ہوئی۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ان نمازیوں کے لئے جو دکھلاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ’’ویل‘‘ کا ذکر کیا ہے (سورۃ الماعون) جس کے معنی کم از کم بڑی خرابی کے آتے ہیں، بعضوں نے ’’ویل‘‘ کو جہنم کا بدترین درجہ بھی قرار دیا ہے، ایک دوسری آیت میں فرمایا: ’’جب وہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں، اللہ کا ذکر مختصر کرتے ہیں‘‘(سورۃ النساء:۱۴۲) ایک جگہ فرمایا: اپنی خیرات کو اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو محض لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے، دوسری طرف اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے رب سے ملنے کی توقع رکھتے ہیں، انہیں نیک کام کرنے اور اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک کرنا یہ شرک خفی ہے، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب قیامت کے دن جزا وسزا کے لئے دربار الٰہی لگا ہوگا تو اللہ ریاکاروں سے کہیںگے کہ تم انہیں کے پاس جاؤ، جن کو دکھانے کے لیے تم نے یہ اعمال کیے تھے، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ریاکاروں کے لئے ایک دوسری حدیث بھی مذکور ہے کہ اللہ رب العزت کے یہاں قیامت کے دن جب تمام اولین وآخرین جمع ہوںگے تو ایک منادی آواز لگائے گا کہ جس نے کسی عمل میں دوسروں کو شریک کیا ہو وہ اپنا بدلہ ان سے ہی لے۔
حدیث میں شرک خفی کی یہی تعریف کی گئی ہے کہ کوئی آدمی عمل کرے اور کسی آدمی کے وہاں ہونے کی وجہ سے کرے، تاکہ وہ آدمی اس کے عمل کو دیکھ لے، مسند احمد، بیہقی، حاکم اور طبرانی میں تفصیل سے یہ بات موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے کہ جس نے دکھاوے کے لئے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کیا تو اس نے شرک کیا، اسی طرح نماز کو بنا سنوار کر اس لیے پڑھنا کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، شرک ہے۔
ریاکار چوں کہ اللہ اور بندے دونوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے اس پر جنت حرام کی ہے، پہلے کو ریاکار جنت کے باغات ومحلات اور اس کی عنایتوں، نعمتوں کو دیکھایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا، طبرانی اور بیہقی میں اس موقع سے اللہ جو کچھ انہیں کہے گا اس کی بھی تفصیل سے موجود ہے، اللہ فرمائیںگے:
’’تم لوگوں کے دکھلاوے کے لیے اعمال کرتے تھے، تمہارے دل خلوص سے خالی ہوتے تھے، تم لوگوں سے ڈرتے تھے، مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، لوگوں کی وجہ سے بُرے کاموں سے بچتے تھے، میری وجہ سے نہیں بچتے تھے، پس آج میں تم لوگوں کو عذاب چکھاؤںگا‘‘
حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے نماز میں ایک شخص کو گردن جھکائے دیکھا تو فرمایا: خشوع گردنوں میں نہیں، خشوع تو دل میں ہے، اسی طرح ابوامامہ باہلیؒ نے ایک شخص کو مسجد میں روتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ زاری کرنے والوں کی ایک تعداد ریاکاری میں مبتلا ہوتی ہے، ایک بڑے عالم سے جب انہیں دعا کرانے کے لئے کہا گیا تو فرمایا: دعا تو میں کراسکتا ہوں، لیکن ’’فنی دعا‘‘ مجھے نہیں آتی، یہ ’’فنی دعا‘‘ وہی ہے جو ریاکاری تک پہونچاتی ہے۔
ریاکاری کی بدترین قسم جو ہمارے درمیان رائج ہے، وہ یہ کہ خود تو عمل نہیں کرتا، دوسروں کے عمل کو اپنے نام سے پیش کرکے لوگوں سے واہ واہی لُوٹنا ہے، قرآن کریم میں ایسے ریاکاروں کا تذکرہ بھی موجود ہے کہ وہ جو لوگ ایسے کام پر تعریف چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں، اللہ رب العزت انہیں عذاب کا مژدہ سناتا ہے، ارشاد فرمایا: ’’ہرگز ان لوگوں کے بارے میں گمان نہ کرو جو اپنے اعمال پر تو خوش ہوتے ہی ہیں، اس بات کو بھی پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف انکاموں کے لئے بھی کی جائے جو واقعتاً انہوں نے کیے ہی نہیں، ایسے لوگوں کو عذاب سے دور نہ سمجھو، ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ (سورۂ آل عمران:۱۸۸) دوسروں کے مضامین، تصانیف، ملی اور سماجی کاموں کو اپنا بنا کر اس طرح پیش کرنا جیسے وہ ان کی محنت سے وجود پذیر ہوئے اور لوگوں سے تعریفیں کروانا ریاکاری کی وہ قسم ہے جس کے لیے ’’بمفازۃ من العذاب‘‘ کا اعلان اللہ رب العزت نے کیا ہے۔ایسے لوگوں کو دنیامیں ہوسکتا ہے تعریف وتوصیف ملے اور ظاہری عز ومنصب میں اضافہ ہوجائے، لیکن بالآخر جب لوگ اس کی تہ تک پہونچتے ہیں تو عزت وشہرت کا پرندہ پرکٹے کی طرح زمین پر آکر گرتا ہے اور جہاں تک آخرت کا سوال ہے، ذلت ورسوائی اور جنت سے محرومی یقینی ہے، کیوںکہ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا طریقہ بدلتا ہے۔
ریا کبھی ایمانیات میں ہوتا ہے اور کبھی عبادات میں، ایمانیات میں ریا کا مطلب دکھاوے کا ایمان ہے، قرآن کریم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ایمان لائے اور جب کافروں (شیطانوں) سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، یہ ریاکاری منافقت کے قبیل کی ہے اور ایسے لوگوں کو وہی سزا ملے گی جو منافقوں کے لئے متعین ہے، وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رکھے جائیںگے، اسی طرح عبادات میں ریا یہ ہے کہ جب لوگوں کے ساتھ ہو تو عبادت واذکار کا اہتمام کرے تاکہ لوگ اسے نمازی، متقی، عبادت گذار اور صائم سمجھے اور تنہائی میں ہو تو نمازیں چھوٹ رہی ہوں، اذکار کا خیال نہ آتا ہو، اسی طرح نوافل کا اہتمام مجمع میں کرے اور گھر میں نوافل ترک کردے یا پڑھے بھی تو ثواب کی نیت سے نہ پڑھے، عبادتوں میں ریا خشوع خضوع اور ارکان کو لوگوں کے دکھاوے کے لیے طویل طویل کرنا بھی ہے، ایسی عبادتیں قیامت کے دن منہ پر ماردی جائیںگی، حدیث میں ہے کہ جوشخص نماز کو لوگوں کو دکھانے کے لیے اچھی طرح پڑھے اور تنہائی میں نماز اچھی طرح نہ پڑھے تو یہ اللہ رب العزت کی توہین ہے، حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ لوگوں کی وجہ سے عمل چھوڑنا ریا ہے اور لوگوں کی وجہ سے عمل کرنا شرک خفی ہے، حضرت علیؓ نے ریاکاروں کی تین علامتیں بتائی ہیں: تنہائی میں سست اور لوگوں کے درمیان ہو تو عبادت گذاروں میں چست دکھائی دے، جب لوگ اس کی تعریف کریں تو عمل میں زیادتی کردے اور شکایت ہونے لگے تو عمل میں کوتاہی کرنے لگے۔
اسی طرح اگر کسی کے دل میں اوراد واذکار، سنن ونوافل کی کثرت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوکہ لوگ اسے سلام کریں، اعزاز واکرام، تعریف وتوصیف کریں، ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آئیں، معاملات میں اس کے بزرگ ہونے کا خیال رکھیں، اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایسی عبادت بھی ریا کے زمرے میں شامل ہوگی۔
ریا کے دور کرنے کے لیے ہر کام اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کرنا شرط ہے، کیوںکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اللہ کی عبادت کو اللہ ہی کے لیے خالص رکھیں‘‘ (البینۃ:۵) اخلاص عبادتوں کی روح ہے، اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے کو مخلص کہتے ہیں، بعض اہل علم نے مخلص کی تعریف یہ بتائی ہے کہ جو اپنی نیکیوں اور اچھائیوں کو اسی طرح چھپائے جیسے اپنے عیوب، گناہ اور برائیوں کو چھپاتا ہے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی کام پر لوگوں کی تعریف سے خودپسندی اور عجب ذہن ودماغ میں نہ پیدا ہو، پھر اس پر ثبات واستقامت کے لیے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ ساری توفیق اللہ ہی کی جانب سے ملاکرتی ہے۔

بدھ, دسمبر 27, 2023

قانون الہی پر انگشت نمائی

قانون الہی پر انگشت نمائی 

اردودنیانیوز۷۲ 
گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو بی جے پی کے ایک ایم پی نے راجیہ سبھا میں پھر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی مانگ کی ہے، اور یہ کہاہےکہ"مسلم اور مسیحی برادریوں کی خواتین کو طلاق ،جائیداد اور گود لینے جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں، طلاق کی صورت میں خواتین ہندو مذہب کے خواتین کی طرح مینٹنینس الاونس نہیں لے پاتی ہے،خاندانی جائیداد میں بھی انہیں برابر کا حق حاصل نہیں ہے"۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ راجیہ سبھا جیسی ملک کی با وقار مجلس میں یہ باتیں بغیر اسلامی معلومات کے  پیش کی جارہی ہیں,اور ہندو مذہب کو رول ماڈل بناکر پیش کیا جارہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے،طلاق وراثت اوردیگر تمام معاملات میں بھی صنف نازک کے ساتھ مکمل انصاف کرتاہے۔
اسلام مذہب میں شادی مرد وعورت کے درمیان ایک پاک رشتہ اور رضامندی پر مبنی معاہدہ کا نام ہے،جب اس رشتہ میں تلخی پیدا ہوجائے اور اتنا تلخ ہوجائے کہ نباہ کی شکل نظر نہ آتی ہو تو اس معاہدہ کو خوبصورتی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔میاں بیوی میں سے دونوں کو یہ حق حاصل ہے، شوہر کو اسی لئے طلاق کا حق دیا گیا ہے اور بیوی کی طرف سے معاہدہ نکاح کو ختم کرنے کی پیشکش کو خلع کہتے ہیں۔عورت اگر یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی طلاق کا  حق حاصل ہو جیسا  ایک مرد کوحاصل ہے تو وہ نکاح کےوقت یہ شرط  بھی رکھ سکتی ہے ۔ شرعی اصطلاح میں اسے تفویض طلاق کہتے ہیں، اس کے ذریعہ وہ کسی بھی وقت خود پر طلاق واقع کرسکتی ہے،اس کےعلاوہ بھی ایک عورت کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے، اگر کوئی مسلم  بہن اپنے شوہر کے ظلم وناانصافی سے پریشان ہے تو قاضی وقت کے ذریعہ اپنا نکاح منسوخ کراسکتی ہے۔مطلق یہ کہہ دینا کہ مسلم خواتین کو طلاق اور نکاح سے آزادی کا حق نہیں ہےیہ صحیح نہیں ہے۔
دوسری چیز طلاق کی صورت میں ایک مسلم خاتون کو عدت کا خرچ ازروئے شرع دینا واجب ہے، اگرمطلقہ  خاتون کی پرورش میں بچے ہیں تو اس کا مینٹینس الاونس بھی سابق شوہر کے ذمہ لازم ہے۔بچہ پل رہا ہے تو سات سال تک یہ خرچ مرد کوبرداشت کرنا ہوگا، اگر بچی ہے تو بلوغ تک خرچہ دینا ہوگا، اس دوران پرورش کی اجرت بھی مرد پر لازم ہوگی،یعنی اس مطلقہ کو اتنی مقدار میں اجرت دینی ہے جو اس کے اخراجات کے لئے کافی ہوں، یہ مینٹینس الاونس نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

جہاں تک گود لینے کی بات ہے تومذہب اسلام میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اسلام سے پہلے عرب میں یہ مزاج تھا، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے غلام تھے، ان کے والد اور چچا ان کو لینے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ وہ جاسکتے ہیں، مگر حضرت زید نے آپ کے پاس رہنا پسند کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا، اب لوگ انہیں زید بن حارثہ کی جگہ زید بن محمد کہنے لگے، قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا:
اللہ تعالٰی نے تمہارے منہ بولے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنادیا ہے،یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں، اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستہ کی ہدایت کرتے ہیں، ان کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے۔(سورہ احزاب،ھ)
قرآنی اس حکم کی روشنی میں اگر کوئی خاتون کسی بچہ کو گود لیتی ہے تو اس عمل  سےیہ بچہ اس کا نہیں ہوسکتا، پھر گود لینے کے حق کا سوال ہی قائم نہیں ہوتا ہے۔

آخری بات موصوف نے اسلام میں خاندانی جائیداد میں خواتین کے برابر حصہ پر بات کی ہے، اس کے لئے اسلامیات کا مطالعہ ضروری ہے۔والدین کے انتقال کی صورت میں ایک بیٹا کو دو بیٹیوں کا حصہ ازروئے شرع دیا گیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ صنف نازک کو شریعت اسلامیہ نے کسی حال میں تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ عورت اگر بیٹی ہےاور غیر شادی شدہ ہےتو اس کی پرورش، تعلیم وتربیت ودیگراخراجات کی ذمہ داری اس کے والد کی ہے۔ اس کی وفات کے بعد بھائی اس کا ذمہ دار اور کفیل ہو جاتا ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو قریب ترین مرد شخص مثلا چچا وغیرہ اس کے کفیل اور جملہ اخراجات سے متعلق مسئول ہوتے ہیں۔میراث کے باب میں یہ ذمہ دار اشخاص عصبہ کہلاتے ہیں۔ وارثین کو ان کا متعین حصہ دینے کے بعد بچے ہوئے مال کا یہ حق دار ہوجاتے ہیں۔ یہ مرحوم کے قریب ترین مرد رشتہ دار ہوتے ہیں۔ بطور مثال مرنے والی کی ایک ہی بیٹی ہے اور باقی اولاد نہیں ہےاور مرحوم کے کچھ بھائی ہیں،اس صورت میں بیٹی کو پوری جائیداد کا نصف حصہ ملےگا ،بقیہ بچا ہوا ادھا مال بھائیوں میں تقسیم ہوگا۔اور یہ سبھی اس بچی کے گارجین اور ذمہ دار ہوگئے ہیں، اس کی کفالت اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
 اسلامی شریعت میں صرف خاندانی جائیداد ہی تک خواتین کا حصہ محدود نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کی جائیداد میں خواتین کو حصہ دیا گیا ہے۔میراث کے باب میں ایک عورت بیوی، ماں اور بہن کی حیثیت سے بھی حصہ پاتی ہے۔ بیٹے کی وفات کی صورت میں ماں اور باپ کو برابر حصہ ملتا ہے۔ یہاں ماں کو عورت ہونے کی وجہ سے کم یا باپ کو مرد ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ قران کریم کی سورہ: النساء "میں اللہ تعالی نے وارثین کے حصوں کو الگ الگ کر کے بتلا دیا ہے ،اور پھر یہ اعلان بھی فرمادیا ہے، یہ اللہ کے مقرر کردہ حصے ہیں ،ان کا پاس ولحاظ ازحد ضروری ہے ،ارشاد خداوندی ہے؛یہ سارے احکام اللہ کی حدیں ہیں، جو اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اس کو جنت میں داخل  فرمائے گا جس کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، یہ ہمیشہ ہمیش ان میں ہی رہیں گے، یہ بڑی زبردست کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے نکل جائے گا تو اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہیں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اسے ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت ہی ذلت ہے۔(سورةالنساء۔۱۴)
قرآن کریم مسلمانوں کے لئے خدا کی نازل کردہ قانون کی کتاب ہے۔یہ کوئی انسانی قانون سازی نہیں، جس طرح 1956ءمیں وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سرپرستی  میں ہندو کوڈ بل کے ذریعے ہندو قانون وراثت کی قانون سازی ہوئی ہے۔ اس پر اسلامی قانون وراثت کا قیاس کرنا صحیح نہیں ہے،اسلامی قانون وراثت  درحقیقت یہ خدائی تقسیم اور قانون الہی  کا نام ہے،اس پر سوال قائم کرنا،یا اس کی تبدیلی کی بات کرنا دراصل خدا کے قانون پر انگشت نمائی کرنا ہے.نعوذ با الله من ذالك 

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر ،جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

منگل, دسمبر 26, 2023

مولانا محمداویس عالم قاسمی

مولانا محمداویس عالم قاسمی
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

دین کے بڑے داعی اور استاذ درس وافتاء مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ مولانا محمد ادیس عالم قاسمی (پی ایچ ڈی) بن ظاہر حسین بن محمد اکبر کا 16 شوال 1429 ھ مطابق 12 اکتوبر 2008 کو انتقال ہو گیا۔ اخبار میں دو ایک تعزیتی بیان آیا اور سطح آب خاموش ہو گیا، رسم دنیا بھی یہی ہے، اور کارگاہ حیات کا نظام ایسے ہی چلتا رہا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک شخص کا اٹھ جانا نہیں، بڑے عالم دین، عظیم داعی بہترین استاذ، اچھے مفتی اور صاحب قلم کا اٹھ جانا ہے، ماتم شخص کا نہیں، ایسی شخصیت کا ہے جس نے حیات مستعار کے پچپن سال میں علاقہ میں شرک و بدعات سے اجتناب کی زبردست تحریک چلائی، تبلیغ کے کام کو گھر گھر اور گاؤں گاؤں لے گیا، تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہا، وسعت مطالعہ کے لیے آنکھوں کو پھوڑتا رہا، اور راتوں کی تاریکی میں اتنے آنسو بہائے کہ آنکھیں بے نور ہو گئیں، اور ایسی جگر کاوی کی کہ گردہ نے کام کرنا بند کر دیا، پہلے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں علاج چلا، پھر دربھنگہ لے آئے گئے، اور بی آرنرسنگ ہوم کے ایمرجنسی وارڈ میں جان جاں آفریں کے سپرد کیا، نماز جناز 13 شوال 1429ھ بعد نماز ظہر مولانا کے مخلص، وکیل اسد اللہ صاحب نے پڑھائی، اور سینکڑوں سوگوار لوگوں کی موجودگی میں اپنے آبائی گاؤں برہم پور میں سپرد خاک کئے گئے۔
نمونہئ سلف، پیکر صدق و صفاء سادہ لوح اور سادگی پسند مولا نا محمد اویس عالم قاسمی صاحب سے میری پہلی ملاقات پچیس سال قبل ہر پوربیشی، ضلع سیتامڑھی میں ہوئی تھی، نادر یہ لائبریری کا افتتاحی اجلاس تھا۔ مولانا محمد شعیب قاسمی کی دعوت اور مولانا عزیر قاسمی کے اصرار پر مدرسہ احمد یہ ابابکر پورویشالی سے میری حاضری ہوئی تھی، مولانا محمد شعیب صاحب جس انداز میں بحیثیت استادان کا تذکرہ کر رہے تھے، اس سے میں انہیں ایک معمر آدمی سمجھ رہا تھا، لیکن جب تشریف لائے تو جواں سال، چہرے پر سادگی کا نور، دل میں ایمان کا سرور، تقریر میں جلوہئ طور اور مزاج میں کبرور یا سے نفور کی عملی تصویر نظر آئے۔ پہلی ملاقات میں کم ہی لوگوں سے میرا گھلنا ملنا ہوتا ہے، اس لیے یہ ملاقات بھی رسمی سی رہی، ایک دوسرے کی مزاج پرسی، میدان کار سے واقفیت اور ٹوٹتے اقدار کے ماتم پر بات ختم ہوگئی اور صبح ہم دونوں نے اپنی راہ لی۔
 دوسری ملاقات امارت شرعیہ میں ہوئی، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے بانیئ امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد کی حیات و خدمات پر سمینار کا فیصلہ کیا اس کام کے لیے انہیں دو ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کے اندر تلاش و جستجو کا مادہ ہو اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی، حضرت قاضی صاحب کی نظر انتخاب مولانا محمد اویس عالم قاسمی اور راقم الحروف (محمدثناء الہدی قاسمی) پر پڑی۔ چنانچہ ہم دونوں کی طلبی ہوئی،  ہم لوگ دفتر امارت شرعیہ میں پندرہ روز سمینار کی تیاری، مواد کی فراہمی، اور مولانا سجاد کے آثار کی تلاش و جستجو میں لگے رہے، پندرہ روز سے زائد کی فرصت ہم لوگوں کو مدرسہ سے نہ مل سکی، اس لیے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بعد میں ضمان اللہ ندیم مرحوم نے پوری توجہ اور لگن سے اس کام کو ”آثار سجاد“ کے نام سے مکمل کیا اور ایک قیمتی کام سمینار کے بہانے سے ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف موقعوں سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں مولانا نے یاد کیا اور مولانا کے خلوص کی وجہ سے میں وقت نکالتا رہا، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں بھی شرکت رہی، اور قرب و جوار میں بھی ان کی دعوت پر جانا ہوا، ہر ملاقات میں ان کی محبت میں اضافہ ہوتا رہا۔
 مولانا مرحوم نے اپنا تعلیمی سفر پرائمری اسکول برہم پورہ سے شروع کیا تھا، ماسٹر مقصود صاحب بونسی اور مولانا ظفر صاحب کمہرولی نے شاگردی کے آداب سکھائے اور دو سال میں حصول علم کا جذبہ پیدا کیا، تحتانیہ سوم میں وہ مدرسہ مال ٹولہ کشن گنج میں داخل ہوئے، 1969 ء میں مدرسہ الحسنہ حسن آباد پدم پور ضلع کشن گنج (قدیم پورنیہ) سے فوقانیہ کا امتحان پاس کیا، یہاں انہوں نے مولانا محمد عرفان مولا نا تجمل حسین، مولانا محمد اسرائیل مظفر پوری، مفتی محمد یوسف اور ماسٹر محمد شفیع صاحب کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا، 1971ء میں مدرسہ فضل رحمانی بھلا ہی، سہرسہ سے مولوی، مدرسہ رحمانیہ افضلہ سوپول بیرول، دربھنگہ سے 1973ء میں عالم اور 1975ء میں فاضل کیا، کتا بیں نہیں پڑھیں، فن پڑھا، اور نامور اساتذہ سے پڑھا، حضرت مولانا محمد عثمانؒ، مولا نا شمس الہدیؒ، مولا نا محمد قاسمؒ مظفر پوری، مولا نا ہارون رشید،ؒ مولانا سعد اللہؒ، ماسٹر کمال صاحبؒ کی خصوصی توجہ سے ذرہ آفتاب بنا، پھر تاب و تب میں اضافہ کے لیے مولانا نے دارالعلوم دیو بند کا سفر کیا اور 1975 سے 1978 تک وہاں کے اکابر علماء ومحد ثین سے کسب فیض کیا دورہ حدیث اور تکمیل ادب وافتاء کی سند پائی۔ حضرت مولا نا شریف الحسنؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مفتی نظام الدینؒ، مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحیؒ، مفتی احمد علی سعیدؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ، مولانا فخر الحسنؒ، مولانا معراج الحقؒ، مولانا نعیم احمدؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، مولانا قمر الدینؒ، مولا نا ریاست علی بجنوریؒ، مولا نا عبدالخالق مدراسی، قاری عتیق الرحمن وغیرہ جیسے فاضل روزگار کی صحبت اور شاگردی نے ان کے اندر نکھار پیدا کیا، بہار یونیورسٹی سے اردو فارسی میں ایم اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے درس و تدریس کا کام شروع کیا، درس گاہ عالیہ شریف مراد آباد، مدرسہ تا را پور گجرات اور جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ آگئے۔ اور زندگی کے قیمتی پچیس سال یہیں درس و تدریس افتاء نویسی و دعوت و تبلیغ میں گزارا۔
درس و تدریس کے ساتھ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی دولت سے بھی نوازا تھا، تذکر ہ حضرت مولا نا محمد عثمانؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ سوپول، طہارت و نماز کے تفصیلی مسائل، حج وعمرہ کا شرعی طریقہ عشرہ وزکوٰۃ کے مسائل وغیر و کتابیں ان کی طبع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔ جبکہ شرح شمائل ترمذی، سوانح حضرت مولانا بشارت کریمؒ غیر مطبوعہ مسودے کی شکل میں موجود ہے، مضامین و مقالات اس کے علاوہ ہیں، عمر کم پائی اور کام بڑاہو گیا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکی اور تین لڑکے ہیں۔ اللہ ان سب کا حامی و ناصر ہے۔ مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب ؒ مفتی دارالعلوم دیو بند نے اپنی تعزیتی تقریر میں بجا فر مایا کہ مرحوم کے باقی ماندہ اور ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچانا اور ان کے بال بچوں کے لیے خورد و نوش کا انتظام، ہم سب کا فریضہ ہے اور یہی مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت بھی ہے۔

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی جانب سے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں " خون عطیہ اعزازی تقریب  2023" منعقد ہوا 
اردودنیانیوز۷۲ 
 خون عطیہ کرنے سے جسم کو نقصان نہیں بلکہ فائیدہ ہوتا ہے: دانشوران 

خون عطیہ کرنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹرس 

دربھنگہ ( عرفان احمد پیدل ) خون کا عطیہ انسانیت کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے مزکورہ باتیں دربھنگہ میونسپل کارپوریشن کی میئر انجم آرا نے ٹاؤن ہال دربھنگہ میں سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام منعقد " خون عطیہ اعزازی تقریب میں اعزاز  2023‘‘ سے نوازا گیا اس تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام خون عطیہ کرنے والوں کو مبارکباد دی اور کہا اپنے ملنے جلنے والوں سے کہیں کی آپ بھی اس میں حصہ لیں خون عطیہ کرنے سے نقصان نہیں بلکہ اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے وہیں ڈپٹی میئر نازیہ حسن نے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا دن شاندار اور یادگار دن ہے۔اج جو بھی لوگ اس خون عطیہ کیمپ میں حصہ لیئے ہیں وہ سب کے سب ذات ب، مذاہب سے اوپر اٹھ کر مرد و خواتین اور نوجوان آپنا خون عطیہ کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھے انسانیت کی عظیم علامت ہے۔ یہ بہت ہی نیک عمل ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے بے پناہ راحت ملتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خون کے عطیات کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آئیں مہمان خصوصی کے طور پر ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اتسو راج نے کہا کہ خون کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں ماؤں اور بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم جیسے لوگ اس کو لیکر بیدار ہو گئے تو یقیناً اس میں دیکھنے کو مل سکتا ہے بلڈ بینک میں ہمیشہ زیادہ خون ہونا چاہیئے تاکہ لاوارث، دور دراز کے لوگوں اور غریب مریضوں کو بھی بلاتعطل خون مل سکے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے سکریٹری منموہن سراوگی نے آرگنائزنگ تنظیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خون عطیہ کرنے والے عظیم ہیں۔ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے بیدار کرنے کی ضرورت ہےاور ساتھ ساتھ انہیں ترغیب دینے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ دربھنگہ میں آئی بینک کام کر رہا ہے اس لیے مرنے والوں کے اہل خانہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے لوگوں کو بیدار کریں عمار یاسر نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے ہمیں عطیہ کرنے کا احساس ملتا ہے۔ اس سے ہماری انا بھی دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے معاشرے کو پہلے آنا چاہئیے ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے سونو نے کہا کہ خون دینے والوں کے چہروں پر خوشی ہے۔ وہ کسی ذات، مذہب، رنگ یا علاقے کے پابند نہیں ہیں۔
صدارتی خطاب میں متھلا یونیورسٹی کے سنسکرت کے پروفیسر ڈاکٹر آر این چورسیا نے کہا کہ خون کا عطیہ زندگی کا عطیہ اور ایک عظیم عطیہ ہے، جس سے حتمی سکون اور اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ دکھی انسانیت کے تحفظ اور سماجی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ خون کا عطیہ کرنے سے کسی قسم کی کمزوری یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کے مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 18 سے 65 سال کی عمر کا کوئی بھی صحت مند شخص ہر تین سے چار ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا ایک یونٹ عطیہ کرنے سے 3 سے 4 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر حادثے کا شکار ہونے والے، آپریشن کے مریض، ڈیلیوری کرنے والی خواتین، بلڈ کینسر کے مریض، تھیلیسیمیا کے مریض یا ہیموگلوبن کی کمی کے شکار افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے خون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جانوروں اور پرندوں کے خون سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پروقار تقریب میں 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس اور میمینٹو جیس اعزاز سے نوازا گیا جبکہ مہمانوں کا استقبال متھلا کی روایت کے مطابق پاگ ، چادر ، گلدستہ اور میمینٹو دیکر کیا گیا پروگرام میں گریس ہسپتال مدھوبنی کے ڈاکٹر اقبال حسن، ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عامر حسن، ایڈوکیٹ محمد اشفاق، بلڈ ڈونیشن فار ہیومینٹی ممبر عبدالمالک، سوسائٹی فرسٹ ممبر ایم کے نذیر، محمد ریحان انصاری، عبدالمالک و  ماحولیات کے سنجئے کمار 21 بار بلڈ ڈونر دیویانگ بیدیا ناتھ کمار، 25 بار بلڈ ڈونر پرکاش جھا، محمد جاوید، بلڈ ڈونر آنند انکت، جئے پرکاش کمار ساہو، منوج کمار، مکیش کمار جھا اور پرناو کمار وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ .
مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوسائٹی فرسٹ کے صدر اور پروگرام کوآرڈینیٹر نذیر الہدا نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم ہے جو خون کے عطیہ کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ خون کے عطیہ سے متعلق بیداری پروگراموں کا انعقاد کر خون کے عطیات دینے والوں کو بیدار کرتی ہے۔ 


فوٹو ۔۔۔ خون عطیہ کیمپ

پیر, دسمبر 25, 2023

رجوع الی اللہ

رجوع الی اللہ 
Urduduniyanews72 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
انسان کا علم محدود ہے ، اسے اپنی تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ ہی اللہ کی مشیت کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، ہمارا ایمان ویقین ہے کہ ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور ہوگا وہی جو خدا چاہے گا ، پھر جو کچھ ہوا ، ہو رہاہے یا ہوگا وہ سب تقدیر کا حصہ ہے، تقدیر فردکی بھی ہوتی ہے اور قوموں کی بھی ، فیصلے اللہ کے انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی، انفرادی گناہ کی سزا فرد کو اور اجتماعی گناہ کی سزا قوموں کو ملتی ہے، سزا ہی کی ایک قسم ایسے حکمرانوں کا تسلط ہے جو عوام وخواص کے لیے اذیت، مصائب اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، گویا ہماری بد اعمالی کی وجہ سے ہمیں ان لوگوں کی ما تحتی میں ڈال دیا جاتا ہے، جو صرف ظلم وطغیان کی زبان جانتے ہیں اور جنہیں الطاف وکرم کی کوئی ادا نہیں آتی ۔ اعمالکم عمالکم کا یہی مطلب ہے ۔
 ایسے میں ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا نہیں جا سکتا ، جتنی استطاعت ہو، اس کے بقدر تدبیریں کرنی چاہیے ، ظلم کو خاموشی سے سہنا ظلم کی توسیع واشاعت میں مدد کرنا ہے ، اس لیے ہر ممکن اس کو دور کرنے کی سوچنا چاہیے ، احتجاج ، دھرنے ،جلسے، جلوس ، مختلف تنظیموں سے اتحاد اور بلند وبالا ایوانوں تک اپنی بات پہونچا نے کے نت نئے طریقوں کی تلاش، یہ تدبیر کا ہی حصہ ہیں، اپنے مطالبات منوانے کا ذریعہ ہیں، احوال کو صحیح سمت اور رخ دینے کی جد وجہد ہے ،اس لیے ہر سطح پر اس کام کو کرنا چاہیے ، مل کر کرنا چاہیے، تحفظات اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر کرنا چاہیے، اس کام کے لیے تعاون کا میدان وسیع ہے اور مشترکہ نکات پر ہر مذہب ، ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے لوگوں کو جوڑا جا سکتا ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نفقۂ مطلقہ کے معاملے میں سب کو جوڑ کر تحریک چلائی تھی تو کامیابی قدم بوس ہوئی ، اسی نہج پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ کی قیادت میں ’’دین ودستور بچاؤ‘‘ تحریک زوروں پر چلی، اس کے بھی مفید اثرات سامنے آئے اور اقلیتوں کو اپنے دین اور دستور کے اعتبار سے اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ، اس سے باہر نکلنے کے مواقع پیدا ہوئے ۔
 اتحاد میں بڑی طاقت ہے بکھرے ہوئے تارے متحد ہوتے ہیں تو خورشید مبیں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ اس لیے ہمیں مختلف مذاہب ، مکاتب فکر اور مسالک کو متحد کرکے ایک لڑی میں پرونا چاہیے اور انہیں ٹوٹنے سے بچانا چاہیے، وقتی مصالح اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرکے ملک وملت کی سر بلندی دستور کی بقاوتحفظ کے لیے آگے آنا چاہیے ۔ 
 اس ساری جد وجہد میں ہمیں کامیابی ملے، اس کے لیے اللہ سے رجوع کرناانتہائی ضروری ہے ، فیصلے اللہ ہی کے چلتے ہیں اور لوگوں کے قلوب دوسری چیزوں کی طرح اسی کے دست قدرت میں ہیں، بندے کی نگاہ اسباب پر ہوتی ہے؛ کیونکہ اسے سبب اختیار کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے، لیکن اللہ مسبب الاسباب ہے، قادر مطلق ہے، وہ اس پر قادر ہے کہ سارے احوال کے مخالف ہونے کے با وجود وہ اپنے ماننے والوں کو فوز وفلاح سے سر فراز فرما دے ، وہ چاہتا ہے تو اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، آگ حضرت ابراہیمؑ پر ٹھنڈی ہو جاتی ہے، دریائے نیل حضرت موسیٰ ؑ اور نبی اسرائیلؑ کو راستہ دے دیتا ہے ، چھری حضرت اسماعیل کے حلقوم پر اُچٹ جاتی ہے اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ، بدر کے تین سو تیرہ مسلمان ہزار کفار پر بھاری پڑ جاتے ہیں، یہ سب رجوع الی اللہ کا ہی نتیجہ ہے ۔
 یاد ہوگا کہ بدر میں چھوٹی سی نفری کو میدان میں لے جا کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر دیا اور پھر سجدے میں گر گئے ، مانگنے لگے ، مانگتے رہے ، روتے رہے ، گڑگڑا تے رہے اور بالآخر بدر میں فتح وکامرانی کا مژدہ اللہ رب العزت نے پہلے ہی سنا دیا ، اور مسلمان جماعتِ کثیر پر غالب آگیے ۔ اس لیے آج جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، اس میں مثبت تدبیروں کے ساتھ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کی بھی ضرورت ہے ، جس میں مسلمان دن بدن پیچھے چلے جا رہے ہیں، ایک طبقے نے دعا کو دل کی تسلی کا ذریعہ کہہ کر اس کی نا قدری کی ہے اور دوسرا طبقہ اس ہتھیار کی کاٹ سے نا واقف ہے ، حالانکہ یہ مؤمن کا اصل ہتھیار ہے اور ایسا کار گر ہے کہ قضا وقدر کے فیصلے بھی اس سے بدل جا تے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ، دعا ؤں میں تضرع ہونا چاہیے، مانگنے کا سلیقہ ہونا چاہیے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوں کا التزام ہونا چاہیے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ ہمیں مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ، ہم جو مانگ رہے ہیں، اس کے بارے میں بھی نہیں جانتے کہ کیا مانگ رہے ہیں، ہم دعائیں پڑھتے ہیں، مانگتے نہیں ، پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں، اس سے انکار نہیں ، بھلا دعائے ماثورہ یعنی قرآن واحادیث کی دعاؤں کے الفاظ میں جو نورانیت ہے ، جواثر ہے، اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ، لیکن دعا کی قبولیت کے لیے دل کی کیفیت بھی مطلوب ہے ، تاکہ بندے کی عاجزی در ماندگی ، کسمپرسی بے کسی اور بے بسی کا اللہ کے سامنے اظہار ہو ، یہ اظہارِ عجز وبندگی اللہ کو بہت پسند ہے اور اس کو دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آ جاتی ہے اور بندہ اپنے مقصود ومطلوب کو پا لیتا ہے ۔ 
حضرت ذو النون مصری ؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے ان سے اسم ذات دریافت کیا ، مشہور ہے کہ اسم ذات کے حوالے سے جو دعا کی جاتی ہے مقبول ہوتی ہے، حضرت ذو النون مصری ؒ نے اس شخص کو اسم ذات نہیں بتایا ، فرمایا : رات اندھیری ہو ، دریا میں طغیانی ہو ، موج بلا خیز ہو اور تمہاری کشتی بھنور میں پھنس کر ٹوٹ چکی ہو ، تم کشتی کے ایک تختے کو پکڑ کر اپنی زندگی کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے ہو ، اس نا امیدی اور بے بسی کی حالت میں جس نام سے اللہ کو پکاروگے، وہی اسمِ ذات ہے، مطلب یہ ہے کہ کیفیت اصل ہے، جن حالات کا اوپر ذکر کیا گیا ، اس حالت میں اللہ سے مانگنے میں جو خشوع، خضوع، تضرع، الحاح ہوگا، اس کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے، جس کو کبھی ان حالات سے سابقہ پڑا ہو ۔
 ایک صاحب نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ افریقہ کے جنگلی علاقہ میں گاڑی کا تیل ختم ہو گیا ، پٹرول پمپ بیس کیلو میٹر دور اور جیب بھی پیسے سے خالی ، ہر دم جان کے جانے کا خطرہ ،فضائل اعمال میں سن رکھا تھا کہ ڈاکو نے ایک شخص کو گھیر لیا ، اس نے نماز کے لیے مہلت مانگی ، نماز کے لیے کھڑا ہوا اور قرأت ’’اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ‘‘ کی شروع کر دیا، اللہ نے ’رجال غیب‘‘ بھیج کر اس کی مدد کی اور ڈاکو مارا گیا ، پڑھا بھی تھا ، سنا بھی تھا، لیکن یقین ویسا نہیں تھا ، جیسا چاہیے تھا ، اب جو یہ موقع آیا تو دل کی کیفیت یقین کے مرحلے تک پہونچ گئی ، وضو، نماز کا موقع نہیں تھا ، آیت کریمہ کا ورد شروع کیا اور اللہ نے اس جنگل میں رات کی تاریکی میں ’’رجال‘‘ غیب بھیج دیا ، اس کی گاڑی وہ تیس کیلو میٹر کھینچ کر لے گیا، گاڑی پٹرول پمپ پر لگی تو ایک دوسرے نے تیل کے روپے پٹرول پمپ والے کے حوالے کر دیا ، خدائی نصرت اور الٰہی مدد اس طرح آتی ہے ، ضرورت ہے یقین کی اور اللہ کی نصرت پر بھروسے کی ، شاعر نے کہا ہے :
درِ کریم سے سائل کوکیا نہیں ملتا مانگنے کا جو طریقہ ہے اس طرح مانگو

اتوار, دسمبر 24, 2023

نظام زندگی کو درست کریں

نظام زندگی کو درست کریں
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 
===========================================
انسان علمی، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالانکہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا؛ لیکن ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے ترتیبی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے انہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے، اقدار نہیں پڑھائے جاتے،ایسے میں ہماری ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلو نظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں،سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے ’’انا‘‘ کا شکار ہوتا ہے اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری نماز کے ذریعہ ہی ختم ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ۔
گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے، مار پیٹ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے؛ لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے،خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا، وہیں رکھے گا، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا، فضول گفتگو نہیں کرے گا، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی۔

ہفتہ, دسمبر 23, 2023

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات 
Urduduniyanews72 
🖋️ محمد فرمان الہدیٰ فرمان 

نماز دینِ اِسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے اور اس کی اہمیت کو ہماری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہایت بلند مقام دیا گیا ہے۔ نماز ایک انسان کی روحانیت کو بڑھانے اور اس کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ نماز کفر اور ایمان کے درمیان ایک دیوار ہے ۔نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ۔نماز مومن کی معراج ہے ۔نماز جنت کی کنجی ہے ۔ایمان کے بعد نماز ہی کا درجہ ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ نماز کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔ نماز کی اہمیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی عبادت کا ذریعہ ہے اور اس سے توحید (اللہ کی واحدنیت) کا اظہار ہوتا ہے۔ احادیث میں ہے کہ بے شک قیامت کے روز بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔
روز محشر کہ جانگدازبود
اول پرسش نماز بود
پس اگر اس کی نمازٹھیک نکلی تو کامیاب رہا اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نقصان میں پڑے گا اور کامیابی سے محروم ہوگا۔ جہاں بھی اللہ نے نیک بندوں کا ذکر کیا ہے وہاں سب سے پہلے نماز کا ذکر ہے " میرے نیک بندے نماز پڑھتے نہیں نماز قائم کرتے ہیں" (اور کسی چیز کو قائم کرنا یہ ہے کہ اسے اس کا پورا حق دے دیا جائے) نماز کو نماز کا پورا حق دینے کا مطلب یہ ہے کہ نماز مقررہ اوقات میں ادا کیا جائے، نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، نماز کو اطمینان سے ادا کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ نماز کی اہمیت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ انسان اپنی نیت کو صاف رکھے اور صرف اللہ کے لئے نماز قائم رکھے۔ نماز کے بہت سارے فوائد ہیں۔ جیسے:نماز کی پابندی روحانی تعزیت فراہم کرتی ہے اور انسان کو اللہ کے قریبی ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو سادگی اور تواضع کی طرف لے جاتی ہے اور اسے دنیا کے فتنے، نفس کی اطاعت سے بچاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کی دنیاوی زندگی میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ نماز انسان کو دنیا کے تناؤ اور فشاروں سے دور رکھتی ہے اور دل کو امن و محبت کی طرف منتقل کرتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو روحانی تربیت دیتی ہے اور ان کی نیک عادات کو بڑھاتی ہے. اس سے ان کی معاشرتی اخلاقی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ نماز کی مداومت سے انسان کی ذہانت اور فہم میں افزائش ہوتی ہے، اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہتری سے سمجھتا ہے۔  جہاں نماز پڑھنے والوں کے لئے بہت سی انعامات کی بشارت ہے، وہیں اس کو چھوڑنے، سستی برتنے، اس سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزائیں اور وعیدیں بھی ہیں۔ جس میں سب سے بری سزا یہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ  نے ارشاد فرمایا: "جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ تا ہے، اس کا نام جہنم کےاس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا" دوسری سب سے بڑی سزا جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے۔ "جس نے بغیر کسی عذر کے فرض نمازیں چھوڑ دی اس کا عمل ضائع ہوگیا" دو سزاؤں کا ذکر میں نے کیا ہے واللہ یہ دو سزاؤں کو لکھتے ہوۓ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں حیران ہوں اتنی بڑی بڑی سزاؤں کے باوجود  ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کے ہم محض حقیر دنیاوی و ذاتی مفادات کی خاطر نمازوں کو یا تو وقت پر ادا نہیں کرتے ہیں اور یا پھر مکمل طور پر اس کو ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں ۲۴ گھنٹا (24hrs) دیا ہے دن بھر میں ہمارے پاس ۱۴۴۰ منٹ (1440 minutes) ہوتے ہیں اور ایک نماز ادا کرنے میں ۱۵ (15) منٹ سے زیادہ نہیں لگتا ہے اگر ہم پانچ نمازوں کا حساب کریں تو ۷۵ منٹ (75 minutes) ہوتا ہے اور اگر فیصد (persentage %) میں دیکھا جائے تو ہمارے پاس جتنا وقت ہوتا ہے دن بھر میں اسکا صرف ۵.۲ فیصد ( 5.2%) وقت نماز میں لگتا ہے پھر بھی ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ہم اپنے جاب، اپنے کاروبار وغیرہ  میں دن بھر کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت لگا دیتے ہیں لیکن اللہ کے لئے (جس نے ہمیں زندگی دی جو ہمیں کھلا پلا رہا ہے جس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائی) ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا 
بے شک ہم اپنے وقت کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت اپنے جاب، کاروبار وغیرہ میں لگائیں یہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اللہ کا حق بھی تو ادا کریں ۵.۲ فیصد (5.2%) وقت جو نماز میں لگتا ہے وہ  نماز میں بھی لگائیں۔ ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے میں کلاس ختم کر کے آ رہا تھا ظہر کا وقت ہو چکا تھا تو میں میٹھن پورہ مسجدمیں نمازظہر  ادا کرنےکے لئےرکا۔ اس دن میں نے جو منظر دیکھا وہ واقعی قابلِ تعریف اور لائق تقلید تھا، ایک زوماٹو ڈیلیوری بوائے (zumato delevery boy) بالکل وقت پر مسجد میں داخل ہوا سامان ایک کونے میں رکھ کر انہوں نے وضو کیا اور با جماعت نمازِ ظُہر ادا کیا۔ میں حیران تھا کہ ہم کتنی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کے ہمیں وقت نہیں ملتا نماز کے لئے کیوں کہ ہم جاب، کاروبار وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ان سے، انہیں فوڈ ڈیلیور (food deliver) کرنا تھا پھر بھی انہوں نے نماز با جماعت ادا کیا پھر ہمارے پاس کون سی عذر ہے؟ افسوس صد افسوس اللہ کی دی ہوئ ہر چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اسی کا کھاتے ہیں اسی کا پیتے ہیں اسی کی دی ہوئ زمین پر چلتے ہیں لیکن اس کی یاد کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے 
اللہ  ہمیں ذوق و شوق کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں اپنے مقربین بندوں میں شامل فرماے
آمین یارب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...