Powered By Blogger

منگل, جنوری 16, 2024

مولانا وصی احمد شمسی ؒ ( یادوں کے چراغ)

مولانا وصی احمد شمسی ؒ ( یادوں کے چراغ)
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
==============================
مولانا محمدوصی احمد بن محمد شہاب الدین بن شیخ طولن بن شیخ سعد علی (شیخ سعدو) بن شیخ روشن علی بن شیخ بہادر علی بن شیخ محمد بھولا ساکن روپس پور دھمسائن تھانہ علی نگر ضلع دربھنگہ نے آئی جی ایم ایس پٹنہ میں مختصر علالت کے بعد19؍ جمادی الاخری 1445 ھ مطابق 2؍ جنوری 2024بروز منگل اس دنیا کو الوداع کہا، وہ شوگر اور قلب کے مریض تھے، لیکن مرض وفات بائیک سے گرنا قرار پایا ، جس سے ان کے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ صاحب فراش ہو گیے تھے، ہر وقت رواں رہنے والی شخصیت جب بستر سے لگ جائے تو بہت سارے امراض ایسے ہی سامنے آجاتے ہیں، اس لیے وہ مجموعہ ٔ امراض بن گیے، جنازہ ان کے آبائی گاؤں لے جایا گیا اور ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم کی امامت میں ہزاروں سوگواروں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور گاؤں کے قبرستان میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ، پس ماندگان میں اہلیہ صالحہ بشریٰ بنت مولانا عبد الرحمن صاحب امیر شریعت خامس اورپانچ لڑکے محمد زکریا (خرم بابو) محمد یحیٰ (فرخ بابو) محمد یعلیٰ (معظم عارف) ، محمد مرتضیٰ (کاشف رضا) ، محمد مجتبی (مناظر صدیقی) اور ایک لڑکی نشاہ فاطمہ (عشرت بتول) کو چھوڑا، سبھی نیک صالح اور والد کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، مولانا اپنے پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے، سب سے بڑے بھائی علی احمد مرحوم تھے، جو مشہور سیاسی قائد عبد الباری صدیقی سابق وزیر حکومت بہار کے والد محترم ہیں۔
 مولانا محمد وصی احمد شمسی کی ولادت مارچ1946ء میں روپس پور دھمسائن میں ہوئی، سرکاری کاغذات میں 29مئی 1949درج ہے، والد کا نام محمد شہاب الدین (عرف شہبود میاں جی فورمین) والدہ کا نام زینت النساء ، بنت منشی بشارت علی ہے ، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بلکہ اپنے دالان میں مولوی محی الدین اور ان کے والد حافظ محمد یوسف (کلٹو حافظ جی) سے پائی۔ 1956میں اپنے بڑے ماموں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ؒ کے ساتھ مدرسہ حمیدیہ گودنا ، ضلع سارن چلے گیے اور یہاں ناظرہ قرآن سے لے کر فوقانیہ تک کی تعلیم پائی۔ 1967میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں درجہ مولوی میں داخلہ لیا اور یہیں سے فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی، اسی دوران آپ نے پرائیوٹ سے گورمنٹ کالجیٹ اسکول بانکی پور، پٹنہ سے میٹرک سکنڈ ڈوزن سے پاس کر لیا، 1976-77میں عربی فارسی ریسرچ انسٹی چیوٹ پٹنہ سے ڈپلوما ان ایجوکیشن (DIP.IN.ED)کیا، تعلیمی ادوار کے ختم ہونے کے بعد آپ کی بحالی بحیثیت مدرس ان کی مادر علمی مدرسہ حمیدیہ گودنا میں ہو گئی، مدرسہ کی مالیات کی فراہمی کے لیے ان کا سفر قرب وجوار کے مواضعات میں ہوا کرتا تھا، جس سے ان کے ذہن میں کشادگی پیدا ہوئی، چندہ کے تعلق سے ہی مولانا کا گذر سون پورہوا، وہاں ایس پی ایس سمینری ہائی اسکول میں مولانا سید عبد الحلیم صاحب چالیس سالوں سے ہیڈ مولوی تھے، انہوں نے اس جو ہر قابل کو پہچانا اور ایک سو روپے ماہانہ پر مولانا وصی احمد صاحب کی بحالی اس اسکول میں ہو گئی ،آپ نے 25جنوری 1974سے مئی1981تک اس اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیں، مزاج داعیانہ اور جذبہ سماجی خدمات کا تھا اس لیے دو تین جگہ اردو اور اردو پرائمری اسکول بھی قائم کرایا،مئی 1981میں آپ نے اپنا تبادلہ پوہدی بیلا ہائی اسکول میں کرالیا، اس طرح وہ گھر کے قریب تو آگیے لیکن وہ اس تبادلہ کو اپنی زندگی کی بڑی بھول کہا کرتے تھے، اسی درمیان سرکار کی اجتماعی تبادلہ کی پالیسی آئی اور مولانا کا تبادلہ پوہدی بیلا اسکول سے واٹسن پلس ۲ ہائی اسکول مدھوبنی میں ہو گیا، چنانچہ نومبر 1995میں آپ نے اسکول جوائن کر لیا، اور جب آپ کے سینئر ریٹائر ہو گیے تو آپ اس اسکول کے پرنسپل بنے اور یہیں سے مدت ملازمت پوری کرکے 3؍ مئی2009 سبکدوش ہوئے، آپ کے ہزاروں شاگرد ملک اوربیرون ملک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مولانا مرحوم کی شناخت علمی، تعلیمی ، سماجی اور مذہبی انسان کی حیثیت سے تھی ،ا س حوالہ سے ان کے تعلقات ملک کی بڑی شخصیات سے تھیں، وہ ایک خوش اخلاق ، خوش اطوار ، خوش لباس آدمی تھے، اپنے خیالات کے اظہار میں بے باک تھے، بعض سے بالمشافہہ وہ ملاقات کرتے اوربعضوں سے خط وکتابت تھی ،و ہ زمانہ دراز تک امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے اور ان کے مفید مشورے ہمارے کام آتے رہے، ملی کونسل کے رکن اور بہار ملی کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل قدر ہیں، ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا، وہ حاصل مطالعہ لکھنے کے عادی تھے، ڈائری لکھا کرتے تھے، جو مضامین پسند آئے،ا سکے اقتباسات محفوظ کرلیا کرتے تھے، انہیں لکھنے کا اچھا سلیقہ تھا، حیات عبد الرحمن اور یادوں کی بہار ان کی تصنیفی یادگار ہے، حیات عبد الرحمن منظوم بھی انہوں نے شائع کرائی تھی ، ان کی کتاب یادوں کی بہار معلومات کا خزینہ اور یادوں کی انسائیکلو پیڈیا ہے، آٹھ سواٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادب وتاریخ کی لائبریری میں قابل قدر اضافہ ہے، وہ اس کتاب کی اشاعت کو حاصل زندگی قرار دیتے تھے،ا س کی طباعت پر بے انتہا خوش تھے اور دوسرا ایڈیشن لانے کے لیے انتہائی فکر مند تھے، عبد الباری صدیقی صاحب نے اس کے صرفہ کی ذمہ داری قبول کر لی تھی ، اسی دن وہ عبد الباری صدیقی صاحب کی رہائش گاہ سے اپنے مستقرایک بائیک پر سوار ہو کر لوٹ رہے تھے کہ وہ پھینکا گیے، جس سے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی اوروہ بستر سے لگے تو پھر اٹھ نہیں سکے۔
مولانا مرحوم سے میرے تعلقات کم وبیش تیس سال سے زائد سے تھے، پہلی ملاقات تو یاد نہیں ہے، مولانا نے خود ہی یادوں کی بہارمیں لکھا ہے کہ آل انڈیا ملی کونسل کے پہلے اجلاس نومبر 1992میں ہم دونوں ہم سفر تھے، اس سفر میں ساتھ ساتھ ہم دونوں نے ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری دی تھی،اور سبیل الرشاد بنگلور کا سفر بھی ہم نے ساتھ ساتھ کیا ھا، واپسی پر بہار میں ملی کونسل کی تشکیل ہوئی اور مفتی نسیم احمد قاسمی کے ساتھ جو ٹیم بنی اس کے وہ اہم رکن تھے، بہار ملی کونسل کا جب میں سکریٹری بنا تو وہ میرے دست وبازو بنے، کئی سالانہ اجلاس میں میرا ان کا ساتھ رہا، حیات عبد الرحمن منظوم پر مجھ سے مقدمہ بھی انہوں نے لکھوایا ، امارت شرعیہ جب آتے تو گھنٹوں میرے پاس بیٹھتے، اپنے گھر بلا کر دعوت کھلاتے، تبادلۂ خیال کرتے ان کی کتاب ’’یادوں کی بہار‘‘ چھپ کر آئی تو جن چند لوگوں کو انہوں نے بلا قیمت کتاب فراہم کرائی،ا ن میں ایک نام میرا بھی تھا، مولانا اسرار الحق صاحب پر انہوں نے یادوں کی بہار میں اپنا مضمون شامل کیا تو قارئین کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا کے اوپر میرے( محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) مضمون کو ضرور پڑھیں،ا نہوں نے میرے اس مضمون کو خوبصورت پر کشش اور معلوماتی قرار دیا تھا، انہوں نے اس کتاب میں ایک مضمون میرے اوپر بھی شامل کیا، جس کے حرف حرف سے ان کی محبت کا اظہار ہوتا ہے، ان کے اسی اقتباس پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں:
’’مفتی صاحب جب سے نقیب کے مدیر با اختیار بنائے گیے ، اس کے معنوی وظاہری رنگ وروپ میں نکھار آگیا ہے، یہ اخبار مجھے مولانا وحید الدین خاں کی ادارت میں جمعیۃ علماء ہند کے ترجمان الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن کی یاد دلاتا ہے، گو ہمارے نقیب کا معیار الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن سے بھی بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے مجھے نقیب کا ہر ہفتہ انتظار رہتا ہے، مفتی صاحب کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے جو پکے آم کے مانند ٹپکتے ہوئے دنیا سے سدھارتے ہیں،یہ خاکے اسلوب کے اعتبار سے خوبصورتی کے ساتھ پر کشش اسلوب تحریر کیساتھ سفینۂ عبرت بھی ہوتا ہے، میں سطر سطر پڑھتا ہوں، ان کا حاصل مطالعہ اور بلا تبصرہ اتنا مختصراور پُر اثر ہوتا ہے کہ مجھے داد دینی پڑتی ہے، مفتی صاحب کی قدیم روایت کی پابندی یعنی مرحومین کی مرثیہ خوانی ، کبھی زندہ ملی شخصیات پراپنے قلم کی جولانی دکھاتے ہیں، ان پر غصہ بھی آتا ہے کہ ا تنی خوبصورت اورپر اثر تحریر کیوں لکھتے ہیں،  اللہ کرے مفتی صاحب کا زور خطابت ، طلاقت لسانی، اسلوب نگارش ،شعور وادراک ، فصاحت وبلاغت، سلاست اور مثبت فکر وخیال ،شیریں انداز تحریر، اوران کا فکر باقی رہے۔‘‘

پیر, جنوری 15, 2024

مقامی ملی و رفاہی تنظیم تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ

مقامی ملی و رفاہی تنظیم تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ ہرموقع اور ناگزیر حالات کے موقع پر ملی رفاہی اور فلاحی امور کو انجام دینے کی کوششیں کرتی رہتی ہے 
Urduduniyanews72 
موسم سرما کے موقع پر ہرسال ضرورت مندوں تک گرم ملبوسات پہنائے جانے کا مکمل نظام بناتی ہے اور ان کے گھروں تک سامان ضرورت تنظیم کے کیڈر کے ذریعہ پہنچایا جاتا رہا ہے 
اس بار موسم سرما میں گرم کپڑوں کے انتظامات میں جوکی ہاٹ کے جن دوکانداروں اور مخیر حضرات نے غرباء کی حاجت روائی کے لئے گرم ملبوسات عطاء کیا ان میں حافظ محمد قیصر حافظ محمد سلمان، مولانا محمد رضوان، امیرجماعت حاجی مرغوب صاحب، محمد توحید، مولانا محمد مرشد، محمد شعیب، مفتی محمد ارشد مظاہری، محمد منظر، حاجی حافظ ابوطالب، حاجی جسیم الدین، مولانا محمد صابر، محمد منا، محمد ارشاد، محمد خالد، حافظ عبدالرحیم، محمد اقبال، حافظ عبدالواحد، حاجی محمد مظفر، حاجی عبدالصمد، مولانا عبداللہ سالم قمر قاسمی، محمد داؤد عالم، محمد خالد، ابوطالب بن محمد سرور، محمد افتخار، حاجی محمد شمیم، مولانا محمد شعیب، محمد عاشق، محمد تہذیب،  حافظ محمد افروز، 
وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں اور بھی افراد ہیں جن کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے 
اپنی تنظیم کی جانب سے مذکورہ دوکانداروں کا دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہوں ، 
اس موقع پر مفتی محمد اطہر حسین قاسمی، قاری ایم رحمانی، مفتی محمد نعیم، عبدالقدوس راہی پریس، مولانا عبدالسلام عادل ندوی، مولانا محمد نوشاد مظاہری، مولانا شعیب مظاہری، عبدالحق عظیمی، حافظ سعود عالم، مولانا محمد رضوان، قاری محمد منظور، مولانا فیاض احمد راہی، قاری امتیاز، محمد توحید، حافظ محمد معصوم، حافظ محمد قیصر، حافظ عبدالحلیم، حافظ عبدالرحیم، حافظ مبشر، حافظ محمد اسلم، حافظ محمد جعفر، عظمت اللہ فیضی، وغیرہ شامل رہے

*****گلزار کی کہانی‘‘حساب کتاب’’******

******گلزار کی کہانی‘‘حساب کتاب’’******
Urduduniyanews72                            * انس مسرورانصاری

       عرصہ قبل اسّی کےدہےمیں گلزارکی نظموں کومیں
نےہندی میں پڑھاتھا۔ان نظموں کی سحرانگیزی کے اثرات اب تک میرےذہن میں تازہ ہیں،لیکن دودھ سے دھلی ہوئی ان نظموں کامطالعہ وتجزیہ مقصودنہیں ہے۔تذکرہ ‘‘راوی پار’’کاہےجوگلزارکی کہانیوں کامجموعہ ہے،بلکہ اس مجموعہ میں شامل گلزارکی ایک کہانی ‘‘حساب کتاب’’کاہے۔فلم نگری ہو یاشعروادب،گلزارکے آرٹ اورفن کےمظاہرپوری توانائی کےساتھ نظرآتےہیں ۔
‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک معمولی اورغیر اہم سی کہانی لگتی ہے،جیساکہ گوپی چند نارنگ نے ‘‘راوی پار’’ کی اکثرکہانیوں کاجائزہ لیتےاورتبصرہ کرتےہوئے اس کہانی کونظرانداز کردیا۔ 
      گلزارکی جل پریاں(کہانیاں)فکشن نگاری میں انہیں ایک امتیازی مقام دلاتی ہیں۔روایت کےاحترام کے ساتھ سادہ اسلوب اوردل کش بیانیہ ان کی شناخت ہے۔انہیں  کہانی کہنےکاہنرآتاہے۔اپنےتخلیقی اظہارکےمحرکات و عوامل کےتعلق سےلکھتےہیں: 
            ‘‘افسانہ لکھنےکےلیےصبرکی ضرورت پڑتی ہے،جواس عمرمیں چاہےمل بھی جائےمگراس(بڑی)عمر میں بہت مشکل سےملتاہے۔کچھ اس طرح افسانہ نگاری شروع کی۔ہنرمندتوبہرحال کہیں نہ ثابت ہوئے،لیکن روزگارکی ضرورت کےتحت نثراس قدرلکھنی اور پڑھنی پڑی کہ شاعری گوشہ نشینی کی وجہ بن گئی۔جب بھی فلم اسکرپٹ اورمکالموں سےبھاگےتوشعرکی کٹیامیں پناہ لی۔گانےاتنےکبھی نہیں تھےلکھنےکے لیے۔اس لیے شاعری دھیمی دھیمی آنچ پرپکتی رہی۔ 
         افسانوں کایوں ہواکہ دورےکی طرح پڑتےتھے۔کبھی لمبےسفرپرنکلےتوکوئی افسانہ اپنی پوری تشکیل کےساتھ سامنےآگیا۔کبھی گاہے بہ گاہے لکھی ڈائری دہراتےہوئےصفحوں میں رکھامل گیا۔فلم اسکرپٹ لکھتے ہوئےکوئی نیاکردارسوجھایامشاہدے میں آیاتوجی چاہا اس پرافسانہ لکھیں،یااسکرپٹ کرتےہوئےبڑی انوکھی سچویشن پیداہوگئی۔انسانی زندگی کی جھلک روبرو آگئی،انسا نی رشتوں کی کوئی نئی پرت کھل گئی تو اس پرافسانہ لکھ لیا۔جوفلم میں نہیں سمایااسے الگ سےجمع کرلیا۔کچھ افسانےیوں ہوئےکہ پھوڑوں کی طرح نکلے۔وہ حالات،ماحول اورسوسائٹی کےدیئے ہوئے تھے۔کبھی نظم کہہ کےخون تھوک لیااورکبھی افسانہ لکھ کرزخم پرپٹّی باندھ لی۔مگر ایک بات ہے،نظم ہویا  افسانہ،ان سےعلاج نہیں ہوتا۔وہ آہ بھی ہیں،چیخ بھی،دُہائی بھی مگرانسانی زندگی کےدردکاعلاج نہیں ہیں۔’’ (راوی پار،،ص،18) 
       اُردوفکشن نگاری میں گلزارکانام زیادہ روشن نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ وہ بہت بعدمیں آئے ہیں۔فلمی شہرت اورمقبولیت نےان کی تخلیقات کی طرف لوگوں کومتوجہ کیا۔ایسانہیں ہےکہ گلزارکی شاعری یافکشن نگاری کمزورہےبلکہ ادب کی دنیا میں ان کی تشہیرکم ہوئی۔اپنے اسلوب اورتکنیک کےاعتبار سےان کی کہانی ‘‘بمل دا’’انفرادیت کااحساس دلاتی ہے۔‘‘راوی پار’’ میں مختلف النو ع موضوعات پران کی بہت اچھی کہانیاں موجودہیں اوردعوتِ فکرونظردیتی ہیں۔گلزاراوران کی کہانیوں کاذکرکرتےہوئےصلاح الدین پرویز لکھتے ہیں:
        ‘‘..ــــ.....میرےاوراس کےدرمیان ایک عظیم رشتہ ہےاوروہ رشتہ ہےخوشبواورپانچ ہزارسال کا.....اوراس پانچ ہزارسال پرانےآدمی کااردوسےوہی تعلق ہے جو سمندرکاموجوں سےہوتاہے،جومیرؔکاغم سےاورغالبؔ کامئےسےتھا.....یہ آدمی یوں تو عمرکے حساب سےمجھ سےبہت بڑاہے،لیکن میرادوست ہے......نہیں ،نہیں،وہ میرا دوست نہیں بلکہ اس کی شاعری میری دوست ہے،اس نےاردومیں جتنی اچھی،سچی شاعری کی ہےاورکہانی لکھی ہے،اس کی اسے دادنہیں ملی.....اس کی ایک وجہ نام نہادنقادوں کی گروہ بندی،غیرضروری فہرست سازی اورمدیروں کاتجاہل اورستم شعاری بھی ہوسکتی ہے...یااس کی وجہ کہیں وہ دنیاتونہیں جس میں وہ آج بھی مقیم ہے۔کاش،وہ میری طرح،میری دنیامیں،میرے گھر،میرےساتھ،رہنےلگے،کاش،یہ میرا بےربط مضمون پڑھ کراردوکےقارئین،اس سے وہ محبت کرنے لگیں جس  کاوہ مستحق ہے۔سچ کہتاہوں اگر آج کے تین،چارسچے شاعروں اورکہانی کاروں کانام لیاجائےتواس کانام ان میں سےایک ہوگا۔بس انہیں اس عینک کی ضرورت ہوگی جواس کےلگی ہوئی ہےاوروہ اس لیےکہ اس کے پاس ایک ان دیکھی خوشبواورپانچ ہزارسال ہیں۔۔۔۔لیکن اس وقت مسئلہ تواس کی عینک کاہےجومیرے خیال میں جل پریاں اٹھاکرلےگئی ہیں ....ائے جل پریو!کیاتم گلزارکی عینک واپس نہیں کروگی.....؟ 
      ارے میں یہ کیالکھ گیا،اصل میں یہ جل پریاں ہی توگلزارکی نظمیں اور کہانیاں ہیں۔گلزاربھائی!آپ نے سچ کہاتھا.....ایک ایک جل پری کی عمر پانچ پانچ ہزارسال ہوتی ہے........!’’ 
                  (‘‘راوی پار’’ص،15) 
گلزارکےچاہنےاورپسندکرنےوالوں کوشکایت ہےکہ فکشن اوربیانیہ ادب میں اُنہیں وہ مقام نہیں دیاگیا جس کےوہ مستحق ہیں۔اس کی ذمّہ دار ی وہ ناقدین ادب کی گروہ بندیوں پر ڈالتے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گلزارفکشن کی دنیا میں بہت بعدمیں آئے۔بےشک ان کی کہانیاں جل پریوں کی طرح خوبصورت ہیں،تاہم وہ اردوادب کوکوئی بڑی اورشاہکارکہانی نہیں دےسکے۔کوئی ایسی کہانی جولوگوں کے دلوں کومیوکرسکے۔کوئی ایسی کہانی جس کاذکرباربا رکیاجائےجودلوں کو اپنی گرفت میں رکھ سکے۔گلزارکی فلمی شہرت ہی نے بعض ناقدوں کوان کی طرف متوجہ کیا، ان کی کہانیوں نے نہیں۔!اس لیے یہ شکایت درست نہیں کہ انہیں نظراندازکیاگیاہے۔گلزارکی کہانیوں کاتجزیاتی مطالعہ پیش کرتےہوئےگوپی چندنارنگ لکھتے ہیں ـ:
           ‘‘گلزارکےفن کارہونےمیں شبہ نہیں،لیکن فن اورفن میں فرق ہوتا ہےاورہرفن کےتقاضےالگ ہیں۔ضروری نہیں کہ ایک زمرےکافن کاردوسرےزمرےمیں بھی اتناہی کامیاب ہو۔فلم کی شہرت اپنی جگہ،گلزار کہانی کےفن میں ایسےکھرےنکلیں گے،اس کاسان گمان بھی نہیں تھا۔’’ 
        وہ مزیدلکھتےہیں‘‘گلزارپُرفریب فنکارہے،ہرقدم پرجل دےجاتاہے۔ہرکہانی کےساتھ زندگی کااورزندگی کےتجربےکااُفق بدلتاہےاوروسیع سےوسیع ترہوتاجاتا ہے۔ 
 اکثرفلم والوں کودیکھاہےکہ جب لکھتےہیں تورومانس اورفارمولاسے باہرکم ہی قدم رکھ پاتےہیں،یعنی گھوم پھرکروہی فضاجس میں ان کی زندگی گزری ہے۔ان کے ذہن کورومانی موضوعات سےایک جکڑسی پیداہوجاتی ہےجواوّلین گناہ کی طرح ان سے چپک جاتی ہےاوروہ ہرگزاس سےاوپر نہیں اُٹھ سکتے۔لیکن گلزارکے یہاں تعجب ہوتاہے کہ مصنف اِس wavelengthیااُسwavelengthکاخالق نہیں ہے۔ان کےیہاں ہرکہانی کےساتھ زندگی کاایک نیاروپ،ایک نیارخ،ایک نئی سطح نظرآتی ہے۔ایک نیازاویہ،ایک تجربہ،ایک ایسےذہن وشعورکاپتادیتاہےکہ اس کالگاؤ اِس رخ یااُس رخ سےنہیں،بلکہ زندگی کی پوری سچائی سےہےیازندگی کےاس کھلےتجربےسےجوحدیں نہیں بناتا،حصارنہیں کھینچتا،رشتوں،طبقوں، نفرتوں اور محبتوں میں کسی ایک پرت پراکتفانہیں کرتابلکہ سچائیوں کےآرپاردیکھتاہےاورزندگی کواس کے پورے تنوع،بوقلمونی اورتجربےکواس کی تمام جہات کے ساتھ انگیزکرتاہے۔کسی بھی فنکارکے لیے یہ کمال معمولی نہیں۔غالب نےباجےکوراگوں سےبھراہواکہاتھا۔گلزارکی کہانیوں کوذراساچھیڑنےکی ضرورت ہے،زندگی کےسُر،ان میں سےنکلنےلگیں گے۔ایک ایسےفن کارکے لیے جس نے ساری زندگی فلم سازی میں کھپادی،یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ اس نےایسی کہانیاں لکھیں جن میں زندگی کاسنگیت بھراہواہےاورہرکہانی میں زندگی کا ایک الگ روپ،الگ تجربہ سامنے آتاہے۔’’ 
                                  (‘‘راوی پار’’ص،۸۔۷) 
گلزارکی کہانیوں کامطالعہ،موضوعاتی گوناگونی،رنگا رنگی اوربوقلمونی ڈاکٹرگوپی چندنارنگ کےبیان کی تائیدوتوثیق کرتےہیں۔بلاشبہ ان کی تصوراتی گرفت اورمختلف ومتضادرنگ آمیزیوں کےسبب ان کی کہانیوں کاکینوس بہت وسیع ہوگیاہے۔شہروں کی شور مچاتی ہوئی سڑکوں،گلیوں ،کوچوں ،بندتاریک کمروں،فلمی رنگینیوں ،قصبوں اورگاوؤں کی دھول اُڑاتی ہوئی زندگیوں کوانہوں نےخوبصورتی کےساتھ عکس ریزکیاہے۔ ہرجگہ اورہر مقام پرکہانیاں اُنہیں تلاش کرلیتی ہیں۔  
             گلزارکی کہانیاں مختصرہوتی ہیں۔وہ قاری کوالجھاتےنہیں بلکہ اس کی انگلی تھام کر منظروں کی سَیرکرادیتےہیں۔پلاٹ میں بھی پیچیدگی نہیں ہوتی۔ سادہ بیانی ان کی بڑی خصوصیت ہے۔جہاں اتنی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں وہیں گلزارکہیں کہیں اپنے پڑھنےوالوں کوتھکابھی دیتےہیں۔بعض کہانیوں میں مکالمےاتنےکثیراورغیرضروری محسوس ہوتےہیں کہ قاری بوریت کاشکارہوجاتاہے۔بعض کہانیاں کسی کلائمکس کےبغیرختم ہوجاتی ہیں،جہاں قاری کوایک قسم کی تشنگی،ادھورےپن اوراپنےٹھگ اُٹھنےکا احساس ہوتاہے۔    
        ‘‘راوی پار’’کی ستّائس(27)کہانیوں میں‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک فرسودہ موضوع پرلکھی گئی معمولی اورغیراہم سی کہانی ہے۔غالباََپیش افتادہ موضوع کے سبب ڈاکٹرگوپی چندنارنگ نےاپنی گفتگو میں دیگر کہانیوں کےساتھ‘‘حساب کتاب’’کاذکرنہیں کیاہے۔لیکن اس کہانی کاموضوع جس قدر پُرانااورفرسودہ ہےاسی قدرنیا اورسلگتاہواسابھی ہے۔ پُرانااس لیے کہ اس موضوع پرہزاروں کہانیاں لکھی جاچکی ہیں اورلکھی جارہی ہیں اورمضامین تحریر کیے جارہے ہیں۔ یہ آج بھی پہلے ہی کی طرح سلگتاہواتازہ دم ہے۔گلزارنےاسے بڑےسلیقےسےلکھاہے۔کہانی۔۔حساب کتاب۔۔پرتبصرہ کرتےہوئےمعروف نقادحقانی القاسمی لکھتےہیں۔ 
       ‘‘ایک سماجی مسئلےسےجڑی ہوئی کہانی ہے۔ایک پڑھی لکھی بی۔اے پاس لڑکی کوبھی شادی میں کیسی کیسی دقتیں پیش آتی ہیں اورجہیزکےناسورنےسماج کوکس طرح جکڑلیاہے،یہ اہم ترین مسئلہ ہی اس کہانی کی موضوعاتی اساس ہے۔جہیزنہ بھی لیاجائےتب بھی جہیزکی شکلیں برقراررہتی ہیں یعنی معاشرہ جہیز کی لعنت سے کسی بھی طورپاک صاف نہیں ہے۔حساب کتاب عنوان ظاہر کرتا ہے کہ جہیز بدل جائے مگرماہیت نہیں بدلتی۔نوعیت بدل جائے مگر حقیقت نہیں بدلتی۔جہیزصرف سونےاورزیورات کانام نہیں ہےبلکہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جوجہیز کے زمرے میں آتی ہیں۔،،          
                  (راوی پار،ص ۱۷۰) 
      جہیزہندوستانی سماج میں ایک بڑی لعنت ہی نہیں بلکہ ایساناسورہےجوہمیشہ رستارہتاہےاوراپنے فاسد مادّہ سےاسےپرا گندہ کرتارہتاہے۔اس کہانی کی ابتداء اس کےدوبڑےاوربنیادی کرداروں کےتعارف سےہوتی ہے۔
‘‘بابودیناناتھ نےاپنےبیٹےسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسےطےکردی! 
ماسٹررام کماربڑےخوش تھے۔پڑھالکھاکربیٹی کو بی۔اےکرادیاتھا۔اونچی تعلیم دلائی تھی اورسب سے بڑی بات کہ جب اوشانےنوکری کرنی چاہی توانہیں رتّی بھربھی اعتراض نہیں ہوا۔فوراََ اجازت دےدی۔فکرتھی توصرف اتنی کہ کل کوئی بر(رشتہ)اپنےآپ چن کرنہ لے آئے۔آخرتھی تو بچی ہی۔قدبت نکلنےسےہی بچےسمجھ دارتونہیں ہوجاتے۔لیکن اوشانےاس طرح کی کسی شکایت کاکوئی موقع نہیں دیابلکہ دوایک بارجب اس کےرشتےکی بات چلی تھی تواس نے گردن جھکاکے بڑے ادب سےکہہ دیا...‘‘آپ میرےلیےجوسوچیں گے میرےسر آنکھوں پر۔’’ 
        اوشاکونوکری کرتےہوئےتین چارسال ہوگئے۔اس نے اپنی تنخواہ کےذریعےگھرکابوجھ تواٹھالیاتھا لیکن اس کابوجھ ماسٹررام کمارپرآہستہ آہستہ بھاری ہونے لگا۔کئی جگہ رشتے کی بات چلی مگر ٹوٹ گئی۔ہرجگہ اس کےدام لگ جاتے۔کوئی پچاس ہزارکانقدجہیزمانگتااور کوئی لاکھ روپےکا۔ کوئی اسکوٹرکی فرمائش کردیتا۔ سونا،زیو رتوالگ ہی رہے۔ماسٹررام کماراپنی ساری پونجی اوشاکی تعلیم پرخرچ کرچکےتھے۔لے دیکے ان کایہی ایک رہائشی مکان تھا۔چھوڑدیں توپگڑی مل جائے گی لیکن پگڑی لےلیں توسرکہاں چھپائیں۔؟وہ بہت ساری فکروں میں گھیرےہوئےتھے۔اوشا ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ان کےلیےوہی سب کچھ تھی ۔اس کےلیے وہ ایک ایسےرشتہ کی تلاش میں تھےجوپڑھالکھابھی ہو اوردان دہیج کالالچی بھی نہ ہو۔اس زمانےمیں ایسی سوجھ بوجھ والےلڑکےکہاں ملتےہیں۔اچانک ماسٹررام کمارکی ملاقات دیناناتھ سےہوگئی۔دیناناتھ کی ایک دکان تھی جہاں سائن بورڈ بنانے،رنگنےاورلکھنےکاکام ہوتاتھا۔بیوپاراچھاخاصاچل رہاتھا۔آمدنی بھی بہت اچھی خاصی تھی۔چارپانچ کاریگرکام کرتےتھے۔ان کااکلوتالڑکاسرون کماربیوپارسنبھالتابھی خوب تھا۔مجال نہیں کبھی کسی انگریزی لفظ کی ہجّے غلط ہوجائے۔اب تواس نے کئی زبانوں کی لغتیں بھی دکان پررکھ چھوڑی تھیں۔سرون کمارکی تعلیم کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاتھا۔اس میں خوبی یہ تھی کہ وہ محنتی بہت تھا۔دکان کاسارابوجھ سنبھال رکھاتھا۔ ماسٹررام کماراپنےاسکول کاایک بورڈبنوانےگئےجہاں دیناناتھ سےان کی تفصیلی گفتگوہوئی۔وہ دونوں ایک دوسرےکےخیالات سےکافی متاثرہوئےاوریہیں سے دونوں کی خوب جمنےلگی۔دکان اورمکان میں ایک دوسرےکاآناجانابھی ہونےلگا۔دعوتیں بھی ہونےلگیں۔اس طرح یہ دونوں خاندان ایک دوسرےکےبہت قریب آگئے۔اورپھرایک دن بابودیناناتھ نےاپنےبیٹےسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسےطےکردی۔دونوں بہت خوش ہوئے۔کہانی کایہ آخری حصّہ بہت اہم ہے جس میں گلزارنےکہانی کےکرداروں کی تحلیلِ نفسی کی ہے۔ماسٹررام کماراپنی بیٹی سےکہہ رہےتھے:
        ‘‘بہت ہی اونچےخیالات ہیں بابودیناناتھ کے۔بتاؤ آج کےزمانےمیں اورملےتوملےایسےسسرملتےہیں کہیں؟کہنےلگےمجھےتوایک دھیلےکادہیج نہیں چاہیے۔ساڑھے تین کپڑوں میں لڑکی بھیج دیجیےاورلڑکی آپ کی پوری آزادی کےساتھ سروس کرتی رہےگی۔’’میں تو حیران ہوگیا۔بولے...‘‘ میری توشرط ہےکہ اوشااپنی سروس کےساتھ ہی میرےگھرکی بہوبنےگی۔مجھے رسوئی گھرکی باندی نہیں چاہیے۔’’ 
       اورادھردیناناتھ اپنی بیوی کوسمجھارہےتھے۔ ‘‘ناراض کیوں ہوتی ہوبھاگیوان!تمھارالایاسوناکیابچا؟کچھ دکان بنانےمیں اٹھ گیا،کچھ ٹیکس چکانےمیں!ہم توسانس لیتاسونالائےہیں دہیج میں...پنشن بندھ گئی۔ چودہ سوروپےتنخواہ کےلائےگی اورڈرائنگ بھی اچھی ہے اس کی۔بارہ سوروپےکاایک ورکرکم ہوادکان پر!کیوں۔؟’’ (حساب کتاب) 
        موجودہ بےرحم ہندوستانی سماج میں دیناناتھ جیسےلوگوں کی کمی نہیں۔شہرہویاگاؤں!قصبہ ہویا دیہات۔!گلزارکی یہ مختصرسی کہانی ہمیں بتاتی ہےکہ ہم کس وجہ سےپچھڑے پن کاشکارہیں۔سبب جہیز۔!
جہیزہندوستانی سماج کاایک ایساکینسرہےجوہماری نئی نسل کوتیزی کےساتھ نگل رہاہے۔زندہ درگورکررہا ہے۔غریب اورمتوسط طبقہ کی بچیاں والدین پربوجھ بنتی جارہی ہیں۔شادی کی عمریں نکل جاتی ہیں،بالوں میں سفیدی آجاتی ہےاورآنکھوں کےسارےسہانےخواب مر جاتےہیں۔اس دورکاخودغرض،وحشی اوربدترین سماج بچیوں کوجرم کی طرح دیکھتاہےاورغریب والدین کو مجرم کی طرح۔اس ترقی یافتہ عہدِجاہلیت میں بچیوں کاجس طرح استحصال ہورہاہےاس کی مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔حدیہ کہ انھیں پیداہونے سےروکا جاریاہے۔زندہ جلایاجارہاہے۔اوریہ سب کچھ جہیزکے سبب ہورہاہے۔حکومتیں جہیزمخالف قانون بناتی ہیں لیکن وہ خوداس پرعمل کرتی ہیں اورنہ ان کےعوام۔ 
کہتےہیں کہ قومی ترقی تعلیم میں پوشیدہ ہےلیکن وہ بچےکس طرح تعلیم حاصل کریں جن کےوالدین اور خودان پرکئی بیٹیوں اورکئی بہنوں کابوجھ ہے۔جہیز کےبغیرجن کی شادیاں نہیں ہوسکتیں۔
         کسی ملک کی اصل ترقی نیچےسےشروع ہوتی ہےاوراوپرتک جاتی ہے۔جس عمارت کی بنیادکمزورہووہ عمارت مخدوش ہے۔جس دن بھارتی سماج جہیزکی لعنت سےآزادہوگاوہ ملک اورقوم کی اصل ترقی کاپہلا دن ہوگا۔تب غریب بچےپڑھ سکیں گے۔ان کےکاندھوں پرجہیزکابوجھ نہیں ہوگا۔وہ آزادہوں گے۔
            ***                 
              Anas Masroor Ansari
        Qaumi Urdu Tahreek Foundation
              Sakrawal Urdu Bazar, Tanda       
          Ambedkar Nagar U.P. (224190)
                     mo/9453347784

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں محفل دعائیہ بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں محفل دعائیہ بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا 
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 15/جنوری 2024 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) 
قرآن کریم رب العالمين کی نازل کردہ وہ آخری آسمانی کتاب ہے  جسے رب العزت نے اپنے سب سے پیارے، چہیتے، اور آخری نبی و پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل تاریخ کے ساتھ نازل فرماکر پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ یہی وہ پیغامات ہیں جن پر کامیابیوں کی ضمانت پنہاں ہیں ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ہم ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی تحفظ وبقا کی ذمہ داریاں قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داریاں خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے  قرآن کو نازل کیا ہے اور  ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اسی کتاب سے حاصل کی جائے- اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اللہ کے نیک بندے اس کی تلاوت وسماعت کرتے ہیں، اسے سیکھتے ہیں اور دوسروں کو سکھا کر بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ایک ذریعہ اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ کرکے فرمایا ۔
واضح رہے کہ اس کڑی کا آغاز جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے دو طالب علموں نے "حافظ محمد افضل ابن محمد جمال،بیگوسراۓ، حافظ محمد شہزاد ابن محمد سہراب پٹنہ" ان دو طالب علموں نے جہد مسلسل کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرکے اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ 
 " وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(39)سورہ نجم" 
ترجمہ: 
انسان جس چیز کی کوشش کرے وہ اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے ۔
اس بابرکت موقع پر ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن، پیغامات قرآن سے متعلق  بچوں کو خطاب کیا گیا۔
تمام اساتذہ وکارکنان، سرپرست ،والدین نے دونوں طالب علموں کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان کی روشن مستقبل کے لئے دعائیں دیں، 
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں استاذ محمد ضیاء العظیم قاسمی، قاری عبدالواجد ،قاری عبد الماجد، مفتی نورالعظیم مظاہری وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ ایک خالص دینی ادارہ ہے ،جس کی بنیاد محض خلوص وللہت پر ہے، یہاں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،اس وقت جامعہ ہذا میں چوبیس طلباء ہاسٹل میں مقیم ہیں، مقامی تیس طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں پانچ اساتذۂ کرام ان کی تعلیم وتربیت پر معمور ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے اور مدرسہ اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

جمعرات, جنوری 11, 2024

قبروں پر بلڈوزر

قبروں پر بلڈوزر 
اردودنیانیوز۷۲ 

پچھلے تین مہینے سے صہیونی افواج کی غزہ پر بمباری،عام شہریوں کی گرفتاری، دکان ومکان کی مسماری اور ہسپتال کی تباہی کی خبریں موصول ہورہی ہیں،مگر یہ خبر پہلی بار مل رہی ہے کہ فلسطین کے قبرستان پر بھی اسرائیلی کارروائی شروع ہوگئی ہے، اس وقت جبکہ غزہ شہرسنسان پڑا ہے، انسانی آبادی ملبہ کے نیچے دبی ہوئی ہے، شہربھی قبرستان کا منظر پیش کررہا ہے، اس سے بھی درندوں کو سکون نہیں ملا تو اب وہاں کےقبرستان کو بھی زیر وزبر کرنے کی تیاری ہے۔
بقول شاعر؛
                آباد کرکے شہر خموشاں ہرچار سو 
            کس کھوج میں ہے تیغ ستمگر لگی ہوئی 

یہ بات تین دن پہلے کی ہے۔غزہ  شہر کے مشرق میں واقع "التفاح "نامی محلے کےقبرستان کواسرائیلی فوج نے بلڈوز سے تہس نہس کر دیا ہے، شہدا کی لاشیں نکال کران کے باقیات کو زمین پرپھیلادیا ہے،انہیں رونداگیا ہے، کل گیارہ سو قبریں اکھیڑ دی گئی ہیں۔  پچاس شہداء کی لاشیں غائب بتائی جارہی ہیں۔
 گورستان کے اس منظر نے پوری دنیا کے لوگوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، اس تکلیف دہ منظر نےمردہ دلوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، پوری انسانی برادری شرمسار ہوئی ہے، سننے والوں کو یہ واقعہ افسانہ محسوس ہوتا ہے،نیز انسانیت کے لئےایک سوالیہ نشان قائم ہوگیا ہے کہ کیا ایک انسان اس حد کو پار کرسکتا ہے؟کیا کسی مذہب میں اس حد تک گزرنے کی گنجائش ملتی ؟جواب ہر حال میں نفی میں آئے گا۔
مذہب اسلام میں انسان کی تکریم کا حکم ہے،قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ؛ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے (قرآن )اس لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، خواہ وہ کسی برادری اور کسی مذہب سے وابستہ ہوں، بحیثیت انسان اس کے حقوق ایک مسلمان پر لازم آتے ہیں، ان کاخیال کرنا ہی مسلمانی ہے۔خانہ کعبہ جو خدا کا اس دھرتی پر پہلا گھر ہے،اپنی نمازوں میں مسلمان جس کی جانب رخ کرتے ہیں، ایک انسان کی عظمت اس گھر سے بڑی چیز ہے۔انسان زندگی میں بھی انسان ہے ،اور مرنے کے بعد بھی وہ عزت وتکریم کا حقدار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں انسانی لاش کی بے حرمتی سے منع فرمایا ہے۔جنگ کے میدان میں بھی اس کی اسلام میں قطعا اجازت نہیں ہے کہ دشمنوں کی لاش کی بے حرمتی کی جائے،بخاری شریف کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار اورلاش کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔مذہب اسلام کیا کوئی بھی مذہب اس بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا ہےاور نہ عالمی جنگی قانون میں اس کی گنجائش ہے۔باوجود اس کے اسرائیل اس حد تک صرف اور صرف اسی لئے اتر گیا ہے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو کمزور کرد ہے، اور ان کے عزم واستقلال کو متزلزل کردے۔درحقیقت اس کوشش میں اسرائیل ناکام ونامراد ہوچکا ہے۔اس کی بڑی دلیل فلسطین سے متعلق موجودہ مقامی وعالمی حالات ہیں، جو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کے عزائم مزید پہاڑ جیسے مضبوط ہوتے چلے جاریے ہیں، اب قبرستان پر شہداء کی لاشوں کے ساتھ صہیونی توہین سے یہ گھبرانے والے نہیں ہیں۔اب تو ان کی جدوجہد اور صبر بھی اسلام کی دعوت بن گئی ہےاوراس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ہفتہ عشرہ کے اندرایک وقیع تعداد نے یہ سب دیکھ کر اسلام قبول کیا ہے ۔ڈیوڈ گولڈ نامی پادری جنہوں نے  پینتالیس سال مسلسل چرچ کی خدمت کی ہے اب وہ  اسلام کے لیے وقف ہو چکے ہیں، اپنا نیا اسلامی نام عبدالرحمن بھی تجویز کر چکے ہیں، اسٹریلیا کی تیس خواتین نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اسلام میں کس وجہ سے داخل ہوئی ہیں توانہوں نےیہ بتلایا ہے کہ "فلسطینیوں کی جدوجہد نے ان دلوں کو چھو گئی جس کے باعث انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسائل انہیں روزانہ کی بنیاد پر رلاتے ہیں "۔
 ان واقعات کی روشنی میں یہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ یہ قبرستان کی کاروائی بھی دعوت اسلام کا بڑا ذریعہ سبب بنے گی،ان شاء اللہ العزیز۔
 قران کریم میں ارشاد ربانی ہے دنیاوی ساز و سامان پر فخر نے تم کو اخرت سے غافل کیے رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبرستان پہنچ جاتے ہو، ہرگز نہیں تم کو بہت جلد قبر میں جاتے ہی معلوم ہو جائے گا، پھر دوبارہ تم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا، اب تو تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے ،پھر تم اس کو اس طرح دیکھو گے جو تم کو پختہ یقین ہوجائے گا، پھر اس روز تم سے نعمت کی پوچھ ہوگی( قرآن )
آج غزہ کو قبرستان بنانے والے اور وہاں کے قبرستان پر بلڈوزر چلانے والے ان صہیونیوں کا انجام بھی دوزخ ہے۔
انہیں اپنے جنگی ساز و سامان اور بلڈوزر پر بڑا نشہ ہے،اس سے تعمیر کا کام نہ لیکر تخریب کاری مچارہے ہیں۔
اب اس ناپاک عزائم کو لیکر قبرستان میں بھی پہونچ گئے ہیں۔بار بار اسرائیل کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہ کرے باوجود اس کے وہ اس کا بار بارمرتکب ہورہا ہے،اقوام متحدہ کی ہدایت بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے، جس طرح قرآن ایسے لوگوں کو بار بار خبردار کرتا ہے کہ اس حد تک زیادتی کا مطلب اخرت کی تباہی ہے،عنقریب وہ اپنے انجام کو پہونچ جائیں گے۔پھر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے کہ ظلم کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟


مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل

ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بدلتے ہندوستان میں ہرچھوٹے،بڑے کے ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ ظاہر ہے یہ بات صرف اللہ رب العزت جانتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے، انسان حالات کا تجزیہ کر سکتا ہے، اندازہ لگا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نوشتہئ دیوار پڑھنے کی کوشش کر سکتا ہے، ان کوششوں کے نتیجے میں جو چیز چھن کر سامنے آئے گی وہ حتمی تو نہیں ایک ظنی بات ہوسکتی ہے، یہ گمان حقیقت کے قریب بھی ہو سکتا ہے اور دور بھی۔
 واقعہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں، ہندتوا کی تیز لہر نے مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہونچایا ہے، ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور مسلمان خوف کی نفسیات میں جی رہے ہیں، ماب لنچنگ، فسادات، مسلم پرسنل لا سے متعلق قوانین میں عدالت کے ذریعہ ترمیم کے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں، بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوچکا ہے، بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور دہلی کی سنہری مسجد پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، تین طلاق کا لعدم ہو کر قابل تعزیر معاملہ بن گیا ہے، لیو ان ریلیشن شپ یہاں جائز ہے اور اس میں تعداد کی بھی قید نہیں ہے، لیکن کثرت ازدواج کو جرم قرار دیا جا رہا ہے، آسام میں اس سلسلے کا بل اسمبلی میں پیش ہونے والا ہے، سی اے اے، این آر سی کو 2024 کے انتخاب کے قبل نافذ کرنے کی بات زوروں پر چل رہی ہے اور وزیر داخلہ نے اس کے لیے کمر کس لیا ہے، بعض جگہوں پر فرقہ پرستوں نے مسلم تاجروں اور چھوٹے دکانداروں سے سامان کی خریداری پر روک لگا رکھی ہے یوٹیوب پر اس مہم کی کئی کلپ آپ کو مل جائیں گی، غرضیکہ مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ کی جا رہی ہے، انہیں جانی،مالی وسماجی، بلکہ اعتقادی مسائل ومشکلات کا سامنا ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 سماجی طور پر مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دینے اور انہیں نفسیاتی دباؤ کے ذریعہ مضمحل کرنے کی مہم بھی زوروں پر چل رہی ہے، جس کی وجہ سے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں، ڈاڑھی اور حجاب کا معاملہ اسی زمرے میں آتا ہے، حکومتی سطح پر معاملات کے نمٹانے کے بھی پیمانے دو ہو گیے ہیں، نواب کنور دانش کوپارلیامنٹ میں گالیاں دے کر بھی کوئی بچ جاتا ہے اور حکومت پر تنقید کرنے پر بعضوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے،جوہر یونیورسٹی برباد کی جاتی ہے، جب کہ غیروں کی کتنی عبادت گاہیں غیر قانونی طور پر قبضہ کی زمینوں پر قائم ہیں، کوئی جرم کرکے بھی دندناتا پھرتا ہے اور کوئی بے گناہی کے باوجود داروگیر کا شکار ہوتا ہے، حالات تویہی ہیں اور ان حالات کی روشنی میں اگر مستقبل کی طرف جھانکیں تو وہ تاریک نظر آتا ہے بہتری کی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
 لیکن ہم مسلمان ہیں، قنوطیت یاس اور نا امیدی میں جانے سے ہمیں روکا گیا ہے اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے، اللہ کی رحمت سے نا امیدی کو کفر کا شعار بتایا گیا ہے،ا س لیے ان تاریک راتوں کے بعد ہمیں ”صبح نو“ کی نمود دکھائی پڑتی ہے، فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔
 دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
رات کی تاریکی سے دن کے سورج نکلنے کی بات وہم وخیال نہیں، مشاہدہ اور صداقت پر مبنی ہے، جس کا ہم لوگ روز مشاہدہ کرتے ہیں، اس لیے ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس شب دیجور کی سحر یقینا ہوگی، تاریخ نے اس کا مشاہدہ بار بار کیا ہے کہ ”پاسباں مل گیے کعبے کو صنم خانے سے“۔
 معاملہ نادرشاہ درانی کا ہویا تاتاریوں کا، مسلمانوں پر بڑا سخت وقت گذرا اورکوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مسلمان اس سَیل بلا خیزسے کبھی نکل پائیں گے، لیکن نکلے اور آب وتاب کے ساتھ نکلے، انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت کو تاراج کیا، شیر میسور ٹیپو سلطان اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر بھی ان کے ظلم وستم کی بھینٹ چڑھ گیے، اس وقت بھی دنیا مسلمانوں کے لیے تاریک سی ہو گئی تھی، کم وبیش آٹھ سو سال تک حکمرانی کے بعد یہ زوال ظاہر ہے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے والا تھا، لیکن 1947میں ملک آزاد ہوا تو مسلمان اسی شان وشوکت کے ساتھ دوبارہ منظر عام پر آئے، زمینداری ختم ہوئی، شان وشوکت پر زوال آیا، کئی مسلم ریاستیں ہاتھ سے نکل گئیں، ہر طرف گھور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ایسے میں مسلمان نئے حوصلے اورجذبہ کے ساتھ میدان میں آئے، مولانا ابو الکلام آزاد نے مسلمانوں کے اکھڑتے قدم اور پاکستان کی طرف تیزی سے ہجرت کر رہے لوگوں کو آواز لگائی تو مسلمان ہندوستان میں جم گیے اور وہ اس وقت پوری ملکی آبادی میں کم وبیش اٹھارہ فی صد ہیں، بعضے تو یہ تعداد بائیس فی صد بتاتے ہیں، اس لمبی مدت میں تاریخ کی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا، بہت سارے مد وجزر آئے، سُدھی تحریک چلی، لڑکیوں کو مرتد کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گیے، مسلمانوں کو ان کی تہذیب وثقافت سے دور کرنے کی مہم پہلے بھی چل رہی تھی اور اب بھی چل رہی ہے، لیکن مسلمان وہ قوم ہے جسے روئے زمین سے ختم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ یہ ابدی اور دائمی امت ہے، اور اسے ہر طوفان سے نکلنے کا فن آتا ہے، سامنے کی بات ہے کہ اگر اسلام قیامت تک کے لیے ہے تو اس کے ماننے والے بھی قیامت تک رہیں گے۔
 اس رجائیت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ تو اب ابابیل کا لشکر آئے گا اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی طرح آسمان سے من وسلویٰ کا نزول ہوگا، قدرت کا نظام ہے کہ سارے کام اسباب کے ذریعہ ہوتے ہیں، اسباب سے پہلو تہی کرکے صرف امید کا دامن تھام کر ہم حالات کو بدل نہیں سکتے، ہمیں ان حالات کو بدلنے کے لیے بڑے عزم وارادہ کے ساتھ مثبت اور مضبوط فیصلے لینے ہوں گے اور اسے ترجیحی بنیادوں پر تنفیذ کے مراحل سے گذارنا ہوگا، تبھی ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی داغ بیل ڈال سکیں گے،  تبدیلیاں لانے کے لیے درج ذیل کام ہمیں لازماً کرنا ہوگا۔
۱۔سب سے پہلے ہمیں متحد ہونا ہوگا، اتحاد میں قوت ہے، ہم جس قدربھی اس بات کی تردید کریں کہ ہم ٹکروں میں بنٹے ہوئے نہیں ہیں، واقعہ یہی ہے کہ ذات برادری، مسلک ومشرب، ادارے، جمعیت اور جماعتوں کے نام پر ہم ٹکڑوں میں بنٹ گیے ہیں رفیق بن کر کام کرنے کے بجائے ہم آپس میں فریق بن گیے ہیں، ہمیں ملی کاموں میں ایک امت اور ایک جماعت کی حیثیت سے خود کو متعارف کرانا ہوگا۔آخر کچھ تو بات ہے کہ دو فی صد سکھ سے سارا ہندوستان ڈرتا ہے، اور حکومت تک اس کے خلاف قدم اٹھانے سے خوف کھاتی ہے، لیکن ایک مسلمان ہے جس کی متحدہ قوت نہیں ہے، اس لیے اسے پریشانیوں کا سامنا ہے، ہم چاہے جس قدر اس کا انکار کریں، واقعہ یہی ہے کہ ہمارے اندر کوئی متحدہ قیادت نہیں ہے، جس کے پیچھے ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے مسلمان چلنے کو آمادہ ہوں، لے دے کر ایک مسلم پرسنل لا بورڈ ہے، لیکن اس کا دائرہ کار صرف مسلم پرسنل لا ہے،ایسے میں ضرورت ہے کہ ایک مشترکہ قیادت کھڑی کی جائے، یہ کام آسان یقینا نہیں ہے، لیکن اسے نا ممکن نہیں کہا جا سکتا۔
 ۲۔ دوسری چیز میدان عمل کی تبدیلی ہے، پتہ نہیں کن کن امور میں ہم اپنی توانائی صرف کرتے ہیں، ہمیں ترجیحی طور پر تعلیم کی ترویج واشاعت اور معیاری تعلیم کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے، یہ وہ میدان ہے جس میں تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، شاملی کے میدان میں انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے جب حافظ ضامن شہید ہو گیے تو ہمارے بڑے جن میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒجیسے علماء شامل تھے،ا نہوں نے اپنا میدان عمل بدلا، اور دار العلوم دیو بند کا قیام عمل میں آیا، یہ انگریزوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا معاملہ نہیں تھا، یہ ایک ایسے میدان کا انتخاب تھا، جس میں بلا واسطہ انگریزوں سے تصادم کے خطرات نہیں تھے، پھرجب دار العلوم کی بنیاد مضبوط ہو گئی تب وہ بلا واسطہ جد وجہد آزادی میں علماء دیوبند کود گیے۔جس سے ہر تاریخ داں واقف ہے۔
۳۔ تیسرا میدان اقتصادیات کا ہے، مفلس قومیں اور افراد نفسیاتی کمتری کا شکار ہوتی ہیں اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہیں،اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہمیں چھوٹی بڑی صنعتوں اور گھریلو پیداوار کی طرف توجہ دینی ہوگی، تبھی ہمارے لیے مفلسی کے عذاب سے نکلنا ممکن ہو سکے گا۔ان صنعتوں کے قیام کے لیے مختلف ادارے اور تنظیموں کو بھی آگے آنا پڑے گا،تبھی یہ بیل سر چڑھ سکے گی، طریقے اور بھی ہیں، لیکن پہلے مرحلہ میں ترجیحی طور پر ہندوستان میں ان کاموں کو کیا جائے، انشاء اللہ حالات بدلیں گے اور مسلمانوں کا مستقبل روشن ہوگا، ہمیں یہیں رہنا ہے، اب دوسری ہجرت ہم سے نہیں ہونے والی، اور کریں بھی تو کون ملک ہمیں قبول کرنے کو تیار ہوگا، لیکن اس کے لیے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ
طلوع صبح کی خاطر ہمیں بھی جاگنا ہوگا        وہ جائیں میکدہ میں جنہیں لطف شام لینا ہے۔

بدھ, جنوری 10, 2024

ماں کا دودھ - بچوں کے لیے امرت

ماں کا دودھ  - بچوں کے لیے امرت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

 اپنے کو مہذب قرار دینے والے سماج میں اکثر نو زائیدہ بچوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں،(یہ حکم) اس کے لیے ہے جو چاہے کہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرے اور وہ مرد جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں) کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے، کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی، مگر جتنے کی گنجائش ہے نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ اس مرد کو جس کا بچہ ہے اس کے بچے کی وجہ سے اور وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑا نا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ (سورہ بقرہ: آیت(233
اس آیت میں دودھ پینے، پلوانے اور اس کے اخراجات کے حوالہ سے اللہ کا واضح حکم مذکور ہے،گو اس آیت کا شان نزول کچھ اور ہے، لیکن احکام خدا وندی شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے،اس لیے شان نزول خاص ہونے کے با وجود اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ عام ہے، یعنی ماں کو دوسال تک دودھ پلانا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو تو کسی دوسری عورت کا نظم کیا جائے جو دودھ پلائے اور اس کے اخراجات بچے کا باپ ادا کرے۔ البتہ دو سال سے کم میں دودھ چھڑانے کی بھی گنجائش ہے، اگر والدین اس مسئلہ پر متفق ہوجائیں۔
 عرب میں بچوں کو مدت رضاعت میں عموما دیہاتی علاقوں میں بھیج دیتے تھے اور وہاں دوسری عورتیں اجرت پر دودھ پلانے اور پرورش وپرداخت کا کام انجام دیا کرتی تھیں، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے حوالہ کیا گیا اور ایک مدت تک آپ ان کے یہاں قیام پذیر رہے، اب عربوں میں بھی یہ رواج ختم سا ہو گیا ہے، بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کے بعد ہی سے یہ سلسلہ وہاں موقوف ہو گیا، اسی لیے کسی صحابی ؓ کے بارے میں میری نظر سے یہ نہیں گذرا کہ انہوں نے اپنے بچے کو دودھ پلوانے کے لیے کسی اور کی خدمت لی ہو، اگر دشواری ہوتی تو اپنے خاندان یا محلے کی کسی عورت کو دودھ پلانے پر مامور کر لیا جاتا، کھانا خرچہ دیا جاتا اور حسب سہولت پورے دو سال یا اس سے کم میں بھی دودھ چھڑا دیا جاتا، اوراس کام کی وجہ سے وہ بچے کی رضاعی ماں شمار ہوتی اور سوائے وراثت کے ماں سے متعلق ہی اس پر احکام نافذ ہوتے،البتہ اوپر کا دودھ پلانے کا مزاج ان کا نہیں تھا، مدت رضاعت کے بعد اوپر کا دودھ بھی پلواتے، بکریاں پوسنے کا عام رواج تھا، اس کا دودھ بھی بچوں کو پلایا جاتا، بلکہ بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ بکری کے تھن میں منہہ لگا کر بھی دودھ پی لیا کرتا۔
لیکن اب فیشن اوپر کے دودھ پلانے کا س قدر چل گیا ہے کہ ماؤں کو اپنا دودھ پلانے کا خیال ہی نہیں آتا ہے، اس سے گارجین پرایک تو مالی بوجھ بڑھتا ہے اور دوسرے بچوں کو ماں کے دودھ سے جس قدر توانائی ملتی ہے اس سے بچہ محروم رہ جاتا ہے، ڈاکٹروں کی مانیں تو کم از کم چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلانا چاہیے، اس درمیان شہد یا خالص پانی دینا بھی بچوں کی صحت کے اعتبار سے مفید نہیں ہے، بلکہ بیماری کا اندیشہ ہے، موت تو مقررہ وقت پر ہی آتی ہے، لیکن ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلا کر نوزائیدہ بچوں کی موت کے تناسب کو بائیس (22)فی صد اورپانچ سال سے کم عمر میں ہونے والی موتوں کو تیرہ (13)فی صدکم کیا جا سکتا ہے، پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے اندر ماں کا دودھ گاڑھے، پیلے رنگ کا ہوتا ہے، جو کیلسٹریم کی پہلی ویکسین کے برابرہوتا ہے، المیہ یہ ہے کہ پہلے گھنٹے میں ماں کے ذریعہ حاصل ہونے والا یہ امرت صرف اکتیس(31) فی صد بچوں کے حصہ میں آتا ہے، البتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر بڑھ کر یہ تعدادچوراسی فی صد تک پہونچ جاتی ہے، سولہ فی صد بچے پھر بھی اس امرت سے محروم ہوجاتے ہیں، چھ ماہ تک بچوں کو ماں کے ذریعہ دودھ پلانے میں دنیا میں ہندوستان اٹھائیسویں مقام پر ہے، پٹنہ کا مقام پہلے گھنٹے میں دودھ پلانے والی ماؤں کے حساب سے پندرہواں ہے، البتہ بہار کے جہان آباد، ارول اور گیا جیسے اضلاع اس کا م میں آگے ہیں۔
 ماں کے دودھ سے محرومی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بہت ساری مائیں اپنی جسمانی کشش کے تحفظ کے نقطہئ نظر سے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں، بعض ماؤں کو دودھ ہی نہیں ہوتا، بڑے آپریشن سے بچہ کی پیدائش کاجو رواج نرسنگ ہوم اور اسپتالوں میں چل پڑا ہے، وہ بھی پہلے گھنٹے میں ماں کے دودھ سے محرومی کا بڑا سبب ہے، بعض خواتین کے کپڑے اس قدر چست ہوتے ہیں کہ دودھ کی پیدائش میں وہ بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں، یہ چست کپڑے ایک طرف جسم کے خد وخال کو نمایاں کرتے ہیں اس لیے غیر شرعی ہیں، دوسرے بچوں کو دودھ پلانے میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں، اس لیے ایسے کپڑے سے احتراز کرکے بھی دودھ پلانے کے عمل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔
 اس سلسلہ میں سماج میں جو کمی پائی جاتی ہے، اس کی طرف سماجی خدمت گار وں کو متوجہ ہونا چاہیے اور خواتین کے ذریعہ ہی خواتین میں بیداری لانی چاہیے؛ تاکہ بچوں کی جو حق تلفی ہو رہی ہے اس سے بچوں کو بچایا جا سکے اورنئی نسل ماں کے دودھ کی توانائی پا کر آگے بڑھے، اس سے خاندانی خصوصیات بھی بچوں میں منتقل ہوں گی، اور وہ اچھے شہری بن سکیں گے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...