Powered By Blogger

پیر, جنوری 22, 2024

منور رانا: آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہونا

منور رانا:   آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہوناUrduduniyanews72 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

4؍ جنوری 2024ء بروز اتوار بوقت 11:30بجے شب ، شعور وآگہی کے پیکر، حساس ذہنوں کے با مقصد ترجمان ،ماں کے تقدس کو لفظوں میں نیا آب وتاب دینے والے اور ہجرت کے کرب وبلا کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے والے اردو غزل ونظم کو نئی سمت اور جہت دینے والے ، عظیم شاعر ونثر نگار منور رانا نے اس دنیا سے منھ پھیر لیا ، وہ برسوں سے کینسر اور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا تھے، کورونانے انہیں مستقل مریض بنا دیا تھا، ان کا گردہ بھی متأثر تھا ، ڈائیلاسس پر زندگی گذر رہی تھی ،میدانتا ہوسپیٹل سے ایک ہفتہ قبل اس جی پی جی آئی سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس لکھنؤ منتقل کیا گیا تھا، پس ماندگان میں پانچ بیٹیاں سمیہ رانا، فوزیہ رانا ، عرشی رانا، عروصہ رانا ، ہبہ رانا اور ایک بیٹا تبریز رانا ہیں،نماز جنازہ دوسرے دن سوموارکو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بعد نماز ظہر ندوۃ کے ناظر عام مولانا جعفر حسنی ندوی نے پڑھائی، دوسری نماز جنازہ عیش باغ قبرستان کی بڑی مسجد میں امام مسجد حافظ عبد المتین کی اقتدا میں ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق عیش باغ چمن قبرستان لکھنؤ میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں ندوۃ العلماء کے اساتذہ طلبہ شہر کے علماء اور ادبی شخصیات نے شرکت کی، مشہور شاعر نغمہ نگار اور راجیہ سبھا کے سابق رکن جاوید اختر بھی جنازہ میں پیش پیش تھے۔
 منور رانا بن انوار رانا بن سید صادق علی 26؍ نومبر 1952ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ کا نام عائشہ اور اہلیہ کا نام راعنا خاتون تھا، ان کا تعلیمی سفر شعیب اسکول اور گورنمنٹ انٹر کالج رائے بریلی ہوتا ہوا لکھنؤکے سینٹ جانسن ہائی اسکول تک پہونچا ، یہیں انہوں نے لکھنؤ کی سشتہ اور سائشتہ زبان کا استعمال کرنا سیکھا، ان کے والد کلکتہ میں تجارت سے لگے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے 1968ءء میں کلکتہ کا سفر کیا اور ملا محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری اور امیش چندرا کالج سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔
منور رانا نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فلمی اداکاروں کے آواز کی نقالی شروع کی، شتروگھن سنہا کے ڈائیلاگ کی وہ اس طرح ہو بہو نقل اتارتے کہ لوگ انہیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ کہنے لگے ، پھر انہوں نے مختلف قسم کے ثقافتی پروگرام میں جانا شروع کیا، وہ ناچ ، گانے، ڈی جے اور مشاعروں کی مجلسوں میں مختلف انداز میں اپنی حاضری درج کراتے ، کبھی نظامت کرکے، کبھی کسی اور کردار میں، انہوں نے 1971ء میں پہلا ڈرامہ ’’جے بنگلہ دیش‘‘ لکھا، اس کی ہدایت کاری بھی خود کی، یہ ڈرامہ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں اسٹیج ہوا اور انعام کا مستحق قرار پایا،ا ٓغا حشر کاشمیری کے ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد ورما کا مرکزی رول کیا، انہوں نے جوگندر کی ایک فلم گیتا اور قرآن کے لیے کہانی بھی لکھی، بد قسمتی سے یہ فلم نہیں بن سکی، جس نے ان کو فلمی دنیا سے شاعری کی طرف متوجہ کر دیا وہ کلکتہ کے مشہور شاعر پروفیسر اعزاز افضل کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے اور منور علی آتش کے نام سے شاعری کرنے لگے ، ان کی پہلی تخلیق سولہ سال کی عمر میں ملا محمدجان اسکول کے مجلہ میں دور طالب علمی میں چھپی تھی ، طویل وقفہ کے بعد 1972ء میں ان کی غزل ماہنامہ شہود کلکتہ میں چھپی، منور رانا نے بعد میں نازش پرتاب گڈھی اور راز الٰہ آبادی کی بھی شاگردی اختیار کی اور ان دونوں کے مشورے سے منور علی شاداں کے نام سے لکھنے لگے، پھر جب وہ والی آسی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے تو ان کے مشورہ سے اپنا تخلص 1977ء  میں بدل کر منور رانا کر دیا، رانا ان کا خاندانی لاحقہ بھی تھا، اس طرح آتش ، شاداں اور منور رانا تک کا ان کا سفر طے ہوا، وہ کلکتہ میں اپنے والد کے ٹرانسپورٹنگ کے کام سے معاش کے حصول کے ساتھ شاعر ی بھی کرتے رہے ، ان کی زندگی میں محبوباؤں اورمعشوقہ کا بھی گذر ہوا، لیکن جلد ہی وہ رومانیت سے لوٹ آئے اور عصری حسیت سے بھر پور شاعری کرنے لگے، مشاعروں میں ان کی پوچھ ہونے لگی اور ان کا معاوضہ بھی بڑھتا چلا گیا، انہوں نے ایک ایسے دور میں اردو مشاعروں میں اپنی پہچان بنا ئی جب گویے اور لہک لہک کر پڑھنے والے شاعر اور شاعرات کی پوچھ زیادہ تھی ، وہ تحت اللفظ پڑھا کرتے اور راحت اندوری کی طرح ایکٹنگ بھی نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی شاعری کے رنگ وآہنگ ،الفاظ کے بر محل استعمال کی وجہ سے وہ مشاعروں کی جان آن، بان ، شان بن جاتے۔
انہوں نے اردو شاعری میں ’’ماں‘‘ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا، عظمت ، تقدس، اولاد سے بے پناہ محبت ، وارفتگی اور اس جیسے کئی اوصاف کو انہوں نے اس قدر مہارت ، چابک دستی اور نئے نئے زاویے سے بیان کیا کہ ان کی شاعری کی یہ شناخت بن گئی ، ملک وبیرون ملک ’’ماں‘‘ کے تئیں ان کے جذبے کو لوگ سنا کرتے اور سر دھنتے،انہوں نے پاکستان کے ایک مشاعرہ کے لیے ’’مہاجر نامہ‘‘ لکھا، اس میں ہجرت کے کرب اور محرومی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ وہ جگ بیتی بن گئی، بعد میں انہوں نے اس کے اشعار میں اضافہ کرکے پانچ سو اشعار پر پوری کتاب بنا دیا، ان دونوں کتابوں نے ان کی مقبولیت کے گراف کو آسمان تک پہونچا دیا۔
ان کے علاوہ ان کا پہلا شعری مجموعہ نیم کا پھول(1993ء) میں منظر عام پر آیا، ان کے کئی مجموعے کہوظل الٰہی سے (2000ء)، منور رانا کی سو غزلیں (2000ء)، گھراکیلا ہوگا(2000ء)، جنگلی پھول (2008ء) ، نئے موسم کے پھول (2008ء) ، کترن میرے خوابوں کی (2010ء) طبع ہو کر مقبول ہوئے ، ان کے ہندی شعری مجموعے غزل گاؤں (1981ء) ، پیپل چھاؤں (1984ء) ، مورپاؤں (1987ء)، سب اس کے لیے (1989ء) ، نیم کے پھول  (1991ء)، بدن سرائے (1996ء) ، گھر اکیلا ہوگا (2000ء) ، ماں (2005ء) ، پھر کبیر (2007ء)، سفید جنگلی کبوتر( 2005ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (2008ء)، ڈھلان سے اترتے ہوئے اور پھنک تال مختلف نثری اصناف میں ان کی تصنیفات ہیں، ان کی ادبی، شعری اور نثری خدمات کے اعتراف میں ایک درجن سے زائد اعزازات وایوارڈ مختلف ادارے اور تنظیموں کی طرف سے ملے، ادب کا بڑا ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی 2014ء میں ان کی جھولی میں آگرا تھا، لیکن بعض ملکی وملی مسائل میں حکومت سے اختلاف کی وجہ سے دوسرے بہت سارے مصنفین کی طرح انہوں نے اس ایوارڈ کو پھر سے حکومت کی جھولی میں ڈال دیا، کیوں کہ وہ نفرت کی سودا گری اور ماب لنچنگ کے واقعات سے انتہائی افسردہ ہو گیے تھے اور اعلان کر دیاتھا کہ میں کوئی سرکاری ایوارڈ قبول نہیں کروں گا، جس کی وجہ سے انہیں اور ان کی لڑکیوں پر بھی ابتلاء وآزمائش کی گھڑی آئی، لیکن وہ صبر وثبات کے ساتھ اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب ہو گیے، انہوں نے کہا 
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا

تو پھر سن لے حکومت ہم تجھے نامرد کہتے ہیں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
2017ء میں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے ،جبڑے کا آپریشن بھی کرایا جرأت کے ساتھ اپنے مشاغل جاری رکھے، مشاعروں میں آنا جانا بھی رہا، بعد میں کورونا نے ان کے پھیپھڑے کو متأثر کر دیا، گردہ بھی ڈائیلاسس پر چلا گیا، وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے بھی مریض تھے،اس طرح وہ مجموعۃ امراض بن گئے، عمرا کہتر سال کی ہو چکی تھی، امراض نے پیری میں جواں ہوکر دھیرے دھیرے انہیں قبر کی آغوش تک پہونچا دیا، منور رانا چلے گیے ، دوسرا منور رانا کا پیدا ہونا آسان نہیں ہے، انہوں نے خود ہی کہا تھا۔
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آساں سمجھتے ہیں منورؔ ہونا

 منور رانا کے بعض اشعار ضرب المثل بن گیے ہیں اور ہر پڑھے لکھے کی زبان پر ہیں، آپ بھی دیکھیے۔
تمہارے شہر میں سب میت کو کاندھا نہیں دیتے 

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
شاعری کچھ بھی رسوا نہیں ہونے دیتی

میں سیاست میں چلا جاؤں گا تو ننگا ہوجاؤں گا
جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے 

دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں  کٹی ہوئی
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر 

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے 
روز وشب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی 

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن
شہرت ملی و اس نے بھی لہجہ بدل دیا

دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن، نامور عالم دین خانقاہ پیر دمڑ یا خلیفہ باغ بھاگلپور کے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ شرف عالم ندوی بن سید شاہ فخر عالم (م 1976) بن شاہ فتح عالم عرف منظور حسن (م1929) بن اسعد اللہ (1902) بن عنایت حسن (م1882) کا نواسی سال (ہجری تاریخ کے اعتبار سے) کی عمر میں 25 ربیع الثانی 1426ھ مطابق 3 جون 2005  بروز جمعہ سات بجے وصال ہو گیا ”انا لِلّٰہِ وانا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ شاہ صاحب کی ولادت 28 مارچ 1962ء کو اپنی نانی ہال لکھنؤ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم کا حفظ اپنے وطن بھاگلپور میں ہی کیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے، اس لیے 36 سال تک مسلسل رمضان میں خانقاہ کی مسجد میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہوئی اور امامت تو معذور ہونے کے پہلے تک کرتے رہے، 17مئی 1976 کو والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور تا عمر اس اہم منصب کے علمی، فکری اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، بھاگل پور فساد کے موقع پر آپ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں مؤثر رول ادا کیا، آپ سینٹرل وقف کونسل، اور سنی وقف بورڈ بہار کے بھی برسوں تک ممبر رہے، اور اوقاف کی جائداد کی حفاظت اور اس کو نفع بخش بنانے میں اپنی حصہ داری نبھائی۔
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1984 میں ہوئی تھی۔ جب میرا پہلی بارخانقاہ جاناہوا، ان دنوں میں خانوادہ پیردمڑ یا پر کام کر رہا تھا، اور اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ مخدوم شاہ ارشد الدین عرف سید شاہ دانشمند (م 945) کے مزار حسن پورہ سیوان اور سید احمد عرف پیرد مڑیا (م972) حاجی پور نیز کمال الدین میرسید زین العابدین پیر دمڑ یا ثانی (م1024) کے مزار سے ہوتا ہوا بھاگل پور پہنچا تھا۔ مقصد اس خانقاہ اور خانوادہ سے متعلق مخطوطات اور مطبوعات کا مطالعہ کرنا تھا، جس کا بڑا ذخیرہ حضرت شاہ صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھا، حاضری نیاز مندانہ نہیں، طالب علمانہ تھی، اور ایک ایسے شخص کی تھی جو بساط علم و ادب پر نو وارد تھا، جس کا نہ کوئی کارنامہ تھا، اور نہ ہی شہرت، اس کے با وجود اس پہلی ملاقات میں ایک طالب علم پر جو شفقت انھوں نے فرمائی اور جس طرح علمی تعاون کیا، اس کے اثرات اب تک دل و دماغ پر مسلط ہیں، میں نے اس ملاقات میں ان کی متانت و سنجیدگی، مریدین و متوسلین کی تربیت، تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان کی فکرمندی کو قریب سے دیکھا، اور کافی متاثر ہوا، مریدوں سے تحائف کے قبول کرنے کا مزاج بھی نہیں تھا، کوئی پیش کرتا تو فرماتے کسی ضرورت مند کو دے دو۔ یہ استغناء اس خانقاہ کی وراثت ہے، بتایا جاتا ہے کہ خانقاہ پیرد مٹر یا کا نام دمڑ یا اسی مناسبت سے ہے کہ یہ حضرات نذرانہ کی بڑی بڑی رقموں میں سے دل رکھنے کے لیے ایک دمڑی قبول کیا کرتے تھے، دولت کے جمع کرنے کا مزاج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
 دوسری ملاقات یتیم خانہ بھاگلپور کے جلسہ میں ہوئی، مولانا سید سلمان الحسینی صدر جمعیت شباب اسلام کی معیت میں یہ سفر ہوا تھا، خانقاہ ہی میں قیام رہا، ہر قسم کے آرام کا خیال خود بھی رکھا، اور اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ حسن مانی کوبھی اس طرف متوجہ کرتے رہے، اس سفر میں مجھے جا گیر کی ان تمام دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا، جو مغل بادشاہوں نے اس خانقاہ کی عظمت کے پیش نظر جاگیر کے وثیقہ کی شکل میں پیش کیا تھا، کئی سلاطین کے دستخط مجھے پہلی بار وہاں دیکھنے کو ملے، جائداد سے قطع نظر، خود ان قیمتی دستاویزات کی مالیت لاکھوں میں تھی، لیکن استغناء کا یہ عالم کہ ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ کوئی اہتمام نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خانقاہ کی عظمت کا کوئی بیان ہوتاہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر چیز ہے ہی نہیں۔
امارت شرعیہ سے شاہ صاحب کا بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا آپ ہمیشہ اس کے کاموں میں معین و مددگار رہتے، یہی وجہ ہے کہ انتقال کی خبر آنے پراس وقت کے امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ کے حکم اور اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہدایت پر راقم الحروف (محمد ثناء الہدی قاسمی) اور مولا نا محمد سہیل اختر قاسمی موجودہ نائب قاضی امارت شرعیہ نے جنازہ میں شرکت کی، بعد نماز عشاء جنازہ کی نماز ہوئی، لوگوں کا جم غفیر تھا جو آخری دیدار، اور جنازہ کے لیے جمع تھا، خانقاہ کی مسجد کے صحن میں صفیں لگائی گئیں، مولانا شاہ حسن مانی ندوی کے حکم سے شاہ صاحب کے پوتے مولانا محمد حسن ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی، اور نصف شب میں آفتاب علم وفن، سلوک و فضیلت و شرافت کو خانقاہ کے قبرستان میں مسجد سے متصل سپردخاک کر دیا گیا، اللہ رب العزت سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

اتوار, جنوری 21, 2024

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام بارہویں زوم پر عالمی مشاعرہ

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام بارہویں زوم پر عالمی مشاعرہ 


اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ ( 2024 /01 / 20 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا بارہویں عالمی نعتیہ مشاعرہ   آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر صدارت 
مولانا عبدالوارث صاحب مظاہری 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شاہد سنگاپوری انڈیا
عبدالحق عظمی بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب انڈیا 
نعت پاک کے لئے 
دانش خوشحال صاحب انڈیا 
اردو ادب کے درخشندہ ستارے
سرفراز بزمی فلاحی انڈیا 
مختار تلہری بریلی انڈیا 
خمار دہلوی انڈیا 
رئیس اعظم حیدری انڈیا 
فیاضاحمدراہی انڈیا 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 مضمون عبد السلام عادل ندوی انڈیا 
 خطبئہ استقبالیہ عبد الوارث مظاہری انڈیا 
کلمہ تشکر محبوب رحمانی انڈیا 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ   
جناب سرفراز غزالی صاحب 
جناب فہیم صاحب دھنبادی 
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر 
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری عابد راہی صاحب دہلی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ وقاری رضوان صاحب حیدرآباد 
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
جناب عبد الباری زخمی صاحب 
مفتی حسین احمد ہمدم صاحب 
جناب قاری مسلم صاحب ناگپوری 
جناب قاری نثار صاحب 
جناب قاری امان اللہ صاحب 
جناب قاری جسیم الدین صاحب 
جناب قاری خورشید قمر صاحب 
قاری صدام حسین صاحب صدیقی 
جناب قاری مرغوب الرّحمٰن صاحب اشاعتی 
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 8/30 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی جناب قاری مطیع اللہ صاحب رحمانی تھے

ہفتہ, جنوری 20, 2024

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 

ڈاکٹر سید فضل رب (ولادت یکم اپریل 1943ئ)ساکن اسماعیل کاٹیج سیکٹر 2، ہارون نگر پھلواری شریف، پٹنہ، اعزازی ڈائرکٹر انسٹی چیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز ، پٹنہ چیپٹر، علمی دنیا کا ایک معتبر نام ہے، وہ تعلیمی اعتبار سے ایم اے (عمرانیات) ایم، ایل، آئی (لائبریری وانفارمیشن سائنس) بی، ایل، پی ایچ ڈی ہیں، نصف درجن سے زائد اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اورکم وبیش ایک درجن اداروں سے بحیثیت رکن اعزازی طور پر جڑے رہے ہیں، پروجیکٹ ڈائرکٹر اور رابطہ کار کی حیثیت سے جو خدمات انہوں نے انجام دی ہے وہ اس پر مستزاد ہیں، درس وتدریس کا دائر ہ پٹنہ، مگدھ، نالندہ اوپن یونیورسیٹی تک پھیلا ہوا ہے، مختلف موضوعات پر انگریزی میں نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مقالات، افسانے اور ناول کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، درد کی آنچ ، پھر جس انداز سے بہار آئی، فاصلہ، مہابھیکاری وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں، ایک ناول ’’سمندر منتظر ہے ‘‘ کا مجھے پتہ ہے جو زیر مطالعہ ہے۔
’’سمندر منتظر ہے‘‘ ناول کے پیرایہ میں ہے، اس میں ناول کے تمام اجزاء ترکیبی کو شعوری طور پر برتنے کی کوشش کی گئی ہے ، دو سو پنچانوے(295) صفحات پر مشتمل یہ ناول ہندو پاک کی تقسیم، نقل مکانی میں مہاجرین کے کرب والم اور خون کے دریا سے گذرنے کا بیانیہ ہے، ٹوٹتی محبتیں ، بکھرتے خاندان ، منقسم اقدار اور دم توڑتی تہذیبوں کا ماتم اور مرثیہ سب کچھ اس میں موجود ہے ، یہ داخلی کیفیات اور خارجی احوال وواقعات ومشاہدات کا آئینہ خانہ ہے، اس آئینہ خانہ کو سجانے، سنوارنے اور صیقل کرنے کے لیے جن کرداروں کو زندگی بخشی گئی ہے وہ ڈاکٹر فضل رب کے سحر نگار قلم سے چلتی ، پھرتی، اچھلتی، کودتی ، بل کھاتی نظر آتی ہیں، ناول واقعہ نگاری، ماجرا نگاری، سراپا نگاری کا مرقع ہوتا ہے، ڈاکٹر فضل رب نے ان تینوں امور پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کی ہیں اور اس کے ہر کردار کو زندہ وجاوید بنادیا ہے، ناول میں گاؤں کی زندگی اور شہروں کی بود وباش کے موازنہ اور فکری اختلاف نے اس ناول کو وسیع کینوس عطا کر دیا ہے، رحمت نگر، منشی نگر، سمندر، شاہد، محسن، مشفق، ریاض، مسجد، سجدے اور عبادت یہ جامد الفاظ نہیں ہیں ، ان کے پیچھے معنوی علامت کی ایک دنیا ہے واقعہ یہ ہے کہ ناول کی فکری جہتوں کی وسعتوں کو سمیٹنا اسے الفاظ میں بند کرنا، اس کی گہرائیوں تک پہونچنا سرسری مطالعہ سے ممکن نہیں ہے، کچھ کرداروں کی زبانی اورکچھ پلاٹ کی ترتیب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصنف روز بروز تہذیبی انحطاط ، اخلاقی زبوں حالی اورمتضاد تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچانا چاہتا ہے اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود ان امتیازات کی حفاظت کوفرض سمجھتا ہے، مصنف ایمان والا ہے اس لیے بڑے مشکل حالات میں بھی ناول کے کسی کردار سے یاس وقنوطیت کا درس قاری میں منتقل نہیں کرتا ، بلکہ وہ ہر دم رجائیت کا علم تھامے ہوا ہے، اور قاری اس کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ رات کی جو سیاہی پھیلتی جا رہی ہے اس کے دوسرے سرے پر نمود صبح کا مزدہ ہے،جو مشاہداتی بھی ہے اور تجرباتی بھی۔
 اس ناول کو پڑھنے سے وطن کی محبت اور پردیس کا غم والم اور درد وکرب بھی سامنے آتا ہے، پردیس میں رہ کر شاہد وطن کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور جب وہ برسوں بعد اپنے وطن واپس ہوتا ہے تو اس کی دلی کیفیات کا بیانیہ مطالعاتی بھی ہے اور دیدنی بھی ، کیفیات کی دید ذرا مشکل کام ہے، لیکن جب خوشیاں چہرے پر رقصاں ہوں اور دل مسرت سے بلیوں اچھل رہا ہو تو کیفیات مشاہدات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مصنف نے اس ناول میں شاہد کے جذبات کو الفاظ کی زبان بخش دی ہے، جو زبان حال سے بولتے ہیں اور زبان حال کی باتیں دلوں تک منتقل ہوا کرتی ہیں، واپسی میں جب شاہد ایر پورٹ کی زمین کو چومتا ہے تو وہ اس کی وطن سے محبت کا استعارہ معلوم ہوتا ہے، وہ مسلمان ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے وطن کے ذرہ کو دیوتا سمجھتا ہے، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن چومنا ، بوسہ دینا محبت کی علامت ہر دور میں رہی ہے شاہد بھی زمین کو چوم کر اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتا ہے۔
ناول کا اختتام اس پر ہوجاتا ہے،لیکن قاری کے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، یہ سوالات تہذیب کی شکست وریخت ، اشراف ارذال کی غیر اسلامی تقسیم، ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصورہے ، قاری یہ سوچتا ہے کہ کیا ہندوستان سے کبھی ختم ہوگا، نفرت کی گرم بازاری میں کیا محبت کے پھول کھل سکیں گے، کیا سنہا جی جیسے لوگ اپنی مکھ اگنی کے لیے اپنے بیٹا کے علاوہ رحیمن کو نامزد کر سکیں گے، ان سوالات کے جوابات کے لیے بر سوں انتظار کرنا ہوگا، اس ناول کا جو قاری ہے وہ بھی سمندر کی طرح منتظر ہے۔
 کتاب کی طباعت، کاغذ اور سرورق پُر کشش ہے اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی مالی معاونت سے چھپی اس کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کمپوزنگ عطا ء الرحمن ، نظر ثانی تنویر اختر رومانی جمشید پور، مطبع روشان پرنٹرس دہلی اور ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، کتاب کے انتساب کے جملے معنی خیز ہیں اوروہ یہ ہیں، ’’اس فیصلے کے نام جس نے اس بر صغیر کے لوگوں کو بے اماں کر دیا، لیکن جس اماں کی خاطر کھودیا تھا اپنے ’’سمندر‘‘ کو تلاش اماں کی وہی تشنگی ہنوز باقی ہے‘‘۔
 کتاب کے ٹائٹل سے اس انتساب کی معنویت زیادہ واضح ہوتی ہے، سمندر کی طغیانی کے باوجود اوپر کے حصے میں لہلہاتے سبزہ زار اور بالکل سرورق پر اگتا ہوا ماہتاب، اس رجائیت کی تصویر ہے جو اس ناول کے مصنف کے قلب ودماغ کا حصہ ہے ۔
 ادبی اصناف کے بارے میں میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہیئت سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اگر بات سچی کہی جا رہی ہے تو ہیئت کی معنویت ثانوی ہے، فکر میں کجی ہو تو تمام اصناف نا قابل توجہ ہیں، اگر فکر کا قبلہ درست ہے تو افسانے، ناول، انشائیے، شاعری سب قابل قبول ہیں، فکری جہتوں کی تعیین کے بعد ہی فنی ارتقاء کو قابل اعتنا سمجھنا چاہیے، مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سید فضل رب نے اس ناول میں فکری اور فنی دونوں جہتوں کا خیال رکھا ے، یہی اس ناول کے مطالعہ کا جواز ہے اور یہی میرے تبصرے کی بنیاد بھی۔
 اللہ رب العزت ڈاکٹر سید فضل رب کو صحت وعافیت کے ساتھ درازیٔ عمر عطا فرمائے اور ان کے قلم کی جولانیوں کو استمرار اور دوام بخشے۔ آمین

پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا 
اردودنیانیوز۷۲ 
میری انکھوں نے یہ منظر پہلی بار دیکھا ہےکہ ضلع ارریہ کی بزرگ ترین شخصیت جناب قاری سلیمان صاحب کا جنازہ ان کے ابائی گاؤں "بانسباڑی" میں ذاتی دروازے پر رکھا ہوا ہے، اب جنازہ گاہ پر جانے کی تیاری ہےمگر کواڑی بازار کے لوگ ہچکیاں لے لے کر رورہے ہیں،تدفین کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں اورجنازے کی بھیک مانگ رہے ہیں کہ ہمیں قاری صاحب کا جنازہ عنایت کر دیجئے،ہم ان کی قبر اپنے یہاں بنانا چاہتے ہیں۔ افہام وتفہیم کے بعد کسی طرح  یہ لوگ رضا مند ہوئے،پھرجنازہ گاہ پر صف بندی کے بعد اس بات کی وضاحت کی گئی کہ آپ لوگوں کی محبت بجا ہےمگر مشورے میں خیر ہے، گزشتہ کل یہ مشورہ ہو چکا ہے کہ قاری سلیمان صاحب کے استاد جناب حضرت مولانا صوفی کمالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو اسی قبرستان میں مدفون ہیں،لہذا شاگرد کی بھی تدفین اسی قبرستان میں ہونی ہے، اس بات پر اتفاق بھی ہوچکا ہے، اب اس کے خلاف اور اسمیں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ جنازے کی نماز پڑھادی گئی، اوراس طرح ایک شاگرد مرنے کے بعد بھی اپنے استادکی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
              آخر گل اپنی صرف در میکدہ ہوئی 
            پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے لمبی عمرہ عطا فرمائی تھی۔ محض 20/سال کی عمر میں سند فراغت حاصل ہوئی، اس کے بعد اپنی زندگی کے مکمل 63/سال درس و تدریس اور لوگوں کی اصلاح وتربیت کےلیے آپ نے وقف کر دی، اپنے استاد گرامی قدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیپال سے متصل علاقہ کرسا کانٹا اور سکٹی بلاک کی جہالت کے خاتمہ کے لیے تاحیات کمر بستہ رہے ۔ کواڑی بازار میں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے مدرسہ مفتاح العلوم کی بنیاد ڈالی اور وہاں کی جہالت کی خاتمہ کے لیے تقریبا 45 /سال تک آپ نے محنت کی ہے۔باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے اور ان خدمات جلیلہ کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنادے، آمین۔
بدعات وخرافات کے قلع قمع میں قاری صاحب کی کاوشیں آب زر سے لکھنے لائق ہیں ۔پیر و فقیر کا مذکورہ علاقے میں بڑا زور تھا،لوگ تعویذ گنڈہے کے نام پر شرک وبدعات میں گرفتار اور ان جعلی پیر و فقیر کا شکار ہو جایا کرتےتھے ۔حضرت قاری صاحب نے ایسے لوگوں کی دکانیں بند کرائی ہیں،نیز اس کا صحیح متبادل بھی فراہم کیاہے، قران کریم کی آیات سے دعا ودرود کاوہاں مزاج بنایا ہے، لوگوں کی نفع رسانی اور بھلائی کی خاطرخود کو بھی پیش کیا ہے۔جمعہ کا دن ہفتے کی عید ہے اور مدارس اسلامیہ میں یہ چھٹی کا دن ہے باوجود اس کے قاری سلیمان صاحب نے کبھی جمعہ کی بھی چھٹی نہیں لی ہے،بلکہ یہ دن لوگوں کی ملاقات کے لئے آپ نے خاص کررکھا تھا، قرب و جوار اوردورودراز سے  لوگوں کی ایک بڑی تعداد  مدرسے میں حاضر ہوتی، باری باری قاری صاحب سب کے مسائل سنتے اور قران سے ان کا حل بتلاتے ،یہی وجہ ہے کہ اج جب کہ یہ مشورہ ہو چکا ہے کہ قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین ان کے آبائی گاؤں میں ہونی ہے باوجود اس کے کواڑی بازار کے لوگ حضرت کے معمول کے مطابق جمعہ کے دن انہیں مدرسہ لے جانا چاہتے ہیں اور موصوف کی چھٹی منظور نہیں کررہے ہیں۔بقول شاعر 
                  مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا 
        اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 

یہ درحقیقت قاری سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت ہے جسے خدا نے لوگوں کے دلوں میں پیوست فرمادی ہے،قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے؛
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے خدا ان کے لیے ایک محبت پیدا کر دے گا"( سورہ مریم )
حدیث قدسی میں ہے کہ جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو فرشتہ جبریل سے کہتا ہے کہ "مجھےفلاں بندے سےمحبت ہے،تم بھی اس سے محبت کرو، وہ دوسرے فرشتوں سے کہتے ہیں، پھر اوپر کے آسمان والے دوسرے آسمان والوں کو یہانتک کہ اس کی محبت دریا کی مچھلیوں اور سوراخ کی چوٹیوں تک سرایت کر جاتی ہے "(صحیحین)
اج کھلی انکھوں سے ہم اس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے قاری صاحب مرحوم کے اعمال صالحہ کو قبولیت بخشی ہےاوران کی محبت زمین پر پھیلا دی  ہے ،اتنا بڑا مجمع اس بات کی شہادت دے رہاہے،میرے علم کے مطابق بانسباڑی گاؤں کا یہ پہلا جنازہ ہے جسمیں انسانوں کااتنابڑاسیلاب آیاہوا ہے،جدھر دیکھئے لوگ ہی لوگ نظر ارہے ہیں، یہاں کی تمام مساجد آج بھر چکی ہیں،صحن پر،سڑک پر ہر جگہ نماز ہورہی ہے،مساجد میں جگہ نہیں ہونے پر آج  جمعہ کی نماز لوگوں نے جاکر عیدگاہ کے میدان  میں پڑھی ہے۔سخت ٹھنڈک ہے،باوجود مرحوم کی محبت وعقیدت  میں سبھی کشاں کشاں چلے آرہے ہیں،محسوس یہ ہوتا ہے کہ موسم بھی اس ولی کامل کے انتقال پر ملال پر سوگوار ہےاور یہ بھی صدمہ میں اپنا مزاج بدل لیا ہے۔ضلع ارریہ ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل اور نیپال سے بھی لوگ جنازہ میں شریک ہیں، واقعی جناب قاری سلیمان صاحب کے انتقال سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے،  دور دور تک سناٹا ہے، ایک بزرگ ترین شخصیت سے ہماری یہ بڑی ابادی خالی ہو گئی ہے، باری تعالی قاری صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل نصیب کرے،آمین یارب العالمین ۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۱۹/جنوری ۲۰۲۴ء مطابق ۷/رجب المرجب ۱۴۴۵ھ بروز جمعہ

جمعہ, جنوری 19, 2024

تفتیشی ایجنسی ای ڈی پر حملہ- افسوسناک وشرمناک

تفتیشی ایجنسی ای ڈی پر حملہ- افسوسناک وشرمناک
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
==============================
انفورسمیٹ ڈائرکٹوریٹ (ED)پر مشتعل ہجوم کے ذریعہ حملہ کی خبریں ان دنوںموضوع بحث بنی ہوئی ہیں، یہ حملے 4؍ اور 6؍ جنوری 2024ء کو مغربی بنگال میں ای ڈی کی ٹیم پر ہوئے، یہ حملے چوبیس پرگنہ ضلع کے سندیش کھالی اور بن گاؤں کے نیمول ٹولہ میں کیے گیے، موقع راشن گھوٹالے معاملہ میں شاہ جہاں شیخ اور آدھا شنکر کی گرفتاری کا تھا، ای ڈی ٹیم جب ان جگہوں پر گرفتاری کے لیے پہونچی تو سندیش کھالی میں مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے جانچ ایجنسی کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کیا اور تین افسران کو خطرناک چوٹیں آئیں، شاہ جہاں شیخ اور آدھا شنکر کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے، اس لیے بھاجپا کی طرف سے اس پر سیاست گرما گئی ہے، اور اسے لا اینڈ آرڈر کی بدحالی قرار دیا جا رہا ہے، خبر یہ بھی ہے کہ ای ڈی کے ارکان کوگاؤں والوں نے دوڑا دوڑا کر مارا اور انہیں کھدیڑ دیا، با خبر ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے ایک لیپ ٹوپ ، چار موبائل فون اور دستاویزوں سے بھرے بیگ چھین لیے گیے۔دوسری طرف مشتعل ہجوم کا کہنا ہے کہ ای ڈی والے شاہ جہاں شیخ کے بند مکان کا تالا توڑ رہے تھے اور ان کے پاس تلاشی وارنٹ نہیں تھا، اس لیے ان پر حملہ کیا گیا، ایف آئی آر ای ڈی کے ذمہ داران اور حملہ آوروں کی جانب سے بھی درج کرائے گیے ہیں، قانونی کاروائی کا مرحلہ طویل ہوتا ہے اور وہ جاری رہے گا۔
یہ حملے یقینا قابل ا فسوس اور لائق مذمت ہیں ، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا، خواہ وہ کس قدر بھی با اثر ہو، ظلم اور زیادتی بھی اگر ہو رہی ہے تو اس کے دور کرنے کا یہ طریقہ انتہائی غلط ہے کہ خود سے حملہ آور ہوجایا جائے، قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے اور قانون کی لڑائی قانون سے ہی لڑی جانی چاہیے، اس کے باوجود اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ ای ڈی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ حکمراں طبقے کے اشارے پر بھاجپا مخالف لیڈران  اور کارکنان کو ہراساں کرنے انہیں ذلیل کرنے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا کام کر رہی ہے، اگر اس کی جانچ میں شفافیت ہے تو وہ حکمراں طبقے کے کسی لیڈر پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالتی، کیا وہاں سارے لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، ظاہر ہے ایسا بالکل نہیں ہے، اس کو تقویت بعض ایسے معاملات سے ملتی ہے، جس میں واضح طور پر ای ڈی کی غلطی سامنے آگئی ہے، پہلی خبر تامل ناڈو کی ہے، جہاں ای ڈی نے دو غریب کسانوں کے خلاف مالی بد عنوانی کا معاملہ درج کیا اور ان کے خلاف نوٹس بھی جاری کر دیا ایک ایسے معاملہ میں جس میں عدالت کا فیصلہ بھی ان دونوں بھائیوں کے حق میں آچکا تھا، گو یہ معاملہ چھ ماہ قبل کا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر یہ وائرل ہوا تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا، بعد میں ای ڈی نے اپنی غلطی مان کر معاملہ واپس لے لیا، اس سے یہ بات صاف ہو گئی کہ ای ڈی نے سیاسی طور پر ہی ان دونوں بھائیوں کو پھنسانے کا کام کیا تھا، تامل ناڈو میں ریاستی پولیس نے ایک ای ڈی افسر کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار بھی کیا تھا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ای ڈی بھی بدعنوانوں سے  پاک نہیں ہے، اس افسر کی گرفتاری کے بعد تامل ناڈو پولیس ای ڈی کے دفتر پر چھاپہ ماری کے لیے بھی پہونچ گئی تھی ، مرکزی حکومت کو جھارکھنڈ میں بھی ایک ای ڈی افسر کو تحفظ فراہم کرانا پڑا تھا۔
پولیس والوں کے بارے میں اس قسم کے قصے عام ہیں اور ان کا رعب ودبدبہ کچھ تو اس وجہ سے اور کچھ معمولی رقم لے کر ملزمین کو چھوڑ نے اور رشوت کی گرم بازاری کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے، اب پولیس سے بچے بھی نہیں ڈرتے ، ہمارے بچپن میں کسی کے گھر پولیس پہونچ جاتی تو پورا گاؤں خوف زدہ ہوجاتا تھا اور بچے گھر کے کسی گوشے میں دبک جاتے تھے، اب بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ پولیس آتی ہے تو پورے گاؤں اور محلہ کے لوگ اس کے گرد جمع ہوجاتے یں اور بحث ومباحثہ بلکہ گالی گلوج تک کی نوبت آجاتی ہے، اس سے زیادہ بات بڑھی تو پولیس کو کھدیڑ نے سے بھی لوگ باز نہیں آتے اور پولیس اپنے دفاع میں آنسوگیس کے گولے، لاٹھی چارج اور کبھی کبھی گولیاں چلانے سے بھی باز نہیں آتی۔
لیکن ای ڈی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا، وہ جس کو چاہتی تھی کئی کئی دن اور گھنٹوں پوچھ تاچھ کرتی اور پھر دفعات لگا کر گرفتار کر لیا کرتی تھی، کسی طرف سے کوئی مخالفت عملاً نہیں ہوتی تھی، پھر ہوا یہ کہ ای ڈی کی نوٹس اور سمن کی سیاسی قائدین نے ان دیکھی شروع کردی، بار بار سمن کے باوجود وہ اس کی طلبی پر حاضرنہیں ہو رہے ہیں، چوبیس پرگنہ کے ان دو واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب سیاسی بنیادوں پر اس کے غیر ضروری مداخلت اور ہراسانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے اس کا خوف نکل سا گیا ہے، چنانچہ ای ڈی کے ارکان کے ساتھ ایسا شرم ناک واقعہ پیش آیا ، اس لیے ای ڈی کو اپنے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے اور اسے سیاسی ہتھکنڈوں کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے ، تبھی اس کا وقار ، اعتبار اور اعتماد قائم ہوگا، جو تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں، اس کے قبل عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بھی ای ڈی کے کام کرنے کے طریقے پر سخت تبصرہ کیا تھا، واقعہ یہ ہے کہ ای ڈی کو اس طریقۂ کار کے با وجود بڑی کامیابی نہیں مل رہی ہے، گذشتہ جولائی میں سرکار نے پارلیامنٹ کو مطلع کیا تھا کہ ابھی تک ای ڈی نے پانچ ہزار چار سو بائیس (5422)معاملے درج کیے ہیں، جس میں صرف تئیس (23)معاملات میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی ہے، یعنی حکومت ہند اس محکمہ پر لاکھوں روپے ماہانہ خرچ کرکے آدھے فی صد سے بھی کم کامیابی حاصل کر پا ئی ہے، اس کی وجہ اس کا طریقہ کار اور سرکار کے چشم وابرو کو دیکھ کر عجلت میں معاملات کا اندراج ہے، جس کے پیچھے ٹھوس ثبوت اور مضبوط شواہد نہیں ہوتے، البتہ جس پر معاملہ درج ہوا وہ غیر ضروری طور پر ہراساں اور لوگوں کی نظر میں مشکوک ہوجاتا ہے، حکومت یہی چاہتی ہے؛ لیکن یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
 ای ڈی نے اگر اپنے طریقہ کار کو نہیں بدلا اور سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج کیے جاتے رہے تو بہت ممکن ہے کہ دوسری جگہوں پر بھی عوام اس حربے کا استعمال کرنے لگے ، ظاہر ہے شاہ جہاں شیخ کے لیے آؤٹ لک نوٹس اور سرحدکی گھیرا بندی اور آدھا شنکر کی گرفتاری سے اس قسم کے واقعات کے سلسلے کو روکا نہیں جا سکے گا، ضروری سطح پر کام کرنے کی ہے، حکمراں طبقہ کے سیاسی دباؤ میں ای ڈی کاروائی نہ کرے، اور عوام اس قسم کی شرمناک حرکت سے پر ہیز کرے، قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے کہ یہ کسی طور پر درست نہیں ہے۔
 اگر ہماری جانچ ایجنسیوں خصوصا ای ڈی اور سی بی آئی سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا تو ملک کے لیے یہ بڑا نقصان ہوگا، ہمیں ایسے اقدام کرنے چاہیے جس کی وجہ سے ای ڈی کے بارے میں اعتماد اور اس کے احترام میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے لیے ای ڈی کو چھاپہ ماری کے لیے طے شدہ اصولوں (SOP)کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، جو اس کے طریقہ کار کی بھی تعیین کرتی ہے۔

جمعرات, جنوری 18, 2024

بد نگاہی ایک نفسیاتی بیماری

بد نگاہی ایک نفسیاتی بیماری
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

انسان فطری طور پر حسن وجمال کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اگر یہ حسن وجمال عورتوں میں ہوں تو دوسرے اسباب وعوامل کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ جاتا ہے، اقبال کے لفظوں میں ”اعصاب پر عورت“ سوار ہوجاتی ہے، اس شہوانی خواہشات اور نفسیاتی بیماری کو قابومیں کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے بد نگاہی پر روک لگائی اور نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم دیا پھر چوں کہ یہ بیماری مردوں میں زیادہ ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کو حکم دینے سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، چونکہ بد نگاہی ایک نفسیاتی بیماری ہے، اس کا مریض لوگوں کی نگاہ میں کم آتا ہے، اس لیے اللہ نے اپنی با خبری کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں، اس کے بعد عورتوں کو بھی نیچی نگاہ رکھنے کا حکم دیا، شرم گاہ کی حفاظت کی تلقین کی اور پھر انہیں حجاب کا حکم دیا، اس کے دائرے کو بتایا اورکن لوگوں کے سامنے وہ بے حجاب رہ سکتی ہیں، ان کی تفصیلات بیان کیں، ان تمام اسباب پر بھی قد غن لگائی گئی، جن کی وجہ سے بد نگاہی کی طرف طبیعت مائل ہوا کرتی ہے، اللہ رب العزت نے بد نگاہی پر جو پابندی لگائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن چیزوں یا اعضا کی طرف مطلقاً دیکھنا جائز نہیں ہے، اس طرف بالکل نہ دیکھیں اورجن کی طرف دیکھنا تو جائز ہے، لیکن شہوت سے دیکھنا ممنوع ہے، اس میں شہوانی نظر سے پر ہیز کریں۔اس سلسلہ میں سورہ نور کی آیت تیس اور اکتیس میں واضح اصول بیان کیے گیے ہیں جو عصمت وعفت کی حفاظت اور فواحش ومنکرات سے بچنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے معارف القرآن میں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعا ممنوع ونا جائز ہے۔ اس میں غیر محرم عورت کی طرف بُری نیت سے دیکھناتحریما اور بغیر کسی نیت کے دیکھناکراہیۃًداخل ہے، اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے۔(مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہیں)کسی کا راز معلوم کرنے کے لیے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کوشریعت نے ممنوع قرار دیا ہے، اس میں داخل ہیں۔ (ج 6ص387)
صحیح مسلم میں ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑ جائے تو اس کی طرف سے نگاہ پھیر لی جائے، دوسری روایت ے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی نظر قابل معافی ہے اور دوسری نگاہ ڈالنا باعث گناہ ہے، پہلی نظر چوں کہ بے اختیار پڑ گئی، اس لیے اس پر کوئی داروگیر نہیں،لیکن دوسری نظر ظاہر ہے بالقصد ہوگی؛ اس لیے وہ قابل مؤاخذہ جرم ہوگا۔
 یہ حکم صرف مردوں کے لیے نہیں عورتوں کے لیے بھی ہے، بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ہے کہ عورتیں اپنے محرم کے سوا کسی غیر محرم کی طرف نہ دیکھیں، خواہ نیت بُری ہو یااچھی، شہوت کے ساتھ ہو یا بلا شہوت کے، سب ممنوعات میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ام مکتوم اچانک بار گاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ ؓ اور میمونہ ؓ دونوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا اور جب انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نا بینا ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو نا بینا نہیں ہو تم تو اسے دیکھ رہی ہو، یہ واقعہ آیت حجاب کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں یہ روایت موجود ہے اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
بہت سارے فقہاء وعلماء نے عورت کی آواز، پائل کی جھنکار، زیب وزینت کے ایسے سامان جو مرد کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچنے کا سبب بنیں اس کے استعمال سے بھی احتراز کا حکم دیا ہے، اور اگر بات کرنا ضروری ہو تو عورتیں ایسے خشک لہجے میں بات کریں کہ جن کے قلوب میں مرض ہے، وہ ان کی خشونت کی وجہ سے عورتوں سے قریب نہ ہو سکیں، اس بد نگاہی میں خوشبو کے استعمال کا بڑا دخل ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کو خوشبو لگا کر باہر نکلنے سے بھی منع کیا گیا، کیون کہ غیر محرم تک عورتوں کی خوشبو کا پہونچنا نا جائز ہے، امام جصاص نے تو مزین اور مرصع ایسے برقعوں کے استعمال کو بھی ممنوع لکھا ہے، جس کی ظاہر آرائش مردوں کے لیے باعث کشش ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ بد نظری کے جو محرکات ہو سکتے ہیں، شریعت نے ان تمام پر بندلگانے کی تاکید کی ہے اور ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا یا کیا جاتا رہا، اس کے لیے آیت کے اختتام پر مؤمنین کو مخاطب کرکے توبہ کرنے کا حکم دیا، تاکہ فلاح وکامرانی ایمان والوں کا مقدر بن جائے۔
 ان احکام کی روشنی میں ہم آج کے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے احکام کی طرح ہی پردہ نظر نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کے حکم کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے، ہماری بچیاں ایسے کپڑے پہن رہی ہیں جو ”کاسیات عاریات“ کپڑے پہننے کے باوجود ننگا پن کے مظہر ہوتے ہیں اور تو اور جوٹی شٹ کا استعمال ہوتا ہے اس پر لکھا رہتا ہے ”کس می“ مجھے چومو،”ٹچ می“ مجھے چھوؤ، کسی ٹی شرٹ کی دوکان پر چلے جائیے، اس قسم کے جملے لکھے ٹی شرٹ آپ کو مل جائیں گے، ظاہر ہے یہ جملہ دعوت گناہ ہے اور نظریں خواہ مخواہ اٹھتی ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں بے محابا مرد وعورت کا اختلاط اور کسی کے مرنے پر عورتوں، مردوں کا بے پناہ ہجوم میں اور آرائش وزیبائش کی وجہ سے بھی ہر دو طرف سے بد نگاہی کا ارتکاب ہوتا ے، مختلف عنوانات سے لگنے والے میلوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی عقل مند آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے، نقاب بھی ایسے استعمال ہو رہے ہیں جو نگاہوں کے لیے باعث کشش ہیں اور جسم کے سارے خد وخال کو نمایاں کرتے ہیں، پھر یہ حجاب وبرقعہ کا استعمال بھی فی صد کے اعتبار سے انتہائی کم ہے، اسی لیے فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے حجاب پر پابندی کی بات آتی ہے، بلکہ کرناٹک میں یہ پابندی لگادی بھی گئی، اسے شریعت کا حصہ نہیں مانا گیا اور دلیل یہ تھی کہ اگر شریعت کا مطالبہ ہوتا تو ساری مسلم عورتیں اس کا استعمال کرتیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔
 بد نگاہی ام المعصیت ہے، یہ اس قدر نقصان دہ ہے کہ اس کا اختتام فحاشی، عیاشی اور منکرات پر ہوتا ہے۔ حکیم اختر صاحب ؓ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر کوئی اوپر کی منزل میں پہونچ جائے تو نیچے آنے کا راستہ ڈھونڈھ ہی لیتا ہے، آنکھ اوپر کی منزل ہے، جب آنکھ سے آنکھ لڑ گئی تو پھر نچلی منزلوں پر پہونچنا آسان ہوجاتا ہے،اس لیے آنکھ کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ زنا کے ارتکاب کے سارے دروازے بند ہوجائیں۔
 بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا ہوتا ہے، اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس کا مظہر آنکھیں نیچی کرکے چلنا اور عورتوں کا پورے لباس میں رہنا ہے، دل میں حیا اور شرم ہوگی تو اس کے مظاہر بھی سامنے آئیں گے، اسی طرح بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ نقاب میں رہیے تولوگ گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک چہیتے مرید تھے صوفی عبد الرب، وہ کہا کرتے تھے کہ اگر اس وجہ سے نقاب اتار دیا کہ لوگ گھور گھور کر دیکھیں تو پھر ان کے گھورنے کے ڈر سے کون کون سے کپڑے اتاروگی۔علامہ اقبال نے کہا ہے۔
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیی ہیں تصویریں
 ہمارے دور میں بد نگاہی کی اور بھی کئی صورتیں رائج ہو گئی ہیں، سوشل میڈیا نے اس کو بڑھاوا دیا ہے ان میں سے فحش فلموں اور تصویروں کا دیکھنا بھی شامل ہے، نہ معلوم کتنے صفحات فیس بک یو ٹیوب، انسٹا گرام وغیرہ پر لوڈ ہیں، جن کو لوگ شوق سے دیکھا کرتے ہیں، ہیں تو یہ تصویریں؛ لیکن ان چلتی پھر تی تصویروں کا شرعا دیکھنا منکرات میں سے ہے اور ایسے لوگ جو فحاشی کو رواج دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذا ب مقرر کر رکھا ہے۔ (سورۃ نور: آیت 19)
آخرت میں دردناک عذاب تو دخول جہنم ہے۔ امام غزالی ؒ نے مکاشفۃ القلوب صفحہ ۰۱/ پر لکھا ہے کہ جو اپنی آنکھوں کو بد نگاہی سے بھرے گا، اللہ قیامت کے روز اس کی آنکھوں کو آگ سے بھر دے گا، دنیاوی عذاب یہ ہے کہ اس پر نسیان کا غلبہ ہوجاتا ہے، ضروری باتیں بھی یاد نہیں رہتیں، نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی ہے، بد نظری کی وجہ سے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے، اس کے اثرات اعضاء رئیسہ بشمول قوت مردمی پر پڑتے ہیں، اور آدمی کسی کام کا نہیں رہ جاتا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
بد نظری سے بچنے کا طریقہ وہی ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ آنکھیں نیچی رکھی جائیں، ان جگہوں سے پر ہیز کریں جہاں پر اس کا خدشہ ہو، تو یہ استغفار کے ساتھ اللہ کی توفیق بھی طلب کرتے رہیں، کیوں کہ اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ ہوہی نہیں سکتا، آخرت کے عذاب کو بھی سامنے رکھیے تو یہ مرحلہ آسان ہوجائے گا، بعض بزرگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر بد نظری ہوجائے تو اپنے اوپر خود ہی کچھ جرمانہ مقرر کر لے، نفل نمازوں کی تعداد صدقہ کی مقدار بڑھا دے اور بد نظری سے پر ہیز کے لیے اپنی قوت ارادی کو مضبوط رکھے، چاہے نفس پر جتنا بھی جبر کر نا پڑے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس نفسیاتی بیماری سے حفاظت فرمائے۔ اس دعا کا ورد کرتے رہنا بھی مفید ہے۔ اللہم اغفرلی وطھر قلبی واحصن

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...