Powered By Blogger

جمعہ, جنوری 26, 2024

جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

بدھ, جنوری 24, 2024

بلقیس بانو کو انصاف ___

بلقیس بانو کو انصاف ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
=====================
عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے گجرات سرکار کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے حکم کو رد کرکے بتا دیا ہے کہ گجرات سرکار کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ان گیارہ مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرے، جنہوں نے 3؍ مارچ 2002ء کو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا،جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی ، خود 21؍ سال کی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، یہ ایسا درد ناک واقعہ تھا جو گجرات فساد میں نسل کشی کا عنوان بن گیا تھا، 2004ء میں ملزمین گرفتار کیے گیے ، 2008ء میں خصوصی عدالت نے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی، مئی 2017ء میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا، 15؍ اگست 2022ء کو گجرات سرکار نے معافی دے کر ان مجرموں کو رہا کر دیا، 8؍ جنوری 2023ء کو سپریم کورٹ نے گجرات سرکار کے فیصلے کو رد کرکے دو ہفتہ کے اندر مجرمین کو خود سپردگی کا حکم دیا ہے، پورے ملک نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے حق وانصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔
اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگر تھنا اور اُجل بھوئیاں نے گجرات حکومت کو سخت پھٹکار لگائی کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے یہ فیصلہ لیا، اسے اس طرح کا حکم صادر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، اس قسم کا کوئی فیصلہ صرف گجرات حکومت لے سکتی تھی کیوں کہ اس کی سماعت مہاراشٹر ا میں ہوتی تھی اور وہی حکومت رہائی کا حکم دے سکتی تھی ، بینچ نے دفعہ ۳۲؍ کے تحت بلقیس بانو کی عرضی کو قابل سماعت قرار دیا اور دفعہ 432؍ کی تشریح کے ضمن میں یہ ثابت کیا کہ گجرات حکومت کا یہ فیصلہ قابل اعتراض اور قانونی تقاضوں کے خلاف تھا، جسٹس بی وی ناگرتھنا نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ قول نقل کیا کہ ’’منصف کی حیثیت ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو مریضوں کی صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں تجویز کرتا ہے۔‘‘
بلقیس بانو کے ہونٹوں پر کوئی ڈیڑھ سال بعد مسکراہٹ نظر آئی ، انہوں نے خود بھی اقرار کیا کہ ڈیڑھ سال کے بعد میں مسکرائی ہوں، جب سے مجرمین کو رہا کیا گیا تھا میں انتہائی کرب میں تھی، مجھے پھر سے ان مجرمین کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، کیوں کہ کسی بھی مرحلہ میں مجھے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، اور رہائی کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گیے تھے کہ وہ پھر سے کسی اور حد تک جا سکتے تھے، ان کے دو بارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے حکم سے مجھے انتہائی اطمینان اور سکون ملا ہے، اور یقین ہو گیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔بلقیس بانو نے ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جو ان کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہے اور ان کا حوصلہ بڑھایا، ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی، یہ تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے، معلوم ہوا کہ فیصلہ یقینا ہمارے بس میں نہیں ہوتا لیکن مظلوموں کا ساتھ دے کر اسے کیفر کردار تک پہونچانے میں معاون تو بن ہی سکتے ہیں۔

منگل, جنوری 23, 2024

تکان نا آشنا عبقری شخصیت

تکان نا آشنا عبقری شخصیت
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

مولانا مفتی ابو ابراہیم مشیر عالم قاسمی دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں استاذ حدیث ہیں، ان کا درس طلبہ میں مقبول ہے، ہم لوگ انہیں ایک مدرس کی حیثیت سے ہی جانتے پہچانتے رہے ہیں، لیکن دار العلوم الاسلامیہ کے سابق سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے تصنیف وتالیف کی ان کی خفیہ صلاحیت کو ہمارے سامنے ا ٓشکاراکیا، وہ ایک بار مولانا کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور فرمایا کہ یہ میرے پر دادا مشہور مجاہد آزادی شیخ عدالت حسین بگہی پر کام کر رہے ہیں، اس تحقیق میں آپ ان کی مدد کردیں، مجھے وقتی طور پر اس موضوع پر حوالہ جاتی کتب کا جوعلم تھا، انہیں بتایا، خود مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے اپنے کاغذات کے ذخیرے کوالٹا پلٹا، علاقہ کے اہل علم اور مؤرخین سے چمپارن کی تاریخ کے بہت سے اوراق گم گشتہ کو ڈھونڈھا اور مولانا کے حوالہ کیا، مولانامشیر عالم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے تھے اور مولاناسہیل احمد ندوی مرحوم بھی انتہائی خوش تھے کہ برسوں بعد اللہ رب العزت نے اس کام کی توفیق عطا فرمائی اس کام کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب کے وہ ممنون بھی تھے اور مشکور بھی۔
 ابھی شیخ عدالت حسین پر کتاب کی تکمیل نہیں ہو سکی تھی کہ اچانک مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی زندگی کا آخری ورق پلٹ گیا، وہ اڈیشہ کے سفر پر یوسی سی کی مخالفت میں دورے پر تھے کہ ظہر کی نماز کی سنت پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، حادثہ اس قدر اچانک آیا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گیے اور کہنے لگے ”تم جیسے گیے ویسے بھی ہے جاتا کوئی“ غم واندوہ کی کیفیت مولانا کے صاحب زادگان، اعزو اقربا کے ساتھ ان تمام اداروں کے افراد پربھی طاری تھی واقعہ یہی ہے کہ ان کی کمی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
 مولانا کے انتقال کے بعد مولانا نے اپنے قلم کا رخ مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی حیات وخدمات کی طرف موڑ دیا، علاقہ کی سماجی، سیاسی اور جغرافیائی تاریخ تو وہ پہلے سے ہی شیخ عدالت حسین کے لیے لکھ چکے تھے، اب ساری توجہ مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی خدمات کی لانبی تاریخ کو صفحہئ قرطاس میں ثبت کرنے پر لگ گئی، جو مقدم تھے مؤخر ہو گیے اور جو جانے کے اعتبار سے مؤخر تھے وہ سر فہرست آگیے، مولانا مشیر عالم نے بڑی محنت سے مولانا کی حیات وخدمات کے نقوش کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ رب العزت نے اس میں انہیں کامیابی عطا فرمائی۔
 مولانا پر پہلا مضمون مشہور صحافی عارف اقبال نے اپنی کتاب”میر کارواں“ میں لکھا تھا، جس کا مواد اور ماخذ انہوں نے بالمشافہ ان سے انٹر ویو لے کر حاصل کیا تھا، مفتی نیر اسلام صاحب نے بھی مولانا کے اخلاق وعادات اوصاف وکمالات پر ایک طویل مضمون لکھا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد تو مضامین، پیغامات اور تعزیتی بیانات کا طویل سلسلہ شروع ہوا، لیکن مولانا پر ان کے انتقال کے بعد پہلا باضابطہ مضمو ن میں نے نقیب میں لکھا، پھر جب حضرت امیر شریعت کے حکم پر نقیب کا خصوصی شمارہ مولانا مرحوم پر نکلا تو اس کے اداریہ میں بھی بہت سی باتیں میں نے ذکر کی تھیں، اور چوں کہ میرا مضمون ان کے انتقال کے معا بعد نقیب میں چھپ چکا تھا، اس لیے اس خصوصی شمارہ میں قصدا شامل نہیں کیا، نقیب کا یہ خصوصی شمارہ حصہ دوم کی حیثیت سے اس کتاب میں شامل ہے، مولانا مشیر عالم صاحب نے اسے شامل کتاب کرکے اس شمارہ کے مضامین کو حیات جاودانی بخشنے کا کام کیا ہے، ان مضامین سے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
 مولانا مشیر عالم صاحب کی اصل محنت پہلے حصہ میں ہے، انہوں نے مولانا کے آبائی وطن، بگہی، علاقہ دیوراج ضلع چمپارن کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور انگریزی اردو میں معلوم تاریخ کے حوالہ سے چمپارن، دیوراج کی وجہ تسمیہ، اس کی تاریخی حیثیت، دیوراج کی خوش حالی، وہاں کے پیشہ، دیوراج کی تہذیبی وثقافتی اہمیت، وہاں کی تعلیمی شرح، کھیل کود کے احوال، سیاسی رجحانات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ پر انگریزی کتابوں کے حوالوں سے اپنے مطالعہ کو پیش کیا ہے، یہ انتہائی اہم ہے اور وقیع بھی۔
اس سے فراغت کے بعد مولانا مشیر عالم نے مولانا کے خاندان اور اس خاندان کی دینی وملی خدمات کا جائزہ لیا ہے، مولانا کے سوانحی خاکے، ان کے انداز واطوار، دار العلوم الاسلامیہ کی سکریٹری شپ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے حوالہ سے ان کی خدمات کا جامع تذکرہ مرتب کر دیا ہے، اس کے ذیل میں مولانا کی مادر علمی، اساتذہ، مولانا کی ظرافت، فکر امارت کی پاسبانی، کام کرنے کے طریقے کابھی بسیط تذکرہ موجود ہے، اس طرح مولانا کی وفات تجہیز وتکفین کے ذکر پر یہ کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے۔
 مولانا کی خدمات کی جو مختلف جہتیں تھیں اس میں سے ایک بڑی جہت یہ تھی کہ وہ کاموں کے بوجھ سے نہ تو تھکتے تھے اور نہ ہی گھبراتے تھے،ا س کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب نے تکان نا آشنا کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی کو کتاب کا سرنامہ اور عنوان قرار دیا ہے، جوان کے ذہن رسا اور تجزیاتی مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی کی دلیل ہے، واقعتا مولانا کی شخصیت تکان نا آشنا تھی، اسی اعتبار سے ان کا شمار عبقری شخصیتوں میں کیا جا سکتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ مولانا مشیر عالم کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا، میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مولانا مرحوم کے پر دادا شیخ عدالت حسین صاحب کی سوانح بھی وہ مکمل کر دیں کیوں کہ یہ مولانا مرحوم کی خواہش تھی اور خواہش کو مرنے کے بعد وصیت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے شیخ عدالت پر کتاب کی تکمیل ان کی صیت پوری کرنے جیسا عمل ہے، اللہ تعالیٰ مولاسہیل احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے، امارت کو ان کا نعم البدل دے اور مولانا مشیر عالم کو صحت عافیت کے ساتھ درازیئ عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ ایسے ہی تاریخ وتحقیق کے کل گیسو سنوارتے رہیں، آمین یا رب العالمین

پیر, جنوری 22, 2024

منور رانا: آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہونا

منور رانا:   آپ آسان سمجھتے ہیں منور ؔہوناUrduduniyanews72 
    ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)

4؍ جنوری 2024ء بروز اتوار بوقت 11:30بجے شب ، شعور وآگہی کے پیکر، حساس ذہنوں کے با مقصد ترجمان ،ماں کے تقدس کو لفظوں میں نیا آب وتاب دینے والے اور ہجرت کے کرب وبلا کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے والے اردو غزل ونظم کو نئی سمت اور جہت دینے والے ، عظیم شاعر ونثر نگار منور رانا نے اس دنیا سے منھ پھیر لیا ، وہ برسوں سے کینسر اور پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا تھے، کورونانے انہیں مستقل مریض بنا دیا تھا، ان کا گردہ بھی متأثر تھا ، ڈائیلاسس پر زندگی گذر رہی تھی ،میدانتا ہوسپیٹل سے ایک ہفتہ قبل اس جی پی جی آئی سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس لکھنؤ منتقل کیا گیا تھا، پس ماندگان میں پانچ بیٹیاں سمیہ رانا، فوزیہ رانا ، عرشی رانا، عروصہ رانا ، ہبہ رانا اور ایک بیٹا تبریز رانا ہیں،نماز جنازہ دوسرے دن سوموارکو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بعد نماز ظہر ندوۃ کے ناظر عام مولانا جعفر حسنی ندوی نے پڑھائی، دوسری نماز جنازہ عیش باغ قبرستان کی بڑی مسجد میں امام مسجد حافظ عبد المتین کی اقتدا میں ادا کی گئی اور وصیت کے مطابق عیش باغ چمن قبرستان لکھنؤ میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں ندوۃ العلماء کے اساتذہ طلبہ شہر کے علماء اور ادبی شخصیات نے شرکت کی، مشہور شاعر نغمہ نگار اور راجیہ سبھا کے سابق رکن جاوید اختر بھی جنازہ میں پیش پیش تھے۔
 منور رانا بن انوار رانا بن سید صادق علی 26؍ نومبر 1952ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ کا نام عائشہ اور اہلیہ کا نام راعنا خاتون تھا، ان کا تعلیمی سفر شعیب اسکول اور گورنمنٹ انٹر کالج رائے بریلی ہوتا ہوا لکھنؤکے سینٹ جانسن ہائی اسکول تک پہونچا ، یہیں انہوں نے لکھنؤ کی سشتہ اور سائشتہ زبان کا استعمال کرنا سیکھا، ان کے والد کلکتہ میں تجارت سے لگے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے 1968ءء میں کلکتہ کا سفر کیا اور ملا محمد جان ہائر سکنڈری اسکول سے ہائر سکنڈری اور امیش چندرا کالج سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔
منور رانا نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فلمی اداکاروں کے آواز کی نقالی شروع کی، شتروگھن سنہا کے ڈائیلاگ کی وہ اس طرح ہو بہو نقل اتارتے کہ لوگ انہیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ کہنے لگے ، پھر انہوں نے مختلف قسم کے ثقافتی پروگرام میں جانا شروع کیا، وہ ناچ ، گانے، ڈی جے اور مشاعروں کی مجلسوں میں مختلف انداز میں اپنی حاضری درج کراتے ، کبھی نظامت کرکے، کبھی کسی اور کردار میں، انہوں نے 1971ء میں پہلا ڈرامہ ’’جے بنگلہ دیش‘‘ لکھا، اس کی ہدایت کاری بھی خود کی، یہ ڈرامہ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں اسٹیج ہوا اور انعام کا مستحق قرار پایا،ا ٓغا حشر کاشمیری کے ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد ورما کا مرکزی رول کیا، انہوں نے جوگندر کی ایک فلم گیتا اور قرآن کے لیے کہانی بھی لکھی، بد قسمتی سے یہ فلم نہیں بن سکی، جس نے ان کو فلمی دنیا سے شاعری کی طرف متوجہ کر دیا وہ کلکتہ کے مشہور شاعر پروفیسر اعزاز افضل کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے اور منور علی آتش کے نام سے شاعری کرنے لگے ، ان کی پہلی تخلیق سولہ سال کی عمر میں ملا محمدجان اسکول کے مجلہ میں دور طالب علمی میں چھپی تھی ، طویل وقفہ کے بعد 1972ء میں ان کی غزل ماہنامہ شہود کلکتہ میں چھپی، منور رانا نے بعد میں نازش پرتاب گڈھی اور راز الٰہ آبادی کی بھی شاگردی اختیار کی اور ان دونوں کے مشورے سے منور علی شاداں کے نام سے لکھنے لگے، پھر جب وہ والی آسی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے تو ان کے مشورہ سے اپنا تخلص 1977ء  میں بدل کر منور رانا کر دیا، رانا ان کا خاندانی لاحقہ بھی تھا، اس طرح آتش ، شاداں اور منور رانا تک کا ان کا سفر طے ہوا، وہ کلکتہ میں اپنے والد کے ٹرانسپورٹنگ کے کام سے معاش کے حصول کے ساتھ شاعر ی بھی کرتے رہے ، ان کی زندگی میں محبوباؤں اورمعشوقہ کا بھی گذر ہوا، لیکن جلد ہی وہ رومانیت سے لوٹ آئے اور عصری حسیت سے بھر پور شاعری کرنے لگے، مشاعروں میں ان کی پوچھ ہونے لگی اور ان کا معاوضہ بھی بڑھتا چلا گیا، انہوں نے ایک ایسے دور میں اردو مشاعروں میں اپنی پہچان بنا ئی جب گویے اور لہک لہک کر پڑھنے والے شاعر اور شاعرات کی پوچھ زیادہ تھی ، وہ تحت اللفظ پڑھا کرتے اور راحت اندوری کی طرح ایکٹنگ بھی نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی شاعری کے رنگ وآہنگ ،الفاظ کے بر محل استعمال کی وجہ سے وہ مشاعروں کی جان آن، بان ، شان بن جاتے۔
انہوں نے اردو شاعری میں ’’ماں‘‘ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا، عظمت ، تقدس، اولاد سے بے پناہ محبت ، وارفتگی اور اس جیسے کئی اوصاف کو انہوں نے اس قدر مہارت ، چابک دستی اور نئے نئے زاویے سے بیان کیا کہ ان کی شاعری کی یہ شناخت بن گئی ، ملک وبیرون ملک ’’ماں‘‘ کے تئیں ان کے جذبے کو لوگ سنا کرتے اور سر دھنتے،انہوں نے پاکستان کے ایک مشاعرہ کے لیے ’’مہاجر نامہ‘‘ لکھا، اس میں ہجرت کے کرب اور محرومی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ وہ جگ بیتی بن گئی، بعد میں انہوں نے اس کے اشعار میں اضافہ کرکے پانچ سو اشعار پر پوری کتاب بنا دیا، ان دونوں کتابوں نے ان کی مقبولیت کے گراف کو آسمان تک پہونچا دیا۔
ان کے علاوہ ان کا پہلا شعری مجموعہ نیم کا پھول(1993ء) میں منظر عام پر آیا، ان کے کئی مجموعے کہوظل الٰہی سے (2000ء)، منور رانا کی سو غزلیں (2000ء)، گھراکیلا ہوگا(2000ء)، جنگلی پھول (2008ء) ، نئے موسم کے پھول (2008ء) ، کترن میرے خوابوں کی (2010ء) طبع ہو کر مقبول ہوئے ، ان کے ہندی شعری مجموعے غزل گاؤں (1981ء) ، پیپل چھاؤں (1984ء) ، مورپاؤں (1987ء)، سب اس کے لیے (1989ء) ، نیم کے پھول  (1991ء)، بدن سرائے (1996ء) ، گھر اکیلا ہوگا (2000ء) ، ماں (2005ء) ، پھر کبیر (2007ء)، سفید جنگلی کبوتر( 2005ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (2008ء)، ڈھلان سے اترتے ہوئے اور پھنک تال مختلف نثری اصناف میں ان کی تصنیفات ہیں، ان کی ادبی، شعری اور نثری خدمات کے اعتراف میں ایک درجن سے زائد اعزازات وایوارڈ مختلف ادارے اور تنظیموں کی طرف سے ملے، ادب کا بڑا ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی 2014ء میں ان کی جھولی میں آگرا تھا، لیکن بعض ملکی وملی مسائل میں حکومت سے اختلاف کی وجہ سے دوسرے بہت سارے مصنفین کی طرح انہوں نے اس ایوارڈ کو پھر سے حکومت کی جھولی میں ڈال دیا، کیوں کہ وہ نفرت کی سودا گری اور ماب لنچنگ کے واقعات سے انتہائی افسردہ ہو گیے تھے اور اعلان کر دیاتھا کہ میں کوئی سرکاری ایوارڈ قبول نہیں کروں گا، جس کی وجہ سے انہیں اور ان کی لڑکیوں پر بھی ابتلاء وآزمائش کی گھڑی آئی، لیکن وہ صبر وثبات کے ساتھ اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب ہو گیے، انہوں نے کہا 
اگر دنگائیوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا

تو پھر سن لے حکومت ہم تجھے نامرد کہتے ہیں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
2017ء میں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے ،جبڑے کا آپریشن بھی کرایا جرأت کے ساتھ اپنے مشاغل جاری رکھے، مشاعروں میں آنا جانا بھی رہا، بعد میں کورونا نے ان کے پھیپھڑے کو متأثر کر دیا، گردہ بھی ڈائیلاسس پر چلا گیا، وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے بھی مریض تھے،اس طرح وہ مجموعۃ امراض بن گئے، عمرا کہتر سال کی ہو چکی تھی، امراض نے پیری میں جواں ہوکر دھیرے دھیرے انہیں قبر کی آغوش تک پہونچا دیا، منور رانا چلے گیے ، دوسرا منور رانا کا پیدا ہونا آسان نہیں ہے، انہوں نے خود ہی کہا تھا۔
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آساں سمجھتے ہیں منورؔ ہونا

 منور رانا کے بعض اشعار ضرب المثل بن گیے ہیں اور ہر پڑھے لکھے کی زبان پر ہیں، آپ بھی دیکھیے۔
تمہارے شہر میں سب میت کو کاندھا نہیں دیتے 

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دوکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
شاعری کچھ بھی رسوا نہیں ہونے دیتی

میں سیاست میں چلا جاؤں گا تو ننگا ہوجاؤں گا
جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے 

دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں  کٹی ہوئی
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر 

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے 
روز وشب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی 

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن
شہرت ملی و اس نے بھی لہجہ بدل دیا

دولت نے کتنے لوگوں کا شجرہ بدل دیا

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)

مولانا سید شاہ شرف عالم ندوی ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

امارت شرعیہ کی مجلس شوری کے رکن، نامور عالم دین خانقاہ پیر دمڑ یا خلیفہ باغ بھاگلپور کے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ شرف عالم ندوی بن سید شاہ فخر عالم (م 1976) بن شاہ فتح عالم عرف منظور حسن (م1929) بن اسعد اللہ (1902) بن عنایت حسن (م1882) کا نواسی سال (ہجری تاریخ کے اعتبار سے) کی عمر میں 25 ربیع الثانی 1426ھ مطابق 3 جون 2005  بروز جمعہ سات بجے وصال ہو گیا ”انا لِلّٰہِ وانا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ“ شاہ صاحب کی ولادت 28 مارچ 1962ء کو اپنی نانی ہال لکھنؤ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم کا حفظ اپنے وطن بھاگلپور میں ہی کیا، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، قرآن کریم اچھا پڑھتے تھے، اس لیے 36 سال تک مسلسل رمضان میں خانقاہ کی مسجد میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہوئی اور امامت تو معذور ہونے کے پہلے تک کرتے رہے، 17مئی 1976 کو والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور تا عمر اس اہم منصب کے علمی، فکری اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے میں لگے رہے، بھاگل پور فساد کے موقع پر آپ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں مؤثر رول ادا کیا، آپ سینٹرل وقف کونسل، اور سنی وقف بورڈ بہار کے بھی برسوں تک ممبر رہے، اور اوقاف کی جائداد کی حفاظت اور اس کو نفع بخش بنانے میں اپنی حصہ داری نبھائی۔
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1984 میں ہوئی تھی۔ جب میرا پہلی بارخانقاہ جاناہوا، ان دنوں میں خانوادہ پیردمڑ یا پر کام کر رہا تھا، اور اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ مخدوم شاہ ارشد الدین عرف سید شاہ دانشمند (م 945) کے مزار حسن پورہ سیوان اور سید احمد عرف پیرد مڑیا (م972) حاجی پور نیز کمال الدین میرسید زین العابدین پیر دمڑ یا ثانی (م1024) کے مزار سے ہوتا ہوا بھاگل پور پہنچا تھا۔ مقصد اس خانقاہ اور خانوادہ سے متعلق مخطوطات اور مطبوعات کا مطالعہ کرنا تھا، جس کا بڑا ذخیرہ حضرت شاہ صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھا، حاضری نیاز مندانہ نہیں، طالب علمانہ تھی، اور ایک ایسے شخص کی تھی جو بساط علم و ادب پر نو وارد تھا، جس کا نہ کوئی کارنامہ تھا، اور نہ ہی شہرت، اس کے با وجود اس پہلی ملاقات میں ایک طالب علم پر جو شفقت انھوں نے فرمائی اور جس طرح علمی تعاون کیا، اس کے اثرات اب تک دل و دماغ پر مسلط ہیں، میں نے اس ملاقات میں ان کی متانت و سنجیدگی، مریدین و متوسلین کی تربیت، تزکیہ اور اصلاح کے لیے ان کی فکرمندی کو قریب سے دیکھا، اور کافی متاثر ہوا، مریدوں سے تحائف کے قبول کرنے کا مزاج بھی نہیں تھا، کوئی پیش کرتا تو فرماتے کسی ضرورت مند کو دے دو۔ یہ استغناء اس خانقاہ کی وراثت ہے، بتایا جاتا ہے کہ خانقاہ پیرد مٹر یا کا نام دمڑ یا اسی مناسبت سے ہے کہ یہ حضرات نذرانہ کی بڑی بڑی رقموں میں سے دل رکھنے کے لیے ایک دمڑی قبول کیا کرتے تھے، دولت کے جمع کرنے کا مزاج نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
 دوسری ملاقات یتیم خانہ بھاگلپور کے جلسہ میں ہوئی، مولانا سید سلمان الحسینی صدر جمعیت شباب اسلام کی معیت میں یہ سفر ہوا تھا، خانقاہ ہی میں قیام رہا، ہر قسم کے آرام کا خیال خود بھی رکھا، اور اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ حسن مانی کوبھی اس طرف متوجہ کرتے رہے، اس سفر میں مجھے جا گیر کی ان تمام دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملا، جو مغل بادشاہوں نے اس خانقاہ کی عظمت کے پیش نظر جاگیر کے وثیقہ کی شکل میں پیش کیا تھا، کئی سلاطین کے دستخط مجھے پہلی بار وہاں دیکھنے کو ملے، جائداد سے قطع نظر، خود ان قیمتی دستاویزات کی مالیت لاکھوں میں تھی، لیکن استغناء کا یہ عالم کہ ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ کوئی اہتمام نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خانقاہ کی عظمت کا کوئی بیان ہوتاہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر چیز ہے ہی نہیں۔
امارت شرعیہ سے شاہ صاحب کا بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا آپ ہمیشہ اس کے کاموں میں معین و مددگار رہتے، یہی وجہ ہے کہ انتقال کی خبر آنے پراس وقت کے امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ کے حکم اور اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ہدایت پر راقم الحروف (محمد ثناء الہدی قاسمی) اور مولا نا محمد سہیل اختر قاسمی موجودہ نائب قاضی امارت شرعیہ نے جنازہ میں شرکت کی، بعد نماز عشاء جنازہ کی نماز ہوئی، لوگوں کا جم غفیر تھا جو آخری دیدار، اور جنازہ کے لیے جمع تھا، خانقاہ کی مسجد کے صحن میں صفیں لگائی گئیں، مولانا شاہ حسن مانی ندوی کے حکم سے شاہ صاحب کے پوتے مولانا محمد حسن ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی، اور نصف شب میں آفتاب علم وفن، سلوک و فضیلت و شرافت کو خانقاہ کے قبرستان میں مسجد سے متصل سپردخاک کر دیا گیا، اللہ رب العزت سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

اتوار, جنوری 21, 2024

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام بارہویں زوم پر عالمی مشاعرہ

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی انڈیا کے زیر اہتمام بارہویں زوم پر عالمی مشاعرہ 


اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ ( 2024 /01 / 20 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
الحمد للہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے آج کا بارہویں عالمی نعتیہ مشاعرہ   آن لائن پروگرام شروع ہے۔ ، 
زیر صدارت 
مولانا عبدالوارث صاحب مظاہری 
 نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شاہد سنگاپوری انڈیا
عبدالحق عظمی بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز نے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
تلاوت قرآن کریم کے لئے قاری محمد شہزاد رحمانی صاحب انڈیا 
نعت پاک کے لئے 
دانش خوشحال صاحب انڈیا 
اردو ادب کے درخشندہ ستارے
سرفراز بزمی فلاحی انڈیا 
مختار تلہری بریلی انڈیا 
خمار دہلوی انڈیا 
رئیس اعظم حیدری انڈیا 
فیاضاحمدراہی انڈیا 
قاری محمد انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور  
 مضمون عبد السلام عادل ندوی انڈیا 
 خطبئہ استقبالیہ عبد الوارث مظاہری انڈیا 
کلمہ تشکر محبوب رحمانی انڈیا 
محمد اعظم حسن مہتمم مدرسہ سراج العلوم نعمانیہ ہریا بارا ارریہ   
جناب سرفراز غزالی صاحب 
جناب فہیم صاحب دھنبادی 
حافظ انتظار احمد سدھارتھ نگر 
مولانا ازہر راہی صاحب قاسمی مقیم حال دہلی
قاری محمد کوثر آفاق صدیقی صاحب ارریہ و مہتمم مدرسہ حسینہ فیض العلوم ضلع سنگاریڈی 
جناب قاری عابد راہی صاحب دہلی 
جناب قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ کو دعوت دی جائے
جناب حافظ وقاری رضوان صاحب حیدرآباد 
مولانامظفر حسين المظاهري
مقيم حال جدة سعودي عربيه
جناب عبد الباری زخمی صاحب 
مفتی حسین احمد ہمدم صاحب 
جناب قاری مسلم صاحب ناگپوری 
جناب قاری نثار صاحب 
جناب قاری امان اللہ صاحب 
جناب قاری جسیم الدین صاحب 
جناب قاری خورشید قمر صاحب 
قاری صدام حسین صاحب صدیقی 
جناب قاری مرغوب الرّحمٰن صاحب اشاعتی 
کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 8/30 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی جناب قاری مطیع اللہ صاحب رحمانی تھے

ہفتہ, جنوری 20, 2024

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)

سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 

ڈاکٹر سید فضل رب (ولادت یکم اپریل 1943ئ)ساکن اسماعیل کاٹیج سیکٹر 2، ہارون نگر پھلواری شریف، پٹنہ، اعزازی ڈائرکٹر انسٹی چیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز ، پٹنہ چیپٹر، علمی دنیا کا ایک معتبر نام ہے، وہ تعلیمی اعتبار سے ایم اے (عمرانیات) ایم، ایل، آئی (لائبریری وانفارمیشن سائنس) بی، ایل، پی ایچ ڈی ہیں، نصف درجن سے زائد اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اورکم وبیش ایک درجن اداروں سے بحیثیت رکن اعزازی طور پر جڑے رہے ہیں، پروجیکٹ ڈائرکٹر اور رابطہ کار کی حیثیت سے جو خدمات انہوں نے انجام دی ہے وہ اس پر مستزاد ہیں، درس وتدریس کا دائر ہ پٹنہ، مگدھ، نالندہ اوپن یونیورسیٹی تک پھیلا ہوا ہے، مختلف موضوعات پر انگریزی میں نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مقالات، افسانے اور ناول کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، درد کی آنچ ، پھر جس انداز سے بہار آئی، فاصلہ، مہابھیکاری وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں، ایک ناول ’’سمندر منتظر ہے ‘‘ کا مجھے پتہ ہے جو زیر مطالعہ ہے۔
’’سمندر منتظر ہے‘‘ ناول کے پیرایہ میں ہے، اس میں ناول کے تمام اجزاء ترکیبی کو شعوری طور پر برتنے کی کوشش کی گئی ہے ، دو سو پنچانوے(295) صفحات پر مشتمل یہ ناول ہندو پاک کی تقسیم، نقل مکانی میں مہاجرین کے کرب والم اور خون کے دریا سے گذرنے کا بیانیہ ہے، ٹوٹتی محبتیں ، بکھرتے خاندان ، منقسم اقدار اور دم توڑتی تہذیبوں کا ماتم اور مرثیہ سب کچھ اس میں موجود ہے ، یہ داخلی کیفیات اور خارجی احوال وواقعات ومشاہدات کا آئینہ خانہ ہے، اس آئینہ خانہ کو سجانے، سنوارنے اور صیقل کرنے کے لیے جن کرداروں کو زندگی بخشی گئی ہے وہ ڈاکٹر فضل رب کے سحر نگار قلم سے چلتی ، پھرتی، اچھلتی، کودتی ، بل کھاتی نظر آتی ہیں، ناول واقعہ نگاری، ماجرا نگاری، سراپا نگاری کا مرقع ہوتا ہے، ڈاکٹر فضل رب نے ان تینوں امور پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کی ہیں اور اس کے ہر کردار کو زندہ وجاوید بنادیا ہے، ناول میں گاؤں کی زندگی اور شہروں کی بود وباش کے موازنہ اور فکری اختلاف نے اس ناول کو وسیع کینوس عطا کر دیا ہے، رحمت نگر، منشی نگر، سمندر، شاہد، محسن، مشفق، ریاض، مسجد، سجدے اور عبادت یہ جامد الفاظ نہیں ہیں ، ان کے پیچھے معنوی علامت کی ایک دنیا ہے واقعہ یہ ہے کہ ناول کی فکری جہتوں کی وسعتوں کو سمیٹنا اسے الفاظ میں بند کرنا، اس کی گہرائیوں تک پہونچنا سرسری مطالعہ سے ممکن نہیں ہے، کچھ کرداروں کی زبانی اورکچھ پلاٹ کی ترتیب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصنف روز بروز تہذیبی انحطاط ، اخلاقی زبوں حالی اورمتضاد تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچانا چاہتا ہے اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود ان امتیازات کی حفاظت کوفرض سمجھتا ہے، مصنف ایمان والا ہے اس لیے بڑے مشکل حالات میں بھی ناول کے کسی کردار سے یاس وقنوطیت کا درس قاری میں منتقل نہیں کرتا ، بلکہ وہ ہر دم رجائیت کا علم تھامے ہوا ہے، اور قاری اس کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ رات کی جو سیاہی پھیلتی جا رہی ہے اس کے دوسرے سرے پر نمود صبح کا مزدہ ہے،جو مشاہداتی بھی ہے اور تجرباتی بھی۔
 اس ناول کو پڑھنے سے وطن کی محبت اور پردیس کا غم والم اور درد وکرب بھی سامنے آتا ہے، پردیس میں رہ کر شاہد وطن کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور جب وہ برسوں بعد اپنے وطن واپس ہوتا ہے تو اس کی دلی کیفیات کا بیانیہ مطالعاتی بھی ہے اور دیدنی بھی ، کیفیات کی دید ذرا مشکل کام ہے، لیکن جب خوشیاں چہرے پر رقصاں ہوں اور دل مسرت سے بلیوں اچھل رہا ہو تو کیفیات مشاہدات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مصنف نے اس ناول میں شاہد کے جذبات کو الفاظ کی زبان بخش دی ہے، جو زبان حال سے بولتے ہیں اور زبان حال کی باتیں دلوں تک منتقل ہوا کرتی ہیں، واپسی میں جب شاہد ایر پورٹ کی زمین کو چومتا ہے تو وہ اس کی وطن سے محبت کا استعارہ معلوم ہوتا ہے، وہ مسلمان ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے وطن کے ذرہ کو دیوتا سمجھتا ہے، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن چومنا ، بوسہ دینا محبت کی علامت ہر دور میں رہی ہے شاہد بھی زمین کو چوم کر اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتا ہے۔
ناول کا اختتام اس پر ہوجاتا ہے،لیکن قاری کے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، یہ سوالات تہذیب کی شکست وریخت ، اشراف ارذال کی غیر اسلامی تقسیم، ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصورہے ، قاری یہ سوچتا ہے کہ کیا ہندوستان سے کبھی ختم ہوگا، نفرت کی گرم بازاری میں کیا محبت کے پھول کھل سکیں گے، کیا سنہا جی جیسے لوگ اپنی مکھ اگنی کے لیے اپنے بیٹا کے علاوہ رحیمن کو نامزد کر سکیں گے، ان سوالات کے جوابات کے لیے بر سوں انتظار کرنا ہوگا، اس ناول کا جو قاری ہے وہ بھی سمندر کی طرح منتظر ہے۔
 کتاب کی طباعت، کاغذ اور سرورق پُر کشش ہے اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی مالی معاونت سے چھپی اس کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کمپوزنگ عطا ء الرحمن ، نظر ثانی تنویر اختر رومانی جمشید پور، مطبع روشان پرنٹرس دہلی اور ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، کتاب کے انتساب کے جملے معنی خیز ہیں اوروہ یہ ہیں، ’’اس فیصلے کے نام جس نے اس بر صغیر کے لوگوں کو بے اماں کر دیا، لیکن جس اماں کی خاطر کھودیا تھا اپنے ’’سمندر‘‘ کو تلاش اماں کی وہی تشنگی ہنوز باقی ہے‘‘۔
 کتاب کے ٹائٹل سے اس انتساب کی معنویت زیادہ واضح ہوتی ہے، سمندر کی طغیانی کے باوجود اوپر کے حصے میں لہلہاتے سبزہ زار اور بالکل سرورق پر اگتا ہوا ماہتاب، اس رجائیت کی تصویر ہے جو اس ناول کے مصنف کے قلب ودماغ کا حصہ ہے ۔
 ادبی اصناف کے بارے میں میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہیئت سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اگر بات سچی کہی جا رہی ہے تو ہیئت کی معنویت ثانوی ہے، فکر میں کجی ہو تو تمام اصناف نا قابل توجہ ہیں، اگر فکر کا قبلہ درست ہے تو افسانے، ناول، انشائیے، شاعری سب قابل قبول ہیں، فکری جہتوں کی تعیین کے بعد ہی فنی ارتقاء کو قابل اعتنا سمجھنا چاہیے، مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سید فضل رب نے اس ناول میں فکری اور فنی دونوں جہتوں کا خیال رکھا ے، یہی اس ناول کے مطالعہ کا جواز ہے اور یہی میرے تبصرے کی بنیاد بھی۔
 اللہ رب العزت ڈاکٹر سید فضل رب کو صحت وعافیت کے ساتھ درازیٔ عمر عطا فرمائے اور ان کے قلم کی جولانیوں کو استمرار اور دوام بخشے۔ آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...