Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 10, 2024

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___

قاری احمداللہ بھاگل پوری حقیقی معنوں میں خادم قرآن تھے___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمدثناءالہدی قاسمی
 
پٹنہ 10 فروری (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
قاری احمداللہ صاحب نے اپنی پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی وہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ یعنی
 تم میں اچھا وہ ہے جوقرآن پڑھے اور پرھایے کہ صحیح  مصداق تھےاس تعلق سے دیکھا جائے  تو وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے انہوں نے  کئی نسلوں کو قرآن تجوید کی رعایت کے ساتھ پڑھنا سکھایا
ان خیالات کااظہار معروف عالم دین مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ ،اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر نے کیا وہ 
حضرت کے انتقال پر اظہارِ  تعزیت   کر رہے  تھے 
مفتی صاحب نے فرمایاکہ حضرت کے وصال سے تجوید وقراءت کے میدان میں جو خلا پیدا ہواہے اس کی تلافی کی ہم  سب کو دعا کرنی چاہیے گو یہ بہت آسان  نہیں ہےلیکن اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ وہ اصلا بھاگلپور کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کو اپنا میدان عمل بنایا مفتی صاحب نے فرمایا حضرت مولانا سے کیی یادگار ملاقاتیں تھیں حضرت مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت میری تحریروں کے بھے مداح تھے
 قرآن کی نسبت پر کام کرنے والوں کی حضرت بہت قدر کیا کرتے تھے ان سے محبت وشفت فرماتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے حضرت
مولانا نے اپنی پوری زندگی کو خدمت قران کے لیے وقف کر دیا تھا 
اس طرح ان کافیض عموماََ پورے ہندوستان خصوصاََ گجرات میں پھیلا 
مفتی صاحب نے حضرت کے لیے دعاء مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا فرمائی۔انہوں نے فرمایا ابھی غم تازہ ہے کچھ کہ سناءینگےجو طبیعت سنبھل گیی

آفتاب جو غروب ہوگیا "ایک مطالعہ

" آفتاب جو غروب ہوگیا "ایک مطالعہ 
...........................................................
اردودنیانیوز۷۲ 

تبصرہ نگار:
عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
 رابطہ :  9931644462
اس وقت میرے ہاتھ میں "آفتاب جو غروب ہوگیا "نامی کتاب اردو زبان میں ہے،ریاست بہار کے معروف عالم دین مولانا آفتاب عالم مفتاحی سابق صدر مدرس مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے احوال وآثار ،اوصاف وکمالات پر مشتمل مقالات ومضامین کا دلکش مجموعہ ہے، یہ کتاب مرحوم کی بانصیب اولادوں کی فہمائش پر آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صدر کاروان ادب ویشالی نے مرتب کی ہے ، جس کی ضخامت 182/صفحات تک پھیلی ہوئی ہے ۔مرتب کتاب نے پوری کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے ،باب اول : احوال وآثار ،اوصاف وکمالات ۔باب دوم : مولانا کی نثری تحریریں ۔باب سوم : ڈائری کے چند اوراق ۔باب چہارم : مولانا کی شاعری۔ مقالات ومضامین کی ہرسطر نہ صرف عقیدت ومحبت میں ڈوبی ہوئی معلوم پڑتی ہے؛بلکہ  احسان شناسی اور وسعت ظرفی کی اعلی مثال ہے۔
یقینی طور پرمولانا مرحوم سے یہ عاجز ناواقف رہتا،اگر یہ کتاب ہاتھ نہ لگتی ،بلکہ علم دوست شخصیت  مولانا عبدالرحیم بڑہولیاوی دربھنگنوی کی دست فیاضی متوجہ نہ ہوتی۔یقیناً اللہ تعالی نے مولانا مرحوم کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ،کئی جہتوں میں ان کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں ،وہ ملت کا اثاثہ تھے،ایک حلقے میں رجال سازی کے رخ پر انہوں نے خاصا کام کیا ،بلکہ سچ مچ "ایں خانہ ہمہ آفتاب است "کا ادراک اس کتاب سےبہ خوبی  ہوتا ہے۔ خدابہترین  جزاء دے مرتب کتاب مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب اور مولانا مرحوم کے بچوں کو جنہوں نے غیر معمولی پاکیزہ ذوق وتڑپ سے آرٹ پیپر میں کتاب کو شائع کر کے فی الواقع انہوں نے" آفتاب کو غروب" ہونے سے بچانے کا تقلیدی اور مثالی کام کیا ہے ۔مادیت کے اس دورمیں جس طرح مولانا آفتاب عالم مفتاحی کے خوش ذوق وہونہار بچے بچیوں نے بعد مرگ اپنے والد کی روح کو سکون بخشنے میں فیاضی سے کام لیا ہے ،ان شاء اللہ یہ کتاب مولانا مرحوم کے حق میں بہترین صدیقہ جاریہ ثابت ہوگی
۔تمام مقالہ نگاران ،جن میں مرحوم کے بیٹے بیٹیاں بھی براہ راست شامل ہیں ،سبھوں نے محبت کے قلم سے حرف حرف کو سجایا ہے ،بلکہ طویل و مختصر راہ ورسم کے نتیجے میں بیتے دنوں کی یادوں کی مدد سے دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔کتاب میں شامل مولانا کی نثری تحریروں میں اکبر اور اس کا دین الہی ۔باکردار انسان ۔جہاد :ملت کے موجودہ مسائل کا حل نہیں ۔اور دوٹوک اچھا نہیں لگا جیسے مضامین کافی دلچسپ ہیں ۔اسی طرح "ڈائری کے چند اوراق " سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈائری لکھنے کا عمل کتنا قیمتی ہے اور سماجی زندگی پر اس کے کتنے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مولانا کی شاعری بھی بہت خوب ہے ،عصری تک بندی سے پاک ان کی شاعری کا ایک ایک بند فکر ونظر کو درخشاں کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے ،انہوں نے نعتیہ شاعری سے بھی دامن مراد کو چھیڑا ہے جب کہ غزلیہ شاعری نےان کی ہم نشینی کو ہمیشہ بامراد کیا ہے ،جب انہوں نے نعتیہ شاعری کی طرف رخ کیا تو بجا کہا : 

سارے عالم پہ ہے احساں شہ بطحا تیرا 
کون پاسکتا ہے اس دہر میں رتبہ تیرا 
آسماں نے تو بہت دیکھے ہیں انسانوں کو 
پیکر مہر و وفا ،ثانی نہ ہوگا تیرا

اسی طرح غزلیہ شاعری میں بھی انہوں نے خوب طبع آزمائی کی ہے: 

جنوں نے جس کو بنایا تھا کوہ کن کی طرح 
خرد نے اس کو بنا ڈالا دل شکن کی طرح
ہے کل کی بات  محبت میں ہوتی تھی خوشبو 
ابھی تو اس میں بڑا ہی نفاق ہوتا ہے
قصر سلطاں کے شیشوں میں رہ کر کرب کی راہ کو تکنے والو
درد راہوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،انہیں چن چن کے سینوں میں رکھ لو۔
مہنگائی کے اس دور میں جب ہر پہلو کو لوگ تجارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں ،ایسے ماحول میں یہ کتاب محض سوروپے کی ہے ۔مولانا کی نیک دل ،رابعہ صفت اہلیہ ولیہ خاتون  کی نگرانی میں کتاب آرٹ پیپر میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ،اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب روائتی جہت سے نہ چھپی ہے اور نہ چھاپی گئی ہے ،بلکہ اس احساس کے ساتھ یہ مجموعہ تیار ہوا ہے کہ "بحیثیت اولاد ہم پر یہ ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنا فرض اور سعادت مندی کے حصول کا موجب بھی ہے"زیر تبصرہ کتاب مکتبہ امارت شرعیہ پٹنہ ۔نور اردو لائبریری،ویشالی۔بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ۔آفتاب اینڈ سنس جون پور یوپی  وغیرہ سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہے ۔

جمعرات, فروری 08, 2024

" کاروان ادب"

معروف شاعر فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کا انتقال سرزمین عظیم آباد کا ناقابل تلافی نقصان :
 " کاروان ادب" 
اردودنیانیوز۷۲ 
_______________________________________
حاجی پور(. نمائندہ ) اردو کے معروف شاعر و ادیب فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر "کاروان ادب" ،حاجی پور کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور جنرل سکریٹری ٹری انوار الحسن وسطوی نے اپنے گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مشترکہ تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ جناب فرد الحسن ایک اچھے شاعر، بہترین نثر نگار، ایک خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے-  وہ پٹنہ کے مشہور "ارم پبلکیشن" دریا پور کے مالک تھے-  انہوں نے ادبا و شعرا کی تقریبا 400 کتابیں شائع کی تھیں-  اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا - لہذا ہمارے درمیان سے اچانک ان کا اٹھ جانا اردو شعر و ادب کا ایک نا قابل تلافی نقصان ہے- " کاروان ادب" کے صدر اور جنرل سکریٹری نے سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے تعلق سے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ موصوف گرچہ ادیب و شاعر نہیں تھے، لیکن وہ کافی پڑھے لکھے اور ایک دانشور تھے-  وہ اردو نواز اور ادب نواز شخصیت تھے-  اپنے سینے میں ملت کا بے پناہ درد رکھتے تھے-  وہ ادبی اور مذہبی جلسوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے-  بڑی بڑی ادبی و مذہبی شخصیتوں سے ان کے مراسم تھے - وہ بالخصوص محبان اردو کے درمیان بہت مقبول تھے-  انہیں لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے-  وہ بذریعہ فون اپنے چاہنے والوں سے مربوط رہتے تھے - کسی کی تحریر اخبار یا رسالے میں شائع دیکھتے تو اسے شاباشی دیتے اور اپنے تاثرات سے نوازتے- تعزیتی بیان میں کہا گیا ہے کہ فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ ایسی متحرک، فعال اور باغ و بہار طبیعت کے انسانوں کا اٹھ جانا واقعی باعثِ ملال ہے-  دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحومین کی لرزشوں کو درگزر فرما کر انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے - "کار وان ادب" کے نائب صدر ڈاکٹر بدر محمدی، سکریٹریز سید مصباح الدین احمد مولانا قمر عالم ندوی کے علاوہ محمد عظیم الدین انصاری، ماسٹر محمد فدا الہدی، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، مولانا نظر الہدی قاسمی،عبدالرحیم برہولیاوی ، قمر اعظم صدیقی اور مظہر وسطوی، اردو کونسل، ویشالی کے صدر نسیم الدین احمد صدیقی ایڈوکیٹ، نائب صدر نصر امام اور ڈاکٹر تابش عبید اللہ خاں وغیرہ حضرات نے بھی جناب فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر اپنے گہرے ملال کا اظہار کیا ہے اور اللہ رب العزت سے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے-

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ۔ 7 فروری ۔
تحقیق کسی چیز کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کا نام ہے -حقائق کی بازیافت میں  رائے تاویل اور قیاس کی کوئی جگہ نہیں ہے- تحقیق کے لیے استدلال ٬مسلسل عمل٬ غیر جانبداری ٬محنت شاقہ٬حافظہ اور زبان پر گرفت ضروری عناصر ہیں ۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شہاب ظفر عظمی نے شعبہ اردو کی ایک تقریب میں کیا۔ انہوں نے اردو تحقیق اصول اور مبادیات کے عنوان سےتحقیق کے اصولوں پر مثالوں کے ساتھ مدلل گفتگو کی۔ انہوں نے طلبہ کو تحقیق کے دوران جذباتیت روایت پرستی گنجلک زبان اور تن آسانی سے بچنے کی تلقین کی۔
 واضح ہو کہ آج شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام پی ایچ ڈی کورس ورک کے تحت شعبے میں ایک افتتاحی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ موضوع تھا "اردو تحقیق اصول اور مبادیات ''۔ اس موضوع پر اپنی قیمتی و تجرباتی باتیں پیش کرنے کے لیے دو خاص مہمانان پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید کی موجودگی شعبے کے طلبہ و طالبات کے لیے پرمسرت اور حوصلہ افزا تھی ۔
 شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کورس کے اس افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سورج دیو سنگھ نے کی جبکہ کلیدی خطبہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پیش کیا ۔دو خاص مہمانوں میں پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کے امور اور اصول پر تکنیکی گفتگو پیش کرتے ہوئے طلبہ کو اس کے اہم نکات کی طرف متوجہ کیا۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کی سمت و رفتار پر واضح طور سے باتیں کیں جن میں ہر مواد کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کی اصل تک رسائی کرنا ضروری بتایا۔ اس کے لیے انہوں نے بسمل عظیم آبادی  اور رام پرشاد بسمل سے منسوب ایک غزل کی مثال دیتے ہوئے بہت اچھی تقریر پیش کی ۔پروفیسر جاوید حیات نے تحقیق کی مبادیات کے حوالے سے دستی نمونوں کی قدرو قیمت کو ضروری جاننے کی تلقین کی اور تحقیق کے طریقہ کار میں ترتیب کو ناگزیر بتایا ۔انہوں نے غالب کے کئی اشعار کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر سورج دیو سنگھ نے اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی اور طلبہ کو پابندی وقت٬دل جمعی اور ڈسپلن کی خوبیاں بتاتے ہوئے تحقیق کی سنجیدگی کی جانب متوجہ کیا ۔شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد ضمیر رضا نے بحسن وخوبی اس پروگرام کی نظامت کی جبکہ شکریہ کے فرائض ڈاکٹر عشرت صبوحی نے ادا کیے۔  تقریب کا آغاز ڈاکٹر عارف حسین کی نعت خوانی سے ہوا تھا ۔تقریب میں شعبے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ دیگر کالج کے طلبہ اور ریسرچ اسکالرز بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔

بدھ, فروری 07, 2024

اکبر رضا جمشید __کثیر الجہت شخصیت

اکبر رضا جمشید  __کثیر الجہت شخصیت
Urduduniyanews72 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

سید اکبر رضا نقوی (ولادت 5؍ جولائی 1944ئ) قلمی نام اکبر رضا جمشید بن سید علی جواد وسکینہ خاتون بی اے، بی ایل، سبکدوش ڈسٹرکٹ جج ساکن افضل پور، پچھم گلی نزد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، پٹنہ کا شمار بہار کے انگلیوں پر گنے جانے والے محبتیں اردو میں ہوتا ہے ، وہ بغیر کسی تنظیم اور فرد کے تعاون کے اردو کی خدمت کرنے والے کو ہر سال ’’اکبر رضا جمشید ایوارڈ ‘‘سے نوازتے ہیں، اردو کے نام پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور سارا صرفہ اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں، اب تک 2013ء سے وہ ترسٹھ (63)لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں، جن میں بقول ثوبان فاروقی بابائے اردو ویشالی انوار الحسن وسطوی ان کے صاحب زادہ عارف حسن وسطوی اور دوسرے نامور شعراء ادباء شامل ہیں، ان میں علیم اللہ حالی ، شوکت حیات، عطا عابدی ، اشرف استھانوی مرحوم، کامران غنی صبا ، انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، حسن نواب حسن کے اسماء گرامی شامل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کی اصل خدمت مدارس کے علماء کرتے ہیں، اور اردو اصلاً وہیں زندہ ہے، اکبر رضا جمشید کے انصاف کی عدالت میں کوئی مولوی اب تک ایوارڈ کا مستحق نہیں قرار پایا یا تو جج صاحب نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، یا ان کے مشیر انہیں اپنے ہی گرد الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، حقیقت جو بھی ہو دیو مالائی روایت میں انصاف کی دیوی کی آنکھیں کالی پٹی سے بندھی ہوتی ہیں، بغیر دیکھے بھی مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی کو ایک پلڑا میں ڈال دیا جائے تو دوسری طرف کے پلڑے میں رکھے کئی’’ بٹکھرے‘‘ پر وہ تنہا بھاری پڑیں گے ، رونا صرف اسی کا نہیں ہے، اس کا بھی ہے کہ اردو کے حقیقی خادموں کی ہر سطح پر ان دیکھی ہو رہی ہے، کیا سرکاری اور کیا غیر سرکاری ۔
 زیر مطالعہ کتاب انہیں اکبر رضا جمشیدسے انٹر ویو اور مصاحبہ پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر عطاء اللہ خان، عرفی نام علوی اور ادبی نام ڈاکٹر اے کے علوی (ولادت 23؍ ستمبر 1955ئ) صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ابن ڈاکٹر اٰل حسن خان مرحوم نے مرتب کرکے ادارہ فکر ونظر ، صمد منزل ، کرن سرائے، سہسرام کے زیر اہتمام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے ، ایک سو چار صفحہ کی قیمت دوسو روپے جج صاحب کی آمدنی کے اعتبار سے تو زائد نہیں ہے، لیکن یہ قیمت اردو کے عام قاری کے لیے خرید تے وقت بوجھ ثابت ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ خرید تاکون ہے، اب تو اہل علم تک پہونچانا بھی مصنف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا تذکرہ خود اکبر رضا جمشید نے ایک سوال کے جواب میں کیاہے ، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، اگر ایساہے تو جتنی قیمت چاہیے رکھ دیجئے، فرق کیا پڑتا ہے، لیکن کتاب ملنے کے جو چار پتے درج ہیں ان میں بک امپوریم سبزی باغ ، پٹنہ ۔4، شاید مفت دینے کو تیار نہ ہو بقیہ تین پتے جن کا تعلق موضوع کتاب اورمصنف سے ہے ، شاید وہاں سے حصول مطلب حسب منشاء ہو سکے، کتاب کا انتساب جناب اکبر رضا جمشید کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم اور ان کے دونوں صاحب زادگان کے نام ہے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے،جس کا نصف کم سے کم مکررہے، کیوں کہ ٹائٹل کے آخری پیج پر بھی وہ تفصیلات درج ہیں، بلکہ سوانحی کوائف میں تصنیفات کی تعداد دس اور ٹائٹل پر  تصانیف کا ذکر ہے، جن میں چار کم ازکم ڈرامے ہیں، اور ایک کتاب اردو شعراء کی حب الوطنی پرزیر طبع ہے، سوانحی کوائف میں اکبر رضا جمشید کے فن اور شخصیت پر ایک اور کتاب کا علم ہوتا ہے ، جسے پرویز عالم نے مرتب کیا ہے ، ایک درجن میں دو کم، ایوارڈ اور اعزازات بھی جج صاحب کو دیے گیے ، اس کا بھی ہمیں سوانحی کوائف سے پتہ چلتا ہے ، پھر اکبر صاحب کے ذریعہ مختلف سالوں میں ایوارڈ یافتگان کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ 
اے کے علوی صاحب کے قلم سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ تحریر ہوا ہے، یہ بیانیہ اور داستانی انداز میں ہے ، جس میں اے کے علوی صاحب نے جمشید اکبر صاحب کا حلیہ، اردو کے قارئین کے ذریعہ کتابوں کی ناقد ری اور ان کے والد صاحب کی خدمات کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیاہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے اطناب سے تعبیر کیا جائے ، تین صفحہ کے پیش لفظ کو ایجاز ہی کہناچاہیے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید وکثیر الجہت شخصیت کے عنوان سے وہ انٹر ویو ہے، جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے ، اے کے علوی صاحب نے سوالات ایسے مرتب کیے تھے کہا کبر صاحب کی پرت در پرت ، شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اکبر رضا صاحب نے بھی سوالات کے جوابات میں اپنی شخصیت ، خدمات تصنیفات اپنے مقدس سفر ایوارڈ کے دائرہ کا زایوارڈ میں دی جانے والی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، البتہ دی جانے والی رقم کو صیغۂ راز میں رکھا ہے ، کچھ تو خفا میں رہے تاکہ قاری کا تجسس بڑھتا رہے، یہ انٹر ویو چودہ سے باون صفحات پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بیش تر ایوارڈ کی تقریبات اکبر رضا صاحب کی کسی کتاب کے اجراء پر اظہار خیال سے ماخوذ ہے، جن لوگوں کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں سابق صدر جمہوریہ اور اس وقت کے وزیر خوراک حکومت ہند فخر الدین علی احمد قاضی عبد الودود ، مولانا سید کلب عابد، پروفیسر اجتبیٰ حسین رضوی، شکیلہ اختر، عابد رضا بیدار ، سرور علی ، شوکت حیات، شفیع قریشی ، ہارون رشید ، مولانا ظفر عباس ، مولانا اسد رضا ، میجر بلبیر سنگھ، نذرا حسن ، منیر حسین، پروفیسر علیم اللہ حالی، سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی،پروفیسر شمشاد حسین ، ڈاکٹر قمر الحسن ، انیل سلبھ، اعجاز علی ارشد ،ریحان غنی، محفوظ عالم، نتیش کمار، فخر الدین عارفی، ریاض عظیم آبادی، محمد نعمت اللہ ، اشرف استھانوی، مولانا محمد محسن ، ہیمنت شریواتسو، پروفیسر منظر اعجاز، ڈاکٹر ارمان نجمی، سیدشہباز عالم ، سید ارشاد علی آزاد، پروفیسر کلیم الرحمن ، امتاز احمد کریمی ، معین کوثر، پروفیسر قیام منیر، اسماعیل حسین نقوی، انوار الحسن وسطوی، آفتاب احمد اور سلطان آزاد کے تاثرات شامل ہیں، جو سب کے سب ان کی تقریروں سے ماخوذ ہیں، اس فہرست کو آپ دیکھیں، اس میں مسلم بھی ہیں، غیر مسلم بھی ، سیاسی حضرات بھی ہیں اور صحافی بھی ، شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، ان میں کئی وہ بھی ہیں، جو اکبر رضا جمشید ایوارڈ پا چکے ہیں، اتنے حضرات کی گواہی جب اکبر رضا جمشید کی شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے سامنے آگئی ہیں تو ان کی شخصیت کے کثیر الجہات ہونے اور ان کی خدمت کی وقعت اور عظمت کس کے دل میں جاںگزیں نہیں ہوگی، اور کون ان کے اخلاق وکردار کا اسیر نہیں ہوگا، اسلام میں دوہی کی گواہی ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ اتنے بڑے بڑے اساطین علم کی شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں اکبر رضا جمشید کی محبوبیت ومقبولیت کی بین دلیل ہے، خدا انہیں سلامت رکھے اور خوب کام لے۔
 اس کتاب کو میرے پاس لے کر اکبر رضا جمشید خود تشریف لائے تھے، میری ان سے پہلی ملاقات تھی، تپاک سے ملے، محبت سے پیش آئے ، اعترف کیا کہ میں آپ تک نہیں پہونچ سکا تھا،ا لبتہ آپ کی تحریریں دیکھتا رہا ہوں۔ کتاب کے مصنف نے انتہائی کی تھی، اے کے علوی بھی محبت کرتے ہیں، اس کتاب کی ترتیب میں جو سلیقہ انہوں نے برتا ہے وہا ں کی سلیقہ مندی کا حسین مظہر ہے۔

ہفتہ, فروری 03, 2024

*علم اور اہل علم کی قدر*

*علم اور اہل علم کی قدر* 
Urduduniyanews72 
*🖋️محمد فرمان الہدیٰ فرمان* 

علم  اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ 
       دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم  کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ  کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا  گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء" ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ" یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
 عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔
عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا  میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟ 
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله" یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب" یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔
 ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل

ایک مقدمہ ایسا بھی

ایک مقدمہ ایسا بھی 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مقدمات میں عموما مدعی یا مدعیہ ، مدعیٰ علیہ یا مدعیٰ علیہا میں سے ایک غلطی پر ہوتا ہے، یہ دونوں جب عدالت جاتے ہیں تو عدالت مقدمات کی سماعت کرکے فیصلہ دیا کرتی ہے، لیکن آپ کی واقفیت شاید کسی ایسے مقدمہ سے نہیں ہوگی، جس میں مدعی، مدعی علیہ کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کوبھی غلط قرار دیا گیا ہو، نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد اعلیٰ سطحی عدالت میں فیصلے بدلتے رہنے کی روایت قدیم ہے، لیکن نچلی عدالت کے ذریعہ مقدمہ کی سماعت ہی غلط ہو، یہ نادرالوقوع ہے، ایسا ہی ایک واقعہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ کی عدالت میں سامنے آیا ہے، محترمہ من میت سنگھ نے ہندوستان اسکارٹس اینڈ گائیڈز ایسی سو ایشن کے ایک مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ کے ساتھ ضلعی عدالت کی سماعت کو ہی غلط قرار دے دیا ہے، دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس من میت سنگھ نے واضح کر دیا کہ ضلعی عدالت میں مدعی سنیتا ونود ودھوڑی کو ایسوسی ایشن کا قومی سکریٹری مانتے ہوئے دائر مقدمات کو سماعت کے لیے لینا ہی نہیں چاہیے تھا، عرضی خارج ہونے کے بعد درخواست گذار کے ذریعہ ادارہ کے سکریٹری کی حیثیت سے معاملہ کرنا سرے سے غلط تھا، ایسوسی ایشن کے موجودہ سکریٹری گریش جوپال نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، حالاں کہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ نے نچلی عدالت کی سماعت کو غلط رار دینے  کے باوجود ضلعی عدالت کے فیصلے کو بر قرار رکھا اور ایسوسی ایشن کا جو انتخاب ۵؍ مئی ۲۰۱۹ء کو ہوا تھا اسے غیر قانونی قرار دے کر انتخاب کرانے والے ممبران کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے، یہ معاملہ ایسوسی ایشن کے نئے عہدیداران کے انتخاب سے متعلق تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...